توکل علی اللہ کی حقیقت کیا ہے؟

تحریر: علامہ عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین حفظ اللہ

توکل کی حقیقت کیا ہے؟
سوال: توکل علی اللہ کی حقیقت کیا ہے؟
جواب: توکل کے لغوی معنی ہیں: انسان کا کسی غیر (دوسرے) کی طرف متوجہ ہونا اس کام کے لیے جس کو وہ خود کرنے سے عاجز ہو ۔ ”توکل بالامر“ اُس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کہ وہ ذات (جس پر توکل کیا جا رہا ہے) تمہاری طرف سے اس کام کو انجام دینے کی ضامن ہو جائے ۔
اور شرعاًً ”تو کل“ کے معنی ہیں کہ سارے معاملات کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینے کے بعد اُس ذاتِ باری تعالیٰ پر دل سے یقین و اعتماد کر لیا جائے اور باری تعالیٰ کو اپنے معاملات میں کفایت کرنے والا اور کار سازمان کر اس سے رضامند بھی ہو جائے ۔ اور توکل دل سے تعلق رکھنے والی عبادات میں سے ایک عبادت ہے جس کے کرنے کا اکثر و بیشتر حکم دیا جاتا ہے ۔ اور اس پر عمل کرنے والوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
﴿فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ﴾ [هود: 123]
”پس آپ اس کی عبادت کریں اور اسی پر بھروسہ رکھو ۔“
نیزار شاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّسْلِمِينَ﴾ [يونس: 84]
”اسی پر توکل کرو اگر تم مسلمان ہو ۔“
اور فرمان الہی ہے:
﴿فَاتَّخِذْهُ وَكِيلًا﴾ [المزمل: 9]
”پس تو اسی کو اپنا کار ساز بنالے ۔“
نیز اللہ پاک کا فرمان ہے:
﴿وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ﴾ [الانفال: 2]
”اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں ۔“
یعنی وہ لوگ اپنے معاملات کو اسی ذات وحدہ لا شریک لہ کے حوالے کرتے ہوئے اس پاک ذات پر اپنے دلوں سے یقین و اعتماد کرتے ہیں ، اور اس کے ماسوا کسی اور سے امیدیں وابستہ نہیں رکھتے اور اس کے علاوہ کسی پر بھروسہ نہیں کرتے اور صرف اسی کی طرف متوجہ رہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی ان کے لیے کافی ہے ۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ﴾ [الطلاق: 3]
”اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہو گا ۔“
اور توکل ظاہری اسباب کو اختیار کرنے کے منافی نہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ﴾ [هود: 123]
”پس آپ اس کی عبادت کریں اور اسی پر بھروسہ رکھو ۔“
اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد پاک ہے:
﴿وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴾ [المائدة: 11]
”اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور مؤمنوں کو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئیے ۔“
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آیات مذکورہ میں عبادت و تقویٰ کا حکم دیا ہے جو اختیار اسباب کا حصہ ہے اور مکروہات سے بچنے کا ذریعہ بھی ہے ۔
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ:
لو أنكم تتوكلون على الله حق توكله لرزقكم كما يرزق الطير ، تغدو خماصا و تروح بطانا [مسند احمد 30/1 ح 205]
استاذ احمد شاکر نے حدیث کو صحیح کہا ہے ، ۔ [وسنن الترمذي ، كتاب الزهد باب التوكل على الله 2344]
”اگر تم لوگ اللہ تعالیٰ پر اس کے شایانِ شان بھروسہ کرتے تو وہ تمہیں بھی ویسے ہی رزق فراہم کرنا جیسے پرندوں کو رزق فراہم کرتا ہے پرندے اپنے آشیانوں سے صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں ۔“
یعنی پرندے اسباب اختیار کرتے ہیں اور طلب معاش کے لیے ادھر سے ادھر آتے جاتے ہیں ۔ درحقیقت متوکل علی اللہ (یعنی اللہ پر بھروسہ رکھنے والا) تو وہ مؤمن ہے جو دنیا و آخرت میں اسباب سعادت و نجات اختیار کرتا ہے ، اور رزق تلاش کرتا ہے ، پھر اس کے لیے پیشہ اختیار کرتا ہے اس اعتراف و اقرار کے ساتھ کہ اس کا پاک پروردگار ہی دراصل مسبب الاسباب ہے ، اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو تو نہ درخت پھل اور ہو اور نہ تاجر فائدہ اٹھا سکے اور نہ چوپائے زندہ رہیں اور نہ ہی پیشہ و حرفت میسر ہو ۔ تو جب بندہ اسباب کو اختیار کرتے ہوئے اپنے مالک حقیقی پر مکمل بھروسہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ایسی جگہ سے رزق مہیا کرتا ہے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ کچھ لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ پر بھروسہ رکھنے والے ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں حرفت و پیشہ اختیار کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ تم لوگ دوسروں کا مال ہڑپ کرنے والے ہو ۔ اس لیے بندے کو چاہیے کہ وہ اپنے توکل و اعتماد کو بے کاری کا بہانہ نہ بنائے اور نہ اپنی عاجزی و بے بسی کو توکل کا نام دے ۔
——————

اس تحریر کو اب تک 39 بار پڑھا جا چکا ہے۔