بدعتیوں کی اذان کا جواب

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا ایک ہی وقت میں ہونے والی متعدد اذانوں کا جواب دینا ضروری ہے؟ نیز بدعتیوں کی اذان کا جواب دینا درست ہے ؟
جواب : اذان کا جواب دینے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اِذَا سَمِعْتُمُ النِّدَاءَ فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا يَقُوْلُ الْمُؤَذِّنُ [ أبوداؤد، كتاب الصلاة : باب ما يقول اذا سمع المؤذن 522 ]
”جب تم اذان سنو تو اسی طرح کہو جیسے مؤذن کہتا ہے۔ “
اس روایت کی روشنی میں بعض کے نزدیک اذان کا جواب دینا واجب ہے اور بعض کے نزدیک مستحب۔ واجب بھی ہو تو
صرف ایک اذان کا جواب دینا کافی ہے باقی سب کا آپ جواب نہ بھی دیں تو کوئی حرج نہیں، دے دیں تو بہرحال ثواب کا کام ہے۔ باقی رہا اہل بدعت کی اذان کا جواب دینے کا مسئلہ تو اذان بہرحال اذان ہے۔ آپ اس کا جواب دیں۔ ان کی
بدعت کلمۂ حق پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ غلطی کا گناہ ان پر ہے۔ آپ ان کے ساتھ صرف حق میں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی
کتاب صحیح بخاری میں سیدنا حسن بصری رحمہ اللہ کا اثر نقل کرتے ہیں، ان سے بدعتی امام کی اقتدا کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا :
فَصَلِّ وَعَلَيْهِ بِدْعَتُهُ [ بخاري، كتاب الصلاة : باب إمامة المفتون المبتداء ]
”تم نماز پڑھو اور اس کی بدعت اس پر ہے۔ “
اسی طرح عبیداللہ بن عدی بن خیار، جن دنوں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ محصور تھے، ان کے پاس تشریف لائے۔ سوال کیا کہ آپ کو تو امامت عامہ کا حق تھا لیکن اب جو کچھ آپ کے ساتھ گزر رہی ہے، ہمیں معلوم ہے۔ ہمیں باغیوں کا امام نماز پڑھائے تو ہم دل تنگ کرتے ہیں۔ تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :
”لوگوں کے اعمال میں سے بہترین عمل نماز ہے، جب وہ نیکی کریں تو ان کے ساتھ نیکی کرو اور جب وہ برے کام کریں تو تم ان کی برائیوں سے بچو۔ “ [ بخاري، كتاب الصلاة : باب إمامة المفتون المبتداء ]

اس تحریر کو اب تک 3 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply