نمازیں اوقات مقررہ میں پڑھنی چاہئیں

تحریر : ابو ضیاد محمود احمد غضنفر حفظ اللہ

وَعَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ لَا يَوْمَ الْأَحْزَابِ: شَغَلُونَا عَنِ الصَّلَاةِ الْوُسْطَى صَلَاةِ الْعَصْرِ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ مَلَّا اللَّهُ بُيُوتَهُمُ وَقُبُورَهُمْ نَارًا، ثُمَّ صَلَاهَا بَيْنَ الْعِشَاءَ يُنِ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا : کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احزاب کے دن : ”ان لوگوں نے نماز وسطی یعنی نماز عصر سے ہمیں مشغول رکھا یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھرے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز دو عشاؤں یعنی مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھی ۔“
تحقیق و تخریج : مسلم : 627
وَقَدْ تَبَيَّنَ حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ عَلَى اللهِ صَلَّى الْعَصْرَ بَعْدَمَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَصَلَّى بَعْدَهَا الْمَغْرِبَ
جابر بن عبداللہ ان کی حدیث واضح ہو گئی ہے” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علیم نے عصر کی نماز سورج غروب ہونے کے بعد پڑھی، اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی ۔ “
تحقيق وتخریج : البخاری : 596، 4113٬945٬641٬598 ، مسلم : 631۔
فوائد :
➊ نمازیں اوقات مقررہ میں پڑھنی چاہئیں اگر کسی اہم کام کی وجہ سے تاخیر ہو جائے تو بعد میں پڑھی جا سکتی ہیں ۔
➋ نماز عصر کا بہت زیادہ مقام ہے اس کو قرآن و حدیث میں صلوٰۃ وسطی کانام دیا گیا ہے ۔ اور یہ بات زیادہ صحیح ہے ۔
➌ مشغولیت کے پیش نظر کئی نمازیں اکٹھی پڑھی جا سکتی ہیں ۔
➍ اگر عصر کی نماز کا وقت ہوا بھی جماعت میں کچھ ٹائم باقی ہو تو ظہر یا فجر کی رہی ہوئی نماز عصر کی جماعت سے قبل پڑھ سکتے ہیں اس کے بعد عصر باجماعت ہو جائے گی ۔
➎ کافروں کو بددعا دینا اور ان کے خلاف الفاظ بددعا نکالنا درست ہے ۔
➏ ایک مومن اپنی نماز کا بہت خیال رکھتا ہے ۔ فوراً موقع پاکر فوت شدہ نمازوں کی قضائی دیتا ہے ۔ اور ہر وقت نماز پڑھنے کا اہتمام کرتا ہے اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کفار کے ساتھ لڑنا اسلام نے درست قرار دیا ہے صرف اعلائے کلمتہ اللہ کی خاطر کسی جنگ کانام کسی وصف یا جگہ کے نام پر رکھنا جائز ہے جیسے بدر اور یہ جگہوں کے نام ہیں ”احزاب“ یہ عدد کثیر گروہوں کا نام ہے ۔

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔