ہنسنا اور مسکرانا

مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

«باب التبسم والضحك»
ہنسنا اور مسکرانا
❀ «عن عائشة رضي الله عنها، قالت: ما رايت النبى صلى الله عليه وسلم مستجمعا قط ضاحكا حتى ارى منه لهواته، إنما كان يتبسم » [متفق عليه: رواه البخاري 6092، ومسلم 899: 16]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ کو قہقہہ لگا کر ہنستے ہوئے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ کی داڑھیں نظر آ جائیں، البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے تھے۔

❀ «عن عائشة رضي الله عنها، ان رفاعة القرظي طلق امراته فبت طلاقها فتزوجها بعده عبد الرحمن بن الزبير، فجاءت النبى صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إنها كانت عند رفاعة فطلقها آخر ثلاث تطليقات فتزوجها بعده عبد الرحمن بن الزبير، وإنه والله ما معه يا رسول الله إلا مثل هذه الهدبة، لهدبة اخذتها من جلبابها، قال: وابو بكر جالس عند النبى صلى الله عليه وسلم، وابن سعيد بن العاص جالس بباب الحجرة ليؤذن له، فطفق خالد ينادي ابا بكر، يا ابا بكر الا تزجر هذه عما تجهر به عند رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ وما يزيد رسول الله صلى الله عليه وسلم على التبسم، ثم قال: لعلك تريدين ان ترجعي إلى رفاعة، لا حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك. » [متفق عليه: رواه البخاري 6084، ومسلم 1433: 112. 113 واللفظ للبخاري.]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رفاعہ قرظی نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی۔ ان کے بعد اس خاتون سے عبدالرحمن بن زبیر (بن باطا) نے نکاح کیا۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئیں کہ وہ رفاعہ کی زوجیت میں تھیں۔ رفاعہ نے ان کو تین طلاقیں دے دیں۔ ان کے بعد عبدالرحمن بن زبیر نے ان سے نکاح کیا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ان کے پاس کچھ (مردانگی) نہیں ہے۔ مگر اس کپڑے کی طرح۔ انھوں نے اپنی اوڑھنی کے کپڑے کو پکڑ کر دکھایا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ ابن سعید بن عاص حجرے کے دروازے پر اجازت کے طالب بیٹھے تھے۔ خالد بن (سعيد) آواز دینے لگے: اے ابو بکر ! کیا تم انھیں نہیں ڈانٹو گے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیسی گفتگو کر رہی ہیں ؟ اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم صرف مسکرا رہے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”شاید تم رفاعہ (اپنے سابق شوہر) کے پاس جانا چاہتی ہوں، ایسا نہیں ہو سکتا، جب تک ان (عبدالرحمن کا مزہ نہ چکھ لو اور وہ تمھارا مزہ نہ چکھ لیں۔)“

❀ « عن سعد بن أبى وقاص قال: استاذن عمر بن الخطاب رضى الله عنه على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وعنده نسوة من قريش يسالنه ويستكثرنه عالية اصواتهن على صوته، فلما استاذن عمر تبادرن الحجاب، فاذن له النبى صلى الله عليه وسلم فدخل، والنبي صلى الله عليه وسلم يضحك، فقال: اضحك الله سنك يا رسول الله بابي انت وامي، فقال: عجبت من هؤلاء اللاتي كن عندي لما سمعن صوتك تبادرن الحجاب” فقال: انت احق ان يهبن يا رسول الله، ثم اقبل عليهن، فقال: يا عدوات انفسهن اتهبنني ولم تهبن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلن إنك افظ واغلظ من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” إيه يا ابن الخطاب والذي نفسي بيده ما لقيك الشيطان سالكا فجا إلا سلك فجا غير فجك. » [متفق عليه: رواه البخاري 6085، ومسلم 2396]
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا : حضرت عمر بن خطاب نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کی کچھ عورتیں بیٹھی سوال کر رہی تھیں۔ اور کثرت سے سوال کر رہی تھیں، اور ان کی آوازیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اونچی تھیں۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو وہ تیزی سے پردے کی اوٹ میں چلی گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو اجازت دے دی، وہ اندر آئے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ قربان ہوں، اللہ آپ کو خوش رکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے ان عورتوں پر تعجب ہے جو میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں، جب انھوں نے تمھاری آواز سن لی تو تیزی سے پردے کی اوٹ میں چلی گئیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اللہ کے رسول ! آپ زیادہ حق دار تھے کہ وہ آپ سے ڈرتیں۔ ان عورتوں کی طرف پلٹ کر کہا: اے اپنی جان کی دشمنو! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ سے نہیں ڈرتیں ؟ تو ان عورتوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں آپ زیادہ سخت ہیں۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہاں اے ابن خطاب ! انھیں چھوڑ دو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر شیطان بھی تمھیں راستے پرآتا ہوا دیکھ لے گا وہ تمھارا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے پر چلا جائے گا۔“

❀ «عن أبى هرير رضي الله عنه، قال: اتى رجل النبى صلى الله عليه وسلم فقال: هلكت وقعت على اهلي فى رمضان، قال:” اعتق رقبة قال: ليس لي، قال: فصم شهرين متتابعين، قال: لا استطيع، قال: فاطعم ستين مسكينا، قال: لا اجد، فاتي بعرق فيه تمر، قال إبراهيم: العرق المكتل، فقال: اين السائل؟ تصدق بها قال: على افقر مني، والله ما بين لابتيها اهل بيت افقر منا، فضحك النبى صلى الله عليه وسلم حتى بدت نواجذه قال: فانتم إذا» [متفق عليه: رواه البخاري 6087، ومسلم 1111. واللفظ للبخاري.]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: میں ہلاک ہو گیا۔ میں نے اپنی بیوی کے ساتھ رمضان میں دن کے وقت ہم بستری کر لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک غلام آزاد کرو۔“اس نے کہا: میرے پاس نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر دو ماہ کے مسلسل روزے رکھو۔“ اس نے کہا: میں اس کی استطاعت نہیں رکھتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر ساٹھ مسکینوں کو کھلاؤ۔“ اس نے کہا: میرے پاس اس کی وسعت نہیں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجور کا ایک عرق، یعنی ٹوکرا لایا گیا۔ ابراہیم نے بتایا کہ «عرق» ایک بیان ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : سوال کرنے والا کہاں ہے ؟ لو اس کو (ضرورت مندوں میں) صدقہ کر دو۔ اس نے کہا: کیا میں اس پر صدقہ کروں جو مجھ سے زیادہ محتاج ہے ؟ الله کی قسم ! مدینہ میں ہم سے زیادہ محتاج کوئی نہیں ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ کی داڑھیں نظر آ گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تب تم ہی لوگ اس کو استعمال کرو۔“

❀ «عن جرير، قال: ما حجبني النبى صلى الله عليه وسلم منذ اسلمت، ولا رآني إلا تبسم فى وجهي. ولقد شكوت إليه أني لا أثبت على الخيل، فضرب بيده فى صدرى، وقال: اللهم ثبته واجعله هاديا مهديا. » [متفق عليه: رواه البخاري 6089. ومسلم 2475: 135.]
حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب سے میں نے اسلام قبول کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (اپنے پاس آنے سے) کبھی نہیں روکا۔ اور جب بھی مجھے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے، میں نے شکایت کی کہ میں گھوڑے پر جم کر نہیں بیٹھ پاتا ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارکہ میرے سینے پر مارا، اور یوں دعا فرمائی: «اللهم ثبته واجعله هاديا مهديا» ”اے الله! اسے ثبات عطا فرما، اور اس کو سیدھی راہ دکھانے والا اور ہدایت یافتہ بنا۔“

❀ « عن انس رضي الله عنه، ان رجلا جاء إلى النبى صلى الله عليه وسلم يوم الجمعة وهو يخطب بالمدينة، فقال: قحط المطر فاستسق ربك، فنظر إلى السماء وما نرى من سحاب فاستسقى، فنشا السحاب بعضه إلى بعض ثم مطروا، حتى سالت مثاعب المدينة فما زالت إلى الجمعة المقبلة ما تقلع، ثم قام ذلك الرجل او غيره والنبي صلى الله عليه وسلم يخطب، فقال: غرقنا فادع ربك يحبسها عنا، فضحك ثم قال: اللهم حوالينا ولا علينا مرتين او ثلاثا، فجعل السحاب يتصدع عن المدينة يمينا وشمالا يمطر ما حوالينا ولا يمطر منها شيء، يريهم الله كرامة نبيه صلى الله عليه وسلم وإجابة دعوته. » [متفق عليه: رواه البخاري 6093 و 1014، ومسلم 897: 8.]
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ایک صاحب جمعہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں خطبہ ارشاد فرمارہے تھے۔ انھوں نے عرض کیا: قحط سالی پڑی ہے (بارش نہیں ہو رہی ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے بارش کے لیے دعا فرمائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف دیکھا، ہمیں کہیں بادل نظر نہیں آرہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کے لیے دعا فرمائی۔ اتنے میں گھنے بادل چھا گئے، اور بارش ہو گئی، یہاں تک کہ مدینہ کے نالے بہنے لگے۔ آئندہ جمعہ کی مسلسل بارش ہوتی رہی۔ پھر وہی یا کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوا، جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرمارہے تھے، تو اس نے عرض کیا: ہم ڈوب گئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے دعا فرمائیں کہ ہم سے بارش روک لے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دیے۔ اور یوں دعا فرمائی: «الله حوالينا ولا علينا» ”اے اللہ ! ہمارے چاروں طرف بارش ہو اور ہم پر نہ ہو۔“ دو یا تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا : تو بادل مدینہ منورہ کی دائیں اور بائیں طرف چھٹنے لگے، ہمارے اطراف و اکناف بارش ہوتی رہی لیکن ہمارے پاس بالکل بند رہیں۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اپنے نبی کی کرامت اور ان کی دعا کی قبولیت دکھاتا ہے۔
——————

«باب الجود والكرم والسخاء»
جود و کرم اور سخاوت کا بیان
❀ «عن جابر رضي الله عنه، قال: ما سئل النبى صلى الله عليه وسلم عن شيء قط، فقال: لا» [متفق عليه: رواه البخاري 6034، ومسلم 2311.]
حضرت جابر بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا: ایسا کبھی نہیں ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز مانگی ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو : نہیں۔

❀ «عن سهل بني سعد قال جاءت امرأة إلى النبى صلى الله عليه وسلم ببردة فقال سهل للقوم أتدرون ماالبردة فقال القوم هي الشملة فقال سهل هي شملة منسوجة فيها حاشيتها فقالت يارسول الله اكسوك هذه فأخذها النبى صلى الله عليه وسلم محتاجا إليها فلبسها فرآها عليه رجل من الصحابة فقال كيا يا رسول الله ما أحسن هذه فاكسنيها فقال نعم فلما قام النبى صلى الله عليه وسلم لامه اصحاب قالوا ما أحسنت حين رايت النبى صلى الله عليه وسلم اخذها محتاجا إليها سألته إياها وقد عرفت أنه لا يسأل شيئا فيمنعه فقال رجوت بركتها حين لبسها النبى صلى الله عليه وسلم أكفن فيها.» [صحيح: رواه مسلم 6036.]
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہما نے بیان فرمایا: ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک چادر لے آئی۔ سہل نے لوگوں سے پوچھا: جانتے ہو «برده» چادر کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا: وہ ”شملہ“ہے تو سہل نے فرمایا: وہ ہاتھ سے بنی ہوئی چادر ہے جس میں اس کا جھالر ہو تا ہے، تو اس عورت نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! میں یہ چادر آپ کو پہنانا چاہتی ہوں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چادر کی ضرورت محسوس کر کے لے لی۔ پھر اس کو زیب تن فرمایا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ چادر دیکھی تو فرمایا: یہ کیا ہی خوبصورت چادر ہے۔ یہ مجھے پہنا دیجیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھیک ہے۔“ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجلس سے اٹھے، تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سرزنش کی۔ انھوں نے کہا: تم نے یہ ٹھیک نہیں کیا۔ جب تم نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنی ضرورت سمجھ کر قبول فرما لیا ہے تو تم نے اسی چیز کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کر دیا اور تم یہ بھی بخوبی جانتے ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی کچھ مانگتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں روکتے ہیں۔ اس شخص نے کہا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہنی ہوئی اس چادر سے برکت حاصل کرنی چاہی، تاکہ میں اس میں کفنایا جاؤں۔

❀ «عن اسماء بنت ابي بكر رضي الله عنهما، انها جاءت إلى النبى صلى الله عليه وسلم , فقالت: يا نبي الله ليس لي شيءالا ما دخلن على الزبير فهل على جناح ان ارضخ مما يدخل على ؟ فقال : ارضخي ما استطعت ولا توعي فيوعي الله عليك» [متفق عليه: رواه البخاري 1434. ومسلم 1029: 29.]
حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہنے لگیں، اے اللہ کے نبی ! میرے پاس کچھ نہیں ہے، سوائے میرے شوہر زبیر کی آمدنی کے، تو ان کی آمدنی جو میرے پاس ہے اس میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے میں مجھ پر کچھ گناہ ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جہاں تک ہو سکے خرچ کرتی رہو، اور مال کو باندھ کر نہ رکھنا، ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تم پر بندش لگا دے گا۔“

❀ «عن عائشة ان سائلا سأل قالت : ايتال، فامرت الخادم فاخرج له شيئا قالت : فقال النبى صلى الله عليه وسلم لها : يا عائشة، لا تحصي فيصحي الله عليك» [صحيح: رواه أحمد 24418، وابن حبان 365، وأبو يعلى 4463.]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک سائل نے کچھ مانگا، تو میں نے خادم سے کہا: اسے کچھ دے دو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اے عائشہ ! سینت سینت کر نہ رکھو، ورنہ الله تعالیٰ بھی تمھارے ساتھ یہی معاملہ فرمائے گا۔“

❀ « عن سهل بن سعد،، قال : قال رسول الله : إن الله كريم يحب الكرم، وقال الأخلاق ويكره سفسافه» [صحيح: رواه ابن قانع فى معجم الصحابة 269/1، والطبراني فى الكبير 223/6]
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقیناً اللہ تعالیٰ کریم ہے، سخاوت اور اونچے اخلاق کو پسند فرماتا ہے اور گھٹیا اخلاق کو ناپسند کرتا ہے۔“
——————

«باب ماجاء فى الشكر على المعروف »
کسی کے حسن سلوک پر اس کا شکریہ ادا کیا جائے
❀ «عن ابي هريرة، عن النبى صلى الله عليه وسلم، قال: لا يشكر الله من لا يشكر الناس.» [صحيح: رواه أبو داود 4811 والترمذي 1954، وأحمد 7504، وصححه ابن حبان 3407.]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر
نہیں بجا لاتا۔“

❀ «عن النعمان بن بشير قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم على المنبر : من لم يشكر القليل، لم يشكر الكثير ومن لم يشكر الناس لم يشكر الله التحدث بنعمة الله شكر، وتركها كفر، والجماعة رحمة، والفرقة عذاب» [حسن: رواه عبيد الله بن أحمد فى زوائد المسند 18449، 19351، والبزار كشف الأستار 1637.]
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر ارشاد فرمایا: ”جو شخص معمولی بات پر شکریہ ادا نہیں کرتا، وہ کسی بڑی بات پر بھی شکریہ ادا نہیں کر سکتا۔ اور جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر نہیں بجا لاتا۔ انعامات الہی کا تذکرہ کرنا بھی شکر ہے اور اس کا تذکرہ نہ کرنا ناشکری ہے، جماعت رحمت ہے اور فرقہ بندی عذاب ہے۔“

❀ « عن جرير بن الله قال: قال رسول الله ؟ من لم يشكر الناس، لم يشكر الله.» [صحيح: رواه الطبراني فى الكبير 408/2]
حضرت جریر بن عبد الله سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کیا، اس نے اللہ کا بھی شکر نہیں بجا لایا۔“

❀ «عن الأشعث بن قيس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا يشكر الله من لا يشكر الناس. » [حسن رواه أحمد 21838.]
حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا، وہ اللہ کا بھی شکر بجا نہیں لائے گا۔“

❀ «عن جابر بن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من اعطي عطاء فوجد فليجز به، فإن لم يجد فليثن به، فمن اثنى به فقد شكره ومن كتمه فقد كفره.» [حسن: رواه أبو داود 1813.]
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے کوئی ہدیہ دیا جائے، اگر میسر ہو تو وہ اس کا بدلہ دے۔ اگر میسر نہ ہو تو اس کی تعریف کرے۔ جس نے اپنے محسن کی تعریف کی، اس نے اس کا شکریہ ادا کیا جس نے اس کے احسان کو چھپایا اس نے اس کی ناشکری کی۔“

❀ « عن جابر، عن النبى صلى الله عليه وسلم، قال: من ابلي بلاء فذكره فقد شكره، وإن كتمه فقد كفره.» [حسن رواه أبو اود 4814.]
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی پر کوئی احسان کیا اور اس احسان مند نے اپنے محسن کے احسان کا ذکر کیا تو اس نے اس کا شکریہ ادا کر دیا۔ اور اگر اس نے اس کے احسان کو چھپایا تو اس نے اس کی ناقدری کی۔“
——————

« باب ما جاء فى الحلم والأناة والتأني »
بردباری، سنجیدگی اور سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتا
✿ «قال الله تعالى:»
«إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُّنِيبٌ » [سورة هود: 75]
”واقعی ابراہیم بڑے بردبار، نرم دل اور اللہ سے لو لگانے والے تھے۔“

❀ « عن ابن عباس عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه قال : للاشج أشج عبد القيس إن فيك خصلتين يحبهما الله الحلم والانا. ص» [حيح: رواه مسلم 17: 25.]
حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اشج سے یعنی عبد القیس کے اشج سے فرمایا: ”یقیناً
تمھارے اندر دو خوبیاں ہیں جنھیں الله تعالیٰ پسند فرماتا ہے۔ بردباری اور سوچ سمجھ کر کام کرنا۔“

❀ «عن أبى سعيد الخدري قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم لأشج عبد القيس إن فيك لخصلتين يحبهما الله الحلم والاناة.» [صحيح: رواه مسلم 18: 26.]
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشج عبد القیس سے فرمایا: ”تمھارے اندر دو خصلتیں ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے، بردباری اور سوچ سمجھ کر کام کرنا۔“

❀ «عن عبد الله بن سرجس المزني، ان النبى صلى الله عليه وسلم قال: السمت الحسن والتؤدة والاقتصاد جزء من اربعة وعشرين جزءا من النبوة» [حسن: رواه الترمذي 2010، وعبد بن حميد 512]
حضرت عبد اللہ بن سرجس مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھی ہیت، سنجیدگی اور میانہ روی نبوت کے درجوں میں سے چوبیسواں در جہ ہے۔“

❀ «عن عبد الله بن عباس: ان نبي الله صلى الله عليه وسلم، قال: إن الهدي الصالح، والسمت الصالح، والاقتصاد، جزء من خمسة وعشرين جزءا من النبوة» [حسن: رواه أبو داود 4776، وأحمد 2698، والبخاري فى الأدب المفرد 791.]
حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”نیک چلن اور اچھی خصلت اور میانہ روی نبوت کے درجوں میں سے ہونے والا درجہ ہے۔“
——————

« باب خير الناس من يرجي خيره ويؤمن شره »
لوگوں میں بہتر وہ شخص ہے جس سے خیر کی توقع کی جائے اور لوگ اس کے شر سے محفوظ ہوں
❀ « عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم وقف على اناس جلوس، فقال: الا اخبركم بخيركم من شركم؟ قال: فسكتوا، فقال ذلك ثلاث مرات، فقال رجل: بلى يا رسول الله، اخبرنا بخيرنا من شرنا، قال: خيركم من يرجى خيره ويؤمن شره، وشركم من لا يرجى خيره ولا يؤمن شره.» [حسن: رواه الترمذي 2263، وأحمد 8812، 8920، وصححه ابن حبان 527، 528.]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے بیان فرمایا: بیٹھے ہوئے کچھ لوگوں کے پاس رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جا کر کھڑے ہوئے اور پوچھا: کیا تم میں کے اچھے اور برے آدمی کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ سب لوگ خاموش ہو گئے۔ پھر اس بات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ دہرایا تو ایک شخص نے عرض کیا : ہاں کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! آپ ہمارے اچھے اور برے شخص کے بارے میں بتایئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں بہتر وہ بھی ہے جس سے خیر کی امید کی جائے اور اس کے شر سے لوگ محفوظ ہوں۔ اور تم میں برا شخص وہ ہے جس سے خیر کی توقع نہ رکھی جائے اور نہ لوگ اس کے شر سے محفوظ ہوں۔“
——————

«باب ماجاء فى إصلاح ذات البين»
لوگوں کے درمیان اصلاح کا بیان
✿ «قال الله تعالى:»
«وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ» [الأنفال: 1]
”اورآپسی تعلقات بہتر رکھو۔“

❀ «عن سهل بن سعد : ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ذهب إلى بني عمرو بن عوف ليصلح بينهم، وحانت الصلاة.» [متفق عليه: رواه مالك فى قصر الصلاة فى السفر 61 والبخاري 684. ومسلم 102:421]
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بنو عمرو بن عوف کے پاس ان کے درمیان صلح کرانے کی غرض سے تشریف لے گئے اور نماز کا وقت ہو گیا۔

❀ «عن سهل بن على رضى الله عنه أن أهل قباء اقتتلو حتي تراموا بالحجارة فاخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم بذلك فقال اذهبوا بنا نصلح بينهم.» [صحيح: رواه البخاري 2693]
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا: قبا والوں نے لڑائی کی، یہاں تک کہ آپس میں سنگ باری کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے ساتھ چلو کہ ہم ان کے در میان صلح کرا دیں۔“

❀ «عن ابي الدرداء، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الا اخبركم بافضل من درجة الصيام والصلاة والصدقة؟ , قالوا: بلى يا رسول الله، قال: إصلاح ذات البين وفساد ذات البين الحالقا.» [صحيح: رواه أبو داود 4919. والترمذي 2640]
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمھیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل کے بارے میں نہ بتاؤں؟“ انھوں نے عرض کیا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ہے: آپسی تعلقات کو بحال کرنا اور آپسی اختلاف (روابط کی عدم استواری) تو مونڈھ دینے والی چیز ہے۔“

❀ «عن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال ما عمل ابن آدم شيئا أفضل من الصلاة وصلاح ذات البين وخلق حسن. » [حسن: رواه البخاري فى التاريخ الكبير 63/1 ومن طريقه البيهقي فى الشعب 10580]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن آدم نے نماز، آپسی تعلقات کی استواری اور اچھے اخلاق سے بہتر کوئی عمل نہیں کیا۔“
——————

اس تحریر کو اب تک 10 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply