نجد کا صحیح مفہوم

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : نجد کا صحیح مفہوم کیا ہے اور حدیث نجد سے کون مراد ہے ؟
جواب : باطل پرست ہمیشہ اہل حق کے بارے میں مختلف قسم کے پروپیگنڈے سے کام لیتے آئے ہیں۔ لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل و احسان سے حق نمایاں اور آشکارا ہو کر رہا اور مخالفین ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ عرب کے سرزمین پر جب شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمه الله نے توحید کا علم بلند کیا اور شرک و بدعات کی سرکوبی کی تو کلمہ گو مشرکوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا معنی و مفہوم بدل کر انہیں شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمه الله پر چسپاں کرنا شروع کر دیا۔ انہی احادیث میں سے ایک حدیث نجد ہے۔ جس کا صحیح مصداق عراق کی سرزمین ہے۔ جہاں بہت سے گمراہ فرقوں نے جنم لیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے کچھ عرصہ بعد عراق میں بہت سے فتنے رونما ہوئے۔ جنگ نہروان، واقعہ کربلا، بنو امیہ اور بنو عباس کی لڑائیاں، پھر تاتاریوں کے خونریز معرکے، اس طرح گمراہ فرقوں یعنی خوارج، شیعہ، معتزلہ، جہمیہ، مرجیہ وغیرہ کا ظہور بھی کوفہ بصرہ اور بغداد جو عراق کے مشہور شہر ہیں، سے ہوا۔ بارہ سو سال تک تمام مسلمانوں کا متفقہ طور پر یہی موقف رہا کہ نجد قرن شیطان سے مراد عراق ہی کا علاقہ ہے لیکن بارہویں صدی کے بعد اہل بدعت نے ان احادیث کا مفہوم بگاڑ کر انہیں شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمه الله پر چسپاں کرنا شروع کر دیا۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ملاحظہ کریں جن سے واضح ہو جا تا ہے کہ نجد قرن شیطان سے مراد عراق ہی کا علاقہ ہے۔
➊ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، انہوں نے کہا:
ذكر النبي صلى الله عليه وسلم : اللهم بارك لنا في شامنا اللهم بارك لنا في يمننا قالوا : يا رسول الله وفي نجدنا ؟ قال : اللهم بارك لنا في شامنا اللهم بارك لنا في يمننا قالوا : يا رسول الله وفي نجدنا ؟ فاظنه قال في الثالثة : هناك الزلازل والفتن وبها يطلع قرن الشيطان .
[بخاري، كتاب الفتن : باب قول النبى : الفتنة من قبل المشرق : 7093، مسند احمد : 2/ 118، ترمذي، كتاب المناقب : باب فى فضل الشام و اليمن : 3953، شرح السنة : 14/ 206، صحيح ابن حبان : 7257]
’’ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی : ’’ اے اللہ ! ہمارے لیے شام میں برکت نازل فرما، اے اللہ ! ہمارے لیے یمن میں برکت نازل فرما۔“ لوگوں نے کہا: ’’ اے اللہ کے رسول ! اور ہمارے نجد (عراق) کے لیے بھی“ (دعا کریں ؟ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا : ’’ اے اللہ ! ہمارے لیے شام میں برکت نازل فرما، اے اللہ ! ہمارے لیے یمن میں برکت نازل فرما۔“ لوگوں نے کہا: ’’ اے اللہ کے رسول ! اور ہمارے نجد کے لیے بھی دعا کریں ؟“ میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسر ی مرتبہ فرمایا : ’’ وہاں زلزے اور فتنے ہوں گے اور وہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔“

➋ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللهم ! بارك لنا فى مدينتنا، وبارك لنا فى مكتنا، وبارك لنا فى شامنا، وبارك لنا فى يمننا، وبارك لنا فى صاعنا ومدّنا، فقال رجل : يا رسول الله ! وفي عراقنا، فأعرض عنه، فقال : فيها الزلازل والفتن، وبها يطلع قرن الشيطان . [حلية الاولياء : 6/ 133، طبراني : 13422]
’’ اے اللہ ! ہمارے لیے مدینہ میں برکت نازل فرما اور ہمارے لیے ہمارے مکہ میں برکت نازل فرما اور ہمارے لیے شام میں برکت نازل فرما اور ہمارے لیے یمن میں برکت نازل فرما اور ہمارے لیے ہمارے صاع اور مد میں برکت نازل فرما۔“ ایک آدمی نے عرض کیا : ’’ اے اللہ کے رسول ! اور ہمارے عراق میں بھی ؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اعراض کیا پھر فرمایا : ’’ وہاں زلزے اور فتنے ہوں گے اور وہاں سے شیطان کا سینگ رونما ہو گا۔“

➌ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللهم ! بارك لنا فى مدينتنا، و فى صاعنا و فى مدّنا و فى يمننا، وفي شامنا فقال الرجل : يا رسول الله ! وفي عراقنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بها الزلازل والفتن و منها يطلع قرن الشيطان . [كتاب المعرفة و التاريخ : باب ما جآء فى الكوفة : 1/ 876]
’’ اے اللہ ! ہمارے لیے مدینہ، صاع، مد، یمن اور شام میں برکت نازل فرما۔ ’’ ایک آدمی نے کہا: ’’ اے اللہ کے رسول ! اور ہمارے عراق میں بھی ؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ وہاں زلزے اور فتنے ہوں گے اور وہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔“

➍ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللهم ! بارك لنا فى مدينتنا، و مدنا وصاعنا ويمننا و شامنا فقال رجل يا رسول الله ! وفي عراقنا؟ فقال النبى صلى الله عليه وسلم اللهم بارك لنا فى مدينتنا ومدنا وصاعنا و يمننا وشامنا فقال رجل يا رسول الله ! وفي عراقنا؟ فقال النبى صلى الله عليه وسلم منها الزلازل والفتن ومنها يطلع قرن الشيطان [كتاب المعرفة و التاريخ : باب ما جآء فى الكوفة : 1/747]
’’ اے اللہ ! ہمارے لیے ہمارے مدینہ، مد، صاع، یمن اور شام میں برکت ڈال دے۔“ ایک آدمی نے کہا: ’’ اے اللہ کے رسول ! اور ہمارے عراق میں بھی“، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ ! ہمارے لیے ہمارے مدینہ، مد، صاع، یمن اور شام میں برکت ڈال دے۔“ ایک آدمی نے کہا: ’’ اے اللہ کے رسول ! اور ہمارے عراق میں بھی ؟“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ وہاں سے زلزلے اور فتنے اٹھیں گے اور شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔“
کتاب ’’ المعرفۃ و التاریخ“ کے اسی باب میں یہ حدیث کئی طرق سے مروی ہے جن میں نجد عراق کی تصریح ہے۔

➎ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يشير بيده، يوم العراق، ها إنا الفتنة ها هنا، ها إن الفتنة ها هنا، ثلاث مرات، من حيث يطلع قرن الشيطان .
’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عراق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دیکھا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا) :“ خبردار ! بیشک فتنہ یہاں سے ہو گا، خبردار بے شک فتنہ یہاں سے ہو گا۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ کہی، (پھر کہا) : ’’ یہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔“ [مسند احمد : 2/ 143]

➏ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھا کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا :
اللهم ! بارك لنا فى مدينتنا، وبارك لنا فى مدّنا وصاعنا، اللهم ! بارك لنا فى شأمنا ويمينا، فقال رجل : والعراق يا رسول الله ! فسكت ثم قال : اللهم ! بارك لنا فى مدينتنا، وبارك لنا فى مدّنا وصاعنا، اللَّهُمُ ! بارك لنا فى حرمنا، وبارك لنا فى شأمنا ويمينا، فقال رجل : والعراق يا رسول الله ! قال : من ثم يطلع قرن الشيطان، وتهيج الفتن.
’’ اے اللہ ! ہمارے لیے ہمارے مدینہ میں برکت نازل فرما اور ہمارے لیے ہمارے مد اور صاع میں برکت نازل فرما، اے اللہ ! ہمارے لیے ہمارے شام اور یمن میں برکت نازل فرما۔“ ایک آدمی نے کہا: ’’ اے اللہ کے رسول ! اور عراق کے بارے میں بھی دعا کریں ؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، پھر فرمایا : ’’ اے اللہ ! ہمارے لیے ہمارے مد اور ہمارے صاع میں برکت نازل کر، اے اللہ ! ہمارے لیے ہمارے حرم میں برکت نازل فرما اور ہمارے لیے ہمارے شام و یمن میں برکت نازل فرما۔“ ایک آدمی نے کہا: ’’ اے اللہ کے رسول ! اور عراق کے لیے بھی ؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا : ’’ وہاں سے شیطان کا سینگ نمودار ہو گا اور فتنے ابلیں گے۔“ [المعجم الاوسط للطبراني : 4110، مجمع الزوائد : 3/ 208]

➐ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی :
اللهم ! بارك لنا فى شأمنا ويمينا، فقال رجل من القوم يا نبي الله ! وعراقنا فقال ان بها قرن الشيطان وتهيج الفتن وان الجفاء بالمشرق
’’ اے اللہ ! ہمارے لیے ہمارے شام اور یمن میں برکت پیدا فرما :“ تو قوم میں سے ایک آدمی نے کہا: ’’ اے اللہ کے نبی ! اور ہمارے عراق کے لیے بھی دعا کریں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ بے شک عراق میں شیطان کا سینگ ہے اور فتنے بھڑکیں گے اور بیشک جفا مشرق میں ہے۔“
امام ہیثمی رحمه الله نے کہا: ’’ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’ المعجم الکبیر“ میں روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔“

➑ سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
يا أهل العراق ! ما أسألكم عن الصغيرة وأركبكم للكبيرة ! سمعت أبى عبد الله بن عمر يقول : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : إن الفتنة تجيء من ههنا، وأؤما بيده نحو المشرق، من حيث يطلع قرنا الشيطان .
[صحيح مسلم : 394/2، ح : 2905، 50]
’’ اے عراقیو ! تم چھوٹے چھوٹے مسائل کس قدر دریافت کرتے ہو اور کبائر کا ارتکاب کرتے ہو۔ میں نے اپنے باپ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ کہتے تھے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : ’’ بلاشبہ فتنہ یہاں سے آئے گا۔“ اور اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا کہ یہاں سے شیطان کے سینگ نکلیں گے۔“

➒ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
راس الکفر نحو المشرق ’’ کفر کا سرچشمہ مشرق کی طرف ہے۔“ [بخاري، كتاب بدء الخلق : باب خير مال المسلم غنم يتبع بها شعف الجبال : 1/ 330، ابن حبان : 7255، مسند ابي يعلي : 6340، مسلم، كتاب الايمان : باب تفاضل اهل الايمان فيه و رجحان اهل اليمن فيه : 52، مسند ابي عوانة 60/1 مسند احمد : 2/ 506، مسند حميدي : 2/ 452]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اسی روایت میں ابن حبان اور مسلم وغیرہ میں مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الايمان يمان والحمة يمانية وراس الكفر قبل المشرق
’’ ایمان و حکمت کا محل تو یمن ہے اور کفر کا سرچشمہ ( مدینہ منورہ سے ) مشرق کی جانب ہے۔“

➓ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
غلظ القلوب والجفاء في المشرق والايمان في اهل الحجاز
[مسلم، كتاب الايمان: باب تفاضل اهل الايمان فيه و رجحان وهل اليمن فيه 52، صحيح ابن حبان 7252، شرح السنة 202/14]
’’ لوگوں کی سختی اور جفا مشرق میں ہے اور ایمان اہل حجاز میں ہے۔“
مذکورہ بالا دس صحیح احادیث سے معلوم ہوا کہ حجاز، شام اور یمن یہ تینوں ملک اسلام و ایمان کا مرکز ہیں اور یہاں سے اسلام و ایمان کا علم بلند ہوتا رہے گا اور مدینہ سے مشرق کی جانب واقع عراق کا علاقہ فتنوں کا سرچشمہ اور ضلالت و گمراہی کا مرکز ہے، یہاں سے بہت سے فتنوں نے جنم لیا ہے، یہاں خیر کم اور شر زیادہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن و شام کے لیے خصوصی برکت کی دعا فرمائی۔ اس لیے کہ مکہ مکرمہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیدائشی اور آبائی علاقہ ہے، یہ یمن کا شہر تھا اور مدینہ منورہ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مسکن و مدفن تھا، وہ شام کا شہر تھا۔

◈ علامہ شرف الدین الطیبی رقمطراز ہیں :
انما دعا لها بالبركة لان مولده مولده بمكة وهي من اليمن و مسكنه ومدفنه بالمدينة وهي من الشام
[شرح الطيبي علي مشكاة المصابيح 3958/12]
’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام و یمن کے لیے برکت کی دعا اس لیے کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش مکہ ہے اور وہ یمن کا علاقہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مسکن و مدفن مدینہ میں تھا اور وہ شام کے علاقوں میں سے ہے۔“
شارح حدیث علامہ اشرف رحمه الله نے بھی یہی بات ذکر کی ہے۔ دیکھیے : [ مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح : 10/ 239]
معلوم ہوا کہ حجاز مقدس کی سرزمین کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برکت کی دعا فرمائی اور وہ نجد جس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا نہیں کی وہ عراق کا علاقہ ہے جیسا کہ اوپر ذکر کردہ صحیح احادیث میں تصریح ہے۔ عرب کے اندر نجد نام کے بہت سے علاقے ہیں اور ہر ایک نجد کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر نہیں دی کہ وہاں سے زلزلے اور فتنے رونما ہو ں گے۔ بلکہ خاص عراق کے بارے میں فرمایا کہ وہاں سے زلزلے اور فتنے جنم لیں گے۔ اس لیے حدیث کا مصداق اصل عراق ہے نہ کہ اہل حجاز۔ آئیے پہلے نجد کا معنی و مفہوم سمجھ لیں کہ لغت عرب میں نجد کسے کہتے ہیں پھر دیکھیں کہ عرب میں نجد کے کتنے علاقے ہیں۔ نجد مصدر ہے جس کا معنی بلندی ور فعت ہے، گویا ہر اونچی و بلند چیز کو نجد کہا جاتا ہے۔
◈ علامہ مجد الدین فیروز آبادی رحمه الله رقمطراز ہیں :
النجد ما اشرف من الارض الطريق الواضح المرتفع وما خالف العوراي تهامة اعلاه تهامة واليمن واسفله العراق والشام واوله من جهة الحجاز ذات عرق [القاموس المحيط : 1/ 352]
’’ نجد بلند زمین کو کہتے ہیں یعنی بلند اور واضح راستہ جو غور و نشیب تہامہ کے بالمقابل ہے، وہ تمام اونچی زمین والا علاقہ جو تہامہ اور یمن سے شروع ہوتا ہے اور عراق و شام تک پھیلا ہوا ہے۔ حجاز کی جانب سے اس کی ابتدا ذات عرق مقام سے ہوتی ہے اور ذات عرق اہل عراق کا میقات ہے جہاں سے وہ احرام باندھتے ہیں۔“
◈ علامہ ابن منظور افریقی لکھتے ہیں :
النجد من الارض فقافها وصلابتها وما غلط منها واشرف وارتفع واستوي
’’ نجد زمین کا وہ حصہ ہے جو بلند و بالا، مضبوط و گاڑھا اور اونچائی پر واقع ہو۔“ [لسان العب : 14/ 45]
◈ مزید فرماتے ہیں :
وما ارتفع عن تهامة الي ارض العراق فهو نجد
’’ زمین کا وہ بلند حصہ جو تہامہ سے شروع ہو کر زمین کی طرف جاتا ہے، وہ نجد ہے۔“
معلوم ہوا کہ سطح مرتفع اور بلند زمین کو نجد کہتے ہیں عرب میں بہت سارے نجد ہیں۔ شیخ ابوعبداللہ یاقوت بن عبداللہ الحموی صاحب معجم البلدان نے درج ذیل نجد شمار کیے ہیں :
① نجد ألوز ② نجد أجا ③ نجد برق ④ نجد خال ⑤ نجد الثری ⑥ نجدعفر ⑦ نجدالعقاب ⑧ نجدکبکب ⑨ نجدمریع ⑩ نجدالیمن [معجم البلدان 265/5، لسان العرب 47/14]
معلوم ہوا کہ عرب کی سرزمین میں نجد نام کے بہت سے علاقے ہیں اور اصل میں ہر سطح مرتفع کو نجد کہا جاتا ہے اور مختلف بلند و بالا علاقوں کو نجد کہا گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ تمام نجد زلزلوں اور فتنوں کی آماجگاہ ہیں یا کوئی خاص نجد ہے جہاں سے فتنے اور شیطان کا سینگ رونما ہوا ہے یا مزید ہو گا ؟ تو اوپر درج کردہ احادیث صحیحہ میں اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ فتنوں کی آماجگاہ اور فسادیوں کا مسکن نجد عراق ہے اور تاریخ عالم اس بات پر گواہ ہے کہ جتنے فتنے، فرق اور مفسدہ پرداز بالخصوص کوفہ و بصرہ سے رونما ہوئے ہیں، اتنے کسی اور جگہ سے نہیں ہوئے اور شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمه الله کا تعلق نجد عراق سے نہیں بلکہ نجد یمن سے ہے جس کے لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے برکت کی دعا فرمائی ہے۔ لہٰذا معترضین کا حدیث نجد کو شیخ پر چسپاں کرنا علم حدیث و تاریخ و جغرافیہ عرب سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے اور یہ سب کچھ وہ اپنی بدعات اور رسم و رواج اور شرک جیسے گھناؤنے عمل پر پرداہ ڈالنے کے لیے کرتے ہیں۔

 

اس تحریر کو اب تک 45 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply