حق کی مدد سے محض اس لئے انکار کرنا کہ اس کے ہمنوا کمزور لوگ ہیں

تالیف: الشیخ السلام محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ، ترجمہ: مولانا مختار احمد ندوی حفظ اللہ

اہل جاہلیت کی ایک عادت یہ بھی تھی کہ وہ حق کو قبول کرنے سے محض اس لئے انکار کرتے تھے کہ اس کے ماننے والے کمزور اور غریب لوگ ہیں۔ ایسا وہ تکبر و غرور کی وجہ سے کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فعل کی تردید فرمائی :
وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ ٭ وَكَذَلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِيَقُولُوا أَهَـؤُلَاءِ مَنَّ اللَّـهُ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنِنَا أَلَيْسَ اللَّـهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ [6-الأنعام:52]
”اور جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار سے دعا کرتے ہیں اور اس کی ذات کے طالب ہیں ان کو اپنے پاس سے مت نکالو، ان کے حساب کی جوابدہی تم پر کچھ نہیں اور تمہارے حساب کی جوابدہی ان پر کچھ نہیں۔ اگر ان کو نکالو گے تو ظالموں میں ہو جاؤ گے، اور اسی طرح ہم نے بعض لوگوں کی بعض سے آزمائش کی ہے (کہ جو دولتمند ہیں غریبوں کی نسبت) کہتے ہیں کیا یہی لوگ ہیں جن پر خدا نے ہم میں سے فضل کیا ہے، کیا اللہ شکر کرنے والوں میں سےواقف نہیں۔ “
مزید فرمایا :
عَبَسَ وَتَوَلَّى ٭ أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَى [ 80-عبس:1]
”ترش رو ہوئے اور منہ پھیر بیٹھے کہ ان کے پاس ایک نابینا آیا۔“
مطلب یہ کہ یہ ضعفاء دلیل و شعور سے ایمان لائے ہیں، کسی غرض کے تحت نہیں جیسا کہ مخالفین طعنہ دیتے ہیں، نہ آپ ان کے ذمہ دار ہیں نہ یہ آپ کے ذمہ دار ہیں لہٰذا ان ضعفاء کو راہ ایمان سے ہٹانا بڑا ظلم ہے۔

 

اس تحریر کو اب تک 2 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply