پھلوں اور جانوروں کی خرید و فروخت سے متعلق

16- کھجور اور انگور کی پکنے سے پہلے خرید و فروخت
کھجور اور انگور کے پھل اور گندم، جو اور مکئی وغیرہ سے حاصل ہونے والے غلے کی علیحدہ سے، انہیں ان کے درختوں پر باقی رکھتے ہوئے، پکنے سے پہلے خرید و فروخت درست نہیں کیونکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھل پکنے سے پہلے ان کی بیع ممنوع قرار دی ہے۔ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2193]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خریدار اور فروخت کرنے والے، دونوں کو منع کیا ہے، نیز حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پھلوں کی خرید و فروخت (درختوں پر پکنے سے پہلے) کیا کرتے تھے پھر جب پھل توڑنے کا وقت آتا اور مالک (قیمت کا) تقاضا کرنے آتے تو خریدار یہ عذر کرنے لگتے کہ پہلے ہی اس کا گابھا خراب اور کالا ہو گیا، اس کو بیماری لگ گئی، یہ تو ٹھٹھر گیا، اس طرح مختلف آفتوں کا ذکر کر کے مالکوں سے جھگڑتے، جب اس طرح کے مقدمات آپ کے پاس بہ کثرت آنے لگے تو آپ نے فرمایا:
اس وقت تک ان کی خرید و فروخت نہ کرو جب تک پھل کا پکنا ظاہر نہ ہو جائے۔ [صحيح البخاري، رقم الحديث 1486 صحيح مسلم 1534/49]
ان کے بکثرت جھگڑوں کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کہی، لیکن اگر بیچنے والا درختوں سمیت ان کو بیچ دے تو بیع صحیح ہوگی کیونکہ یہ درختوں کے ضمن میں شامل ہیں، اسی طرح کاٹنے یعنی ان کو درختوں سے اتارنے کی شرط پر پکنے سے پہلے ہی ان کی بیع کر لینا بھی جائز ہے۔
پھلوں میں پکنے کا ظاہر ہونا ہر پھل کے حسب حال ہوتا ہے۔ کھجور کے پھل پکنے کی نشانی یہ ہے کہ اس میں سرخی یا زردی، چاہے کچھ پھلوں ہی میں ہو، ظاہر ہو جائے۔ دانہ پکنے کی یہ علامت ہے کہ وہ سخت ہو جائے اور انگور پکنے کی علامت یہ ہے کہ وہ سفید یا کالے ہو جائیں۔
[اللجنة الدائمة: 3476]
——————17- کئی سالوں کے لیے پھولوں کی پیداوار خرید لینا
پانچ سال کی مدت کے لیے باغوں کی پیداوار خرید لیناجائز نہیں کیونکہ اس میں غرر، دھوکا اور جہالت (لاعلمی) ہوتی ہے، لہٰذا مذکور تاجر کے ساتھ تمھاری شراکت جائز نہیں نہ اس تجارت کا منافع لینا ہی جائز ہے، چاہے تم اس پر راضی ہو۔
[اللجنة الدائمة: 11549]
——————

18- مصحف (قرآن کریم) کی خرید و فروخت
قرآن کریم کی تجارت میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس کی حاجت رہتی ہے یا کبھی ضرورت پیش آجاتی ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مثال کے طور پر ایک آدمی کو مصحف کی ضرورت ہے اور اس کے پاس مصحف نہیں لیکن پیسے ہیں جن کے ساتھ وہ اسے خرید سکتا ہے، اور خریدے بغیر وہ اس مصحف کو حاصل نہیں کر سکتا، بنا بریں اس کی خرید و فروخت جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ اس کی ضرورت پیش آتی ہے، لیکن جس صاحب علم نے اس سے منع کیا ہے تو اس کے قول کو اس معنی میں لیا جا سکتا ہے کہ اگر یہ اس کی توہین اور تحقیر کا سبب ہو تو اس وجہ سے ممنوع ہے۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 1/253]
——————

19- پانی کی خرید و فروخت
اس میں تفصیل ہے، اگر کوئی آدمی پانی اپنے کسی برتن یا تالاب میں جمع کرے تو وہ اس کا مالک ہو جائے گا اور اس کے لیے اسے بیچناجائز ہوگا کیونکہ اس نے اسے ا کٹھا کیا اور اس پر قبضہ کیا ہے اور اس کام میں اس نے کافی مشقت اٹھائی ہے، لہٰذا یہ اس کی ملکیت میں چلا جائے گا، لیکن اگر پانی کنویں میں یا نہر میں یا کسی ایسی گزر گاہ آب میں باقی رہے جو اس کی ملکیت میں بہتی ہو تو اس میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے اور صحیح موقف یہ ہے کہ اس کے لیے ایسے پانی کی فروخت جائز نہیں، لیکن دوسروں کی نسبت اس کا اس سے فائدہ اٹھانے کا زیادہ استحقاق ہے، تاہم اس کو دوسروں کو اس سے اس انداز میں فائدہ اٹھانے سے منع کرنے کا حق حاصل نہیں جس سے کسی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زائد از ضرورت پانی فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔
[الفوزان: المنتقى: 2]
——————

20- بلی کی خرید و فروخت
بلی اگر چہ گھر میں رکھناجائز ہے لیکن اس کی بیع جائز نہیں۔
[الفوزان: المنتقى: 14]
——————

21- چڑیوں کی خرید و فروخت
چڑیوں کی خرید و فروخت جائز ہے کیونکہ یہ بیع کے حلال ہونے کے عموی حکم میں داخل ہے۔
[اللجنة الدائمة: 18248]
——————

22- خاص قسم کے کتوں کی خرید وفروخت
کتوں کی خرید و فروخت جائز ہے نہ ان کی قیمت ہی حلال ہے، چاہے یہ حفاظتی کتے ہوں کہ شکاری یا کوئی اور، کیونکہ حضرت ابو مسعود عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، عصمت فروش عورت کی کمائی اور کاہن کے نذر انے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2237 صحيح مسلم 1567/39]
[اللجنة الدائمة: 6554]
——————

23- بندروں کی خرید وفروخت
بلیوں، بندروں، کتوں اور اس قسم کے دوسرے کچلی والے درندوں کی خرید و فروخت جائز نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا اور روکا ہے، نیز اس میں مال ضائع ہوتا ہے جس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے۔ [صحيح البخاري، رقم الحديث 5527 صحيح مسلم 1932/13]
[اللجنة الدائمة: 18564]
——————

24- بیمار بکریوں کی خرید و فروخت
خرید و فروخت وہ چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے حلال کیا ہے اور یہ ان کے مفادات اور مصلحتوں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن ضروری ہے کہ یہ خرید و فروخت سچائی، امانتداری اور خیر خواہی پر مبنی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«البيعان بالخيار مالم يتفرقا، فإن صدقا، و بينا بورك لهما فى بيعهما، وإن كتما و كذبا محقت بركة بيعهما» [صحيح البخاري، رقم الحديث 2079 صحيح مسلم 1532/47]
’’دو خرید و فروخت کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے علاحدہ نہ ہو جائیں تب تک انہیں اختیار ہے، اگر وہ سچ بولیں اور بے لاگ انداز میں ہر چیز واضح کر دیں تو ان دونوں کی خرید وفروخت بابرکت ہو جائے گی، اور اگر ان دونوں نے جھوٹ بولااور چھپایا تو ان دونوں کی بیع سے برکت مٹ جائے گی۔“
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوکے سے منع فرمایا ہے:
«من غش فليس مناه» [صحيح مسلم 102/164]
”جس نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔“
اور فرمایا:
اور بولی نہ بڑھاؤ، کوئی آدمی اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے اور نہ اپنے بھائی کی منگنی (پیغام نکاح) پر منگنی ہی کرے۔ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2140 صحيح مسلم 1413/51]
اس مفہوم کی بہت زیادہ احادیث ہیں۔ جب آپ اپنا کوئی سامان بیچیں اور اس میں کوئی عیب ہو تو آپ کے لیے ضروری ہے کہ خریدار کے سامنے اسے
واضح کریں، اسے چھپائیں نہ غلط بیانی سے کام لیں۔ یہ بیمار بکریاں جو آپ بیچ رہے ہیں، ضروری ہے کہ ان کی بیماری واضح کریں، انہیں اس طرح بیچیں کہ یہ عیب والی ہیں اور خریدار کو اس پر مطلع کریں، تاکہ تمھاری بہ بیع سچائی پر قائم ہو۔ واللہ اعلم
[الفوزان: المنتقى: 55]
——————

25- درندوں کی خرید و فروخت کا حکم
درندوں کو ان کے شر، خباثت اور بے فائندگی کی وجہ سے بیچنے سے پرہیز کریں مثلاً: شیر، چیتا، تیندوا، بھیڑیا وغیرہ ان تمام جانوروں کو بیچناجائز نہیں، ان کی بیع بالکل باطل ہے۔
[ابن باز: مجموع الفتاوى و المقالات: 40/19]
——————

26- ان پرندوں کو رکھنے کا حکم جو کھائے نہیں جاتے
اگر ان سے فائدہ اٹھایا جاتا ہو، جیسے: شکرا، شاہین اور انہیں شکار کے لیے خریدا گیا ہو، تو انہیں رکھنے کے متعلق اہل علم کا ظاہر کلام یہ ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں، یہ ایسے ہی ہے جیسے شکاری کتا رکھنا، جس میں کوئی حرج نہیں، اسی طرح شکرا بھی ہے اگرچہ اس کا پنجہ ہوتا ہے، لیکن یہ شکار کرنے کے لیے فائدے مند ہوتا ہے، لہٰذا یہ جائز ہوگا، اسی طرح اس عقاب یا شاہین کا حکم بھی ہہی جس کی تربیت کر کے اس سے فائدہ اٹھانا مقصود ہو۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 41/19]
——————

27- غیر مسلموں کے لیے شراب اور خنزیر بیچنا
جو حرام کھانے پینے والی اشیا ہوں، جیسے: شراب، سور، ان کی تجارت کافروں کے ساتھ بھی جائز نہیں کیونکہ آحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے:
«إن الله إذا حرم شيئا حرم ثمنه» [مسند أحمد 293/1 بلوغ المرام، رقم الحديث 318]
”یقیناً اللہ تعالیٰ جب کوئی چیز حرام قرار دیتے ہیں تو اس کی قیمت بھی حرام کر دیتے ہیں۔“
نیز یہ حدیث بھی اس کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب، شراب نوشی، شراب فروش، خریدار، ساقی، اسے اٹھانے والے، جس کو پیش کی جائے، اس کی قیمت کھانے والے، اسے نچوڑنے اور کشید کروانے والے، ان تمام پر لعنت کی ہے۔ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3674 سنن ابن ماجه، رقم الحديث 3380]
——————

28- مردہ حیوان کی خرید و فروخت
اس فرمان خداوندی: «حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ» [المائدة: 3]
(تم پر مردار حرام کر دیا گیا ہے) کی وجہ سے حرام ہے، اگر یہ حرام ہے تو اس کی خرید و فروخت اور قیمت بھی حرام ہے۔ کسی انسان کے لیے اسے مجبوری کی حالت کے سوا کھاناجائز نہیں۔ سورۂ مائدہ میں جہاں اللہ تعالیٰ نے حرام کردہ اشیا کا تذکرہ کیا ہے، وہیں مردار کا ذکر بھی کیا اور اس کے بعد فرمایا:
«فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ» [المائدة: 13]
پھر جو شخص بھوک کی صورت میں مجبور کر دیا جائے، اس حال میں کہ کسی گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو تو بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
لیکن اس مردار سے ٹڈی اور مچھلی کا مردار مستثنی ہے اور وہ اس میں داخل نہیں، لہٰذا اس کی تجارت میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زندہ اور مردہ مچھلی اور ٹڈی حلال کی ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
«أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ» [المائدة: 96]
”تمہارے لیے سمندر کا شکار حلال کر دیا گیا اور اس کا کھانا بھی، اس حال میں کہ تمہارے لیے سامان زندگی ہے اور قافلے کے لیے۔“
نیز سمندر کے متعلق یہ فرمان نبوی بھی ہے:
«هو الطهور ماؤه الحل ميتته» [سنن الترمذي، رقم الحديث 69 سنن النسائي، رقم الحديث 59 سنن ابن ماجه، رقم الحديث 3246]
”اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال۔“
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے:
”ہمارے لیے دو خون اور دو مردار حلال کر دیے گئے ہیں جو دو مردار ہیں: وہ ٹڈی اور مچھلی ہیں، اور جو دو خون ہیں وہ کلیجی اور تلی ہیں۔“
[سنن ابن ماجه، رقم الحديث 3314]
[اللجنة الدائمة: 1818]
——————

29- زندہ جانور تول کر بیچنے کا حکم
جس جانور کی بیع حلال ہے، جیسے: اونٹ، گائے، بکری وغیرہ، تو اسے تول کر زندہ یا ذبح کر کے بیچنے کے متعلق ہمارے علم میں کوئی ممانعت نہیں کیونکہ یہ اس آیت:
«وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا» [البقرة: 275]
رحمہ (5-المائدة: 96)
”حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا۔“
کے عمودی حکم میں داخل ہے، اور نبی صلى اللہ علیہ وسلم کا یہ قول بھی اس کی دلیل ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سی کمائی زیادہ پاکیزہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور ہر مبرور (مقبول مبارک) بیع۔“ [مسند أحمد 141/4 الصحيحة، رقم الحديث 607]
اور اس وجہ سے بھی اس میں کوئی حرج نہیں کہ اس میں جہالت (لاعلمی) اور دھوکا نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 39/19]
——————

30- گوبر اور بکریوں کے فضلات کی خرید و فروخت کا حکم
پاکیزہ کھاد کی بیع میں کوئی حرج نہیں، جیسے: بکریوں، اونٹوں اور گائے وغیرہ کے گوبر کی کھاد، جس کا گوشت کھایا جاتا ہے اس کا گوبر پاک ہے اور اس کی بیع میں کوئی حرج نہیں، لہٰذا اس کی قیمت بھی جائز ہے اور اس میں بھی کوئی حرج نہیں، البتہ جو کھاد ناپاک ہو یا پلید صرف اس میں اشکال اور اختلاف ہے لیکن پاکیزہ کھاد کے استعمال میں کوئی حرج ہے نہ اس کی خرید و فروخت اور قیمت کھانے میں کوئی ممانعت ہے۔
[الفوزان: المنتقي: 5]
——————

31- چینی سے شہد بنانے والی مکھیوں کے شہد کی خرید وفروخت کا حکم
چینی سے خوراک لے کر شہد بنانے والی مکھیوں کے شہد کی خرید و فروخت میں کوئی حرج نہیں، لیکن اگر یہ شہد اس شہد کی کوالٹی سے مختلف ہو جو چینی سے غذا لے کر مکھیاں بنائیں تو ایسی صورت میں ہونے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ خریدار کے لیے وضاحت کر دیے کہ یہ چینی سے تیار شدہ شہد ہے، تاکہ وہ اس دھوکا دہی کا مرتکب نہ ہو جس کو کرنے والے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے براءت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے:
«من غش فليس مناه» [صحيح مسلم 102/164]
”جس نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔“
اور اس کی بیع میں بے برکتی نہ پڑ جائے کیونکہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
دو خرید و فروخت کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے علاحدہ نہ ہو جائیں تب تک انہیں اختیار ہے، اگر وہ سچ بولیں اور بے لاگ انداز میں ہر چیز واضح کردیں تو ان دونوں کی خرید و فروخت با برکت ہو جائے گی، اور اگر ان دونوں نے جھوٹ بولا اور چھپایا تو ان دونوں کی نیت سے برکت مٹ جائے گی۔ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2079 صحيح مسلم 1532/47]
لہٰذا آدمی کو چاہیے کہ وہ لوگوں کے ساتھ سچائی اور صاف صاف بیان کر کے معاملات کرے اور اسی انداز میں ان کے ساتھ پیش آئے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہوں یہی ایمان کی حقیقت ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایماندار نہیں ہوتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہ نہ پسند کرے جو وہ اپنے لیے کرتا ہے۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 13 صحيح مسلم 145/71]
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”جو یہ پسند کرتا ہے کہ اسے آگ سے دور کر دیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے اور اس حالت میں اس کی موت آئے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ لوگوں کے پاس ایسے ہی آئے جس طرح وہ ان کا اپنے پاس آنا پسند کرتا ہو۔“ [سنن النسائي، رقم الحديث 4191 سنن ابن ماجه، رقم الحديث 3956]
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 9/230]
——————

32- خون دینے کا معاوضہ لینے کا حکم
صحیح بخاری میں حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خون کی قیمت لینے سے منع فرمایا ہے۔ لہٰذا اس حدیث کی بنا پر کسی مسلمان کے لیے خون کا کوئی عوض لیناجائز نہیں اور اگر اس نے اس کا معاوضہ لے لیا ہو تو اسے فقرا پر صدقہ کر دے۔
[صحيح البخاري، رقم الحديث 2238]
[ابن باز مجموع الفتاوي و المقالات: 48/19]
——————

33- گردے کی پیوند کاری اور خرید وفروخت کا حکم
مجبور آدمی کے لیے گردے کی پیوند کاری کروانا جائز ہے، اگر یہ کسی جائز طریقے کے ذریعے سے ممکن ہو، لیکن کسی انسان کے لیے اپنا گردہ یا جسم کا کوئی عضو بیچناجائز نہیں کیونکہ ایسے شخص کے متعلق وعید آئی ہے جو کسی آزاد آدمی کو بیچ کر اس کی قیمت کھا جائے۔ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2227]
اور کسی عضو کی بیع بھی اس میں داخل ہے کیونکہ انسان اپنے جسم کا مالک ہوتا ہے نہ اپنے اعضا ہی کا۔ مزید برآں اس میں یہ خرابی بھی نظر آتی ہے کہ کہیں یہ کام اعضا کی تجارت کا ذریعہ ہی نہ بن جائے، مجھے تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ نیز اس وجہ سے بھی یہ جائز نہیں کہ مبادا یہ غریبوں پر
ظلم کا سبب بن جائے اور مال کے لالچ میں ان کے گردوں کی چوری رواج پکڑ جائے۔ [الفوزان: المنتقى: 60]
——————

34- آلات تصویر کی خرید و فروخت
اس میں تفصیل ہے۔ سٹوڈیو میں جائز اور نا جائز دونوں طرح کی تصویریں بنائی جاتی ہیں، اگر اس میں جائز اشیا کی تصویریں اتاری جائیں، جیسے: گاڑیاں، جہاز اور پہاڑ وغیرہ، جن میں روح نہیں ہوتی تو ایسے آلات تصویر بیچنے میں کوئی حرج نہیں، ان سے بے جان اشیا کی تصویر بنائی جا سکتی ہے اور انسان کو بھی اس کی ضرورت بھی پیش آسکتی ہے۔
رہا سوال ذی روح اشیا کی تصویر کشی کا، مثلا: انسانوں کی تصویریں، جانوروں کی تصویریں اور پرندوں کی تصویریں تو یہ ضرورت کے بغیر جائز نہیں، جس طرح ایسی چیز کی تصویر بنانا جس کے لیے لوگ مجبور ہوں، جیسے شہریت کی شناخت کے لیے جس کی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے، جسے عرف عام میں برتھ سرٹیفکیٹ یا شناختی کارڈ کہا جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اسی طرح پاسپورٹ اور تعلیمی اسناد کا معاملہ ہے جو تصویر کے بغیر نہیں ملتے، ایسے ہی مجرموں کی تصویر بنانا تاکہ ان کی شناخت ہو اور ان کے شر سے بچا جا سکے، اس طرح اس کے ساتھ ملتی جلتی صورتوں میں جو ضرورت کا تقاضا ہو، تصویر بنائی جا سکتی ہے۔ اس کی دلیل قرآن کریم میں یہ آیت مبارکہ ہے۔
«وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ» [الأنعام: 119]
”حالانکہ بلاشبہ اس نے تمہارے لیے وہ چیزیں کھول کر بیان کر دی ہیں جو اس نے تم پر حرام کی ہیں مگر جس کی طرف تم مجبور کر دیے جاؤ۔“
مقصد یہ ہے کہ انہیں (آلات تصویر) صرف جائز چیز کے لیے استعال کیا جائے، اگر اسے لوگوں کو بیچ دیا جائے تو اس کی بیع میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ یہ اچھی اور بری دونوں چیزوں میں استعمال ہوتا ہے، جس طرح تلوار یا چھری اور ان کے ساتھ ملتی جلتی اشیا کی بیع کرنا، جو اچھائی اور برائی دونوں میں استعمال ہو سکتی ہیں، جائز ہے، تاہم گناہ اس کے سر ہوگا جو انہیں برائی میں استعمال کرے گا، لیکن جس کو علم ہو کہ چھری یا تلوار یا ان جیسی اشیا کا خریدار انہیں برائی میں استعمال کرے گا تو اس کے لیے اس شخص کو یہ اشیا بیچنا حرام ہوگا۔
[ابن باز: مجموع الفتاوى و المقالات: 81/19]
——————

35- مجسموں کی خرید و فروخت اور انہیں بطور زیبائش رکھنے کا حکم
گھروں میں رکھے ہوئے ان مجسموں کا حکم، خواہ یہ لٹکے ہوئے ہوں یا الماریوں میں رکھے ہوئے ہوں، یہ ہے کہ انہیں حاصل کرنا اور رکھنا حرام ہے، چاہے یہ مجسمے حیوانات کے ہوں، یا گھوڑوں، شیروں یا اونٹوں وغیرہ کے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی تصویر ہو۔ [صحيح البخاري، رقم الحديث 3226 صحيح مسلم 12106/86]
جب فرشتے اس گھر میں داخل نہ ہوں تو اس گھر میں کوئی خیر نہیں ہو سکتی، لہٰذا جس کے پاس کوئی ایسی چیز ہے اسے چاہیے کہ اسے تلف کر دے یا کم از کم اس کا سر کاٹ دے اور اسے مٹا دے، تاکہ فرشتے اس کے گھر میں داخل ہونے سے نہ رکیں۔
آپ ایسے لوگوں پر تعجب کریں گے کہ وہ ان جیسی اشیا خطیر رقم خرچ کر کے خریدتے ہیں، پھر انہیں اپنی مجالس کی زینت بناتے ہیں، گویا وہ بچے ہیں۔ حقیقت میں شیطان نے یہ چیز ان کے لیے خوبصورت بنا کر پیش کی ہے وگرنہ اگر وہ اپنے دل میں جھاکیں تو اس نتیجے تک پہنچیں گے کہ یہ بیوقوفی ہے، کیسی صاحب عقل کو ایسا کام نہیں کرنا چاہیے چہ جائیکہ کوئی مومن انہیں اپنے گھر میں رکھے۔ صرف ایمان اور مضبوط ارادے کے ذریعے سے اس سے چھٹکارا پانا، انہیں مٹانا اور ختم کرنا ممکن ہے، اگر لوگ انہیں اپنے پاس رکھنے پر اصرار کریں تو وہ گناہ گار ہوں گے اور ہرگزر تے لمحے کے ساتھ ان کا گناہ بڑھتا جائے گا، ہم اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے اور اپنے لیے ہدایت مانگتے ہیں۔
جہاں تک ان کی خرید وفروخت کا تعلق ہے تو یہ حرام ہے۔ اس کی دلیل یہ فرمان نبوی ہے:
”اللہ تعالیٰ جب کوئی چیز حرام قرار دیں تو اس کی قیمت بھی حرام کر دیتے ہیں۔“
[مسند أحمد 293/1 بلوغ المرام، رقم الحديث 318]
لہٰذا ان کی درآمد جائز ہے نہ برآمد اور نہ خرید و فروخت ہی حلال ہے، اس مقصد کے لیے دکان کرائے پر دینا بھی جائز نہیں کیونکہ یہ گناہ اور زیادتی کے کام پر مدد دینے کی ایک صورت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے فرماتے ہیں:
«وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ» [المائدة: 2]
”اور نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔“
اسی طرح دیواروں اور کھڑکیوں پر ایسے پردے لگانا بھی حرام ہے، جن میں گھوڑوں، شیروں اور اونٹوں وغیرہ کی تصویریں ہوں کیونکہ تصویریں لٹکانا ان کی قدر و منزلت بڑھانے کے ضمن میں ہے اور یہ اس فرمان نبوی کے عمومی حکم میں داخل ہو جاتا ہے کہ ”فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی تصویر ہو۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 3226 صحيح مسلم 2106/86]
البتہ ان جیسی وہ تصویریں جو فرش پوشوں پر ہوں، جنھیں پاوں تلے روندا اور خوب رسوا کیا جاتا ہے، ان کے متعلق اہل علم کے درمیان اختلاف ہے کہ آیا یہ حرام ہیں کہ نہیں، جمہور علماء کرام کا یہ موقف ہے کہ یہ حلال ہیں تاہم جو ان سے بچنا چاہے اور پرہیز گاری اپنانا چاہے تو وہ ایسے فرش پوش نہ لے جن پر کسی جانور کی تصویر ہو، یہ زیادہ بہتر اور اچھا ہے لیکن اگر کوئی جمہور کا قول اختیار کرے تو میں امید کرتا ہوں کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 2/253]
——————

یہ تحریر اب تک 12 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply