بہنوئی غیر محرم ہے

اجنبی عورتوں سے مصافہ کرنے کی حرمت
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : اسلام نے عورتوں پر غیر محرم مردوں سے مصافحہ کرنا کیوں حرام قرار دیا ہے ؟ کیا بغیر شوت کے عورت سے مصافحہ کرنا ناقض وضو ہے ؟
جواب : اسلام نے غیر محرم عورتوں کا مردوں سے مصافحہ کرنا اس لئے حرام قرار دیا ہے کہ اجنبی عورتوں کو چھونا بڑے بڑے فتنوں میں سے ایک فتنہ ہے۔ ہر وہ چیز جو فتنوں کا سبب ہو شرع نے اس سے منع کیا ہے۔ اس لئے فساد سے بچنے کی خاطر شریعت نے نظریں جھکا کے رکھنے کا حکم دیا ہے۔
جب کوئی شخص اپنی بیوی کو چھوئے (ہاتھ لگائے) تو اگرچہ یہ شہوت کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو، ناقض وضو نہیں ہے۔ ہاں اس کے نتیجے میں اگر منی یا مذی کا اخراج ہو تو منی نکلنے کی صورت میں غسل کرنا ضروری ہے جب کہ مذی نکلنے کی صورت میں ذکر اور اس کے اردگرد کو دھونے کے بعد وضو کرنا واجب ہے۔

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : میں آپ سے ایک ایسے مسئلے کے بارے میں دریافت کرنا چاہتی ہوں جو میرے اور میرے جیسی دوسری لڑکیوں سے متعلق ہے، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر بغیر شادی کے رہنا لکھ دیا ہے جبکہ ہم شادی کی عمر سے گزر کر مایوسی کی دہلیز پر جا بیٹھی ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ بحمد اللہ اخلاقیات کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں اور یونیورسٹی کی سطح تک تعلیم یافتہ ہیں مگر ہمارا مقدر یہی ہے۔ مادی پہلو ایک ایسا پہلو ہے جو کسی کو ہم سے شادی کرنے کی ترغیب نہیں دیتا،
کیونکہ شادی کے معاملات خاص طور پر ہمارے ملک کے حوالے سے مستقبل میں میاں بیوی کی مشارکت پر انحصار کرتے ہیں۔ برائے کرم میری اور میرے جیسی دیگر بہنوں کی راہنمائی فرمائیں اور ہمیں نصیحت سے نوازیں۔
جواب : شادی سے محروم رہ جانے والی سائلہ مذکورہ جیسی عورتوں کو میری نصیحت ہے کہ وہ گڑ گڑا کر، عاجزی و انکساری کے ساتھ بارگاہ الہیٰ میں التجا کریں کہ وہ ایسے مردوں کو ان کا مقدر بنائے جن کے دین اور اخلاق کو وہ پسند کرتا ہو۔ انسان جب صدق دل سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو، دعا کے آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے قبولیت دعا کی رکاوٹوں کو دور کرے تو ایسے لوگوں کے بارے میں وہ فرماتا ہے۔
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ 2-البقرة:186]
”اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق دریافت کریں تو (بتا دیجئیے کہ) میں بہت قریب ہوں، جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔ لوگوں کو چاہئیے کہ وہ میرے احکام قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پا جائیں۔ “
نیز فرمایا :
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ 40-غافر:60]
(33-الأحزاب:32)
”اور تمہارے رب نے فرمایا : تم مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔“
جب بندہ اللہ تعالیٰ کی طرف یقین و ایمان کی دولت سے مالا مال ہو کر متوجہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازتا ہے۔ میں تو توجہ الی اللہ، اس کے حضور عاجزی و انکساری اور بہتری کے انتظار سے بڑھ کر کسی چیز کو طاقتور نہیں سمجھتا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
واعلم ان النصر مع الصبر، وان الفرج مع الكرب، وأن مع العسر يسرا [رواه أحمد 307/1 ]
”جان لو یقیناً مدد صبر کے ساتھ، خوشحالی بدحالی کے ساتھ اور آسانی تنگی کے ساتھ ہے۔“
میں اللہ رب العزت سے ان کے لئے اور ان جیسی دوسری عورتوں کے لئے دعاگو ہوں کہ وہ ان کی مشکلات کو آسان فرمائے اور ان کے لئے ایسے نیک مردوں کا انتظام فرماے جو دین و دنیا کی بھلائی کی خاطر ان کا انتخاب کریں۔ واللہ اعلم

فیلی ڈرائیور اور عورتیں
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : گھریلو ڈرائیور کا گھر کی عورتوں اور دوشیزاوں سے ملنا جلنا اور ان کے ساتھ مارکیٹ یا سکول وغیرہ جانا، شرعاً کیا حکم رکھتا ہے ؟
جواب : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ :
لا يخلون رجل بامرأة إلا كان الشيطان ثالثهما [ الترمذي كتاب الرضاع باب 16]
”کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہیں جاتا مگر تیسرا ان کا شیطان ہوتا ہے۔“
خلوت گھر میں ہو یا گاڑی میں، مارکیٹ میں ہو یا کہیں اور ایک ہی بات ہے۔ مرد و زن کی تنہائی میں اس امر کی کوئی ضمانت نہیں کہ ان کی گفتگو باعث فتنہ اور باعث شہوت انگیزی نہیں ہو گی، اس بات کے باوجود کہ بعض خواتین و حضرات میں تقویٰ و پرہیزگاری، خشیت الہیٰ اور معصیت و خیانت سے نفرت موجود ہوتی ہے، مگر ان میں شیطان مداخلت کرتا ہے اور گناہ کو کم ترصورت میں پیش کر کے فریب کاری کا دروازہ کھول دیتا ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کرنا باعث حفاظت و سلامتی ہے۔

مرد و زن میں مراسلہ نگاری کا حکم
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : اگر کوئی شخص کسی اجنبی خاتون سے خط و کتابت کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ دونوں دوست بن جائیں تو کیا یہ عمل حرام متصور ہو گا ؟
جواب : یہ کام ناجائز ہے۔ ایسا کرنا مرد و زن کے مابین شہوت کو بھڑکانا اور طبیعت کو باہم وصال ملاقات پر ابھارتا ہے۔ عام طور پر ایسی خط و کتابت اور اظہار محبت فتنوں کو جنم دیتا ہے اور دل میں زنا کی آبیاری کرتا ہے جس سے انسان فحاشی کا شکار ہو جاتا ہے یا کم از کم اس کے اسباب مہیا کرتا ہے۔ لہٰذا جو شخص اپنی مصلحت اور تحفظ کا جویا (متلاشی) ہو اسے ہماری نصیحت ہے کہ وہ دین اور عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے باہم خط و کتابت اور مکالمات سے پرہیز کرے۔ والله الموفق

بہنوئی غیر محرم ہے
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : کیا میری بہن کے لئے اپنے چچا زاد بھائی سے پردہ کرنا جائز ہے جبکہ وہ ہمارا سسرالی رشتے دار بننے والا ہے، یعنی اپنی بیٹی کا نکا ح میرے بھائی سے کرنے والا ہے ؟ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ابھی تک شادی نہیں ہوئی۔ برائے کرم اس بارے آگاہ فرمائیں۔
جواب : آپ کی بہن پر اپنے چچا زاد سے پردہ کرنا واجب ہے، اگرچہ وہ رشتے دار ہے مگر محرم نہیں، چاہے وہ اپنی بیٹی کا نکاح اس کے بھائی سے کر بھی دے (تب بھی پردہ کرے ) کیونکہ بہنوئی اجنبی ہوتا ہے اسی طرح بھائی کا باپ وغیرہ بھی غیر محرم ہیں۔ ان سے پردہ کرنا واجب ہے۔

عورت کا ٹیلی فون پر گفتگو کرنا
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : کنوارے نوجوان کا کنواری دوشیزہ سے ٹیلی فون پر بات چیت کرنے کا شرعاً کیا حکم ہے ؟
جواب : اجنبی عورت کے ساتھ لجاجت سے لبریز عشقیہ اور ناز و نخرے کے انداز میں شہوت انگیز گفتگو کرنا جائز نہیں ہے۔ ایسی گفتگو فون پر ہو یا کسی اور ذریعے سے بالکل حرام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ [ الأحزاب 33/ 32 ]
”پس نرم لہجے سے بات نہ کرو ورنہ وہ شخص جس کے دل میں کھوٹ ہے وہ (غلط) توقعات پیدا کرے گا۔“
ہاں گفتگو اگر فتنے سے خالی ہو تو ضرورت کے پیش نظر بقدر ضرورت کسی سے گفتگو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

میرا خاوند قطعاً میری پروا نہیں کرتا
——————

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : میرا خاوند – – اللہ تعالیٰ اس سے درگزر فرمائے۔ اگرچہ خشیت الہیٰ کا حامل اور اخلاق فاضلہ سے متصف ہے۔ مگر میری قطعاً کوئی پروا نہیں کرتا ہمیشہ ہی ترش روئی اور سنگدلی کا مظاہرہ کرتا رہتا ہے۔ وہ اس کا زمہ دار مجھے ہی ٹھہراتا ہے، لیکن اللہ جانتا ہے کہ بحمد اللہ میں اس کے جملہ حقوق کی ادائیگی کرتی ہوں۔ ہمیشہ اس کی راحت و اطمینان کا سامان فراہم کرتی ہوں، اور اس کے لئے ہر ناگوار عمل سے پرہیز کرتی ہوں، اس کے باوجور جو سلوک وہ مجھ سے روا رکھتا ہے اس پر صبر کرتے ہوئے سب کچھ برداشت کرتی ہوں۔ میں جب بھی کسی چیز کے متعلق دریافت کرتی ہوں یا کسی مسئلے کے بارے میں بات کرتی ہوں تو غضب ناک ہو کر بھڑک اٹھتا ہے، اس کے برعکس وہ اپنے ساتھیوں اور دوستوں کے ساتھ خندہ رو اور ہشاش بشاش رہتا ہے، میں نے ہمیشہ ہی اس کی طرف سے بد معاملگی اور ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کیا ہے۔ اس کا یہ رویہ کبھی کبھی تو اتنا تکلیف دہ اور المناک ہوتا ہے کہ میں یہ سوچنے لگتی ہوں ؟ کیوں نہ اس گھر بار کو خیر باد کہہ دیا جائے۔ الحمد للہ ! میں مڈل حصے تک پڑھی لکھی خاتون ہوں اور اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ فرائض کی ادائیگی میں کوشاں رہتی ہوں۔ فضیلۃ الشیخ اگر میں گھر چھوڑ دوں، تن تنہا اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کروں اور زندگی کے دکھ سکھ برداشت کروں تو کیا میں گناہگار ہوں گی ؟ یا اسی جگہ اسی حالت میں اس کے پاس رہوں اور سب کچھ پس پشت ڈال کر زندگی کے باقی ایام پورے کروں ؟
جواب : اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں بیوی دونوں پر حسن معاشرت، اخلاق فاضلہ اور خندہ روئی کا تبادلہ واجب ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ [ 4-النساء:19 ]
”بیویوں کے ساتھ حسن معاشرت اپناؤ۔“
دوسری جگہ فرمایا :
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ 2-البقرة:228 ]
” اور عورتوں کا حق ( مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسا دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے، البتہ مردوں کو عورتوں پر (ایک گونہ) فضیلت حاصل ہے۔“
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
البر حسن الخلق [ صحيح مسلم كتاب البر والصلة حديث 14]
”نیکی حسن خلق کا نام ہے۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ارشاد ہے :
لا تحقرن من المعروف شيئا ولو أن تلقى أخاك بوجه طلق [ صحيح مسلم كتاب البر والصلة باب 43]
”کسی بھی نیکی کو حقیر نہ سمجھو اگرچہ تو اپنے بھائی کو خندہ روئی سے ہی کیوں نہ ملے۔“
مزید فرمایا :
اكمل المؤمنين إيمانا أحسنهم خلقا، وخياركم خياركم لنسائهم، وأنا خيركم لأهلي
’’ ایمان والوں میں سے کامل ترین مومن وہ ہے، جو اخلاق میں سب سے اچھا ہو۔ تم میں سے اچھے وہ ہیں جو اپنی عورتوں (بیویوں) کے لئے اچھے ہیں اور میں اپنے گھر والوں کے لئے تم سب میں سے اچھا ہوں۔ “
علاوہ ازیں کئی ایک احادیث نبوی جو کہ مسلمانوں میں عمومی طور پر حسن خلق، اچھی ملاقات اور حسن معاشرت کی ترغیب دلاتی ہیں، میاں بیوی اور عزیز، رشتے داروں کو تو کہیں زیادہ ان امور پر غور کرنا چاہئیے۔ آپ نے خاوند کے جور و ستم اور ایذا رسانی کے باوجود صبر جمیل کا مظاہرہ کیا جو قابل تعریف ہے۔ میں آپ کو اللہ تعالیٰ کے درج ذیل فرمان کے مطابق مزید صبر اور گھر نہ چھوڑنے کی نصیحت کرتا ہوں، کیونکہ اس میں بہت زیادہ بھلائی اور انجام بالخیر ہے۔ ان شاء الله .
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِينَ [ 8-الأنفال:46]
” اور صبر کرو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“
دوسرے مقام پر یوں فرمایا :
إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ [ 12-يوسف:90 ]
”یقیناً جو شخص اللہ سے ڈر جائے اور صبر کرے پس بےشک اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔“
مزید فرمایا :
إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ [39-الزمر:10 ]
”یقیناً صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بغیر حساب دیا جائے گا۔“
ایک اور جگہ پر یوں فرمایا :
فَاصْبِرْ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ [11-هود:49]
”پس صبر کیجئیے تحقیق بہترین انجام پرہیزگاروں کے لئے ہے۔“(4-النساء:19)
خاوند کے ساتھ دل لگی کرنے اور ایسے اچھے الفاظ کے ساتھ، کہ جن سے اس کا دل نرم ہو جائے، مخاطب ہونے میں کوئی حرج نہیں، کہ وہی الفاظ آپ کے بارے میں خوش روئی کا سبب بن جائیں اور اس میں آپ کے حقوق ادا کرنے کا شعور بیدار ہو جائے۔ (یعنی ایسا انداز تکلم جو اس کے دل کو نرم کر دے )۔ جب تک وہ تمام ضروری اور اہم معاملات کی ادائیگی پر قائم ہے، حتیٰ کہ جب تک اس کا سینہ کھل نہیں جاتا اور تمہارے بڑے بڑے مطالبات کے لئے اس کے دل میں وسعت پیدا نہیں ہوتی، اپنی دنیوی ضروریات کے مطالبے کو چھوڑ دیں۔ بالآخر آپ کی ہی تعریف کی جائے گی۔ ان شاء اللہ۔
اللہ تعالیٰ آپ کو مزید صبر و استقامت سے نوازے، آپ کے خاوند کی اصلاح فرمائے۔ اسے رشد و خیر ودیعت کرے اور حسن خلق اور خندہ پیشانی کے ساتھ بیوی کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق بخشے کہ وہی سیدھا راستہ دکھانے والا ہے۔

میرا خاوند میرے ساتھ حسن معاشرت سے کام نہیں لیتا
——————

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : میں عرصہ پچیس سال سے شادی شدہ ہوں، میرے کئی بچے ہیں، جبکہ مجھے خاوند کی طرف سے کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ وہ اکثر میرے بچوں، عزیز و اقارب اور عام لوگوں کے سامنے بلاوجہ میری بےعزتی کرتا رہتا ہے اور اسے میری قدر افزائی کی کبھی توفیق نہیں ہوئی۔ جب تک وہ گھر سے باہر نہ چلا جائے مجھے کبھی سکھ کا سانس نصیب نہیں ہوتا۔ یہ بھی معلوم ہو کہ وہ نماز پڑھتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتا بھی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ سلامتی کے راستے کی طرف میری رہنمائی فرمائیں گے۔ جزاکم اللہ خیرا
جواب : میری بہن صبر سے کام لیں، اسے اچھے انداز سے سمجھائیں، اللہ تعالیٰ اور روز قیامت یاد دلائیں، شائد اس طرح وہ حق کی طرف رجوع کرے اور برے اخلاق چھوڑ دے۔ اگر وہ پھر بھی اپنی ضد پر قائم رہتا ہے، تو خود مجرم اور گناہ گار ہو گا آپ صبر و استقامت کے بدلے اجر عظیم کی مستحق ٹھہریں گی۔ آپ دوران نماز اور عام حالات میں دعا کرتی رہا کریں کہ اللہ تعالیٰ اسے صراط مستقیم دکھائے، اخلاق فاضلہ سے نوازے اور آپ کو اس کے اور دوسروں کے شر سے محفوظ رکھے۔ آپ اپنا محاسبہ کرتی رہیں، دین میں استقامت کا مظاہرہ کریں اگر اللہ تعالیٰ یا خاوند کے حق میں کوئی کوتاہی ہوئی ہو تو اس بارے میں خالق کائنات کے حضور توبہ کریں۔ عین ممکن ہے کہ آپ کے کسی گناہ کی وجہ سے اسے آپ پر مسلط کر دیا گیا ہو۔ اس لئے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ [ 42-الشورى:30]
”اور جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی ہاتھوں کی کمائی سے ہوتی ہے اور وہ بہت سے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ “
اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ آپ اس کے باپ بڑے بھائیوں یا ایسے رشتے داروں اور ہمسایوں سے اس کے متعلق بات کریں کہ جن کی اس کے ہاں کوئی قدر ہو تاکہ وہ اسے سمجھائیں اور حسن معاشرت کی تلقین کریں۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 19/4 ]
”اور ان (بیویوں) کے ساتھ حسن سلوک سے رہو سہو۔“
نیز فرمایا :
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ 2-البقرة:228]
اور عورتوں کا حق مردوں پر ویسا ہی ہے جیسا کہ دستور کے مطابق مردوں کا حق عورتوں پر ہے البتہ مردوں کو عورتوں پر (ایک گونہ) فضیلت حاصل ہے۔ “
اللہ تعالیٰ آپ دونوں کے حال کی اصلاح فرمائے، آپ کے خاوند کو ہدایت عطا فرمائے اور اسے رشد و صواب کی طرف لوٹائے اور آپ دونوں کو خیر و ہدایت پر اکٹھا رکھے کہ وہ بڑا سخی ہے۔

میرا خاوند مجھے لعن طعن کرتا ہے اور گالیاں بکتا ہے
——————

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : جب مندرجہ ذیل اسباب کی بناء پر خاوند کے ساتھ زندگی بسر کرنا محال ہو جائے تو مطالبہ طلاق کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے ؟ میرا خاوند جاہل ہے اور میرے حقوق سے آگاہ نہیں وہ مجھے اور میرے والدین کو لعن طعن کرتا ہے۔ مجھے یہودی، عیسائی اور رافضی جیسے القاب دیتا ہے، لیکن میں بچوں کی خاطر اس کے مذموم اخلاق پر صبر کرتی ہوں، مگر جب میں جوڑوں کی تکلیف میں مبتلا ہوئی تو بے بسی کے عالم میں میرے ہاتھ سے صبر کا دامن چھوٹ گیا۔ مجھے اس سے اتنی شدید نفرت ہو گئی کہ اس سے بات کرنا بھی گوارہ نہیں رہا۔ میں نے ان حالات میں طلاق کا مطالبہ کیا تو اس نے رد کر دیا۔ میں گزشتہ چھ سال سے اپنے بچوں کے ساتھ اس کے گھر میں ایک مطلقہ اور اجنبی کی طرح پڑی ہوں لیکن وہ میرا طلاق کا مطالبہ رد کرتا آ رہا ہے۔ براہ کرم جواب باصواب سے نوازیں۔
جواب : اگر خاوند کا رویہ ایسا ہی ہے جیسا آپ نے بتایا ہے تو ایسے حالات میں اس سے طلاق طلب کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس طرح اس سے جان چھڑانے کے لئے خلع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ اس کی بدکلامیوں، زیادتیوں اور سوء معاشرت کی بنا پر اس سے طلاق لینے کے لئے اسے کچھ مال دے دیں اور اس سے جان چھڑا لیں۔ اگر آپ اپنے بچوں کی خاطر اور اپنے اور ان کے اخراجات کی خاطر اسے برداشت کر سکیں اور ساتھ ہی ساتھ اچھے انداز سے اسے سمجھاتی رہیں اور اس کے لئے ہدایت کی دعا کرتی رہیں تو ہم آپ کے لئے اجر و ثواب اور اپنے انجام کی امید کرتے ہیں۔ ہم بھی اس کے لئے ہدایت اور استقامت کے لئے اللہ رب العزت سے دعا کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس صورت میں ہے کہ اگر وہ نماز پڑھتا ہو اور اہانت دین کا مرتکب نہ ہوا ہو اور اگر وہ تارک نماز ہے یا دین کی اعانت کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ کافر ہے اور آپ کا اس کے ساتھ رہنا یا اسے اپنے اوپر بااختیار بنا دینا ناجائز ہے۔ کیونکہ علماء کا اجماع ہے کہ دین اسلام کو گالیاں دینا اور اس کا استہزاء کرنا کفر گمراہی اور ارتدار عن الاسلام ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ٭ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ [ 9-التوبة:65 ]
”آپ فرما دیجئیے ! اچھا تم استہزاء کر رہے تھے اللہ، اس کی آیتوں اور اس کے رسول کے ساتھ ؟ اب بہانے نہ بناؤ تم اظہار ایمان کے بعد کافر ہو چکے ہو۔“
اسی طرح اہل علم کے صحیح قول کی رو سے ترک نماز کفر اکبر ہے، اگرچہ ایسا شخص نماز کے وجوب کا انکار نہ بھی کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بين الرجل وبين الكفر والشرك ترك الصلاة [صحيح مسلم كتاب الإيمان باب 35]
”مومن اور کافر کے درمیان نماز کا چھوڑنا ہی حد فاصل ہے۔“
اور دوسری حدیث میں ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
العهد الذى بيننا وبينهم الصلاة، فمن تركها فقد كفر [سنن ترمذي رقم 2623، سنن نسائي، سنن ابن ماجة رقم 1079۔ مسند أحمد 346/5، مستدرك الحاكم 7/1، سنن دارمي، السنن الكبري للبيهقي 366/3، مصنف ابن أبى شيبة 34/11 وصحيح ابن حبان رقم 1454]
”ہمارے اور ان (کفار) کے مابین نماز ہی تو حد فاصل ہے، جس نے نماز کو چھوڑا اس نے یقیناً کفر کیا۔ علاوہ ازیں کتاب و سنت کے بہت سارے دلائل اس موضوع پر موجود ہیں۔“ والله المستعان

عورت کا خاوند کے علم کے بغیر اس کا مال لینا
——————

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : میرا خاوند میری اور میری اولاد کے روز مرہ کی ضروریات کے لئے خرچ نہیں دیتا۔ ہم کبھی کبھار اسے بتائے بغیر اس کے مال میں سے کچھ لے لیتے ہیں۔ کیا اس طرح ہم گناہ گار ٹھہریں گے ؟
جواب : اگر خاوند بیوی کو اس کی جائز ضروریات کی تکمیل کے لئے خرچ مہیا نہیں کرتا تو اس صورت میں بیوی کے لئے خاوند کو بتائے بغیر اپنی اور اپنے بچوں کی ضروریات کے لئے اس کے مال میں سے ضرورت کے مطابق مناسب مقدار میں لے لینا جائز ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا کہنے لگی :
يا رسول الله ! ان أبا سفيان لا يعطيني ما يكفيني ويكفى بني، فقال : خذى من ماله بالمعروف، ما يكفيك ويكفى بنيك [ متفق عليه]
یا رسول اللہ ! ابوسفیان مجھے اور میرے بچوں کو اتنا مال نہیں دیتا جو ہمیں کافی ہو، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کے مال سے ضرورت کے مطابق اتنا مال لے لو جو تجھے اور تیرے بچوں کو کافی ہو۔ “

اطاعت صرف نیکی میں ہے
——————

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : میں نے ایک شخص سے شادی کی۔ شادی کے بعد اس نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اس کے بھائیوں سے چہرے کا پردہ نہ کروں وگرنہ وہ مجھے طلاق دے دے گا۔ دریں حالات مجھے کیا کرنا چاہئیے ؟ جبکہ مجھے طلاق سے خوف آتا ہے۔
جواب : خاوند کے لئے غیر مردوں کے سامنے بیوی کو بے پردہ کرنا ناجائز ہے۔ خاوند کو اپنے گھر میں اتنا کمزور نہیں ہونا چاہئیے کہ اس کی بیوی اس کے بھائیوں، چچاؤں اور ان کے بیٹوں وغیرہ غیرمحرم رشتے داروں کے سامنے اپنا چہرہ ننگا کرنے کے لئے مجبور ہو۔ ایسا کرنا قطعاً ناجائز ہے، اگر خاوند اس کے لئے پابند کرتا ہے تو بیوی پر اس کی اطاعت ایسے امور میں واجب نہیں ہے۔ اطاعت صرف نیکی کے کاموں میں ہے عورت پر پردہ کرنا ضروری ہے۔ چاہے اس کی پاداش میں وہ اسے طلاق ہی دے دے، اگر وہ ایسا کر گزرے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے بہتر انتظام فرما دے گا۔ ان شاء الله
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَإِنْ يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّـهُ كُلًّا مِنْ سَعَتِهِ [4-النساء:130 ]
”اگر وہ الگ الگ ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اپنی وسعت سے غنی فرما دے گا۔“
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من ترك شيئا لله عوضه الله خيرا منه [الدرر المنتثرة للسيوطي]
”جو آدمی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کوئی چیز چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر معاوضہ دے گا۔“
اسی طرح اللہ ذوالجلال فرماتے ہیں :
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّـهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا [64-الطلاق:4]
(5-المائدة:4)
”اور جو شخص اللہ سے ڈرے گا، اللہ اس کے کام میں آسانی پیدا کر دے گا۔“
اگر بیوی پردہ کرتی ہو اور عفت و عصمت کے اسباب اپنانا چاہتی ہو، تو خاوند کو اسے طلاق کی دھمکی نہیں دینی چاہئے۔ نسأل الله العافية

بیوی کا اپنے خاوند کو نصیحت کرنا
——————

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : خاوند مسجد میں نماز باجماعت ادا کرنے میں سستی کا مظاہرہ کرتا ہے، اس پر بیوی اسے سمجھاتی اور ناراضگی کا اظہار کرتی ہے۔ کیا بیوی ایسا کرنے سے گناہگار ہو گی کہ خاوند کا حق بیوی پر زیادہ ہے ؟
جواب : اگر خاوند شرعی محرمات کا ارتکا ب کرتا ہو، مثلاً وہ نماز باجماعت ادا کرنے میں سست ہے یا منشیات کا استعمال کرتا ہے یا رات بھر تماش بینی کرتا ہے اور اس پر اس کی بیوی اسے نصیحت کرتی ہے تو وہ گناہ گار نہیں ہو گی بلکہ اجر و ثواب کی مستحق قرار پائے گی۔ ہاں نصیحت بانداز احسن اور نرم لہجے میں کرنی چاہئیے کیونکہ اس طرح اس کا قبول کرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ والله ولي التوفيق

میرا خاوند ہمیشہ سگریٹ پیتا رہتا ہے
——————

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : میرا خاوند دائمی سگریٹ نوش ہے جس سے وہ سانس کی تکلیف میں مبتلا رہتا ہے، اس کے اس فعل بلا سے باز نہ آنے کی وجہ سے ہماری زندگی میں کئی مشکلات نے جنم لیا ہے۔ پانچ ماہ قبل اس نے دو رکعت نماز نفل ادا کر کے قسم اٹھائی کہ وہ دوبارہ سگریٹ نوشی نہیں کرے گا مگر اس کے ایک ہفتہ بعد ہی وہ دوبارہ سگریٹ پینے لگا اس سے مزید مشکلات کا پیدا ہونا یقینی تھا، چنانچہ میں نے اس سے طلاق کا مطالبہ کر دیا تو اس نے دوبارہ ایسا نہ کرنے اور ہمیشہ کے لئے اس عادت کو چھوڑنے کا وعدہ کیا، لیکن اب مجھے اس پر قطعاً اعتماد نہیں رہا۔ اس بارے میں آپ کی درست رائے کیا ہے ؟ اس کی قسم کا کفارہ کیا ہے ؟ آپ مجھے کیا نصیحت کرنا چاہیں گے ؟ جزاکم اللہ خیرا
جواب : سگریٹ نوشی حرام اور خبیث اشیاء میں سے ہے۔ اس کے بے شمار نقصانات ہیں۔ قرآن حکیم میں سورہ مائدہ کے اندر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ [5-المائدة:4 ]
”آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کے لئے کیا کچھ حلال کیا گیا ہے ؟ فرما دیجئیے ! پاکیزہ چیزیں تمہارے لئے حلال کی گئی ہیں۔“
اللہ تعالیٰ نے سورہ اعراف میں نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف بیان کرتے ہوۓ فرمایا :
وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ [7-الأعراف:107]
”وہ ان کے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کرتا ہے اور خبیث چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے۔“
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ سگریٹ ایک خبیث چیز ہے، لہٰذا آپ کے خاوند پر اس کا ترک کرنا واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے پیش نظر ذات باری تعالیٰ کی ناراضگی کے اسباب سے بچنے کی خاطر اپنے دین، صحت اور گھریلو حسن معاشرت کی خاطر آپ کے خاوند کو سگریٹ نوشی ترک کر دینی چاہئیے۔ قسم توڑنے کے جرم میں اس پر کفارہ واجب ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنا اور آئندہ کے لئے ایسا نہ کرنے کا عہد کرنا چاہئیے۔ کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا، یا انہیں لباس پہنانا یا گردن (غلام) آزاد کرنا ہے کھانا کھلانے کی صورت میں انہیں صبح یا شام کا کھانا کھلانا کافی ہو گا یا ہر ایک مسکین کو شہری خوراک سے نصف صاع دینا ہو گا۔ نصف صاع کی مقدار تقریبا ڈیڑھ کلو ہے۔
ہم آپ کو وصیت کرتے ہیں کہ اگر وہ نماز پڑھتا ہے اور اس کی سیرت اچھی ہے اور سگریٹ نوشی بھی چھوڑ دیتا ہے تو اس سے طلاق کا مطالبہ نہ کریں اور اگر وہ اس معصیت پر گامزن رہے تو طلاق کا مطالبہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ہم اس کے لئے ہدایت اور خالص توبہ کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا گو ہیں۔

نفسیاتی حالت انکار کا جواز فراہم کرتی ہے
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : شدید قسم کی نفسیاتی حالت یا کسی تکلیف دہ بیماری کے وقت اگر بیوی اپنے خاوند کے مطالبے پر اسے قریب آنے سے منع کر دے، تو کیا اس صورت میں بیوی گناہگار ہو گی ؟
جواب : اگر خاوند بیوی کو اپنے بستر پر بلائے تو بیوی پر اس کی تعمیل ضروری ہے۔ لیکن اگر وہ کسی نفسیاتی یا جسمانی بیماری کی وجہ سے اس مطالبے کی تعمیل کرنے سے قاصر ہے تو اس حالت میں خاوند کے لئے ایسا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
لا ضرر ولا ضرار [ رواه ابن ماجة فى كتاب الأحكام 17 وأحمد بن حنبل 327/5]
”تکلیف اٹھانا اور کسی کو تکلیف پہچانا جائز نہیں ہے۔ “
لہٰذا اسے توقف کرنا چاہئیے یا کسی غیر مضر طریقے سے اپنی خواہش پوری کرنی چاہئیے۔

مایوسی کی عمر میں دودھ پلانا
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : اس عورت کے دودھ کا کیا حکم ہے جو ناامیدی (بڑھاپے ) کی عمر کو پہنچ جائے لیکن کسی (روتے ) بچے کو دیکھ کر اس کی چھاتی میں دودھ اتر آئے اور وہ مدت رضاعت میں ایک بچے کو پانچ یا اس سے زائد مرتبہ دودھ پلا دے تو اس دودھ کا کیا حکم ہے ؟ نیز کیا یہ دورہ حرمت کا باعث بنے گا اور کیا اس کا رضاعی باپ ہو گا، جبکہ دودھ پلانے والی عورت کا اس وقت کوئی خاوند نہیں ؟
جواب : یقیناً رضاعت بھی نسب کی طرح حرام کرنے والی ہے، اس بنا پر مدت رضاعت (دو سال) کے دوران جس عورت نے بچے کو پانچ یا اس سے زائد مرتبہ دودھ پلایا وہ اس بچے کی رضاعی ماں بن جائے گی۔ اس لئے کہ یہ آیت عام ہے :
وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ [4-النساء:23 ]
”اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا (تم پر حرام ہیں )“۔
اگر مایوسی کی عمر تک پہنچنے کے بعد بھی کوئی عورت کسی بچے کو دودھ پلائے تو بھی رضاعت ثابت ہو جائے گی۔ پھر اگر دودھ پلانے والی عورت خاوند والی ہے تو شیر خوار بچہ اس کا رضاعی بیٹا اور جس آدمی کی طرف عورت کا دودھ منسوب ہے وہ اس بچے کا باپ ہو گا۔ اگر وہ عورت بے خاوند ہے لیکن ابھی اس کی شادی ہی نہیں ہوئی، لیکن اس کی چھاتی میں دودھ اتر آئے (اور وہ دودھ پلا دے ) تو وہ اس بچے کی ماں بن جائے گی جسے اس نے دودھ پلایا ہو گا۔ لیکن اس کا رضاعی باپ نہیں ہو گا۔ یہ بات تعجب والی نہیں ہے کہ بچے کی رضاعی ماں تو ہو مگر اس کا رضاعی باپ نہ ہو، بعینہ یہ بھی تعجب والی بات نہیں ہے کہ اس کا رضائی باپ تو ہو مگر رضاعی ماں نہ ہو۔
پہلی صورت کچھ یوں ہے کہ ایک عورت نے کسی بچے کو دو دفعہ دودھ پلایا یہ دودھ اس کے (پہلے) خاوند کے سبب تھا، پھر وہ خاوند اس سے الگ ہو گیا اور عورت نے عدت گزرنے کے بعد دوسرے خاوند سے شادی کر لی، اس سے جماع ہوا اور وہ حاملہ ہو گئی اس نے ایک بچے کو جنم دیا تب اس نے اس پہلے رضاعی بچے کو باقی ماندہ تین رضعات دودھ پلایا تو اس طرح وہ اس کی رضاعی ماں بن جائے گی۔ کیونکہ اس نے اس عورت سے پانچ مرتبہ دودھ پی لیا ہے۔ مگر اس بچے کا کوئی
رضائی باپ نہیں ہو گا کیونکہ اس عورت نے بچے کو ایک خاوند سے پانچ یا ان سے زائد مرتبہ رودھ نہیں پلایا۔
جہاں تک دوسری صورت کا تعلق ہے کہ ایک بچے کا رضاعی باپ تو ہو مگر رضاعی ماں نہ ہو تو وہ یوں ہے کہ مثلاً ایک شخص کی دو بیویاں ہیں۔ ان میں سے ایک نے بچے کو دو مرتبہ دودھ پلایا اور دوسری نے مزید تین دفعہ دودھ پلا کر پانچ رضعات مکمل کئے تو اس صورت میں یہ بچہ ان کے خاوند کا رضاعی بیٹا تو ہو گا کیونکہ اسے ایک باپ کا پانچ مرتبہ دودھ پلایا گیا ہے جبکہ اس کی رضاعی ماں نہیں ہو گی کیونکہ اس نے پہلی عورت سے دو مرتبہ اور دوسری عورت سے تین مرتبہ دودھ پیا۔
(نوٹ) یاد رہے حدیث نبوی کی رو سے رضاعت ثابت کرنے کے لئے بچے کا کم از کم پانچ رضعات دودھ پینا ضروری ہے، اس سے کم دودھ پینے کی صورت میں رضاعت ثابت نہیں ہو گی۔ (مترجم)

وہ آپ کے رضاعی ماموں ہیں
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : میری ماں کو ایک دوسری عورت نے دودھ پلایا، جبکہ اس عورت کی سوکنیں بھی ہیں تو کیا ان سوکنوں کے بچے میرے ماموں سمجھے جائیں گے یا نہیں ؟
جواب : چونکہ اس عورت نے آپ کی ماں کو دودھ پلایا ہے، لہذٰا وہ آپ کی نانی ٹھہرے گی۔ اس کا خاوند آپ کی ماں کا رضاعی باپ اور آپ کا رضاعی نانا ہے۔ چونکہ اس کی سوکنیں آپ کے رضاعی نانا کی بیویاں ہیں لہذٰا ان کے بیٹے آپ کے رضاعی ماموں ہوں گے۔

ضرورت کے پیش نظر طلاق طلب کرنا
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : میرے خاوند نے دوسری شادی کا پروگرام بنایا، اس نے مجھے اس سے آگاہ کیا تو میں نے اس کے اس فیصلے کو رد کر دیا۔ اس بارے میں میری حجت (دلیل) یہ ہے کہ میں نے اس کے بچوں کو جنم دیا اور اس کے تمام حقوق بدرجہ اتم ادا کرتی ہوں، لہٰذا اسے دوسری شادی کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن جب اس نے شادی پر اصرار کیا تو میں نے طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ کیا میں حق پر ہوں ؟
جواب : خاوند کے ساتھ آپ کا سلوک جو بھی ہو اسے دوسری شادی سے روکنے کا آپ کو کوئی حق نہیں ہے۔ اسے مزید اولاد کی ضرورت ہو گی، یا وہ کسی عورت کو عفیف بنانا چاہتا ہو گا یا وہ سمجھتا ہو گا کہ ایک عورت اسے پاکدامن نہیں رکھ سکتی۔ بہرحال موجودہ بیوی اسے دوسری شادی سے نہیں روک سکتی۔ ہاں اگر موجودہ بیوی دوسری شادی کی صورت میں خاوند کی طرف سے جور و ستم سے ڈرتی ہو یا وہ سوکن کے ساتھ نباہ نہ کر سکتی ہو تو ضرورت کے پیش نظر طلاق کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ ضرورت کے علاوہ طلاق کا مطالبہ جائز نہیں ہے۔
(نوٹ) : خاوند کا ظلم و ستم یا سوکن کے ساتھ نباہ نہ کر سکنا، یہ تمام چیزیں وقت ظہور سے پہلے معلوم نہیں ہو سکتیں لہٰذا ایک ایسی چیز کو جواز بنانا جو ابھی تک واقع نہیں ہوئی اور اس کے واقع ہونے یا نہ ہونے کے امکانات برابر ہیں۔ جائز نہیں ہے۔ اس لئے طلاق کا مطالبہ قبل از وقت ہے۔ واللہ اعلم۔ (محمد عبدالجبار)

اگر مرد اولاد کے قابل نہ ہو تو طلاق کا مطالبہ کرنا جائز ہے
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : ایک خاتون کافی مدت سے شادی شدہ ہے مگر وہ بے اولاد ہے۔ میڈیکل چیک آپ (یعنی طبی معائنے) کے بعد معلوم ہوا کہ نقص خاوند میں ہے اور اس سے اولاد کا ہونا محال ہے، کیا اس صورت میں بیوی کو طلاق طلب کرنے کا حق حاصل ہے ؟
جواب : جب واضح ہو گیا کہ بانجھ پن صرف مرد میں ہے تو عورت کو اس خاوند سے طلاق طلب کرنے کا حق ہے۔ اگر وہ طلاق دے دے تو بہتر ورنہ قاضی نکا ح کو فسخ کرا دے گا اس لئے کہ عورت کو بھی بچے پیدا کرنے کا حق حاصل ہے۔ اکثر عورتیں صرف بچوں کے لئے ہی شادی کرتی ہیں۔ جب عورت کا خاوند اولاد کے قابل نہ ہو تو عورت کو طلاق طلب کرنے اور فسخ نکا ح کا حق حاصل ہے۔ اہل علم کا راجح قول یہی ہے۔

میں اس سے طلاق چاہتی ہوں
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : میرے بڑے بھائی نے میری مرضی کے بغیر میرا نکا ح کر دیا اس کے باوجود میں چھ سال تک اپنے خاوند کے ساتھ رہی ہماری کوئی اولاد بھی نہیں، میں اب بھی اس کے پاس ہوں۔ اسے چاہتی نہیں ہوں بلکہ میں تو اس سے طلاق حاصل کرنا چاہتی ہوں، لیکن میں نے ایک حدیث سن رکھی ہے کہ جو عورت بلاوجہ خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرے جنت میں داخل نہ ہو گی۔ اس کا حل کیا ہے ؟
جواب : جب آپ کوئی اعتراض کے بغیر خاوند کے ساتھ چلی گئیں اور ایک عرصے تک اس کے ساتھ رہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ نے اپنے بھائی کے تصرف کو سند جواز عطاء کی۔ لہٰذا یہ نکاح صحیح ہے۔ کیونکہ نکاح سند جواز کی وجہ سے درست قرار پاتا ہے، مگر جب ایک خاوند کے ساتھ آپ ناخوش اور غیر مطمئن ہیں اور کراہت و تنگی محسوس کرتی ہیں اور اس کے بارے میں تقصیر حقوق کا خوف بھی لاحق رہتا ہے اور اس سے اولاد بھی نہیں تو یہ تمام اسباب و وجوہات اس سے مطالبہ طلاق کو جائز ٹھہرانے کے لئے کافی ہیں۔

عورت کے ایام مخصوصہ میں طلاق کا حکم
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : ایک خاتون دو بچوں کی ماں ہے۔ جب اس کے خاوند نے اسے طلاق دی تو وہ ایام مخصوصہ گزار رہی تھی مگر اس نے خاوند کو اس سے آگاہ نہ کیا۔ وہ قاضی کے پاس کورٹ میں گئے تو وہاں بھی اس نے اس بات کو چھپائے رکھا، صرف عورت کی ماں کو اس بات کا علم تھا۔ اس نے بیٹی سے کہہ رکھا تھا کہ عدالت کو اس بات سے آگاہ نہ کرنا ورنہ طلاق قطعاً موثر نہیں ہو گی اس کے بعد عورت میکے چلی گئی۔ پھر اس نے بچوں کے ضائع ہونے کے خوف سے خاوند سے رجوع کرنا چاہا۔ اس طلاق کے متعلق شری حکم کیا ہے جو دوران حیض دی گئی ؟
جواب : دوران حیض ہونے والی طلاق کے بارے میں علماء کا لمبا چوڑا اختلاف ہے کہ آیا یہ طلاق موثر ہو گی یا لغو قرار پائے گی ؟ جمہور علماء کا کہنا ہے کہ ایسی طلاق مؤث ہو گی اور ایک طلاق شمار ہو جائے گی، ہاں خاوند سے کہا جائے گا کہ وہ بیوی سے رجوع کر لے، پھر اسے آئندہ سے آئندہ طہر تک ایسے ہی چھوڑے رکھے، پھر اگر چاہے تو اسے طلاق دے دے چاہے تو بیوی بنا کر روک لے۔ ائمہ اربعہ امام احمد، امام شافعی امام مالک اور امام ابوحنیفہ سمیت جمہور علماء کا یہی مذہب ہے جبکہ ہمارے نزدیک شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مذہب راجح ہے۔ ان کا مذہب یہ ہے کہ ایام حیض کے دوران دی گئی طلاق غیر موثر ہو گی کیونکہ یہ طلاق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد [ متفق عليه ]
”جو شخص کوئی ایسا عمل کرے جس کے متعلق ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ مردور ہے۔“
خاص طور پر اس مسئلے کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث دلیل ہے کہ انہوں نے دوران حیض اپنی بیوی کو طلاق دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :
مره فليراجعها ثم ليتركها حتى تطهر ثم تحيض ثم تطهر، ثم إن شاء أمسك بعد وإن شاء طلق قبل أن يمس، فتلك العدة التى أمر الله عزوجل أن يطلق لها النساء [ متفق عليه واللفظ لمسلم، كتاب الطلاق حديث 1]
”اسے حکم دو کہ وہ بیوی سے رجوع کرے پھر اسے آئندہ سے آئندہ طہر تک اسی حالت پر چھوڑے رکھے، پھر چاہے تو اسے چھوئے بغیر طلاق دے دے اور اگر چاہے تو بیوی بنا کر روک لے اور یہ وہ مدت ہے کہ جس کے اندر عورتوں کو طلاق دینے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔“
پس وہ عدت جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے طلاق دینے کا حکم دیا ہے یہ ہے کہ انسان اپنی بیوی کو طہر کی حالت میں بغیر جماع کئے طلاق دے۔ چنانچہ اس بنا پر اگر خاوند نے دوران حیض بیوی کو طلاق دی تو چونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق طلاق نہیں دی اس لئے وہ مردود ہو گی۔ لہٰذا یہ طلاق جو اس عورت کو دی گئی تھی ہماری رائے میں غیر موثر ہے اور عورت ابھی تک خاوند کے عقد میں ہے۔ آدمی کو طلاق دیتے وقت اس کے طاہر ہونے کا علم تھا یا نہیں، اس
سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اگر خاوند کو اس کے غیر طاہر ہونے کا علم تھا تو گناہ گار بھی ہو گا اور طلاق بھی واقع نہیں ہو گی اور اگر اسے اس بات کا علم نہیں تھا تو نہ وہ گناہ گار ہو گا نہ طلاق نافذ ہو گی۔

سوگ منانے والی عورت کے احکام
——————

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اسے کن احکامات کا التزام کرنا چاہئیے ؟
جواب : حدیث کی رو سے سوگ منانے والی عورت پر چند امور کا التزام کرنا ضروری ہے۔
① جس گھر میں عورت کا خاوند فوت ہوا عدت ختم ہونے تک وہ اسی گھر میں مقیم رہے گی عدت کی مدت چار ماہ دس دن ہے۔ عورت کے حاملہ ہونے کی صورت میں اس کی عدت وضع حمل ہے۔ وضع حمل کے ساتھ ہی عورت کی عدت ختم ہو جائے گی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ [64-الطلاق:4]
”اور حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔“
عورت دوران عدت ضرورت کے علاوہ گھر سے نہیں نکل سکتی، مثلاً بیماری کی وجہ سے ہسپتال جانا، بازار سے اشیاء خورد و نوش خریدنا وغیرہ۔ یہ بھی اسی صورت میں کہ کوئی اور شخص ایسے امور کی انجام دہی کے لئے اس کے پاس موجود نہ ہو، اسی طرح اگر رہائشی مکان گر جائے تو دوسرے گھر منتقل ہو سکتی ہے، اگر اس کے پاس جی بہلانے کے لیے اور کوئی نہ ہو یا اسے اپنی جان کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں بھی دوسرے گھر میں جا کر رہنا جائز ہے۔
② عورت عدت کے ایام میں خوبصورت لباس زیب تن کرنے سے پرہیز کرے، وہ زرد یا سبز رنگ کا لباس نہ پہنے بلکہ اسے سادہ لباس استعمال کرنا چاہئیے اگرچہ وہ سیاہ ہو یا سبز وغیرہ، مقصد یہ ہے کہ کپڑے خوبصورت نہیں ہونے چاہئیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی فرمان ہے۔
③ عورت عدت کے دوران سونے، چاندی، ہیروں اور موتیوں کے زیورات پہننے سے اجتناب کرے، ایسے زیورات ہار کی صورت میں ہوں، کنگن کی صورت میں یا انگوٹھی وغیرہ کی صورت میں (سب ممنوع ہیں)۔
④ خوشبو سے پرہیز کرنا، اس دوران عورت کسی طرح کی خوشبو استعمال نہیں کر سکتی وہ دھونی ہو یا خوشبو کی کوئی اور قسم، ہاں وہ ایام مخصوصہ سے فراغت کے بعد بعض خوشبودار اشیاء کی دھونی لے سکتی ہے۔
⑤ سرمہ لگانے سے اجتناب کرنا، عورت دوران عدت سرمہ بھی نہیں لگا سکتی، چہرے کے میک اپ کے لیے استعمال ہونے والا سامان جو کہ مردوں کے لیے باعث فتنہ ہو، بھی سرمے کا حکم رکھتا ہے۔ لہٰذا میک اپ کرنے سے بھی پرہیز کرنا چاہئیے۔ البتہ عام استعمال والی اشیاء مثلا پانی اور صابن وغیرہ کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن وہ سرمہ جو آنکھوں کو خوبصورت بنا دیتا ہے اور دوسری ایسی چیزیں جو بعض خواتین اپنی چہرے کے حسن کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ یہ سب ناجائز ہے۔
یہ پانچ اشیاء ہیں جن کا اہتمام کرنا ہر اس عورت پر واجب ہے جو خاوند کی وفات پر عدت کے دن گزار رہی ہو۔ باقی رہا بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ وہ کسی سے گفتگو نہیں کر سکتی، ٹیلی فون پر کسی سے بات نہیں کر سکتی، ہفتے میں ایک سے زائد بار غسل نہیں کر سکتی۔ گھر میں ننگے پاؤں نہیں چل سکتی اور نہ چاند کی روشنی میں باہر نکل سکتی ہے تو یہ سب خرافات ہیں اس طرح کی فضولیات کا اسلام میں کوئی وجود نہیں۔ وہ گھر میں ننگے پاؤں چل سکتی ہے اور جوتے پہن کر بھی گھر کے کام کاج کر سکتی ہے خود اپنا اور مہمانوں کا کھانا وغیرہ تیار کر سکتی ہے۔ چھت پر یا گھر کے باغیچے میں جہاں چاہے چاند کی روشنی میں چل پھر سکتی ہے جب چاہے غسل کر سکتی ہے، جس سے چاہے شریفانہ اور باوقار گفتگو کر سکتی ہے اپنی محرم اور دوسری عورتوں سے مصافہ کر سکتی ہے۔ ہاں غیر محرم مردوں سے مصافحہ نہیں کر سکتی۔ غیر محرم کی عدم موجودگی میں سر سے چادر و غیرہ اتار سکتی ہے۔ مہندی اور خوشبو کا استعمال نہیں کر سکتی اسے زعفران سے بھی پرہیز کرنا چاہئیے اس کا استعمال نہ تو کپڑوں میں کرے اور نہ قہوہ میں، کیونکہ زعفران بھی ایک طرح کی خوشبو ہے۔ کسی شخص کو صراحتاً منگنی کا پیغام نہیں دے سکتی ہاں اشارے کنائے میں کوئی حرج نہیں۔ وبالله التوفيق

سوگ کے دوران گھڑی پہننا
——————

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : کیا عورت کے لئے سوگ کے دوران گھڑی پہننا جائز ہے، جبکہ مقصد صرف وقت دیکھنا ہو نہ کہ تحسین و تجمیل ؟
جواب : ہاں ایسا کرنا جائز ہے ؛ کیونکہ حکم کا دارومدار نیت پر ہے، لیکن گھڑی کا نہ باندھنا زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ یہ زیور سے ملتی جلتی ہے۔

حاملہ عورت خاوند کی وفات پر کتنی عدت گزارے ؟
——————

فتویٰ : دارالافتاءکمیٹی

سوال : ایک سائل دریافت کرتا ہے کہ اس کے باپ کی بیوی حاملہ ہے، کیا وہ سائل کے باپ کی وفات پر چار ماہ دس دن عدت گزارے گی یا وضع حمل تک ؟
جواب : فتوی دینے والی کمیٹی نے ہر طرح سے سوال کا جائزہ لینے کے بعد فتوی جاری کیا کہ اس عورت کی عدت وضع حمل تک ہے۔ والله ولي التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم

بوڑھی عورت کی عدت اور اس کی حکمت
——————

فتویٰ : دارالافتاءکمیٹی

سوال : ایک ایسی ستر سالہ عورت کا خاوند فوت ہو گیا جو کہ چنداں عقل و شعور کی حامل نہ تھی، اور خاوند کی خدمت کی پوزیشن میں بھی نہیں تھی، جب اس کا خاوند فوت ہوا تو وہ اس کے عقد میں تھی، کیا اس پر بھی عام عورتوں کی طرح عدت گزارنا واجب ہے ؟ اور اگر بوڑھی عورت پر عدت دوسری عورتوں کی طرح واجب ہے تو اس کی حکمت کیا ہے ؟ جب عدت کی مشروعیت کا مقصد عورت کے حاملہ یا غیرحاملہ ہونے کا تیقن ہے تو ایسی عورت کے لئے تو حمل کا امکان ہی نہیں، پھر عدت کس لئے ؟
جواب : سوال میں مذکورہ عورت عدت گزارے۔ اس کی عدت چاہ ماہ دس دن اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے عموم میں داخل ہے :
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا [ 2-البقرة:234 ]
”اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں، ان کی بیویاں اپنے آپ کو چار ماہ اور دس دن تک رو کے رکھیں۔ “
عورت کے معمر ہونے اور حمل کی صلاحیت نہ رکھنے کے باوجود اس کے عدت گزارنے کی حکمت عقد نکا ح کی تعظیم اس کی قدر و منزلت اور شرف و بزرگی کا اظہار، نیز خاوند کے حق کی ادائیگی اور تزئین و تجمیل سے پرہیز کر کے اس کی وفات کے نتیجے میں مرتب ہونے والے اثرات کا اظہار کرنا مقصود ہوتا ہے، اسی لئے شریعت نے باپ اور بیٹے سے کہیں زیادہ خاوند کا سوگ منانے کو مشروع قرار دیا ہے۔ حاملہ عورت کی عدت فقظ وضح حمل ہے،
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم عام ہے :
وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ [64-الطلاق:4]
”اور حاملہ عورتوں کی عدت و ضح حمل ہے۔ “
اور یہ آیت اللہ تعالیٰ کے درج ذیل فرمان کے عمومی حکم کی تخصیص کر رہی ہے۔
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا [ 2-البقرة:234 ]
”اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں ان کی بیویاں اپنے آپ کو چار ماہ اور دس دن روکے رکھیں۔ “
وضع حمل سے عدت ختم ہونے کی حکمت یہ ہے کہ چونکہ حمل پہلے خاوند کا حق ہے، اگر حاملہ عورت نے خاوند کی وفات یا کسی اور وجہ سے جدائی کے بعد فورا نکا ح کر لیا تو دوسرے خاوند نے اپنا پانی غیر کی کھیتی کو پلایا اور یہ جائز نہیں ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے :
لا يحل لامرىء مسلم يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسقى ماءه زرع غيره [ سنن ابی داود، كتاب النكا ح حديث 2158 و أحمد بن حنبل 4/ 108 ]
”کسی ایسے مسلمان کے لئے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہو یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنا پانی غیر کی کھیتی کو پلائے۔ “
ایک مسلمان پر شرعی احکام کی تعمیل کرنا ضروری ہے، اسے ان احکام کی حکمت کا علم ہو یا نہ ہو۔ اسے اس بات کا یقین ہونا چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی جملہ مشروعات میں حکیم ہے، جسے اللہ تعالیٰ حکمت کی معرفت عطا فرما دے تو یہ نور علی نور اور خیر الی خیر ہے۔ وبالله التوفيق

بوڑھی عورت اور نابالغ منکوحہ لڑکی پر عدت
——————

فتویٰ : دارالافتاءکمیٹی

سوال : کیا مردوں سے بے نیاز بوڑھی عورت یا نابالغ منکوحہ لڑکی کے لئے خاوند کے فوت ہونے پر عدت گزارنا لازم ہے ؟
جواب : ایسی بوڑھی عورت جسے مردوں کی ضرورت نہیں اور ایسی منکوحہ لڑکی جو ابھی نابالغ ہے، دونوں پر خاوند کی وفات پر عدت گزارنا لازم ہے۔ اگر بیوہ ہو جانے والی عورت حاملہ ہے تو اس کی عدت وضع حمل ہے، اور اگر وہ غیرحاملہ ہے تو اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ اس کی دلیل اس ارشار باری تعالیٰ کا عموم ہے :
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا [ 2-البقرة:234 ]
”اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں ان کی بیویاں اپنے آپ کو چار ماہ اور دس دن روکے رکھیں۔ “
اسی طرح اس ارشاد باری تعالیٰ کا عموم ہے :
وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ [الطلاق60/ 4 ]
”اور حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔ “

عدت گزارنے والی کا اپنے گھر سے والدین کے ہاں منقتل ہونا
——————

فتویٰ : دارالافتاءکمیٹی

سوال : ایک خاتون نے ایک شخص سے شادی کی، شادی کے بعد خاوند فوت ہو گیا۔ اس سے نہ تو عورت کی کوئی اولاو ہے اور نہ خاوند کے شہر میں عورت کے رشتے دار ہیں۔ کیا ان حالات میں عورت عدت گزارنے کے لئے اپنے خاوند کے شہر سے اپنے ولی کے شہر منتقل ہو سکتی ہے یا نہیں ؟
جواب : ایسی عورت کے لئے اپنے ولی کے شہر منتقل ہونا جائز ہے نیز اس کے علاوہ وہ کسی بھی ایسی پرامن جگہ پر منتقل ہو سکتی ہے جہاں وہ خاوند کی وفات کے بعد عدت کے دن گزار سکے۔ اگر عورت فوت شدہ خاوند کے گھر اپنی جان یا عزت وآبرو کے لئے خطرہ سمجھتی ہے اور اس کے پاس ایسا کوئی شخص بھی نہیں جو اسے تحفظ فراہم کر سکے تو اسے کہیں بھی منتقل ہونے کا حق حاصل ہے اور اگر وہ صرف اپنی فیملی کے قریب رہنے کی غرض سے خاوند کا گھر چھوڑتی ہے تو اس مقصد کے لئے اسے ایسا کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، اسے اپنے مکان میں رہ کر ہی عدت گزارنا ہو گی اس کے بعد وہ جہاں چاہے جا سکتی ہے۔

کیا زیر تعلیم لڑکی دوران عدت تعلیم جاری رکھ سکتی ہے ؟
——————

فتویٰ : دارالافتاءکمیٹی

سوال : زیر تعلیم لڑکی کا خاوند فوت ہو گیا، اس بنا پر اسے عدت گزارنا ہے۔ کیا اس کے لئے تعلیم جاری رکھنا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب : جس عورت کا خاوند فوت ہو گیا اس پر اسی گھر میں عدت گزارنا واجب ہے جو کہ چار ماہ دس دن ہے۔ اسی گھر میں سوئے، اس دوران اسے خوبصورتی کا باعث بننے والی جملہ اشیاء سے اجتناب کرنا چاہیے جیسا کہ خوشبو لگانا، سرمہ لگانا، خوبصورت کپڑے زیب تن کرنا اور بدن کو خوبصورت بنانا وغیرہ، یعنی اس کے لئے ایسی تمام اشیاء سے پرہیز کرنا ضروری سے جو اسے حسن وجمال عطا کریں۔
دوران عدت عورت کسی ضرورت کے پیش نظر گھر سے باہر جا سکتی ہے، اس بنا پر مذکورہ طالبہ کا حصول تعلیم اور فہم مسائل کی غرض سے سکول جانا جائز ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے ان تمام اشیاء سے پرہیز کرنا چاہئیے کہ جن سے سوگ منانے والی عورت پرہیز کرتی ہے۔ یعنی ایسی تمام اشیاء جو مردوں کو ورغلانے والی اور پرکشش ہوں اور انہیں منگنی کا پیغام دینے پر آمادہ کرنے والی ہوں، سے اجتناب ضروری ہے۔

نکا ح کے بعد اور دخول سے قبل خاوند فوت ہو جائے تو عورت کے لئے عدت کا حکم
——————

فتویٰ : دارالافتاءکمیٹی

سوال : ایک شخص نے ایک خاتون سے شادی کی مگر وہ دخول سے قبل ہی فوت ہو گیا۔ کیا اس کی بیوہ پر عدت لازم ہے ؟
جواب : جس عورت کا خاوند عقد نکا ح کے بعد دخول سے قبل فوت ہو جائے اس پر سوگ منانا واجب ہے، اس لئے کہ عورت صرف عقد نکاح سے بیوی بن جاتی ہے :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا [ 2-البقرة:234 ]
”اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں ان کی بیویاں اپنے آپ کو چار ماہ اور دس دن روکے رکھیں۔ “
نیز اس لئے بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ولا تحد امرأة على ميت فوق ثلاث إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا [ صحيح البخارى و صحيح مسلم ]
”کوئی عورت کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ منائے سوائے خاوند کے کہ اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ “
اور اس لئے بھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے برورع بنت واشق نامی عورت، جس کے خاوند نے اس سے نکاح کیا اور وہ وخول سے پہلے ہی فوت ہو گیا تھا، کے متعلق فیصلہ فرمایا کہ اس پر عدت گزارنا لازم ہے اور وہ وراثت کی حقدار بھی ہو گی۔

دوران عدت عورت کا فون سننا اور جواب دینا
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : ابتسام بنت ناصر ایک ایسی خاتون کے بارے میں دریافت کرتی ہے جو خاوند کی وفات پر عدت گزار رہی ہے کیا وہ ٹیلی فون کا جواب دے سکتی ہے جبکہ اسے یہ معلوم نہ ہو کہ فون کرنے والا مرد ہے یا عورت ؟ نیز دوران عدت عورت پر کیا کچھ واجب ہے ؟
جواب : عدت کے دوارن عورت پر زیبائشی لباس زیب تن کرنا، زیورات پہننا، خضاب لگانا اور خوبصورتی کے لئے سرمہ لگانا وغیرہ ناجائز ہے۔ ان اشیاء سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔ وہ خوشبو اور عطر وغیرہ استعمال نہیں کر سکتی، ضرورت کے علاوہ گھر سے باہر نہیں جا سکتی۔ اجنبی مردوں کے سامنے نہیں آ سکتی، ہاں وہ گھر کے اندر اور اس سے ملحقہ حصوں میں چل پھر سکتی ہے۔ گھر کی چھت پر چڑھ سکتی ہے۔ اگر اسے ٹیلی فون وغیرہ پر گفتگو کرنے والا، مردوں یا عورتوں کے اس گروہ سے تعلق رکھتا ہے جو اپنے لئے مناسب رشتے کی خاطر اپنا تعارف کرانا چاہتے ہیں تو اسے گفتگو فوراً بند کر دینی چاہئیے۔ وہ غیر محرم رشتے داروں سے بھی باپردہ گفتگو کر سکتی ہے۔ عدت کے علاوہ عام حالات میں بھی وہ اس طرح بات چیت کر سکتی ہے۔

سوگ منانے کے لئے سیاہ لباس پہننا
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : کیا کسی فوت شدہ شخص، خاص طور پر خاوند کے لئے غم میں سیاہ لباس پہننا جائز ہے ؟
جواب : مصائب کے وقت سیاہ لباس پہننا باطل اور بےاصل شعار ہے۔ مصیبت کے وقت انسان کو شریعت کے مطابق ہی سب کچھ کرنا چاہئے۔ مثلاً انا لله وانا إليه راجعون پڑھنا چاہئیے۔
اللهم اجرني فى مصيبتي وأخلف لى خيرا منها [ صحيح مسلم، كتاب الجنائز حديث 3 ]
کہنا چاہئے، جب وہ بحالت ایمان اور ثواب کی نیت سے ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کا اجر و ثواب اور نعم البدل عطا فرمائے گا، رہا کوئی مخصوص لباس مثلاً سیاہ وغیرہ تو یہ ایک بےاصل، باطل اور قابل مذمت چیز ہے۔

عذر شرعی کے بغیر عدت اور سوگ مؤخر کرنا
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : میری عمر چالیس سال ہے میں شادی شدہ ہوں اور پانچ بچوں کی ماں۔ میرا خاوند بارہ مئی 1985ء کو فوت ہو گیا، لیکن میں خاوند اور اولاد سے متعلقہ بعض امور کی انجام دہی کی بنا پر عدت نہ گزار کی۔ اس کی وفات کے ٹھیک چار ماہ بعد یعنی بارہ ستمبر 1985ء کو میں نے عدت گزارنا شروع کی، لیکن ایک ماہ بعد پھر مجھے مجبوراً گھر سے نکلنا پڑا، کیا یہ ایک ماہ عدت میں شمار ہو گا ؟ اور کیا خاوند کی وفات کے چار ماہ بعد عدت گزارنا صحیح ہے یا نہیں ؟ اس امر سے آگاہ کرنا ضروری ہے کہ مجھے گھر کے بعض ضروری کاموں کی وجہ سے گھر سے باہر جانا پڑتا ہے، میرے گھر میں ایسا کوئی فرد نہیں ہے جس پر میں گھریلو معاملات کے بارے میں اعتماد کر سکوں۔
جواب : آپ کا یہ عمل ایک ممنورع (حرام) عمل ہے، کیونکہ خاوند کی وفات کے ساتھ ہی عورت پر عدت اور سوگ واجب ہو جاتا ہے اسے مؤخر کرنا جائز نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا [ 2-البقرة:234 ]
”اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں ان کی بیویاں اپنے آپ کو چار ماہ اور دس دن روکے رکھیں۔ “
آپ کا چار ماہ تک انتظار کر کے پھر عدت شروع کرنا، گناہ اور اللہ تعالیٰ کی نافرمائی ہے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنی چاہئیے اور کثرت سے نیک عمل بجا لانے چاہیں۔ شائد اس طرح اللہ تعالیٰ آپ کو معاف فرما دے۔ عدت کا وقت گزر جانے پر اس کی قضا نہیں دی جا سکتی۔

ہر وقت قسم اٹھاتے رہنا اور قسم کا کفارہ
——————

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : میں دوران گفتگو اکثر (و اللہ ) ”اللہ کی قسم“ کہتا رہتا ہوں، کیا یہ قسم سمجھی جائے گی، توڑ دوں تو اس کا کفارہ کیسے ادا کروں؟
جواب : جب ایک مکلف مسلمان مرد یا عورت کچھ کرنے یا نہ کرنے کے قصد و ارادہ سے لفظ والله ”اللہ کی قسم!“ دو تین یا زیادہ بار دھرائے مثلا اللہ کی قسم! میں فلاں شخص سے نہیں ملوں گا، یا یوں کہے: اللہ کی قسم میں فلاں شخص سے ملوں گا، وغیرہ وغیرہ، پھر وہ اس قسم پر عمل نہ کرے تو اس طرح وہ قسم توڑنے کا مرتکب ہوا، لہٰذا اس پر قسم توڑنے کا کفارہ دینا لازم ہو گا جس کی مقدار دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑے پہنانا یا گردن (غلام) آزاد کرنا ہے۔ کھانے کی صورت میں شہر کی غالب خوراک مثلاً کھجور یا چاول وغیرہ میں سے نصف صاع تقریبا ڈیڑھ کلو دینا ہو گا۔ کپڑوں کی صورت میں کم از کم ہر ایک مسکین کو اتنا کپڑا دینا واجب ہے کہ جس میں نماز صحیح ہو سکے مثلاً قمیص تہہ بند یا اوڑھنے کی چادر، اگر ان تین اشیاء میں سے کسی ایک کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو پھر تین دن کے روزے رکھنا واجب ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّـهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَـكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ [5-المائدة:89]
”اللہ تم سے تمہاری لغو قسموں پر مؤاخذہ نہیں کرے گا، لیکن جن قسموں کو تم مضبوط کر چکے ہو ان پر تم سے مواخذہ کرے گا۔ سو اس کا کفارہ دس مکینوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلایا کرتے ہو، یا انہیں کپڑا دینا یا غلام آزاد کرنا ہے، لیکن جو شخص اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس پر تین دن کے روزے ہیں۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جبکہ تم قسم اٹھاؤ اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔“
لیکن جو قسم قصد و ارادہ کے بغیر ایسے ہی زبان پر جاری رہتی ہے تو ایسی قسم لغو شمار ہو گی اور اس پر کسی قسم کا کفارہ واجب نہیں ہو گا۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :
لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّـهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ [5-المائدة:89]
”اللہ تعالیٰ تم سے تمہاری لغو قسموں پر مؤاخذہ نہیں کرے گا۔ “
کسی ایک کام کے لئے کئی قسمیں اٹھانے پر اور پھر انہیں توڑنے پر ایک ہی کفارہ واجب ہے جیسا کہ ہم نے ابھی ذکر کیا ہے اور اگر کئی کاموں کے لئے ایسا کیا تو ہر قسم کے بدلے الگ الگ کفارہ دینا واجب ہو گا۔ مثلاً اگر کوئی شخص یوں کہے : اللہ کی قسم ! میں فلاں سے ضرور ملوں گا، اللہ کی قسم ! میں فلاں سے بات نہیں کروں گا، یا اللہ کی قسم ! میں فلاں کو ضرور پیٹوں گا وغیرہ، تو اس صورت میں کسی ایک قسم کو توڑنے پر ایک کفارہ واجب ہو گا اور ساری قسمیں توڑنے پر ہر قسم کے بدلے کفارہ دینا ہو گا۔ والله ولي التوفيق

میں اپنی اولاد کو ہر وقت قسم دیتی رہتی ہوں مگر وہ نہیں مانتے
——————

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : میرے بچے ہیں میں اکثر اوقات انہیں قسم دیتی رہتی ہوں کہ وہ یوں نہیں کریں گے مگر وہ میرا حکم تسلیم نہیں کرتے، کیا اس حالت میں مجھ پر کفارہ واجب ہو گا ؟
جواب : جب آپ اپنی اولاد یا کسی اور کو ارادتاً و قصداً کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم دیں اور وہ اس پر عمل نہ کریں تو آپ پر قسم کا کفارہ واجب ہو گا، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّـهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَـكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ [5-المائدة:89]
”اللہ تم سے تمہاری لغو قسموں پر مواخذہ نہیں کرے گا، لیکن جن قسموں کو تم مضبوط کر چکے ہو ان پر تم سے مؤاخذہ کرے گا۔ سو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلایا کرتے ہو، یا انہیں کپڑا دینا یا غلام آزاد کرنا ہے لیکن جو شخص اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس پر تین دن کے روزے ہیں۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جبکہ تم قسم اٹھاؤ اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ “
اسی طرح اگر آپ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں قسم اٹھائیں پھر دیکھیں کہ مصلحت اس میں نہیں بلکہ دوسرے کام میں ہے تو ایسی قسم کے توڑ دینے میں کوئی حرج نہیں، ہاں اس کا کفارہ ادا کرنا واجب ہو گا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشار ہے :
اذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فكفر عن يمينك وأت الذى هو خير
”جب تو قسم اٹھائے پھر اس کام کے مقابلے میں دوسرے کام کو بہتر سمجھے تو قسم کا کفارہ ادا کر کے بہتر کام کر لے۔ “

عورت نے روزوں کی نذر مانی پھر اس پر عمل نہ کر سکی
——————

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : ایک عورت نے نذر مانی کہ اگر اس کا حمل محفوظ رہا اور بچہ صحیح سالم پیدا ہوا تو وہ ایک سال کے روزے رکھے گی، اور واقعتاً اس کا حمل پوری مدت تک سالم رہا اور اس نے صحیح سالم بچے کو جنم دیا، پھر اسے معلوم ہوا کہ وہ روزے رکھنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ اب اسے کیا کرنا چاہے ؟
جواب : یہ بات تو شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ نذر ایک عبادت ہے اور اللہ رب العزت نے نذر پوری کرنے والوں کی مدح فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا [76-الإنسان:7]
”یہ لوگ نذر کو پورا کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس کی سختی عام ہو گی۔ “
(یعنی جس کی برائی چاروں طرف پھیلنے والی ہو گی۔ )
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
من نذر أن يطيع الله فليطعه، ومن نذر أن يعصى الله فلا يعصه [ رواه البخاري، كتاب الايمان باب 28، وأحمد 31/6 و ابوداود، كتاب الايمان باب 19]
”جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے اور جس نے اس کی نافرمانی کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔ “
ایک شخص نے بوانہ نامی جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا : کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی ایسا بت ہے جس کی پرستش کی جاتی ہو ؟ کہا گیا : ”نہیں“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا : کیا وہاں جاہلیت کا کوئی میلہ لگتا ہے ؟ کیا گیا ”نہیں“ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اوف بنذرك، فإنه لا وفاء لنذر فى معصية الله، ولا فيما لا يملك ابن آدم [أبوداؤد كتاب الإيمان والنذور باب 23 ]
”اپنی نذر پوری کر۔ اللہ کی نافرمانی پر مشتمل نذر قطعاً پوری نہیں کرنی چاہئیے اور نہ اس چیز کی نذر کہ جس کا انسان مالک ہی نہیں۔“
سائلہ نے یہ بتایا ہے کہ اس نے سال بھر کے روزے رکھنے کی نذر مانی تھی، جبکہ ایک سال کے مسلسل روزے رکھنا زندگی بھر کے روزے رکھنے کے مترادف ہے، جو کہ مکروہ ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے !
من صام الدهر فلا صام ولا أفطر [رواه أحمد / 20 ]
جس نے زندگی بھر روزہ رکھا تو اس نے روزہ رکھا نہ افطار کیا۔ “
اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مکروہ عبارت اللہ تعالیٰ کی معصیت ہے، لہٰذا ایسی نذر پوری نہیں کرنی چاہئیے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لو نذر عبادة مكروهة مثل قيام الليل كله وصيام النهار كله لم يجب الوفاء بهذا النذر [فتاوى ابن تيمية ]
”اگر کسی نے مکروہ عبارت کی نذر مانی مثلاً یہ کہ وہ ہمیشہ رات بھر قیام کرے گا اور ہمیشہ دن کا روزہ رکھے گا تو ایسی نذر کا پورا کرنا واجب نہیں۔ “
اس اعتبار سے سائلہ پر قسم کا کفارہ واجب ہے، جس کی مقدار دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ ہر مسکین کو شہر کی غالب خوراک مثلاً کھجور، چاول وغیرہ سے نصف صاع ( تقریبا ڈیڑھ کلو) دینا ہو گا۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو مسلسل تین روزے رکھنے ہوں گے۔ وصلي الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم

نذر کو موخر کر کے پورا کرنا
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : ایک آدی مثلاً یہ کہتا ہے کہ وہ شفاء یاب ہونے پر پانچ روزے رکھے گا پھر اسے شفاء ہو گئی اب وہ نذر پوری کرنے میں تاخیری حربے اختیار کرتا ہے۔ حالانکہ نذر سے متعلقہ تمام شرائط بھی پوری ہو چکی ہیں، تو ایسے شخص کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے ؟ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس نے روزے رکھنے کے لئے دن متعین نہیں کئے تھے ؟ کیا اس پر پانچ دن کے مسلسل روزے رکھنا واجب ہے ؟ اور کیا تاخیر کی وجہ سے اس پر کوئی کفارہ واجب ہے ؟ واضح رہے کہ وہ شخص اس نذر کا انکار نہیں کرنا چاہتا۔
جواب : نذر اطاعت مثلاً روزہ، صدقہ، اعتکاف، حج یا قرأت کرنا وغیرہ جیسی نذر کا پورا کرنا واجب ہے۔ اگر نذر مشروط ہے جس طرح کہ بیماری سے شفایابی یا سفر سے واپسی وغیرہ کے ساتھ تو اس پر جلدی نذر پوری کرنا واجب ہے۔ اور اگر کوئی اسے مؤخر کر کے پورا کر دے تو اس پر تاخیر کا کوئی گناہ نہیں ہو گا۔ اگر وہ نذر پوری کے بغیر مر گیا تو اس کے ورثاء اس کی نذر پوری کریں گے۔ ویسے نذر کو جلدی اور فوری پورا کرنا ضروری ہے تاکہ مسلمان واجبات کے ادائیگی سے سرخرو ہو سکیں۔

نذر مان کر اس کے خلاف کرنا
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : ایک عورت اپنے بچوں سمیت بیمار ہو گئی، اس کا ایک بچہ مر گیا، جبکہ وہ خود ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھی، اور اسے گھر میں موجود بچوں کے بارے میں معلوم نہ تھا کہ وہ زندہ ہیں یا مر گئے ہیں۔ اس حالت میں اس نے نذر مانی کہ اگر میں تندرست ہو کر زندہ بچوں سے مل سکوں تو ایک اونٹنی ذبح کروں گی اور خود اس میں سے کچھ نہیں کھاؤں گی، اس کے ساتھ ایک ماہ کے روزے بھی رکھوں گی۔ بعد ازاں اس نے اونٹنی نے ذبح کی اور ایک ماہ کے روزے بھی رکھے، لیکن اونٹنی کا گوشت کھا لیا اب سوال یہ ہے کہ آیا اسے ذبح شدہ اونٹنی کافی ہو گی یا اس کی جگہ ایک اور اونٹنی ذبح کرنا ہو گی ؟
جواب : جب اس نے اونٹی ذبح کرنے کی نذر لوجہ اللہ صدقہ کرنے کے لئے مانی اور نذر اطاعت ہونے کی وجہ سے اس کا پورا کرنا بھی واجب تھا تو اس صورت میں اس پر تمام کی تمام اونٹی کو لوجہ اللہ تقسیم کرنا واجب تھا۔ عورت نے بتایا ہے کہ اس نے خود بھی اونٹنی سے کچھ گوشت کھا لیا تو اس پر دوبارہ اونٹی ذبح کرنا تو واجب نہیں، ہاں اتنی مقدار میں گوشت خرید کر مساکین میں تقسیم کرنا لازم ہے۔ ان شاء اللہ اس طرح وہ نذر پوری کرنے سے فارغ ہو جائے گی۔

نذر کی اقسام
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : نذر کا شرعی حکم کیا ہے ؟ اور کیا نذر پوری نہ کرنے پر کوئی سزا بھی ہے ؟
جواب : نذر کا شرعی حکم یہ ہے کہ وہ مکروہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
انہ لا یرد شيئا، إنما يستخرج به من البخيل [رواه البخاري كتاب القدر باب 6 ]
”کہ نذر تقریر کو نہیں بدل سکتی، اس کی وجہ سے صرف بخیل آدمی سے کچھ نکالا جاتا ہے۔“
یہ اس لئے کہ بعض لوگ بیمار ہونے یا کوئی نقصان اٹھانے یا کسی بھی طرح کی کوئی تکلیف آنے پر صدقہ کرنے، کوئی جانور ذبح کرنے یا مال تقسیم کرنے کی نذر مانتے ہیں، اس کا اعتقاد یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نذر مانے بغیر نہ تو انہیں شفا دے گا اور نہ نقصان پورا کرے گا۔ تو اس بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نذر مانے سے اپنی قضا و قدر کو تبدیل نہیں کرتا، ہاں وہ بندہ بخیل ہے نذر مانے بغیر کچھ نہ دے گا اگر وہ قتل، زنا، شراب نوشی یا چوری ڈاکہ وغیرہ اور معصیت سے عبارت ہو تو اسے پورا کرنا ناجائز ہے۔ اس پر کفارہ قسم دینا، یعنی دس مساکین کو کھانا کھلانا واجب ہے۔ اگر نذر مباح ہو مثلاً کھانا پینا، لباس، سفر یا عام سی گفتگو تو نذر ماننے والے کو اختیار ہے چاہے تو نذر پوری کرے اور چاہے تو قسم کا کفارہ ادا کرے۔ اور اگر کسی نے اطاعت الہیٰ میں مساکین اور غربا میں کچھ تقسیم کرنے کی نذر مانی، مثلاً انہیں کھانا کھلانا، ان میں تقسیم کرنے کے لئے کوئی جانور ذبح کرنا وغیرہ تو ایسی نذر پوری کرتے ہوئے مساکین اور غربا پر نذر کے مطابق تقسیم کرنا لازم ہے۔ اگر وہ نذر کسی خاص چیز سے مخصوص کر دے مثلاً مساجد، کتابیں یا دینی منصوبہ جات وغیرہ کے ساتھ تو وہ معین کردہ جہتوں کے ساتھ ہی مخصوص ہو گی۔

نذر کی جہت تبدیل کرنے کا حکم
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : ایک شخص نے مخصوص مقاصد کے لئے مخصوص نذر مانی، پھر اس نے دوسرے مقاصد کو زیادہ مفید سمجھا، تو کیا اس صورت میں نذر کی جہت تبدیل کرنا جائز ہے ؟
جواب : مذکورہ سوال کا جواب دینے سے قبل چند تمہیدی باتیں ضروری ہیں :۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ انسان کو نذر نہیں مانی چاہئیے کیونکہ نذر ماننا مکروہ ہے یا حرام۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ نذر خیر کا باعث نہیں ہے اس کی وجہ سے بخیل سے کچھ نکالا جاتا ہے، لوگ جس مقصد کو نذر کی وجہ سے حاصل کرنا چاہتے ہیں حقیقتاً اس کا سبب نذر نہیں ہوتی۔ اکثر لوگ ایسے ہیں کہ بیمار ہونے پر کسی کام کے کرنے کی نذر مانتے ہیں، کسی گم شدہ چیز کے واپس مل جانے کی صورت میں کچھ اور کرنے کی نذر مانتے ہیں۔ اب اگر اسے شفا حاصل ہو جائے یا گم شدہ چیز واپس مل جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ سب کچھ نذر کی وجہ سے ہوا‘ لہٰذا آپ نذر مانے بغیر اللہ تعالیٰ سے شفا اور گم شدہ چیز کے مل جانے کی دعا کریں، نذر ماننے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ عموماً نذر ماننے والے حضرات اگر ان کی مراد بر آئے تو وہ ایفاء نذر میں سستی و کاہلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جبکہ اکثر اوقات اسے چھوڑ ہی دیتے ہیں جو کہ انتہائی خطرناک چیز ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللَّـهَ لَئِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ ٭ فَلَمَّا آتَاهُمْ مِنْ فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوْا وَهُمْ مُعْرِضُونَ ٭ فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ إِلَى يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِمَا أَخْلَفُوا اللَّـهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ [9-التوبة:75 ]
”اور ان میں سے وہ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ اپنے فضل سے ہمیں مال عطا فرما دے تو ہم خوب صدقہ کریں گے اور نیکوکاروں میں ہو جائیں گے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے دے دیا تو اس میں بخیلی اور روگردانی کرنے لگے وہ منہ پھیرے ہوئے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا یہ دی کہ ان کے دلوں میں اس روز تک کے لیے نفاق پیدا کر دیا کہ جس دن وہ اللہ کے پاس حاضر ہوں گے، اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا تھا اس کے خلاف کیا اور اس لئے کہ وہ جھوٹ بولتے رہے۔ “
اس بنا پر مومن کو نذر مانی ہی نہیں چاہئے۔ اب ہم آپ کے سوال کے جواب کی طرف آتے ہیں جب انسان کسی قسم کی نذر مان لے اور پھر یہ سمجھے کہ اس نذر کے علاوہ کوئی اور چیز اس سے افضل اور اقرب الی اللہ اور لوگوں کے لئے زیادہ مفید ہے، تو اس صورت میں جہت تبدیل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا : ”میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے مکہ فتح کر دیا تو میں بیت المقدس میں نماز ادا کروں گا۔“ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو یہیں نماز پڑھ لے۔ اس آدمی نے پھر وہی بات دہرائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی وہی جواب دیا۔ اس نے پھر وہی بات کی تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”پھر جیسے تیری مرضی ہے کر لے اس سے معلوم ہوا کہ انسان ادنیٰ درجے کی نذر کو اگر اعلیٰ (افضل) درجے کی نذر سے بدل لے تو یہ جائز ہے۔“

کفارہ قسم میں کھانا کھلانے کی مقدار
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : ہمیں معلوم ہے کہ قسم کا کفارہ دس مساکین کو کھانا کھلانا ہے۔ آپ سے سوال یہ ہے کہ ہر مسکین کے کھانے کی مقدار کتنی ہے ؟
جواب : قسم کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑے پہنانا یا گردن (غلام) آزاد کرنا ہے اور جو شخص اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس پر مسلسل تین دن کے روزے رکھنا واجب ہے۔ کھانا ایسا ہونا چاہئیے جو قسم اٹھانے والا عام طور پر اپنے بچوں کو کھلاتا ہے۔ دس مساکین دوپہر اور شام میں سے کسی ایک وقت کا کھانا پیٹ بھر کر کھائیں۔ یا وہ انہیں ایک وقت کا کھانا دے دے، جس کی مقدار چاول وغیرہ سے نصف صاع (تقریبا ڈیڑھ کلو) ہے کپڑا دینے کی صورت میں کم از کم اتنا کپڑا دینا ضروری ہے جس میں نماز ادا ہو سکے۔

کفارہ قے بارے میسم اور گواہی کں چند سوالات واستفسارات
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : ① اگر مجھے اپنے شہر میں دس مساکین نہ مل سکیں تو کیا ایک ہی مستحق کفارہ مسکین کو دس مساکین کا کھانا کھلا سکتی ہوں ؟
② ہمارے ملک کی غالب خوراک چاول ہے، کیا میں چاولوں کی صورت میں کفارہ دے سکتی ہوں ؟
③ اگر نقدی مساکین کے لئے زیادہ مفید ہو تو کیا میں خوراک کے بدلے نقد پیسے دے سکتی ہوں ؟ اور اس صورت میں فی کس کتنے ریال ادا کرنے ہوں گے ؟
④ ایک ماں اکثر اپنے بچوں کو اس لئے قسمیں دیتی رہتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں، جبکہ اس کے بچے اکثر و بیشتر اس کی مخالفت کرتے ہیں جس سے اس کی قسم پوری نہیں ہوتی۔ تو کیا اس صورت میں اس پر کفارہ قسم واجب ہو گا یا اس کی قسم لغو سمجھی جائے گی ؟
⑤ میری ایک ہم جماعت اور ہماری استانی کے درمیان کسی مسئلے میں اختلاف ہو گیا۔ میری ہم جماعت نے استانی کی اجازت کے بغیر ہی اس سے بلند آواز میں بات کرنا شروع کر دی، اس پر استانی نے میری ساتھی لڑکی کے خلاف مجھ سے گواہی چاہی تو میں نے لڑکی کے حق میں گواہی دے دی۔ حالانکہ میں جانتی تھی کہ اس نے اجازت لئے بغیر گفتگو کی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کہیں اسے سزا نہ ہو جائے بعد میں مجھے اس پر بڑی ندامت ہوئی، میں نے استانی سے معافی مانگنے کا پروگرام بنایا مگر وہ سعودی عرب سے جا چکی تھی۔ اب مجھے کیا کرنا چاہئیے ؟
جواب : ① آپ کے لئے شہر میں مساکین کو تلاش کرنا ضروری ہے۔ اگر وہاں نہ مل سکیں تو دوسرے قریبی شہروں میں تلاش کریں اگر ایک ہی مسکین مل سکے تو اسے دس دن تک کھانا کھلایا جا سکتا ہے۔ ہاں صدقات و خیرات جمع کرنے والے اور پھر انہیں مستحقین پر خرچ کرنے والے ایسے اداروں کو کفارہ ادا کرنا جائز ہے جن میں ضرورت مند مستحقین آتے ہیں اور وہ انہیں بقدر ضرورت و استحقاق دے دیتے ہیں یا اتنا کہ جس سے ان کی ضرورت کم ہو سکے۔
② مساکین کو اکٹھا کر کے انہیں صبح یا شام پیٹ بھر کر کھانا کھلانا جائز ہے اور اگر کوئی شخص کچے راشن کی صورت میں کفارہ ادا کرنا چاہے تو وہ عموی اور گھر میں استعمال ہونے والی خوراک سے یوں بھی ادا کر سکتا ہے اور اگر وہ گھر میں عام طور پر گوشت اور چاول کا استعمال کرتے ہیں تو وہ اس خوراک سے انہیں ایک وقت کی خوراک دے گا۔
③ جہاں تک قیمت ادا کرنے کا تعلق ہے تو ایسا کرنا کافی نہ ہو گا اگرچہ اس میں ان کی سہولت اور فائدہ ہی ہو، کیونکہ لوگ عام طور پر کھانا کھلانے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی منصوصات سے آگاہ نہیں ہوتے۔
ہماری رائے میں ماں سے صادر ہونے والی ایسی قسمیں لغو ہوتی ہیں اس لئے کہ وہ اس کے لئے سنجیدہ نہیں ہوتی اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّـهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَـكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ [5-المائدة:89 ]
”اللہ تعالیٰ تم سے تمہاری لغو قسموں پر مواخذہ نہیں کرے گا لیکن جن قموں کو تم مضبوط کر چکے ہو ان پر تم سے مواخذہ کرے گا۔“
اس سے مراد عزم و ارادہ سے صادر ہونے والی قسمیں ہیں۔ جبکہ ایسی بے شمار قسمیں عام طور تنبیہ کرنے کے لئے ہوتی ہیں، لہٰذا اس صورت میں کفارے کی ضرورت نہیں۔
آپ نے سہیلی کے دفاع میں امر واقعہ کے خلاف گواہی دی تو سنگین غلطی کا ارتکا ب کیا، اس کا کفارہ توبہ و استغفار اور سکول کی ہیڈ مسٹریسں سے معذرت اور استانی کے حق میں دعائے خیر کرنا ہے۔ اگر اصل استانی کے ٹھکانے کا علم ہو سکے، مکن ہو تو بالمشافہ ورنہ بذریہ فون یا ڈاک استانی سے معذرت ہونی چاہئیے۔ والله الموفق

قسم اٹھاتے وقت ان شاء اللہ کہنا
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی اس حدیث نبوی کا کیا مطلب ہے ؟
من حلف على يمين، فقال : إن شاء الله فلم يحنث فلا حنث عليه [نصب الراية للزيلعي 3/ 234 ]
”جس شخص نے قسم اٹھاتے وقت ان شاء اللہ کہہ لیا، اگر اس سے قسم کا ایفاء نہ ہوا تو اس قسم کا کفارہ نہیں ؟“
جواب : اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص قسم اٹھاتے وقت ان شاء اللہ کہہ لے پھر وہ قسم کو پورا نہ کر سکے تو اس پر قسم توڑنے کا کفارہ نہ ہو گا، مثلا وہ یوں کہے : ”اللہ کی قسم ! میں ان شاء اللہ ایسا ضرور کروں گا“ پھر وہ کام نہ کرے یا یوں کہے : ”اللہ کی قسم ! میں ان شاء اللہ ایسا نہیں کروں گا۔“ پھر وہ اسے کر گزرے تو اس طرح اس پر کفارہ قسم واجب نہیں ہو گا۔ لہذا قسم اٹھانے والے کو قسم اٹھاتے وقت ان شاء اللہ کہہ لینا چاہئیے تاکہ اگر کسی وجہ سے قسم پوری نہ کر سکے تو کفارہ ادا نہ کرنا پڑے۔ اس کے علاوہ قسم اٹھانے کے ساتھ ان شاء اللہ کہنے کا ایک اور فائدہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس طرح قسم پوری کرنے میں سہولت پیدا ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّـهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّـهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا [ 64-الطلاق:3]
”اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرے گا تو اللہ اس کے لئے کافی ہے۔ اللہ اپنا کام بہرحال پورا کر کے رہتا ہے اللہ نے ہر شے کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔“

قسم کا کفارہ
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : قسم کا کفارہ کیا ہے ؟
جواب : اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں قسم کا کفارہ بیان فرمایا ہے :
سورۃ المائدہ میں ارشاد ربانی ہے :
لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّـهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَـكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ [5-المائدة:89 ]
”اللہ تعالیٰ تمہاری قسموں میں لغو (غیرارادی) قسم پر تم سے مواخذہ نہیں فرماتا، لیکن مواخذہ اس پر فرماتا ہے کہ تم جن قسموں کو مستحکم کر دو۔ اس کا کفار دس محتاجوں کو کھانا دینا ہے اوسط درجے کا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑا دینا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے پھر جس کو یہ میسر نہ ہو تو تین دن کے روزے ہیں۔ “
لغو اور بیہودہ قسمیں وہ ہیں جو بلاعزم و ارادہ دوران گفتگو عموماً زبان پر آ جاتی ہیں، مثلا کی کا لا والله – بلى والله نہیں ! اللہ کی قسم۔ ہاں ! اللہ کی قسم، جیسے الفاظ کہنا ایسی قسم پر کفارہ واجب نہیں ہوتا۔ کفارہ صرف ان قسموں پر واجب ہوتا ہے جو دل کے عزم و ارادہ سے اٹھائی جائیں۔ اگر ایسی
قسمیں پوری نہ ہوں تو آدمی کو اختیار ہے کہ وہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائے یا گردن آزاد کرے ‘ کھانا کھلانے کی صورت میں صبح یا شام ایک وقت کے لئے گھر میں پکنے والا درمیانی قسم کا کھانا کھلانا ہو گا یا انہیں بقدر کفایت دینا ہو گا، یا دس مساکین کو کم از کم اتنا کپڑا دینا ہو گا جس میں نماز ادا ہو سکتی ہو، اگر ان تینوں صورتوں پر عمل نہ کر سکتا ہو تو مسلسل تین روزے رکھنے ہوں گے۔

اس پر کفارہ نہیں
——————

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : ماں نے اپنی شیر خوار بیٹی کو بستر پر لٹایا اور خود دوسرے بچوں کے پاس جا کر بیٹھ گئی جب بچے سو گئے تو وہ بھی غلبہ نیند کی وجہ سے وہیں سو گئی۔ جب بیدار ہوئی تو دیکھا کہ روتے روتے بچی کا برا حال ہے جس کے اثر سے وہ اس حالت میں ہو گئی کہ اسے ہسپتال میں داخل کرانا پڑا اور پھر چند دن بعد وہ اس سبب سے دم توڑ گئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس ماں پر کفارہ واجب ہے ؟
جواب : بصورت صحت سوال بچی کی ماں پر کوئی کفارہ واجب نہیں، کیونکہ ماں کسی بھی طرح کی بچی کی موت کا سبب نہیں ہے۔ وبالله التوفيق

ماں اپنی چھوٹی بیٹی سے غافل رہی اور اس کی موت کا سبب بن گئی
——————

فتویٰ : دارالافتاءکمیٹی

سوال : ایک عورت کے پاس اس کی دو سالہ بچی بیٹھی ہوئی تھی اس کے پاس ہی قہوہ دانی اور چائے دانی پڑی تھی، بچی کھیلنے لگی جبکہ اس کی ماں بچی سے دوسری جانب متوجہ ہو کر کپ دھونے لگی۔ بچی اچانک قہوہ دانی کے پاس پہنچی اور اسے پکڑ لیا وہ اس کے اوپر گر گئی۔ قہوہ انتہائی گرم تھا۔ جب بچی گری تو قہوہ اس کی انتڑیوں کے اندر تک اتر گیا جس کے چوبیس گھنٹے بعد بچی دم توڑ گئی۔ خاتون یہ پوچھنا چاہتی ہے، کیا اس پر کفارہ واجب ہے ؟ اگر ہے تو کتنا ؟
جواب : سائل اصل حالات و واقعات سے بخوبی آگاہ ہے، اگر ظن غالب کی رو سے بچی کی موت میں اس کی کوتاہی کا عمل دخل ہے تو اس پر کفارہ ادا کرنا واجب ہے، جو کہ گردن آزاد کرنا ہے اور اگر یہ نامکن ہو تو مسلسل دو ماہ روزے رکھنے ہوں گے۔

عورت کا خاوند کے قریبی عزیزوں کے سامنے بے پردہ ہونا
——————

فتویٰ : دارالافتاءکمیٹی

سوال : کیا کسی شخص کی بیوی شریعت کی رو سے اپنے خاوند کے بھائیوں یا اس کے چچا کے بیٹوں کے سامنے بے حجاب ہو سکتی ہے ؟ اور کیا بالغ لڑکا اپنی ماں یا بہن کے ساتھ سو سکتا ہے ؟
جواب : اولاً : خاوند کے بھائی یا اس کے چچا زاد محض اس رشتے کی بنیاد پر بیوی کے لئے محرم نہیں ہیں۔ لہٰذا وہ ان کے سامنے اپنے جسم کے وہ حصے ننگے نہیں کر سکتی، جنہیں وہ اپنے محرم رشتوں کے سامنے ننگا کر سکتی ہے، وہ لوگ اگرچہ نیک اور قابل اعتماد ہی کیوں نہ ہوں، بہرحال محرم نہیں ہیں۔ عورت جن لوگوں کے سامنے اپنی زینت ظاہر کر سکتی ہے ان کا بیان اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا :
وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ [24-النور:31]
”اور اپنی آرائش ((زیب و زینت) کو ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے خسر کے یا اپنے بیٹوں کے یا اپنے خاوند کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا اپنے غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے واقف ((مطلع) نہیں۔“
خاوند کے بھائی یا اس کے چچا زاد محض ان رشتوں کی وجہ سے بیوی کے محرم نہیں ہیں، عزت و آبرو کے تحفظ اور فساد و شر کے ذرائع کو روکنے کی خاطر اللہ تعالیٰ نے صالح اور غیرصالح میں کوئی فرق نہیں کیا۔ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خاوند کے بھائی کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : الحمو الموت [ رواه الترمذي فى كتاب الرضاع و أحمد 49/4]
’’ خاوند کا بھائی موت ہے۔ “
حمو سے مراد خاوند کے بھائی (جیٹھ دیور) ہیں جو کہ بیوی کے لئے محرم نہیں ہیں لہٰذا مسلمان کو دین کے تحفظ اور عزت و آبرو کے بارے میں محتاط رہنا چاہئیے۔
ثانیا : جب بچے بالغ ہو جائیں یا ان کی عمر دس برس یا اس سے زیادہ ہو جائے تو شرمگاہوں کے تحفظ، فتنہ انگیزی سے دور رہنے اور شر کے سدباب کے طور پر ان کے لئے ماں یا بہن کے ساتھ سونا جائز نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال کی عمر میں بچوں کے بستر الگ کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے :
مروا أولادكم بالصلاة لسبع، واضربوهم عليها لعشر، وفرقوا بينهم فى المضاجع [رواه أبوداود فى كتاب الصلاة باب 25 ]
”سات سال کے بچوں کو نماز کا حکم دو، دس سال کی عمر میں انہیں نماز نہ پڑھنے پر مارو اور ان کے بستر الگ الگ کر دو۔“
اللہ تعالیٰ نے نابالغ بچوں کو بھی ان تین اوقات میں اجازت لے کر اندر آنے کا حکم دیا ہے جن میں بے پردہ ہونے کے امکانات ہیں اور تاکیداً ان اوقات کا نام (عورات) پردہ رکھا ہے ارشار باری ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِنْ قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُمْ مِنَ الظَّهِيرَةِ وَمِنْ بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمُ الْآيَاتِ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ [24-النور:58 ]
” اے ایمان والو ! تم سے تمہاری ملکیت کے غلاموں کو اور انہیں بھی جو تم میں سے نابالغ ہوں اپنے آنے کے تین وقتوں میں اجازت حاصل کرنی ضروری ہے۔ نماز فجر سے پہلے اور ظہر کے وقت جبکہ تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد، یہ تنیوں وقت تمہاری خلوت اور پردہ کے ہیں۔ ان وقتوں کے علاوہ نہ تو تم پر کوئی گناہ ہے نہ ان پر۔ تم ایک دوسرے کے پاس بکثرت آنے جانے والے ہو۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح کھول کھول کر اپنے احکام تم سے بیان فرما رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمت والا ہے۔“
جبکہ مردوں کو ہر وقت گھر والوں سے اجازت لے کر ہی اندر آنے کی اجازت دی ہے۔ فرمایا :
وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ آيَاتِهِ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ [24-النور:59]
”اور جب تمہارے بچے بلوغت کو پہنچ جائیں تو انہیں بھی اسی طرح اجازت مانگ کر آنا چاہئیے جس طرح ان کے بڑے لوگ (یعنی بالغ) اجازت لیتے رہے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیتیں (کھول کھول کر) بیان فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی علم و حکمت والا ہے۔“
باقی رہے دس سال سے کم عمر کے بچے تو وہ اپنی ماں یا بہن کے ساتھ سو سکتے ہیں ایک تو اس لئے کہ انہیں ابھی نگرانی کی ضرورت ہے دوسرے یہاں فتنے کا کوئی امکان نہیں، اگر فتنہ و فساد کا خوف نہ ہو تو تمام بالغوں سمیت سب لوگ الگ الگ بستروں میں ایک ہی کمرے کے اندر سو سکتے ہیں۔ وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم

عورتوں کا اجنبی مردوں سے مصافہ کرنا جائز نہیں
——————

فتویٰ : دارالافتاءکمیٹی

سوال : بعض قبائل میں بے شمار ایسی عادتیں ہیں کہ ان میں سے کچھ تو یکسر خلاف شرع ہیں، ان میں سے ایک عادت یہ ہے کہ آنے والا مہمان سلام کرتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر عورتوں سے مصافہ کرتا ہے، جب کہ اس عمل سے انکار بغض و عداوت کو جنم دیتا ہے اور اسے مختلف معانی پہنائے جاتے ہیں۔ وہ کون سا مناسب طریقہ کار ہے جو اس موقف کے مقابلہ میں اپنایا جا سکتا ہے ؟
جواب : عورتوں کا غیر محرم مردوں سے مصافہ کرنا ناجائز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے بیعت لیتے ہوئے فرمایا :
إني لا أصافح النساء [رواه النسائي البيعة، 18 و أحمد 357/6 ]
”میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔ “
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
والله ما مست يد رسول الله صلى الله عليه وسلم يد امرأة قط، ما كان يبايعهن إلا بالكلام [رواه مسلم فى كتاب الإمارة 88]
”اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں لگا آپ صرف زبانی طور پر بیعت لیتے تھے۔“
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا [33-الأحزاب:21]
”تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدس میں عمدہ نمونہ ہے۔ یعنی ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور قیامت کی توقع رکھتا ہے اور ذکر الہیٰ کثرت سے کرتا ہے۔“
غیر محرم عورتوں سے مصافہ کرنے کی ممانعت اس لئے ہے کہ ان سے مصافہ کرنا دونوں جانب فتنہ کے اسباب پیدا کرنے کا ذریعہ ہے ؛ چنانچہ اس کا ترک کرنا واجب ہے ‘ اگر ماحول شکوک و شبہات سے پاک ہو تو لہجہ میں ملائمت کے بغیر سادہ انداز میں مصافہ کئے بغیر سلام کہنا جائز ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا [33-الأحزاب:32]
”اے نبی کی بیویو ! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو (کسی غیر محرم سے) نرم لہجے میں بات نہ کرو کہ وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کا روگ (کھوٹ) ہو وہ (غلط) توقع پیدا کر لے۔ ہاں قاعدے کے مطابق بات کرو۔“
نیز اس لئے بھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مسعود میں عورتیں آپ کو سلام کرتیں اور مسائل کا حل دریافت کیا کرتی تھیں، اس طرح وہ آپ کے صحابہ کرام سے بھی پیش آمدہ مسائل کے متعلق دریافت کیا کرتی تھیں، باقی رہا عورتوں کا عورتوں اور محرم رشتہ داروں مثلاً باپ، بیٹا، بھائی وغیرہ سے مصافحہ کرنا تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ والله ولي التوفيق

عورت کے لئے مرد کا سر چومنا
——————

فتویٰ : دارالافتاءکمیٹی

سوال : ہمارے ہاں عارت یہ ہے کہ عورت مرد کے سر کو سلام کرتی ہے اس کا طریقہ کچھ یوں ہے کہ جب کوئی شخص باہر سے آتا ہے تو وہ عورتوں کو سلام کرتا ہے، عورتیں جھکے اور بوسہ دیئے بغیر مرد کے سر کو سلام کرتی ہیں، (یعنی سر پر پیار دیتی ہیں) بشرطیکہ اس کے سر پر ٹوپی یا رومال وغیرہ ہو۔ واضح رہے کہ یہ سلام رخسار پر بوسہ دیئے بغیر ہوتا ہے۔ ہمیں بتائیے کہ اس طرح کے سلام کا کیا حکم ہے ؟
جواب : اگر عورت اپنے محرم رشتے داروں مثلاً باپ، بیٹا یا بھائی وغیرہ کو اس طرح کا سلام کرے تو جائز ہے۔ اسی طرح اس کا ان سے مصافحہ کرنا بھی جائز ہے۔ البتہ فتنہ سے بچنے کی خاطر کسی عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی اجنبی (غیر محرم) سے مصافحہ کرے (انہیں اس طرح کا سلام کرے) اور نہ یہ جائز ہے کہ اس کے سر کو وہ بوسہ دے۔ چاہے سر پر رومال ہو یا نہ ہو۔

عورت کا خاوند کے عزیز و اقارب کے پاس بیٹھنا
——————

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : کیا عورت کے لئے خاوند کے قریبی رشتہ داروں کے پاس بیٹھنا جائز ہے جبکہ وہ سنت کے مطابق باپردہ ہو ؟
جواب : عورت کے لئے اپنے خاوند کے بھائیوں، چچا زاد بھائیوں اور ان جیسے دوسرے عزیزوں
کے پاس شرعی حجاب کے ساتھ بیٹھنا جائز ہے۔ شرعی حجاب یہ ہے کہ چہرہ، سر کے بال اور تمام جسم ڈھانپے ہوئے ہو، کیونکہ عورت تمام کی تمام پردہ اور باعث فتنہ ہے۔ البتہ ایسا بیٹھنا کہ جس میں تنہائی یا اس عورت کے لئے شر کی تہمت کا ڈر ہو جائز نہیں ہے۔ اسی طرح اس کا گانے سننے یا کسی طرح کے لہو و لعب پر مشتمل مجلس میں شرکت کرنا بھی ناجائز ہے۔ والله ولي التوفيق

شرعی پردہ کرنے والی عورت کا مذاق اڑانا
——————

فتویٰ : دارالافتاءکمیٹی

سوال : ایسا شخص جو شرعی پردہ کرنے والی خاتون کا مذاق اڑاتا ہے، شرعاً کیا حکم رکھتا ہے ؟
جواب : جو شخص کسی مسلمان خاتون یا مرد کا اس لئے مذاق اڑاتا ہے کہ وہ پابند شریعت ہے تو ایسا شخص کافر ہے، ایسا استہزاء مسلمان خاتون کے شرعی پردہ کرنے کی وجہ سے ہو یا کسی اور وجہ سے اس لئے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے : ایک شخص نے غزوہ تبوک کے موقعہ پر ایک مجلس میں کہا: میں نے ان قراء حضرات جیسا پیٹو جھوٹا اور بزدل کوئی نہیں دیکھا، اس پر ایک شخص نے اسے کہا: تو جھوٹ بولتا ہے، تو منافق ہے، میں اس بات سے ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کروں گا۔ یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی، آسمان سے قرآن نازل ہو گیا۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے : میں نے اس شخص کو دیکھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (چلتی) اونٹنی کے کجاوے والی پٹی (یعنی اونٹنی کے تنگ) کے ساتھ نکلتا ہوا جا رہا تھا اور پتھر اسے زخمی کر رہے تھے وہ کہہ رہا تھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تو صرف ہنسی مذاق کر رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے ان کلمات سے جواب دیا :
وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ٭ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ [9-التوبة:65]
”آپ فرما دیجئیے کیا تم، اللہ اس کی آیات اور اس کے رسول سے ہنسی مذاق کرتے تھے ؟ بہانے مت بناؤ، تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو۔ اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف کر دیں تو دوسری جماعت کو سزا بھی دیں گے کیونکہ وہ مجرم تھے۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ساتھ استہزاء کو اللہ، رسول اللہ اور آیات اللہ کے استہزاء کے مترادف قرار دیا ہے۔ وبالله التوفيق

ملازموں اور ڈرائیوروں کے سامنے بے پردہ ہونا
——————

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : عورتوں کا ملازمین اور ڈرائیوروں کے سامنے آنے کا کیا حکم ہے ؟ کیا یہ اجنبی (غیر محرم) لوگوں کا حکم رکھتے ہیں ؟ میری والدہ کا مجھ سے مطالبہ ہے کہ میں سر پر سکارف باندھ کر ان کے سامنے چلی جایا کروں کیا یہ عمل ہمارے دین حنیف میں جائز ہے جو کہ ہمیں احکام الہیہ پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیتا ہے ؟
جواب : ملازمین اور ڈرائیور دیگر اجنبی (غیر محرم) لوگوں کے حکم میں ہیں، اگر وہ غیر محرم ہوں تو ان سے پردہ کرنا واجب ہے۔ ان کے سامنے بے پردہ ہونا اور ان کے ساتھ خلوت میں رہنا جائز نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
لا يخلون رجل بامرأة إلا كان الشيطان ثالثهما [ الترمذي كتاب الرضاع باب 16 ]
” کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہیں ہوتا مگر ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔“
نیز اس بنا پر بھی کہ غیر محرم لوگوں سے پردہ کرنے کے وجوب اور بے پردگی کی حرمت کے دلائل عام ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی معصیت میں والدہ یا کسی اور کی اطاعت جائز نہیں ہے۔

بیرون وطن چہرہ کھلا رکھنے کا حکم
——————

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : کیا سعودی عرب سے باہر سفر کی صورت میں میرے لئے چہرہ ننگا کرنا اور پردہ اتار پھینکنا جائز ہے ؟ کیوں کہ اس وقت ہم اپنے وطن سے دور ہوتے ہیں اور کوئی ہمیں پہچانتا بھی تو نہیں، میری والدہ میرے والد کو اس بات پر آمادہ کرتی رہتی ہے کہ وہ مجھے چہرہ ننگا رکھنے پر مجبور کرے اور اس لئے بھی کہ جب میں اپنا چہرہ چھپا کر رکھتی ہوں تو وہ میرے بارے میں گمان کرتے ہیں کہ شاید میں لوگوں کی طرف اپنی نظر کو پھیرتی ہوں (چہرہ ننگا ہونے کی صورت میں وہ میری نظروں کی حفاظت کر سکیں گے )۔
جواب : آپ یا کسی بھی مسلمان خاتون کے لئے بلاد کفر میں بھی اسی طرح بے پردہ ہونا جائز نہیں ہے جس طرح کہ اسلامی ملکوں میں جائز نہیں ہے۔ اجنبی مردوں سے پردہ کرنا بہرحال واجب ہے چاہے وہ مسلمان ہوں یا کافر بلکہ کافروں سے تو زیادہ شدت کے ساتھ پردہ کرنا چاہئیے کیونکہ ان کا تو کوئی ایمان ہی نہیں ہے جو انہیں محرمات شرعیہ سے روک سکے۔ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کے ارتکاب کے لئے والدین یا غیر والدین، کسی کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ نہ آپ کے لئے اور نہ ہی کسی اور کے لئے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ [33-الأحزاب:53]
”اور جب تم ان (ازواج مطہرات) سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی کامل پاکیزگی ہے۔“
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں واضح فرما دیا ہے کہ عورتوں کا غیر محرم مردوں سے پردہ کرنا سب کے دلوں کے لئے باعث طہارت و پاکیزگی ہے۔
اسی طرح سورۂ نور میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّـهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [24-النور:31]
” (اے نبی ! ) ایمان والی عورتوں سے فرما دیجئیے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش (یعنی زیور کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو اس میں کھلا رہتا ہو اور اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند، باپ، خسر، اپنے بیٹوں، خاوند کے بیٹوں، بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں اور اپنی (ہی قسم کی) عورتوں اور لونڈی، غلاموں کے سوا، نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے لڑکوں کو جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں (غرض ان لوگوں کے سوا) کسی پر اپنی زینت اور سنگار کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیں۔ اور اپنے پاؤں (اس طرح زمین پر) نہ ماریں کہ (جھنکار کانوں میں پہنچے اور) ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہو جائے۔ اے اہل ایمان ! سب اللہ کے آگے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔“
اور چہرہ تو سب سے بڑی زینت ہے۔

نابالغ بچی کا پردہ کرنا
——————

فتویٰ : دارالافتاءکمیٹی

سوال : نابالغ بچیوں کے متعلق پردے کا کیا حکم ہے ؟ کیا وہ بے پردہ گھر سے باہر نکل سکتی ہیں ؟ اور کیا وہ اوڑھنی کے بغیر نماز پڑھ سکتی ہیں ؟
جواب : نابالغ بچیوں کے ورثاء پر انہیں اسلامی آداب سکھانا واجب ہے۔ وہ انہیں اخلاق فاضلہ کی تربیت دینے کی غرض سے اور فتنہ کے خوف کے پیش نظر بے پردہ گھر سے باہر جانے کی اجازت نہ دیں۔ تاکہ وہ فتنہ و فساد برپا کرنے کا سبب نہ بن سکیں۔ اسی طرح ورثاء انہیں اوڑھنی میں نماز پڑھنے کا حکم دیں ہاں اگر نابالغ بچی اوڑھنی کے بغیر نماز پڑھے تو ایسا کرنا درست ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
لا يقبل الله صلاة حائض إلا بخمار [ أبوداؤد 641 و ابن ماجه 655]
” اللہ تعالیٰ بالغ عورت کی نماز اوڑھنی کے بغیر قبول نہیں کرتا۔“

عمر رسیدہ خاتون کا پردہ
——————

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : کیا ستر یا نوے سالہ بوڑھی عورت کے لئے اپنے غیر محرم رشتہ داروں کے سامنے چہرہ ننگا کرنا جائز ہے ؟
جواب : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَنْ يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ وَأَنْ يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَهُنَّ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ [24-النور:60]
”اور بڑی عمر کی عورتیں جنہیں نکا ح کی امید نہیں رہی، وہ کپڑے اتار (کر سر ننگا کر) لیا کریں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ زینت کو دکھانے والی نہ ہوں اور اگر اس سے بھی احتیاط کریں تو ان کے حق میں زیادہ بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ بڑا سننے والا بڑا جانے والا ہے۔“
قواعد سے مراد وہ بوڑھی عورتیں ہیں جو نکا ح کی امیدوار نہیں اور نہ اپنی زیبائش کو ظاہر کرتی ہیں۔ ایسی عورتیں غیر محرم رشتے دار مردوں کے سامنے چہرہ کھلا رکھ سکتی ہیں، لیکن ان کا پردہ کرنا بہتر اور احتیاط کا حامل ہے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا :
وَأَنْ يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَهُنَّ [24-النور:60]
” اگر وہ احتیاط کریں تو ان کے حق میں زیادہ بہتر ہے۔“
نیز اس لئے کہ بعض عورتیں بڑی عمر میں بھی اپنے طبعی حسن و جمال کی بناء پر باعث فتنہ ہوتی ہیں اگرچہ وہ زیب و زینت کی نمائش کرنے والی نہ بھی ہوں اور ہاں حسن و جمال کے ساتھ ان کا ترک حجاب جائز نہیں ہے۔ تحسین و جمیل سرمہ وغیرہ لگانے سے خوبصورتی حاصل کرنا سب شامل ہے۔

ملازمہ کا حجاب
——————

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : کیا گھریلو خادمہ پر اپنے مالک سے پردہ کرنا واجب ہے ؟
جواب : ہاں گھریلو ملازمہ پر اپنے مالک سے پردہ کرنا واجب ہے وہ اس کے سامنے بناؤ سنگھار نہیں کر سکتی اور شرعی دلائل کے عموم کی بنا پر اس کے ساتھ خلوت اختیار نہیں کر سکتی۔ نیز اس لئے بھی کہ اس کا بے پردہ ہونا اور مالک کے سامنے حسن کی نمائش کرنا فتنے کو بھڑکانے کا سبب ہے، اسی طرح ملازمہ کا مالک کے ساتھ خلوت میں رہنا مالک کے لئے شیطانی گمراہی کا باعث بن سکتا ہے۔ والله المستعان

ملازمہ کو پردے کا پابند بنانا
——————

فتویٰ : دارالافتاءکمیٹی

سوال : ہمارے ہاں ایک مسلمان خادمہ ہے، وہ تمام دینی فرائض کی پابندی کرتی ہے، مگر بالوں کا پردہ نہیں کرتی کیا اس بارے میں اس کی راہنمائی کرنا مجھ پر واجب ہے ؟
جواب : فتنہ و فساد سے بچنے اور انتشار فساد سے پرہیز کی خاطر آپ پر اس کو بال ڈھانپنے، چہرے اور دیگر پردے والے اعضاء کا پردہ کرنے کا حکم دینا واجب ہے۔

مسلمان عورت کا کافرہ عورت سے پردہ
——————

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : ہمارے گھر میں غیر مسلم خدمتگار خواتین ہیں، کیا مجھ پر ان سے پردہ کرنا واجب ہے ؟ کیا وہ میرے کپڑے دھو سکتی ہیں ؟ جبکہ میں ان میں نماز بھی ادا کرتی ہوں۔ نیز کیا میرا ان کے سامنے ان کے دین کے نقائص بیان کرنا اور دین حنیف کے امتیازات بیان کرنا جائز ہے ؟
جواب : ① غیر مسلم عورتوں سے پردہ کرنا واجب نہیں ہے، علما کے صحیح قول کی رو سے ان کا حکم بھی مسلمان عورتوں جیسا ہے۔ ان کے کپڑے اور برتن دھونے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر وہ اسلام قبول نہیں کرتیں تو ان کا تعاقد (معاہدہ) ختم کر دینا چاہئیے۔ اس لئے کہ جزیرۃ العرب میں غیر مسلموں کا موجود رہنا جائز نہیں ہے اور نہ یہ جائز ہے کہ کام کاج کے لئے غیر مسلموں کو یہاں لایا جائے۔ چاہے وہ مرد ہوں یا عورتیں، مزدور ہوں یا خادم اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیرۃ العرب سے غیر مسلموں کو نکال باہر کرنے کا حکم دیا ہے۔ نیز اس بات کا بھی حکم دیا ہے کہ اس میں دو دین باقی نہیں رہنے چائیں، کیونکہ جزیرۃ العرب اسلام کی گود اور آفتاب نبوت کا مطلع ہے ‘ لہٰذا ا یہاں صرف دین اسلام ہی باقی رہ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اتباع حق اور اس پر ثابت قدمی کی توفیق عطا فرمائے اور غیر مسلموں کو اس میں داخل ہونے اور جو اس کے خلاف ہو اسے چھوڑ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔
② آپ غیر مسلم خادماؤں کو اسلام کی دعوت دے سکتی ہیں، ان کے دین میں جو نقائص اور مخالفت حق ہے اس کو بیان کر سکتی ہیں اور انہیں بتا سکتی ہیں کہ اسلام تمام ادیان سابقہ کے لئے ناسخ ہے۔ نیز یہ کہ اسلام ہی وہ دین حق ہے جسے دے کر اللہ رب العزت نے تمام رسولوں کو مبعوث فرمایا اور اسی دین کی اشاعت و سربلندی کے لئے کتابیں نازل فرمائیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّـهِ الْإِسْلَامُ [3-آل عمران:19]
”یقیناً پسندیدہ دین اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔“
دوسری جگہ فرمایا :
وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ [3-آل عمران:85]
” اور جو شخص اسلام کے علاوہ اور دین تلاش کرے تو وہ ہرگز اس سے قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔“
لیکن ایسی گفتگو آپ کو علم اور بصیرت کے ساتھ ہی کرنی چاہئیے کیونکہ بغیر علم کے اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کے متعلق غیر ذمہ دارانہ بات کرنا انتہائی طور پر غیر پسندیدہ ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہوا :
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّـهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ [7-الأعراف:33]
”اے نبی ! آپ فرما دیجئیے ! کہ میرے پروردگار نے تو بس بیہودگیوں کو حرام قرار دیا ہے، ان میں سے جو ظاہر ہیں ان کو بھی اور جو پوشیدہ ہیں ان کو بھی اور گناہ کو اور ناحق کسی پر زیادتی کو بھی اور اس کو بھی کہ تم اللہ کے ساتھ شریک کرو جس کے لئے اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور اس کو بھی کہ تم اللہ کے زمے ایسی بات جھوٹ لگا دو جس کی تم کوئی سند نہیں رکھتے۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں علم کے بغیر گفتگو کرنے کو سنگین تر قرار دیا ہے جو کہ اس کی سنگین حرمت اور اس پر مرتبہ خطرات کی شدت کی دلیل ہے۔ ایک جگہ پر ارشاد باری ہے :
قُلْ هَـذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّـهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللَّـهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ [12-يوسف:108]
”( اے نبی !) آپ فرما دیجئیے میری راہ یہی ہے۔ میں اور میرے فرماں بردار اللہ کی طرف بلا رہے ہیں پورے یقین اور اعتماد کے بعد اور اللہ تعالیٰ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔“
اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر اس بات سے آگاہ فرمایا ہے کہ اللہ کے بارے میں بغیر علم کے گفتگو کرنا ان چیزوں میں سے ایک ہے جن کا شیطان حکم دیتا ہے :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ ٭ إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ [2-البقرة:169]
”اے لوگو ! زمین میں جتنی چیزیں حلال اور پاکیزہ موجود ہیں ان میں سے کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تو تمہیں بس برائی اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور اس بات کا بھی کہ تم اللہ پر ایسی باتیں گھڑ لو جن کا تمہیں علم نہیں۔“
میں اپنے لئے اور آپ کے لئے اللہ تعالیٰ سے توفیق ہدایت اور صلاح کی دعا کرتا ہوں۔

داماد سے پردہ کرنے کا حکم
——————

فتویٰ : دارالافتاءکمیٹی

سوال : بعض عورتیں اپنے داماد سے پردہ کرتی ہیں اور ان سے مصافحہ نہیں کرتیں۔ کیا ان کے لئے ایسا کرنا جائز ہے ؟
جواب : داماد سرالی رشتے داری کی وجہ سے اس عورت کے محرم رشتوں میں سے ہے۔ اس بنا پر وہ ساس کے ان جسمانی اعضاء کو دیکھ سکتا ہے جو اپنی ماں، بہن، بیٹی اور دوسری محرم عورتوں کے دیکھ سکتا ہے۔ لہٰذا داماد سے چہرہ، بال اور بازو وغیرہ چھپانا پردے میں غلو کا حکم رکھتا ہے۔ اسی طرح ملاقات کے وقت اس سے مصافحہ نہ کرنا بھی تحفظ عفت کے بارے میں غلو ہے، جو کہ نفرت اور قطع تعلقی کا باعث بن سکتا ہے، ہاں اگر کوئی عورت داماد کی طرف سے کسی قسم کا (غلط) شبہ محسوس کرے یا اس کی نگاہوں میں خیانت کا مشاہدہ کر رہی ہو تو اس صورت میں ساس کا مذکورہ بالا رویہ درست سمجھا جائے گا۔

اجنبی ڈرائیور کے ساتھ اکیلی عورت کا سوار ہونا
——————

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : اجنبی ڈرائیور کے ساتھ اکیلی عورت کا اس لئے سوار ہونا کہ وہ اسے شہر تک پہنچا دے، کیا حکم رکھتا ہے ؟ نیز کسی شخص کی عدم موجودگی میں اگر چند عورتیں اکیلے اجنبی ڈرائیور کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوں تو اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : غیرمحرم ڈرائیور کے ساتھ اکیلی عورت کا گاڑی میں سوار ہونا ناجائز ہے، کیونکہ یہ خلوت کے حکم میں ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
لا يخلون رجل بامرأة إلا ومعها ذومحرم [المعجم الكبير للطبراني 425/11 ]
”کوئی آدمی کسی عورت کے محرم کے بغیر اس کے ساتھ خلوت میں نہ جائے۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ارشاد ہے :
لا يخلون رجل بامرأة إلا كان ثالثهما الشيطان [ مسند أحمد 1/ 222 ]
کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہ جائے کیونکہ تیسرا ان کے ساتھ شیطان ہوتا ہے۔
ہاں اگر دونوں کے ساتھ ایک یا زیادہ مرد ہوں یا ایک یا زیادہ عورتیں ہوں تو اطمینان بخش حالات میں کوئی حرج نہیں۔ اس لئے کہ ایک یا زیادہ لوگوں کی موجودگی میں خلوت ختم ہو جاتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ حکم غیر سفری حالت کا ہے۔ جہاں تک سفری حالت کا تعلق ہے تو عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ محرم کے بغیر سفر کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
لا تسافر المرأة إلا مع ذى محرم [ رواه البخاري و مسلم، كتاب الحج]
”کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔“
سفر بری ہو، بحری ہو یا ہوائی سب کا ایک ہی حکم ہے۔ والله ولي التوفيق

اس تحریر کو اب تک 40 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply