والدین کے ساتھ حسن سلوک

مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

« جموع ما جاء فى البر والصلة »
حسن سلوک اور صلہ رحمی
« باب تفسير البر والاثم »
نیکی اور بدی کی تفسیر
✿ «عن النواس بن سمعان الأنصاري قال سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن البر والاثم فقال: البر حسن الخلق والإثم ما حاك فى صدرك و كرهت أن يطلع عليه الناس. » [صحيح رواه مسلم 5253.]
نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے نیکی اور گناہ کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نیکی حسن اخلاق کو کہتے ہیں اور گناہ وہ ہے جو تمھارے دل میں کھٹکے، اور تم اس بات کو ناپسند کرو کہ لوگ اس سے واقف ہوں۔“

✿ «عن أبى ثعلبة الخشني يقول قلت يا رسول الله أخبرني بما يحل لي ويحرم على قال فصعد النبى صلى الله عليه وسلم وصوب فى النظر. فقال البر ما سكنت إليه النفس واطمأن إليه القلب والإثم ما لم تسكن إليه النفس ولم يطمئن إليه القلب وإن أفتاك المفتون وقال لا تقرب لحم الحمار الأهلي ولا ذا ناب من السباع.» [صحيح: رواه أحمد 17742.]
ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! مجھے بتایئے کہ میرے لیے کیا حلال ہے اور مجھ پر کیا حرام ہے؟ انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری جانب نگاہیں اٹھا کر دیکھا، پھر فرمایا: ”نیکی وه ہے جس سے نفس کو سکون ملے اور دل کو اطمینان حاصل ہو۔ اور گناہ وہ ہے جس سے دل کا سکون چھن جائے، اور اطمینان کی دولت سے محروم ہو جائے، اور اگرچہ کہ فتوی دینے والے تمہیں اس کے جواز کا فتوی دیں۔“ اور فرمایا : ”گھریلو گدھوں، اور کد کنچلی والے درندوں کے گوشت کے قریب نہ جاؤ۔“
——————

« باب بر الوالدين من أحب الأعمال إلى الله »
والدین کے ساتھ حسن سلوک اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل ہے۔
✿ «عن عبد الله بن مسعود رضى الله عنه قال سالت النبى صلى الله عليه وسلم اي العمل احب إلى الله؟ قال: الصلاة على وقتها . قال ثم اي قال:ثم بر الوالدين . قال ثم اي قال: الجهاد فى سبيل الله . قال: حدثني بهن ولو استزدته لزادني.» [متفق عليه: رواه البخاري 5970، ومسلم 85: 139.]
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل کون سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔“ میں نے دریافت کیا: پھر کون سا؟ فرمایا: ”پھر والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔“ میں نے پوچھا: پھر کون سا؟ ”فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔“ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : یہ ساری باتیں آپ نے مجھ سے بیان فرمائیں۔ اگر میں مزید دریافت کرتا تو آپ مجھے مزید اور باتیں بتاتے۔
——————

« باب إجابة دعا، لمن بروالديه »
والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے کی دعا قبول ہوتی ہے۔
✿ « عن ابن عمر رضي الله عنهما، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: بينما ثلاثة نفر يتماشون اخذهم المطر فمالوا إلى غار فى الجبل فانحطت على فم غارهم صخرة من الجبل فاطبقت عليهم، فقال بعضهم لبعض: انظروا اعمالا عملتموها لله صالحة، فادعوا الله بها لعله يفرجها، فقال احدهم: اللهم إنه كان لي والدان شيخان كبيران ولي صبية صغار كنت ارعى عليهم، فإذا رحت عليهم فحلبت بدات بوالدي اسقهما قبل ولدي، وإنه ناء بي الشجر فما اتيت حتى امسيت فوجدتهما قد ناما، فحلبت كما كنت احلب فجئت بالحلاب فقمت عند رءوسهما، اكره ان اوقظهما من نومهما، واكره ان ابدا بالصبية قبلهما والصبية يتضاغون عند قدمي، فلم يزل ذلك دابي ودابهم حتى طلع الفجر، فإن كنت تعلم اني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج لنا فرجة نرى منها السماء، ففرج الله لهم فرجة حتى نري منها السماء، ففرج الله لهم فرجة حتي يرون منها السماء وقال الثاني: اللهم إنه كانت لي ابنة عم احبها كاشد ما يحب الرجال النساء فطلبت إليها نفسها فابت حتى آتيها بمائة دينار فسعيت حتى جمعت مائة دينار فلقيتها بها، فلما قعدت بين رجليها قالت: يا عبد الله اتق الله، ولا تفتح الخاتم فقمت عنها، اللهم فإن كنت تعلم اني قد فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج لنا منها ففرج لهم فرجة، وقال الآخر: اللهم إني كنت استاجرت اجيرا بفرق ارز فلما قضى عمله قال اعطني حقي فعرضت عليه حقه فتركه ورغب عنه، فلم ازل ازرعه حتى جمعت منه بقرا وراعيها، فجاءني فقال: اتق الله ولا تظلمني واعطني حقي، فقلت: اذهب إلى ذلك البقر وراعيها، فقال: اتق الله ولا تهزا بي، فقلت: إني لا اهزا بك فخذ ذلك البقر وراعيها فاخذه فانطلق بها، فإن كنت تعلم اني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج ما بقي ففرج الله عنهم.» [متفق عليه: رواه البخاري 5974، ومسلم 2743. واللفظ للبخاري.]
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین لوگ پیدل جارہے تھے۔ بارش نے ان کو گھیر لیا، انھوں نے ایک غار میں پناہ لی۔ پہاڑ کی چٹان لڑھک کر غار کے منہ پر آبیٹھی اور اس نے ان پر غار کے دہانے کو بند کر دیا تو انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا : دیکھو ! تم لوگ اپنے ان نیک اعمال کا جائز لو جو تم نے خالص اللہ کے لیے انجام دیے ہیں، پھر ان کے وسیلے سے اللہ سے دعا مانگو، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پتھر کو ہٹا دے۔ تو ان میں سے ایک شخص نے دعا کی : اے اللہ ! میرے بوڑے ماں باپ تھے، اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے، میں بکریاں چرایا کرتا تھا، جب میں شام کو گھر لوٹتا تو ان بکریوں کا دودھ دوہ کر سب سے پہلے اپنے والدین کی خدمت میں پیش کرتا اور اپنی اولاد سے پہلے ان دونوں کو پلا کر سیراب کرتا تھا۔ ایک دن میں درختوں کی تلاش میں بہت دور نکل گیا۔ پھر میرے لوٹ کر آنے تک شام ہو چکی تھی۔ میں نے اپنے والدین کو سویا ہوا پایا، میں نے دودھ دوہا جیسے روزانہ دوہا کرتا تھا۔ پھر اسی دوہے ہوئے دودھ کو لے کر میں اپنے والدین کے سرہانے کھڑا ہو گیا۔ مجھے ان کو نیند سے بیدار کرنا بھی ناگوار تھا اور میں اس بات کو بھی ناپسند کرتا تھا کہ ان سے پہلے اپنے بچوں کو دودھ پلاؤں جب کہ بچے میرے قدموں کے پاس لوٹ رہے تھے۔ برابر میرا حال وہی رہا اور ان کا بھی، یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ پس اگر (اے اللہ) تو جانتا ہے کہ یہ عمل میں نے خالص تیری خوشنودی کے لیے کیا ہے تو ہمارے لیے اتنی کشادگی پیدا فرما دے کہ ہم آسمان کو دیکھ سکیں تو اللہ نے ان کے لیے چٹان اس قدر سرکا دی کہ وہ اس سے آسمان کو دیکھنے لگے۔ اور دوسرے نے یوں دعا کی: اے اللہ میری ایک چچازاد بہن تھی، میں اس سے بہت لگاؤ رکھتا تھا جیسے عام طور پر مرد، عورتوں کی طرف شدید میلان رکھتے ہیں۔ میں نے اس سے اپنی خواہش نفس کی تکمیل کا مطالبہ کیا اس نے انکار کر دیا (اور کہا کہ) میں اس کو سو دینار ادا کر دوں۔ میں نے بڑی کوششوں سے سو دینار جمع کیے۔ پھر انھیں لے کر اس سے ملاقات کی۔ پھر جب میں اس کے پیروں کے آگے بیٹھ گیا تو اس نے کہا: اے اللہ کے بندے ! اللہ سے ڈر، اور اس مہر کو نہ کھول۔ پس میں اس کے پاس سے اٹھ گیا، اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ وہ کام میں نے خالص تیری رضا مندی کے لیے کیا ہے تو تو اس چٹان کو ہم پر سے ہٹا دے، تو ان کے لیے کچھ اور کشادگی اللہ نے پیدا فرما دی۔ اور تیسرے نے کہا: اے الله میں نے ایک آدمی کو مزدوری پر رکھا۔ چند سیر چاول پر، پھر جب وہ اپنے کام سے فارغ ہوا تو کہا : مجھے میرا حق دیجیے تو میں نے اس کو اس کا حق دے دیا۔ اور اس نے اپنا حق چھوڑ دیا اور اس سے منہ پھیر کر چلا گیا۔ پھر میں اس غلے کو برابر بوتا رہا، یہاں تک کہ میں نے اس سے گائے اور اس کے چرواہے خریدے۔ پھر وہ شخص (ایک مدت بعد) میرے پاس آیا۔ پھر اس نے کہا: اللہ سے ڈرو اور مجھ پر ظلم نہ کرو، اور مجھے میرا حق دے دو، میں نے کہا: ان گایوں اور ان کے چرواہے کے پاس جاؤ، تو اس نے کہا: اللہ سے ڈرو اور میرے ساتھ مذاق نہ کرو۔ میں نے کہا: میں تمھارے ساتھ مذاق نہیں کر رہا ہوں، تم ان گایوں اور ان کے چرواہے کو لے لو۔ وہ شخص انھیں لے کر چل پڑا۔ اے الله ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام محض تیری رضامندی کے لیے کیا تھا تو غار کا جو بند دہانا رہ گیا ہے تو اس کو کھول دے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے(اس چٹان کو)ہٹا دیا۔
——————

« باب عظم حق الوالدين »
والدین کے حق کی اہمیت
✿ «عن أبى هريرة، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا يجزي ولد والد، إلا أن يجده مملوكا فيشتريه فيعيقه وفي لفظ لا يجزي ولد والده .» [صحيح: رواه مسلم 1510]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بیٹا کسی باپ کا احسان اتار نہیں سکتا مگر یہ کہ اس کو غلامی کی حالت میں پائے، پھر اس کو خرید کر آزاد کر دے۔“ ایک روایت میں ہے: ”کوئی بیٹا اپنے باپ کے احسان کا بدلہ نہیں دے سکتا۔“

✿ « عن أبى الدرداء أن رجلا أتاه فقال إن لى امراة وإن امي تأمرني بطلاقها قال أبو الدرداء سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول الوالد اوسط ابواب الجنة فان شئت فأضغ ذلك الباب أم احفظه. » [صحيح: رواه الترمذي 1900، وأحمد 27511، والحاكم 152/4]
حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا، پھر اس نے کہا: میری ایک بیوی ہے، اور میری والدہ اس کو طلاق دینے کا حکم مجھے دے رہی ہیں۔ ابو دردا رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ باپ جنت
کے دروازوں میں سب سے اونچا دروازہ ہے۔ اگر تم چاہو تو اس دروازے کو گرا دو یا چاہو تو محفوظ رکھو۔
——————

« باب حق الأم أعظم من حق الأب »
ماں کا حق باپ کے حق سے بڑا ہے
✿ « عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، من احق الناس بحسن صحابتي؟ قال:” امك” قال: ثم من؟ قال:” ثم امك” قال: ثم من؟ قال:” ثم امك” قال: ثم من؟ قال:” ثم ابوك”، وفي رواية ثم أدناك أدناك. » [متفق عليه: رواه البخاري 5971، ومسلم 2548: 1. و الرواية الثانية : رواها مسلم 2548 : 2]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا: ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، پھر اس نے کہا: اے اللہ کے رسول ! میرے حسن سلوک کے سب سے زیادہ حق دار کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمھاری ماں۔“ اس نے پوچھا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمھاری ماں۔“ اس نے کہا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمھاری ماں۔“ اس نے کہا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمھارے والد۔“ اور ایک روایت میں ہے: ”پھر تمھارے سب سے قریبی رشتے دار۔“

✿ « عن بهز بن حكيم، عن ابيه، عن جده، قال: قلت:” يا رسول الله، من ابر قال أمك. قال قلت ثم من قال أمك قال قلت ثم من قال أمك قال قلت ثم من قال اباک ثم الأقرب فالأقرب . » [حسن: رواه أبو داود 5139، والترمذي 1897، وأحمد 20028، والبخاري فى الأدب المفرد 3]
حضرت بہز بن حکیم سے روایت ہے، وہ اپنے والد سے، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے کہا: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! میں کس سے حسن سلوک کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی ماں سے۔“ راوی کہتے ہیں، میں نے پھر پوچھا: پھر کس سے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی ماں سے۔“ راوی کہتے ہیں : میں نے پوچھا: پھر کس سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اپنی ماں سے۔“ راوی کہتے ہیں: میں نے پوچھا: پھر کسی سے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اپنے باپ سے، پھر اپنے سب سے قریبی رشتہ داروں سے۔“

✿ «عن معاوية بن جاهمة السلمي، ان جاھمۃ جاء الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال یا رسول اللہ اردت ان اغزو وقد جئت استشیرک فقال ھل لک من ام قال نعم قال فالزمھا فان الجنۃ تحت رجلیھا. » [حسن: رواه النسائي 3104. وابن ماجه 2781، وأحمد 15538، والحاكم 104/2]
حضرت معاویہ بن جاہمہ سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جاہمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ پھر انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں غزوے میں شریک ہونا چاہتا ہوں، اور آپ کی خدمت میں مشورے کی غرض سے حاضر ہوا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تمھاری ماں زندہ ہے ؟“ انھوں نے کہا : ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کی خدمت میں لگ جا بے شک جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔“

✿ «عن المقدام بن معد يكرب , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: إن الله يوصيكم بامهاتكم ثلاثا , إن الله يوصيكم بآبائكم , إن الله يوصيكم بالاقرب فالاقرب.» [حسن: رواه ابن ماجه 3661 واللفظ له. وأحمد 17187، والحاكم 151/4 .]
حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک الله تعالیٰ تمہیں تمھاری ماوں کے تعلق سے وصیت فرماتا ہے۔“ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کہی۔ ”بے شک الله تعالیٰ تمھیں تمھارے باپوں کے تعلق سے وصیت فرماتا ہے۔ بے شک الله تعالیٰ تمھیں قریبی رشتے داروں کے تعلق سے بھی وصیت فرماتا ہے۔“
——————

«باب تقديم بر الأم على صلاة التطوع »
ماں کے ساتھ حسن سلوک نفل نماز پر مقدم ہے
✿ «عن ابي هريرة، عن النبى صلى الله عليه وسلم، قال: ” لم يتكلم فى المهد إلا ثلاثة، عيسى ابن مريم، وصاحب جريج، وكان جريج رجلا عابدا فاتخذ صومعة، فكان فيها فاتته امه وهو يصلي، فقالت: يا جريج، فقال: يا رب امي وصلاتي، فاقبل على صلاته، فانصرفت، فلما كان من الغد اتته وهو يصلي، فقالت: يا جريج، فقال: يا رب امي وصلاتي، فاقبل على صلاته، فانصرفت، فلما كان من الغد اتته وهو يصلي، فقالت: يا جريج، فقال: اي رب امي وصلاتي، فاقبل على صلاته، فقالت: اللهم لا تمته حتى ينظر إلى وجوه المومسات، فتذاكر بنو إسرائيل جريجا وعبادته، وكانت امراة بغي يتمثل بحسنها، فقالت: إن شئتم لافتننه لكم، قال: فتعرضت له، فلم يلتفت إليها، فاتت راعيا كان ياوي إلى صومعته، فامكنته من نفسها فوقع عليها فحملت، فلما ولدت، قالت: هو من جريج، فاتوه فاستنزلوه وهدموا صومعته، وجعلوا يضربونه، فقال: ما شانكم؟ قالوا: زنيت بهذه البغي فولدت منك، فقال: اين الصبي فجاءوا به، فقال: دعوني حتى اصلي، فصلى فلما انصرف اتى الصبي فطعن فى بطنه، وقال يا غلام: من ابوك، قال: فلان الراعي، قال: فاقبلوا على جريج يقبلونه ويتمسحون به، وقالوا: نبني لك صومعتك من ذهب، قال: لا، اعيدوها من طين كما كانت، ففعلوا.» [متفق عليه: رواه البخاري 3436، ومسلم 2550: 8.]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گہوارے میں صرف تین بچوں نے گفتگو کی ہے۔ عیسیٰ ابن مریم اور حضرت جریح (کی پاک دامنی کی شہادت دینے) والا۔ جریح ایک عبادت گزار آدمی تھے، انھوں نے اپنے لیے ایک صومعه (عبادت گاہ) بنائی تھی، وہ اس میں قیام پذیر تھے، ایک مرتبہ ان کے پاس ان کی ماں آئیں جب کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ اس نے آواز دی: اے جریح : تو جریح نے (دل ہی دل میں) کہا: اے میرے رب ! میری ماں ہے اور میری نماز۔ پھر وہ اپنی نماز میں مشغول ہو گئے۔ ماں واپسی ہو گئیں، دوسرے دن پھر ان سے ملاقات کے لیے آئیں تو وہ حالت نماز میں تھے۔ ماں نے آواز دی: اے جریح ! تو جریح نے کہا: اے میرے رب! میری ماں کا بلاوا ہے اور میری نماز ہے، اور وہ پھر نماز میں مصروف ہو گئے، تو ماں واپس لوٹ گئیں، پھر وہ تیسرے دن آئیں تو وہ نماز ہی کی حالت میں تھے، ماں نے آواز دی: اے جریح ! جریح نے کہا: اے میرے رب! ایک طرف میری ماں کا بلاوا ہے اور ایک طرف نماز ہے۔ پھر وہ اپنی نماز میں مشغول ہو گئے۔ تو ماں نے بد دعا کی:اے اللہ: اسے اس وقت تک موت نہ دے، جب تک کہ یہ بدکار عورتوں کا چہرہ نہ دیکھ لے۔ بنی اسرائیل میں جریح اور ان کی عبادت کا بڑا چرچا تھا، ایک بدکار عورت جو اپنے حسن میں ضرب المثل تھی۔ اس نے کہا: اگر تم لوگ چاہو تو میں اس کو فتنہ میں مبتلا کر دوں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ عورت جریح کے سامنے آئی۔ جریح نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی، تو وہ ایک چرواہے کے پاس گئی جو حضرت جریح کی عبادت گاہ میں رہتا تھا۔ اس بدکار عورت نے اس کو اپنے قابو میں کر لیا تو وہ شخص اس سے بدکاری کر بیٹھا۔ پھر وہ حاملہ ہو گئی۔ جب اس کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی تو اس نے کہا یہ جریح کا بچہ ہے، لوگ جریح کے پاس آئے، ان کو اس عبادت گاہ سے نکال دیا اور ان کی عبادت گاہ کو ڈھا دیا، اور ان کو مارنے لگے، تو جریح نے کہا: کیا بات ہے (تم لوگ کیوں مار رہے ہو؟) انھوں نے کہا تم نے اس بدکار سے زنا کیا ہے، اس نے تمھارے بچے کو جنم دیا ہے، تو جریح نے پوچھا :بچہ کہاں ہے ؟ لوگ بچے کو لے آئے تو جریح نے کہا: مجھے ذرا چھوڑ دو تا کہ میں نماز پڑھ لوں۔ پھر انھوں نے نماز پڑھی۔ پھر جب نماز سے فارغ ہو گئے تو بچے کے پاس آئے، اس کے پیٹ میں کچوکا لگایا، اور کہا: اے بچے ! تیرا باپ کون ہے؟ اس بچے نے کہا: فلاں چرواہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر وہ لوگ جریح کو بوسہ دینے لگے اور انھیں چھونے لگے اور انھوں نے کہا: ہم لوگ آپ کے لیے سونے کا گرجا تعمیر کر دیں گے۔ جریح نے کہا: نہیں، بس ویسا ہی مٹی کا بنا دو جیسے پہلے تھا تو انھوں نے ویسا ہی کیا۔
——————

اس تحریر کو اب تک 25 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply