مسلمان عورت کا عیسائی سے نکاح کرنا

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : مسلمان عورت کا کسی عیسائی سے نکاح کرنے کا شرعاً کیا حکم ہے ؟ اور اس شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کا کیا حکم ہے ؟ نیز اس نکاح کے مختار ( نکاح خواں ) کے متعلق کیا حکم ہے کہ جو اس شادی کی تکمیل کا سبب بنا اور اس بیوی کا کیا حکم ہے کہ جب اگر وہ اس نکاح کے بطلان سے آگاہ بھی ہو ؟ کیا عورت پر شری حد قائم کی جائے گی یا نہیں ؟ اگر نکاح کے بعد خاوند مسلمان ہو جائے تو پہلے نکاح کا کیا حکم ہو گا ؟ اور پھر نیا نکاح کیسے ہو گا ؟
جواب : مسلماں عورت کا عیسائی یا کسی بھی کافر مرد سے نکاح کرنا حرام ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشار ہے :
وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ [2-البقرة:222]
”اور مشرکوں کے نکاح میں مسلمان عورتیں نہ دو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔ “
نیز فرمایا :
لَا هُنَّ حِلٌّ لَهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ [ 60-الممتحنة:10]
”وہ (مومن) عورتیں ان (کافروں) کے لئے حلال نہیں، اور نہ وہ (کافر) ان مومن عورتوں کے لئے حلال ہیں۔ “
اگر ایسا نکاح ہو جائے تو اس کا فسخ فوراً واجب ہے، اگر عورت کو اس نکاح اور اس کے شرعی حکم کا علم تھا تو وہ واجب تعزیر ہے اسی طرح ولی، گواہ اور نکاح خواں (نکاح رجسٹرار) اس نکاح کے شرعی حکم سے آگاہ ہونے کی صورت میں واجب تعزیر ہوں گے۔ اس نکاح کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد اسلام میں ماں کے تابع ہو گی، اگر نکاح کے بعد خاوند مسلمان ہو جائے اور اس کے حسن اسلام کا یقین ہو جائے تو نکاح دوبارہ ہو گا۔ حسن اسلام کی شرط اس لئے ہے کہ کہیں وہ اسلام کو نکاح کے لئے بطور حیلہ کے استعمال نہ کرے اور اگر وہ اس کے بعد مرتد ہو جائے تو واجب القتل ہے۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من بدل دينهٔ فاقتلوه [ البخاري، كتاب الجهاد باب 149 ]
”جو شخص دین اسلام سے مرتد ہو جائے اسے قتل کر دو۔ “

اس تحریر کو اب تک 12 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply