مشرک امام کے پیچھے نماز

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

مرد کی عورتوں کے لیے امامت
——————
سوال : کیا مرد عورتوں کو جماعت کروا سکتا ہے، اگر کروا سکتا ہے تو کس صورت میں یعنی امام کے پیچھے عورتوں کی صف ہو گی یا امام کے پیچھے مردوں کی صف ہونا ضروری ہے، پھر اس کے بعد عورتوں کی صف ہو گی ؟
جواب : مرد عورتوں کی امامت کروا سکتا ہے۔ عورتیں مرد کے پیچھے صف باندھیں گی، ساتھ شریک نہیں ہوں گی۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
”میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں نماز پڑھی اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہمارے پیچھے نماز ادا کی۔ “ [نسائي، كتاب الامامة : باب موقف الامام إذا كان معه صبي وأمرأة 805]
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور ان کی ماں یا خالہ کو نماز پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کیا اور عورت کو ہمارے پیچھے کھڑا کر دیا۔ “ [مسلم، كتاب المساجد : باب جواز الجماعة فى النافلة 660، أبوداؤد كتاب الصلوٰة : باب الرجلين يؤم أحدهما صاحب كيف يقرمان 609]
قاضی شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”یہ دونوں حدیثیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جب امام کے ساتھ ایک آدمی اور ایک عورت ہو تو آدمی دائیں جانب اور عورت ان دونوں کے پیچھے کھڑی ہو گی۔ وہ مردوں کے ساتھ صف میں شامل نہیں ہو گی اور اس کا سبب فتنے سے ڈرنا ہے۔ “ [نيل الاوطار 204/3]
مذکورہ بالا احادیث سے یہ بات تو واضح ہوتی ہے کہ امام کے ساتھ کوئی مرد ہو تو عورتیں پیچھے کھڑی ہو کر نماز پڑھ سکتی ہیں۔ اب رہا صرف مرد امام ہو اور خواتین مقتدی تو کیا اس طرح نماز جائز و درست ہے۔
نواب صدیق حسن خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
”عورتوں کا مرد کے پیچھے دیگر مردوں کی موجودگی میں نماز پڑھنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اختلاف اس بات میں ہے کہ صرف مرد عورتوں کو نماز پڑھائے، جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح صحیح نہیں تو دلیل پیش کرنا اس کے ذمہ ہے۔ “ [الروضة النديه 119/1]
جابر رضی اللہ عنہ کا اپنے گھر میں عورتوں کی امامت کروانا پھر اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سکوت اختیار کرنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ مرد کی اقتداء میں عورتوں کی نماز درست ہے جیسا کہ [مسند ابي يعلي : 1795، 197/2، 198]
بتحقیق مصطفیٰ عبدالقادر عطاء میں یہ حدیث ہے : علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔
اسی طرح صحیح بخاری وغیرہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے غلام ذکان کا انہیں جماعت کرانا بھی اس کا مؤید ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں : [بداية المجتهد 107/1]

عورت کا جماعت کروانا
——————

سوال : کیا عورت دیگر خواتین کی امامت کروا سکتی ہے ؟
جواب : ایک عورت دوسری عورتوں کی جماعت کروا سکتی ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ باقی عورتوں کے وسط میں کھڑی ہو، اس کی شرح میں علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
ثبت من هٰذا الحديث أن امامة النساء وجماعتهن صحيحة ثابتة من أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد امت النساء عائشة رضي الله عنها وأم سلمة رضي الله عنها فى الفرض والتراويح [عون المعبود 211/2]
”اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کا امامت اور جماعت کروانا صحیح ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ثابت ہے۔ سیدہ عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما عورتوں کی فرض اور تراویح میں امامت کرواتی تھیں۔ “
ایک اور روایت میں مذکور ہے :
عن عائشة رضي الله عنها انها كانت امت النساء فتقوم منهن فى الصف [ابن أبى شيبة 89/2، حاكم 203/1]
”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں کی امامت کرواتی تھیں اور ان کے ساتھ ہی صف میں کھڑی ہوتی تھیں۔ “
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں یہ الفاظ ہیں:
انها امت النساء فقامت وسطهن [ابن أبى شيبة 88/2]
”انھوں نے عورتوں کی امامت کروائی اور ان کے وسط میں کھڑی ہوئیں“۔
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت عورتوں کے درمیان میں کھڑے ہو کر امامت کروا سکتی ہے۔
نیز میرے ناقص علم کے مطابق سلف سے کہیں بھی اس بات کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی عورت نے جمعہ یا عیدین کی نماز پڑھائی ہو۔ لہذٰا ان کے بارے میں سوچنا یا گنجائش نکالنا درست نہیں۔
——————

مسافر کی مقیم کے پیچھے نماز
سوال :کیا مسافر شخص مقیم امام کے پیچھے نماز قصر کر سکتا ہے یا وہ پوری ادا کرے؟
جواب: مسافر پر واجب ہے کہ مقیم امام کے پیچھے پوری نماز پڑھے خواہ وہ مقیم امام کے ساتھ ابتدا میں داخل ہو یا درمیان میں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
انما جعل الإمام ليؤتم به [بخاري، كتاب الصلاة : باب الصلاة فى السطوح والمنبر والخشب 378]
”امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ “
دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
فما ادركتم فصلو وما فاتكم فاتموا [بخاري، كتاب الأذان: باب قول الرجل فاتتنا الصلوة635 ]
” جو نماز تم امام کے ساتھ پا لو وہ پڑھو اور جو تم سے رہ گئی تھی اس کو پورا کر لو۔“
یہ دونوں احادیث مسافر اور مقیم دونوں کے لیے عام ہیں۔ جس طرح مقیم امام کی اقتدا کرتا ہے اسی طرح مسافر بھی امام کی اقتدا کرے گا۔ اسی طرح جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے ہوئے جو رکعات فوت ہو گئی تھیں ان کو پورا کیا جائے گا۔ مقتدی مسافر ہو یا مقیم کیونکہ یہ حکم عام ہے اور سب کے لیے ہے۔
موسیٰ بن سلمہ کہتے ہیں:
كنا مع ابن عباس رضي الله عنهما بمكة فقلت انا إذا كنا معكم صلينا اربعا و اذا رجعنا إلى رحالنا صلينا ركعتين ؟ قال تلك سنة أبى القاسم صلى الله عليه و سلم [مسند احمد 216/1، برقم /1865 ]
” ہم مکہ میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھے، میں نے پوچھا :جب ہم تمھارے ساتھ ہوتے ہیں تو چار رکعت نماز ادا کرتے ہیں اور جب اپنی قیام گاہ کی طرف لوٹتے ہیں تو دو رکعت ادا کرتے ہیں( ایسا کیوں ہے)؟ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ ابوالقاسم صلى الله عليه وسلم کی سنت ہے۔ “
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ مسافر جب اکیلا ہو تو دو رکعت پڑھتا ہے اور جب مقیم کے پیچھے نماز ادا کرے تو پوری پڑھتا ہے، یہ کیوں ہے؟‘ انھوں نے کہا : تلك السنة یہی سنت ہے۔“ [ إرواء الغليل 571 ]
یہ حدیث اس مسئلے میں صریح نص ہے کہ مسافر کے لیے مقیم امام کے پیچھے پوری نماز پڑھنا ہی واجب ہے کیونکہ ایک صحابی رسول کا من السنة يا تلك السنة کہنا مرفوع حدیث کے حکم میں ہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
”رسول اللہ نے منیٰ میں دو رکعت نماز ادا کی، آپ کے بعد ابوبکر اور عمر
رضی اللہ عنہما اس پر عمل کرتے رہے۔ اس حدیث کے آخر میں ہے:
فكان ابن عمر رضى الله عنهما إذا صلى مع الإمام صليٰ اربعا و إذا صلاها وحده صليٰ ركعتين [ مسلم، كتاب صلاة المسافرين و قصرها: باب قصر الصلاة بمني 694 ]
حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما جب امام کے ساتھ نماز پڑھتے تو چار رکعت پڑھتے تھے اور جب اکیلے ہوتے تو دو رکعت پڑھتے۔
یہ تھا ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سنت پر عمل اور یہی عمل کرنے کا وہ دوسروں کو حکم دیتے تھے۔
ابو مجلز کہتے ہیں:
قلت لابن عمر : المسافر يدرك ركعتين من صلاة القوم يعني المقيمين اتجزيه الركعتان أو يصلى بصلاتهم؟ قال فضحك وقال يصلى بصلاتهم [بيهقي 158/3 ]
میں نے عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا:” مسافر مقیم امام کے ساتھ دو رکعت پا لیتا ہے، کیا اسے دو رکعت کفایت کر جائیں گی یا جتنی مقیم لوگوں نے نماز ادا کی ہے اتنی وہ بھی ادا کرے؟‘‘ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما یہ بات سن کر ہنس پڑے اور کہا: جتنی نماز مقیم لوگوں نے پڑھی ہے اتنی ہی مسافر بھی پڑھے گا۔“
اس روایت کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ [ارواء الغليل 22/3| ]
یہ ایک صحابی رسول کا عمل اور فتوی بھی ہے کہ مسافر مقیم امام کے پیچھے پوری نماز ادا کرے گا، خواہ وہ شروع میں امام کے ساتھ مل ہو یا آخری دو رکعتوں میں۔ اس کے برعکس اگر مقیم آدمی مسافر امام کے پیچھے نماز ادا کرتا ہے تو اسے پوری نماز پڑھنا ضروری ہے۔ کیونکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال نماز پڑھائی اور مقیم لوگوں سے کہا :” تم اپنی نماز پوری کر لو، ہم مسافر ہیں۔“

——————

مسافر کی مقیم کے لیے امامت
سوال : کیا مسافر آدمی مقیم افراد کی جماعت کروا سکتا ہے؟ وضاحت فرمائیں۔
جواب : اگر کوئی شخص کسی قوم کے ہاں مہمان بنے تو وہ ان کی اجازت کے بغیر امامت نہ کرائے۔ اگر وہ اجازت دے دیں تو انہیں نماز پڑھا سکتا ہے اور جب مسافر مقیم کی امامت کرائے اور دو رکعت پر سلام پھیر دے تو مقیم اٹھ کر اپنی بقیہ دو رکعتیں
پوری کرے۔ اس سے مقیم کی نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ اس کے دلائل درج ذیل ہیں :
ابوعطیہ سے روایت ہے کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ہمارے پاس نماز کی جگہ آئے، ایک دن نماز کا وقت آ گیا، ہم نے انہیں
کہا کہ تم آگے بڑھو تو انہوں نے کہا: تم میں سے کوئی شخص آگے بڑھے حتیٰ کہ میں تمہیں بیان کروں کہ میں آگے کیوں نہیں بڑھتا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے :
مَنْ زَارَ قَوْمًا فَلَا يَؤُمَّهُمْ وَلْيَؤُمَّهُمْ رَجُلٌ مِّنْهُمْ [ ترمذي، أبواب الصلاة : باب ما جاء فيمن زار قوم لا يصلي بهم 356، ابن خزيمة 1520، بيهقي 126/3، نسائي 786، أبوداؤد 596، أحمد 436/3]
”جو آدمی کسی قوم کی زیارت کے لیے جائے تو وہ ان کی امامت نہ کروائے بلکہ ان میں سے کوئی آدمی ان کی امامت کرائے۔ “
اس کی سند میں ابوعطیہ ہے جس کے بارے میں امام ابوحاتم، امام علی بن مدینی اور یحٰیی القطان نے کہا ہے کہ یہ مجہول ہے لیکن امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کی حدیث کی تحسین اور امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ نیز اس حدیث کے بعض شواہد بھی ہیں۔
نافع سے روایت ہے کہ مدینہ منورہ کی ایک جانب مسجد میں نماز کے لیے اقامت کہی گئی اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی اس مسجد کے قریب زمین تھی جس میں وہ کام کر رہے تھے اور اس مسجد کا امام ان کا غلام تھا۔ اس غلام اور اس کے ساتھیوں کا مسکن بھی وہیں ہی تھا۔ جب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے انہیں سنا تو ان کے ساتھ نماز ادا کرنے کے لئے تشریف لائے تو مسجد کے امام نے انہیں کہا کہ آگے بڑھیں اور نماز پڑھائیں تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا :
أَنْتَ أَحَقُّ أَنْ تُصَلِّيَ فِيْ مَسْجِدِكَ مِنِّيْ فَصَلَّي الْمَوْلٰي [كتاب الأم 158/1، بيهقي 126/3، كتاب الصلاة : باب الإمام الراتب أولي من الزائر]
”تم اپنی مسجد میں نماز پڑھانے کے مجھ سے زیادہ حق دار ہو“ پس پھر غلام نے نماز پڑھا دی۔ “
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ مقرر امام امامت کا زیادہ حق رکھتا ہے اور دوسرے شخص کو اس کے ہوتے ہوئے نماز نہیں پڑھانی چاہیے، ہاں اگر مقرر امام کسی دوسرے شخص کو اجازت دے دے تو وہ نماز پڑھا سکتا ہے جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
و لا يحل لرجل يؤمن بالله و اليوم الآخر أن يؤم قوما إلا باذنهم [ابو داؤد، كتاب الطهارة : باب يصلي الرجل و هو حاقن91، بيهقي 129/3]
”کسی شخص کے لیے حلال نہیں جو اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو کہ وہ کسی قوم کی امامت کروائے مگر ان کی اجازت کے ساتھ۔ “
ایک حدیث میں ہے :
و لا يؤم الرجل فى سلطانه و لا يجلس على تكرمته فى بيته إلا باذنه [ترمذي، ابواب الصلاة: باب ما جاء من أحق بالإمامة 235، أحمد 272/5، نسائي 779، أبوداؤد582، 583، 584، ابن ماجه 980، أبوعوانة 36/2، حميدي 457، عبدالرزاق 3809، حاكم 243/1، شرح السنة 394/3]
”کوئی آدمی دوسرے آدمی کی حکومت میں امامت نہ کرائے اور نہ اس کے گھر میں اس کی عزت کی جگہ (مسند وغیرہ پر) بیٹھے مگر صرف اس کی اجازت کے ساتھ۔ “
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اگر مقرر امام کسی آنے والے شخص کو امامت کی اجازت دے دے تو وہ شخص نماز پڑھا سکتا ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے اور اہلِ علم کا اس پر عمل ہے۔
مزید لکھتے ہیں :
”امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا :
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول کہ کوئی آدمی کسی آدمی کی حکو مت وسلطہ والی جگہ امامت نہ کرائے اور نہ اس کی عزت والی جگہ بیٹھے مگر اس کی اجازت سے، یہ اجازت امامت اور عزت والی جگہ دونوں کے متعلق ہے اور جب اسے نماز پڑھانے کی اجازت دے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ “ [ترمذي، ابواب الصلاة 1/ 461، بتحقيق احمد شاكر]
علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ نے جو بات استنباط کی ہے یہ اس حدیث کی بعض روایات میں بطورِ نص واقع ہوئی ہے جیسا کہ نیل الاوطار میں ہے :
وَلَا يَؤُمُّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِيْ سُلْطَانِهِ وَلَا يَقْعُدُ عَلٰي تَكْرِمَتِهِ فِيْ بَيْتِهِ اِلَّا بِاِذْنِهِ [ نيل الاوطار 192/3]
”کوئی شخص دوسرے شخص کی سلطنت میں اس کی امامت نہ کرائے مگر اس کی اجازت کے ساتھ اور نہ اس کے گھر میں اس کی مسند پر بیٹھے مگر اس کی اجازت کے ساتھ۔ “
پس اجازت ان دونوں صورت میں ہے یعنی صاحبِ بیت کی اجازت سے اس کی مسند پر بھی بیٹھ سکتا ہے اور آدمی کی حکو مت والی جگہ اس کی اجازت سے امامت بھی کرا سکتا ہے۔
مذکورہ توضیح سے معلوم ہوا کہ مسافر اور زائر آدمی مقیم کی اجازت سے نماز پڑھا سکتا ہے، اس میں شرعی طور پر رخصت ہے، اگرچہ زیادہ حق مقرر امام کا ہے اور جب مسافر مقیم امام کی اجازت سے نماز پڑھائے اور وہ قصر کرنا چاہتا ہو تو مقیم کھڑے ہو کر اپنی نماز پوری کر لیں۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ إِذَا قَدِمَ مَكَّةَ صَلّٰي بِهِمْ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ يَقُوْلُ يَا أَهْلَ مَكَّةَ ! اَتِمُّوْا صَلَاتَكُمْ فَاِنَّا قَوْمٌ سَفْرٌ [ مؤطا، كتاب قصر الصلاة فى السفر : باب صلاة المسافر إذا كان إمامأو كان وراء الامام 19، بيهقي 126/3، نصب الراية 187/2]
”بے شک عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جب مکہ تشریف لاتے تو انہیں دو رکعت پڑھاتے پھر کہتے : ”اے مکہ والو ! اپنی نماز پوری کر لو، بلاشبہ ہم مسافر قوم ہیں۔ “
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر غزوہ کیا اور فتح مکہ کے موقع پر میں آپ کے ساتھ حاضر تھا، آپ مکہ میں 18 راتیں مقیم رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف دو رکعت نماز پڑھتے اور فرماتے :
”اے شہر والو ! تم چار رکعات پڑھو، بے شک ہم مسافر قوم ہیں۔“ [ أبوداؤد، كتاب الصلاة : باب متي يتم المسافر 1229، بيهقي 157/3، دلائل النبوة 105/5] اس کی سند میں على بن زید بن جدعان راوی کمزور ہے۔
صفوان سے روایت ہے : ”عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے آئے تو انہوں نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی پھر سلام پھیر دیا۔ ہم کھڑے ہو گئے اور ہم نے اپنی نماز مکمل کی“۔ [مؤطا، كتاب قصر الصلاة فى السفر 21]
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ مسافر نماز پڑھائے تو اگر وہ دو رکعت پر سلام پھیر دے تو مقیم آدمی کھڑے ہو کر اپنی بقیہ نماز پوری کر لیں۔
اس میں شرعی طور پر رخصت ہے، اس سے مقیم لوگوں کی نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ اگر کسی قسم کا خلل واقع ہوتا تو خلیفۃ المسلمین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا نہ کرتے، جو لوگ اس بات پر لڑتے جھگڑتے ہیں ان کا یہ رویہ نامناسب ہے۔ جب شریعت میں رخصت موجود ہے تو اسے شرح صدر کے ساتھ قبول کرنا چاہیے اور مسافر کی اقتدا میں مقیم کی نماز بالاتفاق صحیح ہے اور میرے علم میں کسی اہلِ علم نے اس میں اختلاف نہیں کیا۔
مزید تفصیل کے لیے فقہ حنفی کی کتاب قدوری، باب صلاۃ المسافر ص : 53، فقہ حنبلی کی کتاب المغنی 146/3، فقہ شافعی کی کتاب الأم اور فقہ مالکی کے لیے مؤطا ملاحظہ ہو۔
——————

مشرک امام کے پیچھے نماز
سوال : کیا مشرکانہ عقیدہ کے حامل امام کے پیچھے نماز ادا کرنا صحیح و جائز ہے؟
جواب : قرآن مجید اور صحیح احادیث سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر، مشکل کشا اور نفع نقصان کا مالک سمجھنا، شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کو غوثِ اعظم کہنا اور علی ہجویری کو داتا ماننا شرک ہے اور ان امور پر اعتقاد رکھنے والا بلاشبہ مشرک ہے۔ کیونکہ کسی کو نفع و نقصان سے دو چار کرنا یا کسی کی پریشانی دور کرنا، فریاد رسی کرنا اور اولاد دینا یہ تمام صفات اللہ تبارک وتعالیٰ کی ہیں، جو اس نے کسی اور کو عطا نہیں کیں، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب سید الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی فرمایا :
﴿قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ﴾ [ الأعراف : 188]
”اے نبی ! آپ کہہ دیں کہ میں اپنی جان کے لیے بھی نفع ونقصان کا مالک نہیں مگر جو اللہ چاہے۔ “
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا :
﴿قُلْ إِنَّمَا أَدْعُوْا رَبِّيْ وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا o قُلْ إِنِّيْ لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا﴾ [ الجن : 20، 21]
”کہہ دیجیے ! میں تو صرف اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔ کہہ دیجیے ! میں تمہارے لیے نقصان اور ہدایت کا مالک نہیں ہوں۔ “
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اس کے غیر میں نہیں پائی جاتیں۔ وہ اپنی ذات وصفات میں یکتا اور وحدہ لا شریک لہ ہے اور جو لوگ اللہ خالق کی صفات اس کی مخلوق میں مانتے ہیں وہ اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں اور مشرک آدمی کے
اعمال تباہ و برباد ہو جاتے ہیں، وہ اللہ کے ہاں قابلِ قبول نہیں ہوتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :
﴿وَلَوْ أَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾ [الانعام : 88]
”اور اگر یہ لوگ بھی شرک کرتے تو ان کے اعمال بھی ضائع ہو جاتے۔ “
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا :
﴿وَلَقَدْ أُوْحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِيْنَ﴾ [ الزمر : 65]
”اور تحقیق وحی کی گئی آپ کی طرف اور ان لوگوں کی طرف جو آپ سے پہلے تھے، اگر تو نے شرک کیا تو تیرے عمل ضائع ہو جائیں گے اور البتہ تو خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائے گا۔ “
ان آیات سے واضح ہو گیا کہ مشرک آدمی کے اعمال اللہ کے ہاں قابلِ قبول نہیں۔ خواہ وہ نماز ہو یا روزہ، حج ہو یا زکوٰۃ۔ غرض کسی قسم کا عمل بھی مشرک کا قبول نہیں بلکہ وہ سارے اعمال اکارت اور ضائع ہوں گے۔ تو جب امام مشرک ہو گا اور اس کا اپنا عمل اللہ کے ہاں مقبول نہیں تو اس کی اقتدا میں ادا کی جانے والی نماز کیسے قبول ہو گی ؟ امام کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحیح العقیدہ ہو۔ جس شخص کا عقیدہ صحیح نہیں وہ امامت کے لائق کیسے ہو سکتا ہے ؟

——————

اس تحریر کو اب تک 28 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply