اولاد، والدین، بیوی، خاوند اور پڑوسی وغیرہ کے حقوق

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ

الدِّينُ النَّصِيحَةُ [صحيح مسلم/الديان : 196 ]
”دین خیر خواہی کا نام ہے۔ “
فوائد :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مذکورہ بالا حدیث بیان کی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسو ل اللہ ! کس کے لئے خیر خواہی کی جائے ؟ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یہ خیرخواہی اللہ، اس کے رسول، اہل اسلام حکمرانوں اور عام مسلمانوں کے ساتھ ہونی چاہئے۔ “
اللہ کے ساتھ خیرخواہی یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ اس کے علاوہ اس کی طرف سے آمدہ اوامر و نواہی کی فرمانبرداری کی جائے۔ رسول سے خیر خواہی یہ ہے کہ اس کی انتہائی تعظیم و تکریم کی جائے۔ اسے اللہ کا نمائندہ خیال کرتے ہوئے اس کی بات کو آخری اتھارٹی کے طور پر مانا جائے، اہل اسلام حکمرانوں سے خیر خواہی یہ ہے کہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے ان کا کہنا مانا جائے، کھلے کفر کے علاوہ کسی بھی صورت میں ان سے بغاوت نہ کی جائے، عامۃ المسلمین سے خیر خواہی یہ ہے کہ انہیں دین سکھایا جائے۔ ان میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو رواج دیا جائے، نیز ان کی ضروریات کا خیال رکھا جائے چنانچہ سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز پڑھنے، زکوٰۃ دینے اور ہر مسلمان سے خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔ [صحيح بخاري /الايمان : 57 ]
عربی زبان میں پھٹے ہوئے کپڑے کو پیوند لگانا نصیحت کہلاتا ہے۔ نیز جب شہد سے موم کو الگ کیا جائے تو اس وقت بھی نصیحت کا لفظ بولا جاتا ہے۔ شرعی طور پر کسی انسان کو اس کے عیوب پر اخلاص کے ساتھ مطلع کرنے کو نصیحت کہتے ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی پردہ دری مقصود نہ ہو، اگر خیر خواہی میں اخلاص نہ ہو تو اسے دھوکہ دہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال اللہ کے ہاں ہر مسلمان کے ساتھ خیرخواہی کرنے کا جذبہ بہت محبوب عمل ہے۔

اولاد کے حقوق

فَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ [صحيح البخاري/كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا : 2587 ]
”اولاد کے سلسلہ میں اللہ سے ڈرو اور ان کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کرو۔ “
فوائد :
اللہ کی طرف سے اولاد بہت بڑا عطیہ ہے جو والدین کو دیا جاتا ہے۔ لہٰذا والدین پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس عطیہ الہٰی کی پاسداری کریں اور ان کے حقوق کا خیال رکھیں۔ اولاد کے پیدا ہوتے ہی ان کے حقوق کا آغاز ہو جاتاہے، جو درج ذیل ہیں۔
➊ پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان دی جائے تاکہ وہ اللہ کے نام اور اس کی توحید سے آشنا ہو جائے۔
➋ کسی نیک اور صالح بندے سے خیر و برکت کی دعا کرائیں اور اسے گھٹی دلوائیں۔
➌ اس کا عقیقہ کیا جائے اور اچھا سا اسلامی نام تجویز کیا جائے۔
➍ اس کی تعلیم و تربیت کی طرف خصوصی توجہ دی جائے تاکہ وہ والدین کے لئے صدقہ جاریہ بن سکے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ”اے ایمان والو ! تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔ “ [التحريم : 6 ]
اہل و عیال کو جہنم سے بچانے کی بہترین تدبیر یہ ہے کہ انہیں اسلامی تعلیم اسے آراستہ کیا جائے اور ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
أَكْرِمُوا أَوْلَادَكُمْ , وَأَحْسِنُوا أَدَبَهُمْ
”اپنی اولاد کی عزت نفس کا خیال رکھو اور انہیں اچھے آداب و اخلاق سکھاؤ۔ “ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب : 3671]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”جس پر اللہ کی طرف سے بیٹیوں کی ذمہ داری ڈالی گئی تو اس نے ان کے ساتھ حسن سلوک کیا تو یہ بیٹیاں اس کے لئے آگ سے بچاؤ کا ذریعہ بن جائینگی۔ “ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ : 5995 ]
والدین کے حقوق

إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ عُقُوقَ الْأُمَّهَاتِ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ : 5975 ]
”اللہ تعالیٰ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی کرنے کو حرام کر دیا ہے۔ “
فوائد :
قرآن مجید میں بار بار اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ بعض مقامات پر اللہ کی عبادت کے ساتھ والدین سے حسن سلوک کو بیان کیا گیا ہے :
”تمہارے رب کا قطعی فیصلہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔ “ [بني اسرائيل : 23 ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ والدین سے حسن سلوک کو بایں الفاظ میں بیان کیا :
عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : رَغِمَ أَنْفُ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ، قِيلَ : مَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟، قَالَ : مَنْ أَدْرَكَ أَبَوَيْهِ عِنْدَ الْكِبَرِ أَحَدَهُمَا أَوْ كِلَيْهِمَا فَلَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ
”اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو۔ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ! کس کی ؟ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو اپنے والدین میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو بڑھاپے کی حالت میں پائے، پھر ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے جنت میں داخل نہ ہو سکے۔ “ [صحيح مسلم/كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ : 6510 ]
ماں باپ اگر کافر بھی ہوں تو بھی ان کا حق خدمت ساقط نہیں ہوتا، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
”اگر وہ تجھے میرے ساتھ شرک کرنے پر مجبور کریں، جس کا تجھے علم نہیں تو ان کی بات کو نہ مانا جائے، مگر دنیوی معاملات میں پھر بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ “ [لقمان : 15 ]
ان کے فوت ہونے کے بعد حسن سلوک کی یہ صورت ہے کہ ان کے دوستوں سے اچھا برتاؤ کیا جائے۔ چنانچہ حدیث میں ہے :
إِنَّ مِنْ أَبَرِّ الْبِرِّ صِلَةَ الرَّجُلِ أَهْلَ وُدِّ أَبِيهِ بَعْدَ أَنْ يُوَلِّيَ
”آدمی کا اپنے والد کے فوت ہونے کے بعد اس کے دوستوں سے صلہ رحمی کرنا سب سے بڑی نیکی ہے۔ “ [صحيح مسلم/كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ : 6515]
خاوند کے حقوق

الْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ زَوْجِهَا وَهِيَ مَسْئُولَةٌ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ: 5188]
”عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے، اس سے باز پرس کی جائے گی۔ “
فوائد :
انسانوں کے باہمی تعلقات میں میاں بیوی کے تعلق کی جو خاص نوعیت و اہمیت ہے وہ کسی وضاحت کی محتاج نہیں ہے، زندگی کا سکون اور دل کا اطمینان بڑی حد تک اسی تعلق کی خوشگواری پر موقوف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس تعلق کو اپنی معرفت کی ایک نشانی قرار دیا ہے۔ ارشاد باری ہے :
”اللہ تعالیٰ کی یہ نشانی ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لئے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔ “ [الروم 21 ]
اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی میں اس قدر کشش رکھ دی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے الگ رہ کر سکون حاصل نہیں کر سکتے یعنی یہ دونوں ایک دوسرے کے طالب بھی ہیں اور مطلوب بھی۔ اس تعلق کا تقاضا ہے کہ بیوی اپنے شوہر کو سب سے بالاتر خیال کرے، اس کی وفادار رہے، اس کی خیرخواہی اور رضا جوئی میں کمی نہ کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کے لیے اس کے شوہر کو جنت اور دوزخ قرار دیا ہے۔ [مستدرك حاكم ص 189 ج 2]
خاوند کی اطاعت گزاری بیوی کے لیے جنت اور اس کی دل آزادی اس کے لیے دوزخ کا باعث ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں کسی کو کسی مخلوق کے لیے سجدے کا حکم دیتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ [سنن ترمذي/كتاب الرضاع: 1159 ]
بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوہر کی خدمت گزاری کو بایں الفاظ بیان کیا ہے :
أَيُّمَا امْرَأَةٍ مَاتَتْ وَزَوْجُهَا عَنْهَا رَاضٍ دَخَلَتِ الْجَنَّةَ
”جو عورت اس حال میں فوت ہوئی کہ اس کا شوہر اس سے راضی تھا تو وہ جنت میں داخل ہو گی۔ “ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح: 1854]
بیوی کے حقوق

إِنَّ لِزَوْرِكَ عَلَيْكَ حَقًّا
” تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ “ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ: 1974]
فوائد :
اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا : ”اے عبد اللہ ! مجھے تیرے متعلق یہ خبر پہنچی ہے کہ تم دن میں روزے سے ہوتے ہو اور رات کو نماز میں کھڑے رہتے ہو، کیا یہ صحیح ہے ؟ “ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ صحیح ہے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ایسا مت کرو، روزہ بھی رکھو اور افطار بھی کرو، رات کو قیام بھی کرو اور آرام بھی کرو، یقیناً تمہارے جسم کا تم پر حق ہے۔ تمہاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ “ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ: 5099]
میاں بیوی کا رشتہ بہت نزدکت کا حامل ہے۔ شیطان لعین کی انتہائی کوشش ہوتی ہے کہ اس میں دراڑ ڈال دی جائے، یہی وجہ ہے کہ اس کا کارندہ اگر میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو ابلیس اسے گلے لگا کر اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ [صحيح مسلم /المنافقين : 2803 ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگو ! اپنی بیویوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو، تم نے انہیں اللہ کی امان کے ساتھ اپنے عقد میں لیا ہے۔ تمہارے ذمے مناسب طریقہ سے ان کے کھانے پینے اور لباس وغیرہ کا بندوبست کرنا ہے۔ [صحيح مسلم، الحج : 1218 ]
اس کا مطلب یہ ہے کہ شوہر اپنی حیثیت اور معاشرے کے دستور کے مطابق اپنی بیوی کی ضروریات کو پورا کرے۔ اس معاملہ میں بخل و کنجوسی سے کام نہ لے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی ایمان والا شوہر اپنی ایماندار بیوی سے نفرت نہیں کرتا، اگر اس کی کوئی عادت ناپسند ہو گی تو دوسری کوئی عادت پسند بھی ہو گی۔ [صحيح مسلم/الرضاع : 3645 ]
قرآن کریم نے بھی یہی تلقین کی ہے کہ بیویوں کے ساتھ مناسب طریقہ سے گزر بسر کرو۔ [النساء : 19 ]
پڑوسی کے حقوق

لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ، مَنْ لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ
”وہ آدمی جنت میں نہیں جا سکے گا جس کی شرارتوں سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔ “ [صحيح مسلم/الايمان : 172 ]
فوائد :
انسان کا اپنے والدین، اپنی اولاد اور قریبی رشتہ داروں کے علاوہ ایک مستقل تعلق پڑوسیوں سے بھی ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ تعلقات کی اچھائی یا بگاڑ کا زندگی کے چین و سکون اور اخلاق کے بناؤ بگاڑ پر بہت اثر پڑتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تعلق کو بڑی عظمت سے نوازا ہے اور اس کے اعزاز و احترام کی بہت تاکید کی ہے۔ درج بالا حدیث میں پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کو داخلہ جنت کی شرط قرار دیا ہے۔ ایک حدیث میں اس تعلق کو جزو ایمان قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ کی قسم ! وہ شخص مومن نہیں، اللہ کی قسم ! وہ شخص مومن نہیں، اللہ کی قسم ! وہ شخص صاحب ایمان نہیں . . . “ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ! کون شخص ؟ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ آدمی جس کے پڑوسی اس کی ایذا رسانیوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ “ [صحيح بخاري/الادب : 6061 ]
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تعلق کی اہمیت کو بایں الفاظ اجاگر فرمایا :
”حضرت جبریل علیہ السلام پڑوسی کے حق میں مجھے مسلسل وصیت و تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ میں خیال کرنے لگا کہ وہ اس کو میرا وارث قرار دے دیں گے۔ “ [صحيح بخاري/الادب : 6014 ]
پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی اس تاکید میں تمام پڑوسی شامل ہیں خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے متعلق حدیث میں ہے کہ ایک دن ان کے گھر بکری ذبح ہوئی تو انہوں نے گھر والوں سے کہا : تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کے لئے بھی گوشت کا ہدیہ بھیجا ہے۔ آپ اس جملہ کو باربار دہراتے رہے۔ [ترمذي/البر والصله : 1943 ]
مسلمانوں کے حقوق

الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ
”مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں۔ “ [صحيح بخاري/الايمان : 10 ]
فوائد :
اس حدیث میں مسلمان کی ذمہ داری بیان کی گئی ہے کہ اس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان کو تکلیف نہیں ہونی چاہئے۔ اس میں زبان اور ہاتھ سے ایذا نہ پہنچانے کا حکم ہے کیونکہ ایذا کا تعلق اکثر انہی دو سے ہوتا ہے۔ بصورت دیگر یہ مطلب نہیں ہے کہ پاؤں وغیرہ سے ایذا رسانی جائز ہے بلکہ مطلق طور پر ایذا رسانی حرام ہے۔ الغرض اسلام کا ہم سے مطالبہ ہے کہ بلاوجہ کسی مسلمان کو تکلیف نہ دی جائے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مسلمان کو افضل قرار دیا جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوتے ہیں۔ [صحيح مسلم/الايمان : 163 ]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ہر مسلمان، دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ خود اس پر ظلم و زیاتی کرے، نہ دوسروں کا مظلوم بننے کے لیے اسے بےیار و مددگار چھوڑے اور نہ اس کی تحقیر کرے۔ “ [صحيح مسلم/البر والصله : 2564 ]
اسلامی رشتے کی وجہ سے چند خاص حقوق بھی احادیث میں بیان ہوئے ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں، سلام کا جواب دینا، بیمار کی عیادت کرنا، جنازے کے ساتھ جانا، دعوت قبول کرنا اور چھینک آنے پر يرحمك الله کہہ کر اس کے لئے دعا رحمت کرنا۔ “ [صحيح بخاري/الجنائز : 1240 ]
یہ پانچ چیزیں ایسی ہیں جن سے وہ مسلمانوں کا باہمی تعلق ظاہر ہوتا ہے اور نشوونما پاتا ہے۔ اس لئے ان کا خاص اہتمام کیا جائے، دیگر احادیث میں ان پانچ کے علاوہ اور چیزوں کا بھی ذکر ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اور باتیں بھی ان حقوق میں شامل ہیں۔
عام انسانوں کے حقوق

مَنْ لَا يَرْحَمُ لَا يُرْحَمُ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ: 6013]
” اس شخص پر رحم نہیں کیا جائے گا جو خود کسی پر رحم نہیں کرتا۔ “ [صحیح بخاری/الادب : 6013 ]
فوائد :
اس حدیث میں ان لوگوں کے لئے سخت وعید ہے جو دوسرے قابل رحم انسانوں کے ساتھ رحم نہیں کرتے اور ان کی تکلیف و ضرورت کو محسوس کر کے اپنی ہمت کے مطابق ان کی مدد اور خدمت نہیں کرتے۔ ایک روایت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے لئے بددعا کی ہے جو دوسروں کو مصیبت میں دیکھ کر ان پر رحم نہیں کرتا، حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
” ایسے لوگ اللہ کی رحمت سے محروم رہیں جو دوسروں پررحم نہیں کرتے۔ “ [صحيح بخاري/التوحيد : 7376 ]
واضح رہے کہ چوروں، ڈاکوؤں اور رہزنوں کو سزا دینا اور قاتلوں کو قصاص میں قتل کرنا حدیث میں بیان کردہ جذبہ ترحم کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ بھی انسانوں کے ساتھ رحم ہی کا تقاضا ہے، اگر انہیں سزا نہ دی جائے تو عوام ان کے ظلم و ستم کا مزید نشانہ بنیں گے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
” اے عقل والو ! تمہارے لئے قانون قصاص میں زندگی کا سامان ہے۔ “ [البقره : 179 ]
انسان ہونے کے ناطے سے تمام مصیبت زدہ قابل رحم ہیں، جو ایسے حالات میں دوسروں پر رحم کرتے ہیں اللہ ان پر اپنی رحمتیں نازل کرتا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
”اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں پر رحم کرتا ہے جو دوسروں کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ “ [صحيح بخاري/الجنائر : 1284 ]
ایک حدیث میں بڑے ہی بلیغ انداز میں زمین میں بسنے والی تمام مخلوق کے ساتھ رحم کی ترغیب دی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”تم زمین والی مخلوق کے ساتھ رحم کا معاملہ کرو، آسمان والا تم پر رحمت کرے گا۔ “ [ترمذي/البر والصلة : 1924 ]
حیوانات کے حقوق

فِي كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجْرٌ
”بلاشبہ ہر جانور کے کھلانے پلانے میں ثواب ہے۔ “ [صحيح بخاري/الادب : 6009 ]
فوائد :
حدیث کا سبب و رود یہ ہے کہ ایک آدمی راستے میں جا رہا تھا، اس دوران میں اسے شدت کی پیاس لگی، اس نے ایک کنواں دیکھا تو اس میں اتر کر اس نے پانی پیا، جب باہر نکلا تو اس نے ایک کتا دیکھا جو ہانپ رہا تھا اور شدت پیاس کی وجہ سے گیلی مٹی چاٹ رہا تھا، اس شخص نے خیال کیا کہ اس کتے کو پیاس سے وہی تکلیف پہنچی ہو گی جو مجھے پہنچی تھی، چنانچہ وہ کنویں میں اترا، اپنے جوتے میں پانی بھرا اور منہ سے پکڑ کر اسے باہر لایا، پھر کتے کو پلایا، اللہ تعالیٰ نے اس کے عمل کی قدر کرتے ہوئے اسے بخش دیا۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا ہمیں جانوروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا بھی اجر ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہر تر جگر رکھنے والے کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے میں اجر ملے گا۔ “ [صحيح مسلم/السلام : 2244 ]
اسی طرح کا ایک واقعہ بدچلن عورت کے متعلق بھی احادیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کتے کو پانی پلانے کی وجہ سے اسے معاف کر دیا۔ [صحيح مسلم/السلام : 2235 ]
ان واقعات سے یہ سبق ملتا ہے کہ کتے جیسی مخلوق کے ساتھ بھی اگر اچھا برتاؤ کیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کے حصول کا باعث ہو گا اور بندہ اس کا اجر و ثواب پائے گا۔ ایک حدیث میں مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” جو مسلمان کوئی پھلدار درخت لگاتا ہے پھر اس سے انسان اور حیوانات کھاتے ہیں تو لگانے والے کے لئے وہ صدقہ بن جاتا ہے۔ “ [صحيح بخاري/الادب : 6012 ]
ایک روایت میں پرندوں کے کھانے کا بھی ذکر ہے کہ اس سے ثواب ملتا ہے۔ [صحيح بخاري/الحدث و المزروعة : 2320 ]
ان احادیث سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسانوں کے علاوہ اللہ کے پیدا کئے ہوئے سب جانوروں، پرندوں اور چوپایوں کو کھلانا پلانا بھی صدقہ اور کار ثواب ہے۔
اسلامی اخوت اور ہمدردی

الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ: 6026]
”مومن دوسرے مومن کے لئے ایک دیوار کی طرح ہے جس کے اجزا ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں۔ “ [صحيح بخاري/الادب : 6026 ]
فوائد :
اس امت کے افراد کو دینی اخوت اور مخلصانہ ہمدردی کی بناء پر ایک برادری کی حیثیت دی گئی ہے۔ یہ اس صورت میں ممکن ہے جب اس کے افراد باہمی خیرخواہی اور بےلوث تعاون کے ذریعے ایک وحدت بنے رہیں اور ان کے دل آپس میں جڑے رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا حدیث میں اسی حیثیت کو نمایاں کیا ہے، چناچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان والوں کے اس باہمی تعلق کا نمونہ دکھانے کے لئے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال دیں اور بتایا کہ مسلمانوں کو اس طرح باہم مل کر ایک ایسی مضبوط دیوار بن جانا چاہئیے جس کی اینٹیں باہم پیوستہ اور ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہوں اور ان میں کہیں خلا نہ ہو۔ ایمان والوں کی یہی صفت قرآن مجید میں بایں الفاظ بیان ہوئی ہے :
رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ
” وہ آپس میں ایک دوسرے کے لئے رحم دل ہیں۔ “ [الفتح : 29 ]
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی اسی حیثیت کو یوں نمایاں فرمایا ہے :
”ایمان والوں کو باہم ایک دوسرے پر رحم کھانے، محبت کرنے اور ایک دوسرے سے الفت رکھنے میں تم انسانی جسم کی طرح دیکھو گے جب اس کے کسی ایک عضو میں تکلیف ہو تو جسم کے باقی اجزا بھی بخار اور بےخوابی میں اس کے شریک ہوتے ہیں۔ “ [صحيح بخاري/الادب : 6011 ]
اس کا مطلب یہ ہے اہل ایمان میں باہمی ایسی محبت و مروت، ایسی ہمدردی اور ایسا تعلق ہونا چاہئے کہ دیکھنے والی ہر آنکھ ان کو اس حال میں دیکھے کہ اگر ان میں سے کوئی ایک مصیبت میں مبتلا ہو تو سب اس کو اپنی مصیبت خیال کریں اور سب اس کی بےچینی میں شریک ہوں۔ والله المستعان

اس تحریر کو اب تک 4 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply