آپ میرے اونٹ واپس کر دیں کعبہ جانے اور کعبہ والا

تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

آپ میرے اونٹ واپس کر دیں کعبہ جانے اور کعبہ والا
(اصحاب الفیل کا تفصیلی قصہ)
بیہقی کہتے ہیں : ہمیں خبر دی ابو عبداللہ حافظ نے، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں حدیث بیان کی ابو العباس محمد بن یعقوب نے، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں حدیث بیان کی احمد بن عبدالجبار عطاروی نے، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں حدیث بیان کی یونس بن بکیر نے محمد بن اسحاق بن یسار نے، وہ کہتے ہیں کہ پھر تبع آگے بڑھا حتی کہ مدینہ کی سر زمین پر اترا۔ وادی قباء میں اس نے وہاں ایک کنواں کھودا جسے آج کل بیر ملک کہتے ہیں۔ اور اس وقت مدینہ میں یہودی تھے اور اوس و خزرج تھے۔ وہ لوگ اس کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے انہوں نے اس سے لڑائی کی۔ دن بھر اس سے لڑائی کرتے رہتے اور شام ہوتی تو اس کے پاس ضیافت بھیج دیتے اور اس کے لشکریوں کے لیے بھی۔ جب ان لوگوں نے کئی راتیں ایسا کیا تو اس کو شرم آ گئی۔ اس نے ان لوگوں کے پاس صلح کا پیغام بھیجا۔ لہٰذا قبیلہ اوس کا ایک آدمی ان کے پاس گیا اس کا نام احیہ بن جلاح تھا اور اس سے بات کرنے کے لیے یہودیوں میں سے بنیامین قرظی گیا۔ احیہ نے جا کر کہا : اے بادشاہ ! ہم لوگ آپ کی قوم ہیں اور بنیامین نے کہا : اے بادشاہ ! یہ ایسا شہر ہے جس میں فاتحانہ داخلے کی آپ کو قدرت نہیں ہو سکتی اگرچہ آپ اپنی پوری پوری کوشش صرف کر ڈالیں۔ اس نے کہا : ایسا کیوں ہے ؟ انہوں نے اس کو بتایا کہ یہ انبیاء میں سے ایک نبی کی منزل ہے اللہ تعالیٰ اس کو قریش میں سے بھیجیں گے۔ اور اس وقت تبع کے پاس یمن سے ایک خبر دینے والا آیا اس نے اس کو آکر بتایا کہ یمن میں ایک آگ لگی ہے اس نے سب کچھ جلا کر ختم کر دیا ہے۔ لہٰذا تبع جلدی سے وہاں سے نکلا اور اس کے ساتھ یہود کی ایک جماعت بھی تھی ان میں بنیامین وغیرہ تھے۔ اس نے وہاں شعر کہا :
«القى الى نصيحة كسني ازدجسر
عن قريه محجوزة بمحمد
»
میرے پاس نصیحت آ گئی ہے تاکہ میں رک جاؤں
اس بستی سے جو محفوظ کر دی گئی ہے محمد کی وجہ سے
کہتے ہیں کہ وہ وہاں سے روانہ ہوا۔ جب وہ مقام دف پر پہنچا، جمدان سے مکہ کے قریب دو رات کی مسافت پر تو ان کے پاس قبیلہ ہذیل بن مدرکہ سے کچھ لوگ آئے، وہاں ان کے گھر تھے۔ انہوں نے کہا : اے بادشاہ ! ہم آپ کو ایک ایسا گھر بتاتے ہیں جو سونے، چاندی، یا قوت اور زمرد سے (ہیرے جواہرات سے) اٹا پڑا ہے آپ اس کو لوٹیں گے ؟ تم خود بھی لینا ہمیں بھی دینا۔ اس نے حامی بھر لی۔ ان قبائل نے اس کو بتایا کہ وہ گھر مکہ میں ہے۔ لہٰذا تبع مکہ کی طرف روانہ ہوا وہ کعبہ کو گرانے کا پکا عزم کر چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر ایک تیز اور ٹھنڈی ہوا چلا دی جس نے اس کے ہاتھ پیر مفلوج کر دیئے اور پورا جسم اکڑا دیا۔ چنانچہ اس نے یہودیوں کو بلایا جو اس کے ساتھ تھے اور ان سے پوچھا کہ تمہارا برا ہو یہ کیا مصیبت ہے جو مجھ پر پڑ گئی ہے ؟ انہوں نے کہا آپ کے دل کے اندر کوئی نئی بات پیدا ہو گئی ہے۔ اس نے کہا : میں نے کیا نئی چیز پیدا کر لی ہے ؟ انہوں نے کہا آپ نے اپنے دل میں کسی نئی بات کا ارادہ کر لیا ہے۔ اس نے کہا : جی ہاں کیا ہے۔
پھر اس نے کعبۃ اللہ کو گرا دینے کے عزم کا تذکرہ کیا اور اس میں جو ہیرے جواہرات ہیں ان کو لوٹ کر لے جانے کا۔ ان لوگوں نے بتایا کہ بیت اللہ، اللہ کا عزت والا گھر ہے جس نے اس کو گرانے کا ارادہ کیا وہ ہلاک ہو گیا۔ اس نے پوچھا : ہلاک ہو جاؤ آخر اس مصیبت سے چھٹکارے کا کیا طریقہ ہے جس میں، میں پھنس گیا ہوں۔ انہوں نے اس کو بتایا کہ آپ بیت اللہ کے گرد طواف کرنے اور اس کو غلاف پہنانے اور اس کے لیے قربانی کرنے کا ارادہ پکا کر لیں۔ اس نے اپنے دل کو اس بات پر آمادہ کر لیا لہٰذا اللہ نے اس کو چھوڑ دیا۔ اس کے بعد وہ چل کر مکے میں داخل ہوا اور بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا مروہ کے درمیان دوڑ یں لگائیں پھر اس کو خواب دکھایا گیا کہ وہ بیت اللہ کو کپڑے پہنائے۔ چنانچہ اس نے بیت اللہ پر غلاف ڈالا اور مکے میں اس کی قربانی کرنے کی بات بھی بیان ہوئی ہے اور یہ کہ اس نے لوگوں کو کھانا بھی کھلایا۔ اس کے بعد وہ یمن واپس لوٹ گیا اور قتل ہو گیا اور اس کا بیٹا دوس قیصر کی طرف گیا اس نے جا کر اس سے اپنی قوم کے خلاف استغاثہ کیا اس پر جو انہوں نے اس کے باپ کے ساتھ کیا تھا۔ اور قیصر نے ملک حبشہ نجاشی کی طرف لکھا پھر نجاشی نے اس کے ساتھ ساٹھ ہزار بھیجے اور ان پر روزبہ نامی شخص کو عامل مقرر کیا یہاں تک کہ انہوں نے حمیر کو قتل کر دیا جس نے اس کے باپ کو مارا تھا۔ پھر صنعاء میں داخل ہوئے اور اس کے مالک بن گئے اور یمن کے بھی مالک بن گئے۔

یمن میں کعبہ نامی مکان :

اور روزبہ کے اصحاب میں ایک آدمی تھا اس کو ابرہہ بن اشرم کہتے تھے وہ ابو یکسوم تھا اس نے روزبہ سے کہا کہ میں اس معاملہ کے لیے تم سے زیادہ بہتر ہوں اور اس نے اسے مکر کے ساتھ قتل کر دیا اور نجاشی کو اس سے راضی کر لیا۔ پھر اس نے یمن میں ایک کعبہ بنایا اور اس میں سونے سے قبے بنائے اور اپنی مملکت والوں سے کہا کہ وہ اس کا حج کریں اور اس نے اس کو بیت اللہ سے تشبیہ دی۔ چنانچہ ایک آدمی بنو ملکان کنانہ میں سے تھا اور وہ حمس میں سے تھا وہ یمن جا پہنچا اور اس نے جا کر اس گھر میں پاخانہ کر دیا۔ ابرہہ جب داخل ہوا اور اس نے اس میں یہ گندگی دیکھی تو پوچھا کہ کس نے میر ے خلاف یہ جسارت کی ہے۔ اس کے اصحاب نے اس کو بتایا کہ بیت اللہ کے قریب رہنے والے لوگوں میں سے، جہاں عرب حج کرتے ہیں ایک آدمی آیا تھا۔ اس نے پوچھا کہ کیا اس نے میرے خلاف یہ جسارت کی ہے ؟ میری مدد کے لیے تیار ہو جاؤ میں عربوں کے اس کعبے کو گرادوں گا اور اس کو برباد کر دوں گا اور میں عربوں کو بتادوں گا۔ چنانچہ کبھی بھی اس گھر کا حج کوئی نہیں کرے گا۔ اس نے ہاتھی منگوائے اور اپنی قوم کے اندر اس نے اعلان کر دیا کہ میرے ساتھ نکلو۔ لہٰذا اس نے خود بھی وہاں سے روانگی اختیار کی اور ہر اس شخص نے جس نے اہل یمن میں سے اس کی اتباع کی۔ اکثر لوگ جنہوں نے اس کی اتباع کی تھی وہ عک تھے اور اشعری تھے اور خثعم۔ چنانچہ وہ رجز گاتے ہوئے وہاں سے چلے۔
«ان البلد لبلدا ماكول
تاكله عك والاشعريون والفيل
»
بے شک یہ شہر کھایا ہوا ہے (ہلاک شدہ)
اس کو عک اور اشعری اور ہاتھی کھا جائیں گے

کعبہ شریف پر حملہ کے لیے روانگی :

کہتے ہیں اس کے بعد وہ روانہ ہوئے۔ جب کچھ راستہ طے کر لیا تو انہوں نے بنو سلیم میں سے ایک آدمی کو بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو اس گھر کے حج کی دعوت دے جو اس نے بنایا تھا۔ چنانچہ اس کو ایک آدمی ملا قبیلہ حمس کا بنو کنانہ میں سے، اس نے اس کو قتل کر دیا۔ جب ابرہہ کو اس کی موت کی اور اس شخص کی جسارت کی خبر پہنچی تو اس کا غصہ اور زیادہ ہو گیا۔ لہٰذا اس نے روانگی اور کوچ کرنے کے لیے لوگوں کو ابھارا۔ اور طائف پہنچ کر اہل طائف سے اس نے راستے کی رہنمائی کرنے والا آدمی مانگا۔ اہل طائف نے ابر ہہ کے ساتھ قبیلہ ہذیل کا ایک آدمی روانہ کیا اس کا نام نفیل تھا وہ ان لوگوں کو لے کر چلا۔ یہاں تک کہ وہ جب مقام مغمس میں پہنچے مغمس میں مکہ کی بالائی سمت چھ میل کے فاصلے پر اترے اور انہوں نے اپنے لشکر کے مقدمات آگے مکے میں روانہ کر دیئے۔ قریش متفرق ہو کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر چلے گئے اور کہنے لگے ہمیں ان کے ساتھ لڑائی کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ مکے میں سوائے عبد المطلب بن ہاشم کے اور کوئی بھی نہیں رہ گیا تھا۔ لہٰذا عبد المطلب نے بیت اللہ کے دروازے کی چوکھٹوں کو پکڑا اور کھڑے ہو کر کہنے لگے :
«لاهم ان العبد يمنع
رحله قامنع حلالك
لايغلبوا بصليبهم
ومحالهم غدوا محالك
ان كنت تاركهم وكع
بتنافامر مابدالك
»
اے اللہ ! بے شک انسان اپنے سامان کی حفاظت کیا کرتا ہے۔ آپ بھی اپنی قوم و جماعت کی حفاظت کریں یا اپنے سامان کی حفاظت کریں یعنی، اپنے گھر کی حفاظت کریں۔ یہ لوگ اپنی صلیب کو غالب نہ کر دیں اور اپنی قوت و طاقت کو غالب نہ کر دیں۔ کل صبح آپ کی طاقت و قوت کے اوپر اگر آپ ان کو اور ہمارے کعبے کو (بے یارو مددگار) چھوڑ دیں تو پھر جو آپ بہتر سمجھیں (کہنا یہ چاہتے تھے کہ جو چیز آپ کے سامنے واضح ہے آپ ہمارے ساتھ وہ نہ کریں)۔“

قریش کے اونٹ پکڑنا :

اس کے بعد ابرھ کے لشکریوں نے قریش کے مویشی پکڑ لیے تھے۔ ان میں دو سو اونٹ عبد المطلب کے بھی تھے۔ جب عبد المطلب کو اس کی خبر پہنچی تو وہ ان لوگوں کے پاس گئے اور ابرہہ کا ترجمان بنو اشعریوں میں سے ایک آدمی تھا اور وہ پہلے سے عبد المطلب کو جانتا تھا۔ عبد المطلب جب پہنچے تو اس اشعری نے پوچھا کہ آپ کسی کام سے آئے ہیں ؟ انہوں نے کہا : آپ مجھے بادشاہ سے ملنے کی اجازت دلوا دیں۔ وہ اندر گئے اور جا کر کہا، کہ اے بادشاہ ! قریش کا سردار آپ کو ملنے کے لیے آیا ہے۔ جو خوشحالی اور تنگدستی دونوں حالتوں میں لوگوں کو کھلاتا ہے آپ اس کو ملنے کی اجازت دے دیں۔
عبد المطلب جسیم اور جمیل آدمی تھے۔ اجازت ملی تو وہ اندر داخل ہوئے جب ابو یکسوم نے اس کو دیکھا تو ان کو نیچے بٹھانا مناسب نہ سمجھا اور اپنے تخت پر ساتھ بٹھانا بھی مناسب نہ سمجھا۔ لہٰذا وہ خود نیچے اتر کر زمین پر بیٹھ گئے اور عبد المطلب کو ساتھ بٹھا لیا۔ اور ان سے آنے کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے کہا میرے آنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کے لشکریوں نے میرے دو سو اونٹ قبضے میں لے لیے ہیں وہ چھوڑ دیں۔ ابو یکسوم نے کہا : اللہ کی قسم ! میں نے آپ کی شکل و صورت دیکھ کر آپ کو پسند کیا تھا آپ مجھے اچھے لگے تھے مگر آپ سے میں نے جب بات کی تو مجھے آپ سے بے رغبتی ہو گئی ہے۔ عبدالمطلب نے پوچھا : کیوں بادشاہ ؟ اس نے کہا : اس لیے کہ میں تمہارے کعبے کو گرانے آیا ہوں وہ تمہارے سارے عرب کی عزت ہے اور وہ لوگوں میں تمہاری فضیلت ہے اور تمہارا لوگوں میں شرف ہے اور تمہارا دین و دھرم ہے جس کی تم عبادت کرتے ہو میں اس کو توڑنے آیا ہوں۔ ادھر آپ کے دوسو اونٹ پکڑے گئے ہیں میں نے آپ سے آپ کی حاجت پوچھی ہے تو آپ نے اپنے اونٹوں کی بات کی ہے اور آپ نے مجھ سے اپنے کعبے کی بات ہی نہیں کیا۔ چنانچہ عبد المطلب نے اس سے کہا۔ اے بادشاہ میں تو اپنے حال کے بارے میں آپ سے بات کروں گا۔ رہا یہ کعبہ اور یہ گھر، اس کا مالک موجود ہے، وہ خود اس کی حفاظت کرے گا مجھے اس کے بارے میں کوئی اختیار نہیں ہے۔ ابو یکسوم نے ان کا خیال کیا اور حکم دے دیا کہ عبدالمطلب کے اونٹ اس کو واپس کر دیئے جائیں۔

رہبروں کا توبہ کرنا اور واپس لوٹنا :

اس کے بعد واپس آئے، اور وہ رات انہوں نے تارے گن گن کر گزاری، جیسے وہ ان سے ہم کلام ہیں۔ چنانچہ ان کے دلوں نے عذاب کو محسوس کر لیا تھا۔ اور ان کا راستہ دکھانے والا رہبر ان کو چھوڑ کر حرم میں چلا آیا تھا۔ اور اشعریوں اور خشعمیوں نے عذاب کو محسوس کرتے ہوئے بادشاہ سے بے وفائی کر لی۔ انہوں نے اپنی تلواریں اور ترکش توڑ ڈالے اور اللہ کی بارگاہ میں انہوں نے اظہار براءت کر لیا، اس بات سے کہ وہ کعبے کے گرانے میں ان کی مدد کریں۔ انہوں نے خوف کے عالم میں یہ بدترین رات گزاری۔ پھر وہ رات کے پچھلے حصہ میں منہ اندھیرے اٹھے حملے کے لیے روانگی کرنے کے لیے۔ انہوں نے اپنے ہاتھیوں کو اٹھایا، سوچ رہے تھے کہ صبح ہی صبح مکے میں داخل ہو جائیں گے۔ انہوں نے بڑے ہاتھی کو مکے کی طرف متوجہ کیا تو وہ بیٹھ گیا۔ پھر انہوں نے اس کو مار مار کر اٹھانے کی کوشش کی تو وہ لیٹ گیا۔ اس کی برابر یہی حالت رہی، یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔
اس کے بعد لوگ اپنے ہاتھی کے پیچھے پڑ گئے، اس کو کہنے لگے تجھے اللہ کی قسم ہے کیا تو مکے نہیں جائے گا۔ اور اس کو قسمیں دینے لگے، وہ اپنے کان ہلا دیتا تھا گویا (وہ منع کر رہا تھا) اور ہاتھی ان پر برہم ہو گیا تھا۔ جب انہوں نے اس کو زیادہ تنگ کیا تو انہوں نے اس کو یمن واپسی کی راہ پر اٹھا کر کھڑا کیا تو وہ واپسی کے لیے بھاگنے لگا۔ جب انہوں نے ان کو چلتے پھرتے دیکھا تو پھر اس کو کعبے کی طرف متوجہ کیا تو وہ دوبارہ بیٹھ گیا اور پھر زمین پر لیٹ گیا۔ یہ منظر دیکھ کر انہوں نے اس کو قسمیں دیں وہ اپنے کانوں کو ہلانے لگا۔ جب انہوں نے اس کو زیادہ تنگ کیا تو وہ اٹھ کھڑا ہوا اور انہوں نے اس کو یمن کی طرف متوجہ کیا تو وہ بھاگنے لگا۔ یہ دیکھ کر انہوں نے اس کو پھر مکے کی راہ پر ڈالا۔ جب وہ پہلی جگہ پر آیا تو وہ پھر بیٹھ گیا۔ انہوں نے اس کو مارا تو وہ لیٹ گیا۔
وہ اسی ادھیڑ بن میں لگے ہوئے تھے کہ سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ ساتھ ان پر پرندے ابھر کر آگئے۔ سمندر کی طرف سے دھویں کے سیاہ بالوں کی مانند پرندے نمودار ہوئے، دیکھتے ہی دیکھتے فضا میں چھا گئے۔ وہ ان کو کنکریاں مارنے لگے۔ ہر پرندے کی چونچ میں ایک پتھر تھا اور پنجوں میں ایک ایک پتھر۔ ایک پتھر مار کر گزر جاتا تو دوسرا آ جا تا۔ جہاں وہ پتھر گرتا سوراخ کر جاتا، پیٹ پر گرتا تو اس کو پھاڑ دیتا، ہڈیوں پر لگتا تو اس کے پار ہو جاتا تھا۔
یہ منظر دیکھ کر ابو یکسوم بادشاہ بدحواس ہو کر بھاگنے اور فرار ہونے لگا۔ اس کو بھی پتھر لگتے رہے۔ وہ جس سرزمین سے گزرتا تھا وہاں سے اس کی امید منقطع ہو جاتی تھی اس حالت میں بھاگتے بھاگتے وہ یمن پہنچا، مگر اس کے جسم کا کوئی حصہ سلامت نہیں رہا تھا۔ جب وہاں پہنچا تو اس کا سینہ پھٹ گیا اور پیٹ چاک ہو گیا اور وہ ہلاک ہو گیا۔ اور قبیلہ خثعم اور اشعریوں نے جو براءت کا اظہار کر لیا تھا ان کو کوئی تکلیف نہ پہنچی۔
اس بارے میں جو انہوں نے شعر کہے، اس کو بھی لوگوں نے نقل کیا ہے۔ عبد المطلب نے رجز پڑھتے ہوئے کہا :
اور وہ اہل حبشہ کے خلاف بد دعا کر رہے تھے۔
«يارب لا ارجولهم سواكا
يارب فامنع منهم حما كا
ان عدو البيت من عاداكا
انهم لن يقهروا فى قواكا
»
”اے پروردگار میں ان کے بارے میں تیرے سوا کسی سے امید قائم نہیں کرتا۔ اے میرے رب تو ہی ان سے اپنے متاع کی حفاظت فرما۔ بے شک بیت اللہ کا دشمن تیرا بھی دشمن ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بے شک وہ لوگ تیری طاقتوں پر غالب نہیں آ سکتے۔“
بیہقی کہتے ہیں ہمیں حدیث بیان کی ہے محمد بن عبد اللہ حافظ نے بطور املاء کے۔ وہ کہتے ہیں ہمیں حدیث بیان کی ہے ابو زکریا عنبری نے، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں حدیث بیان کی ہے جریر نے قابوس بن ابوظبیان سے، اس نے اپنے والد سے، اس نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہاتھی والے آئے۔ جب وہ مکہ کے قریب ہوئے تو عبدالمطلب آگے جا کر ان کو ملے اور ان کے بادشاہ سے کہا، آپ ہمارے پاس کیوں آئے ہیں ؟ آپ اگر ہمارے پاس اپنا نمائندہ بھیج دیتے تو ہم خود آپ کے پاس آ جاتے اور آپ جو کچھ ہم سے چاہتے ہیں ہم وہ بھی آپ کے پاس لے آتے۔ اس نے کہا کہ مجھے اس گھر کے بارے میں خبر ملی ہے کہ جو بھی اس میں داخل ہوتا ہے اس کو امان مل جاتی ہے۔ میں اس کے ساتھ بسنے والوں کو دہشت زدہ کرنے آیا ہوں اور اس کے امن کو تباہ کرنے آیا ہوں۔ عبد المطلب نے کہا کہ ہم آپ کو ہر وہ چیز دیں گے جو آپ کو چاہیے، بس آپ واپس چلے جایئے۔ اس نے کہا کہ نہیں میں تو اس کے اندر داخل ہو کر دکھاؤں گا۔ وہ کعبہ کی طرف بڑھتا چلا گیا اور عبد المطلب پیچھے ہٹتے چلے گئے۔ وہ پہاڑ کے اوپر جا کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ میں نہ تو اس گھر کو ہلاکت کے وقت یہاں موجود رہوں گا نہ ہی یہاں کی آبادی کی تباہی کو دیکھوں گا۔
اس کے بعد انہوں نے دعائیہ اشعار کہے تھے :
«اللهم ان لكل اله حلا لا فامنع حلالك
لايغلبن مجالهم ابدا محالك
اللهم فان فعلت فامر مابدالك
»
”اے اللہ : بے شک ہر الٰہ کا ایک متاع ہوتا ہے۔ آپ بھی اپنے سامان کی حفاظت کیجئے۔ ان کی طاقت آپ کی طاقت پر ہرگز غائب نہیں آئے گی بھی۔ اے اللہ! اگر اب اپنے گھر کی حفاظت نہ کریں گے تو پھر یہ ایسا امر ہے جو چاہیں آپ سو کریں۔“
یہ دعا کرتے ہی سمندر سے بادلوں کی مانند پرندوں کا طوفان اٹھا اور دیکھتے دیکھتے ابابیل پرندے ان پرچھا گئے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : «ترميهم بحجارة من سجيل» کہ پرندے ان پر سخت مٹی کے پتھر مار رہے تھے۔ فرمایا کہ پرندے ان پر لپکنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے کنکریوں کی بمبار منٹ سے ان کو کھائے ہوئے بھوسے کی مانند کر دیا۔
تحقیق الحدیث :
اسنادہ ضعیف۔
[السيرة النبوية لابن اسحاق 14/1 ورواه الحاكم فى المستدرك 583/2]
اگرچہ اس کو حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔ مگر یہ ضعیف ہے۔ اس کی سند میں قابوس بن ابی ظبیان سے متعلق حافظ ابن حجر کہتے ہیں : ضعیف ہے،
ابو حاتم کہتے ہیں : اس کی بیان کردہ روایت قابل حجت نہیں۔ [دلائل النبوة بيهقي 105/1]
اس میں یہ واقعہ محمد بن اسحاق بن یسار نے بیان کیا ہے جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے بعد پیدا ہوئے انہوں نے یہ واقعہ کسی سے سنا کوئی سند نہیں۔ ایک محقق نے اس قصہ پر پرمغز تبصرہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں۔ ابرہہ کی آمد کی تفاصیل کا منبع عبید بن عمیر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں پیدا ہوا۔ ہم تک پہنچنے والی معلومات میں سے یہ سب سے قدیم ہیں۔ ان کی سند ضعیف ہے، اس میں ابسفیان طلحہ بن نافع ہے جو کہ مدلس ہے اور اس نے یہ واقعات لفظ عن کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ [مصنف ابن ابي شيبه : 285۔ 284/14]
یہ تفاصیل اعمش نے طلحہ سے روایت کی ہیں اور محدثین کے ہاں یہ بات مشہور و معلوم ہے کہ اعمش کی طلحہ سے روایت اس کتاب سے ہے جس کا کچھ حصہ اس نے سنا ہے۔ پوری کتاب نہیں سنی۔ اس روایت میں یہ صراحت نہیں کی کہ واقعتاً اس نے اس کا سماع کیا ہے [ميزان الاعتدال للذهبي : 224/2 – تهذيب التهذيب لابن حجر : 224/3 – تعريف اهل التقديس : 33]
طبرانی کی سند قتادہ تک حسن ہے کیونکہ یزید بن زریع کا سعد بن ابوعرو بہ سے سماع قدیم ہے یعنی سعید
کے حافظ کی خرابی سے پہلے کا ہے، لیکن یہ روایت مرسل ضعیف ہے۔ [تفسير طبري : 30 /303، 304]
قتادہ کا قول محمد بن ثور عن معمر عن قتادہ کا صحیح سند کے ساتھ طبری تک پہنچا ہے۔ [البصري : 297/30، 299]
اس کے علاوہ بقیہ تمام روایات جو ابن مسعود، ابن عباس اور سعید بن جبیر اور دوسرے لوگوں کی سند سے بیان ہوئی ہیں وہ صرف سورۃ فیل کے الفاظ کی تفسیر کی حد تک ہیں۔ وہ اس واقعہ کی کوئی تفصیلی صورت کشی نہیں کرتیں۔ [تفسير طبري 296/30]
——————

یہودی عالم نے عبد المطلب سے کہا آپ کے ایک نتھنے میں نبوت دوسرے میں بادشاہت ہے

بیہقی کہتے ہیں، ہمیں حدیث بیان کی ابو عبداللہ حافظ نے بطور املاء کے، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں حدیث بیان کی ابوجعفر محمد بن محمد بن عبد اللہ بغدادی نے، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں حدیث بیان کی ہاشم بن مرثد طبرانی نے، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں حدیث بیان کی یعقوب بن محمد زہری نے، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں حدیث بیان کی عبدالعزیز بن عمران نے، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں حدیث بیان کی عبداللہ بن جعفر نے، ان کو ابن عون نے، ان کو مسور بن مخرمہ نے، ان کو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے والد سے، وہ کہتے ہیں کہ عبد المطلب نے کہا کہ میں سردی کے موسم میں سفر کر کے یمن پہنچا اور میں ایک یہودی عالم کے پاس اترا۔ چنانچہ کتاب زبور کے ماننے والے ایک آدمی نے مجھ سے کہا، اے عبدالمطلب کیا آپ مجھے اس بات کی اجازت دیں گے کہ میں آپ کے جسم کو دیکھوں۔ میں نے کہا کہ آپ دیکھ لیجئے سوائے شرم گاہ کے حصہ کے۔
کہتے ہیں کہ اس نے میرے ناک کے ایک نتھنے کو کھول کر دیکھا، پھر دوسرے کو دیکھا۔ پھر اس نے کہا کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ اس کے ایک میں بادشاہت ہے اور دوسرے میں نبوت ہے اور میں یہ چیزیں نتھنوں میں دیکھ رہا ہوں۔ تو یہ کیسے ہو گا ؟ میں نے کہا کہ میں تو نہیں جانتا۔ پھر اس نے پوچھا کہ تیری شاعتہ ہے (تابعدار، فرمانبردار) یعنی بیوی ہے ؟ میں نے اس سے پوچھا کہ شاعتہ سے کیا مراد ہے، اس نے بتایا کہ زوجہ۔ میں نے جواب دیا کہ آج کل تو نہیں ہے۔ اس نے کہا جس وقت آپ واپس وہاں جائیں تو بنو زہرہ میں شادی کر لینا۔ چنانچہ عبد المطلب مکہ واپس لوٹ گئے اور انہوں نے ہالہ بنت وہب بن عبد مناف سے شادی کر لی اور اس سے دو بچے پیدا ہوئے، حمزہ اور صفیہ۔ اور عبداللہ بن عبدالمطلب نے شادی کی آمنہ بنت وہب ہے۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنم دیا اور جب عبداللہ بن عبدالمطلب نے آمنہ بنت وہب سے شادی کی تو قریش نے کہا کہ عبداللہ اپنے والد پر گئے ہیں (یعنی جو طلب کرتے ہیں کامیاب ہوتے ہیں۔ اور تحقیق کہا گیا کہ یہ عورت قبیلہ خثعم سے تھی)۔
تحقیق الحدیث :
اسناد موضوع۔
[اخرجه البيهقي فى دلائل النبوة 98/1 رقم : 24]
[والحاكم فى المستدرك : 606/2 حديث رقم 4176]
[من طريق أبى جعفر محمد بن عبدالله البغدادي والطبراني فى الكبير : 137/3 حديث رقم 2917۔]
[من طريق على ابن أحمد الحوزي الواسطى قال : حدثنا يعقوب بن محمد الزهري۔۔۔۔۔۔ به، وابو بكر الشافعي فى الغيلانات : 254/1 حديث رقم 229]
[من طريق محمد بن يونس ……… به، و أبو نعيم فى دلائل النبوة : 85/1 حديث رقم 71]
[من طريق يعقوب بن محمد بن عيسى۔۔۔۔۔ به، و ابن سيد النساس فى عيون الأثر 85/1]
[من طريق يعقوب بن محمد بن عيسى ………….، وابن الجوزي فى المنتظم : 191/1]
[من طريق يعقوب………… به، كلاهما يعقوب، محمد بن يونس عن عبدالعزيز بن عمران ……….. به، هيشمي المجمع 231٫8]
میں کہتے ہیں اس کو طبرانی نے روایت کیا ہے۔ اس میں عبدالعزیز بن عمران راوی متروک ہے۔
——————

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ولادت کی ایک ضعیف روایت

ابن سعد کہتے ہیں کہ اسحاق بن عبداللہ سے روایت ہے کہ جناب آمنہ کہتی ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت میرے بطن سے نور کا ظہور ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پاک و صاف طاہر و مطہر پیدا ہوئے لیکن آپ کے ساتھ کوئی آلودگی و الائش نہیں تھی اور جب آپ کو زمین پر رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دست (ہاتھ) مبارک کے سہارے فرش پر بیٹھ گئے۔
تحقیق الحدیث :
اسناد ضعیف۔
[طبقات ابن سعد مترجم ج1، ص : 146- خصائص الكبري مترجم ج1، ص : 102]
دونوں نے اس کو اسحاق بن عبد اللہ سے نقل کیا ہے جبکہ اسحاق بن عبد اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی سو سال بعد پیدا ہوئے انہوں نے اس کی کوئی سند بیان نہیں کی ان کو بغیر کسی واسطے کے اس واقعہ کا کیسے علم ہوا۔
——————

اس تحریر کو اب تک 32 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply