شادی کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے کھانا کھلانا

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

شادی کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے کھانا کھلانا
سوال : آپ کا مضمون شادی کے کھانے کی شرعی حیثیت غزوہ میں نظروں سے گزرا، آپ نے ولیمے پر مدلل بحث کی ہے مگر اصل مسئلہ شادی ہال میں لڑکی والوں کی طرف سے دی جانے والی دعوت ہے جس پر آج کل اخبارات میں بھی بحث جاری ہے قرآن و سنت کی روشنی میں اس پر بھی تفصیلاً روشنی فرمائے تاکہ لوگوں کی غلط فہمیاں دور ہوں؟
جواب : اگر آپ اس مضمون کو غور سے پڑھتے تو اس سوال کا جواب آپ کو اس مضمون میں مل جاتا۔ قرآن و سنت کی رو سے شادی کے موقع پر جو دعوت ثابت ہے وہ ولیمہ ہے، جس کے میں نے کئی ایک دلائل ذکر کیے اور محدثین نے جو دعوت کی اقسام بیان کی ہیں ان کا بھی اجمال سے تذکرہ کیا ہے۔ جس سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ لڑکی والوں کے گھر لڑکے والے جو بارات لے کر جاتے ہیں اور لڑکی والے اپنے دوست احباب کو بلاتے ہیں اور پھر ان سب کے لئے ضیافت کا بندوبست کیا جاتا ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں۔ بارات کے بارے میں راقم نے غزوہ میں پہلے بحث کر دی ہے کہ موجودہ بارات کا تصور اسلام میں نہیں ہے اور ہمیں خیرالقرون میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ شادی کے موقع پر جو دعوت ہوتی ہے وہ ولیمہ ہی ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کے موقع پر بھی ہوا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی آپ نے ولیمہ کرنے کے لیے کہا:۔ لہٰذا شادی پر یہی دعوت ہونی
چاہیئے خواہ شادی ہال میں ہو یا کسی حویلی اور گھر میں، یہی شرعاً ثابت ہے۔

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔