قرضہ ادا کرتے ہوئے اگر کرنسی کی قیمت بدل جائے

تحریر : فتاویٰ سعودی فتویٰ کمیٹی

176- قرضہ ادا کرتے وقت کرنسی کی قیمت میں تبدیلی ہونا
سوال: میں نے ایک آدمی کو کچھ رقم ڈالر میں بطور قرض دی اور اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ واپس بھی ڈالروں ہی میں کرے گا لیکن جب میں نے اس کو قرض دیا تھا، آج ڈالر کی قیمت اس سے مختلف ہے اور اس میں اضافہ ہو گیا ہے۔ کیا یہ فرق سود شمار کیا جائے گا؟
جواب: جب کوئی انسان کسی کو ڈالر قرضہ میں دے تو مقروض کے ذمے ڈالر ہی واجب الادا ہوں گے، چاہے اس کی شرط لگائی گئی ہو یانہ۔
اسی طرح اگر کسی نے کسی کو سعودی ریال کا قرضہ دیا ہو تو اس کے ذمے سعودی ریال ہی ثابت ہوں گے، خواہ ان کی شرط لگائی گئی ہو یا نہ، مقروض پر لازم نہیں آتا کہ وہ کوئی دوسری کرنسی میں اسے ادا کرے، خواہ اس کی قیمت کم ہو گئی ہو یا زیادہ یا مستحکم اور برقرار رہی ہو۔
اگر اس نے ڈالر کا قرضہ دیا تھا جو مثال کے طور پر پانچ سعودی ریال کے مساوی ہے، پھر اس کا ریٹ چڑھ گیا اور دس ریال کے برابر ہو گیا، تو اس کے لیے ڈالروں ہی میں ادا کرنا لازمی ہے، چاہے سعودی ریال کے لحاظ سے اس کی قیمت بڑھ ہی گئی ہو۔ اگر اس نے ڈالر قرضے میں دیے تھے، قرضے کے وقت ایک ڈالر پانچ ریال کے مساوی تھا، پھر ڈالر کا ریٹ کم ہو کر تین ریال کے برابر ہو گیا تو اسے ڈالر ہی ادا کرنے ہوں گے۔
اہم بات یہ ہے کہ جو کسی سے قرضہ لیتا ہے، اس کے ذمے صرف وہی ثابت ہوتا ہے جو وہ لیتا ہے۔ لیکن اگر قرض دار کسی دوسری کرنسی میں قرض ادا کرنا چاہے اور وہ دونوں متفق ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں، البتہ یہ شرط ضرور ہے کہ وہ اس دن کے ریٹ کے مطابق ہو اور جب وہ جدا ہوں تو ان دونوں کے درمیان کوئی چیز (تصفیہ طلب) نہ ہو۔ حضرت عبد اللہ بن عمر کی حدیث میں ہے کہ ہم بقیع کے مقام پر دیناروں میں اونٹ بیچتے اور ان کے بدلے درہم لے لیتے اور درہموں میں بیچتے اور ان کے بدلے دینار لے لیتے، ہم نے اس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کوئی حرج نہیں اگر اس دن کے ریٹ کے مطابق لو، جب تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہو اور تمہارے درمیان کوئی چیز ہو۔“ [ضعيف۔ سنن أبى داود، رقم الحديث 3354]
خلاصہ یہ ہے کہ ڈالر بطور قرضہ لینے والے کے ذمے ڈالر ہی ثابت اور واجب الادا ہوتے ہیں، چاہے ان کی قیمت کم ہو جائے یا زیادہ۔
سائل کا یہ کہنا کہ کیا یہ سود ہے؟ لیکن اگر اس کی قیمت زیادہ ہو جائے تو؟
میرا جواب یہ ہے کہ یہ سود نہیں کیونکہ تجھ کو وہی دینا واجب ہے جو تم نے لیا تھا، چاہے اس کی قیمت زیادہ ہو جائے یا کم۔
[ابن عثيمين: نور علي الدرب: 3/244]

اس تحریر کو اب تک 12 بار پڑھا جا چکا ہے۔