کرنسی کا حکم

مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

125- نقود (زر، کرنسی) سونے اور چاندی کے قائم مقام ہیں
موجود وقت میں اہل علم کے ہاں یہ معروف ہے کہ یہ نقود، سونے اور چاندی کے قائم مقام ہیں کیونکہ انہیں سامان کی قیمت قرار دیا گیا ہے اور یہ سود میں ان کے قائم مقام ہیں۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 169/19]

126۔ کرنسیوں کی خرید و فروخت
اگر مختلف کرنسیاں ہوں تو ان کا لین دین اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ ان کا تبادلہ اور قابض نقد بہ نقد ہو اگر لیبیا کی کرنسی کی امریکی کرنسی یا مصری کرنسی کے ساتھ بیع کی جائے اور نقد بہ نقد ہو، تو اس میں کوئی حرج نہیں، جیسے کوئی آدمی لیبیا کی کرنسی سے ڈالر نقد بہ نقد خریدتا ہے اور مجلس ہی میں ایک دوسرے کو وہ دے دی جاتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر یہ ادھار ہو تو پھر جائز نہیں، اسی طرح اگر مجلس میں وہ ایک دوسرے کو نہ پکڑائی جائے تب بھی جائز نہیں۔
کیونکہ جو حالت بیان ہوئی ہے، اس کے مطابق یہ سودی معاملات کی ایک نوع ہے، لہٰذا اس میں اگر کرنسیاں مختلف ہوں تو مجلس ہی میں نقد بہ نقد ایک دوسرے کو پکڑا دینا ضروری ہے، لیکن اگر دونوں کرنسیاں ایک ہی قسم کی ہوں۔ تب دو شرطوں کا ہونا ضروری ہے: برابر برابر ہونا اور مجلس ہی میں پکڑانا، کیونکہ فرمان نبوی ہے:
”سونے کے بدلے سونا، چاندی کے بدلے چاندی، گندم کے بدلے گندم، کھجور کے بدلے کھجور، جو کے بدلے جو، نمک کے بدلے نمک، ایک دوسرے کے مثل، ایک دوسرے کے برابر مگر جب یہ اصناف مختلف ہو جائیں تو جس طرح چاہو بیچو، اگر نقد بہ نفقہ ہو۔“ [صحيح مسلم 1587/81]
اور کرنسیوں کا حکم وہی ہے جو ذکر ہوا ہے، اگر یہ مختلف ہوں تو مجلس میں پکڑانے کی شرط پر ان میں اضافہ جائز ہے اور اگر ایک ہی قسم کی ہوں، جیسے ڈالر کے بدلے ڈالر، دینار کے بدلے دینار، تو پھر مجلس میں تبادلہ اور برابر ہونا ضروری ہے۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 171/19]

127- تجارت کی غرض سے کرنسی خریدنا اور ذخیرہ کرنا
سوال: کیا یہ جائز ہے کہ کوئی آدمی کوئی کرنسی خرید لے اور ذخیرہ کر لے، پھر جب اس کا ریٹ بڑھ جائے تو اسے بیچ دے؟
جواب: ہر وہ سامان جو انسان نے خریدا اور اسے بچنے کے لیے ذخیرہ کر لیا، پھر جب اس کی قیمت بڑھ گئی تو اس نے اسے بیچ دیا، اگر اس میں مسلمانوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے تو اس میں کوئی حرج نہیں، مثلاً کوئی آدمی آسٹریلوی یا مصری پونڈ خرید لے یا عراقی دینار، اردنی دینار یا سعودی ریال خرید لے، پھر اسے اپنے پاس ذخیرہ کر لے، جب وہ مہنگا ہو جائے تب مجلس عقد میں تبادلہ اور تقابض کی شرط پر اسے بیچ دے، اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جس میں کوئی ممانعت ہو۔ اسی طرح ذخیرہ اندوزی ہے، اگر یہ خوراک وغیرہ میں ہو اور اس میں مسلمانوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے تو اس میں ممانعت نہیں۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 173/19]

اس تحریر کو اب تک 2 بار پڑھا جا چکا ہے۔