امتحانات کی وجہ سے روزہ چھوڑنے کا حکم

سوال : میں ایک جوان لڑکی ہوں، میں نے امتحانات کی وجہ سے رمضان میں مجبوراً چھ دن کے صیام چھوڑ دئیے۔ کیوں کہ امتحان رمضان میں شروع ہو ا اور مضامین مشکل تھے۔ اور اگر ان دنوں میں میں نے افطار نہ کیا ہوتا تو مضامین کے مشکل ہونے کی وجہ سے تیاری نہ کر سکتی۔ امید کہ آپ میری رہنمائی فرمائیں گے کہ میں کیا کروں جس سے اللہ تعالیٰ مجھے معاف کر دے ؟ اللہ تعالیٰ آپ کو بہتر بدلہ عطا فرمائے۔
جواب : مذکورہ بالا کوتاہی کی وجہ سے آپ پر توبہ کرنا اور چھوڑے ہوئے صیام کی قضا کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ توبہ کر نے والوں کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ اور جس توبہ سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹاتا ہے اس کی حقیقت درج ذیل ہے :
① اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اس کے عذاب کے خوف سے گناہوں کو مکمل طور پر چھوڑ دینا۔
② ماضی کے گناہ اور غلطی پر ندامت اور شرمندگی کا ہونا۔
③ آئندہ اس گناہ کے نہ کرنے کا پکا ارادہ کرنا۔
④ اور اگر اس معصیت کا تعلق بندوں کے ساتھ ظلم و زیادتی سے ہو تو اس حق سے بری الذمہ ہونا بھی ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
وَتُوبُوا إِلَى اللَّـهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [24-النور:31]
”اے مسلمانو ! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ۔“
نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّـهِ تَوْبَةً نَصُوحًا [66-التحريم:8]
”اے ایمان والو ! تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو۔ “
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
التوبة تجب ماقبلها . [كتاب التوبة لا بن قيم الجوزية صفحه 121] یعنی ”توبہ ماضی کے گناہوں کو ختم کر دیتا ہے۔“
لأن التوبة تجب الذنب بالكلية تلاش بسیار کے بعد بھی یہ حدیث مجہے نہیں مل سکی، جن حضرات کو مل جائے وہ ناچیز کو مطلع کرنے کی زحمت فرمائیں.
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا :
من كان عنده لأخيه مظلمة من عرض أوشئ فليتحلله اليوم قبل أن لايكون دينار ولادرهم إن كان له عمل صالح أخذ من حسناته بقدر مظلمته فإن لم يكن له حسنات أخذ من سيءٰات صاحبه فحمل عليه . [صحيح: صحيح بخاري، المظالم 46 باب من كانت له مظلمة عند الرجل فحللها له هل يتبين مظلمته؟ 10 رقم 2449 بروايت ابوهريرة رضي الله عنه.]
’’ جس نے اپنے کسی بھائی کے ساتھ ظلم کیا ہو خواہ اس کی عزت و آبرو سے متعلق ہو یا کسی اور چیز سے متعلق، تو چاہیے کہ آج ہی اس دن کے آنے سے پہلے حلال ہو جائے جس میں نہ کوئی دینار کام آئے گا اور نہ درہم۔ اگر اس کے پاس اچھا عمل ہو گا تو اس کے ظلم کے مطابق اس کی نیکی اس سے لے لی جائے گی، اور اگر اس کے پاس نیکی نہیں ہو گی تو اس کے ساتھی کے گناہ لے کر اس ظالم پر لاد دئیے جائیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ ہی توفیق بخشنے والاہے “۔
’’ شیخ ابن باز۔ رحمۃاللہ علیہ۔ “
اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔