اہل کتاب و غیرمسلم ہمسایوں کے ساتھ سلوک و دیگر تعلقات

مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

420-
سوال: اگر ہمارے کافر (عیسائی) پڑوسی ہوں، اگر وہ ہمیں تحائف دیں اور ہم انہیں قبول کر لیں تو کس طرح ان کے ساتھ پیش آئیں؟ کیا ہم ان کے سامنے ننگے منہ آسکتی ہیں یا وہ ہمارے چہرے کے علاوہ بھی ہمارے جسم کا کوئی حصہ دیکھ سکتے ہیں اور کیا ہمارے لیے عیسائی دکانداروں سے خریداری کرنا جائز ہے؟
جواب: جو تمہارے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے، تم بھی اس کے ساتھ حسن سلوک کرو، خواہ وہ عیسائی ہی ہوں اور جب وہ تمہیں کوئی جائز تحفہ دیں تو انہیں اس کا بدلہ بھی دو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہ روم کا تحفہ قبول کیا تھا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ‎ ﴿٨﴾ ‏ إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَىٰ إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ» [الممتحنة: 9,8]
”اللہ تمہیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جنھوں نے نہ تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا کہ تم ان سے نیک سلوک کرو اور ان کے حق میں انصاف کرو، یقیناًً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ اللہ تو تمھیں انھی لوگوں سے منع کرتا ہے، جنھوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی کہ تم ان سے دوستی کرو۔ اور جو ان سے دوستی کرے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔“
اور جس قدر مسلمان عورتوں کے سامنے اپنا جسم ظاہر کیا جا سکتا ہے اور کپڑوں وغیرہ کی زیبائش ہو سکتی ہے، علما کے صحیح قول کے مطابق کافر عورتوں کے سامنے بھی اس قدر اظہار کرنا جائز ہے، نیز تم اپنی ضرورت کا جائز سامان بھی ان سے خرید سکتی ہو۔
[اللجنة الدائمة: 5176]
421- نصرانی کی ملا قات کا حکم
عیسائی یا کسی دوسرے کافر کی ملاقات کے لیے جانا، اگر وہ مریض ہو تو یہ حقیقت میں ملاقات نہیں بلکہ عیادت ہوتی ہے، کیونکہ مریض کے پاس بار بار جایا جاتا ہے۔ اگر اس میں کوئی مصلحت ہو، جیسے اس کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے اس کی ملاقات کے لیے جانا تو یہ سراسر بھلائی ہے، اگر کوئی مصلحت نہ بھی ہو تب بھی اس کی عیادت کرنی چاہیے۔ اگر کوئی اور سبب ہو جو اس کی ملاقات کا تقاضا کرتا ہو، مثلاًً وہ رشتے دار ہو یا پڑوسی ہو یا کوئی اس جیسا سبب تو پھر بھی اس کی ملاقات میں کوئی حرج نہیں، وگرنہ اس کی عیادت نہ کرنا ہی بہتر ہے۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 5/21]
422- ان کے جنازوں میں شرکت کرنا
اگر ان میں کوئی حرام کام ہوتا ہو جیسے ناقوس (سنکھ) بجانا، آگ روشن کرنا اور صلیبیں اٹھانا تو پھر جائز نہیں اور اگر ان میں کوئی حرام چیز نہ ہو تو پھر ان میں مصلحت دیکھی جائے گی۔ واللہ اعلم
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 5/21]

424- ایک ہی پلیٹ میں مشرکوں کے ساتھ کھانا
مسلمان کو بری مجالس سے بچنا چاہیے، مشرکین اور یہود و نصاری کی مجالس بھی انھی میں شامل ہیں، لہٰذا بقدر امکان ان سے دور رہے، لیکن اگر کسی ضرورت کی وجہ سے وہ ان کے ساتھ کھانے پر مجبور ہو تو اس کو معذور سمجھا جائے گا، جس طرح آج بہت سے ایسے ادارے ہیں جن میں مسلمان اور کافر اکٹھے کام کرتے ہیں اور مسلمان ان کے ساتھ اکٹھ سے بچ نہیں سکتا، لیکن میں کہتا ہوں کہ اس میں خیر کا پہلو یہ ہے کہ مسلمان ان کے سامنے اسلام کی خوبیاں پیش کرے اور ان کو اس کی دعوت دے، شائد اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے دے اور وہ اس اجر عظیم کا مستحق ہو جائے جس کا ذکر رسول کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خیبر بھیجتے وقت کیا تھا اور ان سے کہا تھا:
”ان کو اسلام کی دعوت دینا۔ خدا کی قسم ! اگر اللہ تیرے ذریعے سے کسی ایک آدمی کو بھی ہدایت دے دے تو وہ تمہارے لیے سرخ
اونٹوں سے بہتر ہوگا۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2942 صحيح مسلم 2406/34]
اور سرخ اونٹ عرب کے ہاں قیمتی ترین اور اعلٰی مال تھا۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 4/21]

429- غیر مسلم کو خون دینے کا حکم
میں اس میں کوئی ممانعت نہیں جانتا، کیونکہ اللہ عزوجل اپنی کتاب عظیم میں فرماتے ہیں:
«لا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ» [الممتحنة: 8]
”اللہ تمھیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جنھوں نے نہ تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور نہ تمھیں تمہارے گھروں سے نکالا کہ تم ان سے نیک سلوک کرو اور ان کے حق میں انصاف کرو۔“
اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ ہم کو ان کفار کے ساتھ اچھائی اور حسن سلوک کرنے سے نہیں روکتا، جنھوں نے ہمارے ساتھ لڑائی کی، نہ ہم کو ہمارے گھروں سے نکالا۔ اور مجبور کو طبی امداد کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل مکہ کے درمیان صلح کے ایام میں حضرت اسماء بنت ابوبکر کی والدہ، جو کافر تھی، اپنی بیٹی کے پاس آئی اور اس سے صلہ رحمی کا سوال کیا تو حضرت اسما نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتوی طلب کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کا فتوی دیا اور کہا: ”اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کر۔“ حالانکہ وہ کافر تھی۔
جب کوئی معاہد (وہ کافر جو کسی معاہدے کے تحت کسی مسلمان ملک میں آیا ہو) یا امن دی گئی سر زمین کا کافر، جس کے اور ہمارے درمیان لڑائی نہ ہوں اس کے لیے مجبور ہو تو اس کو خون کا عطیہ دینے میں کوئی حرج نہیں، جس طرح اگر وہ مردار کھانے کے لیے مجبور ہو جاتا۔ تاہم تجھ کو اس کا اجر ملے گاکیونکہ خون کے ضرورت مند کی مدد کرنے میں تمہارے لیے کوئی ممانعت نہیں۔
[ابن باز: نور على الدرب: 375/1]

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔