قبروں پر جانور ذبح کرنا

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی

سوال : کیا قبروں پر جانور ذبح کرنا یا نذر و نیاز چڑھانا جائز ہے ؟
جواب : نذر و نیاز اور تقرب کی غرض سے جانور ذبح کرنا عبادت ہے اور اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت جائز نہیں۔
✿ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ * لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ [6-الأنعام:162، 163]
’’ کہہ دیجئے ! بلاشبہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اس بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے بات ماننے والا ہوں۔“

✿ ایک اور مقام پر فرمایا :
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ [108-الکوثر:2]
’’ اپنے رب کی خاطر نماز پڑھ اور قربانی کر۔“

✿ ایک اور جگہ فرمایا :
لَنْ يَنَالَ اللَّـهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَـكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ [22-الحج:37]
’’ اللہ تعالیٰ کو ان جانوروں کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا لیکن اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔“

↰ ان واضح آیات سے پتا چلا کہ ہر قسم کی عبادت، قربانی، جانوروں کے ذبیحے اور تقویٰ اللہ کے لیے ہونا چاہیے، اس میں کسی کو شریک اور حصہ دار نہیں بنانا چاہیے۔ جو شخص کسی اور ہستی کے لیے جانور ذبح کرتا ہے اس پر نبی آخر الزمان صادق و مصدوق محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔

❀ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے صحیفے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے :
لعن الله من ذبح لغير الله، ولعن الله من سرق منار الأرض ولعن الله من لعن والديه، ولعن الله من آوى محدثا .
’’ اللہ کی لعنت ہو اس آدمی پر جس نے غیر اللہ کے لیے ذبح کیا اور اس پر بھی لعنت ہو جس نے زمین کی حدود و علامات کو چرایا اور اس پر بھی اللہ کی لعنت ہو جس نے اپنے والدین پر لعنت کی اور اس پر بھی اللہ کی لعنت ہو جس نے کسی بدعتی کو جگہ دی۔“ [مسند احمد 954، نسائي، كتاب الضحايا : باب من ذبح لغيرالله عزوجل 4427]
↰ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔ [مسند احمد 2913]

❀ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا عقر فى الاسلام .
’’ اسلام میں قبروں کے نزدیک ذبیحہ نہیں ہے۔“ [مسنداحمد 3/ 197، بيهقي 57/3، عبدالرزاق 269، شرح السنة 461/5 جمع الجوامع 272/8]

◈ امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے عقر کی تشریح میں فرمایا ہے :
كانوا يعقرون عندالقبر بقرة او شاة .
’’ مشرکین قبروں کے پاس گائے یا بکری ذبح کیا کرتے تھے۔“

◈ امام خطابی رحمہ اللہ نے ابوداؤد کی شرح میں فرمایا ہے :
’’ اہل جاہلیت سخی آدمی کی قبر پر اونٹ ذبح کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اس کی سخاوت کا بدلا دے رہے ہیں، اس لیے کہ وہ اپنی زندگی میں اونٹ ذبح کر کے مہمانوں کو کھلاتا تھا، ہم اس کی قبر کے پاس ذبح کر رہے تاکہ درندے اور پرندے کھائیں اور جس طرح اس کی زندگی میں لنگر جاری رہتا تھا مرنے کے بعد بھی جاری ہے۔“ [معالم السنن : 1/ 734]

↰ مذکورہ بالا حدیث اور شرح سے معلوم ہو ا کہ قبروں کے پاس جانور ذبح کرنا زمانہ جاہلیت میں مشرکوں کا کام تھا جو قبروں پر لنگر جاری رکھتے تھے۔ اسلام نے آ کر اس کو ختم کیا اور یہ درس دیا کہ قبروں کے پاس جانور ذبح کرنا اسلام میں جائز نہیں۔ جو لوگ قبروں پر جا کر نذر و نیاز چڑھاتے اور جانوو ذبح کرتے ہیں وہ اہل قبور کو مشکل کشا اور حاجت روا جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر یہاں نذرانہ دیا گیا تو ہماری حاجات پوری ہوں گی اور صاحب قبر راضی ہو گا۔ حالانکہ اصحابہ القبور نہ ہماری پکار سنتے ہیں اور نہ مشکلات حل کرنے پر قادر ہیں۔

✿ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرٍ * إِنْ تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ [35-فاطر:13، 14]
’’ اور وہ ہستیاں جنہیں تم اس کے علاوہ پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں، اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار کو نہیں سنتے اور اگر (بالفرض) سن بھی لیں تو تمہیں جواب نہیں دے سکتے اور قیامت کے دن تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے اور خبر دینے والے کی طرح تمہیں نہیں خبر دیں گے۔“
↰ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا ہے کہ جن ہستیوں کو اللہ کے سوا پکارا جاتا ہے وہ کسی بھی چیز کے مالک نہیں۔ مالک و مختار تو صرف حق تعالیٰ کی ذات بابرکات ہے۔ اس لیے اسے ہی پکارنا چاہیے اور نذریں اور نیازیں جو اکثر عوام قبروں اور آستانوں پر مانتے ہیں، حرام قرار دی گئی ہیں۔

◈ علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ اکثر لوگ جو نذر مانتے ہیں اور مشاہدے میں ہے کہ وہ کسی غائب انسان کے لیے ہوتی ہے یا مریض کے لیے یا کسی دوسری ضروری حاجت کے لیے۔ بعض لوگ نیک لوگوں کی قبروں پر آ کر اس کا غلاف سر پر رکھ کر کہتے ہیں اے میرے فلاں آقا ! اگر میرا غائب ہونے والا ساتھی واپس کر دیا گیا یا میرا مریض شفا یاب ہو گیا یا میری حاجت پوری کر دی گئی تو تیرے لیے اتنا سونا یا اتنی چاندی یا اتنا غلہ یا اس طرح کی پانی کی سبیل یا شمع جلاؤں گا یا اتنا تیل ڈالوں گا۔ یہ نذر بالاجماع باطل و حرام ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں :
➊ نہ نذر مخلوق کی ہے اور مخلوق کے لیے نذر ماننا جائز نہیں۔ اس لیے کہ یہ عبادت ہے اور عبادت مخلوق کے لیے نہیں ہوتی۔
➋ جس کے لیے نذر مانی جا رہی ہے وہ مردہ ہے اور مردہ کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا۔
➌ اگر نذر ماننے والے نے یہ یقین کیا کہ میت اللہ کے سوا متصرف الامور ہے تو اس کا یہ عقیدہ رکھنا کفر ہے۔“ [البحرالرائق 2/ 298]

↰ یہی بات فتاویٰ شامی [2/ 128] اور فتاویٰ عالمگیری [1/ 216] میں بھی موجو د ہے

◈ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اجمع العلماء لو ان مسلما ذبح ذبيحة وقصد بذبحها التقرب الي غير الله صار مرتدا و ذبيحته ذبيحة مرتد
’’ علمائے کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کوئی ذبیحہ غیر اللہ کے تقرب کے لیے کیا تو وہ مرتد ہو جائے گا اور اس کا ذبیحہ مرتد کا ذبیحہ ہو گا۔“ [فتاويٰ عزيزي اردو ص / 538]

↰ فقہ حنفی کے حوالہ جات سے بھی معلوم ہوا کہ اہل قبور کے لیے نذر و نیاز بالاجماع حرام و باطل ہے اور ان کے متعلق تصرف کا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔ کئی لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو بزرگوں کے نام کی نذر دیتے ہیں۔ ان کے مزارات اور آستانوں پر حاضر ہو کر اللہ کے نام کا جانور ذبح کرتے ہیں تو یاد رہے کہ ایسے مقامات جہاں غیر اللہ کی عبادت ہوتی ہے جیسے قبروں پر سجدے کرنا، اہل قبور کو مشکلات میں ندا دینا اور پکارنا وغیرہ، وہاں اللہ کے نام کا ذبیحہ اور نذر ماننا بھی جائز نہیں۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جسے ثابت بن الضحاک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے :
❀ حدیث نذر رجل على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ان ينحر إبلا ببوانة، ‏‏‏‏‏‏فاتى النبى صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ إني نذرت ان انحر إبلا ببوانة، ‏‏‏‏‏‏فقال النبى صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ هل كان فيها وثن من اوثان الجاهلية يعبد؟، ‏‏‏‏‏‏قالوا:‏‏‏‏ لا، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ هل كان فيها عيد من اعيادهم؟، ‏‏‏‏‏‏قالوا:‏‏‏‏ لا، ‏‏‏‏‏‏قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ اوف بنذرك، ‏‏‏‏‏‏فإنه لا وفاء لنذر فى معصية الله، ‏‏‏‏‏‏ولا فيما لا يملك ابن آدم
’’ ایک آدمی نے نذر مانی کہ وہ بوانہ مقام پر اونٹ نحر کرے گا تو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تو نہیں جس کی عبادت کی جاتی ہو ؟“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: ’’ نہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اپنی نذر پوری کر لے اور یاد رکھو اللہ کی نافرمانی میں نذر کو پورا نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کو پورا کیا جائے گا جس کا ابن آدم مالک نہیں۔“ [ ابوداؤد، كتاب الايمان و النذور : باب ما يومرمن وفاء النذر 3313، بيهقي 10 / 82]
↰ اس حدیث کی شرح میں :
◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جس مقام پر مشرکین کا میلا لگتا ہو یا اس مقام پر ان کا کوئی بت وغیرہ نصب ہو اگرچہ اس مقام پر اب نہ میلے کا اہتمام ہوتا ہو اور نہ بت نصب ہو، ہمیں اس مقام پر اللہ تعالیٰ کے لیے کسی جانور کو ذبح کرنا ممنوع ہے۔ کیونکہ مشرکین کا کسی جگہ میلا لگانایا کسی مقام پر ان کا غیر اللہ کی عبادت کرنا خالص اللہ کے لیے ذبح کرنا اور نذر پوری کرنے کے لیے مانع اور رکاوٹ ہے۔“ [هداية المستفيد 1/ 400]

↰ اس بحث سے یہ نتیجہ نکلا کہ ایسے مقامات جہاں اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت ہوتی ہے، عرس میلے لگتے ہوں، وہاں اللہ کے نام کی نذر و نیاز اور چڑھاوے چڑھانا اور بکرے چھترے ذبح کرنا حرام ہیں، اس سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔

 

اس تحریر کو اب تک 42 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply