کیا ایک مسجد میں دو موذن بھی رکھے جا سکتے ہیں؟

تحریر : ابو ضیاد محمود احمد غضنفر حفظ اللہ

وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ لَا مُؤْذِّنَانِ بِلَالٌ، وَابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ الْأَعْمَى
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو موذن تھے بلال اور نابینا عبداللہ بن ام مكتوم ۔
تحقيق و تخریج :
مسلم : 380
فوائد :
➊ موزن مقرر کرنا درست ہے ایک مسجد میں دو موزن بھی رکھے جا سکتے ہیں مؤذنوں کے مابین اذانوں کی تقسیم کاری بھی درست ہے ۔
➋ اذان دینے والوں کے رنگ و نسل و ذات پات کو اسلام نہیں دیکھتا صرف میرٹ یہ ہے کہ اذان دینے والا اچھا لہجہ،خوبصورت اور بلند آواز کا حامل مسلمان ہو اسلام نے حبشہ کا باشندہ دیکھا، نہ کسی کا نابینا پن دیکھا ۔ بلال رضی اللہ عنہ حبشہ سے آئے مؤذن اسلام بنے اور عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اندھے صحابی تھے تو ان کو اذان و امامت کا منصب سونپا گیا ۔
➌ دور نبوی میں موذنین فی سبیل اللہ اذانیں کہا کرتے تھے بعد میں بھی ایسے عمل رہا حقیقت میں موزن بغیر معاوضہ کے مقرر کرنا چاہیے مصروفیات کے پیش نظر موذن کبھی کچھ چھوڑ کر صرف اذانیں دیتا ہو تمام تر وقت اور توجہ مسجد میں لگاتا ہونا گزر وجوہات کی بنا پر معاوضہ متاخرین علماء جائز قرار دیتے ہیں ۔

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔