جادو سوالات و جوابات (حصہ سوئم)

تالیف: ڈاکٹر رضا عبداللہ پاشا حفظ اللہ

21۔ کیا ہڈی جنوں کی خوراک ہے ؟
جواب :
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (جنات کے ایک گروہ کو مخاطب کر کے) فرمایا :
لكم كل عظم ذكر اسم الله عليه يقع فى أيديكم، أوفر ما يكون لحما، وكل بعرة أو رؤثة علف لدوابكم قال: فلا تستنجوا بهما فإنهما زاد إخوانكم من الجن
”ہر ہڈی جس پر بسم الله، پڑھی گئی، تمہارے ہاتھوں میں وہ پہلے گوشت کی بہ نسبت زیادہ پر ہو گی اور ہر مینگنی یا گوبر تمہارے جانوروں کے لیے چارہ ہے۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو مخاطب ہو کر فرمایا : ”تم مینگنی اور گوبر سے استنجا نہ کرنا، کیونکہ یہ تمھارے جن بھائیوں کی خوراک ہے۔“ [ صحيح مسلم رقم الحديث 450، سنن ترمذي رقم الحديث 2595]
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ائتني بأحجار أستنج بها، ولا تأتيني بعظم ولا روثة
”مجھے پتھر لا کر دو، میں ان کے ساتھ استنجا کروں، مگر ہڈی اور گوبر نہ لانا۔“
میں نے کہا: ہڈی اور گوبر کیوں نہیں؟ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أتاني وفد جن نصيبين فسالوني الزاد فدعوت الله تعالى لهم الا يمروا برؤثة ولا وجدوه طعاما
”میرے پاس نصیبین کے جنوں کا وفد آیا تو انھوں نے مجھ سے خوراک کا سوال کیا تو میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یہ جس ہڈی اور گوبر پر بھی گزریں تو وہ اسے بہ طور خوراک پائیں۔ “ [صحيح بخاري، رقم الحديث 3571 ]
——————

22۔ کیا ’’جن“ مذکر، مونث بھی ہوتے ہیں ؟
جواب :
جی ہاں ! ’’جن‘‘ مذکر و مونث بھی ہوتے ہیں۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو فرماتے :
اللهم إني أعوذ بك من الخبث والخبائث
” اے اللہ! میں ناپاک جنوں اور ناپاک جننیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ “ [صحيح بخاري رقم الحديث 142، صحيح مسلم رقم الحديث 375]
امام ابن الاثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
خبث، خبيث کی جمع ہے اور خبائث، خبيثة کی جمع ہے، اس سے آپ کی مراد مذکر اور مونث دونوں صنفوں کے ”جن“ ہیں۔ [لسان العرب 1088/2]
اور معلوم ہے کہ ان میں نکاح اور شادی کا نظام بھی موجود ہے، تو فطری طور پر نکاح مذکر اور مونث کے درمیان ہی ہوتا ہے۔
——————

23۔ کیا ہر گھر میں ’’جن“ موجود ہوتے ہیں ؟
جواب :
جی ہاں،
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن لهذه البيوت عوامر، فإذا رأيتم شيئا منها فحر جو ا عليها ثلاثا، فإن ذهب وإلا فاقتلوه فإنه كافر
”بے شک ان گھروں کو آباد کرنے (جن) والے ہیں، جب تم ان میں سے کسی چیز کو دیکھو تو تین دن ان پر تنگی کرو (یعنی ان کو نکلنے کا حکم دو) اگر وہ چلا جائے تو ٹھیک، وگرنہ اسے قتل کر دو، کیونکہ وہ کافر ہے۔‘‘ [صحيح مسلم، رقم الحديث2263]
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن بالمدينة نفرا من الجن قد أسلموا فمن رأى شيئا من هذه العامر فليؤذنه ثلاثا، فإن بدا له بعد قليله إليه شيطان
” بے شک مدینہ منورہ میں جنوں کے ایک گروہ نے اسلام قبول کیا ہے، تو جو شخص ان میں سے کسی کو گھر میں دیکھے تو تین مرتبہ اسے خروج کا حکم دے، اس کے بعد اگر وہ ظاہر ہو تو اسے قتل کر دے، کیونکہ وہ شیطان ہے۔ [ صحيح مسلم رقم الحديث 2236]
——————

24۔ گھروں میں جنوں کی من پسند جگہیں کون سی ہیں ؟
جواب :
طہارت خانے، گانے بجانے اور کھیل کود کی جگہیں، وہ جگہیں جہاں تصویریں ہوں، اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی ہے، جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو درج ذیل دعا پڑھتے تھے۔
اللهم إني أعوذ بك من الحبث والخبائبث
”اے اللہ میں ناپاک جنوں اور ناپاک جنیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔“ [ صحيح بخاري رقم الحديث 142، صحيح مسلم رقم الحديث375]
——————

25۔ کیا جنات اللہ کی قدرت سے بھاگ سکتے ہیں ؟
جواب :
فرمان الہی ہے:
يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَن تَنفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانفُذُوا ۚ لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ ﴿٣٣﴾
”اے جن و انس کی جماعت ! اگر تم طاقت رکھتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ، کسی غلبے کے سوا نہیں نکلو گے۔“ [الرحمن: 33 ]
یعنی تم اللہ کے امر سے بھاگنے کی قدرت نہیں رکھتے، بلکہ الله تعالیٰ کی قدرت تمہارا احاطہ کیے ہوئے ہے، تم اللہ کے حکم سے نفوذ نہیں کر سکتے، تم جہاں کہیں چلے جاؤ تمھارا گھیراؤ ہے اور حشر کے مقام میں تو فرشتے سات صفوں میں ہر جانب سے مخلوقات کو گھیرے ہوئے ہوں گے، کوئی بھی جانے کی جرات نہیں کر سکے گا۔
إِلَّا بِسُلْطَانٍ یعنی صرف اللہ کے حکم و ارادے ہی سے نکل سکے گا۔
——————

26۔ کیا سانپ جنات میں سے ہیں ؟
جواب :
جی ہاں!
فرمان نبوی ہے:
الحيات مسخ الجن كما مسخت القردة والخنازير من بني إسرائيل [صحيح ابن حبان رقم الحديث 1080، الطبراني الكبير رقم الحديث 11946،ابن أبى حاتم 290/2، السلسلة الصحيحة، رقم الحديث 1824]
”سانپ جنوں کی مسخ شدہ صورت ہے، جیسا کہ بنی اسرائیل (کے بعض افراد) بندر اور خنزیر بنا دیے گئے تھے۔ “
——————

27۔ کیا جنوں کو موت آتی ہے ؟
جواب :
انسانوں اور دوسری ذی روح چیزوں کی طرح جنات پر بھی موت طاری ہوتی ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
….. أنت الحي الذى لا يموت، والجن والإنس يموتون [صحيح بخاري رقم الحديث 7383، صحيح مسلم رقم الحديث 2717]
اے اللہ ! تو وہ زندہ ہے جس پر موت نہیں اور جن و انس مر جاتے ہیں۔
——————

28۔ کیا انسانوں اور جنوں کا باہم مدد لینا ممکن ہے ؟
جواب :
جی ہاں! فرمان الہی ہے :
وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الْإِنسِ ۖ وَقَالَ أَوْلِيَاؤُهُم مِّنَ الْإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَّلْتَ لَنَا ۚ قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ ﴿١٢٨﴾
” اور جس دن وہ ان سب کو جمع کرے گا، اے جنوں کی جماعت! بلاشبہ تم نے بہت سے انسانوں کو اپنا بنا لیا، اور انسانوں میں سے ان کے دوست کہیں گے، اے ہمارے رب! ہمارے بعض نے بعض سے فائدہ اٹھایا اور ہم اپنے اس وقت کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لیے مقرر کیا تھا۔ وہ فرمائے گا آگ ہی تمہارا ٹھکانا ہے، اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو مگر جو اللہ چاہے۔ بے شک تیرا رب کمال حکمت والا، سب کچھ جانے والا ہے۔“ [الأنعام: 128 ]
یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! یاد کیجیے اس دن کو جب ہم جنوں اور انسانوں میں سے ان کے دوستوں کو جو دنیا میں ان کی عبادت کرتے تھے، اکٹھا کریں گے (اور کہیں گے)
يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الْإِنسِ ۖ
اے جنوں کے گروہ ! تم نے انسانوں کو بھٹکانے اور گمراہ کرنے کی صورت میں بہت سا فائدہ اٹھایا ہے۔ انسانوں میں سے جو جنوں کے دوست تھے، وہ کہیں گے: اے ہمارے رب !
اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ
ہم نے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے:
النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ
اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں اللہ کے خلاف فیصلہ دینا کسی کو زیبا نہیں اور نہ جنت و جہنم میں داخل کر سکتا ہے، جبکہ جنات کا انسان عورتوں سے مباشرت (جماع) کی بھی شنید ہے۔ عورتوں سے میل جول کے وقت (بالخصوص عشق و جادو کے حالات میں ) کوئی عورت کہتی سنائی دیتی ہے کہ اس (جن) نے اپنا کام پورا کیا اور مجھ سے منی کا خروج ہوا اور کوئی عورت کہتی ہے کہ جن کا مجھ سے جماع کرنا میرے خاوند کے مجھ سے جماع کرنے سے بہتر ہے۔ مردوں سے بھی اس طرح کی باتیں ممکن ہیں، اس لیے کہ بعض جننیاں مردوں کی عاشق ہیں۔ یہ سارا معاملہ خواب کے ذریعے ہوتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جن اس کے محبوب کی صورت میں یا کسی پڑوسی کی صورت میں یا مرغ کی صورت میں یا کسی ناپسندیدہ شخص کی صورت میں بھی آ جاتے ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: [ماذا تعرف من القرآن والسنة عن المس الشيطاني، والسحر والحسد، والبيوت، المسكونة، للمؤلف]
——————

29۔ کیا سابقہ امتوں میں بھی جنات کی پوجا کی جاتی تھی ؟
جواب :
فرمان الہی ہے:
قَالُوا سُبْحَانَكَ أَنتَ وَلِيُّنَا مِن دُونِهِم ۖ بَلْ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ ۖ أَكْثَرُهُم بِهِم مُّؤْمِنُونَ ﴿٤١﴾
”وہ کہیں گے تو پاک ہے، تو ہمارا دوست ہے نہ کہ وہ، بلکہ وہ جنوں کی عبادت کیا کرتے تھے، ان کے اکثر انہی پر ایمان رکھنے والے تھے۔“ [ سبأ: 41 ]
سُبْحَانَكَ
یعنی تو اس بات سے پاک و مبرا ہے کہ تیرے ساتھ کوئی دوسرا الہٰ و معبود ہو۔
أَنتَ وَلِيُّنَا مِن دُونِهِم ۖ
یعنی ہم تیرے بندے ہیں اور ان (مشرکین) سے براءت کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ ہمارے دوست نہیں تو ہمارا دوست ہے۔
بَلْ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ ۖ
یعنی وہ شیاطین و جن ان کے لیے بتوں کی پوجا کو مزین کر کے پیش کرتے اور ان کو گمراہ کرتے ہیں۔
فَالْيَوْمَ لَا يَمْلِكُ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ نَّفْعًا وَلَا ضَرًّا
”سو آج تمہارا کوئی کسی کے لیے نہ نفع کا مالک ہے اور نہ نقصان کا۔“ [ سبأ: 42 ]
یعنی آج (قیامت کے دن) تم کو وہ لوگ جن کے نفع کی تم کو امید تھی، بتوں اور شریکوں میں سے تم کو نفع نہیں دیں گے، جن کی تم اللہ کے علاوہ عبادت کرتے تھے۔
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے :
وَجَعَلُوا لِلَّـهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ ۖ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يَصِفُونَ ﴿١٠٠﴾
”اور انہوں نے جنوں کو اللہ کے شریک بنا دیا، حالانکہ اس نے انہیں پیدا کیا اور اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں کچھ جانے بغیر تراش لیں، وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ بیان کرتے ہیں۔‘‘ [ الأنعام: 100 ]
یہ ان مشرکین کا رد ہے، جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کی بھی پوجا کی اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شرک کیا، یعنی انہوں نے جنوں کی عبادت کی اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اپنے شرک و کفر سے ان کو شر یک ٹھہرا لیا۔
سوال اگر کہا جائے کہ وہ تو بتوں کی پوجا کرتے تھے تو جنوں کی عبادت کیسے ہو گئی؟
جواب اس لیے کہ انہوں نے بتوں کی پوجا صرف جنات کی اطاعت کرتے ہوئے کی، ایسے لوگوں کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو دیگر لوگوں کے ساتھ کسی سفر پر نکلا تو راستہ گم کر بیٹھا، شیاطین و جنات نے اسے مخبوط کر دیا اور زمین میں بھٹکا دیا، جبکہ اس کے ساتھی سیدھے راستے پر ہی قائم رہے اور اسے بھی اپنی طرف سیدھے راستے پر بلاتے رہے۔
كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرَانَ لَهُ أَصْحَابٌ
”اس شخص کی طرح ہے شیطانوں نے زمین میں بہکا دیا، اس حال میں کہ حیران ہے، اس کے کچھ ساتھی ہیں۔ “ [الأنعام: 71]
یہ وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو قبول نہیں کرتا، بلکہ اس نے شیطان کی اطاعت کی اور زمین میں معصیت کے کام کیے، حق سے ہٹ گیا اور گمراہ ہوا، کیونکہ ہدایت اللہ تعالیٰ ہی کی ہدایت ہے اور جس کی طرف جنات (شیاطین) بلاتے ہیں، وہ گمراہی ہے۔
تیسری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :
أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿٦٠﴾
” کیا میں نے تمہیں تاکید نہ کی تھی اے اولاد آدم کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا، یقیناً وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔ “ [ يس: 60 ]
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی آدم میں سے ان کافروں کے لیے ڈانٹ ہے، جنہوں نے شیطان کی پیروی کی، حالانکہ وہ ان کا واضح دشمن ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، حالانکہ اللہ نے انھیں پیدا کیا اور وہی انھیں رزق دیتا ہے۔
——————

30۔ اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں جن کا حجم کیا ہے ؟
جواب :
ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الله تعالیٰ فرماتا ہے:
يا عبادي ! لو أ أولكم وآخركم وإنسكم وجنكم قاموا فى صيد واحد، فسألوني فأعطيت كل إنسان مسألته، ما نقص ذلك ما عندي إلا كما ينقص المخيط إذا أدخل البحر [صحيح مسلم رقم الحديث 17/8]
”میرے بندو! اگر تمھارے اگلے پچھلے، جنات و انسان سب ایک میدان میں جمع ہو کر مجھ سے سوال کریں تو میں ہر ایک کو اس کی مطلوبہ چیز عطا کر دوں تو پھر بھی میرے خزانے میں کمی نہیں آئے گی، مگر ایسے ہی جیسے ایک سوئی سمندر میں ڈبو کر نکال لی جائے، تو جتنا پانی سوئی نے سمندر سے کم کیا ہے، ایسے ہی تمام جنات و انسان کو ان کی مطلوبہ چیز میں عطا کرنے سے میرے خزانوں میں کمی آ سکتی ہے۔ “یعنی کوئی نہیں آئے گی۔
——————

اس تحریر کو اب تک 19 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply