جادو اور جنات نکالنے کی شرعی حیثیت

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا جنوں کا وجود ہے ؟ نیز جادو کے علاج اور جنات نکالنے کی شرعی حیثیت سے آگاہ فرما دیں۔
جواب : جنوں کا وجود انبیاء علیہم السلام کی متواتر خبروں سے معلوم ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ وہ زندہ، ذی عقل اور ارادے کے مطابق عمل کرنے والے، نیکی کا حکم دیے گئے اور برائی سے روکے گئے ہیں۔ ان کی کوئی خاص صفت یا لمبائی چوڑائی مقرر نہیں ہے جیسا کہ بعض ملحدوں کا دعویٰ ہے۔ چونکہ جنوں کا معاملہ انبیاء علیہم السلام سے متواتر ثابت ہے اس لئے ہر خاص و عام اسے متواترہ جانتا ہے لہٰذا یہ ناممکن ہے کہ کوئی گروہ جو رسولوں کی طرف اپنی نسبت کرتا ہو اور وہ ان کے وجود کا انکار کرے۔ [مجموع الفتاويٰ 9/19، 10 ]
کتاب و سنت اور اجماع امت سے یہ بات بالکل عیاں اور ظاہر و باہر ہے کہ جنات کا وجود ہے اور یہ آگ کے شعلے سے پیدا کیے گئے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طرح انسانوں کی طرف رسول بنا کر مبعوث کیا گیا، اسی طرح جنات کی طرف بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پیغمبر بن کر مبعوث ہوئے ہیں۔ جنات میں بھی نیک و بد ہر طرح کے لوگ موجود ہیں، جو ان میں شیطنت کی صفت کے حامل ہوتے ہیں، وہ انسانوں کو گمراہ کرنے کے لیے مختلف قسم کے وساوس و خطرات پیدا کرتے رہتے ہیں۔ اس صورت میں انسانوں کو تعوذ پڑھنا چاہئیے اور اللہ پاک کی پناہ پکڑنی چاہئیے۔ معاشرے میں جو عمومی صورتِ حال ہے کہ جوان لڑکیوں کو جنات کی شکایت ہوتی ہے، اکثر اوقات ہوتا یہ ہے کہ لڑکی کی پسند کی شادی والدین نہیں کرتے تو وہ جنات کے سایہ کی شکایت کرنے لگ جاتی ہے اور والدین پریشان ہو کر جنات نکالنے والے عاملوں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور وہ آ کر جوان لڑکی کو چھوتے بھی ہیں اور رقم بھی بٹورتے ہیں۔ یہ دھندہ عروج پر ہے۔ اکثر جنات نکالنے والے زر اور زن کے پیاسے ہوتے ہیں۔ پھر وہ طرح طرح کے ڈرامے رچا کر اپنا مقصود پورا کرتے ہیں۔ جب لڑکی کی مرضی سے اس کے آشنا سے رشتہ قائم ہو جاتا ہے تو جنات کا معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ بعض روایات میں صراحتاً جنات کے وجودِ انسانی میں داخلے کا تذکرہ ملتا ہے۔ جیسا کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
”ایک سفر میں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے نہیں جاتے تھے یہاں تک کی غائب ہو جاتے، دکھائی نہ دیتے۔ ہم ایک چٹیل میدان میں اترے، نہ اس میں درخت تھا اور نہ پہاڑ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے جابر ! اپنے برتن میں پانی ڈال پھر ہمارے ساتھ چل۔ “ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم چل پڑے یہاں تک کہ ہم دکھائی نہ دیتے تھے۔ ہم ایک چٹیل میدان میں پہنچے، نہ اس میں درخت تھے اور نہ پہاڑ۔ اچانک دو درخت نظر آئے، جن کے درمیان چار ہاتھ کا فاصلہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے جابر ! اس درخت کی طرف جا اور کہہ کہ اللہ کے رسول تمہیں کہتے ہیں تو اپنے ساتھی (یعنی دوسرے درخت) کے ساتھ مل جا یہاں تک کہ میں تمہارے پیچھے (قضائے حاجت کے لیے ) بیٹھوں۔ “ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے ایسے کہا: وہ درخت اس کی طرف پلٹ آیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں درختوں کے پیچھے بیٹھ گئے۔ پھر وہ دونوں اپنی جگہ کی طرف پلٹ آئے۔ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہو گئے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان ایسے تھے گویا ہمارے اوپر پرندوں نے سایہ کیا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک عورت آئی۔ اس کے پاس اس کا بچہ تھا، کہنے لگی : ”اے اللہ کے رسول ! بلاشبہ میرے اس بیٹے کو ہر روز تین دفعہ شیطان پکڑ لیتا ہے۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو لے لیا۔ آپ نے اسے اپنے اور کجاوے کے اگلے حصے کے درمیان بٹھا دیا، پھر فرمایا : ”اللہ کے دشمن ذلیل ہو جا، میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ کے دشمن ذلیل ہو جا، میں اللہ کا رسول ہوں۔ “ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کہا:، پھر بچہ اس عورت کے حوالے کر دیا۔ جب ہم نے اپنا سفر تمام کر لیا اور ہم اس جگہ سے گزرے تو عورت اپنے بچے سمیت ہمارے سامنے آ گئی۔ اس کے ساتھ دو مینڈھے تھے جنھیں وہ ہانک کر لا رہی تھی۔ کہنے لگی : ” اے اللہ کے رسول ! میری طرف سے ہدیہ قبول کر لیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ! اس کے بعد وہ شیطان واپس نہیں لوٹا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ایک مینڈھا اس سے لے لو اور دوسرا اسے واپس کر دو۔ “ [ دارمي 167/1، 168، ابن أبى شيبة 490/11، 492، 11803، التمهيد
223/1، 224 دلائل النبوة لأبي نعيم 282، عبد بن حميد 1052 ]

اس روایت کی سند میں اسماعیل بن عبدالملک ہے۔ امام ابوحاتم رحمہ اللہ رازی رحمہ اللہ، امام نسائی رحمہ اللہ، امام ابن حبان رحمہ اللہ، امام ابوداؤد، امام محمد بن
عمار، امام عقیلی، امام دولابی، امام ابوالعرب القیروانی، امام ابن شاہین (رحمۃ اللہ علیہم) نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ [ تهذيب الكمال 142/3، 143 ]
یعلی بن مرہ ثقفی رضی اللہ عنہ کی ایک طویل روایت میں ہے :
”دورانِ سفر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت بچہ لے کر حاضر ہوئی۔ اس بچے کو جن کی شکایت تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ناک کو پکڑا اور فرمایا : ”نکل جا، بے شک میں محمد اللہ کا رسول ہوں۔ “ کہتے ہیں پھر ہم سفر پر روانہ ہو گئے، جب ہم اپنے سفر سے واپس پلٹے، ہم اس پانی والی جگہ کے پاس سے گزرے تو وہ عورت اونٹ اور دودھ لے کر آئی۔ آپ نے اونٹ واپس کرنے کا حکم دیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دودھ پینے کا حکم دیا، انہوں نے دودھ پی لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے بچے کے بارے میں پوچھا: تو کہنے لگی : ”اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ! آپ کے بعد ہم نے اس میں کوئی بے قراری نہیں دیکھی۔ “ [ مسند احمد 173/4 17708، شرح السنة 296/13 ]
اس کی سند میں عطا بن السائب ہیں جنھیں اختلاط ہو گیا تھا اور معمر کی روایت ان سے اختلاط کے بعد کی ہے اور عبداللہ بن حفص مجہول راوی ہے۔
عطا کے اختلاط کے متعلق ملاحظہ ہو : [تهذيب الكمال 91/20 ]
اور عبداللہ بن حفص کی جہالت کے بارے میں دیکھیں : [ تقريب، تاريخ الدارمي 464، الكامل لابن عدي، نهاية السول، الكاشف وغيرها ]
یہ روایت مستدرک حاکم [615/2] میں بطریق احمد بن عبدالجبار از یونس بن بکیر از اعمش از المنھال بن عمرو از یعلی بن مرہ مروی ہے۔ لیکن اس سند میں احمد بن عبدالجبار ہے۔ امام ابوحاتم رحمہ اللہ رازی رحمہ اللہ نے کہا: ”یہ قوی نہیں ہے۔ “
محمد بن عبداللہ الاحضرمی نے کہا: ” یہ جھوٹ بولتا تھا۔ “ خود حاکم رحمہ اللہ کہتے ہیں : ” یہ محدثین کے ہاں قوی نہیں ہے۔ “ امام ابواحمد بن عدی فرماتے ہیں: اہل عراق اس کے ضعف پر متفق ہیں۔ الغرض یہ روایت ضعیف ہے۔ [تهذيب الكمال 166/23، 167]
پھر اس کی سند میں اعمش کی تدلیس بھی ہے اور روایت معنعن ہے۔
یہ روایت مسند احمد [17690] میں عبداللہ بن نمیر از عثمان بن حکیم از عبداللہ بن عبدالعزیز از یعلی بن مرہ کے طریق سے بھی مروی ہے اور یہ عبدالرحمٰن بن عبدالعزیز غیر معروف ہے۔ [تعجيل المنفعة لابن حجر عسقلاني ص253 ]
اگر اس عبدالرحمٰن سے عبداللہ بن عبدالعزیز بن عبداللہ بن عثمان بن حنیف الانصاری مراد ہوں تو نہ سند منقطع ہے کیونکہ اس کی وفات 162ھ کی ہے۔ اس کی عمر 70 سال سے کچھ زیادہ تھی، تقریباً یہ 95ھ کے قریب پیدا ہوا تھا اور یعلی بن مرہ ثقفی رضی اللہ عنہ سے اس کی ملاقات کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت اپنا بیٹا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی : ”اے اللہ کے رسول ! بلاشبہ میرے بیٹے کو جنون ہے اور وہ اسے صبح شام کے کھانے کے وقت پکڑ لیتا ہے اور ہمارے اوپر خباثت کرتا ہے۔ “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سینے کو نرم کیا اور دعا کی۔ اس نے ایک بار قے کی۔ اس کے پیٹ سے سیاہ پیلے کی طرح کی کوئی چیز نکلی تو اس نے دوڑ لگْا دی۔ “ [ دارمي19، 1/ 170مسند احمد1/ 239، طبراني كبير12/ 57 دلائل النبوة البيقهي 182/6 ]
مسند احمد اور طبرانی کی روایت کے آخر میں ہے کہ اس بچے نے شفا پا لی۔
↰ لیکن اس کی سند میں فرقد السنجی ہے۔ جمہور محدثین کے ہاں فرقد بن یعقوب السنجی ابویعقوب راوی ضعیف ہے۔ [تهذيب اكمال 166/23۔ 167 ]
اس طرح کی روایت مطر بن عبدالرحمٰن الاعنق عن ہند بن الوازع، عن الوازع کی سند سے بھی مروی ہے۔ [ اتحاف المهرة لابن حجر 656/13، اطراف المسند 445/5، جامع المسانيد والسنن لابن الكثير 346/12 ]
↰ لیکن اس کی سند میں ہند ام ابان بنت الوازع کی توثیق معلوم نہیں۔ ایک روایت عثمان بن ابی العاص سے بھی مروی ہے جس کا ذکر علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے کیا ہے۔ [ مجمع الزوائد 3/9 ]
انہوں نے کہا ہے کہ اس کی سند میں عثمان بن بسر ہے جسے میں نہیں پہچانتا اور اس کے باقی روای ثقہ ہیں۔
البتہ اس سلسلے کی ایک صحیح السند روایت امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں ذکر کی ہے کہ عثمان بن ابی العاص نے کہا: ”جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے طائف پر عامل بنایا، میری نماز میں کوئی چیز مجھے پیش آنے لگی، یہاں تک کہ میں نہیں جانتا تھا جو نماز میں نے پڑھی۔ جب میں نے یہ صورتحال دیکھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوچ کیا۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے ابن ابی العاص !“میں نے کہا: جی ! اے اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کونسی چیز تمہیں لائی ہے ؟“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! کوئی چیز میری نماز میں مجھے پیش آتی ہے یہاں تک کہ میں نہیں جانتا جو نماز میں نے پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”وہ شیطان ہے، قریب ہو۔ “ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوا اور اپنے قدموں کے سروں پر بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر اپنا ہاتھ مارا اور میرے منہ میں لعاب لگایا اور فرمایا : اُخْرُجْ عَدُوَّ اللهِ ”اے اللہ کے دشمن ! نکل جا۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام تین مرتبہ کیا، پھر فرمایا : ”اپنے کام کے ساتھ الحاق کر لے۔ “ عثمان رضی اللہ عنہ قسم کھا کر کہتے ہیں : ”میں گمان نہیں کرتا کہ اس کے بعد کبھی اس نے میرے ساتھ اختلاط کیا ہو۔ “
اس حدیث کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی صحیح کہا ہے۔ [ابن ماجه، كتاب الطب : باب الفزع والارق وما يتعوذ منه538 مصباح الزجاجة المسند الجامع12/ 4118 ]
↰ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان انسان میں داخل ہوتا ہے، اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اُخْرُجْ عَدُوَّ اللهِ ”اللہ کے دشمن نکل جا۔ “
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”انسان کے بدن میں جن کے داخل ہونے پر اہلِ سنت و الجماعت کے ائمہ متفق ہیں۔ “
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
الَّذِيْنَ يَأْكُلُوْنَ الرِّبَا لَا يَقُوْمُوْنَ إِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ [ البقرة : 275 ]
”سود خور نہ کھڑے ہوں گے مگر اس طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے۔ “
اور صحیح حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”شیطان انسان کے جسم میں اس طرح گردش کرتا ہے جس طرح کہ خون دوران کرتا ہے۔ “ [بخاري، كتاب بدءا الخلق باب صفة ابليس و جنوده 3281، مسلم 2175، ملاضظه هو مجمعوع الفتاويٰ لا بن تيمييه 24/ 276 ]
عبد اللہ بن احمد ابن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں : ” میں نے اپنے والد ( احمد ابن حنبل) سے کہا:۔ ” بہت سے لوگ ایسے کہتے ہیں کہ کوئی جن کسی المصروع (جس پر جن سوار ہو) کے بدن میں داخل نہیں ہوتا۔ “ تو انہوں نے کہا: ”اے میرے بیٹے ! وہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔ اصلاً یہ شیطان ہی ہے جو ان کی زبان سے (یہ جھوٹ) بولتا ہے۔ “ [مجموع الفتاويٰ 277/24 ]
ایک مقام پر امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”بعض جاہل اور گمراہ لوگوں نے جنہیں علم نہیں اس بات کا انکار کیا ہے۔ چنانچہ معتزلہ میں سے ایک گروہ مثلاً الجبائی اور ابوبکر الرازی وغیرہ نے مصروع کے بدن میں جن کے داخل ہونے کا انکار کیا ہے مگر وہ بھی جن کے وجود کا انکار نہیں کرتے۔ “ [مجموع الفتاويٰ 12/19 ]
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے : ”جادو کی حقیقت“ [ ص : 189 تا 191] از غازی عزیر مبارکپوری حفظہ اللہ مطبوعہ مکتبہ دارالسلام
اگر کسی بھی شخص کو شیطانی وساوس لاحق ہوں تو وہ ان کا شرعی طریقہ کار سے علاج کرے، اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پر پختہ اعتقاد رکھے، توکل و بھروسا اسی کی ذات پر کرے اور نفع و نقصان کا مالک اسے سمجھتے ہو ئے اس سے صدقِ دل سے دعا مانگے اور شیاطین سے بچنے کے لئے استعاذہ سے کام لے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پناہ پکڑنے کی ہدایت یوں فرمائی :
﴿وَقُلْ رَبِّ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِيْنِ ٭ وَأَعُوْذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُوْنِ﴾ [المؤمنون : 97۔ 98 ]
”اور آپ کہہ دیں اے میرے پروردگار ! میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ پکڑتا ہوں اور اے میرے رب ! میں اس بات سے بھی تیری پناہ پکڑتا ہوں کہ وہ میرے پاس حاضر ہوں۔ “
اسی طرح فرض نمازوں کے بعد ذکر و اذکار، سونے اور بیدار ہونے کے اذکار اور صبح شام کے اذکار کے علاوہ بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت :
اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَعُوْذُبِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ
غصہ اور گدھے کے رینگنے کے وقت اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ پڑھیں۔
الغرض اگر انسان مختلف مقامات پر تعوذ پڑھتا رہے تو اللہ تعالیٰ ضرور شفا عطا کرے گا۔ کتاب و سنت میں موجود ذکر و اذکار سے ہٹ کر شیطانی عمل کرنے والوں، غیر محرم عورتوں کے سر یا رگ کو پکڑ کر جن نکالنے والے عاملوں کے ہتھے نہ چڑھیں۔ وہ آپ کی عزت بھی برباد کریں گے اور دولت بھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر قسم کے شیطانی ہتھکنڈوں اور ابلیسی کاروائیوں سے محفوظ فرمائے۔ (آمین ! )
جنات میں شادی بیاہ اور توالد و تناسل
سوال : کیا جنات میں شادی بیاہ اور توالد و تناسل کا سلسلہ ہے ؟
جواب : شیاطین وجنات میں انسانوں کی طرح شادی بیاہ اور مناکحت و توالد کا سلسلہ موجود ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے :
فِيْهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ [الرحمٰن : 56 ]
”ان نعمتوں کے درمیان نیچی نگاہوں والیاں (حوریں) ہوں گی، جنھیں جنتیوں سے پہلے کسی انسان یا جن نے نہ چھوا ہو گا۔ “
امام بغوی رحمہ اللہ لَمْ يَطْمِثُهُنَّ کا معنی بیان کرتے ہیں لَمْ يُجَامِعُهُنَّ یعنی ان سے جنوں اور انسانوں نے کبھی جماع نہیں کیا۔ [معالم التنزيل 275/4 ]
امام بیضاوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے :
فِيْهِ دَلِيْلٌ عَلَيٰ اَنَّ الْجِنَّ يَطْمِثُوْنَ [ تفسير انوار التنزيل وأسرار التاويل 456/2 ]
”اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ جن بھی جماع کرتے ہیں۔ “
پس معلوم ہوا کہ انسانوں کی طرح جنوں میں بھی نکا ح و جماع کا سلسلہ موجود ہے اور شیطان کی اولاد و ذریت کا تذکرہ بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوْا لِآدَمَ فَسَجَدُوْا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ أَفَتَتَّخِذُوْنَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِيْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظَّالِمِيْنَ بَدَلًا [ الكهف : 50 ]
”اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا: ”آدم کے لیے سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا، وہ جنات میں سے تھا۔ اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی۔ کیا تم اس کو اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر دوست بناتے ہو، حالانکہ وہ تمہارا دشمن ہے اور ظالموں کے لیے برا بدلا ہے۔ “
اس آیت سے ثابت ہوا کہ شیطان کی اولاد بھی ہے۔ لہٰذا پتا چلا کہ جنات میں بھی مباشرت و مناکحت اور توالد و تناسل کا سلسلہ انسانوں کی طرح قائم ہے۔

 

اس تحریر کو اب تک 30 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply