تعویذ کے متعلق شرعی موقف

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی حفظ اللہ سوال : کیا اسلام تعویذ پہننے کی اجازت دیتا ہے اور اس کا کوئی ثبوت شریعت سے ملتا ہے ؟ جواب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : من علق شيئا وكل اليه ’’ جس نے کوئی بھی چیز لٹکائی اسے اس کے سپرد کر دیا جائے گا۔ “ [مسند احمد : 4/ 311، حاكم : 4/ 216] اس مفہوم کی اور بھی احادیث موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بیماری سے بچنے کے لیے کچھ بھی نہیں لٹکانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سے شفا کی درخواست کرتے رہنا چاہیے۔ شرکیہ دم اور تعویذات لٹکانا تمام شرک ہے۔ فتح المجید شرح کتاب التوحید میں ہے کہ تمیمہ وہ منکے یا ہڈیاں ہیں جو نظر بد سے دور رکھنے کے لیے بچوں کے گلے میں لٹکائی جاتی ہیں۔ بیماری سے بچاؤ…

Continue Readingتعویذ کے متعلق شرعی موقف

بدعتیوں کی اذان کا جواب

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ سوال : کیا ایک ہی وقت میں ہونے والی متعدد اذانوں کا جواب دینا ضروری ہے؟ نیز بدعتیوں کی اذان کا جواب دینا درست ہے ؟ جواب : اذان کا جواب دینے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اِذَا سَمِعْتُمُ النِّدَاءَ فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا يَقُوْلُ الْمُؤَذِّنُ [ أبوداؤد، كتاب الصلاة : باب ما يقول اذا سمع المؤذن 522 ] ”جب تم اذان سنو تو اسی طرح کہو جیسے مؤذن کہتا ہے۔ “ اس روایت کی روشنی میں بعض کے نزدیک اذان کا جواب دینا واجب ہے اور بعض کے نزدیک مستحب۔ واجب بھی ہو تو صرف ایک اذان کا جواب دینا کافی ہے باقی سب کا آپ جواب نہ بھی دیں تو کوئی حرج نہیں، دے دیں تو بہرحال ثواب کا کام ہے۔ باقی رہا اہل بدعت کی اذان کا جواب…

Continue Readingبدعتیوں کی اذان کا جواب

کونسا نجد فتنوں کی سرزمین ہے؟

تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

ہمارے ہاں نجد سے متعلق عجیب و غریب باتیں سنائی دیتی ہیں۔ بعض لوگ نجد عراق کے بارے میں مروی صحیح احادیث کی مراد میں تلبیس سے کام لیتے ہوئے انہیں نجد حجاز پر منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی توحید پر مبنی اصلاحی تحریک کو نجد کا فتنہ قرار دیتے ہیں۔ ان صحیح احادیث کی حقیقی مراد کیا ہے ؟ پرفتن نجد کون سا ہے ؟ اس میں پھوٹنے والے فتنے کون سے ہیں ؟ شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے بارے میں مذکورہ لاف زنی کی کیا حقیقت ہے ؟ اس مضمون میں غیرجانبداری سے ان امور کا جائزہ لیا جائے گا۔

اس تحقیقی مضمون کاخاکہ کچھ یوں ہے کہ سب سے پہلے نجد کے پرفتن ہونے کے بارے میں مروی وہ احادیث مع ترجمہ ذکر کی جائیں گی جو محدثین کے اصول کے مطابق بالکل صحیح ہیں۔ پھر کچھ صحیح احادیث ہی کے ذریعے ان صحیح احادیث کی تفسیر و تشریح کی جائے گی۔ آخر میں مسلمہ فقہائے کرام، معروف شراحِ حدیث اور نامور اہل علم کے اقوال کی روشنی میں اس تحقیق کی تائید پیش کی جائے گی۔

آئیے سب سے پہلے نجد کے بارے میں صحیح احادیث ملاحظہ فرمائیں :
حدیث نمبر ①
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللهم بارك لنا في شامنا، اللهم بارك لنا في يمننا قالوا : يا رسول الله وفي نجدنا ؟ قال : اللهم بارك لنا في شامنا اللهم بارك لنا في يمننا قالوا : يا رسول الله وفي نجدنا ؟ فاظنه قال في الثالثة : هناك الزلازل والفتن وبها يطلع قرن الشيطان .
’’ اے اللہ ! ہمارے لیے ہمارے شام کو بابرکت بنا دے، اے اللہ ! ہمارے لیے ہمارے یمن کو بابرکت بنا دے۔ صحابہ کرام نے عرض کی : اللہ کے رسول ! اور ہمارے نجد میں ؟ فرمایا : اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے شام اور یمن میں برکت دے۔ صحابہ کرام نے پھر عرض کی : اے اللہ کے رسول! اور ہمارے نجد میں بھی ؟ میرے خیال میں تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے۔ شیطان کا سینگ بھی وہیں طلوع ہو گا۔ ‘‘ [ مسند الإمام أحمد : 118/2، صحيح البخاري : 1051/2، ح : 1709، سنن الترمذي : 3953]

حدیث نمبر ②
❀ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مستقبل المشرق يقول : الا إن الفتنة هاهنا الا إن الفتنة هاهنا من حيث يطلع قرن الشيطان .
”انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ مشرق کی طرف رخ کیے ہوئے فرما رہے تھے : آگاہ رہو، فتنہ یہیں سے رونما ہو گا، یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوگا۔“ [ صحيح البخاري : 1050/2، ح : 7093، صحيح مسلم : 4/2 39، ح : 7292]

حدیث نمبر ③
❀ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی راوی ہیں :
انه قام إلى جنب المنبر فقال : الفتنة ها هنا، الفتنة ها هنا، من حيث يطلع قرن الشيطان او قال قرن الشمس .
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر کی ایک جانب کھڑے ہوئے اور فرمایا : فتنہ یہیں سے ابھرے گا، فتنہ یہیں سے ابھرے گا اور یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔“ [ صحيح بخاري : 1050/2، ح : 7092، صحيح مسلم : 394/2، ح : 2905، 47]

❀ صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ یہ ہیں :
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال، وهو مستقبل المشرق : ها ! إن الفتنة هاهنا، ها ! إن الفتنة هاهنا، ها ! إن الفتنة هاهنا، من حيث يطلع قرن الشيطان .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف رخ کیے ہوئے فرمایا : خبردار! فتنے یہاں سے رونما ہوں گے اور شیطان کا سینگ بھی یہیں سے طلوع ہو گا۔“

(more…)

Continue Readingکونسا نجد فتنوں کی سرزمین ہے؟

گھوڑاحلال ہے!

گھوڑا حلال ہے، کیونکہ : ➊ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : نحرنافرساعلي وعهدرسول الله صلى الله عليه وسلم فأكلناه۔ ”ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں گھوڑا ذبح کیا، پھر اس کوکھا لیا۔“ [صحيح البخاري : 829/2، ح : 5519، صحيح مسلم 150/2، ح : 1942] ❀ سنن نسائی [4426، وسندہ صحيح] کی روایت میں ہے : ونحن بالمدينة، فأكلناه . ”ہم اس وقت مدینہ میں تھے، پھر ہم نے اسے کھایا۔“ ◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ [701۔ 477ھ] یہ روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : فهذه ادل وأقوي و أثبت، و إلى ذلك صار جمهور العلماء، مالك، والشافعي، و أحمد، و اصحابهم، و اكثر السلف والخلف۔ ”یہ حدیث زیادہ بہتر دلیل، زیادہ قوی اور زیادہ ثابت ہے، جمہور علمائے کرام، جیسے امام مالک، امام شافعی، امام احمد…

Continue Readingگھوڑاحلال ہے!

زمین کو ٹھیکے پر دینے کا شرعی جواز

تحریر :حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ دنیاوی معاملات میں چونکہ اصل اباحت ہے اور حرمت کا ثبوت کسی صحیح و صریح دلیل کا محتاج ہوتا ہے، لہٰذا اس اصول کے تحت زمین کو کرایہ، یعنی ٹھیکہ پر دینا بالکل جائز و درست ہے۔ اس کے خلاف کوئی دلیل نہیں۔ رہا سیدنا رافع بن خدیج اور دوسرے کئی صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زمین کو ٹھیکے پر دینے کی ممانعت کرنا تو اس سے مراد حرمت نہیں، بلکہ محض نرمی کی ہدایت ہے۔ اگر کوئی خود زمین کاشت نہیں کرتا تو کسی دوسرے مسلمان کو بغیر عوض کے زمین دے دینا اس کے لیے بہتر اور کار ثواب ہے۔ رہا ٹھیکے پر دینے کا عمل تو اس میں سے صرف ظلم و زیادتی والی صورتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ممنوع قرار…

Continue Readingزمین کو ٹھیکے پر دینے کا شرعی جواز

حلال جانور کے حرام اعضاء؟

تحریر : ابوعبداللہ ذبح کے وقت بہنے والا خون بالاتقاق حرام ہے اس کے علاوہ حلال جانور کے تمام اعضاء و اجزا ء حلال ہیں، لیکن حنفیوں، دیوبندیوں اور بریلویوں کے نزدیک حلال جانور میں سات اجزاء حرام ہیں۔ ◈ ابنِ عابدین حنفی لکھتے ہیں : المكروه تحريما من الشاة سيع : الفرض، والخصية، الخدة والدم المسفوح، المرارة، والمثانة، والمذاكبر۔ ” شاة (بکری، بکرے، بھیڑ اور دبنے) میں یہ سات چیزیں مکروہ تحریمی ہیں : فرج (پیشاب کی جگہ)، کپورے، غدود، ذبح کے وقت بہنے والا خون، پتہ، مثانہ اور نر کا آلہ تناسل۔“ [العفودالدرية لابن عابدين : 56] ◈ جناب رشید احمد گنگو ہی دیوبندی صاحب کہتے ہیں : ”سات چیزیں حلال جانور کی کھانی منع ہیں : ذکر، فرج مادہ، مثانہ، غدود، حرام مغز جو پشت کے مہرہ میں ہوتا ہے، خصیہ، پتہ یعنی مرارہ جو کلیجہ میں تلخ پانی کا…

Continue Readingحلال جانور کے حرام اعضاء؟

تبرکات کی شرعی حیثیت

تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری یہ نہایت اہم مسئلہ ہے، کیونکہ بسا اوقات اس کی وجہ سے توحید کے منافی اقوال و افعال سرزد ہو جاتے ہیں، اولیاء و صلحاء کی عبادت کا بنیادی سبب ان کی ذات، آثار اور قبور کو متبرک سمجھنا تھا، شروع میں انہوں نے ان کے جسموں کو تبرک کی نیت سے چھوا، پھر ان کو پکارنے لگے، ان سے مدد مانگنے لگے، پھر ان اولیاء سے کام آگے بڑھا تو مختلف جگہیں، جمادات اور اوقات کو متبرک سمجھنے جانے لگے۔ دراصل تبرک کا معنٰی یہ ہے کہ اجر و ثواب اور دین و دنیا میں اضافے کے لیے کسی مبارک ذات یا وقت سے برکت حاصل کرنا۔ محققین علماء کے نزدیک تبرک کی دو قسمیں ہیں: ➊ مشروع تبرک: جسے اللہ و رسول نے جائز قرار دیا ہو۔ ➋ ممنوع تبرک: جو جائز تبرک میں شامل…

Continue Readingتبرکات کی شرعی حیثیت

دینی تعلیم و تدریس پر اجرت کا جواز

جناب ضیاء الحق صاحب ، نیو ٹاؤن راولپنڈی کے نام وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، آپ نے کسی نامعلوم و مجہول شخص کا لکھا ہوا پمفلٹ ”دینداری اور دکانداری“ بھیجا ہے جس کے بتیس (۳۲) صفحات ہیں۔ اس پمفلٹ کے مفصل جواب کے لئےمحترم مولانا ڈاکٹر ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظه اللہ کی کتاب دینی امور پر اجرت کا جواز پڑھ لیں۔کتاب کے کل صفحات: ۸۰ مطبوعہ : مکتبہ دار الرحمانیہ، جامع مسجد رحمانیہ ، نزد بوہرہ پیر، کراچی۔ مختصراً عرض ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن أحق ما أخذتم عليه أجرا كتاب الله [ صحيح البخاري : ۵۷۳۷ ] ”تم جس پر اجرت لیتے ہو ان میں سب سے زیادہ مستحق کتاب اللہ ہے ۔ “ اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ کتاب الإجارہ، باب ما یعطی فی الرقیۃ علی أحیاء العرب بفاتحۃ الکتاب…

Continue Readingدینی تعلیم و تدریس پر اجرت کا جواز

End of content

No more pages to load