ثبوت رمضان و شوال کا طریقہ

عبید اللہ طاہر حفظ اللہ

احکام :
ثبوت رمضان و شوال کا طریقہ
❀ «عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر رمضان فقال: لا تصوموا حتى تروا الهلال، ولا تفطروا حتى تروه، فإن غم عليكم فاقدروا له. »
«وفي رواية: الشهر تسع وعشرون، فلا تصوموا حتى تروه، ولا تفطروا حتى تروه، فإن غم عليكم فاقدروا له ثلاثين.»
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ”روزہ نہ رکھو یہاں تک کہ چاند دیکھ لو، اور روزہ رکھنا بند نہ کرو یہاں تک کہ چاند دیکھ لو، اور اگر بدلی چھائی ہو تو اندازہ لگاؤ۔“ [صحيح بخاري 1906، صحيح مسلم 1080]
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہینہ 29 کا بھی ہوتا ہے (اور 30 کا بھی)، لہٰذا تم روزہ نہ رکھو یہاں تک کہ چاند دیکھ لو، اور روزہ رکھنا بند نہ کرو یہاں تک کہ چاند دیکھ لو، اور اگر بدلی چھائی ہو تو 30 دن پورے کرو۔“ [سنن ابو داود 2320، صحيح]
نوٹ: اس مسئلے سے متعلق متعدد صحیح احادیث موجود ہیں، جن تمام کو جمع کرنے کے بعد علماء نے یہ کہا ہے کہ اگر 29 تاریخ کو چاند نظر نہ آئے تو مہینہ 30 کا مانا جائے گا۔

رمضان سے ایک دو دن قبل روزہ رکھنے کی ممانعت
❀ «عن أبى هريرة رضي الله عنه، عن النبى الله عليه وسله، قال: لا يتقدم أحدكم رمضان بصوم يوم أو يومين، إلا أن يكون رجل كان يوم صومه، فى ذلك اليوم.»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھے، البتہ اگر کوئی آدمی اس دن روزہ رکھتا آیا ہو تو وہ اس دن کا روزہ رکھ لے۔“ [صحيح بخاري 1914، صحيح مسلم 1082]
نوٹ: اس حدیث کی روشنی میں علماء یہ کہتے ہیں کہ رمضان سے ایک دو دن قبل احتیاطا روزہ رکھنا مکروہ ہے۔
اور اگر بعد میں پتہ چلے کہ رمضان کا مہینہ ایک دن پہلے شروع ہو گیا تھا، اور لوگوں نے اس دن روزہ نہیں رکھا تھا، تو اس دن کی قضا واجب ہو گی۔

شک کے دن (تیں شعبان) کے روزے کی ممانعت
❀ «عن صلة، قال:” كنا عند عمار رضى الله عنه فى اليوم الذى يشك فيه، فاتى بشاة فتنحى بعض القوم”، فقال عمار رضى الله عنه :” من صام هذا اليوم فقد عصى ابا القاسم صلى الله عليه وسلم. »
حضرت صلہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شک کے دن (یعنی 30 شعبان کو) ہم حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، وہ ایک بکری لائے، تو بعض لوگ کنارے ہو گئے، تو حضرت عمار نے کہا: ”جس نے اس دن روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم (یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم) کی نافرمانی کی۔“ [سنن ابو داود 2334، سنن ترمذي 686، سنن نسائي 2188، سنن ابن ماجه 1645، صحيح]
نوٹ: شک کے دن سے مراد 30 شعبان ہے، جب کہ 29 تاریخ کو چاند نظر نہ آئے، اور اس میں شک ہو کہ کل شعبان کی 30 تاریخ ہے یا رمضان کی پہلی تاریخ۔
اکثر اہل علم نے شک کے دن کے روزے کو مکروہ قرار دیا ہے، اور اگر کوئی شک کے دن کا روزہ رکھ لے اور بعد میں وہ رمضان کا دن ثابت ہو جائے تو اس روزے کا کوئی اعتبار نہ ہوگا اور اس کے ذمے اس دن کے روزے کی قضا ہو گی۔ اور اگر کوئی کسی متعین دن کے روزے کا عادی ہو، اور شک کے دن یعنی 30 شعبان کو وہی دن آ جائے، تو ایسے شخص کے لیے اس دن کا روزہ مکروہ نہیں ہے۔

روزے اور عیدین اجتماعیت کے ساتھ
❀ « عن أبى هريرة رضي الله عنه، أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: الصوم يوم تصومون، والفطر يوم تفطرون، والأضحى يوم تضحون. »
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”روزہ اس دن ہے جس دن تم سب روزہ رکھو، اور عید الفطر اس دن ہے جس دن تم سب عید الفطر مناؤ اور عیدالاضحی اس دن ہے جس دن تم سب عید الاضحی مناؤ۔“ [سنن ترمذي 697، حسن]
نوٹ: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ روزہ رکھنے کا آغاز کرنا اور اسے روکنا، دونوں اجتماعیت کے ساتھ ہو گا، لہٰذا کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ روزے اور عیدین میں لوگوں سے کٹ کر تنہا کوئی عمل اختیار کرے۔ بلکہ علمائے کرام اور اصحاب اقتدار جو فیصلہ کر دیں لوگ اسے قبول کریں، اور کوئی شخص اپنا الگ رویہ اختیار نہ کرے۔

اختلاف مطالع
❀ « عن كريب، ان ام الفضل بنت الحارث رضي الله عنها بعثته إلى معاوية بالشام، قال: فقدمت الشام فقضيت حاجتها، واستهل على رمضان وانا بالشام، فرايت الهلال ليلة الجمعة، ثم قدمت المدينة فى آخر الشهر، فسالني عبد الله بن عباس رضي الله عنهما، ثم ذكر الهلال، فقال: ” متى رايتم الهلال؟ “، فقلت: ” رايناه ليلة الجمعة “، فقال: ” انت رايته؟ “، فقلت: ” نعم ورآه الناس، وصاموا وصام معاوية “، فقال: ” لكنا رايناه ليلة السبت فلا نزال نصوم حتى نكمل ثلاثين او نراه “، فقلت: ” او لا تكتفي برؤية معاوية رضى الله عنه وصيامه ؟ فقال: ” لا هكذا امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم. »
حضرت کریب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ام فضل بنت حارث رضی اللہ عنہا نے انہیں حضرت معاویه رضی اللہ عنہ کی طرف ملک شام بھیجا، فرماتے ہیں کہ میں شام پہنچا تو میں نے حضرت ام فضل رضی اللہ عنہ کا کام پورا کیا، اور وہیں پر رمضان المبارک کا چاند ظاہر ہو گیا، اور میں نے جمعہ کی رات چاند دیکھا، پھر میں مہینے کے آخر میں مدینہ آیا تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے چاند کا ذکر ہوا تو مجھ سے پوچھنے لگے کہ تم نے چاند کب دیکھا ہے ؟ تو میں نے کہا کہ ہم نے جمعہ کی رات چاند دیکھا، تو فرمایا: تو نے خود دیکھا تھا؟ میں نے کہا: ہاں، اور دیگر لوگوں نے بھی دیکھا، اور انہوں نے روزہ رکھا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روزہ رکھا۔ حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہم نے تو سنیچر کی رات کو دیکھا، اور ہم پورے تیس روزے رکھیں گے یا چاند دیکھ لیں گے، تو میں نے عرض کیا کہ کیا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا چاند دیکھنا اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: نہیں ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسی طرح کرنے کا حکم فرمایا ہے“۔ [صحيح مسلم 1087]
نوٹ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اختلاف مطالع کا اعتبار کیا جائے گا، اور جس علاقے میں جس وقت چاند نظر آئے گا اسی کا اعتبار ہوگا۔

رمضان کے ثبوت کے لیے ایک شخص کی گواہی کافی ہے
❀ « عن عبد الله بن عمر رضي الله عنها قال: تراءى الناس الهلال، فاخبرت رسول الله صلى الله عليه وسلم، أني رأيته، فصامه وأمر الناس بصيامه»
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لوگوں نے چاند دیکھنے کی کو شش کی، تو میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ میں نے چاند دیکھ لیا ہے، چنانچہ آپ نے خود روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی رکھنے کا حکم دیا۔ [سنن ابو داود 2342، صحيح]

❀ «عن ابن عباس، قال: جاء اعرابي إلى النبى صلى الله عليه وسلم، فقال: إني رايت الهلال، يعني هلال رمضان، فقال: اتشهد ان لا إله إلا الله؟ قال: نعم، قال: اتشهد ان محمدا رسول الله؟ قال: نعم، قال:” يا بلال، اذن فى الناس فليصوموا غدا”.»
حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بولا: میں نے چاند (یعنی رمضان کا چاند دیکھا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ؟“ اس نے کہا: ہاں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ؟ اس نے کہا: ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بلال لوگوں میں اعلان کر دو کہ کل سے روزہ رکھیں۔“ [سنن ابو داود 2340، سنن ترمذي 691، سنن نسائي 2113، سنن ابن ماجه 1652، حسن]

شوال کے ثبوت کے لیے دو اشخاص کی گواہی ضروری ہے
❀ «عن حسين بن الحارث الجدلي من جديلة قيس،” ان امير مكة خطب، ثم قال: عهد إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان ننسك للرؤية، فإن لم نره وشهد شاهدا عدل، نسكنا بشهادتهما، فسالت الحسين بن الحارث: من امير مكة؟ قال: لا ادري، ثم لقيني بعد، فقال: هو الحارث بن حاطب اخو محمد بن حاطب، ثم قال الامير: إن فيكم من هو اعلم بالله ورسوله مني، وشهد هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم، واوما بيده إلى رجل، قال الحسين: فقلت لشيخ إلى جنبي: من هذا الذى اوما إليه الامير؟ قال: هذا عبد الله بن عمر رضى الله عنه، وصدق كان اعلم بالله منه، فقال: بذلك امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم.»
حضرت حسین بن حارث جدلی سے روایت ہے کہ مکہ کے امیر نے خطبہ دیا، پھر کہا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے عہد لیا کہ ہم عبادت چاند دیکھ کر ادا کریں، اور اگر خود نہ دیکھ پائیں اور دو معتبر آدمی گواہی دیں تو ان کی گواہی پر ادائیگی کریں۔ ابو مالک کہتے ہیں کہ میں نے حسین بن حارث سے پوچھا کہ مکہ کے امیر کون تھے ؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں ہے۔ پھر اس کے بعد جب دوبارہ مجھ سے ان کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ مکہ کے امیر کا نام حارث بن حاطب تھے جو کہ محمد بن حاطب کے بھائی ہیں، اس کے بعد امیر نے یہ بھی کہا تھا کہ تم میں وہ شخص موجود ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کو مجھ سے بہتر جانتا ہے، اور اسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس بات کی گواہی دی ہے، اور یہ کہتے ہوئے امیر نے اپنے ہاتھ سے ایک شخص کی طرف اشارہ کیا، حسین بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے اپنے برابر والے ایک بزرگ سے پوچھا کہ یہ کون ہیں جن کی طرف امیر نے اشارہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ یہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہیں۔ اور امیر نے یہ بات سچ کہی تھی، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ان سے زیادہ اللہ سے واقف تھے۔ پس حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ”بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہی حکم فرمایا ہے۔“ [سنن ابو داود 2338، حسن]

زوال کے بعد دو اشخاص کا شوال کا چاند دیکھنے کی گواہی دینا
❀ «عن رجل من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم قال: اختلف الناس فى آخر يوم من رمضان، فقدام أعرابيان، فشهدا عند النبى صل الله عليه وسلم بالله لأهلا الهلال أمس عشية، فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس أن يفطروا. زاد خلف فى حديثه،: وأن يغدوا إلى مصلاهم). »
ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ لوگوں میں رمضان کے آخری دن کے سلسلے میں اختلاف واقع ہو گیا (یعنی کچھ لوگ تیس رمضان کہتے تھے اور کچھ یکم شوال)، پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو دیہاتی حاضر ہوئے اور اللہ کا نام لے کر گواہی دی کہ ہم نے کل شام چاند دیکھا ہے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو روزہ کھول دینے کا حکم دیا۔ خلف نے اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی حکم دیا کہ کل کو سب لوگ عید گاہ میں (نماز ادا کرنے کے لیے) چلیں۔ [سنن ابو داود 3339، صحيح]

❀ «عن أبى عمير بن أنس، عن عمومة له من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، أن ركبا جاءوا إلى النبى صلى الله عليه وسلم يشهدون أنهم رأوا الهلال بالأمس، فأمرهم أن يفطروا، وإذا أصبحوا أن يغدوا إلى مصلاهم»
ابو عمیر بن انس نے اپنے چچاؤں سے سنا جو کہ صحابہ میں سے تھے کہ چند سوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گواہی دی کہ گزشتہ رات انہوں نے چاند دیکھا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ روزہ کھول دیں اور کل صبح کو عید گاہ چلیں۔ [سنن ابوداود 1157، سنن نسائي 1557، سنن ابن ماجه 1653، حسن]

واجب روزے کی نیت طلوع فجر سے پہلے کرنا ضروری ہے
❀ «عن حفصة رضي الله عنها عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: من لم يجمع الصيام قبل الفجر، فلا صيام له »
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی روزے کے لیے فجر سے پہلے پختہ ارادہ نہ کرے تو اس کا روزہ نہیں ہے۔“ [سنن ابو داود 2454، سنن ترمذي 730، سنن نسائي 2331، صحيح]
نوٹ: یعنی روزے کے لیے طلوع فجر سے پہلے پہلے نیت کرنا ضروری ہے، نیت رات کے کسی بھی حصے میں کافی ہے اور زبان سے نیت کرنا شرط نہیں ہے۔
یہ حکم رمضان کے روزے، رمضان کی قضاء اور نذر کے روزے کے بارے میں ہے۔ نفل روزے کی نیت طلوع فجر کے بعد بھی جائز ہے۔

روزے دار کے لیے ماہ رمضان میں دن میں بیوی سے ملاقات کی ممانعت اور اس کا کفارہ
❀ «عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال:” بينما نحن جلوس عند النبى صلى الله عليه وسلم إذ جاءه رجل، فقال: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم، هلكت، قال: ما لك؟ قال: وقعت على امراتي وانا صائم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هل تجد رقبة تعتقها؟ قال: لا، قال: فهل تستطيع ان تصوم شهرين متتابعين؟ قال: لا، فقال: فهل تجد إطعام ستين مسكينا؟ قال: لا، قال: فمكث النبى صلى الله عليه وسلم فبينا نحن على ذلك، اتي النبى صلى الله عليه وسلم بعرق فيها تمر والعرق المكتل، قال: اين السائل؟ فقال: انا، قال: خذها فتصدق به، فقال الرجل: اعلى افقر مني يا رسول الله، فوالله ما بين لابتيها يريد الحرتين اهل بيت افقر من اهل بيتي، فضحك النبى صلى الله عليه وسلم حتى بدت انيابه، ثم قال: اطعمه اهلك”. »
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ ! میں تو ہلاک ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا بات ہے؟ اس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی سے روزے کی حالت میں ہم بستری کر لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے پاس کوئی غلام ہے جسے تم آزاد کر سکو“؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم دو مہینے لگا تار روزے رکھ سکتے ہو؟“ اس نے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر ٹھہرے رہے، ہم اسی حال میں تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ٹوکری لائی گئی جس میں کھجوریں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ سوال کرنے والا کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ میں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے لے جاؤ اور خیرات کر دو۔“ اس شخص نے پوچھا: کیا اس کو دوں جو مجھ سے زیادہ محتاج ہے؟ اے اللہ کے رسول مدینہ کے دونوں پتھریلے میدانوں کے در میان کوئی ایسا گھر نہیں، جو میرے گھر والوں سے زیادہ محتاج ہو۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے دانت نظر آگئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے گھر والوں کو کھلاؤ۔“ [صحيح بخاري 1936، صحيح مسلم 1111]

رمضان کی رات میں بیوی سے ملاقات کی رخصت
✿ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
«أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ۗ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ ۖ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ» [البقرة: 187]
”تمہارے لیے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے، وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے۔ الله کو معلوم ہو گیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے، مگر اس نے تمہارا قصور معاف کر دیا اور تم سے درگزر فرمایا۔ اب تم اپنی بیویوں سے ملاقات کرو اور جو کچھ اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اسے حاصل کرو۔“

❀ «عن البراء بن عازب رضى الله عنه قال: لما نزل صوم رمضان كانوا لايقربون النساء رمضان كله، وكان رجال يخونون أنفسهم، فأنزل الله ﴿عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ ‎﴾ »
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رمضان المبارک کے روزے فرض کیے گئے تو لوگ پورے رمضان رات کو بھی اپنی عورتوں سے الگ رہا کرتے، البتہ بعض لوگ چپکے سے اپنے آپ سے خیانت کر جاتے (یعنی اپنی بیوی سے ملاقات کر بیٹھتے)، تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: « عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ ‎ » یعنی اللہ کو معلوم ہو گیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے، مگر اس نے تمہارا قصور معاف کر دیا اور تم سے درگزر فرمایا۔ [صحيح بخاري 4508]

حاملہ خاتون اور دودھ پلانے والی خاتون کے روزے کا حکم
❀ «عن انس بن مالك رضى الله عنه أنه أتى النبى صلى الله عليه وسلم بالمدينة وهو يتغدى، فقال له النبى صل الله عليه وسلم: هلم إلى الغداء، فقال: إني صائم، فقال له النبى صلى الله عليه وسلم : إن الله عزوجل وضع للمسافر الصوم وشطر الصلاة، وعن الحبلى والمرضع. »
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ مدینے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”آؤ کھانا کھاؤ“، تو انہوں نے کہا کہ میں روزے سے ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: ”اللہ تعالیٰ نے مسافر سے روزہ اور آدھی نماز ختم کر دی، اور حاملہ خاتون اور دودھ پلانے والی خاتون سے۔“ [سنن نسائي 5 231، سنن ابو داود 2408، سنن ترمذي 715، سنن ابن ماجه 1667، حسن]
نوٹ: اس حدیث میں اس بات کا تذکرہ نہیں ہے کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی بعد میں اپنے روزوں کی قضا کریں گی یا نہیں۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وہ قضا نہیں کریں گی، بلکہ ہر دن کے بدلے فدیہ دے دیں گی۔ لیکن ائمہ اربعہ اور جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ اگر انہیں اپنے یا بچے کے سلسلے میں کسی نقصان کا اندیشہ ہو تو روزہ چھوڑ سکتی ہیں، لیکن بعد میں اس کی قضاواجب ہو گی۔

حائضہ خاتون کے روزے کا حکم
❀ «عن أبى سعيد رضي الله عنه، قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم : أليس إذا حاضت لم تصل ولم تصم؟.»
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حیض کی حالت میں ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے؟“ [صحيح بخاري 1951، صحيح مسلم 80]

❀ «عن معاذة، قالت: سألت عائشة رضي الله عنها فقلت: ما بال الحائض تقضي الصوم، ولا تقضي الصلاة. فقالت: أحرورية أنت ؟ قلت: لست بحرورية، ولكني أسال. قالت: كان يصيبنا ذلك، فنؤمر بقضاء الصوم، ولا نؤمر بقضاء الصلاة. »
حضرت معاذہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے کہ حائضہ عورت روزے کی تو قضا کرتی ہے، لیکن نماز کی قضا نہیں کرتی؟ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کیا تم حروریہ ہو“؟ میں نے کہا: نہیں، میں تو بس پوچھ رہی ہوں۔ تو انہوں نے کہا: ہمیں یہ چیز لاحق ہوا کرتی تھی، (یعنی حیض آیا کرتا تھا)، تو ہمیں روزے کی قضا کا حکم دیا جاتا، اور نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا۔ [صحيح بخاري 321، صحيح مسلم 335: 69]
الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔
نوٹ : حیض کا مطلب ماہواری آنا ہے۔ اس حالت میں عورت روزہ نہیں رکھ سکتی، اور بعد میں اس کی قضا ضروری ہو گی۔ اور اگر اس حالت میں روزہ رکھ لیا تو روزہ صحیح نہیں ہو گا۔ بلکہ قضا کرنی ہو گی۔
یہی حکم نفاس والی عورت کا بھی ہے، یعنی جسے ولادت کے بعد خون آ رہا ہو۔

رمضان کے روزوں کی قضا میں تاخیر کرنا
❀ «عن عائشة رضي الله عنها، قالت: كان يكون على الصوم من رمضان، فما أستطيع أن أقضي إلا فى شعبان »
«وفي رواية عند مسلم: إن كانت إحدانا لتفطر فى زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما تقدر على أن تقضيه مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى يأتي شعبان »
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے ذمے رمضان کے روزے ہوتے، لیکن میں ان کی قضا شعبان ہی میں کر پاتی۔
اور ایک روایت میں ہے کہ وہ فرماتی ہیں: ”ہم میں سے کوئی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں روزہ نہیں رکھتی، پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رہتے ہوئے اس کی قضا نہیں کر پاتی تھی یہاں تک کہ شعبان آ جاتا۔“
نوٹ: اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کے روزوں کی قضا کو مؤخر کیا جا سکتا ہے، اور اگلے رمضان کے آنے سے پہلے اس کی قضا کر لینی چاہیے۔ البتہ اگر کوئی اگلے رمضان کی آمد تک قضا نہیں کر سکا تو اس پر پہلے موجودہ رمضان کے روزے رکھنا ضروری ہے، پھر اس رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرے گی، پھر گز شتہ رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرے گی۔ بعض اہل علم کے نزدیک اس پر فدیہ بھی واجب ہوگا، اور بعض کے نزدیک نہیں، صحیح رائے یہی ہے کہ فدیہ واجب نہیں ہوگا، کیونکہ اس کے وجوب کی کوئی قابل اعتماد دلیل نہیں ہے۔

میت کی جانب سے روزوں کی قضا
❀ «عن عائشة رضي الله عنها، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: من مات وعليه صيام صام عنه وليه. »
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو اس حالت میں مر جائے کہ اس پر روزے باقی تھے، تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے گا۔“ [صحيح بخاري 1952، صحيح مسلم 1147]

«عن ابن عباس رضي الله عنهما عنها، قال: جاء رجل إلى النبى صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم، إن أمي ماتت وعليها صوم شهر، أفأقضيه عنها؟ قال: لو كان على أمك دي، أنت قاضيه عنها؟ قال: نعم، قال: فدين الله أحق أن يقضي.» [صحيح بخاري 1953، صحيح مسلم 1148: 155]
الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ میری ماں کی وفات ہو گئی ہے، اور ان کے ذمے ایک مہینے کا روزہ باقی ہے، کیا میں ان کی طرف سے قضا کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اگر تمہاری ماں پر کسی کا قرض ہوتا تو تم ادا کرتے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کا قرض زیادہ حق دار ہے کہ اسے ادا کیا جائے۔“
نوٹ: اہل علم کے در میان اس مسئلے میں اختلاف ہے : زیادہ تر علماء کے نزدیک اس کی طرف سے اس کا ولی روزہ نہیں رکھے گا، اور اس کے رکھنے کی وجہ سے میت کی ذمہ داری ختم نہیں ہو گی، بلکہ وہ اس کی طرف سے ہر دن کے بدلے ایک مد کھانے کی چیز کسی مسکین کو دے گا۔ جبکہ بعض علماء کے نزدیک اس کا ولی اس کی طرف سے روزہ رکھ سکتا ہے، اور ایسا کرنے سے میت بری الذمہ ہو جائے گی، اور اس کی طرف سے فدیہ دینے کی ضرورت نہ ہو گی۔
ولی سے مراد قریبی رشتے دار ہے، جیسے اس کا باپ، بیٹا، بھائی، چچا وغیرہ ہو یا دوسرا کوئی رشتے دار۔
——————

اس تحریر کو اب تک 4 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply