کم سن، کم عمر بچی کا نکاح

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا کم سن بچی کی شادی کرنا جائز ہے اور کیا بلوغت کے بعد بچی کو انکار کرنے کا اختیار حاصل ہوگا؟
جواب : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
« لا تنكح الثيب حتى تستامر، ولا البكر إلا بإذنها، قالوا: يا رسول الله، وما إذنها؟ قال: ان تسكت» [ابوداؤد، كتاب النكاح : باب فى الاستيمار 2092]
”بیوہ کا نکاح اس کی اجازت حاصل کیے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت حاصل کئے بغیر نہ کیا جائے،“ لوگوں نے کہا: ”اے اللہ کے رسول ! اس کی اجازت کیا ہے ؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اس کا خاموش رہنا۔“
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بالغہ لڑکی سے اس کے نکاح کی اجازت لی جاتی ہے اور جب وہ نابالغہ ہوتی ہے تو بچپن میں اس سے اجازت نہیں لی جاتی۔ اس کا ولی نکاح کر سکتا ہے بعد از بلوغت اس لڑکی کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنا نکا ح اگر منسوخ کرانا چاہے تو کرا سکتی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
« ان جارية بكرا اتت النبى صلى الله عليه وسلم، فذكرت ان اباها زوجها وهى كارهة، فخيرها النبى صلى الله عليه وسلم» [ابوداؤد، كتاب النكاح : باب فى البكر يزوجها أبوها ولا يستامرها 2096]
”ایک کنواری لڑکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور بیان کیا کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح کیا ہے اور وہ ناپسند کرتی ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا۔“
علامہ احسن دہلوی رقمطراز ہیں :
«الحديث يدل على تحريم اجبار الاب لابنته البكر على النكا ح و غيره من الولياء بالاولي» [تنقيح الرواة 3/ 10]
”یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ ماں باپ کے لئے حرام ہے کہ وہ اپنی کنواری بیٹی کو نکاح پر مجبور کرے، تو باپ کے علاوہ لڑکی کے اولیاء کے لئے بالاولٰی جبر کی ممانعت ہے۔“
مذکورہ بالا صحیح حدیث سے معلوم ہوا کو لڑکی بالغ ہو جانے کے بعد اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنا بچپن کا کیا ہوا نکاح فسخ کروا سکتی ہے۔ فسخ کے لیے چاہیں تو ثالثی شرعی عدالت کی طرف رجوع کر لیں تا کہ مزاحمت وغیرہ کا اندیشہ نہ ہو۔

اس تحریر کو اب تک 6 بار پڑھا جا چکا ہے۔