مسافر کے روزے کے احکام

عبید اللہ طاہر حفظ اللہ

مسافر کو روزہ رکھنے اور چھوڑنے دونوں کا اختیار ہے
❀ «عن عائشة رضي الله عنها: أن حمزة بن عمرو الأسلمي رضى الله عنه قال للنبي صلى الله عليه وسلم : أأصوم فى السفر ؟ – وكان كثير الصيام -، فقال : إن شئت فصم، وإن شئت فافطر . »
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: کیا میں سفر میں صوم رکھ سکتا ہوں؟ (وہ کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے۔) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چاہو تو روزہ رکھو، اور چاہو تو نہ رکھو۔“ [صحيح بخاري 1943، صحيح مسلم 1121]

❀ «عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: لا تعب على من صام، ولا على من أفطر، قد صام رسول الله صلى الله عليه وسلم فى السفر وأفطر . »
حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جو (سفر میں) روزہ رکھے یا چھوڑے، کسی پر تنقید نہ کرو، اس لیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں روزہ رکھا بھی ہے اور چھوڑا بھی۔“ [صحيح مسلم 113: 89]
نوٹ: مسافر کو سفر کی حالت میں روزہ رکھنے اور چھوڑنے دونوں کا اختیار ہے۔ اگر روزہ رکھتا ہے تو بری الذمہ ہو جائے گا، اور اگر چھوڑتا ہے تو حالت سفر میں جتنے دن روزے چھوڑے ہیں بعد میں ان کی قضا ضروری ہے۔
✿ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
« وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ» [البقرة: 185]
جو مریض ہو یا سفر پر ہو (اور روزہ نہ رکھ سکے) تو دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔“
یعنی جتنے روزے چھوٹے ہیں اتنے رکھ کر رمضان کے روزوں کی گنتی پوری کرے۔

روزہ رکھنے کی طاقت ہو تو روزہ رکھنا بہتر ہے، اور کمزور ہو تو روزہ نہ رکھنا بہتر ہے
❀ «عن أبى سعيد الخدري رضي الله عنه، قال: كنا نغزو مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى رمضان، فمنا الصائم ومنا المفطر، فلا يجد الصائم على المفطر، ولا المفطر على الصائم، يرون أن من وجد قوة فصام فإن ذلك حسن، ويرون أن من وجدضعفا فأفطر، فإن ذلك حسن.»
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے مہینے میں جنگ کے لیے نکلتے، ہم میں کچھ لوگ روزہ رکھتے اور کچھ لوگ نہ رکھے، تو نہ روزے دار روزہ نہ رکھنے والوں پر نکیر کرتے، اور نہ ہی روزہ نہ رکھنے والے روزے داروں پر۔ لوگوں کا خیال تھا کہ اگر کوئی روزہ رکھنے کی طاقت پاتا ہے اور اس نے روزہ رکھا تو یہ بھی اچھا ہے، اور اگر کوئی کمزوری محسوس کرتا ہے اور روزہ نہیں رکھتا ہے تو یہ بھی اچھا ہے۔ [صحيح مسلم 1116: 96]

جس کے لیے روزہ رکھنا دشوار ہو اس کے لیے افطار افضل ہے
❀ «عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم فى سفر، فرأى زحاما ورجلا قد ظلل عليه، فقال: ما هذا؟، فقالوا: صائم، فقال: ليس من البر الصوم فى السفر.»
حضرت جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی بھیڑ دیکھی اور ایک آدمی کو دیکھا جس پر سایہ کیا گیا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کیا ہے؟“ لوگوں نے بتایا کہ یہ روزے دار ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھلائی یہی نہیں ہے کہ سفر میں روزہ رکھا ہی جائے۔“ [صحيح بخاري 1946، صحيح مسلم 1115]
نوٹ: یعنی ایسا نہیں ہے کہ سفر میں ہر حال میں روزہ رکھنا ہی افضل ہے، بلکہ حالات کے لحاظ سے کبھی روزہ رکھنا افضل ہو سکتا ہے اور کبھی نہ رکھنا۔

مسافر سفر پر نکلنے سے پہلے گھر پر ہی روزہ توڑ سکتا ہے
❀ «عن محمد بن كعب، أنه قال: أتيت أنس بن مالك رضى الله عنه فى رمضان، وهو يريد سفرا، وقد رحلت له راحلته، ولبس ثياب السفر، فدعا بطعام فأكل، فقلت له: سنة قال: سنة، ثم ركب.»
محمد بن کعب کہتے ہیں کہ میں رمضان میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اس وقت وہ سفر کے ارادے سے تھے، ان کی سواری تیاری تھی، اور وہ سفر کا لباس پہنچ چکے تھے، پھر انہوں نے کھانا منگوا کر کھایا، میں نے کہا : کیا یہ سنت ہے ؟ انہوں نے کہا: ہاں سنت ہے، اور یہ کہہ کر سوار ہو گئے۔ [سنن ترمذي 799، حسن]

مسافر کے لیے روزہ شروع کرنے کے بعد بغیر عذر کے روزہ توڑنا جائز ہے
❀ «عن أبى سعيد رضي الله عنه، قال: أتي رسول الله صلى الله عليه وسلم على نهر من السماء، والناس صيام، فى يوم صائف، مشاة، ونبي الله على بغلة له، فقال: اشربوا أيها الناس، قال: فأبوا، قال: إني لست مثلكم، إني أيسركم، إني راكب، فابوا، قال: فثني رسول الله صلى الله عليه وسلم فخذه، فنزل، فشرب وشرب الناس، وما كان يريد أن يشرب. »
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک ایسی نہر سے ہوا جس میں آسمان سے برسا ہوا پانی تھا، لوگ روزے سے تھے، بہت سخت گرم دن تھا، اور لوگ پیدل چل رہے تھے، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! پانی پی لو“، لیکن لوگ نہیں مانے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”میں تم لوگوں (کی حالت) جیسا نہیں ہوں، میں تم میں سب سے زیادہ آرام سے ہوں، کیونکہ میں سواری پر ہوں“، لیکن لوگ پھر بھی نہیں مانے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ران کو جھکا کر اترے اور پانی پیا، تو سب لوگوں نے پی لیا، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانی پینا نہیں چاہ رہے تھے۔ [مسند احمد 11423صحيح]

کسی خاص مصلحت کے پیش نظر سفر میں روزہ نہ رکھنے کا استجاب
❀ « عن جابر بن عبد الله رضي الله عنها، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج عام الفتح إلى مكة فى رمضان، فصام حتى بلغ كراع الغيم، فصام الناس، ثم دعا بقدح من ماء فرفعه، حتي نظر الناس إليه، ثم شرب، فقيل له بعد ذلك: إن بعض الناس قد صام، فقال: أولئك العصا، أولئك العصاة.
وزاد فى رواية: إن الناس قد شق عليهم الصيام، وإنما ينظرون فيما فعلت، فدعا بقدح من ماء بعد العصر
»
حضرت جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے لیے روانہ ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے تھے، یہاں تک کہ کراع الغمیم نامی مقام پر پہنچے، لوگ بھی روزے سے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالہ پانی منگوایا اور اسے اوپر اٹھایا تاکہ لوگ دیکھ لیں، پھر اسے پی گئے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ کچھ لوگ اب بھی روزے سے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ نافرمان ہیں، وہ نافرمان ہیں۔“ [صحيح مسلم 1114 : 90]
ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ ”(آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بتایا گیا) کہ لوگوں پر روزہ بھاری پڑ رہا ہے، اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل پر نظریں لگائے ہوئے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر بعد پانی کا پیالہ منگوایا۔ [صحيح مسلم 114 : 91۔]
نوٹ: نافرمان اس وجہ سے کہا کیونکہ ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل نہیں کی اور روزہ باقی رکھا، جبکہ فرماں برداری کا تقاضا یہ تھا کہ فورا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں روزہ توڑ دیتے۔

❀ «عن قزعة، قال: اتيت ابا سعيد الخدري رضى الله عنه وهو مكثور عليه، فلما تفرق الناس عنه، قلت: إني لا اسالك عما يسالك هؤلاء عنه، سالته عن الصوم فى السفر، فقال: سافرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى مكة ونحن صيام، قال: فنزلنا منزلا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” إنكم قد دنوتم من عدوكم، والفطر اقوى لكم “، فكانت رخصة فمنا من صام ومنا من افطر، ثم نزلنا منزلا آخر، فقال: ” إنكم مصبحو عدوكم والفطر اقوى لكم، فافطروا “، وكانت عزمة فافطرنا، ثم قال: لقد رايتنا نصوم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ذلك فى السفر. »
قزعہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اس وقت ان کے پاس لوگوں کا جمگھٹا لگا ہوا تھا، پھر جب لوگ چلے گئے تو میں نے ان سے عرض کیا کہ میں آپ سے وہ نہیں پوچھوں گا جس کے بارے میں یہ لوگ پوچھ رہے ہیں۔ پھر میں نے ان سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکے کا سفر کیا اور ہم روزے کی حالت میں تھے۔ فرماتے ہیں کہ ہم ایک جگہ اترے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دشمن کے قریب ہو گئے ہو، اور اب افطار کرنا یعنی روزہ نہ رکھنا تمہارے لیے زیادہ قوت و طاقت کا باعث ہو گا، تو یہ ایک رخصت تھی، چنانچہ ہم میں سے کچھ نے روزہ رکھا اور کچھ نے نہیں رکھا۔ پھر ہم ایک دوسری منزل تک پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم صبح کے وقت اپنے دشمن کے پاس پہنچ جاؤ گے، اور روزہ نہ رکھنے سے تمہارے اندر طاقت زیادہ ہو گی، اس لیے روزہ نہ رکھو“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم ضروری تھا، اس لیے ہم نے روزہ نہیں رکھا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ اس کے بعد بھی ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں روزہ رکھتے رہے۔ [صحيح مسلم 1120]

روزہ نہ رکھنے والا زیادہ اجر کا مستحق ہوگا اگر وہ اجتمائی کاموں میں حصہ لے
❀ «عن أنس رضي الله عنه، قال: كنا مع النبى صل الله عليه وسلم فى السفر، فمنا الصائم ومنا المفطر، قال: فنزلنا منزلا فى يوم حار، أكثرنا ظلا صاحب الكساء، ومنا من يتقي الشمس بيده، قال: فسقط الصوام، وقام المفطرون، فضربوا الأبنية وسقوا الركاب، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ذهب المفطرون اليوم بالأجر. »
«وفي لفظ البخاري: وأما الذين صاموا فلم يعملوا شيئا، وأما الذين أفطروا فبعثوا الركاب وامتهنوا وعالجوا. »
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، ہم میں کچھ روزے سے تھے اور کچھ روزہ چھوڑے ہوئے تھے۔ فرماتے ہیں کہ پھر ہم ایک سخت گرم دن میں ایک جگہ اترے، ہم میں سب سے زیادہ سایہ حاصل کرنے والا وہ آدمی تھا کہ جس کے پاس چادر تھی، جبکہ ہم میں سے کچھ اپنے ہاتھوں سے دھوپ سے بچ رہے تھے۔ فرماتے ہیں کہ پھر روزہ رکھنے والے تو (تھکن کی وجہ سے آرام کرنے کے لیے) گر گئے، اور روزہ چھوڑنے والے کام میں لگ گئے، چنانچہ انہوں نے خیمے لگائے اور اونٹوں کو پانی پلایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج تو سارا اجر روزہ چھوڑنے والے سمیٹ گئے۔ [صحيح بخاري 2890، صحيح مسلم 119 : 100]
الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔
بخاری کے الفاظ اس طرح ہیں: ”تو جو لوگ روزے سے تھے وہ کچھ نہ کر سکے، اور جو لوگ روزہ چھوڑے ہوئے تھے انہوں نے اونٹوں کی رسی کھول کر انہیں (چرنے کے لیے) چھوڑا، محنت و مشقت کے کام کیے اور لوگوں کی خدمت کی۔“
——————

سحری
سحری کی ترغیب
❀ «عن أنس بن مالك رضي الله عنه، قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم : تسحروا، فان فى السحور بركة. »
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سحری کھایا کرو، کیونکہ اس میں برکت ہے۔“ [صحيح بخاري 1943، صحيح مسلم 1095]

❀ «عن رجل من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم، قال: دخل على النبى صلى الله عليه وسلم وهو يتسحر، فقال: إنها بركة أعطاكم الله إياها، قد تدعوه»
ایک صحابی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ سحری کر رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سحری کرنا برکت ہے، جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا کی ہے، لہذا اسے چھوڑا مت کرو۔“ [سنن نسائي 2162، مسند احمد 23113، صحيح]

❀ «عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ان الله وملائكته يصلون على المتسحرين.»
حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”الله اور اس کے فرشتے سحری کرنے والوں پر دعائیں بھیجتے ہیں۔“ [صحيح ابن حبان 3467، حسن]

❀ «عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :تسحروا ولو بجرعة من ماء.»
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”سحری کیا کرو، اگرچہ ایک گھونٹ پانی ہی سہی۔“ [صحيح ابن حبان 3472، حسن]

❀ «عن أبى سعيد الخدري رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : السحور أكله بركه، فلا تدعوه، ولو أن يجرع أحدكم جرعة من ماء، فإن الله عزوجل وملايكته يصلون على المتسحرين.»
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”سحری کھانا برکت ہے، لہٰذا اسے چھوڑنا مت، گرچہ تم میں کا کوئی شخص پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کرنے والوں پر دعائیں بھیجتے ہیں۔“ [مسند احمد 11086، حسن]

ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق
❀ «عن عمرو بن العاص رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فصل ما بين صيامنا وصيام أهل الكتاب، أكلة السحر. »
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان حد فاصل سحری کرنا ہے۔“ [صحيح مسلم 1096]

سحری مبارک کھانا ہے
❀ «عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: أرسل إلى عمر بن الخطاب رضى الله عنه يدعوني إلى السحور، وقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم سماه الغداء المبارك.»
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سحری کے لیے بلوایا اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مبارک کھانے کا نام دیا تھا۔ [معجم الأوسط للطبراني 501، حسن]

❀ «عن المقدام بن معد يكرب رضي الله عنه، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: عليكم بغداء السحور، فانهه هو الغداء المبارك. »
حضرت مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سحری کو لازم کرلو، کیونکہ وہ مبارک کھانا ہے۔“ [سنن نسائي 2164، حسن]

سحری میں کھجور کھانے کی فضیلت
❀ «عن أبى هريرة رضي الله عنه، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: نعم سحور المومن التمر»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کی بہترین سحری کھجور ہے۔“ [سنن ابو داود 2345، حسن]

سحری میں تاخیر کرنے کی فضیلت
❀ «عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:” إن بلالا يؤذن بليل، فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن ام مكتوم، ثم قال: وكان رجلا اعمى لا ينادي حتى يقال له اصبحت اصبحت”.»
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلال ہ رات میں اذان دیتے ہیں، (یعنی تہجد کی اذان)، تو کھاؤ اور پیو، یہاں تک کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دے دیں۔“ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ ایک نابینا شخص تھے، اور وہ اذان نہیں دیتے تھے یہاں تک کہ ان سے کہہ دیا جاتا کہ صبح ہو گئی، صبح ہو گئی۔ [صحيح بخاري 617، صحيح مسلم 1092]

❀ «عن زيد بن ثابت رضي الله عنه، قال: تسحرنا مع النبى صلى الله عليه وسلم ل، ثم قام إلى الصلاة، قلت: كم كان بين الأذان والسحور؟. قال: قدر خمسين آية »
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کی اور پھر نماز کے لیے اٹھ گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ دونوں کے درمیان کتنا وقفہ تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا : پچاس آیت پڑھنے کے بقدر۔ [صحيح بخاري 1921، صحيح مسلم 1097]
نوٹ: اس سے متعلق اور بھی احادیث ہیں، جن سے معلوم ہو تا ہے کہ سحری کو اذان فجر تک موخر کرنا افضل ہے۔ اس لیے احتیاط کے نام پر چند منٹ پہلے ہی سحری کو ختم کر دینا مناسب نہیں ہے، کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
بعض روایتوں میں تذکرہ ہے کہ پہلی اذان حضرت بلال رضی اللہ عنہ دیتے اور دوسری حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہما، جبکہ بعض دوسری روایتوں میں اس کے برعکس ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ ان دونوں کی باریاں بدلتی رہتی تھیں۔

اذان سنتے پر بھی ہاتھ میں موجود چیز کو کھانا، پینا
❀ «عن أبى هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إذا سمع أحدكم النداء والإناء على يده، فلا يضعه حتى يقضي حاجته منه»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں کا کوئی شخص (فجر کی) اذان سنے، اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو، تو وہ برتن نہ رکھے یہاں تک کہ اس سے اپنی ضرورت پوری کرلے۔“ [سنن ابو داود 2350]

اس تحریر کو اب تک 20 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply