اعتکاف کے مسائل قرآن و سنت کی روشنی میں

تحریر: قاری اسامہ بن عبد السلام حفظہ اللہ

اعتکاف کی تعریف

اعتکاف کے معنی رکنے کے ہیں اور شرعی محاورہ میں دنیا کہ سارے کاروبار کو چھوڑ کر عبادت کی نیت سے اور رضا ئے مولی کی غرض سے مسجد میں ٹھہر کرعبادت کرنے کو اعتکاف کہتے ہیں
سبل السلام (ج٢-٩٠٩)

اعتکاف کے لئے نیت

اعتکاف کے لئے نیت ضروری ھے لیکن نیت کے لئے (نویت سنۃ الاعتکاف) یا دیگر الفاظ بدعت ہیں نیت دل کا فعل ھے

اعتکاف کی اہمیت

اعتکاف کی اہمیت کا اندازہ اسی بات سے ہوجاتا ھے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہمیشہ اعتکاف کیا ہے جیسا کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا بیان ھے أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ "،

ترجمہ

اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا (ہمیشہ) اعتکاف کیا کرتے تھے۔
مؤطا ( امام ابو محمد عبداللہ بن وھب المصری ) حدیث (٣٠٦) صحیح

دوسری دلیل

، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْج النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،” أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ”، ثُمَّ اعْتَكَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعدہ

ترجمہ

نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں پابندی سے اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ آپ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔ پھر آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین اعتکاف کرتی ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2026]

اعتکاف کی فضیلت

سنن ابن ماجه

كتاب الصيام

بَابٌ في ثَوَابِ الاِعْتِكَافِ
باب: اعتکاف کا ثواب۔

پہلی دلیل

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي الْمُعْتَكَفِ: «هُوَ يَعْتَكِفُ الذُّنُوبَ وَيُجْرَى لَهُ مِنَ الْحَسَنَاتِ كَعَامِلِ الْحَسَنَات كلهَا» .

ترجمہ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معتکف کے بارے میں فرمایا: ”اعتکاف کرنے والا تمام گناہوں سے رکا رہتا ہے، اور اس کو ان نیکیوں کا ثواب جن کو وہ نہیں کر سکتا ان تمام نیکیوں کے کرنے والے کی طرح ملے گا“۔
سنن ابن ماجہ . (حديث رقم: ١٧٨١ )
مسند الفردوس حدیث (٦٦٣٢)
مصباح الزجاجہ حدیث (٦٤٣)
شعب الإيمان للبیہقی ” (٣٩٦٤)
اس سے معلوم ہوا کہ اعتکاف کرنے کی وجہ سے آدمی بہت سارے گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے لئے اتنے سارے اجر لکھے جاتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ شب قدر کو پانے کا زیادہ امکان ہوتا ہے

دوسری دلیل

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: مَنِ اعْتَکَفَ یَوْمًا ابْتِغَائَ وَجْهِ ﷲِ جَعَلَ ﷲُ بَیْنَهُ وَبَیْنَ النَّارِ ثَــلَاثَ خَنَادِقَ کُلُّ خَنْدَقٍ أَبْعَدُ مِمَّا بَیْنَ الْخَافِقَیْنِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادٍ جَیِّدٍ

ترجمہ

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے (صدق و خلوص کے ساتھ)ایک دن اعتکاف بیٹھے اﷲ تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کر دیتا ہے، ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلہ سے زیادہ لمبی ہے۔‘‘

اِس حدیث کو امام طبرانی نے عمدہ سند کے ساتھ روایت کیا ہے
أخرجه الطبراني في معجم الکبیر رقم۔ (٢٨٨٨)المعجم الأوسط، الرقم: (٧٣٢٦)، والمنذري في الترغیب والترهیب، الرقم: (٣٩٧١)، وقال: رواہ الحاکم وقال: صحیح الإسناد، والهیثمي في مجمع الزوائد،

تیسری دلیل

عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَیْنٍ رضي اﷲ عنھما عَنْ أَبِیْهِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: مَنِ اعْتَکَفَ عَشْرًا فِي رَمَضَانَ کَانَ کَحَجَّتَیْنِ وَعُمْرَتَیْنِ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ

ترجمہ

حضرت علی بن حسین رضی اﷲ عنہما اپنے والد (حضرت امام حسینں) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص رمضان المبارک میں دس دن اعتکاف کرتا ہے اس کا ثواب دو حج اور دو عمرہ کے برابر ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے

أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، -١٢٨-٣، الرقم: (٢٨٨٨)، والبیهقي في شعب الإیمان، 3/425، الرقم:(٣٩٦٦) (٣٩٦٧)،والمنذري في الترغیب والترهیب، 2/96، الرقم(١٦٤٩)، والهیثمي في مجمع الزوائد،

اعتکاف کس جگہ بیٹھنا چاہئے

اعتکاف صرف مساجد میں ھوگا عورتیں بھی مساجد ھی میں اعتکاف کریں گئی گھروں میں اعتکاف جا ئز نہیں ھے

جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ
ترجمہ اور تم مساجد میں اعتکاف کرنے والے ہو
سورہ بقرہ آیت (١٨٧)

عائشہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم وھومعتکف فی المسجد اور آپ مسجد میں اعتکاف بیٹھے ہوتے
صحیح ابن خزیمہ حدیث (٢٢٣١)-صحیح ابن حبان حدیث (٣٦٦٩)

عن حذیفة قال سمعت رسول اللہ یقول کل مسجد لہ مؤذن وامام فالاعتکاف فیہ یصلح

ترجمہ

حذیفہ رضی اللہ عنہ کا بیان ھے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ہر وہ مسجد جس کا مؤذن اور امام ہو(یعنی جہاں اذان ہوتی ہے اور باجماعت نمازادا کی جاتی ہو ) اعتکاف اسی مسجد میں کرنا درست ہے

(دار قطنی حدیث ٢٣٣٢)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسی مسجد میں جس میں پنج وقتہ نماز ہوتی ہو اس میں اعتکاف جائز ہے
(دار قطنی حدیث ٢٣٣٢)

ایک یا دو دن کے اعتکاف کا حکم

رمضان کے آخری عشرہ میں ایک یا دو دن کا اعتکاف بھی کیا جاسکتا ھے کیونکہ اعتکاف کے لئے دنوں کی کوئی حد بندی نہیں ھے

عمر رضی اللہ عنہ نے ایک رات کا اعتکاف کیا
سنن دار قطنی حدیث (٢٣٥٤) حسن

اعتکاف کرنے والا معتکف میں کب داخل ہو

بیس رمضان المبارک کی شام کو اعتکاف کرنے والا مسجد میں پہنچ جائے اور اگلے روز صبح نماز فجر کے بعد اعتکاف کی جگہ میں داخل ہوجائے

جیسا کہ
عَائِشَةَ، قَالَتْ: ” كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ صَلَّى الْفَجْرَ، ثُمَّ دَخَلَ فِي مُعْتَكَفِهِ

ترجمہ

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو فجر پڑھتے پھر اپنے معتکف (جائے اعتکاف) میں داخل ہو جاتے۔
[سنن ترمذی حدیث: (٧٩١)
سنن ابی داود حدیث (٢٤٦٥) حسن

نوٹ

جب آدمی اعتکاف کا ارادہ کرے تو فجر پڑھے، پھر اپنے معتکف (اعتکاف کی جگہ) میں داخل ہو جائے،

مسجد میں اعتکاف کرنے والوں کے لئے خیمہ لگانا بھی درست ہے

جیساکہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو فجر پڑھتے، پھر آپ اس جگہ میں داخل ہو جاتے جہاں آپ اعتکاف کرنے کا ارادہ فرماتے، چنانچہ آپ نے ایک رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کا ارادہ فرمایا، تو آپ نے (خیمہ لگانے کا) حکم دیا تو آپ کے لیے خیمہ لگایا گیا، ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے بھی حکم دیا تو ان کے لیے بھی ایک خیمہ لگایا گیا، پھر جب ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا نے ان کے خیمے دیکھے تو انہوں نے بھی حکم دیا تو ان کے لیے بھی ایک خیمہ لگایا گیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خیمے دیکھے تو فرمایا: ”کیا تم لوگ اس سے نیکی کا ارادہ رکھتی ہو؟“ ۱؎، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس سال) رمضان میں اعتکاف نہیں کیا (اور اس کے بدلے) شوال میں دس دنوں کا اعتکاف کیا۔
[سنن نسائي حدیث: (٧١٠]

فوائد:

➊ اعتکاف ایک عبادت ہے اور بغیر پردے کے ممکن نہیں، لہٰذا خیمہ کھڑا کرنا ضروری ہے۔
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ایک سے زائد تھیں اور بتقاضائے بشریت سوکنویں میں چپقلش ہوتی ہے، اسی چپقلش کے نتیجے میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے خیمہ لگوایا کہ میں اس سعادت سے پیچھے کیوں رہوں؟ اللہ! اللہ! نیک لوگوں کی چشمک بھی نیکی کے اضافے کے لیے ہوتی ہے، مگر آپ نے اس چشمک کو برداشت نہ کیا، اس لیے آپ نے خود بھی اعتکاف کا ارادہ موقوف فرما دیا۔
➌ اگر کوئی اعتکاف کا ارادہ و نیت کر لے مگر کوئی رکا وٹ پیش آ جائے تو مناسب ہے کہ قضا دے، خواہ رمضان المبارک کے بعد ہی ہو۔
➍ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے اٹھوانے کی اصل وجہ امہات المؤمنین کی آپس کی چشمک اور منافست تھی جس کا حدیث سے اشارہ ملتا ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ حکم عورتوں کے مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کی وجہ سے تھا، بالخصوص جبکہ مردوں سے اختلاط کا بھی اندیشہ ہو اگرچہ وہاں خاوند بھی معتکف ہو۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ اگر عدم جواز کی بات ہوتی تو انہیں آغاز ہی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم روک دیتے اور آخر میں یہ نہ فرماتے …… کیا یہ نیکی کا ارادہ رکھتی ہیں……؟
➎ احناف میں عورتوں کے گھروں میں اعتکاف بیٹھنے کا رواج ہے، لیکن یہ بلادلیل ہے۔ قرآن و حدیث کی رو سے اعتکاف صرف مسجد ہی میں ہو سکتا ہے۔ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کا عمل بھی اسی کا مؤید ہے، اس لیے عورت مسجد ہی میں اعتکاف بیٹھے، گھر میں نہیں، تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ کسی قسم کے فتنے کا خدشہ نہ ہو۔ آج کل بعض بڑی مرکزی مسجدوں میں عورتوں کے لیے ایسا محفوظ انتظام کر دیا گیا ہے کہ وہاں مردوں سے اختلاط بھی نہیں ہوتا اور ان کی عزت و عصمت کو بھی خطرہ نہیں ہوتا، اس لیے ایسی جگہوں پر اس کی گنجائش ہے۔ واللہ أعلم۔

تنبیہ

ابوسعیدی خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ترکی خیمہ میں اعتکاف کیا، اس کے دروازے پہ بورئیے کا ایک ٹکڑا لٹکا ہوا تھا، آپ نے اس بورئیے کو اپنے ہاتھ سے پکڑا اور اسے ہٹا کر خیمہ کے ایک گوشے کی طرف کر دیا، پھر اپنا سر باہر نکال کر لوگوں سے باتیں کیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1775]

فوائد و مسائل:

(1)۔اعتکاف کے لئے جگہ خیمے کے انداز میں بنائی جا سکتی ہے خصو صاً جب اعتکاف مسجد کے صحن میں کیا جائے اور دھوپ وغیرہ کے بچاؤ کے لئے سائے کی ضرورت ہو۔

(2)۔اعتکا ف کے دوران میں لوگو ں سے ضروری بات کی جا سکتی ہے

(3)غیر مسلم ممالک کا بنا ہوا کپڑا یا دوسری چیز استعمال کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس میں کو ئی ایسی بات نہ ہو جو ہماری شریعت میں ممنوع ہو مثلاً ایسا مردانہ لبا س جو ریشم کا بنا ہوا ہو استعمال کرنا جائز نہیں۔

معیقیب دوسی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتوں کے خیمہ میں اعتکاف فرمایا اور اس کا دروازہ چٹائی کا تھا
معجم الکبیر حدیث ،(٨٣٠) حسن  واللہ أعلم

اعتکاف کی جگہ میں چارپائی اور بستر بھی رکھا جا سکتا ھے جیسا کہ

عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ إِذَا اعْتَكَفَ طُرِحَ لَهُ فِرَاشُهُ أَوْ يُوضَعُ لَهُ سَرِيرُهُ وَرَاءَ أسطوانه التَّوْبَة. رَوَاهُ ابْن مَاجَه
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ اعتکاف فرماتے تو توبہ کے ستون کے پیچھے آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے بستر بچھا دیا جاتا یا چار پائی لگا دی جاتی۔ اسنادہ حسن، رواہ ابن ماجہ۔ رواه ابن ماجه (١٧٧٤)

جس نے یہ نذر مانی ہو کہ میں اعتکاف کروں گا تو اس پر لازم ہے کہ وہ اعتکاف کریں

جیسا کہ
‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ :‏‏‏‏ أَنَّعُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي نَذَرْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَنْ أَعْتَكِفَ لَيْلَةً فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَوْفِ بِنَذْرِكَ.

ترجمہ

عمر (رضی اللہ عنہ ) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ مسجد الحرام میں ایک رات کا اعتکاف کروں گا ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اپنی نذر پوری کر۔

مسند احمد حدیث (٢٤٥١٨)،،(٢٤٥٩٧)،،، (٦٦٩٧) حسن

معتکف کے لئے روزہ رکھنا ضروری نہیں ھے

جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ((لیس علی المعتکف صیام ))

ترجمہ

اعتکاف کرنے والے پر روزہ لازم نہیں ھے الا یہ کہ اگر وہ خود اپنے آپ پر روزہ لازم کرلے (تو روزہ رکھ سکتا ہے )
سنن دارقطنی حدیث (٢٣٥٥)
نوٹ اعتکاف بغیر روزہ جائز ھے لیکن روزے کے ساتھ افضل ھے

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل