زکر کے فضائل قران و حدیث کی روشنی میں

تالیف : ابوعمار عمر فاروق سعیدی حفظ اللہ

ذکر، اذکار اور دعاؤں کا بیان
دعا عبادت ہے :
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”دعا عبادت ہے“ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی :
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ
” تمہارے رب نے فرمایا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔ وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ “ [ 40-غافر:60 ]

نیند سے جاگنے کی دعا
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تہجد کے لیے رات کو جاگتے تو درج ذیل دعا پڑھتے :
اللهم لك الحمد انت نور السموات والارض ومن فيهن ولك الحمد انت قيم السموات والارض ومن فيهن، ولك الحمد، انت الحق، ووعدك الحق، وقولك الحق، ولقاؤك الحق، والجنة حق، والنار حق، والساعة حق . ”ومحمد حق، اللهم لك اسلمت، وعليك توكلت، وبك آمنت، وإليك انبت، وبك خاصمت، وإليك حاكمت، فاغفر لي ما قدمت وما اخرت، وما اسررت وما اعلنت، انت المقدم وانت المؤخر انت إلهي لا إله إلا انت ولااله غيرك
”اے اللہ ! تیری ہی تعریف ہے۔ تو ہی آسمان زمین اور جو ان کے مابین ہے سب کا نور ہے، حمد و ثناء تیرے ہی لائق ہے۔ آسمان، زمین اور جو ان کے اندر ہے سب کا تو ہی رکھوالا ہے۔ تعریف تجھے ہی زیبا ہے۔ تو حق ہے تیرا وعدہ سچا ہے، تیرا قول و فرمان برحق ہے، تیری ملاقات برحق ہے، جنت حق ہے، جہنم حق ہے، قیامت حق ہے، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حق ہیں۔ یا اللہ میں تیرے ہی لئے اسلام لایا تجھی پر میرا بھروسہ ہے تجھ ہی پر میرا ایمان ہے، میں تیرا مطیع فرمان ہوں تیری مدد سے ہی (دشمنوں کے ساتھ) جھگڑتا ہوں تو ہی میرے فیصلے کرنے والا ہے۔ تو اے اللہ ! میرے پہلے اور بعد والے گناہ معاف کر دے اور وہ بھی جو پوشیدہ طور پر ہوئے یا ظاہراً۔ سب کی مغفرت فرما دے۔ یا اللہ تو ہی آگے بڑھانے اور والا اور پیچھے رکھنے والا ہے۔ معبود حقیقی تو ہی ہے تیرے علاوہ کوئی دوسرا عبادت کے لائق نہیں۔ “ [ متفق عليه ]
اس حدیث میں وارد لفظ ”نور السموات والارض“ کا مفہوم اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ ”تو نور والا“ ہے یعنی اس کا خالق ہے۔ کہتے ہیں کہ دنیا کا نور سورج اور چاند میں ہے۔ ایک ترجمہ یہ بھی کرتے ہیں کہ ”تو مومنوں کے دلوں کو نور ہدایت و مغفرت سے مغفرت سے منور کرنے والا ہے۔“ اور لفظ (قیم – قیام) یا – – ”قیوم السموات والارض“ کا مطلب ہے یہ ہے کہ تو ان کے اموار کا انتظام کرنے والا ہے۔

دعا کی قبولیت کا ایک عمدہ موقعہ !
سوتے ہوئے جاگ آنے پر کا ایک شاندار وظیفہ !
حضرت عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جو شخص رات کو کسی بھی وقت جاگ جائے اور درج ذیل کلمات طیبات کہہ لے اور دعا کرے تو اس کی دعا قبول ہو گی اور اگر وضو کر کے نماز پڑھ لے تو اس کی نماز مقبول ہو گی۔ الفاظ یہ ہیں :
لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، الحمد لله وسبحان الله ولا إله إلا الله والله اكبر ولا حول ولا قوة إلا بالله، ثم قال اللهم اغفر لي
” نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، حکومت اسی کی ہے اس کی تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ حمد اللہ کی ہے، اور اللہ پاک ہے اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ (گناہوں سے) دوری اور (نیکی کی) قوت اس اللہ کے بغیر ناممکن ہے، اللہ مجھے بخش دے۔“۔ [ صحیح بخاری 1154]

بیت الخلا جانے کی دعا
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام بیت الخلاء جاتے وقت یہ دعا پڑھتے تھے :
اللهم إني اعوذ بك من الخبث والخبائث
”یا اللہ !میں پلید جنوں اور جننیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔“ [ صحیح بخاری 6322]
( باء ضمہ کے ساتھ یہ لفظ (خبث) جمع ہے اس کی مفرد خبیث آتی ہے۔ اور خبائث کی مفرد خبيثة ہے۔ ( یعنی مذکر اور مونث شیطان) بعض محدثین نے یہ لفظ ”خبث“ باء ساکن کے ساتھ پڑھا ہے۔ امام خطابی رحمہ اللہ اسے غلط کہتے ہیں۔ لیکن بعض دیگر نے اسے بھی صحیح قرار دیا ہے۔ )

وضو کے بعد کی دعا
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (جہاد وغیرہ کے موقع پر ) ہم باری سے اونٹ چرایا کرتے تھے۔ میں اپنی باری پر دن کے پچھلے پہر اونٹ لے جانے لگا تو دیکھا رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے پاس کھڑے ان سے محو گفتگو ہیں۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ :
”جو مسلمان عمدہ خوبصورت وضو کرکے نہایت خشوع خضوع کے ساتھ دل لگا کر دو رکعت پڑھے تو اللہ تعالی اس کے لیے جنت واجب فرما دیتا ہے۔“ میں نے یہ سن کر کہا واہ کیا خوب ہے یہ عمل ! – – -تو ساتھ کھڑے ایک شخص نے کہا – – جو بات اس سے پہلے فرمائی وہ اس سے بھی خوب تر ہے – – میں نے دیکھا تو یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے – – بولے کہ میں نے تمہیں دیکھا ہے کہ تم ابھی ابھی آئے ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : تم میں سے جو شخص وضو کرتے وقت اعضاء کو خوب دھوئے اور پھر یہ کلمات کہے تو اس کے لئے جنت کا آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ جس سے چاہے جنت میں داخل ہو جائے !
أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ
”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔“ [مسلم 553]

نماز کے لئے نکلے تو یہ دعا پڑھے
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ ایک بار رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں، ان کے گھر میں سوئے تھے۔ تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جاگے تو وضو فرمایا اور سورۃ آل عمران کی آخری درج ذیل آیات تلاوت فرمایئں :
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ ﴿١٩٠﴾
الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَـٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿١٩١﴾
رَبَّنَا إِنَّكَ مَن تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ ﴿١٩٢﴾
رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا ۚ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ ﴿١٩٣﴾
رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلَىٰ رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ إِنَّكَ تُخْلِفُ الْمِيعَادَ ﴿١٩٤﴾
فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ ۖ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ ۖ فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِّنْ عِندِ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ عِندَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ ﴿١٩٥﴾
لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلَادِ ﴿١٩٦﴾
مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۚ وَبِئْسَ الْمِهَادُ ﴿١٩٧﴾
لَـٰكِنِ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا نُزُلًا مِّنْ عِندِ اللَّـهِ ۗ وَمَا عِندَ اللَّـهِ خَيْرٌ لِّلْأَبْرَارِ ﴿١٩٨﴾
وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَن يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِلَّـهِ لَا يَشْتَرُونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۗ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ ﴿١٩٩﴾
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٢٠٠﴾

”بے شک آسمان اور زمین کا بنانا اور رات دن کا آنا اس میں نشانیوں ہیں عقل والوں کے لیے“۔
” وہ جو یاد کرتے ہیں اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے اور فکر کرتے ہیں آسمان اور زمین کی پیدائش میں، کہتے ہیں : اے ہمارے رب تو نے یہ عبث نہیں بنایا، تو پاک ہے سب عیبوں سے، سو ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچا۔“
”اے ہمارے رب جس کو تو نے دوزخ میں ڈالا سو اس کو اور رسوا کر دیا۔
اور نہیں کوئی گناہ گاروں کا مددگار۔ “
”اے ہمارے رب ہم نے سنا کہ ایک پکارنے والا پکارتا ہے ایمان لانے کو کہ ایمان لے آؤ اپنے رب پر، سو ہم ایمان لے آئے۔ اور اے ہمارے رب ! اب بخش دے ہمارے گناہ اور دور کر دے ہم سے ہماری برائیوں اور موت دے ہم کو نیک لوگوں کے ساتھ۔ “
”اے ہمارے رب ! اور دے ہم کو جو وعدہ کیا ہے تو نے ہم سے اپنے رسولوں کے واسطہ سے، اور ہم کو رسوا نہ کر قیامت کے دن، بے شک تو وعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔ “
”پھر قبول کی ان کی دعا ان کے رب نے کہ میں ضائع نہیں کرتا محنت کسی محنت کرنے والے کی، تم میں سے مرد ہو یا عورت تم آپس میں ایک ہو،
پھر وہ لوگ کہ ہجرت کی انہوں نے نکالے گئے اپنے گھروں سے ستائے گئے میری راہ میں لڑے اور مارے گئے البتہ دور کروں گا میں ان سے برائیاں ان کی اور داخل کروں گا ان کو باغوں میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں یہ بدلہ ہے اللہ کے ہاں سے اور اللہ کے ہاں ہے اچھا بدلا۔“
تجھ کو دھوکا نہ دے چلنا پھرنا کافروں کا شہروں میں۔
” یہ فائدہ ہے تھوڑا سا پھر ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔ لیکن جو لوگ ڈرتے رہے اپنے رب سے ان کے لئے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ مہمانی ہے اللہ کے ہاں سے، اور جو اللہ کے ہاں ہے سو بہتر ہے نیک بختوں کے لئے۔“
اور کتاب والوں میں بعض وہ بھی ہیں جو ایمان لاتے ہیں اللہ پر اور اس پر جو اترا تمہاری طرف اور جو اترا ان کی طرف، عاجزی کرتے ہیں اللہ کے آگے، نہیں خریدتے اللہ کی آیتوں پر مول تھوڑا۔ یہی ہیں جن کے لیے ان کے رب کے ہاں ان کی مزدوری ہے۔ بے شک جلد لیتا ہے اللہ حساب۔
اے ایمان والو صبر کرو اور مقابلہ میں مضبوط رہو اور لگے رہو اور ڈرتے رہو اللہ سے تاکہ تم اپنی مراد کو پہنچو۔ [3-آل عمران: 200-190]

ان آیات کریمہ کی تلاوت کے بعد آپ نے نماز شروع فرمائی۔ پہلے دو رکعت پڑھیں، قیام، رکوع اور سجدہ بہت لمبے کئے۔ پھر آپ سو گئے حتیٰ کے خراٹے لینے لگے۔ پھر جاگے اور پہلے ہی کی طرح کیا، تین بار اٹھے اور چھ رکعت ادا فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر بار مسواک کرتے، وضو فرماتے اور مذکورہ بالا آیات پڑھتے۔ پھر آخر میں تین وتر ادا کئے۔ تب مؤذن نے اذان کہی تو آپ نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ اور اس دوران آپ یہ دعا پڑھ رہے تھے :
اللهم اجعل لي فى قلبي نورا، وفي لساني نورا، وفي سمعي نورا، وفي بصري نورا، ومن فوقي نورا، ومن تحتي نورا، وعن يميني نورا، وعن شمالي نورا، ومن بين يدي نورا، ومن خلفي نورا، واجعل فى نفسي نورا، واعظم لي نورا
” یا اللہ ! میرے دل، میری زبان، میری سماعت، میری آنکھ میں نور بھر دے۔ میرے آگے، پیچھے، اوپر، نیچے ہر طرف نور ہی نور کرد ے۔ یا اللہ مجھے نور عنایت فرما۔“ [ مسلم 1797]
اس دعا میں ”نور“ کا مفہوم و معنی ”نور ہدایات و بیان“ ہے اور یہ کہ حق روشن ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد رزقِ حلال اور اطاعت کی قوت حاصل ہونا ہو۔

گھر سے باہر جاتے وقت کی دعا
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر سے باہر تشریف لے جاتے تو یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔
بسم الله توكلت على الله، اللهم إنا نعوذ بك من ان نزل او نضل او نظلم او نظلم او نجهل او يجهل علينا
”اللہ کے نام سے، میں اللہ پر اعتماد و توکل کرتا ہوں۔ تیری پناہ چاہتے ہیں کہ کہیں پھسل جائیں یا گمراہ ہوں یا کوئی ظلم کا نشانہ بنائے یا کوئی جہالت کا کام ہم سے سرزد ہو یا کوئی دوسرا ہم سے جاہلانہ برتاؤ کرے۔ “ [سنن ترمذي3427]

صبح بیدار ہو کر کیا پڑھے ؟
جناب شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ جو شخص شام اور صبح کے وقت ”سید الاستغفار“ پڑھ لیا کرے تو اگر اس رات میں فوت ہو گیا تو جنت میں جائے گا اور اگر اس دن میں فوت ہو گیا تو جنت میں داخل ہو گا۔
اللهم انت ربي، لا إله إلا انت، خلقتني وانا عبدك، وانا على عهدك ووعدك ما استطعت، اعوذ بك من شر ما صنعت، ابوء لك بنعمتك على، وابوء لك بذنبي فاغفر لي فإنه لا يغفر الذنوب إلا انت
” اے اللہ تو میرا پالنہار ہے، تیرے علاوہ کوئی دوسرا معبود نہیں۔ تو نے ہی مجھے پیدا کیا ہے، اور میں تیرا بندہ ہوں اور تیرے ساتھ کئے ہوئے وعدے اور عہد کا، اپنی ہمت کے مطابق پابند ہوں۔ جو گناہ بھی مجھ سے سرزد ہوئے ان کی نحوست اور شفقت سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ تیری نعمتوں کا احسان مند ہوں اور اپنی تفصیروں اور گناہوں کا اقراری ہوں۔ پس اے اللہ ! مجھے معاف فرما دے، تیرے علاوہ اور کون ہے جو تقصیریں معاف کرے“۔ [صحيح البخاري 6323]

ہر طرح کے تحفظ و امان کے لیے کلمات طیبات
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص صبح شام تین بار یہ کلمات پڑھ لیا کرے تو اسے کوئی چیز نقصان نہ دے گی۔
بسم الله الذى لا يضر مع اسمه شيء فى الارض ولا فى السماء وهو السميع العليم
” اللہ کے نام سے کہ اس کے نام کی برکت سے زمین و آسمان کی کوئی بھی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔“ [سنن ابي داؤد 5088]
( ابن ماجہ امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے۔ )
اس حدیث کے راوی جناب ابان رحمہ اللہ کا جسم ایک جانب سے فالج زدہ تھا۔ جب انہوں نے یہ روایت بیان کی تو شاگرد انہیں قدرے تعجب سے دیکھنے لگا (کہ یہ کیسے ہو گیا کیا دعا کے کلمات موثر نہ ہوئے یا کیا وجہ ہوئی ؟) تو ابان رحمہ اللہ نے فرمایا – – دیکھتے کیا ہو ؟ حدیث ایسے ہی ہے جو میں نے بیان کر دی لیکن جس دن مجھ پر فالج کا حملہ ہوا میں یہ کلمات پڑھنا بھول گیا تھا چنانچہ اللہ تعالی کی تقدیر ثابت ہوگئی !

تسبیح وتحمید کی فضیلت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ جو شخص شام سو بار سبحان الله وبحمده کا ورد کیا کرے قیامت کے روز اس سے بڑھ کر اور کوئی افضل نہ ہو گا۔ سوائے اس کے جو یہ کلمات اسی مقدار یا اس سے زیادہ تعداد میں کہتا رہا۔ [صحيح مسلم ]

اذان کے بعد کی دعا
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ رسالت مآب علیہ الصلوۃ والسلام سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص موذن کی اذان کے بعد درج ذیل دعا پڑھ لیا کرے، اللہ تعالی اس کے گناہ معاف فرما دے گا۔
اشهد ان لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وان محمدا عبده ورسوله رضيت بالله ربا، وبمحمد رسولا، وبالإسلام دينا
”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں۔ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔
میں اللہ کے رب ہونے، محمد کے رسول ہونے اور اسلام کو دین ماننے پر راضی ہوں۔“ [مسلم 854]

نماز سے سلام پھیرنے کے بعد کی دعائیں
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تو تین بار ”استغفراللہ “کہتے تھے۔
اور پھر یہ درج ذیل کلمات کہتے :
اللهم انت السلام، ومنك السلام، تباركت ذا الجلال والإكرام
”اے اللہ ! تو سراپا سلامتی ہے۔ اور سلامتی تیری ہی طرف سے ہے۔ تو بہت بابرکت ہے۔ اے جلال اور اکرام والے ! “۔ [صحيح مسلم 1335]
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو کر یہ دعا پڑھتے :
لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير،
اللهم لا مانع لما اعطيت ولا معطي لما منعت، ولا ينفع ذا الجد منك الجد

” اللہ کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں۔ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ حکومت اسی کی ہے، تعریفیں اسی کی ہیں۔ اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ “
”اے اللہ تو جو دنیا چاہے اس سے کوئی روک نہیں سکتا اور جو تو روک لے وہ کوئی دے نہیں سکتا۔ اور کسی بڑے سے بڑے کو تیرے مقابلہ میں کوئی شخص کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔“ [صحيح بخاري 844 ]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ہر نماز کے بعد 33 بار ”سبحان اللہ“ 33 بار ”الحمدللہ“ 33 بار ”اللہ اکبر“ کہے یہ مجموعہ 99 اور سو پورا کرنے کے لئے۔
لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، له الملك، وله الحمد، وهو على كل شيء قدير پڑھا کرے، تو اس کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے، اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔ [صحيح مسلم 1343]
لفظ ”جد“ کے ضبط و معنی میں کئی اقوال ہیں۔ ایک تو جیم کی فتح کے ساتھ ہو تو بمعی دولتمندی کسی دولت مند کو تیرے ہاں اس کا مال کوئی نفع نہیں دے سکتا، نفع آور تو تیری اطاعت کے اعمال ہی ہو سکتے ہیں۔
دوسرا معنی ”عزت اور بخت“ہے۔ کچھ لوگوں نے اس لفظ کو جیم کی کسر کے ساتھ ”جِد“ بھی پڑھنے کی کوشش کی ہے۔ اس کا معنی ”حرص“ ہے۔ لیکن امام الغہ ابو عبید نے اس کا انکار کیا ہے کہ یہ صحیح نہیں۔
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نماز کے سلام پھیرنے کے بعد یہ کلمات پڑھا کرتے تھے۔
لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، له الملك، وله الحمد، وهو على كل شيء قدير، لا حول ولا قوة إلا بالله، ولا نعبد إلا إياه، له النعمة، وله الفضل، وله الثناء الحسن، لا إله إلا الله، مخلصين له الدين ولو كره الكافرون
” اللہ کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، حکومت اسی کی ہے تعریفیں اسی کی ہیں اور وہ ہر شئی پر قادر ہے۔ گناہ سے بچاؤ اور نیکی کی توفیق اللہ کے بغیر ممکن نہیں، ہم اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہیں کرتے، ہر قسم کی نعمت اور ہر طرح کا فضل اسی کی جانب سے ہے۔
بہترین حمد و ثنا کا وہی حق دار ہے، اللہ کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں۔ ہم نہایت اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت کرتے ہیں اگرچہ کافروں کو یہ نا پسند آئے۔“ [صحيح مسلم 1343]
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد یہ پڑھا کرتے تھے۔
(مسلم رحمہ اللہ اس روایت میں منفرد ہیں۔ )

تسبیح کے فضائل
دن میں پڑھی جانے والی تسبیحات
دس غلام آزاد کرنے کا ثواب اور شیطان سے محفوظ رہنے کا وظیفہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
جو شخص ہر روز صبح کو سو بار درج ذیل کلمات پڑھ لیا کرے تو اسے دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ہوگا، سو گناہ معاف کیے جائیں گے اور پورا دن شام تک شیطان سے محفوظ رہے گا۔ اور مزید یہ کہ قیامت کے روز کوئی شخص فضائل میں اس سے بڑھ کر نہ ہوگا۔ الا یہ کہ کوئی اس سے بڑھ کر عمل لایا ہو۔ کلمات تسبیح یہ ہیں :
لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، له الملك، وله الحمد، وهو على كل شيء قدير
مزید ارشاد فرمایا کہ : جو شخص سبحان الله وبحمده سو دفعہ پڑھا کرے اس کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔ [متفق عليه، صحيح مسلم 6925 ]

روزانہ ایک ہزار نیکیاں حاصل کرنے کا وظیفہ
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ ایک بار ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا – – کیا تم اس بات سے عاجز ہو کے روزانہ ایک ہزار نیکیاں کماؤ ؟
ایک شخص نے پوچھ لیا کہ حضرت کوئی شخص روزانہ ایک ہزار نیکیاں کیسے کما سکتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سو بار ”سبحان اللہ“ کہے لوگ اس کے ہزار نیکیاں لکھی جائیں گی۔ اور ہزار گناہ معاف کئے جائیں گے۔ [صحيح مسلم]

اللہ تعالی کے محبوب ترین کلمات
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ نے ارشاد فرمایا کے دو کلمات ایسے ہیں جو زبان پر نہایت ہلکے اور آسان، ترازو میں بہت بھاری اور اللہ تعالی کے ہاں بہت ہی محبوب ہیں اور وہ (یہ) ہیں :
سبحان الله وبحمده، سبحان الله العظيم
”پاک ہے اللہ اپنی تعریفوں کے ساتھ، پاک ہے اللہ انتہائی عظمت والا ! “۔ [ صحيح بخاري 7563]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب کلمات
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ درج ذیل کلمات پڑھنا مجھے تمام دنیا سے، جس پر سورج طلوع ہوتا ہے، زیادہ محبوب ہیں :
سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله اكبر [صحيح مسلم 6847 ]
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے ابو ذر ! کیا تمہیں وہ کلمات نہ بتا دوں جو اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ میں نے عرض کیا، جناب یقیناً – مجھے وہ کلمات ارشاد فرمایئے جو اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب ہیں فرمایا :
سبحان الله وبحمده [صحيح مسلم 1088]

اللہ کا ذکر کرنے اور نہ کرنے والے کی مثال
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”مثال اس شخص کی جو اللہ تعالی کا ذکر کرتا ہے اور جو نہیں کر کرتا مثل زندہ اور مردہ کے ہے !“۔ [ متفق عليه]

مجلس سے اٹھنے کی دعا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کہ جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا اور اس میں بہت زیادہ لایعنی باتیں ہو گئیں۔ تو اگر اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے درج ذیل دعا پڑھ لے تو اس مجلس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے :
سبحانك اللهم وبحمدك اشهد ان لا إله إلا انت استغفرك واتوب إليك
”پاک ہے تو اے اللہ اپنی تعریفوں کے ساتھ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ میں تجھ سے معافی چاہتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں۔“
(نسائی اور ترمذی نے اس کو حسن صحیح کہا ہے۔ )
(امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں ایک مخفی علت ہے۔ اور مؤلف رحمہ اللہ نے اس کے مختلف اسناد ایک رسالہ جمع فرمائے ہیں۔)

شام کو پڑھنے والی دعائیں
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسالة مآب علیہ الصلوۃ و السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شام کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے :
امسينا وامسى الملك لله والحمد لله لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير .
رب اسالك خير ما فى هذه الليلة وخير ما بعدها، واعوذ بك من شر ما فى هذه الليلة وشر ما بعدها
رب اعوذ بك من الكسل وسوء الكبر، رب اعوذ بك من عذاب فى النار، وعذاب فى القبر
” ہم نے شام کی – اللہ کے سارے ملک پر شام چھا گئی – اللہ ہی کی تعریف ہے۔ اللہ کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ حکومت اسی کی ہے اورتعریف اسی کی ہے، اور ہر شے پر قادر ہے۔
اے میرے رب ! میں تجھ سے اس رات کی خیر مانگتا ہوں اور جو اس کے بعد ہے اس کی بھی خیر مانگتا ہوں۔ اور اس رات کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور اس شر سے جو اس کے کے بعد ہے۔
اے اللہ میں کاہلی، بڑھاپے کی اذیت، دوزخ اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔“ [ صحيح مسلم 6908 ]
اور جب صبح ہوتی تو یہی کلمات اس انداز سے کہتے :
اصبحنا واصبح الملك للٰه والحمد للٰه، لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو علىٰ كل شيء قدير، رب اسالك خير ما فى هذا اليوم، وخير ما بعدها واعوذ بك من شر ما فى هذا اليوم، وشر ما بعدها رب اعوذ بك من الكسل وسوء الكبر، رب اعوذ بك من عذاب فى النار وعذاب فى القبر [مختصر حصن المسلم 87]
( اس دعا میں وارد لفظ اگر کبر، یسکون الباء پڑھا جائے تو اس کا معنی ہے تکبر اور لوگوں کو حقیر جاننا – اور اگر باء کی فتح کے ساتھ کِبر پڑھا جائے تو اس کا معنی ہے ”انتہائی بڑھاپا اور یہ کہ عقل و شعور میں فتور آجائے“ امام خطابی رحمہ اللہ نے دونوں لکھے ہیں اور کبر یفتح الباء کو ترجیح دی ہے۔)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک بار ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کہ آج رات مجھے بہت اذیت ہوئی کے ایک بچھو نے ڈس لیا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اگر شام کے وقت، یہ دعا پڑھ لیتے تو یہ اذیت نہ اٹھانا پڑتی دعا یہ ہے :
اعوذ بكلمات الله التامات من شر ما خلق .
”میں اللہ تعالی کے کامل، کافی، شامی اور نافع کلمات کے ذریعہ اس کی مخلوق کے شر سے پناہ چاہتا ہوں۔“ [ صحيح مسلم 6879 ]
(امام لغت امام ھروی رحمۃ اللہ نے ”کلمات اللہ “کا مفہوم قرآن کریم میں بتایا ہے – اور ”تامات“ کا معنی کامل، کافی، شافی اور نفع آور کلمات جن سے اس کی پناہ طلب کی جائے۔)

سوتے وقت کی دعائیں
➊ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو بستر پر دراز ہوتے تو یہ دعا پڑھتے۔
اللهم باسمك اموت واحيا
”اے اللہ میں تیرے نام سے سوتا ہوں اور جاگوں گا۔“ [سنن ترمذي 3417]
(حدیث میں سونے کے مفہوم کے لیے اموت کا لفظ آیا ہے جس کا لفظی معنی ہے ”میں مرتا ہوں۔ “وہ اس لیے کہ نیند موت سے مشابہ ہوتی ہے۔ اور جاگنا زندگی ہے۔ )
➋ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو حکم دیا تھا کہ رات کو سوتے وقت یہ دعا پڑھے۔
اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِى إِلَيْكَ وَوَجَّهْتُ وَجْهِى إِلَيْكَ وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِى إِلَيْكَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِى إِلَيْكَ رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ لاَ مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَا مِنْكَ إِلاَّ إِلَيْكَ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِى أَنْزَلْتَ وَبِرَسُولِكَ الَّذِى أَرْسَلْتَ. فَإِنْ مَاتَ مَاتَ عَلَى الْفِطْرَةِ
”اے اللہ میں نے اپنی جان تیرے سپرد کر دی، اور اپنا رخ تیری طرف پھیر لیا، اور اپنی کمر کو تیرا سہرا دیا اور اپنے معاملات تیرے حوالے کر دیے۔ میری تمام تر امیدیں تجھ ہی سے وابستہ ہیں اور ہر قسم کا خوف بھی تجھی سے ہے۔ تیرے علاوہ کہیں جائے پناہ نہیں، کہیں نجات نہیں میں تیری نازل کردہ کتاب اور تیرے بھیجے ہوئے رسول پر ایمان لایا۔“ [متفق عليه]
(یہ حدیث بخاری میں پانچ مقامات پر مذکور ہے، حدیث نمبر : 247، 6311، 6313، 7315، 7488۔
ان مقامات پر حدیث میں وہ الفاظ ہیں جن کا اوپر ذکر ہے، جبکہ ایک رویت میں برسولك کا ذکر بھی ہے، اور وہ روایت بالمعنی ہے۔ تفصیلات کے لئے دیکھیں :” فتح الباری 116/11 “۔
اور امام المندری نے اپنی کتاب میں اس مقام پر، برسولک والی روایت ذکر کی تھی۔ جبکہ راجح بات ونبيك والی ہے۔ اس لئے میں نے اصل حدیث روایت باللفظ یہاں نقل کر دی ہے۔ (الاثری))
فرمایا کہ اگر تو یہ دعا پڑھ کر سوئے اور اس رات تری موت واقع ہو جائے تو تیری موت دین فطرت یعنی اسلام پر ہو گی۔
➌ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے درج ذیل دعا مروی ہے :
اللهم خلقت نفسي وانت توفاها لك مماتها ومحياها، إن احييتها فاحفظها وإن امتها فاغفر لها، اللهم إني اسالك العافية
”اے اللہ تم نے میری جان کو پیدا کیا اور تو ہی اسے وفات دے گا اس کی موت اور زندگی تیرے ہی لئے ہے۔ جب تو اسے زندگی دے تو اس کی حفاظت فرما اور اگر موت دے تو معاف فرما دے۔ اے اللہ میں تجھ سے عافیت کا طلبگار ہوں۔“ [صحيح مسلم 6888 ]
(حضرت عبداللہ بن عمر نے ایک شخص کو یہ دعا پڑھنے کا حکم دیا تو اس نے پوچھا کہ آیا آپ نے یہ دعا کس سے سنی ہے ؟ فرمایا کہ ہاں : عمر رضی اللہ عنہ سے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے )۔
➍ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بستر پر تشریف لاتے تو یوں کہتے :
الحمد لله الذى اطعمنا وسقانا وكفانا وآوانا، فكم ممن لا كافي له ولا مؤوي .
” تمام تعریفیں اللہ کی، جس نے ہمیں کھلایا پلایا، اور ہماری ضرورتیں پوری کیں اور آرام کی جگہ عنایت فرمائی، کتنے ہی لوگ ہیں کہ ان کی کفایت کرنے والا کوئی نہیں اورنہ ہی ان کے لیے کوئی جائے آرام ہے۔“ [ صحيح مسلم 6894 ]
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو یہ دعا پڑھنے کا حکم دیا تو اس نے پوچھا کہ آیا آپ نے یہ دعا کس سے سنی ہے ؟ فرمایا کہ ہاں : عمر رضی اللہ عنہ سے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے

نیند سے جاگنے کی دعا
الحمد لله الذى احيانا بعد ما اماتنا وإليه النشور
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے۔
” تعریف اس اللہ کی جس نے ہمیں موت (یعنی نیند) کے بعد زندگی دی اور بالآخر اسی کی طرف اٹھنا ہے۔ “

درور شریف کے فضائل
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشاد فرمایا کہ ”جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا، اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔ “ [صحيح مسلم]
ملاحظہ : امام ھروی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ لفظ اصلوۃ، کی نسبت جب اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کا معنی ”اللہ کا رحمت بھیجنا “ ہوتا ہے – اور جب اس کی نسبت فرشتوں یا نبی کی طرف ہو تو اس کا مفہوم استغفار اور دعا کرنا ہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک بار میں نماز پڑھ رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تشریف فرما تھے – نماز سے فارغ ہو کر میں نے اللہ کی ثنا ءکہی۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے درود پڑھا اور پھر میں اپنے لئے دعا کرنے لگا۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”مانگو، مانگو دیئے جاؤ گے ! “
(ترمذی – ابن ماجہ – ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے)۔
حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک بار جناب کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے ملا۔ تو انہوں نے کہا کیا میں تمہیں ایک ہدیہ نہ دوں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے تھے تو ہم نے ان سے عرض کیا تھا کہ ہم آپ پر سلام کا طریقہ تو جان چکے ہیں آپ کے لئے صلوۃ کیسے کہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یوں کہا کرو :
اللهم صل على محمد، وعلى آل محمد، كما صليت على إبراهيم، إنك حميد مجيد، اللهم بارك على محمد، وعلى آل محمد، كما باركت على آل إبراهيم، إنك حميد مجيد
”اے اللہ محمد اور آل محمد پر رحمت نازل فرما جیسے تو نے ابراہیم پر رحمت نازل کی۔ اے اللہ محمد اور آل محمد پر برکتیں نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم کو برکتیں دیں بلاشبہ تو تعریف کیا گیا ہے، تو بزرگی والا ہے۔ “ [متفق عليه]
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کہ اللہ تعالی نے ہمیں حکم دیا ہے لہ ہم آپ کے لئے صلاۃ (درود ) کہیں۔ تو اس کا کیا طریقہ ہے ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ اتنی دیر خاموش رہے کہ ہم کہنے لگے کہ کاش یہ سوال ہی نہ کرتے – – کچھ دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح کہا کرو :
اللهم صل على محمد، وعلى آل محمد، كما صليت على إبراهيم، إنك حميد مجيد، اللهم بارك على محمد، وعلى آل محمد، كما باركت على آل إبراهيم، إنك حميد مجيد
اور فرمایا کہ سلام تو تمہیں معلم ہی ہے۔ [ صحيح مسلم ]
(یعنی نماز کے تشھد میں جو پڑھا جاتا ہے السلام عليك ايها النبى ورحمة الله وبركاتہ )
حضرت ابوحمید ساعدی (عبد الرحمن بن سعد بن منذر) رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ نے پوچھا : یا رسول اللہ ! ہم آپ پر کس طرح صلاۃ ( درود) پڑھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اللٰهم صل علىٰ محمد، وعلى ازواجه، وذريته كما صليت علىٰ آل إبراهيم، وبارك علىٰ محمد وعلىٰ ازواجه، وذريته كما باركت علىٰ آل إبراهيم، إنك حميد مجيد
”اے اللہ اپنی رحمت نازل فرما محمد پر، ان کی ازواج اور ان کی اولاد پر، جیسا کہ برکت نازل کی تو نے ابراہیم پر تو تعریف کیا گیا ہے اور بڑی بزرگی والا ہے۔ “
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سلام کا تو یہی معروف طریقہ ہے۔ تو صلاۃ کیسے کہیں ؟ فرمایا یوں کہا کرو :
اللهم صل على محمد عبدك و رسولك، كما صليت على آل إبراهيم، وبارك على محمد، وعلى آل محمد، كما باركت على إبراهيم وآل إبراهيم.
”اے اللہ اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمت نازل فرما۔ جیسے تو نے ابراہیم پر رحمت نازل کی۔ اور محمد و آل محمد پر برکت نازل فرما جیسے تو نے ابراہیم اور آلِ ابراہیم پر برکت نازل کی۔“

اس تحریر کو اب تک 35 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply