یوسف علیہ السلام اور بھائیوں کے درمیان شیطان کا دخل

تالیف: ڈاکٹر رضا عبداللہ پاشا حفظ اللہ

192۔ کیا یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں میں واقع ہونے والے معاملے میں شیطان کا کوئی دخل تھا ؟
جواب :
جی ہاں!
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
قَالَ يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَىٰ إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿٥﴾
اس نے کہا : اے میرے چھوٹے بیٹے ! اپنا خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا، ورنہ وہ تیرے لیے تدبیر کریں گے، کوئی بری تدبیر۔ بے شک شیطان انسان کا کھلا دن ہے۔ [یوسف: 5]
یعنی سیدنا یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹے یوسف علیہ السلام سے کہا کہ تو اسے اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا، تا کہ وہ تیرے خلاف کوئی حیلہ نہ گھڑ لیں، جس میں وہ تجھے ہلاک کر دیں۔
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اپنے معاملات کو پورا کرنے میں ’’چھپانے‘‘ کے ساتھ مدد حاصل کرو، اس لیے کہ ہر نعمت سے حسد کیا جاتا ہے۔ دوسری آیت میں خود یوسف علیہ السلام اس معاملے کو شیطان کا کارنامہ قرار دے رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ۖ وَقَالَ يَا أَبَتِ هَٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا ۖ وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُم مِّنَ الْبَدْوِ مِن بَعْدِ أَن نَّزَغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِي وَبَيْنَ إِخْوَتِي ۚ إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِّمَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ﴿١٠٠﴾
”اور اس نے اپنے ماں باپ کو تخت پر اونچا بٹھایا اور وہ اس کے لیے سجدہ کرتے ہوئے گر پڑے اور اس نے کہا: اے میرے باپ! یہ میرے پہلے کے خواب کی تعبیر ہے، بے شک میرے رب نے اسے سچا کر دیا اور بے شک اس نے مجھ پر احسان کیا، جب مجھے قید خانے سے نکالا اور میں صحرا سے لے آیا، اس کے بعد کہ شیطان نے میرے درمیان اور میرے بھائیوں کے درمیان جھگڑا ڈال دیا۔ بے شک میرا رب جو چاہے اس کی باریک تدبیر کرنے والا ہے، بلاشبہ وہی سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ “ [يوسف: 100 ]
أَبَوَيْهِ کے مفہوم میں دو قول ہیں۔ ایک یہ کہ ان کی ماں زندہ تھی اور دوسرے یعقوب علیہ السلام تھے۔ دوسرا یہ کہ ان کی ماں اس سے قبل فوت ہو گئی تھیں اور یعقوب علیہ السلام کے ساتھ یوسف علیه کی خالہ تھیں۔
عرش پر بٹھانے سے مراد تخت پر بٹھانا ہے۔ خَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ۖ یعنی یوسف کو اس کے والدین اور باقی بھائیوں نے تعظیمی سجدہ کیا اور وہ گیارہ بھائی تھے۔ یوسف علیہ السلام نے اپنے باپ کو بتایا کہ یہ ہے میرے بیان کردہ خواب کی تعبیر، ان لوگوں کی شریعت میں یہ مشہور تھا کہ جب وہ کسی بڑے کو سلام کہتے تو اسے سجدہ بھی کرتے تھے، یہ کام آدم علیہ السلام سے لے کر عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت تک تو جائز رہا لیکن اس امت کے لیے اسے حرام کر دیا گیا اور سجدہ صرف اللہ کی ذات کے لیے خاص کر دیا گیا۔ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا ۖ یعنی اللہ نے اسے صحیح اور سچا بنایا وَجَاءَ بِكُم مِّنَ الْبَدْوِ یعنی دیہات سے اور وہ ارض فلسطین میں اقامت پذیر تھے۔ مِن بَعْدِ أَن نَّزَغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِي وَبَيْنَ إِخْوَتِي ۚ یعنی جب اس نے کسی کام کا ارادہ کیا، اللہ نے اس کے اسباب مہیا کیے، اس پر قدرت دی اور اسے آسان بنایا۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ یعنی وہ اپنے بندوں کی مصلحتوں کو خوب جانتا اور اپنے اقوال و افعال اور فیصلوں میں بڑی حکمت والا ہے۔

اس تحریر کو اب تک 5 بار پڑھا جا چکا ہے۔