نجومیوں کے پاس جانے کا حکم

تحریر: علامہ عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین حفظ اللہ

نجومیوں کے پاس جانے کا حکم
سوال: نجومیوں اور ٹونہ ٹوٹکہ کرنے والوں کے پاس جانے کا کیا حکم ہے؟
جواب: یہ جائز نہیں ،
اس لیے کہ اس سلسلہ میں واضح طور پر منع کیا گیا ہے ، بلکہ شدید وعید (دھمکی) آئی ہے ۔ صحیح مسلم میں نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أتى عرافا فسأله عن شيء لم تقبل له صلاة اربعين يوما [صحيح مسلم كتاب السلام ، باب تحريم الكهانة واتيان الكهان ، ح 2220]
”جو شخص کسی کاہن و نجومی کے پاس جاکر کسی چیز کے متعلق صرف دریافت کرے تو (بطور سزا) اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں ہوگی ۔“
ذرا غور کیجئے سوال کرنے والے کی اگر یہ سزا ہے تو عراف (کاہن و نجومی) کا اپنا انجام کیا ہوگا؟
اور امام احمد اور دیگر ائمہ محدثین رحمہ اللہ عنہم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أتى عرافا او كاهنا ، فصدقه بما يقول ، فقد كفر بما أنزل على محمد صلى الله عليه وسلم [مسند احمد 408/2 ح 9279]
احمد شاکر نے صحیح کہا ہے ۔ اور تمام سنن میں بہی یہ حدیث موجود ہے ، تفصیل مزید کے لیے ملاحظہ ہو ارواء الغليل للالباني [68/7 ، 2006]
”جو شخص کسی کاہن یا نجومی کے پاس جائے اور اس کی بتائی ہوئی باتوں کو دل سے مان لے تو بلاشبہ اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ قرآن حکیم کے ساتھ کفر کر دیا ۔“
دیگر متعدد احادیث میں یہی وعید بیان ہوئی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کا ہن علم غیب کا دعوی کرتا ہے ، حالانکہ یہ علم صرف اللہ کے پاس ہے اس کے سوا کوئی اور نہیں جانتا ۔ اور کاہن کے لیے ضرروی ہے کہ وہ شیاطین اور سرکش جنوں سے رابطہ رکھے ، پھر وہ اللہ کو چھوڑ کر انہیں (جن و شیاطین کو) پکارے ۔ اس طرح شیاطین اور جن اس کی خدمت میں لگ جاتے ہیں اور اسے چوری کا سامان گم شدہ چیز کی جگہ جادو کی جگہ اور دوسری باتیں بتا دیتے ہیں ۔
شیطانوں اور جنوں سے رابطہ بنانے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کا ہن ان کے نام پر جانور ذبح کرتا ہے ، یا ان کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے یا پھر وہ کسی دوسرے نا جائز فعل کا ارتکا ب کرتا ہے ، یا وہ ایسی غلیظ و نا پاک چیز کھاتا ہے یا اس سے ملتے جلتے دوسرے کام کرتا ہے جن کو شیاطین پسند کرتے ہیں ۔ یہ کام یا تو از خود کفر ہوتے ہیں یا شرک کا ذریعہ ہوتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کاہنوں اور نجومیوں کی اکثر و بیشتر باتیں جھوٹ پر مشتمل ہوتی ہیں ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ شیاطین جن باتوں کو آسمان سے چوری چھپے سن لیتے ہیں وہ ان تک پہنچاتے ہیں پھر یہ کاہن و نجومی ایک صحیح بات میں سو جھوٹ ملا کر بتاتے ہیں ۔
اور جہاں تک شعبدہ بازی کا تعلق ہے تو یہ جادو گروں کا وہ عمل ہے جس کے ذریعے یہ لوگ عوام الناس کے سامنے جعل سازی کرتے ہیں اور ان کے سامنے ایسی شکل ظاہر کرتے ہیں جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ۔
اسی شعبدہ بازی میں سے ایک جادو گر کا قصہ ہے کہ اس نے ایک آدمی کاسر کاٹ کر الگ کیا ، پھر اس کو جوڑ دیا ، نتیجتاً حضرت جندب رضی اللہ عنہ نے اس جادو گر کو قتل کر دیا جس کی بنیاد فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ:
حد الساحر ضربه بالسيف [سنن الترمذى كتاب الحدود ، باب ماجاء فى حد الساحر ح 1460]
اگرچہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے لیکن دوسری حدیثوں سے اس حکم کی تائید ملتی ہے ۔
”جادو گر کی سزا تلوار سے اس کی گردن اڑا دینا ہے ۔“
تاکہ ان کے مکر و فریب ، جعل سازی اور گھڑی ہوئی چیزوں سے لوگ دھوکہ میں نہ پڑ جائیں ۔ ایسے لوگوں کو کھلا چھوڑنا بھی جائز نہیں ، اور نہ ہی ان کے قول کی تصدیق جائز ہے ، بلکہ ان جادو گروں کی سزا جمہور علماء کے نزدیک قتل ہے اور ان سے توبہ کا مطالبہ بھی نہ کیا جائے ۔
پس جو شخص بھی ان جادو گروں کے پاس گیا اور ان کے قول و فعل کی تصدیق کی تو اس نے ان کو کفر پر قائم رہنے دیا ۔ چنانچہ اس شخص کے لیے بھی سخت وعید ہے ۔ واللہ اعلم !

اس تحریر کو اب تک 7 بار پڑھا جا چکا ہے۔