معرکہ بدر میں شیطان نے مسلمانوں کے ساتھ کیا ؟

تالیف: ڈاکٹر رضا عبداللہ پاشا حفظ اللہ

جواب :
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً لِّيُطَهِّرَكُم بِهِ وَيُذْهِبَ عَنكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ ﴿١١﴾
’’جب وہ تم پر اونگھ طاری کر رہا تھا، اپنی طرف سے خوف دور کرنے کے لیے اور تم پر آسمان سے پانی اتارتا تھا، تاکہ اس کے ساتھ تھیں پاک کر دے اور تم سے شیطان کی گندگی دور کرے اور تا کہ تمھارے دلوں پر مضبوط گرہ باندھے اور اس کے ساتھ قدموں کو جما دے۔“ [الأنفال: 11]
مذکورہ آیت میں اللہ مسلمانوں کو وہ انعام یاد دلا رہے ہیں، جو اس نے ان پر اونگ ڈال کر کیا، جو ان کے لیے امان کا پروانہ ثابت ہوئی اور ان پر دشمن کی کثرت کا خوف نہ رہا۔
وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً یعنی معرکہ بدر میں مسلمانوں اور پانی کے درمیان ریت کے ڈھیر تھے اور مسلمانوں کو سخت کمزوری نے آ لیا، شیطان نے ان کے دلوں میں غصہ ڈال دیا۔ وہ ان میں یہ وسوسہ ڈال رہا تھا کہ تم سمجھتے ہو کہ ہم اللہ کے ولی ہیں اور تم میں اللہ کا رسول بھی ہے، پھر بھی مشرکین پانی کے حصول میں تم پر غالب آ گئے ہیں اور تم بغیر طہارت کے نماز پڑھو گے۔ پس اللہ نے ان پر شدید بارش برسائی، مسلمانوں نے پانی پیا اور پاکیزگی حاصل کی، اللہ نے ان سے شیطان کی گندگی کو دور کیا۔ ریت بارش کی وجہ سے جم گئی۔ لوگ اور جانور آسانی سے چلنے لگے۔ [تفسير الطبري 195/9 ]
فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّي جَارٌ لَّكُمْ ۖ فَلَمَّا تَرَاءَتِ الْفِئَتَانِ نَكَصَ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ وَقَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكُمْ إِنِّي أَرَىٰ مَا لَا تَرَوْنَ إِنِّي أَخَافُ اللَّـهَ ۚ وَاللَّـهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٤٨﴾
”اور جب شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال خوش نما بنا دیے اور کہا آج تم پر لوگوں میں سے کوئی غالب آنے والا نہیں اور یقیناً میں تمھارا حمایتی ہوں، پھر جب دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو وہ اپنی ایڑیوں پر واپس پلٹا اور اس نے کہا: بے شک میں تم سے بَری ہوں، بے شک میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں، جوتم نہیں دیکھ رہے۔ بے شک میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ بہت سخت عذاب والا ہے۔ “ [الأنفال: 48 ]
شیطان نے ان کے لیے وہ چیز خوبصورت بنا کر پیش کی، جسے وہ لائے تھے اور انھیں یہ لایچ دیا کہ آج انسانوں میں ان پر کوئی غالب آنے والا نہیں اور اس نے ان سے خوف و ہراس کو ختم کیا اور کہا: میں تمھیں پناہ دینے والا ہوں۔
ابلیس بدر کے دن اپنے ساتھ شیاطین کے ایک لشکر میں، بنو مدلج کے ایک آدمی سراقہ بن مالک بن جعشم کی صورت میں آیا، اس نے مشرکین سے کہا: ولا غالب لگا پھر جب لوگوں نے صفیں بنائیں تو ابوجہل نے کہا: اے اللہ! جو ہم میں سے حق کے زیادہ قریب ہے، اس کی مدد کر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور کہا: اے میرے رب! اگر آج یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو کبھی تیری عبادت نہ کی جائے گی۔ پھر جبریل علیہ السلام نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم مٹی کی ایک مٹھی لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹی کی ایک مٹھی لی اور اسے مشرکین کے چہروں پر پھینکا، کوئی مشرک آیا نہ بچا کہ جس کی آنکھوں، نتھنے اور منہ میں اس مٹی کا کچھ نہ کچھ حصہ پڑا ہو، پس وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے، حضرت جبریل علیہ السلام ابلیس کی طرف آئے، پھر جب ابلیس نے انھیں دیکھا، اس وقت اس کا ہاتھ ایک مشرک کے ہاتھ میں تھا، اس نے اپنا ہاتھ چھڑایا اور اپنے لشکر سے پیٹھ پھیر کر بھاگا۔ اسے ایک آدمی نے کہا: سراقہ ! کیا تو نے اس بات کا اظہار نہ کیا تھا کہ میں تمھارا ساتھی ہوں؟ اس نے کہا: میں یقینا تم سے بَری ہوں، کیوں کہ میں وہ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے۔

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔