خادم کے ساتھ معافی کا معاملہ زیادہ کرنا چاہیے

مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

«باب حسن السلوك بالخادم والمملوك»
نوکروں اور غلاموں کے ساتھ حسن سلوک
✿ «عن ابي ذر، قال: رايت عليه بردا وعلى غلامه بردا، فقلت: لو اخذت هذا فلبسته كانت حلة واعطيته ثوبا آخر، فقال: كان بيني وبين رجل كلام وكانت امه اعجمية، فنلت منها فذكرني إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال لي:” اساببت فلانا؟” قلت: نعم، قال:” افنلت من امه؟” قلت: نعم، قال:” إنك امرؤ فيك جاهلية” قلت على حين ساعتي: هذه من كبر السن، قال:” نعم، هم إخوانكم جعلهم الله تحت ايديكم، فمن جعل الله اخاه تحت يده فليطعمه مما ياكل وليلبسه مما يلبس، ولا يكلفه من العمل ما يغلبه، فإن كلفه ما يغلبه فليعنه عليه”.» [متفق عليه اه البخاري 6050، ومسلم 1661. رواه أبو داود 5157]
حضرت معرور بن سوید نے حضرت ابوذر سے روایت کی ہے کہ انھوں نے فرمایا: میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ کے جسم پر ایک چادر دیکھی، اور ان کے غلام کے جسم پر بھی ویسی ہی ایک چادر تھی۔ میں نے کہا: اگر اس چادر کو لے لیتے اور اس کو پہن لیتے تو ایک جوڑا بن جاتا۔ اور غلام کو دوسرا کپڑا دے دیتے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میرے اور ایک شخص کے درمیان تو تو میں میں ہو گئی تھی۔ اور ان کی ماں عجمی تھیں۔ میں نے انھیں اس کا طعنہ دیا تھا، انھوں نے جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اس بات کا ذکر کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا : کیا تم نے ان کی ماں کا انہیں طعنہ دیا ہے ؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اے ابوزر) ! تمھارے اندر بھی جاہلیت کی خو بو باقی ہے ؟“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! کیا اس بڑھاپے میں بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔ یاد رکھو یہ غلام بھی تمھارے بھائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں تمھاری ماتحتی میں دیا ہے۔ الله تعالیٰ جس کو بھی اس کے بھائی کی ماتحتی میں رکھے اسے چاہیے کہ جو وہ کھائے اسے بھی کھلائے، وہ جو پہنے اسے بھی پہنائے اور اسے ایسے کام کا مکلف نہ بنائے جو اس کے بس میں نہ ہو۔ اگر
اسے ایسے کام کا مکلف بنا دے تو اس کام میں اس کی مدد کرے۔“

✿ «عن جابر بن عبد الله قال : كان النبى صلى الله عليه وسلم يوصي بالمملوكين خيرا ويقول : أطعموهم مما تأكلون و ألبسوهم من لبوسكم ولا تعذبوا خلق الله. » [حسن: رواه البخاري فى الأدب المفرد 188، 199]
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غلاموں کے معاملے میں بھلائی کی تاکید فرمایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ”انھیں وہ کھلاؤ جو تم کھاتے ہو، انھیں وہ پہناؤ جو تم پہنتے ہو اور الله کی مخلوق کو سزانہ دو۔“

✿ «عن أبى هريرة، عن رسول الله، أنه قال : للمملوك طعامه وكسوته، لا يكلف من العمل مالا يطيق. » [صحيح. رواه مسلم 662 : 41]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”کھانا اور کپڑے غلام کا حق ہے، اسے کسی ایسے کام کا ذمے دار نہ بناؤ، جو اس کے بس میں نہ ہو۔“

✿ «عن أبى ابی هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم،” إذا اتى احدكم خادمه بطعامه، فإن لم يجلسه معه فلينا وله لقمة او لقمتين او اكلة او اكلتين، فإنه ولي علاجه.» [صحيح: رواه البخاري 2557]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں : ”جب تمھارا کوئی خادم تمھارے پاس کھانا لے کر آئے۔ اگر اس کو تم اپنے ساتھ بٹھا کر نہ کھلا سکو، تو اس کو ایک یا دو لقے یا ایک یا دو نوالے دے دیا کیونکہ اس نے اس کو تیار کرنے کی زحمت اٹھائی ہے۔“

✿ «عن أبى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا صنع لأحدكم خادمه طعامه ثم جاءه به وقد ولي حره ودخانه فليقعد معه فليأكل فإن كان الطعام مشفوها قليلا فليضع فى يده منه أكلته او أكلتين، » [صحيح رواه مسلم 1663: 42]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمھارا کوئی خادم تمھارے لیے کھانا تیار کرے، پھر اس کو تمھارے پاس لے آئے اور یقیناً اس نے کھانا بناتے ہوئے اس کی گرمی اور دھویں کی تکلیف برداشت کی ہے، سو اس کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھلانا چاہیے۔ اگر کھانے والوں کی تعداد زیادہ اور کھانا کم ہو تو کم از کم اس کھانے کے ایک یا دو لقمے ہی اس کے ہاتھ میں رکھ دینا چاہیے۔“

✿ «عن أبى الزبير أنه سمع رجلا يسأل جابرا عن خادم الرجل إذا كفاه المشقة والحر أمر النبى صلى الله عليه وسلم أن يدعوه ؛ قال : نعم، فإن كره أحدكم أن يطعم معه فليطعمه أكلة فى يده.» [حسن: رواه البخاري فى الأدب المفرد 198.]
حضرت ابوزبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک شخص کو خادم کے بارے میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سوال کرتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حرارت اور تکلیف ہی کی وجہ سے خادم کو کھلانے کا حکم فرمایا ہے؟ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا : جی ہاں اگر کوئی شخص خادم کو اپنے ساتھ کھانا پیش کرتا ہو اس کو ایک لقمہ ہی سہی اس کے ہاتھ میں دے کر کھلانا چاہیے۔
——————

« باب استحباب كثرة العفو عن الخادم»
خادم کے ساتھ معافی کا معاملہ زیادہ کرنا چاہیے۔
✿ «عن عبد الله بن عمرو، يقول: جاء رجل إلى النبى صلى الله عليه وسلم، فقال:” يا رسول الله، كم نعفو عن الخادم؟ فصمت، ثم اعاد عليه الكلام، فصمت فلما كان فى الثالثة، قال: اعفوا عنه فى كل يوم سبعين مرة .» [صحيح: رواه أبو داود 5164، والترمذي 1949 فى الرواية الثانية، والبخاري فى التاريخ الكبير 3/7.]
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا : اللہ کے رسول ! ہم خادم کو کتنا معاف کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ اس نے دوبارہ اپنی بات دہرائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہی رہے۔ اس نے تیسری مرتبہ اپنی بات کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایک دن میں اس کو ستر (۷۰) مرتبہ معاف کرو۔“
——————

«باب كفارة من ضرب عبده أن يعتقه »
جو اپنے غلام کو مارے تو اسے آزاد کر دے، یہ اس کا کفارہ ہے
✿ «عن زاذان أبى عمر قال أتيت ابن عمر وقد أعتق مملوكا قال فاكذه من الأرض عودا او شيئا فقال ما فيه من الأجر ما يسوى هذا إلا أني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من لطم مملوكه او ضربه فكفارته أن يعتقه .» [صحيح: رواه مسلم 1657.]
حضرت زاذان ابو عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، جب کہ وہ ایک غلام کو آزاد کر چکے تھے۔ انھوں نے زمین سے لکڑی یا کوئی چیز اٹھائی۔ پھر کہا : اس میں اتنا بھی اجر نہیں ہے جو اس کے برابر ہو لیکن میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اپنے غلام کو طمانچہ مارے یا اس کو زد و کوب کرے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس کو آزاد کر دے۔

✿ «عن أبى مسعود الانصاري قال كنت أضرب غلاما لي فسمعت من خلفي صوتا اعلم ابا مسعود لله أقدر عليك منك عليه. فالتفت فإذا هو رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ فقلت يا رسول الله هو حر لوجه الله. فقال : أما لو لم تفعل للفحتك النار أو لمستك النار. » [صحيح: رواه مسلم 1659 :35]
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنے ایک غلام کو مار رہا تھا، تو میں نے اپنے پیچھے سے ایک آواز سنی، اے ابو مسعود! اللہ تعالیٰ تم پر اس سے کہیں زیادہ قدرت رکھتا ہے جتنی تم اپنے غلام پر رکھتے ہو۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! وہ اللہ کے لیے آزاد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”خبردار! اگر تم ایسا نہ کرتے تو تمہیں جہنم کی آگ لپیٹ لیتی یا تمھیں جھنم کی آگ چھو جاتی۔“

✿ «عن هلال بن يساف قال عجل شيخ قلطم خادما فقال له سويد بن مقرن عجز عليك إلا حر وجهها لقد رأيتني سابع سبعة من بني مقرن مالنا حادم إلا واحدة لطمها أصغرنا فأمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن تعقه . » [صحيح: رواه مسلم 1658: 32.]
حضرت بلال بن یسار سے روایت ہے کہ ایک بزرگ نے جلد بازی میں اپنے ایک خادم کو طمانچہ مار دیا تو ان سے سوید بن مقرن نے کہا: کیا مارنے کے لیے تمہیں اس کا چہرہ ہی ملا تھا؟ میں مقرن کا ساتواں بیٹا تھا اور ہمارے پاس صرف ایک ہی باندی تھی۔ ہمارے سب سے چھوٹے بھائی نے طمانچہ مارا اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایاکہ ہم اس کو آزاد کر دیں۔

✿ «عن معاوية بني سويد قال لطمت مولي لنا فهربت ثم جئت قبيل الظهر فصليت خلف ابي فدعاه ودعاني ثم قال امتثل منه. فعفاثم قال كنا بني مقرن على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس لنا إلا خادم واحدة فلطمها أحدنا فبلغ ذلك الني صلى الله عليه وسلم فقال أعتقوها . قالوا ليس لهم خادم غيرها قال : فليستخدموها فإذا استغنوا عنها فليخلوا سبيلهم .» [صحيح: رواه مسلم 1658: 31.]
حضرت معاویہ بن سوید سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا: میں اپنے ایک غلام کو طمانچہ مار کر بھاگ گیا۔ پھر میں ظہر سے کچھ پہلے آ گیا۔ میں نے اپنے باپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ انھوں نے غلام کو بلایا اور مجھے بھی۔ پھر غلام سے کہا: اس سے بدلہ لے لو، تو اس نے معاف کر دیا۔ سوید نے کہا: ہم مقرن کے بیٹے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے۔ ہمارے پاس ایک ہی لونڈی تھی۔ اس کو ہم میں سے کسی نے طمانچہ مارا۔ یہ خبر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو آزاد کر دو“ لوگوں نے کہا: ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی خادم نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا تو اس سے خدمت لیتے رہیں، جب انہیں اس کی ضرورت نہ رہے تو اس کو آزاد کر دیں۔“
——————

«باب الترهيب من قذف مملوكه بالزنا»
اپنے غلام پر زنا کی تہمت لگانے سے ڈرنا چاہیے
✿ «عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: سمعت ابا القاسم صلى الله عليه وسلم، يقول: من قذف مملوكه، وهو بريء مما قال، جلد يوم القيامة، إلا ان يكون كما قال. » [متفق عليه: رواه البخاري 6058، ومسلم 1660 :37]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اپنے غلام پر زنا کی تہمت لگائے جب کہ وہ بے گناہ ہو تو اس پر قیامت کے دن کوڑے برسائے جائیں گے، مگر یہ کہ وہ اپنے قول میں سچا ہو۔
——————

« باب ثواب العبد إذا أحسن عبادة ربه ونصح سيده »
اس غلام کا ثواب جو اپنے رب کی عبادت اچھے طریقے سے بجا لاتا ہے اور اپنے آقا کے ساتھ بھی خیرخواہی کرتا ہے۔
✿ «عن عبدلله بن عمرو رضي الله عنهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: العبد إذا نصح سيده واحسن عبادة الله، فله اجره مرتين. » [متفق عليه: رواه مالك فى الاستئذان 43 والبخاري 2546، ومسلم 1664: 43.]
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو غلام اپنے آقا کے ساتھ خیر خواہی
کرے، اور الله تعالیٰ کی عبادت بھی بہتر طریقے پر انجام دے تو اس کو دوہرا اجر ملے گا۔“

✿ «عن ابو هريرة رضي الله عنه: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: للعبد المملوك الصالح اجران، والذي نفسي ابي هريره بيده لولا الجهاد فى سبيل الله والحج وبر امي، لاحببت ان اموت وانا مملوك.» [متفق عليه رواه البخاري 2548، ومسلم 1665: 44. قال وبلغنا أن أبا هريرة لم يكن يحج حتي ماتت أمه لصحبتها.]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اصلاح کرنے والے نیکوکار غلام کے لیے دوہرا اجر ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں ابوہریرہ کی جان ہے۔ اگر الله کی راہ میں جہاد، حج اور ماں کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ نہ ہوتا تو میں غلامی کی حالت میں مرنے کو پسند کرتا۔“ راوی کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ حضرت ابوہرہ رضی اللہ عنہ اپنی ماں کی خدمت میں رہنے کی وجہ سے ان کے انتقال تک حج نہیں کر سکے تھے۔

✿ «عن ابي موسي عن النبى صلى الله عليه وسلم، قال:” ثلاثة يؤتون اجرهم مرتين الرجل تكون له الامة، فيعلمها فيحسن تعليمها، ويؤدبها فيحسن ادبها، ثم يعتقها فيتزوجها فله اجران، ومؤمن اهل الكتاب الذى كان مؤمنا ثم آمن بالنبي صلى الله عليه وسلم فله اجران، والعبد الذى يؤدي حق الله وينصح لسيده، ثم قال الشعبي: واعطيتكها بغير شيء وقد كان الرجل يرحل فى اهون منها إلى المدينة. » [متفق عليه: رواه البخاري 3011، ومسلم 154: 241.]
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ تین قسم کے لوگ ہیں جنھیں دوہر اجر ملے گا۔ پہلا وہ
شخص جس کی کوئی باندی ہو، وہ اس کی اچھی تعلیم و تربیت کرے، پھر اس کو آزاد کر کے اس سے شادی کر لے تو اس کو دوہرا اجر ملے گا۔ دوسرا اہل کتاب کا مومن، جو پہلے مومن تھا (یعنی سابقہ پیغمبر اور کتاب پر ایمان رکھتا تھا) پھر وہ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا، تو اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے۔ اور تیسر اوہ غلام جو الله تعالیٰ کے حقوق کو ادا کرتا ہے اور اپنے آقا کے ساتھ خیر خواہی کرتا ہے۔ پھر شعبی نے فرمایا: میں نے تمھیں یہ حدیث بغیر محنت و مشقت کے دے دی ہے۔ ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب اس سے بھی کم حدیث کے لیے لوگ مدینہ کا سفر کرتے تھے۔

✿ « عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم:” نعما لاحدهم يحسن عبادة ربه وينصح لسيده. وفي لفظ : نعما للمملوك أن يتوفي يحسن عبادة الله وصحابة سيده نعما له . » [متفق عليه: رواه لبخاري 2549 ومسلم 2667: 46.]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان میں سے اس شخص کے لیے کیا ہی بہتر انعام ہے جو اپنے رب کی عبادت بھی بحسن و خوبی انجام دیتا ہے اور اپنے مالک کے ساتھ بھی خیر خواہی کرتا ہے۔“ ایک روایت کے الفاظ ہیں: ”کیا ہی اچھا انجام ہے اس غلام کا جو اللہ کی عبادت حسن و خوبی کے ساتھ بجا لاتے ہوئے، اور اپنے مالک کی اچھی طرح خدمت کرتے ہوئے فوت ہو جائے۔ اس کا انجام کیا ہی اچھا ہے۔“

✿ «عن أبى هرير قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إذا أدى العبد حق الله وحق مواليه كان له أجران. » [صحيح: رواه مسلم 1666: 45.]
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب غلام اللہ کا حق اور اپنے مالکوں کا حق ادا کرے گا تو اس کو دوہرا اجر ملے گا۔“
——————

«باب العبد راع وهو مسؤول فى مال سعيده»
غلام نگہبان ہے اور وہ اپنے آقا کے مال کے سلسلے میں جواب دہ ہے
✿ «عن عبد الله رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:” كلكم راع فمسئول عن رعيته، فالامير الذى على الناس راع وهو مسئول عنهم، والرجل راع على اهل بيته وهو مسئول عنهم، والمراة راعية على بيت بعلها وولده وهى مسئولة عنهم، والعبد راع على مال سيده وهو مسئول عنه، الا فكلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته. » [متفق عليه: رواه البخاري 2554، ومسلم 1829.]
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے ہر شخص ذمے دار سے
اور اس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال ہو گا۔ جو لوگوں کا امیر ہے وہ ان کا ذمے دار ہے اور وہ اپنے ماتحتوں کے سلسلے میں جواب دہ ہے۔ اور آدمی اپنے گھر والوں کا ذمے دار ہے اور وہ ان کے بارے میں جواب دہ ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی نگہبان ہے اور وہ ان کے بارے میں جواب دہ ہے۔ اور غلام اپنے آقا کے مال کا نگہبان ہے اور وہ اس کے سلسلے میں جواب دہ ہے۔ سنو! تم میں سے ہر شخص ایک ذمے دار ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال ہوگا۔“
——————

« باب الأفضل ترك الضرب إذا أمكن الوصول على الغرض بغيره »
مارے بغیر مقصود تک پہنچنا ممکن ہو تو مار کو ترک کرنا افضل ہے۔
✿ «عن عائشة قالت ما ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا قط بيده ولا امرأة ولا خادما إلا أن يجاهد فى سبيل الله وما نيل منه شئ قط فينتقم من صاحبه إلا أن ينتهك شي من محارم الله فينتقم الله عزوجل. » [صحيح: رواه مسلم 2328]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا نہ کسی عورت کو اور نہ کسی خادم کو۔ مگر یہ کہ آپ اللہ کی راہ میں جہاد کر رہے ہوتے۔ جس کسی نے آپ کو کوئی تکلیف پہنچائی اس سے آپ نے کسی قسم کا انقام نہیں لیا، مگر یہ کہ وہ الله کی حرمتوں میں سے کسی کی پامالی کر دے تو آپ الله کے لیے اس سے انتقام لیتے۔
——————

« باب ذكر المثل الأعلى فى حسن التعامل مع الخادم»
خادم کے ساتھ حسن سلوک کی عمدہ مثال
✿ «عن انس رضي الله عنه، قال:” خدمت النبى صلى الله عليه وسلم عشر سنين، فما قال لي اف ولا لم صنعت ولا الا صنعت. » [متفق عليه: رواه البخاري 6038، ومسلم 2309.]
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال خدمت کی، کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اف تک نہ کہا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کیوں کیا اور یہ کیوں نہیں کیا؟
——————

«باب الزجر من أفسد مملوكا على مولاه»
اس شخص کو ڈانٹنا جو کسی غلام کو اپنے آقا کے خلاف اکسائے
✿ «عن ابي هريرة، قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم: ليس منا من خبب امراة على زوجها او عبدا على سيده. » [صحيح: رواه أبو داود 2175،وأحمد 9157، وابن حبان 5560.568، والحاكم 196/2.]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو کسی عورت کو اس کے شوہر کے خلاف اکسائے یا کسی غلام کو اس کے آقا کے خلاف بھڑکائے۔“
——————

«باب تعليق السوط فى البيت»
گھر میں کوڑا لٹکانے کا بیان
✿ « عن عبدالله بن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم علقوا السوط حيث يراه أهل البيت . » [حسن رواه ابو نعيم فى الحلية 332/7]
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوڑا ایسی جگہ لٹکاؤ جہاں سے گھر والے اس کو دیکھ سکیں۔“

✿ «عن عبد الله ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : علقوا السوط حيث يراه أهل البيت فإنه لهم أدب . » [حسن: رواه الطبراني فى الكبير 345/10، وفي الأوسط، مجمع البحرين 3130.]
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”گھر میں کوڑا ایسی جگہ لٹکاؤ جہاں سے گھر والے اس کو دیکھ سکیں، کیوں کہ وہ ان کے لیے ادب ہے۔“
——————

اس تحریر کو اب تک 10 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply