مشت و انگشت زني كا حكم

 

تحریر: فتویٰ علمائے حرمین

سوال: مشت و انگشت زنی کا کیا حکم ہے؟
جواب: ہمیں اس عادت (بد) کے حرام ہونے میں شک نہیں ہے کیونکہ اس کی حرمت کے دو سب ہیں:
1۔ پہلا سبب: اللہ تعالیٰ کا مومنوں کے اوصاف جمیلہ بیان کرتے ہوئے فرمان ہے۔
«قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ‎ ﴿١﴾ ‏ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ‎ ﴿٢﴾ ‏ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ‎ ﴿٣﴾ ‏ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ ‎ ﴿٤﴾ ‏ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ‎ ﴿٥﴾ ‏ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ‎ ﴿٦﴾ ‏ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ» [23-المؤمنون: 1]
”یقیناًً کامیاب ہو گئے مومن۔ وہی جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔ اور وہی جو لغو کاموں سے منہ موڑنے والے ہیں۔ اور وہی جو زکوۃ ادا کرنے والے ہیں۔ اور وہی جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ مگر اپنی بیویوں یا ان (عورتوں) پر جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ بنے ہیں تو بلاشبہ وہ ملامت کیے ہوئے نہیں ہیں، پھر جو اس کے سوا تلاش کرے تو وہی لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں۔“
امام شافعی رحمہ اللہ نے اس آیت سے مشت و انگشت زنی کی حرمت پر دلیل نکالی ہے، پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سچے مومنوں کے لیے اپنی شہوت کو پور ا کرنے کے دو راستے متعین فرمائے ہیں: آزاد عورتوں سے شادی کرنا یا لونڈیوں سے (قضاء شہوت کا) فائدہ اٹھانا، پھر اس کے بعد کہا:
«فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ» [‎23-المؤمنون: 7]
”پھر جو اس کے سوا تلاش کرے تو وہی لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں۔“
یعنی جس شخص نے شہوت زانی کے لیے (آزاد عورتوں سے) شادی اور لونڈی (سے قضاء شہوت کرنے) کے علاوہ کوئی اور راستہ تلاش کیا تو وہ حد سے تجاوز کرنے والا ظالم ہے۔
2۔ دوسراسبب: بلاشبہ طبی لحاظ سے یہ بات ثابت ہے کہ ایسا کرنے والے کا انجام بہت برا ہوتا ہے، نیز اس عادت سے صحت بگڑ جاتی ہے، خاص طور پر ان لوگوں کی جو صبح و شام اس کے مرتکب ہوتے ہیں، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا ضرر ولا ضرار» [حسن۔ مسند أحمد، رقم الحديث 2867]
”نہ نقصان اٹھاؤ اور نہ نقصان پہنچاؤ۔“
لہٰذا مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے کام میں منہمک ہو جس سے خود اس کو یا کسی دوسرے کو نقصان پہنچتا ہو۔
یہاں پر ایک اور چیز کا ذکر کر دینا بھی ضروری ہے، وہ یہ کہ اس عادت کو اختیار کرنے والے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی صادق آتا ہے۔
«أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَىٰ بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ» [2-البقرة: 61]
”کیا تم وہ چیز جو کمتر ہے اس چیز کے بدلے مانگ رہے ہو جو بہتر ہے۔“
بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی ثابت ہے:
«يا معشر الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج، ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء» [صحيح البخاري، رقم الحديث 4779 صحيح مسلم، رقم الحديث 1400]
”اے نوجوانو کی جماعت ! جو شخص تم میں سے گھر بسانے کی طاقت رکھتا ہے وہ شا دی کر لے، پس بلاشبہ شادی نگاہوں کو (ان میں حیاء پیدا کر کے) جھکانے والی اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والی ہے، اور جو شادی کی طاقت نہیں رکھتا وہ روزہ رکھے، کیونکہ روزہ رکھنے سے شہوت ٹھنڈی پڑ جائے گی۔“ (محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ)

سوال: مشت زنی کی عادت کو اختیار کرنے کا کیا حکم ہے؟ کیا کتاب و سنت میں اس کی حر مت پر کوئی دلیل موجود ہے؟
جواب: مشت زنی کی عادت حرام ہے، کیونکہ یہ مضر صحت ہے اور اس کی خرابیاں بہت زیادہ ہیں۔
اہل علم نے اس کی حرمت پر سورہ مومنوں میں موجود اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے استدلال کیا ہے:
«فمن ابتغي ور اء ذلك فأولئك هم العادونه» «فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ» [23-المؤمنون: 7]
”پھر جو اس کے سوا تلاش کرے تو وہی لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں۔“
یعنی جس شخص نے بیوی اور لونڈی کے علاوہ (جنسی تسکین کے لیے) کوئی راستہ اختیار کیا تو وہ حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے ہے، شیخ محمد الامین الشنقیطی نے بھی اپنی تفسیر ”أضواء البیان“ میں (مشت زنی کی حر مت پر) اسی آیت سے استدلال کیا ہے۔
بعض آثار میں یہ الفاظ مروی ہیں:
«إن قوما يأتون و أيديهم حبالي كانوا يعبثون بمذاكيرهم» یہ جبیر بن سعید تابعی کا قول ہے۔ ديكهيں: [تفسير البغوي410/1]
بلاشبہ (قیامت کے دن) ایک قوم اس حال میں دربار الہیٰ میں پیش ہو گی کہ ان کے ہاتھوں میں حمل ہو گا جن ہاتھوں سے وہ اپنے اعضاء تناسل سے مشت زنی کیا کرتے تھے۔“
لیکن جب ایک جوان آدمی کو زنا جیسی بے حیائی میں ملوث ہونے کا خدشہ ہو تو ایسی صورت میں بعض علماء نے مشت زنی کی اجازت دی ہے، ان کا خیال یہ ہے کہ اس عادت بد کے فرنیہ اس کے جنسی جوش میں قدرے کمی واقع ہو جاتی ہے۔ لیکن اولاً اس پر واجب یہ ہے کہ وہ پاکدامنی اختیار کرنے کے لیے شادی کرے، پس اگر وہ شادی کی طاقت نہ رکھے تو روزے رکھے جس سے اس کی جنسی خواہش میں کمی آ جائے گی۔ واللہ اعلم [عبدالله بن عبدالرحمن الجبر]

اس تحریر کو اب تک 2 بار پڑھا جا چکا ہے۔