صدقہ فطر نکالنے کا صحیح وقت اور اسکی فرضیت

عبید اللہ طاہر حفظ اللہ

صدقہ فطر کی فرضیت
❀ «عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم فرض زكاة الفطر صاعا من تمر، أو صاعا من شعير، على كل أو عبد، ذكر أو أنثى من المسلمين. »
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کو ہر مسلمان آزاد و غلام اور مرد و عورت پر فرض کیا، جو ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو ہے۔ [صحيح بخاري 1504، صحيح مسلم 983]

❀ «عن قيس بن سعد رضى الله عنه، قال: أنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بصدقة الفطر قبل أن تنزل الزكاة، فلما نزلت الزكاة لم يأمرنا ولم ينهنا ونحن نفعله . »
حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ کی فرضیت سے پہلے ہمیں صدقہ فطر کا حکم دیا، لیکن جب زکاۃ فرض ہو گئی تو نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ فطر کا حکم دیا اور نہ منع کیا، اور ہم اسے ادا کرتے تھے۔ [سنن نسائي سے 2507، سنن ابن ماجه 1828 صحيح]
نوٹ: جمہور اہل علم کے نزدیک صدقہ فطر فرض ہے، جیسا کہ یہاں ذکر کی گئی پہلی حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ رہی دوسری حدیث تو علامہ بیہقی اس کے بارے میں فرماتے ہیں: یہ حدیث صدقہ فطر کی فرضیت کے سقوط پر دلالت نہیں کرتی، اس لیے کہ ایک دوسری چیز کو فرض کرنے سے پہلی چیز کی فرضیت ساقط ہونا ضروری نہیں ہے۔ اہل علم صدقہ فطر کے وجوب پر متفق ہیں، اگرچہ اسے”فرض“ کا نام دینے میں کچھ اختلاف ہے، لہٰذا اسے ترک کرنا جائز نہیں ہے۔ [السنن الكبري للبيهقي 269/4]
جمہور صدقہ فطر کو ”فرض“، اور احناف ”واجب“ قرار دیتے ہیں، لیکن اس لفظی اختلاف سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور ہر ایک کے نزدیک اسے ادا کرنا ضروری ہے۔ استطاعت ہونے کے باوجود ادا نہ کرنے کی صورت میں گناہگار ہو گا۔
جمہور اہل علم کے نزدیک اس کے لیے نصاب کا مالک ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ ہر امیر و فقیر پر یہ واجب ہے۔ جبکہ احناف کے نزدیک یہ صرف اسی پر واجب ہے جو نصاب کا مالک ہو، اس لیے کہ جو نصاب کا مالک نہ ہو اس کے لیے صدقہ فطر لینا جائز ہے، لہٰذا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس پر صدقہ فطر واجب بھی ہو جائے، مناسب رائے یہی معلوم ہوتی ہے۔
صدقہ فطر بڑے چھوٹے، مرد عورت، آزاد غلام ہر ایک پر واجب ہے۔
گھر کے ذمہ دار مسلمان مرد کے ذمے ہے کہ وہ صدقہ فطر اپنی طرف سے بھی نکالے اور اپنی بیوی بچوں کی طرف سے بھی نکالے اور ہر اس فرد کی طرف سے نکالے جس کی کفالت کا وہ ذمہ دار بنایا گیا ہے جیسے بوڑھے والدین جبکہ وہ خود اپنا صدقہ فطر نکالنے کی استطاعت نہیں رکھتے ہوں۔ گھر کے نوکر اور ملازمین کی طرف سے نکالنا مالک کی ذمہ داری نہیں ہے، خود ملازمین کی ذمہ داری ہے، لیکن اگر کوئی مالک از راہ کرم نکال دے تو جائز ہے اور اسے ملازمین کو اس کی اطلاع دے دینی چاہیے۔
اگر کسی عورت کی اپنی مالی تجارت یا نوکری کی تنخواہ ہے تو اسے صدقہ فطر اپنی خاص کمائی سے نکالنا ہوگا۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو اس کا ذمہ دار شادی کے بعد شوہر ہے اور شادی سے پہلے والدین ہیں۔
وہ بچے جو ابھی تک حمل کی حالت میں ہیں ان کی طرف سے صدقہ فطر کرنا مستحب ہے، ضروری نہیں ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ ایسا کرتے تھے۔

صدقہ فطر کی حکمت
❀ «عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر طهرة للصائم من اللغو والرفث وطعمة للمساكين، من اداها قبل الصلاة فهي زكاة مقبولة، ومن اداها بعد الصلاة فهي صدقة من الصدقات”.»
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کو فرض کیا، جو روزے دار کو فضول اور بیہودہ بات سے پاک کرتا ہے اور مسکینوں کی غذا بنتا ہے، تو جو شخص نماز عید سے پہلے صدقہ فطر ادا کرے گا وہ قبول کیا جائے گا، اور جو نماز کے بعد ادا کرے گا تو وہ دوسرے عام صدقات کی طرح ایک صد قہ ہوگا۔ [سنن ابوداود 1609، سنن ابن ماجه 1827، حسن]

صدقہ فطر کی مقدار
❀ « عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه، يقول:” كنا نخرج زكاة الفطر صاعا من طعام او صاعا من شعير او صاعا من تمر او صاعا من اقط او صاعا من زبيب”. »
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم صدقہ فطر میں ایک صاع گیہوں، یا ایک صاع جو یا ایک صاع کھجور، یا ایک صاع پنیر، یا ایک صاع کشمش نکالتے تھے۔ [صحيح بخاري 1506، صحيح مسلم 985: 17]

❀ «عن ابي سعيد الخدري، قال: ” كنا نخرج إذ كان فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر، عن كل صغير وكبير حر او مملوك صاعا من طعام، او صاعا من اقط، او صاعا من شعير، او صاعا من تمر، او صاعا من زبيب “، فلم نزل نخرجه حتى قدم علينا معاوية بن ابي سفيان حاجا او معتمرا، فكلم الناس على المنبر فكان فيما كلم به الناس، ان قال: إني ارى ان مدين من سمراء الشام تعدل صاعا من تمر، فاخذ الناس بذلك، قال ابوسعيد: فاما انا فلا ازال اخرجه كما كنت اخرجه ابدا ما عشت.»
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان تھے تو ہم صدقہ فطر میں ہر چھوٹے اور بڑے آزاد یا غلام کی طرف سے ایک صاع گیہوں یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع جو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع کشمش نکالا کرتے تھے، ہم مسلسل اسی طرح نکالتے رہے، یہاں تک کہ ہمارے پاس حضرت معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما حج یا عمرہ کرنے کے لیے آئے، تو آپ نے منبر پر لوگوں سے گفتگو کی، اور اس گفتگو میں یہ بھی کہا: ”میرے خیال میں ملک شام کے سرخ گیہوں کے دو مد ایک صاع کھجور کے برابر ہیں، تو لوگوں نے اسی کو لے لیا، (یعنی اسی پر عمل شروع کر دیا)، حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: لیکن میں تو بہرحال جب تک زندہ رہوں گا ہمیشہ اسی طرح ادا کرتا ہوں گا جس طرح ادا کرتا رہا ہوں۔“ [صحيح بخاري 1508، صحيح مسلم 958 : 18،]
الفاظ صحیح مسلم کے ہیں، صحیح بخاری میں مختصر ہے۔

❀ «عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه، قال:”كنا نخرج فى عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الفطر صاعا من طعام”، وقال ابوسعيد: وكان طعامنا الشعير والزبيب والاقط والتمر.»
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عہد نبوی میں ہم عید الفطر کے دن ایک صاع کھانا نکالتے تھے۔ نیز وہ فرماتے ہیں:”اور ہمارا کھانا جَو، کشمش، پنیر اور کھجور تھی۔“ [صحيح بخاري 1510]
نوٹ: صاع ایک ناپنے کا پیمانہ ہے۔ اگر اس پیمانے سے گیہوں کو ناپا جائے تو ایک صاع گیہوں کا وزن دو کلو 176 گرام کے برابر ہوگا۔ اور اگر اس سے کسی دوسری ہلکی یا بھاری چیز کو ناپا جائے تو اس کا وزن الگ ہوگا۔ اس لیے گیہوں کے علاوہ کوئی دوسری چیز صدقہ فطر میں نکالنے کی صورت میں اندازہ لگا لیں کہ وہ چیز گیہوں سے ہلکی ہے یا بھاری، اور اسی لحاظ سے اس میں کچھ کمی بیشی کر لیں۔ یہ یاد رکھیں کہ اگر ہم اللہ کی راہ میں کچھ زیادہ خرچ کر دیں تو یہ ہمارے لیے فائدے ہی کا سودا ہے۔
ایک چوتھائی صاع کے برابر ہوتا ہے، اس طرح دو مد کا مطلب آدھا صاع ہوا۔
صدقہ فطر کسی بھی ایسی چیز سے نکالا جاسکتا ہے جو کسی شہر میں غذا کے طور پر استعمال ہوتی ہو اور حلال ہو، جیسے کھجور، جَو، گیہوں، چاول، آناج، دال وغیرہ۔
اور رہا نقدی کی شکل میں صدقہ فطر نکالنا: تو جمہور کے نزدیک صدقہ فطر کے طور پر نقد قیمت نہیں نکالی جا سکتی، اس لیے کہ حدیث میں چند چیزوں کا تذکرہ ہے، اس لیے انہیں کی پابندی کرنی ضروری ہے۔ جبکہ احناف کے نزدیک نقد قیمت نکالی جا سکتی ہے، اس لیے کہ صدقہ فطر کا ایک مقصد فقراء و مساکین کی ضروریات کی تکمیل ہے، اور یہ مقصد نقد قیمت نکالنے کی صورت میں زیادہ بہتر طور پر حاصل ہوتا ہے، اس لیے کہ اس صورت میں فقیر ترجیحی بنیادوں پر اپنی ضروریات کی خریداری کر سکتا ہے، جبکہ صرف غلے سے وہ اپنی بہت سی اہم ضروریات کی تکمیل نہیں کر سکتا۔ نیز حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ملک شام کے آدھے صاع سرخ گیہوں کو ایک صاع کھجور کے برابر قرار دیا، اس سے معلوم ہوا کہ قیمت کا اعتبار کر کے اسی کے بقدر کوئی دوسری چیز بھی نکالی جا سکتی ہے۔

صدقہ فطر نکالنے کا وقت
❀ « عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما : أن النبى صلى الله عليه وسلم أمر بزكاة الفطر قبل خروج الناس إلى الصلاة. »
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کو لوگوں کے نماز عید کے لیے جانے سے پہلے نکالنے کا حکم دیا ہے۔ [صحيح بخاري 1509، صحيح مسلم 986۔]

❀ «عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، قال: فرض النبى صلى الله عليه وسلم صدقة الفطر… وكانوا يعطون قبل الفطر بيوم أو يومين. »
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کو فرض کیا، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسے عید سے ایک یا دو دن پہلے نکال دیتے تھے۔ [صحيح بخاري 1511]

❀ «عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال:” فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر طهرة للصائم من اللغو والرفث وطعمة للمساكين، من اداها قبل الصلاة فهي زكاة مقبولة، ومن اداها بعد الصلاة فهي صدقة من الصدقات.»
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کو فرض کیا، جو روزے دار کو فضول اور بیہودہ بات سے پاک کرتا ہے اور مسکینوں کی غذا بنتا ہے، تو جو شخص نماز عید سے پہلے صدقہ فطر ادا کرے گا وہ قبول کیا جائے گا، اور جو نماز کے بعد ادا کرے گا تو وہ دوسرے عام صدقات کی طرح ایک صد قہ ہوگا۔ [سنن ابوداود 1609، سنن ابن ماجه 1827، حسن]
نوٹ: رمضان کے آخری دن غروب آفتاب سے صدقہ فطر واجب ہو جاتا ہے، اور نماز عید سے قبل اس کا نکالنا ضروری ہے، لیکن رمضان کے آغاز سے ہی صدقہ فطر نکالا جا سکتا ہے، کیونکہ صدقہ فطر کی ایک حکمت غرباء اور مساکین کی مدد کرنا ہے، اس لیے اسے ان تک اتنے پہلے پہنچا دینا بہتر ہے جس سے کہ انہیں اپنی ضروریات کی فراہمی کا مناسب موقع مل جائے۔

اس تحریر کو اب تک 7 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply