اگر روزے دار کو کھانے کے لیے بلایا جائے

عبید اللہ طاہر حفظ اللہ

اگر روزے دار کو کھانے کے لیے بلایا جائے
❀ «عن أبى هريرة رضي الله عنه، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إذا دعي أحدكم إلى طعام، وهو صائم، فليقل: إني صام.»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو کھانے کے لیے بلایا جائے اور وہ روزے سے ہو، تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔“ [صحيح مسلم 1150]

❀ «عن أبى هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إذا دعي أحدكم، فليجب، فإن كان صائما، فليصل، وإن كان مفطرا، فليطعم. »
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو (کھانے کے لیے) بلایا جائے تو وہ جواب دے (یعنی جائے)، اگر وہ روزے سے ہو تو دعا کرے، اور اگر روزے سے نہ ہو تو کھا لے۔“ [صحيح مسلم 1431]

❀ «عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من دعي إلى طعام وهو صائم، فلجب، فإن شاء طعم، وإن شاء ترك»
حضرت جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو کھانے کے لیے بلایا جائے اور وہ روزے سے ہو تو جواب دے، اگر چاہے تو کھا لے، اور اگر چاہے تو چھوڑ دے“۔ [سنن ابن ماجه 1751]
نوٹ: امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ روزے دار کے لیے کھانا واجب نہیں ہے۔ اگر اس کا روزہ فرض روزہ ہے تو اس کے لیے کھانا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ فرض کو ترک کرنا جائز نہیں۔ اور اگر نفل روزہ ہے اور روزہ توڑنا جائز ہے۔ اگر کھانے والے پر روزے دار کا روزے پر قائم رہنا (اور کھانے میں شریک نہ ہونا) شاق گزر رہا ہو تو روزہ توڑ دینا افضل ہے، اور اگر ایسا نہ ہو تو روزہ مکمل کرنا افضل ہے۔ «والله اعلم » [شرح صحيح مسلم 235/9]

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔