فطرانہ کی ادائیگی

 

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِزَكَاةِ الْفِطْرِ قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ فطرانہ، نماز عید سے پہلے ادا کیا جائے۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة: 1509]
فوائد :
صدقہ فطر، مسلمانوں کے ہر فرد پر فرض ہے خواہ وہ روزے رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔ اس با ت کی صراحت احادیث میں موجود ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة: 1503]
اس کی مقدار ایک صاع ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة: 1505]
ہمارے ہاں اعشاری نظام کے مطابق ایک صاع دو کلو، سو گرام کا ہوتا ہے۔ یہ عید کے دن، نماز عید سے پہلے ادا کرنا چاہئے۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔
”جس نے صدقہ فطر نماز سے پہلے ادا کیا تو یہ صدقہ قبول ہو گا اور جس نے اسے نماز عید کے بعد ادا کیا تو یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہے، یعنی صدقہ فطر نہیں ہے۔“ [سنن ابي داود/كِتَاب الزَّكَاةِ: 1609]
البتہ عید سے ایک یا دو دن پہلے ادا کیا جا سکتا ہے جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق حدیث میں ہے کہ وہ صدقہ فطر عید سے ایک یا دو دن پہلے سرکاری طور پر صدقہ و صول کرنے والوں کے حوالے کر دیتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة: 1511]
اس حدیث کے پیش نظر فطرانہ نماز عید سے پہلے ادا کرنا ضروری ہے اگر کوئی نماز عید کے بعد تک اسے موخر کرتا ہے تو ایسا کرنے سے صدقہ فطر ادا نہیں ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اجناس خوردنی سے فطرانہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جَو کھجور، منقی اور پنیر بطور خوراک استعمال ہوتے تھے۔ چنانچہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اپنی خوراک میں سے ایک صاع بطور فطرانہ ادا کرتے تھے اور ان دنوں ہماری خوراک جو، کھجور، منقی اور پنیر ہو ا کرتی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة: 1510]
اس حدیث کے پیش نظر صدقہ فطر ہر اس جنس اس ادا کیا جا سکتا ہے جو سال کے بیشتر حصہ میں بطور خوراک استعمال ہوتی ہو۔ والله اعلم

اس تحریر کو اب تک 2 بار پڑھا جا چکا ہے۔