خاندانی منصوبہ بندی

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

نکاح کے بعد چھوارے کی شاعری تقسیم کرنا
سوال : ہمارے ہاں رسم ہے کہ نکاح کے بعد چھوہارے تقسیم کیے جاتے ہیں کیا یہ سنت طریقہ ہے؟
جواب : اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں اپنی زندگی کے تمام معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا حکم دیا ہے زندگی کے معاملات میں ایک اہم معاملہ نکاح کا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کیا صحابہ اور صحابیات کے نکاح پڑھائے لیکن کسی بھی صحیح حدیث سے ہمیں یہ ثبوت نہیں ملتا کہ آپ نے کسی نکاح میں نکاح کے بعد چھوہارے تقسیم کیے ہوں اور یہ تو ایک ہندوانہ رسم ہے۔ تاہم مسلمانوں میں اس فعل کا رواج چند ضعیف اور موضوع روایات کی بنا پر ہے۔ ان کا مختصر تجزیہ درج ذیل ہے :
➊ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
«ان رسول الله صلى الله عليه وسلم تزوج بعض نسائه فشر عليه التمر» [بيهقي؁7/ 287، الكامل فى ضعفاء لارجال2/ 741]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی عورت سے شادی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر خشک کھجوریں بکھیری گئیں۔“
اس روایت کی سند میں الحسن بن عمرو سیف العبدی راوی ہے۔ امام علی بن مدینی اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے کذاب کہا ہے اور امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ نے اسے متروک الحدیث قرار دیا ہے۔ [المعني فى ضعفاء الرجال 1/ 253، كتاب الضعفاء والمتروكين 1/208]
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا: ہے : ”یہ راوی متروک ہونے کا مستحق ہے۔“ [كتاب المجروحين 213/2]
اس کی متابعات ابن ابی داؤد نے کی ہے لیکن اس کی سند میں سعید بن سلام راوی کذاب ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ نے اسے کذاب، امام بخاری رحمہ اللہ نے روایات گھڑنے والا وضاع اور امام دارقطنی رحمہ اللہ نے متروک اور باطل روایات بیان کرنے والا قرار دیا ہے۔“ [كتاب الموضوعات264/6]
ثابت ہوا کہ یہ روایت باطل و موضوع ہے۔
➋ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
«كان النبى صلى الله عليه وسلم اذا زوج او تزوج نثر تمرا» [بيهقي : 288/7]
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کی شادی کرتے یا خود شادی کرتے تو خشک کھجوریں بکھیرتے۔“
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”اس کی سند میں عاصم بن سلیمان البصری راوی ہے جسے عمر بن علی نے جھوٹ اور وضع حدیث کی طرف منسوب کیا ہے۔“
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”اسے بہت سارے محدثین نے کذاب قرار دیا ہے۔ [المغني فى ضعفاء الرجال 502/1]
ثابت ہوا یہ روایت بھی جھوٹی ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
”مجھے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری آدمی کی شادی میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا اور انصاری کا نکاح کر دیا اور فرمایا : ”الفت، خیر اور اچھے کاموں کو لازم پکڑو، اپنے ساتھی کے سر پر دف بجاؤ۔“ تو اس کے سر پر دف بجائی گئی اور میوے اور شکر کے پیکٹ لائے گئے، آپ نے وہ صحابہ پر بکھیر دیے، لیکن قوم رک گئی اور انہوں نے اسے لوٹا نہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”کس قدر عمدہ بردباری ہے، لوٹتے کیوں نہیں ؟“ انہوں نے عرض کیا : ”اے اللہ کے رسول ! آپ نے اس اور اس دن ہمیں لوٹنے سے منع کیا تھا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”میں نے تمہیں لشکروں کی لوٹ مار سے روکا تھا، ولیموں کی لوٹ سے نہیں روکا، لہٰذا تم لوٹو۔“
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : اللہ کی قسم ! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ ہم سے چھین رہے تھے۔ [الكامل312/1، الموضوعات لابن الجوزي260/2]
یہ روایت بھی جھوٹ پر مبنی ہے۔ اس کی سند میں بشیر بن ابراہیم انصاری ہے۔
امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام اوزاعی رحمہ اللہ نے فرمایا : ”وہ میرے نزدیک روایات گھڑنے والوں میں سے ہے۔“
امام بن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”وہ ثقہ راویوں پر روایتیں گھڑتا ہے۔“
یہ روایت ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے لیکن اس میں بھی حازم اور لمازہ دونوں راوی مجہول ہیں۔ [الموضوعات لابن الجوزي 266/2]
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری مرد اور عورت کی شادی میں شریک ہوئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمھارا شاہد کہاں ہے ؟ انہوں نے کہا: ہمارا شاہد کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دف۔ تو وہ دف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنے ساتھی کے سر پر بجاؤ۔ پھر وہ اپنے برتن چھوہاروں سے بھر کر لائے اور انہوں نے چھوہارے وغیرہ بکھیرے تو لوگ اسے حاصل کرنے سے ڈرے۔ جب آپ نے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا : ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوٹ سے منع کیا ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”میں نے لشکروں میں لوٹ سے منع کیا تھا، شادی اور اس قسم کے مواقع سے منع نہیں کیا۔“ [الموضوعات266/2]
اس کی سند میں خالد بن اسماعیل راوی ہے جو ثقہ راویوں پر روایات گھڑتا ہے، جیسا کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے اور امام ابن حبان رحمہ اللہ نے فرمایا : ”اس سے کسی صورت بھی حجت پکڑنا جائز نہیں۔“
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”اس مسئلے میں کچھ بھی ثابت نہیں۔“ [بيهقي 288/7]
اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ نکاح کے موقع پر چھوہارے بانٹنے اور بکھیر نے کے متعلق کوئی صحیح روایت موجود نہیں اور یہ صرف ایک رواج ہے جو مسلمانوں میں رائج ہو چکا ہے، اس لیے اس سے بچنے میں ہی خیر ہے۔
——————

لونڈیوں سے مباشرت
سوال : کیا لونڈیوں سے مباشرت کے لیے نکاح کرنا ضروری ہے؟ نیز اسلام اس ضمن میں کیا احکامات دیتا ہے وضاحت فرما کر عند اللہ موجود ہوں۔
جواب : اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے درج ذیل آیات پر غور کیجئے :
➊ «وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا » [النساء : 3]
اور اگر تمہیں خطرہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں ان سے انصاف نہ کر سکو گے تو پھر دوسری عورتوں سے جو تمہیں پسند آئیں دو دو، تین تین، چار چار تک نکاح کر لو۔ لیکن اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ ان میں انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی کافی ہے یا پھر وہ کنیزیں اور باندیاں ہیں جو تمہارے قبضے میں ہوں۔ بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ بات زیادہ درست ہے۔“
➋ «وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ» [النساء : 24]
”نیز تمام شوہروں والی عورتیں بھی تم پر حرام ہیں مگر وہ باندیاں جو تمہارے قبضے میں آئیں۔“
➌ « وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا أَنْ يَنْكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِنْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ مِنْ فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُمْ بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ» [النساء : 25]
”جو شخص کسی آزاد مومنہ عورت سے نکاح کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ کسی مومنہ باندی سے نکاح کر لے جو تمہارے قبضے میں ہوں اور اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کا حال خوب جانتا ہے۔ (کوئی عورت آزاد یا لونڈی) سب ایک ہی جنس سے ہیں لہٰذا ان کے مالکوں کی اجازت سے تم ان سے نکاح کر سکتے ہو۔“
➍ «وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ﴿5﴾ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ﴿6﴾ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ﴿7﴾ » [المومنون : 7-5]
”وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، سوائے اپنی بیویوں یا لونڈیوں کے وہ قابل ملامت نہیں ہیں البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہ زیادتی کرنے والے ہیں۔“
ان آیات میں موجود شرمگاہوں کی حفاظت کے عمومی حکم سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے دو قسم کی عورتوں کو مستثنیٰ قراردیا ہے، ایک ”ازواج“ اور دوسری ”ما ملکت ایمانکم“۔ لفظ ازدواج کا اطلاق عرب زبان کے معروف استعمال اور قرآن حکیم کی تصریحات کے مطابق صرف ان عورتوں پر ہوتا ہے جو باقاعدہ نکا ح میں لائی گئی ہوں اور معروف طریقے کے مطابق ان سے عقد قائم کیا گیا ہو۔ اس کے لیے اردو میں بیوی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جب کہ ”ما ملکت ایمانکم“ عربی محاور ہ اور قرآنی لغت کے اعتبار سے لونڈی و باندی پر بولا جاتا ہے، یعنی وہ عورت جو آدمی کی ملک اور قبضے میں ہو۔ اس طرح یہ آیات وضاحت کرتی ہیں کہ مملوکہ لونڈی سے بھی مالک کو جنسی تعلقات قائم کرنے کی اجازت ہے اور اس کے جواز کی بنیاد نکاح نہیں بلکہ صرف ملکیت ہے۔ اگر اس کے لئے نکاح شرط ہوتا تو اسے ازواج سے علیحدہ بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کیونکہ منکوحہ ہونے کی صورت میں وہ بھی ازواج میں داخل ہوتیں۔
——————

حاملہ عورت سے صحبت کرنا
سوال : کیا حاملہ عورت سے اس کا شوہر صحبت کر سکتا ہے، کتاب و سنت میں اس کا کیا حکم ہے؟
جواب : آدمی کے لئے اپنی حاملہ عورت سے جماع کرنا جائز ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
« نساءكم حرث لكم » [البقرة : 223]
”تمھاری بیویاں تمہارے لئے کھیتی ہیں۔“
دوسری جگہ فرمایا ہے :
”مومن لوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں البتہ اپنی بیویوں اور باندیوں سے نہیں۔“ [المومنون : 6/5]
اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں مطلقاً بیوی کے ساتھ صحبت کو جائز رکھا ہے، منع وہاں ہو گا جہاں کوئی دلیل ہو گی۔ لہٰذا حالت حمل میں منع نہیں کیا گیا، اس لیے آدمی صحبت کر سکتا ہے۔ دوران حیض صحبت منع ہے، اسی طرح پچھلے حصے میں صحبت بھی منع ہے۔ حدیث میں ایسے شخص پر لعنت وارد ہے کیونکہ وہ گندگی اور نجاست کا محل ہے۔ نفاس کی حالت میں بھی ممانعت کا ہی حکم ہے۔
——————

ولادت سے کتنی مدت بعد مرد عورت کے پاس جائے
سوال : بچے کی پیدائش کے کتنے دن بعد آدمی عورت کے پاس جائے گا؟
جواب : ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
”نفاس والی عورتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نفاس کے بعد چالیس دن تک بیٹھی رہتی تھیں۔“ [مسند احمد : 300/6، ابوداؤد، كتبا الطهارة : باب ما جاء فى وقت النفساء3/1]
امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
”اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ نفاس والی عورتیں چالیس دن تک نماز چھوڑیں گی سوائے اس کے جو اس سے پہلے نفاس کے خون سے پاک ہو جائے، تو وہ غسل کرے اور نماز پڑھے۔
معلوم ہوا کہ بچے کی ولادت کے چالیس دن تک عورت نماز نہیں پڑھے گی اور نہ شوہر اس کے ساتھ صحبت کرے گا۔ اگر چالیس دن سے پہلے خون بند ہو جائے اور طہر کی حالت میں آ جائے تو غسل کرے۔ خون رک جانے کے بعد مرد اپنی اہلیہ کے ساتھ صحبت کر سکتا ہے۔ نفاس کا وہی حکم ہے۔ جو حیض کا حکم ہے۔
——————

عورت کے حقوق
سوال : عام طور پر مجلات و رسائل میں عورت کے ذمہ جو واجبات ہیں انہیں ہی بیان کیا جاتا ہے کیا مردوں پر ان کی بیویوں کے کوئی حقوق نہیں؟ کتاب و سنت کی رو سے واضح کریں۔
جواب : اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس طرح مردوں کے حقوق رکھے ہیں اسی طرح خواتین کے بھی حقوق بیان کئے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں عورت پر قسما قسم مظالم روا رکھے جاتے تھے، عورت کا زندہ دفن کیا جانا، وراثت سے محرومی، نا انصافی وغیرہ بیماریاں عام تھیں۔ اللہ نے عورت کو قعرِ مذلت سے نکال کر انصاف پر مبنی حقوق سے نوازا اور مرد کو حسنِ معاشرت کا حکم صادر کیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
« وعاشروهن بالمعروف » [النساء : 19]
”بیویوں کے ساتھ حسنِ معاشرت اختیار کرو۔“
ایک اور مقام پر فرمایا :
« وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ» [البقره : 228]
”اور عورتوں کا (مردوں پر) ویسا ہی حق ہے جیسا دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے، البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت حاصل ہے۔
ان آیات بینات سے واضح ہوا کہ خواتین کے بھی اس طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”ایمان والوں میں سے کامل ترین مؤمن وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہو اور تم میں سے اچھے وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے لیے اچھے ہیں اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب میں سے اچھا ہوں۔“ [ترمذي، كتاب الرضاع : باب ما جاء فى حق المرأة على زوجها 1162]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”مومن مرد مومنہ عورت سے بغض نہ رکھے، اگر اس کی ایک عادت کو نا پسند کرے گا تو دوسری عادت سے راضی ہو جائے گا۔“ [مسلم، كتاب الرضاؑ : باب الوصية بالنساء715]
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے کہا:
”یا رسول اللہ ! ہماری بیوی کا ہم پر کیا حق ہے ؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب تم کھانا کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ اور جب تم لباس پہنو تو اسے بھی پہناؤ، چہرے پر نہ مارو اور برے طریقے سے پیش نہ آؤ اور تم اسے سوائے گھر کے نہ چھوڑو۔“ [ابوداؤد، كتاب انكا ح بب فى حق المراء على زوجها 2142]
مذکورہ بالا نصوص صحیحہ صریحہ سے معلوم ہوا کہ خواتین کے بھی مردوں پر حقوق ہیں، جو مرد اپنی حواتین سے ناروا سلوک کرتے ہیں ان کے لباس، خوراک اور گھر کا خیال نہیں رکھتے، ان سے حسنِ معاشرت کی بجائے گالم گلوچ سے پیش آتے ہیں انہیں عذابِ الٰہی سے ڈرنا چاہیے۔ اگر ایک عورت اپنے شوہر کی وفادار ہے اور اپنے بستر پر اس کی غیر موجودگی میں کسی غیر کو داخل نہیں ہونے دیتی اور اس کے بچوں اور گھر کی دیکھ بھال کرتی ہے تو مرد کا بھی حق ہے کہ وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ وقت گزارے، اس کے دکھ درد میں شریک ہو، اچھے لوگ وہی ہیں جو آپس میں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھ کر زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ ہمارے معاشریے میں بہت سے مرد ایسے ہیں جو حقوق الناس سے یکسر غافل ہیں، قیامت والے دن جہاں حقوق اللہ کا سوال ہو گا وہاں حقوق الناس کے بارے میں بھی پوچھ گچھ ہوگی، اللہ تعالیٰ صحیح عمل کی توفیق بخشے۔ (آمین !)
——————

خاندانی منصوبہ بندی
سوال : کیا کسی مجبوری کی بنا پر نسل منقطع کرنے کا آپریشن کروایا جا سکتا ہے کہ بالخصوص جب زچہ کی جان کو خطرہ لاحق ہو؟
جواب : قطع نسل کا مفہوم یہ ہے کہ شوہر و بیوی میں سے کسی ایک کے توالد و تناسل والے اعضاء میں داخلی یا خارجی ایسی تبدیلی کر دی جائے جس کی وجہ سے وہ ابدی طور پر اولاد کی نعمت سے محروم ہو جائیں اور بچہ جنم دینے کے بالکل قابل نہ رہیں۔ جیسا کہ گزشتہ دور میں مردوں کو خصی کر دیا جاتا اور آج کے ترقی یافتہ دور میں نس بندی اور آپریشن وغیرہ کیا جاتا ہے۔ یہ صورت ناجائز و حرام ہے۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
«رد رسول الله صلى الله عليه وسلم على وعثمان بن مظعون التبتل و لواذن له لا ختصينا» [بخاري، النكا ح : باب ما يكره من التبتل و الخصاء 5073، مسلم1402، ترمذي1083، نسائي3214، ابن ماجه2/ 593، مسند احمد1/ 175، دارمي2167]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو نکاح کے بغیر رہنے سے منع کر دیا۔ اگر آپ انہیں اجازت دے دیتے تو ہم خصی ہو جاتے۔“
سیدنا عبداللہ مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:
«كنا نغزو مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وليس لنا شيء، فقلنا: الا نستخصي؟ فنهانا عن ذلك، ثم رخص لنا ان ننكح المراة بالثوب، ثم قرا علينا: يايها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما احل الله لكم ولا تعتدوا إن الله لا يحب المعتدين» [بخاري، كتاب النكا ح : باب ما يكره من التبتل والخصاء 5075]
”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شریک ہوتے تھے اور ہمارے پاس ہماری کوئی بیوی نہیں ہوتی تھی۔ ہم نے کہا: ”کیا ہم خصی نہ ہو جائیں ؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع کیا پھر ہمیں رخصت دی کہ ہم ایک کپڑے کے عوض عورتوں سے نکاح کر لیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر قرآن کی یہ آیت پڑھی : ”اے ایمان والو ! جو پاکیزہ چیزیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو۔ یقینََا اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔“
ان صحیح احادیث سے معلوم ہوا کہ نس بندی یا بذریعہ اپریشن آلات توالد و تناسل میں ایسا تغیر و تبدل کرنا جس سے نسل کا سلسلہ منقطع ہو جائے باکل ناجائز و حرام ہے۔ البتہ بعض اوقات ایسی صورت کچھ خواتین کے ساتھ پیش آ جاتی ہے کہ ان کے اعضائے تولید اس قابل نہیں ہوتے کہ جن سے فطری اور طبعی طریقے سے ولادت ہو سکے۔ مجبور غیر فطری طریقے سے بذریعہ آپریشن بچہ پیدا ہوتا ہے اور ماہر ڈاکٹروں کے کہنے کے مطابق بذریعہ آپریشن دو یا تین مرتبہ ولادت کے بعد عورت میں بچہ جنم دینے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی بلکہ جان کے ضیاع کا قوی اندیشہ ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں عورت کا حاملہ ہونا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ چنانچہ اضطراری اور مجبوری کی حالت میں جب ماہر ڈاکٹر فیصلہ دے دیں کہ یہ عورت اب ولادت کے قابل نہیں رہی تو ایسی صورت اختیار کرنے کی گنجائش ہے کہ ولادت کا سلسلہ منقطع کر دیا جائے۔ کیونکہ اسلام کا اصول ہے :
«الضرورات تیبیح المحضورات» (شدید مجبوری حرام اشیاء کو جائز بنا دیتی ہے۔)
لہٰذا شدید مجبوری کی صورت میں ماہر مسلمان ڈاکٹروں کے مشورہ کے مطابق اپریشن کروایا جا سکتا ہے۔

——————

اس تحریر کو اب تک 20 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply