روح کی واپسی اور مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم

 

تحریر: حافظ ابو یحیٰی نور پوری

❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
:
ما من أحد يسلم علي؛ إلا رد الله على روحي حتٰى أرد عليه السلام .
”(میری وفات کے بعد) جب بھی کوئی مسلمان مجھ پر سلام کہے گا تو اتنی دیر اللہ تعالیٰ میری روح لوٹا دے گا کہ میں اس پر جواب لوٹا دوں۔“ [سنن أبي داود : 2041]
↰ اس حدیث کی سند کو حافظ نووی [خلاصة الاحكام: 441/1؛ ح: 1440] ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ [اقتضاء الصراط المستقيم، ص: 324] ، حافظ ابن القیم [جلاء الافهام:53/1] ، حافظ ابن ملقن [تحفه المحتاج: 190/2] رحمها اللہ وغیرہ نے ”صحیح‘‘اور حافظ عراقی [تخريخ احا ديث الاحياء : 1013] حافظ ابن الهادي [الصارم المنكي: 114/1] رحمها اللہ نے ”جید“ کہا ہے، نیز حافظ سخاوی [القاصد الحسنة 587/1] اور حافظ عجلونی [كشف الخفاء :194/2] رحمها اللہ وغیرہ نے اس حدیث کو ”صحیح“ قرار دیا ہے۔

تبصرہ : مذکورہ حدیث تو واقعی کم از کم حسن ہے، لیکن یہ سند منقطع ہے، کیونکہ یزید بن عبداللہ بن قسیط راوی جو کہ کثیر الارسال ہیں، انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ڈائریکٹ یہ روایت نہیں سنی، بلکہ وہ ایک واسطے سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں، جو کہ معجم اوسط طبرانی [262/3، ح:3092] میں موجود ہے اور اس کی سند ”حسن“ ہے۔

↰ اس روایت میں امام طبرانی رحمہ اللہ کے شیخ بکر بن سہل دمیاطی جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں، کیونکہ ضیا مقدسی رحمہ اللہ [المختاره: 159] اور امام حاکم رحمہ اللہ [177/4، 643، 646] نے ان کی توثیق کی ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔

↰ نیز مستخرج ابو نعیم [583،586 وغیرہ] اور مستخرج ابی عوانہ [2524، 6903] میں بھی ان کی روایت موجود ہے جو کہ ان کے ثقہ ہونے پر واضح دلیل ہے۔

◈ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

ضعفه النسائي، ووثقة غيره.
”امام نسائی رحمہ اللہ نے تو ان کو ضعیف کہا ہے لیکن، دوسروں نے انہیں ثقہ کہا ہے۔“ [مجمع الزوائد:117/4]
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کومتوسط یعنی درمیانے درجے کا راوی کہا ہے۔ [المغني فى الضعفاء : 978]
◈ نیز فرماتے ہیں:
حمل الناس عنه، وهو مقارب الحال، قال النسائي: ضعيف.
”محدثین کرام نے ان سے روایات لی ہیں اور وہ حسن الحدیث راوی ہیں، البتہ امام نسائی رحمہ اللہ نے ان کو ضعیف کہا ہے۔“ [ ميزان الاعتدال:62/2]

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ایک سند پر حکم لگاتے ہوئے جس میں بکر بن سہل دمیاطی بھی موجود ہیں، لکھتے ہیں:
ورجاله موثوقون؛ إلا سليمان بن أبى كريمة، ففيه مقال .
”سوائے سلیمان بن ابوکریمہ کے اس کے سارے راوی ثقہ ہیں، اس میں کچھ جرح موجود ہے۔“ [الأماليي المطلقة:121/1]
حالانکہ لسان المیزان [51/2: ت: 195] میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ خود بکر بن سہل دمیاطی پر امام نسائی رحمہ اللہ کی جرح ذکر کی ہے۔

↰ معلوم ہوا کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک بھی امام نسائی رحمہ اللہ کی بکر بن سہل دمیاطی پر جرح مقبول نہیں، بلکہ جمہور کی توثیق کی وجہ سے وہ ثقہ ہی ہیں۔

اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ :
◈ محدث البانی رحمہ اللہ کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ:
ضعفه النسائي، ولم يوثقه أحد.
”اس (بکر بن سہل دمیاطی) کو امام نسائی رحمہ اللہ نے ضعیف کہا ہے، ثقہ کسی نے نہیں كہا۔“ [سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة : 562/14]

↰ رہا مسئلہ یہ کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لسان المیزان میں بکر بن سہل دمیاطی پر جو امام نسائی رحمہ اللہ اور مسلمہ بن قاسم رحمہ اللہ کی جرح نقل کی ہے، اس کا کیا معنی؟ تو عرض ہے کہ:

➊ امام نسائی رحمہ اللہ راویوں کے بارے میں بسا اوقات زیادہ احتیاط سے کام لیتے تھے، اس بارے میں :
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فكم من رجل أخرج له أبو داود والترمذي تجنب النسائي إخراج حديثه، بل تجنب النسائي إخراج أحاديث جماعة من رجال الصحيحين، و قال سعد بن على الزنجاني : إن لابي عبد الرحمٰن شرطا فى الرجال أشد من شرط البخاري ومسلم
”کتنے ہی راوی ہیں، جن کی روایات امام ابو داؤد اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے بیان کی ہیں، لیکن امام نسائی رحمہ اللہ نے ان کی احادیث بیان کرنے سے اجتناب کیا ہے بلکہ انہوں نے تو (مزید اختیاط کو مدنظر رکھتے ہوئے) صحیح بخاری و مسلم کے بہت سے راویوں کی حدیث بیان کرنے سے بھی اجتناب کیا ہے، سعد بن علی زنجانی کا کہنا ہے کہ امام ابو عبدالرحمٰن نسائی رحمہ اللہ کی راویوں کے بارے میں شرط امام بخاری و مسلم سے بھی کڑی ہے۔‘‘ [النكت على كتاب ابن الصلاح : 76/1]

➋ امام نسائی رحمہ اللہ سے یہ جرح ثابت نہیں، کیوں کہ امام موصوف سے اس بات کو بیان کرنے والے ان کے بیٹے عبدالکریم کے حالات ہمیں نہیں مل سکے، واللہ اعلم۔

باقی رہا مسلمہ بن قاسم کا بکر بن سہل دمیاطی پر یہ جرح کرنا کہ:
كلم الناس فيه. ”لوگوں نے اس پر جرح کی ہے۔“ [لسان الميزان:51/2]

تو یہ کئی وجوہ سے مردود و باطل ہے۔
① مسلمہ بن قاسم خود ناقابل اعتبار شخص تھا، لہذا اس کے قول کا کوئی اعتبار نہیں۔
② امام نسائی رحمہ اللہ (کی غیر ثابت شدہ جرح) کے سوا کسی محدث نے ان پر جرح نہیں کی۔ مسلمہ بن قاسم کے ذکر کردہ لوگ مجہول ہونے کی بنا پر لائق اعتنا نہیں۔
③ مسلمہ بن قاسم ان راویوں کے بارے میں بھی یہ الفاظ ذکر کر دیتا ہے جو خود اس کے نزدیک بھی حسن الحدیث ہوتے ہیں، لسان المیزان ہی میں موجود ہے:
وقال مسلمة بن قاسم : ليس به بأس، تكلم الناس فيه.
”مسلمہ بن قاسم نے کہا ہے کہ اس (یحیٰی بن ابو طالب) میں کوئی جرح نہیں، (حالانکہ وہ حسن الحدیث راوی ہے) لوگوں نے اس پر جرح کی ہے۔“ [لسان الميزان : 262/6]
↰ معلوم ہوا کہ بکر بن سہل دمیاطی پر تمام جروح مردود ہیں۔

تنبیہ : طبرانی اوسط کی مذکورہ سند میں حیوۃ بن شریح کے شاگرد عبداللہ بن یزید اسکندرانی ذکر کیے گئے ہیں، جن کا کتب تواریخ و رجال میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا، جبکہ باقی کتب احادیث میں یہ راوی عبداللہ بن یزید مقری ہیں، جو کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کے معروف راوی ہیں۔

معلوم یہ ہوتا ہے کہ طبرانی میں مذکور عبداللہ بن یزید اسکندرانی دراصل مقری ہیں، کیونکہ حیوۃ بن شریح کے شاگردوں میں کسی اور عبداللہ بن یزید کا پتہ نہیں چل سکا۔ پھر طبرانی اوسط میں ہی امام طبرانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی ایک دوسری سند بھی ذکر کی ہے جس میں اگرچہ یزید بن عبداللہ بن قسیط اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ابوصالح کا واسطہ موجود نہیں، لیکن امام صاحب کے استاذ کے شیخ عبداللہ بن یزید کے نام کے ساتھ ”مقری“ کا لفظ استعمال ہوا ہے، جیسا کہ سنن ابوداؤد وغیرہ میں ہے۔

ان کو اسکندرانی کہے جانے کی وجہ شاید یہ ہے کہ معجم البلدان میں اسکندریہ نامی تیرہ (۱۳) شہر ذکر کیے گئے ہیں، جو کہ اب کسی اور نام سے معروف ہیں، عین ممکن ہے کہ ان کے علاقے کو بھی اسکندریہ کہا جاتا ہو اور شاید اسی وجہ سے ہی :
◈ محدث البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قلت: و هو المقرئ، ثقة من رجال الشيخين.
”میں کہتا ہوں کہ یہ (عبداللہ بن یزید اسکندرانی) مقری ہی ہیں، جو کہ ثقہ ہیں، صحیح بخاری و صحیح مسلم کے راوی ہیں۔“ [سلسلة الأحاديث الصحيحة : 338/5، ح : 2266]

لیکن اگر اس میں عبداللہ بن یزید اسکندرانی کو مجہول قرار دیا جائے تو لامحالہ طور پر سنن ابی داؤد والی سند ’’حسن“ ہو جائے گی، کیونکہ اس کے ضعیف ہونے پر سوائے اس روایت کے اور کوئی دلیل نہیں کہ طبرانی اوسط میں یزید بن عبداللہ بن قسیط اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ابو صالح کا واسطہ موجود ہے، جبکہ سنن ابی داؤد میں موجود نہیں، اگر طبرانی اوسط والی یہ سند ضعیف قرار پاتی ہے تو سنن ابوداؤد کی سند میں موجود انقطاع کی یہ دلیل ختم ہو جائے گی اور پھر اسے منقطع قرار دینا بلا دلیل ہو گا۔

اگرچہ یزید بن عبداللہ بن قسیط ”کثیر الارسال“ ہیں لیکن صرف یہ شبہ اس سند کے ضعف کی دلیل نہیں ہو گا کہ شاید یہاں بھی انہوں نے ارسال کر کے کوئی واسطہ گرایا ہو اور ڈائریکٹ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کر دیا ہو۔
یاد رہے کہ یزید بن عبداللہ بن قسیط کا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ سے لقا و سماع ثابت ہے۔ [السنن الكبري للبيهقي :122/1، ح : 598، و سندهٔ جيد]

امام مسلم رحمہ اللہ نے اس اصول پر محدثین کرام کا اجماع نقل کیا ہے کہ ”غیر مدلس“ راوی اگر بصیغہ ”عن“ روایت کرے اور اپنے شیخ سے اس کا سماع و لقا کسی دلیل سے ثابت نہ ہو بلکہ اس کا امکان ہو تو بھی روایت اتصال پر محمول ہو گی، چہ جائے کہ کسی جگہ اس کے سماع کی صراحت بھی مل جائے، لہٰذا اگر طبرانی اوسط والی سند کو اسکندرانی کی وجہ سے ”ضعیف‘‘خیال کیا جائے تو بھی اس اجماع کے خلاف صرف شبہ انقطاع کو معتبر نہیں سمجھا جائے گا۔
إن الظن لا يغنى من الحق شيئا
پھر ہمارے علم کے مطابق ”کثیر الارسال“ راوی کی ”عن“ والی روایت کو متقدمین میں سے امام ابن سعد رحمہ اللہ [الطبقات:693/6] کے علاوہ کسی نے بھی شبه انقطاع کی وجہ سے ”ضعیف“ قرار نہیں دیا۔ اور امام موصوف کی بات کو بھی اس صورت پر محمول کیا جا سکتا ہے کہ ”کثیر الارسال“ راوی کسی ایسے صحابی سے ”عن“ کے ساتھ روایت کر رہا ہو، جس سے اس کا سماع کہیں بھی ثابت نہ ہو تو اس کی روایت ان کے نزدیک ”ضعیف“ ہوتی ہے۔

ورنہ پھر امام عطاء بن ابو رباح، امام مکحول شامی (خصوصاً حديثه فى القراءة خلف الإمام عنعن فيه ) امام ضحاک بن مزاحم، امام عبداللہ بن زید ابوقلابہ جرمی، امام ابو العالیہ، رفیع بن مہران رحمہ اللہ علیہم و غیره کی ”عن“ والی ساری روایات اس شبہ انقطاع کی نذر ہو کر ”ضعیف“ قرار پائیں گی، کیونکہ یزید بن عبداللہ بن قسیط کی طرح یہ مذکور ائمہ بھی ”کثیر الارسال“ ہیں، حالانکہ ان کی ا یسی روایات سب کے ہاں معتبر ہوتی ہیں۔

معلوم ہوا کہ یہ حدیث بہرحال حسن درجہ کی ہے۔

وفات کے بعد والا سلام مراد ہے :

اس حدیث کا تعلق آپ صلى الله عليه وسلم کی وفات کے بعد والے زمانہ کے سلام سے ہے، گویا یہ کسی سوال کا جواب ہے، جسے راوی نے حدیث بیان کرتے ہوئے بیان نہیں کیا۔ یعنی کسی صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ اب تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہمارا سلام کس طرح اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب کس طرح ہو گا؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ فرمان جاری ہوا۔

مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم :

بعض لوگ اس حدیث سے مسئلہ حیات النبی کشید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ یوں کہ کوئی بھی اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کہتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر روح لوٹائی جاتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام کا جواب دیتے ہیں، اس سے آپ صلى الله عليه وسلم کی مستقل زندگی ثابت ہوتی ہے، کیونکہ اس سلام میں انقطاع نہیں ہوتا۔ ہر وقت کسی نہ کسی جگہ پر آپ پر سلام بھیجا جا رہا ہوتا ہے اور آپ اس کا جواب دے رہے ہوتے ہیں۔کوئی وقت بھی اس عمل سے خالی نہیں رہتا، یوں ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسلسل زندہ ہیں۔

لیکن جس بنیاد پر یہ استدلال کیا گیا ہے، وہ بہت ہی بودی اور کمزور ہے، اس پر تعمیر کی جانے والی عمارت تھوڑا سا غور کرنے پر فوراً منہدم ہو جاتی ہے، کیونکہ اس استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کبھی منقطع ہوتا ہے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس کے جواب میں انقطاع ہوتا ہے جبکہ یہ بات قطعی طور پر غلط ہے کیوں کہ:
➊ اس حدیث سے قطعاً یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سلام کہنے والے کا جواب لوٹاتے ہیں، خواہ وہ قریب سے سلام کہے یا دور سے، بلکہ یہ حدیث تو صرف قریب سے سلام کہنے والے کے بارے میں ہے، کیونکہ دور سے سلام کہنے والے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود صراحتاً یہ بات فرما دی ہے کہ اس کا سلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک فرشتے پہنچاتے ہیں اور اس کا جواب بھی خود دینا ثابت نہیں، چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جو کہ سابقہ حدیث کے راوی ہیں، جس سے حیات النبی پر دلیل لی جاتی ہے، وہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی نقل فرماتے ہیں:
لا تجعلوا بيوتكم قبورا، ولا تجعلوا قبري عيدا، وصلوا علي، فإن صلاتكم تبلغني حيث كنتم.
”تم اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ، نہ ہی میری قبر کو میلہ گاہ بنانا، (بلکہ جہاں بھی ہو) مجھ پر درود پڑھو تم جہاں بھی ہو گے تمہارا درود مجھ تک پہنچے گا۔“ [مسند الإمام أحمد : 367/2، ح : 8790؛ سنن أبى داود :2042، واللفظ لهٔ، وسنده حسن]

❀ نیز سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن لله فى الأرض ملائكة سياحين، يبلغوني من أمتىي السلام .
”زمین میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے گشت کر رہے ہیں جو میری امت کی طرف سے پیش کیا گیا سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں۔“ [مسند الإمام أحمد : 387/1، 441، 452 سنن النسائي الصغرٰى: 44/3، ح : 1282؛ الكبري له : 22/6، و سندهٔ حسن]
↰ اس حدیث کو بہت سے ائمہ نے صحیح قرار دیا ہے، مثلاً :
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ [914] نے اسے ”صحیح‘‘ جب کہ امام حاکم رحمہ اللہ [456/2 ] نے ”صحیح الاسناد“ قرار دیا ہے۔
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
↰یاد رہے کہ اس حدیث میں سفیان ثوری ”تدلیس“ نہیں کر رہے، کیونکہ :
◈ ان کے سماع كی صراحت موجود ہے۔ فضل الصلاة على النبى للقاضي إسماعيل [نقلا عن الصارم المنكى لابن عبد الهادى : 202/1]
◈ اور مسند البزار [1924] میں اس حدیث کو امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے امام یحیٰی بن سعید قطان رحمہ اللہ بیان کر رہے ہیں۔
◈ اور امام قطان، امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے وہی احادیث بیان کرتے ہیں، جن میں سماع کی صراحت ہوتی ہے،
◈ چنانچہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام یحیٰی بن سعید قطان رحمہ اللہ نے فرمایا:
ما كتبت عن سفيان شيئا، إلا ما قال: حدثني أو حدثنا.
”میں نے سفیان ثوری رحمہ اللہ سے وہ احادیث لکھی ہیں جن میں انہوں نے حدثني یا حدثنا کے الفاظ کہے ہیں۔“ [العلل ومعرفة الرجال لأحمد بن حنبل :517/1]

پھر سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث جس کو ہم آئندہ بیان کریں گے، اسے بھی پڑھ لیں تو بالکل وضاحت ہو جاتی ہے کہ اس سلام کا جواب اللہ تعالیٰ دس رحمتوں کی صورت میں دیتے ہیں۔
◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فهم العلماء منه السلام عند قبره خاصة، فلا يدل على البعيد.
”اس حدیث سے علمائے کرام نے صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس سلام (کے وقت آپ کی روح کا لوٹایا جانا) سمجھا ہے، یہ حدیث دور (سے سلام کہنے پر روح کے لوٹائے جانے پر) دلالت نہیں کرتی۔“ [الرد على البكري:107/1]

◈ نیز فرماتے ہیں:
وهذا الحديث هو الذى اعتمد عليه العلماء، كأحمد وأبيي داود وغيرهما فى السلام عليه عند قبره.
”یہی وہ حدیث ہے جس پر امام احمد بن حنبل اور امام ابو داؤد رحمہ اللہ وغیرہ جیسے علما نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہنے کے سلسلہ میں اعتماد کیا ہے۔“ [الرد على البكري:106/1]

◈ علامہ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ بھی اسے اکثر علماے کرام کی نزدیک قبر کے پاس پر محمول کرتے ہیں۔ [ الصارم المنكي فى الرد على السبكي: 115/1]

قریب سے مراد حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہ ہے :
قریب سے مراد صرف حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہے، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دفن ہیں، یہی وجہ ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کسی سفر سے واپس آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس جا کر یہ الفاظ کہتے :
السلام عليك يا رسول الله، السلام عليك يا أبا بكر، السلام عليك يا أبتاه.
”اے اللہ کے رسول! آپ پر سلامتی ہو! اے ابو بکر ! آپ پر سلامتی ہو اور میرے ابا جان! آپ پر سلامتی ہو۔ ‘‘ [فضل الصلاة على النبى للقاضي إسماعيل بن إسحاق، ص : 81، 82، ح : 99؛ السنن الكبرٰي للبيهقي : 245/5، و سندهٔ صحيح]
↰ معلوم ہوا کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح لوٹائے جانے اور سلام کا جواب دینے کا تعلق صرف اس شخص سے ہے جو قبر مبارک کے عین قریب جا کر سلام کہے، جیسا کہ :
◈ علامہ شنقیطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ومجمعون أن ذلك يحصل لمن سلم عليه صلى الله عليه وسلم من قريب.
’’ اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ یہ (آپ کا جواب لوٹایا جانا) اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو کہ قریب سے آپ پر سلام کہتا ہے۔“ [أضواء البيان فى إيضاح القرآن بالقرآن : 838/8]
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ [تفسیر ابن کثیر : 621/3] وغیرہ نے بھی اس حدیث کا تعلق اسی شخص سے قائم کیا ہے، جو قریب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہتا ہے، دور سے سلام کہنے والوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں، اس کا جواب تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کی صورت میں لوٹایا جاتا ہے۔

◈ علامہ ابوطیب شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
والقول الصحيح أن هذا لمن زاره، ومن بعد عنه؛ تبلغه الملائكة سلامه.
”صحیح بات یہ ہے کہ یہ حدیث اس شخص کے بارے میں ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کرے اور جو دور سے درود پڑھے، فرشتےاس کا سلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے ہیں (اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمت کر کے اس کا جواب دیتا ہے)۔“ [عون المعبود فى شرح سنن أبى داود : 22/6]

◈ علامہ ابو الحسن عبیداللہ بن محمد رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فإن الصحيح أن المراد فى الحديث السلام عليه عند قبره، كما فهمه كثير من العلماء .
”صحیح بات یہ ہے کہ اس حدیث سے مراد آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے قریب کہا جانے والا سلام ہے جیسا کہ بہت سے علماے کرام نے سمجھا ہے۔“ [مرعاة المفاتيح شرح مشكوة المصابيح : 263/3]
امام ابوداؤد رحمہ اللہ کا اسے قبروں کی زیارت کے باب میں نقل کرنا بھی بہت واضح ہے۔

فائدہ : سنن سعید بن منصور کی ایک روایت میں ہے کہ حسن بن حسین بن علی بن ابوطالب رحمہ اللہ نے ایک شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرمبارک کے پاس سلام پڑھتے ہوئے دیکھا تو کہا:
ما أنتم ومن بالاندلس إلا سواء .
”(قریب جا کر کہنے کی کیا ضرورت ہے ؟ ) تم اور اندلس والے سلام کہنے میں برابر ہو۔“ [الفتاوي الكبري لابن تيمية : 431/2]
↰ لیکن اس کی سند سہیل بن ابوسہل راوی کے ”مجبول“ ہونے کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔

جب خود حدیث رسول سے اور محدثین کرام کی صراحت سے یہ ثابت ہو گیا کہ حدیث میں روح لوٹائے جانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب دینے کا تعلق صرف حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں کھڑے ہو کر سلام کہنے والے سے ہے، دنیا سے ہر درود و سلام پڑھنے والے سے نہیں تو یہ اس حدیث سے حیاۃ النبی پر استدلال سرے سے باطل ہو گیا، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے لے کر آج تک کوئی دور ایسا نہیں کہ حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کہا جا رہا ہو۔

لہٰذا اس حدیث سے یہ اخذ کرنا صحیح نہیں کہ چونکہ ہر وقت کہیں نہ کہیں سلام کہا جا رہا ہوتا ہے اور روح لوئی ہی رہتی ہے، چنانچہ آپ مستقل زندہ ہیں۔ یوں اس حدیث سے حیاۃ النبی کا عقیدہ تراشنا قطعاً درست نہیں۔

اس حدیث کے الفاظ عقیدہ حیات النبی کے منافی ہیں، جیسا کہ :
◈ علامہ ابن الہادی رحمہ اللہ اس کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وليس هذا المعنى المذكور فى الحديث، ولا هو ظاهره، بل هو مخالف لظاهره، فإن قوله : ”إلا رد الله على روحي“ بعد قوله : ”ما من أحد يسلم على . . .“ يقتضيي رد الروح بعد السلام، ولايقتضي استمرارها فى الجسد . وليعلم أن رد الروح (إلي البدن) وعودها إلى الجسد بعد الموت لا يقتضي استمرارها فيه، ولا يستلزم حياة أخرى قبل يوم النشور نظير الحياة المعهودة، بل إعادة الروح إلى الجسد فى البرزخ إعادة برزخية، لا تزيل عن الميت اسم الموت . وقد ثبت فى حديث البراء بن عازب الطويل المشهور، فى عذاب القبر ونعيمه، فى شأن الميت وحاله، أن روحه تعاد إلى جسده، مع العلم بأنها غير مستمرة فيه، وأن هذه الإعادة ليس مستلزمة لإثبات حياة مزيلة لاسم الموت، بل هى أنواع حياة برزخية .
”نہ یہ مذکورہ معنی (حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ) حدیث میں موجود ہے، نہ ہی یہ حدیث کا ظاہری معنی ہے، بلکہ یہ تو اس کے ظاہری معنی کے خلاف ہے، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کے سلام کہنے کا ذکر کرنے کے بعد یہ فرمانا کہ اللہ تعالیٰ میری روح لوٹا دے گا، اس بات کا مقتضی ہے کہ روح سلام کہنے کے بعد لوٹائی جاتی ہے۔ یہ الفاظ روح کے جسم میں ہمیشہ رہنے کا تقاضا نہیں کرتے۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہے کہ بدن کی طرف روح کا لوٹایا جانا اور موت کے بعد جسم کی طرف اس کا واپس آنا اس کے ہمیشہ وہیں رہنے پر دلالت نہیں کرتا، نہ ہی وہ قیامت سے پہلے کسی دوسری زندگی کو مستلزم ہے، جو دنیوی زند گی کی طرح ہو، بلکہ برزخ میں روح کا جسم کی طرف لوٹایا جانا ایک برزخی اعادہ ہے، جو میت سے موت کا نام ختم نہیں کرتا۔

قبر کے عذاب اور اس کی نعمتوں کے بارے میں سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی مشہور طویل حدیث [سنن أبى داود : 4753؛ المستدرك للحاكم : 95/1، وسنده حسن] میں ہے کہ (قبروں میں سوال و جواب کے وقت ہر) مرد ے کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے، حالانکہ یہ بات معلوم ہے کہ وہ روح اس جسم میں ہمیشہ نہیں رہتی، نہ ہی وہ ایسی زندگی کو مستلزم ہے، جو میت سے موت کا نام ہی ختم کر دے، بلکہ وہ تو برزخی زندگی کی ایک قسم ہے۔“ [الصارم المنكي فى الرد على السبكي : 222/1-223]

یعنی اگر روح کے لوٹائے جانے کو حیات دنیوی شمار کیا جائے تو پھر مذکورہ حدیث کے مطابق ہر مسلم و کافر مردے کی روح لوٹائی جاتی ہے۔ کیا وہ بھی سب دنیاوی زندگی جی رہے ہیں ؟ اگر یہاں روح لوٹانے سے مراد حیات دنیوی نہیں تو وہاں کیوں ہے ؟

اس استدلال کے برعکس یہ حدیث تو ان لوگوں کے لئے سخت اشکال کا سبب ہے، جو لوگ حیات انبیا کا اثبات کرتے ہیں، جیسا کہ :
◈ علامہ عبیدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
هذا مشكل على من ذهب إلى أن الانبياء بعد ما قبضوا ردت إليهم أرواحهم، فهم أحياء عند ربهم كالشهداء، ووجه الإشكال فيه أن عود الروح إلى الجسد يقتضى انفصالها عنه، وهو الموت، وهو لا يلتئم مع كونه حيا دائما.
”یہ حدیث ان لوگوں کے لیے باعث اشکال ہے، جو یہ مذہب رکھتے ہیں کہ انبیاے کرام کی ارواح قبض ہونے کے بعد دوبارہ ان کی طرف لوٹا دی گئیں ہیں، اب وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں شہدا کی طرح زندہ ہیں۔ اشکال کی وجہ یہ ہے کہ روح کا جسم کی طرف لوٹایا جانا یہ تقاضاکرتا ہے کہ وہ اس سے جدا ہو، اسی کا نام موت ہے۔ یہ صورت حال آپ کے ہمیشہ زندہ ہونے کے (دعوی کے) ساتھ فٹ نہیں آتی . . . .“ [مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح : 269/3]

➋ اگر کوئی شخص اس حدیث سے قریب کا سلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خود سننا ثابت کرے اور پھر اس سے مسئلہ حیات النبی کشید کرے۔

تو یہ بے بنیاد ہے۔ کسی بھی صحیح حدیث سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قبر مارک میں خود درود و سلام سننا ثابت نہیں۔

پھر اس فرمان باری تعالیٰ سے اصل بات معلوم ہو سکتی ہے :
﴿إِنَّ اللَّـهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ [35-فاطر:22]
” (اے نبی !) آ پ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں مدفون ہیں۔“
↰ اگر قبر کے قریب سے سننا ہی عقیدہ حیات النبی کی دلیل ہے تو پھر عقیدہ حیاۃ الاموات بنانا چاہیے، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ چاہے تمام مسلمانوں، بلکہ غیر مسلمانوں کو بھی قبر کے قریب کی کوئی آواز سنا دیتا ہے، جیسا کہ :
❀ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ألعبد إذا وضع فى قبره، وتولي، وذهب أصحابه، حتى إنه ليسمع قرع نعالهم
”جب انسان کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی واپس چلے جاتے ہیں اور وہ ان کے جوتوں کی آوازیں سن رہا ہوتا ہے۔“ [صحيح البخاري : 1338، صحيح مسلم : 2870]
↰ تو کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قبر مبارک کے قریب کہے جانے والے سلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خود سننے کا عقیدہ رکھنے والے اور اسے حیات النبی کی دلیل بنانے والے اس حدیث کو حیات المسلمین، بلکہ حیات نبی آدم کی دلیل بنائیں گے ؟

اسی طرح غزوہ بدر میں کفار مکہ کے جو لوگ قتل ہو گئے تھے، انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب کیا اور فرمایا تھا :
إنهم الآن يسمعون ما أقول
”یقیناً اب وہ میری باتیں سن رہے ہیں۔“ [صحيح البخاري : 3980، صحيح مسلم : 2870]
↰ کیا حیات النبی کا عقیدہ رکھنے والے، کافروں کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب سننے کی وجہ سے حیات الکافرین کا عقیدہ بھی رکھیں گے ؟

بات صرف اتنی ہے کہ اللہ رب العزت جب چاہے مردوں کو کوئی بات سنا دیتا ہے، چاہے وہ کافر ہی ہوں، چنانچہ اگر بالفرض والمحال قبر کے پاس کے سلام کے بارے میں یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے خود سنتے ہیں تو پھر بھی یہ حیات االنبی کی دلیل نہیں بن سکتی، کیونکہ اللہ تعالی عام مردوں کو بھی کبھی سنا دیتا ہے، کیا پھر عام مردوں کے لیے بھی حیات ثابت ہو جائے گی۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جو جواب دیتے ہیں، اس جواب کا تعلق بھی عالم برزخ کے ساتھ ہے۔ دنیاوی کانوں سے وہ سنا ہی نہیں جا سکتا، لہذا اس سے حیات النبی کا عقیدہ ثابت کرنا صحیح نہیں۔

سلام مأمور اور سلام تحیۃ میں فرق :

نیز یہ بات بھی سمجھنے کی ہے، کہ سلام دو طرح کا ہوتا ہے، ایک سلام مامور ہے، یعنی جس کے بارے میں :
✿ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا [33-الأحزاب:56]
”اے ایمان والو ! تم ان (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم) پر درود اور بہت زیادہ سلام بھیجو۔“

اور دوسرا سلام تحیہ کا ہے، یعنی وہ سلام جو کسی کے ملنے پر تحفتاً کہا جاتا ہے۔
جب اتنی بات سمجھ میں آ گئی ہے تو یہ بھی ذہن نشین رہے کہ سلام تحیہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا جاتا تھا تو اس کا جواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیتے تھے اور اب بھی کہا جاتا ہے تو اس کا جواب آپ صلى اللہ علیہ وسلم خود ہی دیتے ہیں، جیسا کہ حدیث میں بیان ہو گیا ہے۔

یہ بات بھی بخوبی واضح کی جا چکی ہے کہ سلام تحیہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں قریب سے کہا جاتا تھا، اس طرح اب بھی قریب سے ہی کہا جائے گا۔ اس حوالے سے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا عمل آپ پڑھ چکے ہیں کہ وہ سفر سے واپسی پر حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں قبر مبارک کے پاس جا کر یہ سلام تحیہ کہتے تھے، اس کے برعکس سلام مامور تو سب صحابہ کرام نمازوں میں ہر جگہ ہی پڑھتے تھے، اس کے لیے بھلا قبر مبارک کے پاس آنے اور سفر سے واپسی پر حاضری دینے کی آخر کیا ضرورت تھی ؟ اگر اس سلام کا آپ دور سے بھی جواب دیتے تھے تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قبر مبارک کے پاس کیوں جاتے تھے ؟۔

سلام تحیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیر مسلم بھی کہتے تھے، جبکہ سلام مامور صرف مومنوں کے ساتھ خاص ہے، اس کا جواب بھی آ پ خود نہیں دیتے، بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں اس شخص پر رحمتیں نازل فرماتے ہیں، جیسا کہ حدیث نبوی ہے :
❀ سیدنا ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: جاء ذات يوم والبشر يرى فى وجهه فقلنا : إنا لنرى البشر فى وجهك، فقال: إنه أتاني ملك فقال : يا محمد، أن ربك يقول : اما يرضيك إن لا يصلي عليك أحد من أمتك، إلا صليت عليه عشرا، ولا يسلم عليك، إلا سلمت عليه عشرا
”ایک دن اللہ کے رسول تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار تھے، ہم نے عرض کیا : ہم آپ کے چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار دیکھ رہے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس ایک فرشتہ آیا ہے اور اس نے کہا ہے : اے محمد ! آپ کا رب فرماتا ہے کہ کیا آپ اس بات سے خوش نہیں ہیں کہ کوئی بھی آپ پر درود پڑھے گا تو میں اس پر دس رحمتیں نازل فرماؤں گا اور کوئی بھی آپ پر سلام کہے گا تو میں اس پر بھی دس سلامتیاں نازل فرماؤں گا۔“ [مسند الإمام أحمد : 29/4، 30 سنن النسائي : 1283، 1295، وسنده صحيح]
? اس حدیث کو :
◈امام ابن حبان رحمہ اللہ [915] اور امام ضیاء مقدسی رحمہ اللہ [الفتح الكبير للسيوطى، ح : 142] نے ”صحیح“ کہا ہے۔
◈ حافظ عراقی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”جید“ قرار دیا ہے۔ [تخريج أحاديث الإحياء، ح : 1004]
◈ سلیمان مولیٰ حسن بن علی ثقہ ہیں، کیونکہ امام ابن حبان، امام حاکم اور امام ضیاء مقدسی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ نے ان کی حدیث کی ”تصحیح“ کر کے ان کی توثیق کی ہے۔

❀ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کا ایک شاہد بھی مروی ہے، اس کی سند بھی حسن ہے۔ [مسند الإ مام أحمد : 191/1]
◈اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ [810] نے ”صحیح“ کہا ہے۔
◈ امام حاکم رحمہ اللہ [345/1] نے ”امام بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح“ کہا ہے۔
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
? اس کے راوی ابوحویرث عبدالرحمٰن بن معاویہ جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ نہیں، بلکہ جمہور کے نزدیک ”حسن الحدیث“ ہیں، کیوں کہ امام مالک [الكامل فى ضعفاء الرجال لابن عدي : 309/4، الجرح والتعديل 284/5، وسنده صحيح] ، امام نسائی [كتاب الضعفاء والمتروكين ت : 365؛ الكامل فى ضعفاء الرجال : 309/4] اور امام ابوحاتم رازی [الجرح والتعدیل : 284/5] رحمها اللہ کی ”تضعیف“ کے مقابلے میں امام احمد بن حنبل [الجرح والتعديل : 284/5، وسنده صحيح] ، امام ابن خزیمہ [صحيح ابن خزيمة : 145] ، امام ابن حبان [الثقات : 406] ، امام حاکم [72/3] اور امام ضیاء مقدسی [الأحاديث المختارة : 930] رحمها اللہ کی توثیق مقدم ہو گی۔ نیز امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کا جمہور کی موافق توثیق والا قول [تاريخ ابن معين برواية الدارمي : 603] قبول کیا جائے گا۔

اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ سلام کی دو قسمیں ہیں ؛ ایک وہ سلام جو قریب سے کہا جاتا ہے، یعنی تحیہ سلام، اس کا جواب آپ خود دیتے ہیں لیکن سلام مامور جو نماز وغیرہ میں درود کی طرح پڑھا جاتا ہے، اس کا جواب آپ صلى اللہ علیہ وسلم خود نہیں دیتے، بلکہ اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اس شخص پر سلامتی نازل فرماتا ہے۔

جب ہر سلام کے جواب کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر روح نہیں لوٹائی جاتی تو اس حدیث سے مسئلہ حیات النبی کا اثبات نہیں ہو سکتا۔

◈ علامہ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ ان دو قسموں کو یوں بیان فرماتے ہیں :
والمقصود هنا ان نعرف ما كان عليه السلف من الفرق بين ما امر الله به من الصلاة والسلام عليه وبين سلام التحية الموجب للرد، الذى يشترك فيه كل مومن، حي وميت، ويرد فيه على الكافر .
”یہاں مقصود یہ ہے کہ ہم سلف صالحین کے مطابق وہ فرق معلوم کریں، جو مامور من اللہ درود و سلام اور اس سلام تحیہ کے درمیان ہے، جس کا جواب دینا واجب ہے اور اس میں تمام زندہ و مردہ مسلمان مشترک ہیں اور جس میں کافر کو بھی جواب لوٹایا جاتا ہے۔“ [الصارم المنكي فى الرد على السبكي : 125/1]

◈ نیز لکھتے ہیں :
وهذا السلام لا يقتضي ردا من المسلم عليه، بل هو بمنزلة دعاء المؤمن للمؤمنين واستغفاره لهم، فيه الأجر والثواب من الله، ليس على المدعو لهم مثل ذلك الدعاء، بخلاف سلام التحية، فإنه مشروع بالنص والإجماع فى حق كل مسلم. وعلى المسلم عليه أن يرد السلام ولو كان المسلم عليه كافرا، فإن هذا من العدل الواجب، ولهذا كان النبى صلى الله عليه وسلم يرد على اليهود إذا سلموا بقول وعليكم .
”یہ سلام (مامور) سلام کہنے والے پر جواب لوٹانے کا تقاضا نہیں کرتا، بلکہ یہ ایک مومن کی دوسرے مؤمنوں کے لیے دعا اور استغفار کی طرح ہوتا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر و ثواب ہوتا ہے۔ جس کے لیے دعا کی گئی ہو، اس پر دعا کرنے والوں کے لیے اسی طرح کی دعا کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ جب کہ سلام تحیہ کا معاملہ اس کے برعکس ہے کہ وہ قرآن و سنت کی نصوص اور اجماع امت سے ہر مسلمان کے لیے مشروع ہے۔ پھر جس پر سلام تحیہ کہا گیا ہے، اس پر جواب دینا بھی واجب ہے، اگرچہ وہ (سلام کہنے والا) کافر ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ یہ اس کا ضروری حق ہے۔ اسی لیے نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کو جب یہود سلام کہتے تو آپ ان کا جواب بھی ”وعلیکم“ کے لفظ سے دیتے تھے۔“ [الصارم المنكي فى الرد على السبكي : 118/1، 119]

◈ نیز لکھتے ہیں :
فالصلاة والسلام عليه صلى الله عليه وسلم فى مسجده وسائر المساجد وسائر البقاع مشروع بالكتاب والسنة والإجماع، وأما السلام عليه عند قبره من داخل الحجرة؛ فهذا كان مشروعا لما كان ممكنا بدخول من يدخل على عائشة.
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام مسجد نبوی، دوسری تمام مساجد اور دنیا کی تمام جگہوں میں کتاب و سنت اور اجماع کے دلائل کی وجہ سے مشروع ہے۔ رہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں جا کر سلام کہنا تو یہ کسی شخص کے لیے اس وقت مشروع تھا، جب وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں داخل ہو سکتا تھا۔“ [ الصارم المنکی فى الرد على السبکی: 119/1]

اگر سلام کی یہ دو قسمیں تسلیم نہ کی جائیں، بلکہ یہ اصرار کیا جائے کہ ہر سلام کا یہ معاملہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جواب خود لوٹاتے ہیں تو اس میں جہاں مذکورہ احادیث، یعنی فرشتوں کے سلام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانے اور اللہ تعالیٰ کے جواباً سلام کہنے والے پر رحمت کرنے والی احادیث کا انکار لازم آتا ہے، وہیں قبر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی حیات مان کر یہ بات عقلاً بھی محال ہے۔

نیز ان دو قسموں کو نہ ماننے سے یہ بھی اعتراض آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں بعض یہودی اور منافق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہہ دیتے تھے، کیا ان پر بھی اللہ تعالیٰ دس رحمتیں نازل فرماتا تھا؟ حالانکہ منافقین اور یہود پر رحمت الٰہی کا تصور بھی اسلام میں نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ کر جو سلام کہا جاتا تھا، یعنی سلام تحیہ، اس کا حکم اور ہے، جب کہ فرشتوں کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانے اور اللہ کے جواباً رحمتیں نازل کرنے والا معاملہ سلام مامور کے ساتھ خاص ہے، جسے صرف مومن سرانجام دے سکتے ہیں۔ اسی لیے اس سلام کا حکم صرف ایمان والوں ہی کو دیا گیا ہے۔

➌ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر مبارک میں اسی طرح زندہ ہوتے، جس طرح سے وفات سے پہلے تھے، یعنی آپ کی حیات برزخی نہیں، بلکہ دنیوی ہوتی اور کوئی اپنی بات آپ کو سنا سکتا ہوتا تو صحابہ کرام ضرور اپنی پر یشانیاں اور مشکلات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کرتے۔ کم از کم اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا ہی کرواتے، لیکن ایسی کوئی بات کسی صحابی سے ثابت نہیں کہ انہوں نے کبھی سلام کے علاوہ کوئی اور درخواست آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے قریب یا دور سے کی ہو۔ اس کے برعکس کئی واقعات ایسے ہیں، جو صریح طور پر اس کی نفی کرتے ہیں۔ مثلاً:

❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
ان عمر بن الخطاب كان إذا قحطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب، فقال : اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا صلى الله عليه وسلم فتسقينا , وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا، قال : فيسقون
”سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا طریقہ یہ تھا کہ جب لوگوں پر قحط سالی آئی تو سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے ساتھ بارش کی دعا کرتے اور کہتے: اے اللہ ! یقیناً ہم تیری طرف تیرے نبی کی دعا کا وسیلہ بناتے تھے تو تو ہمیں بارش عطا کرتا تھا اور اب ہم تیری طرف تیرے نبی کے چچا کی دعا کا وسیلہ بناتے ہیں تو ہمیں بارش عطا کر، چنانچہ ان پر بارش نازل کی جاتی تھی۔“ [ صحيح البخاري: 3710]
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام اللہ تعالیٰ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا واسطہ دیتے تھے، نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کا، ورنہ ذات کا واسط تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعد بھی دیا جا سکتا تھا۔ اگر اس واسطہ سے مراد ذات کا واسطہ تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ کو چھوڑ کر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی ذات کا واسطہ دینا صریح گستاخی ہے، جو صحابہ کرام سے صادر ہونا محال ہے۔ یہ واسطہ دعا کا تھا جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندگی میں کر دیتے تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔

دوسری بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ صحابہ کرام کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری باتیں نہیں سنتے، چاہے وہ قریب سے ہوں، ورنہ وہ مشکل اوقات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی ہی درخواست کر دیتے۔

اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات دنیوی ہوتی، سب کچھ سنتے اور جانتے ہوتے تو سیدنا عمر میں خطاب رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی رسول کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے دعا نہ کرواتے۔

اسی طرح پورے ذخیرہ حدیث و تاریخ میں باسند صحیح بعد از وفات کسی ایک صحابی رسول سے سلام کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی درخواست و دعا ثابت نہیں۔

➍ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قائل لوگ اس روایت سے بھی استدلال کرتے ہیں:

الانبياء احياء فى قبورهم، يصلون
”انبیائے کرام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں۔“ [ مسند أبى يعلي: 147/6، ح: 3425، أخبار أصبهان للأصبهاني: 83/2، نقلا عن السلسلة الصحيحة للألباني: 189/2؛ حياة الأنبياء فى قبورهم للبيهقي: 1]

قطع نظر اس بات سے کہ اس کی استنادی حیثیت کیا ہے؟ ہم ایسے لوگوں سے ایک سوال کرنا چاہتے ہیں کہ اگر تمہارے موقف کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر وقت سلام کہا جا رہا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت اس کا جواب دے رہے ہیں، لہٰذا حیات النبی ثابت ہو گئی ہے تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے وقت بھی سلام کا جواب دیتے ہیں، جو کہ احناف کے ہاں ممنوع ہے؟

فقہ حنفی کی معتبر کتاب ہدایہ میں لکھا ہے:
ولا يرد السلام بلسانه، لانه كلام، ولا بيده، لانه سلام معنا
”نمازی اپنی زبان سے سلام کا جواب نہیں دے گا، کیونکہ وہ تو کلام ہے اور نہ ہی ہاتھ کے اشارہ سے جواب دے گا، کیونکہ یہ بھی معنوی طور پر سلام ہے۔“ [ الهداية: 1 /142]

ٹھنڈے دل سے سوچنے کی بات ہے کہ اگر فقہ حنفی برحق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر وقت اور ہر ایک کے سلام کو سننے اور جواب دینے والا قول مردود ہے اور اگر یہ قول درست ہے تو فقہ حنفی کا جنازہ نکل جاتا ہے۔

ثانیاً اگر انبیائے کرام قبروں میں زندہ ہیں تو روح لوٹائے جانے کا کیا مطلب ہے؟
روح تو زندہ کرنے کے لیے لوٹائی جاتی ہے، جو پہلے ہی زندہ ہے، اس میں روح کیوں لوٹائی جاتی ہے؟

➎ بعض لوگ اس حدیث سے مسئلہ حیات النبی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نزول کے بارے میں فرمایا: لئن قام على قبري، فقال: يا محمد، لأ جيبنه ”اگر وہ میری قبر پر کھڑے ہوں اور کہیں اے محمد ! تو میں ضرور ان کی بات کا جواب دوں گا۔“ [ مسند أبى يعلي: 6584]

لیکن اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
عبداللہ بن وہب مصری راوی ”مدلس“ ہیں اور لفظ ”عن“ سے بیان کر رہے ہیں، سماع کی تصریح نہیں کی۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہاں قبر مبارک پر کھڑے ہونے سے مراد سلام کہنا اور جواب سے مراد سلام کا جواب ہے، جیسا کہ اسی حدیث کس دوسری سند میں سے:

ولياتين قبري حتي يسلم، ولاردن عليه .
”وہ ضرور میری قبر پر سلام کہنے کے لیے آئیں گے اور میں ضرور ان پر جواب لوٹاؤں گا۔“ [المستدرلد علی الصحیحین للحاکم: 651/2، ح: 4162]

یہ سند بھی ”ضعیف ہے۔
اس میں محمد بن اسحاق بن یسار ”مدلس“ ہیں اور لفظ ”عن“ سے بیان کر رہے ہیں، سماع کی تصریح نہیں کی۔

➏ ایک اور حدیث جو اس ضمن میں پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے فرمایا:

فنبي الله حي يرزق ”اللہ کے نبی زندہ ہیں، وہ رزق دیئے جاتے ہیں۔ “ [ سنن ابن ماجہ: 1637]

اس کی سند ”منقطع“ ہونے کی وجہ سے ”ضعیف ہے جیسا کہ:
◈ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں:
وفيه انقطاع بين عبادة بن نسبي وابي الدرداء فانه لم يدركه۔
”اس سند میں عبادہ بن نسی اور سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے کیونکہ اس ( عبادہ ) نے ان ( سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ ) کا زمانہ نہیں پایا۔“ [ تفسیر ابن کثیر: 620/3، تحت سورۃ الاحزاب: 56/33]

نیز اس سند میں ایک اور جگہ بھی انقطاع ہے، جیسا کہ :
◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
زيد بن ايمن عن عبادة بن نسي مرسل
”زید بن ایمن کی عبادہ بن نسی سے روایت مرسل ( منقطع ) ہوتی ہے۔“ [ التاریخ الکبیر لالبخاری: 387/3]

◈ حافظ سخاوی رحمہ اللہ نے بھی اسے ”منقطع “ قرار دیا ہے۔ [ القول البدیع: 164]

الحاصل:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کہا جانے والا سلام دو طرح کا ہے؛ ایک سلام تحیہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جاتا تھا اور یہ سلام مسلمان، کافر اور منافق سب کہتے تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جواب بھی دیتے تھے۔ اب بھی حجرہ عائشہ میں داخل ہو کر قبر مبارک پر سلام کہا جائے تو وہ اسی قبیل سے ہے۔ اگر کسی شخص کو حجرہ مبارکہ میں جا کر قبر مبارک پر جا کر سلام کہنے کی سعادت نصیب ہو جائے تو اللہ تعالیٰ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کو لوٹاتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس سلام کا جواب دیتے ہیں۔ یہی وجہ سے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما خصوصی طور پر حجرہ عائشہ میں جا کر قبر مبارک پر سلام کہتے تھے۔

دوسرا سلام وہ ہے جس کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے۔ یہ سلام فرشتوں کے ذریعے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کیا جاتا سے اور اس کا جواب اللہ تعالیٰ دس رحمتوں اور بخشش کی صورت میں دیتے ہیں۔

لہٰذا اس سے مروجہ عقیدہ حیاۃ النبی ثابت کرنا عقلاً و نقلاً و شرعاً کسی طرح بھی ممکن نہیں۔

 

اس تحریر کو اب تک 67 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply