عورت کے ورزش کی خاطر مقابلہ کرنے کا حکم

تحریر: فتویٰ علمائے حرمین

سوال : کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کرنے سے عورت کے ورزش کی خاطر مقابلہ کرنے کا حکم اخذ کر سکتے ہیں ؟ میں اس مسئلہ کی وضاحت کی امید رکھتا ہوں ۔
جواب : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑ کا یہ مقابلہ خاص جگہ پر تھا ، بظاہر یہ رات کے وقت تھا جب لوگ سوچکے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مقابلہ مسجد یا بستی یا شہر کے کنارے پر ہوا تھا ۔
شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس مقابلے میں مقصد و ارادہ یہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے عورتوں کے ساتھ اچھا رہن سہن کرنے کے حکم کو پورا کریں اور یہ کہ اس سے میاں بیوی کے درمیان پیار اور محبت پیدا ہو ، لہٰذا اس مقابلہ میں اس قسم کی اغراض کو پورا کرنے کے لیے استدلال کیا جا سکتا ہے ، پس خاوند کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ اس قسم کا مقابلہ کرے ، لیکن شرط یہ ہے کہ یہ مقابلہ مخفی اور فتنہ سے محفوظ ومامون ہو ۔
رہا اعلانیہ ورزش کا مقابلہ خواہ وہ کھیل کے میدان میں ہو یا دوڑ کے ، کشتی لڑنے میں ہو یا کسی اور چیز میں ، بہر حال اس قصہ سے اس کی دلیل نہیں لی جا سکتی ، بلکہ اس کو صرف میاں بیوی کے درمیان اس انداز میں محدود رکھا جائے گا جو ہم نے بیان کیا ہے ۔ واللہ اعلم ( صالح بن فوزان بن عبد اللہحفظ اللہ)

سوال : اس عورت کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے جو گھر میں یا گھر سے باہر ورزش کرتی ہے ؟
جواب : جب یہ ورزش گھر میں ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، بلکہ ہم ورزش گھر میں ہی کرنے کی نصیحت کرتے ہیں ۔ پس جب عورت کے پاس اپنے گھر اور مکان میں کرنے کے کام ہوں تو اس کو چاہیے کہ وہ پہلے ان کو سر انجام دے ۔ اسی طرح اگر عورتوں کے ساتھ مل کر اس طرح ورزش کی جائے کہ ان عورتوں کو اجنبی مرد ورزش کرتے ہوئے نہ دیکھیں تو ان شاء اللہ اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ، بلکہ ہم عورتوں کو ورزش کرنے کی نصیحت کرتے ہیں ، کیونکہ تن آسان ہو کر پڑے رہنے سے بعض اوقات اکتاہٹ و ملال ، ضعف حافظہ اور جسمانی کمزوری جیسے عوارض لاحق ہو جاتے ہیں ، لہٰذا ہر مسلمان مرد و عورت کو شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے ورزش کی ضرورت ہے ۔ (مقبل بن ہادی الوادعی رحمہ اللہ )

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔