کسی عوض کے بدلے مقابلہ کرنے کا حکم

مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

400- کسی عوض کے بدلے مقابلہ کرنا، ان صورتوں کے سوا جنھیں شریعت نے مستثنٰی کیا ہے، حرام ہے اور یہ بات اس حدیث میں بیان کی گئی ہے:
”تیراندازی، گھوڑے اور اونٹ کے سوا مقابلے بازی نہیں۔“ [سنن النسائي، رقم الحديث 3585]
یعنی ان تین اشیا کے مقابلوں کے سوا کسی مقابلے بازی میں عوض لینا جائز نہیں۔ یہ تین اشیا بھی اس لیے مستثنٰی اور علاحدہ کی گئی ہیں کہ ان کی مشق اور مقابلے بازی جہاد فی سبیل اللہ کے لیے معاونت فراہم کرتی ہے۔ اس بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ اونٹ، گھوڑے اور تیر اندازی پر قیاس کرتے ہوئے ایسی اشیا کے درمیان انعامی مقابلے منعقد کرنا جو جنگ کے ساتھ خاص ہوں، جیسے سواری وغیرہ، جائز ہیں۔ بعض علماء کرام شرعی علوم کے مقابلوں کو بھی اس کے ساتھ ملحق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ طلب علم بھی جہاد فی سبیل اللہ ہے، لہٰذا شرعی امور میں انعام اور عوض کے بدلے میں مقابلے کروانا جائز ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے۔ بنا بریں کسی عوض کے بدلے دوڑ، کشتی، حسن خط اور املا کے مقابلے جائز نہیں کیونکہ یہ لفظ کے اعتبار سے نہ معنی ہی کے اعتبار سے اس نص میں داخل ہیں۔ یہاں ایک تیسری مقابلے بازی بھی ہے جو حرام کام میں ہوتی ہے، جیسے نرد (چوسر) شطرنج وغیرہ کی مقابلے بازی، یہ عوض کے ساتھ ہو یا بلا عوض، حرام ہے۔
اس بنیاد پر مقابلے بازی کی تین اقسام ہیں:
پہلی قسم حرام، دوسری عوض کے ساتھ حرام اور بلاعوض حلال اور تیسری قسم عوض کے ساتھ اور بلا عوض دونوں طرح حلال ہے۔ وہ تین چیزیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے، یعنی تیر اندازی، گھوڑا اور اونٹ سواری، ان میں عوض کے ساتھ ہو یا بلا عوض، مقابلے بازی جائز ہے اور دوڑ وغیرہ کا مقابلہ جو جائز ہے یہ عوض کے ساتھ حرام ہے اور بلا عوض جائز اور حرام چیز میں مقابلے بازی، ہر حال میں حرام ہے۔
[ابن عثيمين: نورعلى الدرب: 1/237]
نوٹ: ان جوابات میں جو لفظ ”عوض“ مکرر ذکر ہوا ہے، اس سے مراد وہ رقم (انٹری فیس) ہے جو مقابلے یا ٹورنا منٹ میں شرکت کرنے کے لیے ہر ٹیم یا ہر شرکت کرنے والا کھلاڑی یا ہر امیدوار دیتا ہے، پھر تمام امیدواروں کی رقم اکٹھی کر کے جیتنے والی ٹیم کو بطور انعام دے دی جاتی ہے، نیز شرط لگانا بھی اس میں شامل ہے۔

بازی (شرط) لگانے کا حکم
بازی لگانا قمار بازی کے حکم میں ہے۔ شریعت مطہرہ کے حلال کردہ کاموں کے علاوہ بازی لگانا جائز نہیں اور یہ صرف اونٹ، گھوڑے اور تیر اندازی کے مقابلوں میں جائز ہے، کیونکہ حدیث نبوی ہے:
”عوض کے ساتھ مقابلے بازی صرف گھوڑے، اونٹ اور تیر اندازی میں ہے۔“
[اللجنة الدائمة: 1818]

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔