ایسا لباس استعمال کرنا جس میں رانیں عیاں ہوں ناجائز ہے

تحریر : ابو ضیاد محمود احمد غضنفر حفظ اللہ

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْفَخِذُ عَورَةٌ
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”ران ستر ہے ۔“ امام بیہقی نے ابویحیی عن مجاہد کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے ۔
تحقیق و تخریج : مسند امام احمد بن حنبل: 1/ 275 ، ترمذی : 2796 ، معانی الآثار : 1/ 474 ، البيهقي : 2/ 228 ، بخاری : 570/1
وَثَبَتَ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أنَّ النَّبِيَّ مَا انْكَشَفَ فَخِذُهُ ، حِينَ أَجْرَى ، أَيُّ الْفَرَسَ بِزُفَاقِ خَيْبَرَ
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے یہ ثابت ہوا ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران اس وقت برہنہ ہوئی جب آپ نے خیبر کی گلی میں گھوڑا دوڑایا تھا ۔ “
تحقیق و تخریج : بخاری : 371 ، مسلم : 1365
فوائد :
➊ ”رانیں“ شرمگاہ میں داخل ہیں ان کو ڈھانپنا ضروری ہے ۔
➋ رانوں سے کپڑا ہٹانا یا ایسا لباس استعمال کرنا جس میں رانیں عیاں ہوں ناجائز ہے ۔ مثال کے طور پر پہلوان حضرات ایسے کچھے استعمال کرتے ہیں جن میں ران بالکل ننگے ہوتے ہیں بلکہ اتنا سا کپڑا ہوتا ہے جس سے بمشکل شر مگاہ چھپتی ہے ۔ یہ شریفانہ لباس نہیں ہے سراسر شرمندگی کا باعث ہے ۔ اگر کھیل کود میں پڑنا ہی ہے تو کم از کم اتنا کپڑا ہو جو کہ ناف سے گھٹنوں تک کے حصے کو ڈھانپتا ہو ۔ لیکن عورت کے لیے لوگوں کے سامنے آنا حرام ہے چہ جائیکہ وہ اپنے بازوؤں اور رانوں کو عیاں کرے عورت تمام تر پردہ ہے ۔
➌ کسی عذر کی بناء پر ران کو ننگا کیا جائے تو کوئی حرج نہیں مثال کے طور پر زخم آ جائے تو مرہم کے لیے ننگا کرنا یا خود بخود چادر وغیرہ ران سے اٹھ جائے جیسے گھوڑے پر سوار ہوتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ران مبارک ننگا ہو گیا تھا ۔
➍ گھوڑا استعمال کرنا گھر میں رکھنا اور اس پر سواری کرنا جائز ہے ۔
➎ گلی ، کوچوں میں سے گھوڑے پر بیٹھ کر گزرا جا سکتا ہے لیکن گھروں گلیوں سے گزرتے ہوئے ادب اور احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ بالکل آہستہ اور آرام سے گزرا جائے ۔ تیز رفتاری میں بچے و دیگر مقیم حضرات نیچے آسکتے ہیں اور گھروں میں سوئے ہوئے لوگ تکلیف بھی محسوس کر سکتے ہیں ۔

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔