چاندی کے ریال کی بیع کا حکم

مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

124- چاندی کے ریال کی کاغذی ریال کے ساتھ اضافے کے ساتھ بیع کا حکم
اس مسئلے میں اشکال ہے، کچھ علماء عصر اس کے جواز کے بالجزم قائل ہیں، کیونکہ کاغذ چاندی نہیں، کچھ دوسرے اس کی حرمت کے قائل ہیں، کیونکہ کاغذ لوگوں کے ہاں رائی کرنسی ہے اور چاندی قائم مقام ہے، لہٰذا یہ حکم میں اس کے ساتھ ملحق ہے۔
جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے تو آج کی تاریخ تک میرا دل ان اقوال میں سے کسی ایک پر بھی مطمئن نہیں، اور میری رائے کے مطابق اسے ترک کر دینے ہی میں زیادہ احتیاط ہے کیونکہ فرمان نبوی ہے:
«دع ما يريبك إلى مالا يريبك» [سنن الترمذي، رقم الحديث 2518 سنن النسائي، رقم الحديث 5711]
”جو چیز تجھے شک میں ڈالتی ہے، اسے چھوڑ کر وہ اپنا لو جو شک میں نہیں ڈالتی۔“
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«من اتقى الشبهات فقد استبرأ لدينه وعرضه» [سنن أبى داود، رقم الحديث 3330]
”جو شبہات سے بچ گیا تو اس نے اپنا دین اور عزت بچالی۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
”نیکی حسن خلق ہے، اور گناہ وہ جو تیرے سینے میں کھٹکے اور تو ناپسند کرے کہ لوگ اس پر مطلع ہوں۔“ [صحيح مسلم 2553/14]
لہٰذا اس جیسی مثال میں احتیاط اسی میں ہے کہ آدمی چاندی کو کسی دوسری سونے وغیرہ کی طرح کی کسی جنس کے بدلے فروخت کرے، پھر اس کی کاغذی نقدی خریدے، اور اگر وہ جس کے پاس کاغذی نقدی ہو، وہ چاندی خریدنا چاہتا ہو تو اس نقدی کو سونے وغیرہ کے بدلے فروخت کرے، پھر اس سے اپنی مطلوبہ چاندی خرید لے۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 166/19]

اس تحریر کو اب تک 3 بار پڑھا جا چکا ہے۔