عشره ذی الحجہ کے فضائل و احکام

مصنف : عبدالمنان عندالحنان سلفی رحمہ اللہ

عشره ذی الحجہ کے فضائل :
سال کے بارہ مہینوں میں جن ایام کو فضیلت و برتری حاصل ہے ان میں ذی الحجہ کے ابتدائی دس ایام بھی ہیں، جو امہات العبادات کے اجتماع کی وجہ سے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں، چنانچہ کتاب و سنت دونوں میں ان کے فضائل سے متعلق متعدد نصوص وارد ہیں۔
جمہور مفسرین نے ارشاد ربانی : «وَالْفَجْرِ ‎٭‏ وَلَيَالٍ عَشْرٍ ‎٭‏ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ» [89-الفجر:1 تا 3] میں «ليالي عشر» (دس راتوں) سے ذی الحجه کا عشرہ اول مراد لیا ہے، اس قول کی بنیاد پر اللہ رب العالمین کا شبہائے ذی الحجہ کی قسم کھانا ہی ان کی اہمیت کے لئے کافی ہے۔
احادیث پاک میں بالصراحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت صحيح سندوں سے ثابت ہے، چنانچه صحيح بخاری میں مندرجہ ذیل حدیث مذکور ہے :
«عن ابن عباس قال، قال : رسول الله صلى الله عليه وسلم : ما من أيام العمل الصالح فيها احب إلى الله من هذه الأيام يعني أيام العشر، قالوا يا رسول الله ولا الجهاد فى سبيل الله ؟ قال ولا الجهاد فى سبيل الله إلا رجل خرج بنفسه وماله فلم يرجع من ذلك بشي» [بخاري]
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کو (ذی الحجہ کے) ان دس دنوں میں نیک اعمال جتنے پسندیدہ اور محبوب ہیں اتنے کسی اور دن میں محبوب نہیں، لوگوں نے کہا : یا رسول الله ! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں، الا یہ کہ کوئی شخص اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد میں نكلا اور ان میں سے کوئی بھی چیز واپس نہ لا سکا۔
اس حدیث سے ذی الحجہ کے ابتدائی دس ایام کی فضیلت اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے ساتھ ہی یہ بھی ظاہر ہو جاتا ہے کہ اللہ کے نزدیک ان ایام کی چھوٹی بڑی نیکیاں اور دنوں کے بڑے بڑے اعمال صالحہ سے زیادہ محبوب ہیں۔
اس حدیث کی بنیاد پر بعض علماء نے عشره ذی الحجہ کو رمضان کے عشره اخیر سے بھی افضل قرار دیا ہے، جب کہ عشرہ رمضان کی فضیلت والی حديثوں کی روشنی میں علماء کے ایک گروہ نے رمضان کے عشره اخیر کو ذی الحجہ کے ان ابتدائی دس دنوں سے افضل بتایا ہے، افضلیت سے متعلق ایک قول يه بھی ہے کہ عشره ذی الحجہ کے ایام عشره رمضان کے ایام سے افضل ہیں، اس لئے کہ ان میں یوم عرفہ پایا جاتا ہے جو کہ سال کے تمام ایام سے افضل ہے اور رمضان کے عشره اخیر کی راتیں عشرہ ذی الحجه کی راتوں سے افضل ہیں
اس لئے کہ ان میں شب قدر پائی جاتی ہے جو سال کی تمام راتوں میں افضل ہے۔
[مرعاة المفاتيح : 357/2]
عشرہ ذی الحجہ کی اس امتیازی خصوصیت کی وجہ یہ ہے کہ اس میں کئی اہم عبادات اکٹھی ہو جاتی ہیں، چنانچه حج، عمرہ، روزہ، نماز اور قربانی جیسی اہم عبادات اور دنوں میں ایک ساتھ جمع نہیں ہو پاتی ہیں جب کہ اس عشرہ میں یہ تمام عبادتیں ایک ساتھ اکٹھی ہو جاتی ہیں۔
[مرعاة المفاتيح : 357/2]
لہٰذا عشرہ ذی الحجہ میں معروف طاعات و عبادات مثلاً نماز، روزہ، تلاوت قرآن، ذکر و اذکار تسبيح، وتہليل، تکبیر و تحمید اور صدقہ و خیرات کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنا چاہئے، اس لئے کہ اور دنوں کے مقابلہ اس عشرہ کے اندر ان اعمال کی محبوبیت اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑھ جاتی ہے، جیسا کہ ذکر کردہ حدیثوں سے معلوم ہوا، بالخصوص مندرجہ ذیل منصوص عبادات کا التزام ضرور کرنا چاہیے۔
(الف) عشرہ ذی الحجہ اور تکبیرات :
تہلیل «لا اله الا الله» کہنا، تکبیر «الله اكبر» کہنا، اور تحمید «الحمد لله» کہنا عشرہ ذی الحجہ کے خصوصی اعمال میں سے ہیں، جن کا ذکر احادیث میں ملتا ہے۔
«عن ابن عمر قال، قال : رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : ما من أيام أعظم عند الله ولا أحب إليه العمل فيهن من هذه الأيام العشر، فاكثروا فيهن من التهليل و التكبير والتحميد» [صحيح مسند أحمد]
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک (ذی الحجہ کے) دس دنوں سے زیادہ عظیم کوئی دن نہیں ہے اور نہ ان دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب کسی دن کا عمل ہے، اس لئے ان ایام میں بکثرت
«لا إله إلا الله»، «الله أكبر» اور «الحمد لله» کہا کرو۔
اس حدیث کی بنیا د پر علماء نے زمان و مکان کی تفریق کے بغیر ہر وقت اور ہر جگہ پورے عشرہ میں تكبیرات کو مشروع قرار دیا ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابوہریرہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم کے متعلق يه نقل کیا ہے کہ یہ دونوں حضرات ان دس دنوں میں باآواز بلند تکبیرات پکارتے ہوئے بازار جاتے تھے اور لوگ ان کی آواز سن کر تکبیر کہتے تھے، امام بغوی اور بیہقی نے بھی یہ روایت نقل کی ہے، امام طحاوی حنفی نے فرمایا کہ ہمارے مشائخ پورے عشرہ ذی الحجہ میں تکبیر کہتے تھے، یہ روایت علامہ امیر یمانی صنعانی نے سبل السلام میں ذکر کی ہے۔ [مرعاة المفاتيح : 357/2]
مشہور شارح حدیث شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ نے اس بارے میں مفصل بحث کرتے ہوئے اپنی تحقیق پیش کی ہے کہ ”میرے خیال میں ظاہر یہی ہے کہ تکبیرات ابتداء ذی الحجہ سے ایام تشریق کے آخر (13 ذی الحجہ) تک مشروع و مستحب ہیں، اور تکبیروں کا استحباب نمازوں کے بعد، مردوں کے لئے، باجماعت، مقیم اور باشندگان شہر کے لئے مخصوص کرنا صحیح نہیں، بلکہ ان ایام میں ہر وقت اور ہر مسلمان کے لئے تکبیرات مشروع ہیں جیسا کہ ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کے آثار سے پتہ چلتا ہے۔“ [مرعاة المفاتيح : 357/2]
کلمات تکبیر :
تکبیر کے کلمات جو احادیث و آثار سے ثابت ہیں وہ یہ ہیں :
➊ «الله اكبر الله اكبر، لا إله إلا الله، والله أكبر، الله أكبر ولله الحمد»
اس کی سند صحیح ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه رقم : 5646]
➋ «الله اكبر كبيرا، الله اكبر كبيرا، الله اكبر واجل، الله اكبر ولله الحمد»
اس کی سند صحیح ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبة : 5645، الأوسط : 301/4، السنن الكبري : 314/3-315]
➌ «الله أكبر، الله أكبر، الله اكبر كبيرا»
اس کی سند صحیح ہے۔ [السنن الكبرى : 316/3، فضائل الأوقات ص : 424 برقم : 227]
اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کے بقول الفاظ تکبیر میں یہ سب سے اصح لفظ ہے۔ [فتح الباري : 462/2]
ویسے کسی صحیح مرفوع حدیث سے تکبیر کے کلمات ثابت نہیں ہیں، مذکورہ کلمات اور ان کے علاوہ بعض دوسری تکبیرات یہ سب صحابہ اور تابعین کے آثار سے منقول ہیں جن میں بعض صحیح اور بعض ضعیف ہیں۔ تفصیلی معلومات کے لئے ارواء الغلیل : [125/3] اور ”تنویر العینین بأحکام الأضاحی و العیدین“ کا مطالعہ مفید ہوگاص)

(ب) بال اور ناخن نہ ترشنا :
قربانی کا ارادہ کرنے والوں کے لئے عشرہ ذی الحجہ میں جسم کے کسی بھی حصہ کا بال اکھاڑنے، کاٹنے مونڈنے اور ناخن تراشنے کی ممانعت صحیح احادیث کے اندر آئی ہے صحیح مسلم کی روایت اس باب میں کافی واضح ہے۔
«عن أم سلمة قالت : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ”إذا دخل العشر وأراد بعضكم أن يضحي فلا یمس من شعره و بشره شيئا“ وفي رواية : ”فلا يأخذن شعرا ولا يقلمن ظفرا“، وفي رواية : ”من رأى هلال ذي الحجة وأراد أن يضحي فلا يأخذ من شعره وأظفاره“ » [مسلم]
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب عشرہ ذی الحجہ آ جائے اور تم میں سے کوئی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بال اور چمڑے کو ہاتھ نہ لگائے (یعنی نہ کاٹے) اور ایک روایت میں ہے کہ نہ تو بال کاٹے اور نہ ہی ناخن تراشے، ایک روایت میں مزید ہے کہ جو شخص ذی الحجہ کا چاند دیکھ لے اور وہ قربانی کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ زائل کرے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جسم کے کسی بھی حصہ کا بال کسی بھی طریقہ سے زائل کرنا اور ناخن تراشنا ایام میں درست نہیں، بلکہ حرام ہے، امام احمد، امام اسحاق، امام داود ظاہری اور بعض شوافع اسی کے قائل ہیں، اس لئے کہ حدیث میں نہی کا صیغہ مطلق ہے اور مطلق نہی تحریم کے لئے آتی ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنے ایک قول میں انہیں حرام قرار نہ دے کر مکروہ اور دوسرے قول میں قربانی کرنے والے کے لئے حلق و تقصیر سے اجتناب کو مستحب بتایا ہے، جب کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے عشرہ ذی الحجہ میں حلق و تقصیر کو بلا کراہت مباح قرار دیا ہے، دلائل کی روشنی میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور ان کے موافقین کا مسلک زیادہ راجح ہے۔ [مرعاة المفاتيح : 357/2]

جو قربانی نہ کر سکے اس کے لئے ان ایام میں بال وغیرہ کاٹنا
مذکورہ حدیث میں عشرہ ذی الحجہ کے اندر بال اور ناخن وغیرہ کاٹنے اور تراشنے کی ممانعت ان لوگوں کے لئے وارد ہے جو قربانی کا ارادہ رکھتے ہوں، البتہ جن کو قربانی کی استطاعت نہیں یا جو قربانی کا ارادہ نہیں رکھتے تو ان کے لئے بال وغیرہ کانٹے کی ممانعت کسی حدیث میں نہیں آئی ہے، تاہم سنن ابی داود وغیرہ کی ایک روایت میں اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص جو استطاعت نہ ہونے کے سبب قربانی نہ کر پا رہا ہو وہ اگر عید الاضحی کے دن اپنا بال اور ناخن کاٹ لے تو اسے قربانی کا ثواب ملے گا جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے قربانی کے دن کو عید منانے کا حکم دیا گیا ہے اور اسے اللہ نے اس امت کے لئے مقر فرمایا ہے، ایک شخص نے آپ سے سوال کیا کہ اگر میرے پاس قربانی کے لیے دودھ دینے والی مادہ بکری کے علاوہ کوئی دوسرا جانور نہ ہو تو کیا میں اسی کو ذبح کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں، «ولكن تأخذ من شعرك و أظفارك و تقص شاربك وتحلق عانتك، فتلك تمام أضحيتك عند الله»
یعنی تم اپنے بال اور ناخن تراش لو، اپنی مونچھیں کاٹ لو اور زیر ناف کے بال مونڈ لو اللہ تعالیٰ کے ہاں تمھاری مکمل قربانی ہو جائے گی۔“
[سنن أبى داؤد / 2789، نسائي، ابن حبان]
علامہ البانی نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے تاہم بعض محققین کے یہاں اس حدیث کی سند حسن درجہ تک پہنچ جاتی ہے۔

(ج) عشرہ ذی الحجہ میں روزہ :
عشرہ ذی الحجہ کے روزہ کے تعلق سے ایک حدیث ازواج مطہرات میں سے کسی سے مروی ہے کہ :
«كان رسول الله صلى الله عليه وسلم : يصوم تسع ذی الحجة، و يوم عاشوراء، و ثلاثة أيام من كل شهر . . . .» [صحيح سنن أبى داود : 2437]
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذی الحجہ کے نو دنوں کا روزہ رکھتے تھے، نیز یوم عاشوراء اور ہر مہینہ میں تین دن روزوں کا اہتمام فرماتے تھے۔
اس حدیث سے ذی الحجہ کے ابتدائی 9 دنوں میں نفلی روزے کا استحباب ظاہر ہو رہا ہے۔ رہی بات حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی اس حدیث کی کہ «ما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم صائما فى العشر قط» [صحيح مسلم]
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عشرہ ذی الحجہ میں کبھی روزہ کی حالت میں نہ دیکھا تو علماء اس کے متعدد جواب دیتے ہیں مثلاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات اپنے علم کے مطابق فرمائی، دوسری بات یہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول بیماری، سفر یا کسی عذر پر محمول کیا جائے گا، تیسری بات جسے حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے لکھی ہے کہ غالبا یہ اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض اعمال پسند تو فرماتے تھے لیکن بسا اوقات انہیں چھوڑ دیتے تھے کہ مبادا وہ امت پر فرض نہ ہو جائیں، یہاں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا قول بھی اسی پر محمول کیا جائے گا۔
تفصیل کے لئے فتح الباری : 559/2، ح : 969، شرح نووی الصحیح مسلم : 312/8، ح : 2781 کی جانب رجوع کیا جائے۔

(د) یوم عرفہ کا روزہ اور اس کی فضیلت :
عشرہ ذی الحجہ میں یوم عرفہ کے روزہ کی بڑی فضیلت ہے، چنانچہ حضرت ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ «سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم الله عن صوم يوم عرفة، فقال يكفر السنة الماضية و الباقية» [مسلم]
یعنی اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم عرفہ کے روزہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
”وہ سال گزشتہ اور آئندہ کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔“
یوم عرفہ کا روزہ غیر حاجیوں کے لئے تو مستحب ہے لیکن حجاج کرام کے لئے افضل یہی ہے کہ وہ یوم عرفہ کو روزہ نہ رکھیں تاکہ پوری قوت اور بھر پور نشاط کے ساتھ وہ عرفہ کے دن ذکر و دعا میں مشغول رہ سکیں کہ یوم عرفہ اور اس کا وقوف ہی حج کی روح ہے۔

یوم عرفہ کا روزہ کس تاریخ کو رکھا جائے ؟
دراصل یوم عرفہ 9 ذی الحجہ کو کہا جاتا ہے جس دن حجاج کرام میدان عرفہ میں وقوف کرتے ہیں، اس بنیاد پر عالم اسلام کے مسلمان اپنے یہاں چاند کی رؤیت کے مطابق 9 ذی الحجہ کو روزہ کا اہتمام کریں، اس لئے کہ علماء کے صحیح ترین موقف کے مطابق آغاز رمضان عیدیں اور ایام تشریق و عاشورہ محرم کی معین کے سلسلہ میں ہر مقام کی اپنی رؤیت ہی کا اعتبار کیا جاتا ہے، نیز عشرہ ذی الحجہ کے روزہ سے متعلق سنن ابی داؤد کی جو حدیث اوپر ذکر کی گئی ہے اس میں «تسع ذي الحجة» کے الفاظ وارد ہوئے ہیں جس کا ایک واضح مفہوم 9 ذی الحجہ ہی کا ظاہر ہو رہا ہے، اس لئے میرے خیال میں یہ موقف زیادہ صحیح ہے۔ واللہ اعلم
البتہ بعض علماء حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ذکر الفاظ «صوم يوم عرفة» کی بنیاد پر اس بات کے قائل ہیں کہ اصلاً اس روزہ کی مشروعیت عرفہ ہی کے دن ہے جب حجاج میدان عرفہ میں جمع ہوتے ہیں، اور سعودی عرب کی رؤیت کے مطابق وہ دن ہمارے یہاں کی رؤیت کے حساب سے کم از کم ایک دن پہلے ہوتا ہے یعنی جب سعودی عرب میں 9 ذی الحجہ کو یوم عرفہ ہوتا ہے تو برصغیر کے ممالک میں اس دن ذی الحجہ کی 8 یا 7 تاریخ ہوتی ہے، اور جب ہم اپنے حساب سے 9 ذی الحجہ کو روزہ رکھیں گے تو سعودی عرب کے حساب سے اس دن ذی الحجہ کی 10 یا 11 تاریخ ہو گی، جو بہرحال یوم عرفہ نہ ہو گا، اس لئے ہر جگہ کے مسلمانوں کو اسی دن روزہ کا اہتمام کرنا چاہئے جس دن حجاج عرفہ میں وقوف کر رہے ہوتے ہیں، اور آج اس بات کا پتہ لگانا قطعاً مشکل نہیں کہ وقوف عرفہ کس دن ہے۔
دونوں موقف کے سلسلہ میں دلیلیں اختصار کے ساتھ ذکر کی گئی ہیں، ان میں جس پر جس کو اطمینان ہو عمل کر سکتا ہے، البتہ میرا ذاتی رجحان پہلے قول کی جانب ہے اس لئے کہ دین میں سادگی، آسانی اور سہولت ہے۔ آج سے زیادہ نہیں تیس چالیس سال قبل تک بھی یہ سہولت حاصل نہ تھی کہ مکہ سے باہر کے لوگ پہلے سے وقوف عرفہ کا دن قطعی طور سے معلوم کر سکیں اور اسی دن روزہ کا اہتمام کریں، اس وقت ظاہر ہے لوگ 9 ذی الحجہ کو روزہ رکھنے کا اہتمام کرتے رہے، اور ان کا روزہ درست مانا جاتا رہا، اور مکہ سے باہر کے لوگوں کے لئے عرفہ کے دن کی تحقیق اس دن کا روزہ رکھنے کے مقصد سے بہر حال تکلیف مالا یطاق کے قبیل سے ہے جو درست نہیں۔ واللہ أعلم

قربانی !
فضیلت اور احکام و مسائل
قربانی کا مفہوم :
اردو زبان میں قربانی کا لفظ خاص ذبیحہ کے لئے استعمال ہوتا ہے، جسے اللہ کے تقرب کے لئے مسلمان عید الاضحی اور ایام تشریق میں ذبح کرتے ہیں، لیکن لفظ ”قربان“ عربی زبان میں اپنے لغوی معنی کے لحاظ سے عام ہے اور اس کا اطلاق ہر اس نیک عمل پر ہوتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جائے، چنانچہ صاحب ”القاموس المحيط“ نے لکھا ہے کہ «القربان – بالضم – ما يتقرب به إلى الله تعالیٰ» قربان – ”ق“ کے ضمہ کے ساتھ ہر اس عمل کو کہا جاتا ہے جس سے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے۔ اور تفسیر جامع البیان میں ہے کہ «القربان اسم لكل ما يتقرب به إلى الله من ذبيحة و غيرها» یعنی قربان ہر اس عمل کو کہا جاتا ہے جس سے اللہ کی قربت حاصل کی جائے خواہ یہ عمل جانور ذبح کرنے کی شکل میں ہو یا اس کے علاوہ۔
قرآن کریم میں بھی لفظ ”قربان“ اس لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے، چنانچہ سورۃ المائدہ میں اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کی قربانی کا واقعہ ذکر کرتے ہوئے اس لفظ کا استعمال کیا ہے، ارشاد ہوا :
«وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا» [5-المائدة:27]
”اور آدم (علیہ السلام) کے دونوں بیٹوں کا کھرا کھرا حال بھی انہیں سنا دو جب ان دونوں نے ایک قربانی پیش کی۔“
اور تفسیروں میں ذکر ہے کہ ایک بیٹے (هابیل) نے دنبہ کی اور دوسرے بیٹے (قابیل) نے اناج کی بالیوں کی قربانی اللہ کے حضور پیش کی تھی۔
[فتح القدير و جامع البيان]
ہم مسلمان اردو زبان میں جس لفظ قربانی کو ذبیحہ کے مخصوص معنی میں استعمال کرتے ہیں قرآن و سنت میں اس کے لئے کئی الفاظ استعمال ہوئے ہیں :
◈ «أضحية» احادیث مبارکہ میں قربانی کے تعلق سے بالعموم اسی لفظ کا استعمال ہوا ہے۔
◈ «نسك يا منسك» قرآن کریم میں ان الفاظ کا استعمال قربانی کے لئے مندرجہ ذیل آیات میں ہوا ہے :
➊ «قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» [6-الأنعام:162]
”آپ فرما دیجئے کہ بیشک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب خالص اللہ ہی کے لئے ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔“
➋ «وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ» [22-الحج:34]
”اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دئے ہیں۔“
حدیث میں بھی لفظ «نسك» استعمال ہوا ہے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ «ومن ذبح بعد الصلاة فقد تم نسكه و أصاب
سنة المسلمين
» یعنی جس نے (قربانی کا جانور) نماز (عید) کے بعد ذبح کیا تو اس کی قربانی پوری ہو گئی اور اس نے مسلمانوں کی سنت کو پالیا۔
[بخاري و مسلم]
◈ «ذبح» يه لفظ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کے واقعہ کے ضمن میں استعمال ہوا ہے۔ «وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ» [37-الصافات:107]
”اور ہم نے اسے ایک بڑا ذبیحہ (قربانی کے لئے) اس کے فدیہ میں دے دیا۔“
متعدد احادیث میں اس لفظ کے مشتقات کا بھی ذکر ہوا ہے، چنانچہ اوپر گزری ہوئی حدیث میں «ومن ذبح» کا لفظ وارد ہوا ہے، اس کے علاوہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ «من كان ذبح قبل أن يصلي فليذبح مكانه أخرى» [بخاري و مسلم]
”يعنی جس نے نماز سے پہلے قربانی کر ڈالی اسے اس کے بدلہ میں دوسری قربانی کرنی ہو گی۔“
◈ «نحر» يه لفظ بھی قرآن کریم میں وارد ہوا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے :
«فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ» [108-الكوثر:2]
”پس تو اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔“

قربانی کی تاريخ :
قرآن کریم کی بعض آیات سے یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ قربانی کی تاریخ بہت پراني ہے، بلکہ یہ کہنا درست ہے کہ اس عبادت کا آغاز دنیا میں ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی آمد کے بعد ہی سے ہے، جیسا کہ سورۃ المائدہ میں ان کے دو بیٹوں کی قربانی کا ذکر ہوا ہے۔ جس میں اس بات کی صراحت ہے ان میں ایک بیٹے (ہابیل) کی قربانی اس کے اخلاص نیت کے باعث مقبول ہوئی اور دوسرے بیٹے (قابیل) کی قربانی جذبہ اخلاص کے فقدان اور عدم تقوی کے سبب مقبول نہ ہوئی۔
تفصیل کے لئے سورۃ المائدہ آیت نمبر 2 تا آیت نمبر 31 د یکھا جائے۔
حضرت آدم علیہ السلام کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت طیبہ میں بھی قربانی کا ذکر بہت نمایاں ہے، يه قربانی اللہ کو اس قدر پسند آئی کہ بعد کی تمام قوموں میں بھی اسے باقی رکھا، جیسا کہ آیت کریمہ :
«وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ» [37-الصافات:108]
”اور ہم نے ان کا ذکر پچھلوں میں باقی رکھا۔“ سے واضح ہو رہا ہے۔ خود امت محمدیہ میں قربانی کی مشروعیت کا سبب سنت ابراہیمی کی یاد کو باقی رکھنا ہی قرار پایا ہے۔
اسی طرح اوپر ذکر کی گئی قرآن مجید کی آیت کریمہ :
«وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ» [22-الحج:34]
”اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چو پائے جانوروں پر الله کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دئے ہیں۔“
سے بھی یہ بخوبی ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ سنت گٌشتہ تمام قوموں میں جاری رہی ہے۔

ایک بے مثال اور یادگار قربانی :
گو کہ گزشتہ اقوام میں قربانی کی روایت عام رہی اور اللہ کے مخلص اور صالح بندے محض رضائے الہیٰ کے لئے ہر دور میں مختلف قسم کی قربانیاں اللہ کے حضور پیش کرتے رہے مگر دنیا کی سب سے سچی کتاب قرآن مجید میں ایک ایک قربانی کا ذکر ملتا ہے جو پوری انسانی تاریخ میں اخلاص وللہیت، فدا کاری، خود سپردگی اور استسلام کے لحاظ سے بے مثال اور قیامت تک کے لئے یادگار قرار دی گئی، يه وہ قربانی ہے جب اللہ تعالیٰ کے ادنیٰ اشارہ پر اس کے ایک نہایت مخلص بندے اور برگزیدہ نبی حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا نہ صرف عزم بالجزم کر لیا بلکہ عملی جامہ پہناتے ہوئے قربانی کے لئے انہیں پہلو کے بل زمین پر لٹا بھی دیا۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی ابتلاء آزمائش اور امتحانات سے عبارت ہے، قدم قدم پر اللہ تعالیٰ نے انہیں مختلف طریقوں سے آزمایا اور تمام کے امتحانات کی بھٹیوں میں تپا کر جب انہیں کندن بنا دیا تو ان کے سر پر «إمام الناس» کا تاج رکھ کر انہیں عالم انسانیت کے لئے پیشوا، قائد اور آئیڈیل قرار دیا، ساتھ ہی انہیں اپنی خلت (دوستی) سے سر فراز فرما کر انہیں ایک منفرد اعزاز سے نوازا، ان کی زندگی کا سب سے كٹهن امتحان زندگی کے آخری ایام یعنی عالم پیری میں اس طرح لیا گیا کہ آداب فرزندی سے کماحقہ واقف سعادت مند لخت جگر اسماعیل کی قربانی کا مطالبہ منجانب الله کر لیا گیا جو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکے تھے اور بھاگ دوڑ کی عمر کو پہنچ کر ان کے بڑھاپے کی لاٹھی اور سہارا بننے کے لائق ہو چکے تھے۔ اس بے مثال واقعہ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بڑے اختصار مگر جامعیت کے ساتھ ذکر کر کے اسے قیامت تک کے لئے زندہ و جاوید بنا دیا، آگے قرآن ہی کی روشنی میں اس واقعہ کے چند پہلووں کو ا جاگر کیا جا رہا ہے۔

باپ سے بیٹے کی قربانی کا مطالبہ :
قرآن کریم کے بیان کے مطابق جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لائق زمین اور ہونہار فرزند اسماعیل علیہ السلام بھاگ دوڑ يعنی بلوغت کے قریب عمر کو پہنچ گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ وہ اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کر رہے ہیں، پیغمبر کا خواب چونکہ وحی اور حكم الہیٰ ہوتا ہے اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ اللہ کی جانب سے بیٹے کی قربانی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، اس لئے وہ بلالیت و لعل اس کے لئے فوراً تیار ہو گئے، البتہ انہوں نے مناسب سمجھا کہ اس خواب کا ذکر بیٹے سے کر کے اس کی رائے بھی لے لی جائے تاکہ میرے امتحان سے پہلے خود اس کا بھی امتحان ہو جائے کہ بیٹا امتثال امر الہیٰ اور تعمیل فرمان باری کے لئے کس حد تک تیار ہے اور میری تربیت کا فیضان اس کے رگ اور وریشہ میں کہاں تک سرایت کر چکا ہے ؟ ورنہ حکم الہیٰ کے سامنے کسی کی رائے اور مشورہ کا کوئی عمل دخل قابل قبول نہیں ہوتا، قرآن کریم میں اس واقعہ کا پس منظر ان الفاظ میں بیان ہوا ہے :
«فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَىٰ» [37-الصافات:102]
”پھر جب وہ (بچہ) اس عمر کو پہنچا کہ ان کے ساتھ چلے پھرے، تو انہوں (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا: میرے پیارے بیٹے ! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے“ ؟

سعادت مند بیٹا قربان ہونے کو تیار :
قربان جائیے حلیم و بردبار بیٹے کے جواب پر باپ نے اس سلسلہ میں بیٹے کی رائے مانگی، بیٹے نے فدا کاری اور خود سپردگی کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے برجستہ کہا: میرے پیارے ابو! اس میں میری رائے لینے کی کیا ضرورت ؟ اللہ کی جانب سے آپ کو جو حکم ہوا ہے اس کو بجا لائیے، میں حکم الہیٰ کے سامنے سرنگوں ہوں اور اللہ کی راہ میں قربان ہونے کو بخوشی تیار ہوں، آپ ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ قرآن کے الفاظ میں بیٹے کا جواب ملاحظہ کریں :
«قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ» [37-الصافات:102]
”بیٹے نے جواب دیا کہ ابا ! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے، ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔“
ذبح عظیم :
گویا مشفق و مہربان باپ اپنے لاڈلے، چہیتے اور اکلوتے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے کمر بستہ اور خود وفاکیش، سعادت مند اور حلیم و بردبار بیٹا باپ کے ہاتھوں قربان ہونے کے لئے تیار ہے پھر اس خواب کو حقیقت کا روپ دیتے ہوئے۔ باپ نے قربانی کے لئے بیٹے کو پہلو یا پیشانی کے بل زمین پر لٹا دیا، یہ منظر دیکھ کر یقیناً زمین تھرا اٹھی ہو گی اور آسمان کانپ گیا ہو گا مگر باپ اور بیٹے کے عزم و ارادہ میں معمولی تزلزل بھی نہ آیا، باپ بیٹے کے حلق پر چھری پھیرنا ہی چاہتا تھا کہ آسمان سے آواز آئی، بس ابراہیم بس ! تمہارے نور نظر اور لخت جگر کی جان لینی مقصود نہیں تمھاری دوستی کا یہ انوکھا امتحان تھا جس میں تم سرخرو اور کامیاب نکلے ہم نے خواب کو حقیقت کا روپ دے کر فدا کاری اور جاں نثاری کی ایک لازوال مثال قائم کر دی، بیٹے کو قربان کرنے کی ضرورت نہیں، اس کے بدلہ اس جنت سے آئے اس مینڈھے کو ذبح کر کے اپنے جذبہ قربانی کو تسکین دو تمہاری یہ ادا اور جذبہ ایثار و قربانی مجھے اس قدر پسند آئی کہ میں نے تمھاری اس سنت کو تمھارے بعد آنے والوں میں باقی رکھنے کا فیصلہ کر لیا، قرآن نے اس بے مثال قربانی کی منظر کشی نہایت بلیغ اسلو ب میں اس طرح کی ہے۔
«فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ ‎ ﴿١٠٣﴾ ‏ وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ ‎ ﴿١٠٤﴾ ‏ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ‎ ﴿١٠٥﴾ ‏ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ ‎ ﴿١٠٦﴾ ‏ وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ ‎ ﴿١٠٧﴾ ‏ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ ‎ ﴿١٠٨﴾ ‏ سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ ‎ ﴿١٠٩﴾ ‏ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ‎ ﴿١١٠﴾ ‏ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ» [37-الصافات:103,111]
”غرض جب دونوں مطیع ہو گئے اور انہوں (باپ) نے اس (بیٹے) کو پیشانی (یا پہلو) کے بل گرا دیا تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم ! (بس کر) یقیناً تو نے تو اپنے خواب کو سچا کر دکھایا، بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزاء دیتے ہیں، در حقیقت یہ کھلا امتحان تھا، اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ (جنت سے لایا ہوا مینڈھا) اس کے فدیہ میں دے دیا، اور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا، ابراہیم پر سلام ہو، ہم نیک و کاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں، بیشک وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھا۔“
اس طرح ابراہیم علیہ السلام کی قربانی قیامت تک آنے والے اہل ایمان کے لئے عبرت و موعظت کا سبق بن گئی۔

قربانی کی مشروعیت :
قربانی کا حکم قرآن کریم کی سورہ کوثر میں صراحت کے ساتھ ہے :
«فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ» ‎ [108-الكوثر:2]
”پس تو اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔“
مولانا حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں تحریر فرمایا کہ ”یہاں نور سے مراد : مطق قربانی ہے، علاوہ ازیں اس میں بطور صدقہ و خیرات جانور قربان کرنا، حج کے موقعہ پر منیٰ میں اور عید الاضحی کے موقعہ پر قربانی کرناسب شامل ہے۔“
علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مفسرین نے «نحر» کا معنی قربانی ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد موصوف نے قربانی کی مشروعیت پر تمام مسلمانوں کا اجماع نقل فرمایا «و أجمع المسلمون على مشروعية الأضحية» [المغني : 627/8]
احادیث مبارکہ کے ذخیرہ میں قربانی کی مشروعیت کے تعلق سے کئی حدیثیں ہیں، مثلاً : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ «كان النبى صلی اللہ علیہ وسلم يضحي بكبشين و أنا أضحي بكبشين» [بخاري]
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو دنبوں کی قربانی کرتے تھے اور میں بھی دونوں کی قربانی کرتا ہوں۔“
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «من وجد سعة فلم يضح فلا يقربن مصلانا»
[صحيح ابن ما جه : 2032]
”جسے (قربانی) کی وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب ہرگز نہ آئے۔“

قربانی کا حکم
قربانی کی مشروعیت پر اتفاق کے باوجود اس کے حکم کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، احناف نے اسے ہر صاحب استطاعت مسلمان کے لئے واجب قرار دیا ہے، اور سورۃ الکوثر کی آیت سے انہوں نے استدلال کیا ہے، تاہم سنت موکدہ کہنے والوں نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہاں حکم قربانی کے وجوب اور فرضیت کے لئے نہیں ہے، بلکہ اس میں غیر اللہ کو چھوڑ کر صرف اللہ کے لئے قربانی کا حکم ہے۔
امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے نزدیک قربانی سنت مؤکدہ ہے، اسی طرح جمہور علماء اور علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے وجوب کی کوئی دلیل ثابت نہیں۔ اس بناء پر علماء اہل حدیث بھی وجوب کے بجائے اس کے سنت مؤکدہ ہونے کے قائل ہیں، شیخ الحدیث علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے مفصل بحث کے بعد لکھا کہ «وقد ظهر بما ذكرنا رجحان قول من ذهب إلى أن الأضحية سنة مؤكدة غير واجبة، يكره تر كها: لمن يقدر عليها، و وهن قول من ذهب إلى وجوبها»۔ [مرعاة المفاتيح : 350/2]
”یعنی ذکر کردہ دلائل کی روشنی میں ان لوگوں کے قول کا راجح ہونا واضح ہو گیا جو قربانی کو واجب نہ قرار دے کر اسے ایسی سنت مؤکدہ کہتے ہیں جس کا ترک صاحب استطاعت شخص کے لئے مکروہ ہے اور ان لوگوں کی رائے کا ضعف بھی نمایاں ہو گیا جو قربانی کو واجب قرار دیتے ہیں۔“
امام بخاری رحمہ اللہ نے قربانی کے تعلق سے اپنی صحیح بخاری میں باب قائم فرمایا «باب سنة الأضحية» اس کے بعد حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ اثر نقل کیا «هي سنة و معروف» ”یعنی قربانی سنت ہے اور یہ بات معروف ہے۔“ پھر یہ حدیث ذکر فرمائی «من ذبح بعد الصلاة فقد تم نسكه و أصاب سنة المسلمين» ”یعنی جس نے نماز کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہو گئی اور اس نے مسلمانوں کا طریقہ پالیا۔“ [صحيح بخاري]
اسی طرح امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کے سنت مؤکدہ ہونے کی صراحت کی ہے، اور اپنی «جامع» میں باب باندھا «الدليل على أن الأضحية سنة» پھر اس روایت کو نقل فرمایا ہے جس میں ذکر ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا کہ قربانی فرض ہے یا سنت ؟ تو انہوں نے صرف اتنا فرمایا کہ «ضحي رسول الله صلى الله عليه وسلم و المسلمون» ”یعنی قربانی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور تمام مسلمانوں نے کیا“۔ اس کے بعد امام ترمذی نے لکھا «و العمل صلی اللہ علیہ وسلم على هذا عند أهل العلم أن الأضحية ليست بواجبة و لكنها سنة من سنن النبى صلی اللہ علیہ وسلم يستحب أن يعمل بها، و هو قول سفيان الثوري و ابن المبارك» [سنن ترمذي]
”یعنی اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ قربانی واجب نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے جس پر عمل کرنا مستحب ہے۔ یہی سفیان ثوری اور عبد اللہ بن مبارک کا قول بھی ہے۔“
جن لوگوں نے قربانی کو واجب کے بجائے سنت مؤکدہ کہا ہے ان کا استدلال صحیح مسلم کی اس روایت سے بھی ہے جس میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جو شخص قربانی کا ارادہ رکھے اور (ذی الحجہ کا) عشرہ آ جائے تو وہ اپنے بال اور ناخن کچھ بھی نہ کاٹے۔“ [صحيح مسلم]
اس حدیث سے ان حضرات کا استدلال اس طرح ہے کہ یہاں قربانی کو ارادہ کے ساتھ معلق کیا گیا ہے، اگر قربانی واجب اور فرض ہوتی تو اسے ارادہ اور خواہش پر موقوف و معلق نہ کیا جاتا، اس لئے کہ کسی واجب کے بارے میں کسی کو کرنے یا نہ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا ہے۔

قربانی کی فضیلت کے تعلق سے ضعیف و موضوع روایات :
گو کہ قربانی کی مشروعیت کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے اور دور نبوی سے لے کر اب تک یہ سنت پورے تواتر کے ساتھ امت میں جاری اور ساری ہے۔ تاہم کسی صحیح حدیث میں اس کی فضیلت یا ثواب کے تعلق سے کوئی ذکر نہیں ہے، جیسا کہ ابن العربی نے ترمذی کی شرح میں لکھا ہے کہ «ليس فى فضل الأضحية حديث صحيح» یعنی قربانی کی فضیلت میں کوئی ایک بھی صحیح حدیث وارد نہیں، صاحب مرعاۃ نے ابن العربی کا یہ قول ذکر کرنے کے بعد اس کی توثیق و تائید خود بھی فرمائی اور لکھا «الأمر كما قال ابن العربي، والله أعلم» ”یعنی بات ایسی ہی ہے جیسا ابن العربی نے فرمایا۔“ واللہ اعلم۔
اس کے باوجود اس تعلق سے عوام و خواص میں بعض روایتیں بہت شہرت پا چکی ہیں جنھیں بدقسمتی سے حدیث و سنت سے نابلد بعض واعظین اور مقررین بالا جھجھک بیان کرتے ہیں اور کچھ لکھنے والے ان کے اصل روایتوں کو اپنی تحریروں میں ذکر کرنے کی جسارت بھی کر جاتے ہیں، حالانکہ ایسی روایتوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کر کے بیان کرنا یا لکھنا بہت بڑا جرم ہے اور صحیح حدیثوں میں ایسے لوگوں کے لئے جہنم کی سخت وعید وارد ہوئی ہے، اس لئے یہاں ایسی بعض روایتیں صرف اس مقصد کے لئے ذکر کی جار ہی ہیں کہ علماء اور عوام ان سے واقف رہیں اور ان کے بیان سے اجتناب کریں۔
ان روایتوں پر حکم لگانے کے سلسلہ میں شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ رحمانی رحمہ اللہ کی مرعاة المفاتيح اور علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی سلسلة الأحاديث الضعيفة و الموضوعة سے استفادہ کیا گیا ہے۔
پہلی روایت : «عن زيد بن أرقم قال قال أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم الله يا رسول الله ما هذه الأضاحي ؟ قال سنة أبيكم إبراهيم عليه السلام، قالوا مالنا فيها يا رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ قال بكل شعر حسنة، قالوا فالصواف يا رسول الله ؟ قال بكل شعرة من الصوف حسنة»
”حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! یہ قربانیاں کیا ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہیں، لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ ! ان سے ہم کو کیا ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہر بال کے بدلے ایک نیکی، لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ ! روئیں سے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : روئیں کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔“
یہ روایت موضوع ہے، اس کو امام احمد، بیہقی اور حاکم وغیرہ نے «عائذ الله عن أبى داؤد عن زيد بن أرقم» کے طریق سے روایت کیا ہے اور حاکم نے اس کی تصحیح بھی کی، مگر منذری نے اسے ذکر کرنے بعد اس پر تنقید کی اور حاکم کی تردید کرتے ہوئے فرمایا «بل واهية، عائذ الله هو المجاشعي و أبو داود هو نفيع بن الحارث الأعمى، وكلاهما ساقط»
”یعنی اس حدیث کی سند واہی (نہایت کمزور) ہے، عائذ اللہ در اصل المجاشعی ہے، اور ابو داود نفیع بن الحارث الاعمی ہے، اور یہ دونوں ساقط ہیں۔“ بوصیری نے مجمع الزوائد میں لکھا کہ ”اس کی سند میں ابو داود نفیع بن الحارث ہے اور وہ متروک ہے اور اس پر حدیث گڑھنے کی تہمت لگائی گئی ہے۔“ بیہقی نے امام بخاری رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ”عائذ اللہ المجاشعی کی ابو داؤد سے روایت یہ نہیں ہے“، ابن الترکمانی نے فرمایا کہ ابو داودا نفیع متروک ہے، امام ذہبی نے اپنی دو کتابوں الكاشف اور الضعفاء میں اس کا ذکر کیا ہے۔
[مرعاة المفاتيح 365/2]
امام ذہبی نے ابو داود کے بارے میں صراحت سے لکھا کہ وہ حدیثیں گڑھتا تھا، ابن حبان نے فرمایا کہ ”اس سے حدیثوں کی روایت درست نہیں، اسی طرح عائذ اللہ کے بارے میں بھی امام ابو حاتم نے فرمایا وہ منکر الحدیث ہے۔“ [الضعيفة 14/2 حديث نمبر : 567]

دوسری روایت : «عن عائشة قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم له ماعمل ابن آدم من عمل يوم النحر أحب إلى الله من إهراق الدم وإنه ليأتي يوم القيامة بقرونها وأشعارها وأظلافها، وإن الدم ليقع من الله بمكان قبل أن يقع بالأرض، فطيبوا بها نفسا»
”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قربانی کے دن انسان کا کوئی بھی عمل خون بہانے سے زیادہ اللہ کو محبوب نہیں ہے۔ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنی سینگ، بال، اور کھروں کے ساتھ حاضر ہوگا، اور خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے یہاں اپنا مقام بنا لیتا ہے یعنی مقبول ہو جاتا ہے۔ اس لئے تم خوش دلی سے قربانی کرو۔“
اس روایت کو ترمذی، ابن ماجہ، حاکم اور بیہقی نے سے روایت ہے کہ «ابو المثني – سليمان بن يزيد عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة» کے طریق سے روایت کیا ہے، اس حدیث کی سند میں ابو المثني سلیمان بن یزید کے بارے میں امام ذہبی نے فرمایا «سليمان واہ و بعضهم تركه» ”یعنی سلیمان حد درجہ کمزور ہے“ اور بعض محدثین نے اسے متروک قرار دیا ہے۔ منذری نے لکھا کہ «سليمان واه وقد وثق» ”یعنی سلیمان نہایت کمزور ہے“ اور اس کی توثیق بھی کی گئی ہے، امام بغوی نے فرمایا کہ ”ابو حاتم نے اسے سخت ضعیف قرار دیا ہے۔“ نیز امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ”یہ حدیث مرسل ہے اور ابو المثني کا سماع ہشام بن عروہ سے ثابت نہیں ہے۔“ [الضعيفة 14/2 حديث نمبر : 526، مرعاة المفاتيح 365/2]
تیسری روایت : «ماعمل ابن آدم فى هذا اليوم أفضل من دم يهراق إلا أن تكون رحما توصل»

”اس (قربانی کے) دن انسان کا کوئی عمل خون بہانے سے زیادہ افضل نہیں ہے سوائے صلہ رحمی کے۔“
یہ حدیث ضعیف ہے منذری نے لکھا کہ ”طبرانی نے المعجم الكبير میں بطریق ابن عباس سے روایت کیا ہے۔ اس کی سند میں یحیی بن حسن الخشنی نام کا راوی ہے جس کا حال مجھے معلوم نہیں“، ہاشمی نے لکھا کہ ”وہ ضعیف ہے“، علامہ البانی فرماتے ہیں کہ المعجم الكبير میں مجھے یہ حدیث یحیی بن حسن الخشنی کے بجائے «حسن بن يحي الخشني عن اسماعيل بن عياش عن ليث عن طاوس عن ابن عباس» کے طریق سے ملی، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حسن بن يحی الخشنی کا نام بعض نساخ نے الٹ دیا ہے، نیز یہ بھی پتہ چلا کہ یہ حدیث ضعیف ہے اس لئے کہ اس میں اسماعيل بن عياش اور ليث ابن ابي سليم دونوں ہی ضعیف ہیں، گویا یہ اسناد مسلسل بالضعاف ہے۔ [الضعيفة 14٫2، حديث : 535]

چوتھی روایت : «عظموا ضحايا كم فإنها على الصراط مطايا كم»
”اپنی قربانیوں کو خوب بڑا اور موٹا کرو، اس لئے کہ وہ پل صراط پر تمہاری سواری ہوں گے۔“
علامہ البانی نے فرمایا : ان الفاظ کے ساتھ حدیث بے اصل ہے،
ابن صلاح نے فرمایا «هذا حديث غير معروف ولا ثابت»
”یعنی یہ حدیث نیز محدثین کے یہاں معروف ہے اور نہ ہی ثابت۔“
ایک روایت میں «عظموا» کی جگہ «استفرهوا» ہے، جس کا مفہوم ہے کہ قیمتی تندرست اور موٹے جانور کی قربانی کرو، امام البانی نے فرمایا : یہ لفظ جس سند کے ساتھ آیا ہوا ہے وہ بھی بہت ضعیف ہے۔ [الضعيفة 173/1، حديث : 74]

پانچویں روایت : «أيها الناس ضحوا واحتسبوا بدمائها، فإن الدم وإن وقع فى الأرض فإنه يقع فى حرز الله»
”اے لوگو ! قربانی کرو اور قربانی کے خون پر ثواب کی امید رکھو، اس لئے کہ خون اگرچہ زمین پر گرتا ہے لیکن وہ دراصل اللہ عز وجل کی بارگاہ میں پہنچتا ہے۔“
یہ حدیث موضوع ہے طبرانی نے اسے المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے، اس کی سند میں عمرو بن الحصین العقیلی ہے جو متروک الحدیث ہے۔
[الضعيفة 12/1، حديث : 530]

چھٹی روایت : «من ضحي طيبة بها نفسه محتسبا لأضحيته كانت له حجابا من النار»
”جس شخص نے خوش دلی سے قربانی کیا اور اپنی قربانی پر اجر و ثواب کا امیدوار ربا تو یہ قربانی اس کے لئے جہنم سے اوٹ بن جاتی ہے۔“
یہ روایت بھی موضوع ہے ہیشمی نے ”مجمع الزوائد“ میں تحریر فرمایا ہے کہ اس کی سند میں سلیمان بن عمرو النخعی نام کا راوی ہے جو کذاب ہے، ابن حبان نے فرمایا کہ ”سلیمان بن عمرو النخعی بظاہر اچھا انسان تھا مگر یہ حدیثیں گھڑتا تھا۔“
[الضعيفة 15/2 حديث : 529]

ساتویں روایت : «يافاطمة ! قومي إلى اضحيتك فاشهديها فإنه يغفرلك عند أول قطرة من دمها كل ذنب عملتيه، و قولي إن صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين، لاشريك له، و بذلك أمرت وأنا من المسلمين، قال عمران بن حصين : قلت يا رسول الله صلى الله عليه وسلم ! هذا لك ولأهل بيتك خاصة وأهل ذلك أنتم أم للمسلمين عامة ؟ قال بل للمسلمين عامة»
”اے فاطمہ اپنی قربانی کے پاس جاؤ اور وہاں موجود رہو، اس لئے کہ اس کے خون کے پہلے قطرے کے ساتھ تمہارے وہ سارے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں جنھیں تم نے کیا ہے، اور کہو کہ بیشک میری نماز، میری عبادت میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں، اور اس کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں، عمران بن حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! کیا یہ آپ کے لئے اور آپ کے اہل بیت کے لئے خاص ہے یا سارے مسلمانوں کے لئے عام ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں بلکہ سارے مسلمانوں کے لئے عام ہے“۔
یہ روایت منکر ہے، حاکم نے اسے «نضر بن اسماعيل ثنا أبو حمزه عن سعيد بن جبير عن عمران بن حصين» کے طریق سے مرفوعاً ذکر کیا ہے اور اسے صحیح بھی کہا ہے مگر امام ذہبی نے حا کم کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : «قلت بل أبو حمزه ضعيف جدا و ابن اسماعيل ليس بذاك» یعنی ابو حمزہ بہت ضعیف ہے اور نضر بن اسماعیل کی روایت قوی نہیں، امام حاکم نے عطیۃ عن ابی سعید الخدری کے واسطے سے ایک دوسری روایت مرفوعا بطور شاہد ذکر کی ہے امام ذہبی نے اس کی بھی تردید فرمائی اور لکھا «عطية واه» ابن ابی حاتم نے العلل [38/2 – 39] میں فرمایا کہ «سمعت أبى يقول وهو حديث منكر» ”میں نے اپنے والد امام ابو حاتم رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ یہ حدیث منکر ہے“۔ [الضعيفه 15/2، حديث : 528]

کیا قربانی ہر گھر پر ہے یا گھر کے ہر فرد پر ؟
صحیح حدیشوں کی روشنی میں راجح قول یہی ہے کہ ایک جانور کی قربانی تمام اہل خانہ کے لئے کفایت کر جائے گی، چنانچہ احناف کو چھوڑ کر امام مالک، امام اوزاعی، لیث، ابن قیم، شوکانی رحمہم اللہ وغیرہم کا یہی قول ہے اور دلیل میں ان حضرات نے یہ حدیث پیش کی ہے کہ حضرت عطاء بن یسار رحمہ اللہ نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں قربانیاں کیسے کی جاتی تھیں ؟ تو انہوں نے فرمایا : «كان الرجل فى عهد النبى صلی اللہ علیہ وسلم يضحي بالشاة عنه و عن أهل بيته» ”یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں آدمی بکری کی قربانی اپنی جانب سے اور اپنے تمام اہل خانہ کی جانب سے کرتا تھا“۔ [صحيح ابن ماجه : 2546]

ایک غلط فہمی کا ازالہ :
دراصل ایک ضعیف ترین روایت جو عوام کیا خواص اور پڑھے لکھے لوگوں تک میں بہت مشہور ہے کہ «عظموا ضحاياكم، فإنها على الصراط مطاياكم» ”یعنی اپنی قربانیوں کو خوب بڑا اور فربہ کرو اس لئے کہ یہ پل صراط پر بھاری سواریاں ہوں گی۔“ یہ حدیث بے حد ضعیف ہے جیسا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کی صراحت فرمائی ہے۔ [الضعيفة : 2/1، حديث 74] اس روایت سے متعلق تفصیلی گفتگو ا گلے صفحات میں ہو چکی ہے اور ضعف کے اسباب کی وضاحت کی جا چکی ہے۔
اس ضعیف روایت سے خواہ مخواہ ذہن میں یہ تصور قائم کر لیا گیا کہ اگر الگ الگ ہر ہر فرد کی جانب سے قربانیاں نہ کی جائیں گی اور صرف گھر کے ذمہ دار ہی کی طرف سے ہر سال قربانی ہو گی تو گھر کے دوسرے افراد پل صراط پر سواری والی سعادت اور سہولت سے محروم رہیں گے اور اس کا فائدہ صرف گھر کے مالک تک سمٹ کر رہ جائے گا۔ اس تصور کی بناء پر بھی لوگ باری باری جملہ اہل خانہ کی طرف سے قربانی کرنا ضروری خیال کرتے ہیں لیکن جب اس تصور کی بنیاد ہی کمزور ہے تو اس پر اٹھائی گئی دیوار ٹھیک اور پائدار کیوں کر ہو گی ؟ اس لئے سنت یہی ہے کہ قربانی گھر کے ہر ہر فرد کی جانب سے کرنے کے بجائے گھر کے ذمہ دار اور جملہ افراد خانہ کی طرف سے ایک ساتھ کی جائے، اجر و ثواب میں سبھی برابر کے شریک ہوں گے۔

اس تحریر کو اب تک 15 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply