وصیت کا ضابطہ

 

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ

فَالثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ
”وصیت ایک تہائی تک جائز ہے اور ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔ “ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا: 2742]
فوائد :
بلامعاوضہ کوئی چیز دوسرے کے حوالے کرنے کی دو اقسام ہیں۔ اگر بلامعاوضہ انتقال ملکیت بحالت صحت ہو اور اپنی زندگی میں کوئی چیز دوسرے کے حوالے کر دی جائے تو اسے ہدیہ یا ہبہ کہا جاتا ہے۔ اگر بلامعاوضہ انتقال ملکیت بحالت مرض ہو اور مرنے کے بعد وہ چیز کسی دوسرے کو ملے تو اسے وصیت کہا جاتا ہے۔ وصیت کے کچھ شرعی اصول و ضوابط ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے :
پہلا اصول یہ ہے کہ وصیت، ایک تہائی جائیداد سے زیادہ نہ ہو جیسا کہ حدیث میں ہے کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمام مال وصیت کرنے کی اجازت طلب کی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”وصیت ایک تہائی تک جائز ہے اور ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا: 2744]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اگر لوگ وصیت کو ایک تہائی سے کم کر کے ایک چوتھائی تک کر لیں تو مجھے زیادہ پسند ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ایک تہائی کی وصیت کرو لیکن تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔ “ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا: 2743]
دوسرا اصول یہ ہے کہ وصیت ایسے وارث کے لئے نہ ہو جسے اس کی جائیداد سے حصہ ملنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر فرمایاتھا :
”اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے لہٰذا اب کسی وارث کے لئے وصیت جائز نہیں ہے۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا: 2712]
تیسرا اصول یہ ہے کہ کسی حرام کام کی وصیت نہ کی جائے اور نہ کسی کو نقصان پہنچانے کی نیت سے وصیت کی جائے کیونکہ قرآن کریم میں وصیت اور قرض کی ادئیگی کے ساتھ ”غیر مضار“ کے الفاظ ہیں کہ اس کے ذریعے دوسروں کو نقصان نہ پہنچایا گیا ہو۔ [النساء : 12]

اس تحریر کو اب تک 8 بار پڑھا جا چکا ہے۔