کیا بھینس کی قربانی جائز ہے؟

تحریر: عنایت اللہ مدنی حفظہ اللہ

پہلی فصل:

بهيمة الأنعام (قربانی کا جانور) کا معنی و مفہوم

قربانی کے سلسلہ میں کتاب و سنت میں جہاں بہت سے احکام و مسائل کی رہنمائی امت کو دی گئی ہے وہیں بدیہی طور پر قربانی کے جانوروں کے اقسام و انواع – یعنی کن جانوروں کی قربانی کی جا سکتی ہے ان کی بھی نشاندہی اور وضاحت کی گئی ہے ۔
چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے جن جانوروں کی قربانی مشروع فرمائی ہے انہیں بهمة الانعام کانام دیا ہے ۔ جیسا کہ متعدد آیات میں ارشاد ہے:
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۗ فَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا ۗ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ [الحج: 34]
”اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چو پائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں سمجھ لو کہ تم سب کا معبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہو جاؤ عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔“
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
يعني: الإبل والبقر والغنم ، كما فصلها تعالى فى سورة الأنعام وأنها ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ [الانعام: 143]
یعنی اونٹ ، گائے اور بکرا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام میں اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے کہ وہ ”نر و ماندے“ آٹھ ہیں ۔
نیز ارشاد ہے:
وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ [الحج: 28]
”اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں ان چوپایوں پر جو پالتو ہیں پس تم آپ بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ۔“
نیز ارشاد ہے:
ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۖ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ ۗ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَيَيْنِ ۖ نَبِّئُونِي بِعِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ‎ ﴿١٤٣﴾‏ وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ ۗ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَيَيْنِ ۖ أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ وَصَّاكُمُ اللَّهُ بِهَٰذَا ۚ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا لِّيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ [الانعام: 143 ، 146]
” (پیدا کیے) آٹھ نر و مادہ یعنی بھیڑ میں دو قسم اور بکری میں دو قسم آپ کہیے کہ کیا اللہ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مارہ کو؟ یا اس کو جس کو دونوں مادہ پیٹ میں لئے ہوئے ہوں؟ تم مجھ کو کسی دلیل سے تو بتاؤ اگر سچے ہو ۔ اور اونٹ میں دو قسم اور گائے میں دو قسم آپ کہیے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مادہ کو؟ یا اس کو جس کو دونوں مادہ پیٹ میں لئے ہوئے ہوں؟ کیا تم حاضر تھے جس وقت اللہ تعالیٰ نے تم کو اس کا حکم دیا؟ تو اس سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ تعال پر بلا دلیل جھوٹی تہمت لگانے ، تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے یقیناًً اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو راستہ نہیں دکھلاتا“ ۔
نیزر ایک اور جگہ ارشاد ہے:
وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ الْأَنْعَامِ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ [الزمر: 4]
”اور تمہارے لئے چوپایوں میں سے (آٹھ نر و مادہ) اتارے۔“
——————

بهيمة الأنعام کا لغوی مفہوم:

اولا: بهيمة
بهيمة کا لغوی مفہوم:
بهيمة کا لفظ بھم ، اور ابھام سے ماخوذ ہے جس کے معنی پو شیدگی ، اخلاق ، اور عدم وضوح کے ہیں ،
علمائے لغت کہتے ہیں:
كل حي لا يميز فهو بهيمة [تهذيب اللغة 178/6 , ولسان العرب 56/12 و المصباح المنير فى غريب الشرح الكبير 65/1]
”ہر زندہ جو تمیز نہ کر سکے وہ بہیمہ ہے“ ۔
اور اس بہیمہ کی صفت و کیفیت کے بارے میں علمائے لغت نے صراحت کی ہے کہ وہ چار پیروں کا جانور ہے خواہ خشکی میں ہو یا تری میں ، چنانچہ علامہ زبیدی فرماتے ہیں:
البهيمه كسفينة: كل ذات أربع قوائم ولؤ فى الماء [تاج العروس 307/31 ، نيز ديكهئے: تہذیب اللغة 179/6 ، والمصباح المنير فى غريب الشرح الكبير 65/1 ، الكليات ص: 226 ، وحياۃ الحیوان الكبري ، 228/1 ، ومعجم اللغة العربية المعاصرہ 257/1 ۔ نيز ديكهئے تفسير القرطبی 34/6 نيز فتح القدیرشوکانی 6/2 و روح البيان 337/2 ، وتفسیر الکاشف للزمخشري 601/1]
”بہیمہ سفینہ کے وزن پر ہے جو ہر چو پائے کو کہا جاتا ہے خواہ وہ پانی کا بھی ہو“ ۔
اور علامہ نواب محمد صدیق حسن خان فرماتے ہیں:
والبهيمة اسم لكل ذي أربع من الحيوان لكن خص فى التعارف بما عدا لسباع والضواري من الوحوش فتح البایان فی مقاصد القرآن 322/3
”بہیمہ ہر چوپایہ جانور کا نام ہے لیکن عرف عام میں ان جانوروں کے ساتھ خاص ہے جو درندے اور خونخوار جنگلی نہ ہوں“ ۔
اور علامہ محمد محمود حجازی لکھتے ہیں:
وخصها العرف بذوات الأربع من حيوان البر والبحر التفسیر الواضح 474/1
”عرف نے اسے خشک اور سمندر کے چار پائے جانوروں کے ساتھ خاص کر دیا ہے ۔“
——————

بهيمه کی وجہ تسمیہ:

علمائے لغت بہیمہ کی و جہ تسمیہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
وإنما قيل له: بهيمة لانه أبهم عن أن يميز [تہذیب اللغة 178/6 ۔ ولسان العرب 56/12 ۔ والمصباح المنير فى غريب الشرج البير 65/1]
”اسے بہیمہ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اسے تمیز کرنے سے مبہم ، بند اور محروم کر دیا گیا ہے“ ۔
علامہ محمد بن ابو الفتح بعلی فرماتے ہیں:
سميت البهيمۃ بذلك ؛ لأنها لا تتكلم [المطلع على الفاظ المقنع ص: 157]
”اسے بہیمہ اس لئے کہا جا تا ہے کہ وہ بات نہیں کرتا“ ۔
علامہ دمیری فرماتے ہیں:
سميت بہیمۃ لإبھامها ، من جهة نقص نطقها وفهمها ، وعدم تمييزها وعقلها [حياۃ الحیوان الكبري 228/1 ، نيز ديكهئے: انظم المستعذب فی غريب الفاظ المہذب 223/1 و الكیات ص: 226 تاج العروس 307/31 ، والمزہر فی علوم اللغۃ وأنواعها 315/1 ، والتفسیر الواضح 474/1]
”بہیمہ اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی گویائی اور سمجھ کی کمی اور عقل و تمیز سے محرومی کے اعتبار سے بند اور مبہم ہوتا ہے“ ۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے علامہ عسکری لکھتے ہیں:
وسميت البهيمة بھيمة لأنها أبھمت عن العلم والفهم ولا تعلم ولا تفهم فهي خلاف الإنسان والإنسانية خلاف البهيمية فى الحقيقة وذلك أن الإنسان يصح أن يعلم إلا أنه ينسى ما علمه والبهيمة لا يصح أن يعلم [الفروق اللغويته للعسكري ص: 274]
بہیمہ کا نام بھیمہ اسی لئے ہے کہ اسے علم اور سمجھ بوجھ سے بند رکھا گیا ہے، نہ وہ جان سکتا ہے نہ سمجھ سکتا ہے ، بلکہ وہ انسان کے خلاف ہے، اور درحقیقت انسانیت بھیمیت کے خلاف ہے ، کیونکہ انسان علم کے قابل ہے ، ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ وہ معلومات کو بھول بھی جاتا ہے لیکن بھیمہ تو علم کے قابل ہی نہیں ہے ۔
اور اسی بات کی وضاحت مفسرین نے بھی فرمائی ہے ، چنانچہ علامہ بغوی فرماتے ہیں:
سميت بهيمة لأنها أبھمت عن التمييز ، وقيل: لأنها لا تطق لها [تفسير البغوي ، ط دارطيبته 2 /7 نيز ديكهئے: تفسير ابن عطية ، 145/2 ، وتفسير البيضاوي ، 113/2]
بھیمہ کو بھیمہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ و تمیز سے محروم ہے ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ گویائی سے محروم ہے۔

علام نواب صدیق حسن خان قنوجی فرماتے ہیں:
وإنماسميت بذلك لإبھامها من جهة نقص نطقها وفهمها وعقلها ، ومنه باب مبهم أى مغلق ، وليل يتيم [فتح البيان فى مقاصد القرآن 322/3]
اسے بہیمہ اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی گویائی ، عقل اور سمجھ کی کمی کے اعتبار سے ، بند اور
مبہم ہوتا ہے ، اور اسی سے ”باب مبہم“ ہے یعنی بند دروازہ ، اور ”لیل بہیم“ ہے یعنی بالکل گھپ اندھیری رات ۔
اور امام قرطبی ، علامہ شوکانی اور ابن عطیہ رحمہم اللہ فرماتے ہیں:
سميت بذلك لإ بهامها من جهة نقص تطقها وفهمها وعدم تمييزها وعقلها ، ومنه باب مبهم أى مغلق ، وليل بهيم ، وبهيمته للشجاع الذى لا يدرى من أين يؤتى له [تفسير القرطبي 6 /34 فتح القدير للشوكافي 6/2 ، والمحررالوجيز فى تفسير الكتاب العزيز ، لابن عطيه 145/2]
بھیمہ اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی گویائی اور سمجھ کی کمی اور عقل و تمیز سے محرومی کے اعتبار سے ، بند اور مبہم ہوتا ہے ، اور اسی سے ”باب مبہم“ ہے یعنی بند دروازوہ ، اور ”لیل بہیم“ ہے یعنی بالکل اندھیری رات ، اور بھیمتہ اس بہادر اور پہلوان کو کہتے ہیں ، کہ سمجھ میں آئے کہ اس پر کیسے قابو پایا جائے ۔
اور صاحب ”الکلیات“ علامہ ابوالبقا کفوی فرماتے ہیں:
البهيمة: كل حي لا عقل له ، وكل ما لانطق له فهو بھیمة ، لما فى صوته من الإبهام ، ثم اختص هذا الإسم بذوات الأربع ولو من دواب البحر ، ما عدا السباع [ديكهئے: الكليات ، ص 226]
بھیمہ: ہر جاندار جسے عقل نہ ہو اور جسے گویائی نہ ہو وہ بھیمتہ ہے ، کیونکہ اس کی آواز میں ابہام ہوتا ہے ، پھر اس نام کو چوپایوں نے لئے خاص کر لیا گیا ، خواہ وہ سمندری جانور ہو ، سوائے
درندوں کے ۔
اور اسی بات کی و ضاحت دیگر علمائے تفسیر اور شارحین حدیث نے بھی فرمائی ہے ۔ [تفسير القرطبي 6/ 34 ، واتفسير الميز للزحيلي 64/6 ، و عمدة القاري شرح صحيح البخاري 10 /56 ، و ڈخيرة العقبي فى شرح المجبتي 36 /305]

ثانیا: ”الأنعام“ :
”الانعام“ کا لغوی مفہوم:
انعام کا واحد نعم صرف اونٹ کو کہتے ہیں ، اور انعام اونٹ ، گائے اور بکری سب پر بولا جاتا ہے ، بشرطیکہ اس میں اونٹ بھی ہو ، ورنہ نہیں ۔

علامہ ابن منظور افریقی فرماتے ہیں:
قال ابن الأعرابي: القيم الإبل خاصة ، والأنعام الإبل والبقر والغنم [لسان العرب 585/12 نيز ديكهئے: المحكم و المحيط الاعظم 198/2]
ابن الاعرابی کہتے ہیں: نعم خصوصیت کے ساتھ اونٹ کو کہتے ہیں جبکہ انعام اونٹ ، گائے اور بکری پر بولا جاتا ہے ۔

امام ابن فارس فرماتے ہیں:
والنعم: الإبل ، قال الفراء: هو ذكر لا يؤنث ، . . . ويجمع أنعاما ، والأنعام: البهائم [مجمل اللغة الابن فارس ص: 874]
نعم اونٹ کو کہتے ہیں ، فراء کہتے ہیں: یہ مذکر ہے اس کا مونث نہیں آتا ، ۔ ۔ ۔ اس کی جمع انعام ہے ، اور انعام چوپایوں کو کہا جاتا ہے ۔

علامہ ابو نصر جوہری فارابی لکھتے ہیں:
والنعم: واحد الأنعام ، وهى المال الراعية وأكثر ما يقع هذا الاسم على الإبل [الصحاح تاج اللغة وصحاح العربية 5/ 2043 ، نيز ديكهئے المصباح المنير فى غريب اشرح الكبير 2/ 613 ، والعين 162/2]
نعم انعام کی واحد ہے ، یہ چرنے والے جانوروں پر بولا جاتا ہے ، اور اس نام کا زیادہ تر اطلاقی اونٹ پر ہوتا ہے ۔

علامہ راغب اصفہانی فرماتے ہیں:
لكن اللانعام تقال للإبل والبقر والغنم ، ولا يقال لها أنعام حتى يكون فى جملتها الإبل [المفردات فى غريب القرآن ص: 815]
لیکن انعام کا لفظ اونٹ ، گائے اور بکری پر مشترکہ بولا جاتا ہے ، انعام نہیں کہا جا سکتا یہاں تک کہ ان میں اونٹ بھی ہو ۔
علامہ ابوالعباس احمد فیوی حموی لکھتے ہیں:
يطلق الأنعام على هذه الثلاثة فإذا انفردت الإبل فهي نعم وإن انفردت الغنم والبقر لم تسم نعما [المصباح المنير فى غريب الشرح الكبير 2 / 613 ، نيز ديكهئے: التعريفات الفقهيته ، ازمحمد عميم بركتي ص: 37]
انعام کا لفظ ان تینوں (اونٹ ، گائے اور بکری ) پر بولا جاتا ہے ، اور جب اونٹ الگ ہو تو وہ نعم ہے ، اور اگر گائے اور بکری الگ ہوں تو انہیں تم نہیں کہا جائے گا ۔

دکتور سعدی حبیب لکھتے ہیں:
النعم: الابل ، والبقر ، والغنم مجتمعة ، فإذا انفردت البقر ، والغنم لم تسم نعما ، ج: أنعام [القاموس الفقهي ص: 355 ، نيز ديكهے: المطلع على الفاظص: 157 ، وتفسير غريب مافي الصحيحين البخاري و مسلم ص: 394]
نعم: اونٹ ، گائے اور بکری کو اجتماعی طور پر کہا جاتا ہے ، اگر گائے اور بکری الگ ہو جائے تو انہیں نعم نہیں کہا جائے گا ، اس کی جمع انعام ہے ۔
خلاصہ کلام اینکہ نعم اور انعام میں اہل عرب کے یہاں فرق ہے ، چنانچہ فرق نہ کرنے والوں کی تردید کرتے ہوئے علامہ قاسم بن علی حریری بصری فرماتے ہیں:
وكذلك لا يفرقون بين النعم والأنعام وقد فرقت بينهما العرب ، فجعلت النعم اسما للابل خاصة وللماشية التى فيها الإبل وقد تذكر وتؤنث ، وجعلت انعام اسما لأنواع المواشي من الإبل والبقر والغنم ، حتى أن بعضهم أدخل فيها الظباء وحمر الو ش [درة الغواص فى اوبام الخواص ص: 240]
اسی طرح لوگ نعم اور انعام میں فرق نہیں کرتے ، حالانکہ عربوں نے دونوں میں فرق کیا ہے ، چنانچہ خصوصیت کے ساتھ صرف اونٹ کو ، اور اسی طرح جن مویشیوں میں اونٹ بھی ہو ، انہیں نعم کانام دیا ہے ، اور یہ مذکر اور مونث بھی استعمال کیا جاتا ہے ، اور مویشیوں کی مختلف قسموں مثلاًً اونٹ ، گائے اور بکریوں کو انعام کانام دیا ہے ، حتی کہ بعض لوگوں نے میں اس میں ہرنوں اور وحشی گدھوں کو بھی داخل کیا ہے ۔

الأنعام کی وجہ تسمیہ:
1۔ ”نعم“ نعومت سے ماخوذ ہے جس کے معنی نرمی کے ہوتے ہیں ، چونکہ قربانی کے ان جانوروں کی چالوں میں نرمی ہوتی ہے اس مناسبت سے انہیں بہیمہ کے ساتھ ”انعام“ سے مخصوص کیا گیا ، (یعنی نرم چال والے چوپائے) ، جیسا کہ اہل علم نے اس کی وضاحت فرمائی ہے ۔ چنانچہ علامہ قرطبی فرماتے ہیں:
سميت بذلك للين مشيها [تفسير القرطبي 6/ 34 ، نيز ديكهئے: ذخيرة اعقبي فى شرح المجتبي 305/36]
انہیں ان کی نرم چال کی وجہ سے ”انعام“ کہا گیا ہے ۔

اسی طرح امام شوکانی فرماتے ہیں:
سميت بذلك لما فى مشيها من اللين [فتح القدير الشوكاني 6/2]
انہیں اس لئے انعام کہا گیا ہے کہ ان کی چالوں میں نرمی پائی جاتی ہے ۔

اسی طرح علام نواب صدیق حسن خان فرماتے ہیں:
سميت بذلك لما فى مشيها من اللين [فتح البيان فى مقاصد القرآن 323/3]
انہیں انعام کہے جانے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی چالوں میں نرمی ہوتی ہے ۔

2۔ جبکہ بعض اہل لغت نے لکھا ہے کہ ”انعام“ نعمت سے ماخوز ہے ، اور نعم کا لفظ اہل عرب خاص اونٹوں پر بولا کرتے تھے ، کیونکہ اونٹ ان کے یہاں مقیم نعمت تھا ۔
علامہ ابن فارس لکھتے ہیں:
والنعم: الإبل ، لما فيه من الخير والنعمة [مقاييس اللغته 446/5]
نعم: اونٹ ہے ، کیونکہ اس میں خیر نعمت ہے ۔

علامہ محمد بن محمد مرتضی زیبدی فرماتے ہیں:
إنما حصت النعم بالإبل لكؤنھا عندهم أعظم نعمة [تا ج العروس 510/33]
نعم کو اونٹ کے ساتھ اس لئے خاص کیا گیا ہے کہ وہ عربوں کے یہاں سب سے بڑی نعمت تھا ۔

علامہ عبد القادر عمر بغدا دی لکھتے ہیں:
النعم مختص بالإبل قال: وتسميته بذلك لكون الإبل عندهم أعظم نعمته [خزانه الادب ولب لباب السان العرب للبغدادي 408/1]
نعم: اونٹ کے ساتھ خاص ہے ، اور نعم کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اونٹ ان کے یہاں مقیم ترین نعمت تھا ۔

امام عبد الرؤوف مناوی فرماتے ہیں:
والنعم مختص به الإبل سميت به لكونھا عندهم من أعظم النعم [التوقيف على مهمات التعاريف ص: 327]
او نعم اونٹ کے ساتھ خاص ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اونٹ عربوں کے یہاں ایک عظیم نعمت تھا ۔

علامہ راغب اصفہانی فرماتے ہیں:
وتسميتہ بذلك لكون الإبل عندهم أعظم نعمة [المفردات فى غريب القرآن 815]
نعم کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اونٹ ان کے یہاں عظیم ترین نعمت تھا ۔

3۔ ”الانعام“ بھیمتہ کی وضاحت اور بیان ہے:
علام نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والبهيمة مبهمة فى كل ذات أربع فى البر والبحر ، فبينت بالأنعام ، وهى الإبل والبقر والضأن والمعز التى تنحر فى يوم العيد وما بعده من الهدايا والضحاياه [فتح البيان فى مقاصد القرآن 42/9 نيز ديكهئے: 49/9]
بہیمہ خشکی و سمندر کے چوپایوں میں مبہم ہے ، لہٰذا انعام کے ذریعہ اس کی وضاحت کی گئی ، اور وہ اونٹ ، گائے مینڈھا اور بکری ہیں ، جنہیں عید الضحی کے دن اور اس کے بعد ہدی اور قربانی وغیرہ کی شکل میں ذبح کیا جاتا ہے ۔

امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقيدها بانعم لأن من البهائم ما ليس من الأنعام كالخيل والبغال والخمير ، لا يجوز ذبحها فى القرابين [تفسير البغوي 3 /340 ۔ ]
بہیمہ کو نعم سے مقید کر دیا ، کیونکہ کچھ بہائم ایسے بھی ہیں ، جو انعام نہیں ہیں ، جیسے گھوڑے ، خچر اور گدھے ، انہیں قربت کے کاموں میں ذبح کرناجائز نہیں ۔

علامہ آلوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
البهيمة كل ذات أربع واضافتها إلى الأنعام للبيان . . . فالبهيمة أعم من الانعام لان الانعام لا تتناول غير الأنواع الأربعة من ذوات الأربع [روح البيان 2 / 337]
بہیمہ ہر چوپائے کو کہا جاتا ہے ، اور انعام کی طرف اس کی اضافت بیان و وضاحت کے لئے ہے ۔ ۔ ۔ چنانچہ بہیمہ انعام سے عام تر ہے ، کیونکہ انعام میں چاروں کے علاوہ دیگر چوپائے نہیں آئے ۔

علامہ زمخشری تفسیر الکشاف میں لکھتے ہیں:
البهيمة: كل ذات أربع فى البر والبحر ، وإضافتها إلى الأنعام للبيان ، وهى الإضافة التى بمعنى ”من“ كخاتم فضة ومعناًً ه: البهيمة من الأنعام [الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل 1 / 601]
بہیمہ: کشتی اور سمندر کے ہر چوپائے کو کہا جاتا ہے ، اور انعام کی طرف اس کی اضافت بیان و وضاحت کے لئے ہے، یعنی وہ اضافت جو ”من“ (سے ) کے معنی میں ہے ، جیسے کہا جاتا ہے: چاندی کی انگوٹھی اور اس کا معنی ہے: انعام میں سے بہیمہ ۔

4۔ ”الانعام“ کی تفسیر میں علمائے مفسرین کے مجموعی طور پر تین اقوال میں ، چنانچہ امام قریبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وللعلماء فى الأنغام لا أقوال: أخذها- أن الأنعام الإبل خاصة وسيأتي فى النخل بيانہ . الثاني أن الأنعام الإبل وخدها ، وإذا كان معها بقر وعنهم فهي أنعام أيضا . الثالث وهو أصحها قال أحمد بن يحيى: الأنعام کل ما أحلہ الله عز وجل من الحيواني . ويدل على صحة هذا قول تعالى: أحلت لکم يھيمة الأنعام إلا ما يتلى علىیکم [تفسير القربي 111/7]

انعام کے سلسلہ میں علماء کے تین اقوال ہیں:
◈ انعام سے مراد خصوصیت کے ساتھ اونٹ ہیں، سورہ النحل میں اس کا بیان آئے گا ۔
◈ انعام صرف اونٹ کو بھی کہتے ہیں اور اگر اس کے ساتھ گائے ، بکریاں ہوں تب بھی وہ انعام ہیں ۔
◈ اور صحیح ترین ہے ۔ احمد بن ییحی فرماتے ہیں: انعام ہر اس جانور کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے ۔ اور اس قول کی صحت کی دلیل ، فرمان باری: ”تمہارے لئے مویشی چوپائے حلال کئے گئے ہیں بجزان کے جن کے نام پڑھ کر سنا دیئے جائیں گے“ ہے ۔

نیز امام الجوزی رحمہ اللہ سورۃ المائدہ کی اس پہلی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
بہیمتہ الانعام میں تین اقوال ہیں:
◈ مویشیوں کے بچے جو ماؤں کو ذبح کئے جانے کی صورت میں ، ان کے پیٹ میں مردہ پائے جاتے ہیں ۔ (ابن عمرو ابن عباس رضی اللہ عنہم )
◈ یہ اونٹ ، گائے اور بکریاں ، (حسن قتادہ سدی رحمہم للہ ) اور ربیع فرماتے ہیں: کہ اس میں سارے انعام مراد ہیں ۔ اور ابن قتیبہ فرماتے ہیں: اس سے مراد اونٹ ، گائے ، بکریاں اور تمام وحشی جانور ہیں ۔
◈ اس سے مراد وحشی چوپائے ہیں ، جیسے وحشی گائیں، ہرنیں اور وحشی گدھے ۔ [زاد المسير فى علم التفسير 1 / 506 نيز ديكهئے: تفسير الماوردي ”النكت العيون“ 6/2]
اسی طرح امام ابن جریر طبری اور علامہ ابن عطیہ رحمہما اللہ نے بھی اس سلسلہ میں کئی اقوال نقل فرمائے ہیں ۔ [ديكهئے تفسير طبري ، تحقيق شاكر 455/9 ، وتفسير ابن عطيه 114/2]

اور پھر امام طبری رحمہ اللہ نے بہیمۃ الانعام سے تمام قسم کے انعام مقصود ہونے کے قول کو راجح قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے:
وأولى القولين بالصواب فى ذلك ، قول من قال: عنى يقوله: ﴿أحلت لكم بهيمة الأنعمہ﴾ ، الأنعام كلها . . . ولم يخصص الله منها شيئا دون شيء ، فذلك على عمومه وظاهره ، حتى تأتي حجة بخصوصه يجب التسليم لها [تفسير طبري ، تحقيق شاكر 455/9]
اس سلسلہ میں دونوں اقوال میں سے درست قول ان لوگوں کا ہے جنہوں نے فرمان باری [تمهارے لئے بہیمة الانعام حلال كيا گيا ہے] سے تمام انعام کو مراد لیا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس میں سے کسی کی کوئی تخصیص نہیں فرمائی ہے ، لہٰذا وہ اپنے عموم اور ظاہر پر باقی ہے ، یہاں تک کہ اس خصوصیت پر کوئی واجب التسلیم دلیل آ جائے ۔ واللہ اعلم

بہیمۃ الأنعام کا شرعی و اصطلای مفہوم:
اصطلاح شرع میں ”بہیمۃ الانعام“ سے مراد اونٹ ، گائے اور بکرے (دونوں جنسیں ) ہیں ، جیسا کہ سلف مفسرین نے بیان فرمایا ہے ، امام ابن جریر طبری فرماتے ہیں:
وهي الأزواج الثمانية التى ذكر ها فى كتابه: من الضأن والمعز والبقر والإبل [جامع البيان تحقيق شاكر 257/6]
یہ آٹھ جوڑے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے: مینڈھا ، بکرا ، گائے اور اونٹ ۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
بهيمة الأنعام: وهى الإبل والبقر والغنم ، كما قاله الحبر البحر ترجمان القران وابن عم الرسول [تفسير ابن كثير 534/1]
”بہیمۃ الانعام“ اونٹ ، گائے اور بکرے ہیں ، جیسا کہ بحر العلم ترجمان القرآن اور رسول صلی اللہ علیہ وسلمکے چچازاد بھائی (عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما)نے فرمایا ہے ۔
نیز فرماتے ہیں:
وقوله تعالى: ﴿احلت لکم بھیمتہ الانعامہ﴾ هي: الإبل والبقر ، والغنم . قال الحسن وقتادة وغیرہ واحد . قال ابن جرير: وكذلك هو عند العرب [تفسير ابن كثير 8/2]
فرمان باری: (تمہارے لئے بہیمۃ الانعام حلال کئے گئے ہیں ): یعنی اونٹ ، گائے اور بکرے ، جیسا کہ حسن قتادہ ، اور دیگر مفسررین نے کہا ہے ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں: اہل عرب کے یہاں بھی اس کا یہی معنی ہے ۔

اور سورۃ الزمر کی آیت (نمبر 6) کی تفسیر سورۃ الانعام (آیت 144، 143 ) کے ذریعہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وقوله: ﴿وانزل لکم من الانعام ثمنیہ ازواج﴾ ای: وخلق لكم من ظهور الأنعام ثمانية أزواج وهى المذكورة فى سورة الأنعام: ﴿ثمنية أزوج من الضان اثنین ومن المعز اثنین﴾ الأنعام: 143] ، ﴿ومن الإبل اثنین ومن البقر اثنین﴾ [الأنعام: 144] [تفسير ابن كثير 86/7 نيز ديكهئے: 5 /416]
فرمان باری: (اللہ نے تمہارے لئے چوپائے اتارنے میں نرو مادہ ، آٹھ ) یعنی اللہ نے تمہارے لئے چوپایوں کی پشتوں سے آٹھ جوڑے (نر و مادہ ) پیداکیا ہے ، اور یہ وہ ہیں جو سورۃ الانعام میں مذکور ہیں: (آٹھ نر و مادو یعنی بھیڑ میں دو قسم اور بکری میں دو قسم ) [الانعام: 143]
(اور اونٹ میں دو قسم اور گائے میں دوقسم) [الانعام: 144]

علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والذي يضحي به باجماع المسلمين الأزواج الثمانية: وهى الضأن وامعز والإبل والبقر [تفسير القرطبي 15 /109]
مسلمانوں کے اجماع سے جن جانوروں کی قربانی کی جائے گی وہ آٹھ جوڑے ہیں:
مینڈھا ، بکری ، اونٹ اور گائے ۔

علی محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أن القران بين أن الأنعام هي الأزواج الثمانية التى هي: الذكر والأثني من الإبل ، والبقر ، والضان ، والمغز [أضواء البيان فى ايضاح القرآن بالقرآن 2/ 332 ، و 1 / 326 ، و 198/1 نيز ديكهئے: تفسير الماوردي 20/4]
قرآن کریم نے بیان کیا ہے کہ انعام وہی آٹھ جوڑے ہیں: یعنی اونٹ ، گائے مینڈ ھا اوربکری (نر و ماندو) ۔

اور ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:
ولا يكون من الحيوان إلا من يهيمة الأنعام ، وقد تقدم إيضاح الأنعام ، وأنها الأزواج الثمانية المذكورة فى ايات من كتاب الله وهى: الجمل ، والناقه ، والبقرہ ، والثور، والنعجه ، والكبش ، والعنز ، والتيس [اضواء البيان فى إيضاح القرآن بالقرآن 172/5]
بہیمتہ الانعام کے علاوہ کسی جانور کی قربانی نہیں ہوگی ، اور انعام کی وضاحت ہو چکی ہے ، کہ وہ کتاب اللہ کی آیات میں مذکور آٹھ جوڑے ہیں: اونٹ اونٹنی ، گائے بیل ، میند ہا دنبہ اور بکری بکرا ۔
حافظ امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وهي مختصته بالأزواج الثمانية المذكورة فى سورة (الأنعام) ، ولم يعرف عنه صلى الله عليه وسلم ، ولا عن الصحابة هدي ، ولا أضحية ، ولا عقيقه من غيرها [زاد المعادفي بدي خير العباد 2 /285]
قربانی سورۃ الانعام میں مذکور آٹھ جوڑوں کے ساتھ خاص ہے ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان کے علاوہ سے ھدی ، قربانی یا عقیقہ معروف نہیں ہے ۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وأجمع العلماء على أنه لا تجزي الضحية بغير الإبل والبقر والغم [شرح النووي على مسلم 117/13]
علماء کا اس بات پر ا جماع ہے کہ اونٹ ، گائے اور بکری کے علاوہ سے قربانی نہیں ہوگی ۔

علامہ امیر صنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أجمع العلماء على جواز التضحية من جميع بھيمة الأنعام وإنما اختلفوا فى الأفضل . . . ثم الإجماع على أنه لا يجوز التضحية بغير بھيمة الأنعام ، [سبل السلام 537/2]
تمام بھیمۃ الانعام سے قربانی کے جواز پر علماء کا ا جماع ہے ، اختلاف صرف افضل میں ہے ۔ ۔ ۔ اور اس بات پر بھی جماع ہے کہ بہیمتہ الانعام کے علاوہ کی قربانی جائز نہیں ۔

حافظ المغرب علامہ ابن عبد البر قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اختلف العلماء فيما لا يجوز من أسناني الضحايا والهدايا بعد إجماعهم أنها لا تكون إلا من الأزواج الثمانية [إلا تنزكار 250/4]
علماء کے اس بات پر ا جماع کے بعد کہ قربانی آٹھ جوڑوں ہی سے ہو سکتی ہے ، اس امرمیں اختلاف ہے کہ بدی و قربانی میں کسی عمر کی قربانی نہیں ہو گی ۔

اسی طرح التمہید میں فرماتے ہیں:
والذي يضحی به بإجماع من المسلمين الأزواج الثمانية وهى الضان والمعز والإبل والبقر [التمهيد لماني الموطا من المعاني والاسانيد188/23]
مسلمانوں کے اجماع سے جن جانوروں کی قربانی کی جائے گی وہ آٹھ جوڑے ہیں:
مینڈھا ، بکرا ، اونٹ اور گائے ۔
﴿ثمنیہ ازوج﴾ کاسیاق و پس منظر اور اہل علم کی تصریحات سورۃ الحج کی آیات میں بھیمتہ الانعام کی تفسیر سلفا وخلفا تمام مفسرین و شارحین احادیث نے سورۃ الانعام کی آیات ”ثمانیۃ ازواج“ سے فرمائی ہے ، جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ، البتہ اسی کے پہلو بہ پہلو ائمہ تفسیر و حدیث اور فقہاء امت کی توضیحات کی رو شنی میں یہاں حسب و ذیل چند باتیں مزید ملحوظ خاطر رہنی چاہئیں:

پہلی بات:
یہ کہ سورۃ الانعام کی آیتیں بدی و قربانی اور ان کے احکام ومسائل کے بیان کے سیاق میں نہیں ہیں ، نہ ہی ان کا مقصود قربانی کے جانوروں کی تعین و تحدید کرنا ہے ، بلکہ مویشیوں میں سے مذکورہ آٹھ جوڑوں ، اور اسی طرح کھیتوں اور پھلوں وغیرہ کے سلسلہ میں زمانہ جاہلیت کے لوگوں اور مشرکین عرب کے من مانی ، بلال دلیل و برہان حلت و حرمت کے باطل و بے بنیاد عقائد و نظریات ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اپنے معبودان باطلہ کے مابین ان کی تقسیم ، فاسد خیالات اور او ہام وخرافات کی تردید اور اس پر ان کی توبیخ و تعنیف اور ڈانٹ پلانے کے بیان میں میں ہیں ، جیسا کہ (آیت 136 تا145 اور اس کے بعد کی آیات سے واضح ہے) اور ائمہ تفسیر اور علماء حدیث وفقہ نے اس کی دوٹوک وضاحت فرمائی ہے ۔

1۔ چنانچہ امام ابن جریر طبری فرماتے ہیں:
وكانوا يحرمون من أنعامهم البحيرة والسائبة والوصيلة والحام ، فيجعلونه للأوثان ، ويزعمون أنهم يحتر مونه لله . فقال الله فى ذلك: (وجعلوا لله مما ذرأ من الحرث والأنعام نصيبا) الاية [تفسير الطبري 132/12]
مشرکین اپنے چوپایوں میں سے بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ اور حام کو حرام قرار دیتے تھے اور انہیں اپنے بتوں کے لئے مان لیتے تھے ۔ اور ان کا گمان یہ تھا وہ اللہ کے لئے حرام کر رہے ہیں ، چنانچہ اللہ نے اس بارے میں فرمایا: (اور اللہ تعالیٰ نے جو کھیتی اور مواشی پیداکیے ہیں ان لوگوں نے ان میں سے کچھ حصہ اللہ کا مقرر کیا) ۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا دم اتوبیخ من الله للمشركين الذين ابتدعوا بدعا وكفرا وشرکا ، وجعلوا لله لجزءا من خلقه ، وهو خالق كل شي سبحانه وتعالى عما يشركون [تفسير ابن كثيرت سلامته 344/3 ، نيز ديكهئے: تفسير البغوي احياء التراث 2/ 162]
یہ اللہ کی طرف سے مشرکین کی مذمت اور ڈانٹ ہے جنہوں نے بدعدتیں اور کفر و شرک ایجاد کر رکھا تھا ، اور اللہ کے لئے اس کی مخلوق میں سے ایک حصہ متعین کر دیا تھا ، حالانکہ وہی ہر چیز کا خالق ہے ، مشرکوں کے شرک سے اللہ کی ذات پاک اور بلند ہے ۔

3۔ نیز فرماتے ہیں:
وهذا بيان لجهل العرب قبل الإسلام فيما كانوا حرموا من الأنعام ، وجعلوها أجزاء وأنواعا: يجية ، وسائية ، ووصيلتہ وحاما ، وغير ذلك من الأنواع التى ابتدعوها فى الأنعام والزروع والثمار [تفسير ابن كثير ت سلامته 351/3]
یہ اسلام سے پہلے عربوں کی جہالت کا بیان ہے جو انہوں نے چوپایوں کو حرام کر کے ان کے حصے اور اقسام بنا رکھا تھا: بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ ، حام اور ان کے علاوہ دیگر اقسام جو انہوں نے چوپایوں ، کھیتوں اور پھلوں میں گھڑ رکھا تھا ۔

4۔ علام نواب صدیق حسن قنوجی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وفي هاتين الآيتين تقريع وتوبيخ من الله لأهل الجاهلية بتحريمهم ما لم یحرمہ اللہ [فتح البيان فى مقاصد القرآن 4 /260]
ان دونوں آیتوں میں اللہ کی جانب سے اہل جاہلیت کو ڈانٹ ڈ پٹ اور تنبیہ ہے ، جو انہوں نے حرام کر رکھا تھا ، جسے اللہ نے حرام نہیں کیا تھا ۔

5۔ امام ابن عطیہ آیت کا سبب نزول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وسبب نزول هذه الآية أن العرب كانت تجعل من غلاتھا وزرعها وثمارها ومن أنعامها جزها تسمية الله وجزءا تسميه لأصنامها ، وكانت عادتها التحفي والاهتبال بنصيب الأصنام أكثر منها بنصيب الله إذ كانوا يعتقدون أن الأصنام بھا فقر وليس ذلك بالله [تفسير ابن عطية ”المحر الو جيز فى تفسير الكتاب العزيز“ 2 /348]
اس آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ عرب اپنے غلے ، کھیتی ، پھل اور مویشیوں میں سے ایک حصہ اللہ کے لئے نامزد کرتے تھے اور ایک حصہ اپنے دیوی دیوتاوں کے لئے ، اور ان کا طریقہ تھا کہ وہ اپنے بتوں کے حصہ کے سلسلہ میں اللہ کے حصہ سے کہیں زیاد فکر کرتے تھے اور اس کے لئے رنجیدہ ہوتے تھے ، کیونکہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ بتول کو فقر ومحتاجگی کاسامنا ہے ، جبکہ اللہ کے ساتھ یہ مسئلہ نہیں ہے ۔

6۔ نیز فرماتے ہیں:
وكانت للعرب سنن فى الأنعام من السائية والبحيرة والحام وغير ذلك فنزلت هذه الاية رافعة لجميع ذلك [ديكهئے: امير ابن عطية 144/2]
مویشیوں کے سلسلہ میں عربوں کے ، بحیرہ ، سائبہ اور حام وغیرہ بہت سے رسم و رواج تھے ، چنانچہ یہ آیت کریمہ کے ان تمام بدعقیدگیوں کی تردید میں نازل ہوئی ۔

7۔ امام ابن عاشور تیونسی فرماتے ہیں:
ولما كانوا قد حرمو فى الجاهلية بغض الغنم ، ومنها ما يسمی بالوصيلة
كما تقدم ، و بغض الإبل كالبحيرة والوصيلة أيضا ، ولم يحرموا بعض المعز ولا شيئا من البقر ، ناسب أن يؤتي بهذا التقسيم قبل الاستدلال تمهيدا لتحکمهم إذ حرموا بعض أفراد من أنواع ، ولم یحرمو بعضا من أنواع أخرى [التحرير واتنوير 8-آ/129]
عربوں نے جاہلیت میں کچھ بکریوں کو حرام کر لیا تھا ، ان میں سے ایک وصیلہ بھی ہے ، جیسا کہ گزر چکا ہے ، اور یعنی اونٹوں کو حرام کر لیا تھا جیسے بحیرہ ، وصیلہ وغیرہ ، اور بعض بکریوں اور کسی بھی گائے کو حرام نہیں کیا تھا ، لہٰذا استدلال سے پہلے مناسب یہی تھا کہ ان کے فیصلہ کی تمہید کے لئے تقسیم بیان کر دی جائے ، کیونکہ کچھ قسموں کے بعض افراد کو حرام کیا تھا ، اور دوسری بعض قسموں میں سے کچھ کوحرام نہیں کیا تھا ۔

8۔ امام قرطبی آیت (احلت لکم بہیمۃ الانعام) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
وكانت للعرب سنن فى الأنعام من البحيرة والسائية والوصيلة والحام ، يأتي بيانها ، فتزلت هذه الاية رايقة لتلك الأوهام الخيالية ، والاراء الفاسدۃ الباطلية [تفسير القرطبی 33/6 ، نيز ديكهئے: الدر المنشور فى التفسیر بالمثور 371/3]
مویشیوں کے سلسلہ میں عربوں کے ، بحیرہ ، سائبہ اور حام وغیرہ بہت سے رسم و رواج تھے ، جس کا بیان آئے گا ، چنانچہ یہ آیت کر کے ان تمام خیالی او ہام اور باطل فاسد آراء کی تردید میں نازل ہوئی ۔

9۔ امام فخر رازی فرماتے ہیں:
أطبق المفسرون على أن تفسير هذه الاية أن المشركين كانوا يحرمون بعض الأنعام فاحتج الله على إبطال قولهم بأن ذكر الضان والمعز والإبل والبقر . . . خاصل المعنى نفي أن يكون الله حرم شيئا مما زعمو تحريمه إياه [التحرير والتنوير ۔ 8آ/130 نيز ديكهئے: التفسرير الكبير الرازي 166/13]
مفسرین کا اس بات پر ا جماع ہے کہ اس آیت کی تفسیر یہ ہے کہ مشرکین بعض مویشیوں کو حرام قرار دیتے تھے ، لہذا اللہ تعالیٰ نے ان کے قول کے بطلان پر حجت قائم کی ، بایں طور کہ مینڈھے ، بکری اونٹ اور گائے کا ذکر کیا ۔ مقصود یہ ہے کہ جن چیزوں کو انہوں نے اپنی من مانی حرام کر رکھا ہے ، اللہ نے اس میں سے کچھ بھی حرام نہیں کیا ہے ۔

10۔ علامہ عبد الرحمن بن ناصر سعدی فرماتے ہیں:
يخبر تعالى عما عليه المشركون المكذبون للنبي صلی اللہ علیہ وسلم ، من سفاهة العقل ، وخفة الأحلام ، والجهل البليغ ، وعدد تبارك وتعالى شيئا من خرافاتهم ، لينبه بذلك على ضلالهم والحذر منهم [تفسير السعدي ، تيسير الكريم الرحمن م: 275]
اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کو جھٹلانے والے مشرکین کی بدعقلی ، بے وقوفی اورنری جہالت کی خبر د ے رہا ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی گمراہی اور ان سے چوکنا رہنے کے سلسلہ میں تنبیہ کی غزل سے ان کے کچھ خرافات گنائے ہیں ۔

11 ۔ نیز فرماتے ہیں:
أن السياق فى نقض أقوال المشركين المتقدمة ، فى تحريمهم لما أحله الله
و خوضهم بذلك ، بحسب ماسولت لهم أنفسهم [تفسير السعدي ، تيسير الكريم الرحمن ص: 278]
آیات کاسیاق مشرکین کے سابقہ اقوال کی تردید ہے جو وہ اپنی خواہشان نفسانی کے مطابق اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام کیا کرتے تھے اور اس میں بے جا دخل اندازی کرتے تھے۔ [نيز ديكهئے: فتح الباري لابن حجر 657/9 وذخير العبي فى شرح المجتبي 207/33]

دوسری بات:
دوسری بات یہ ہے کہ قربانی ان آٹھ جوڑ وں ہی کی جائز ہے ، اور یہ آٹھوں جوڑے من حیث الجنس مراد ہیں ، ان میں سے ہر ایک کے انواع و اصناف اس میں داخل و شامل ہیں ، بشرطیکہ لغۃ و شرعا اس جنس کی نوع وصنف ہو ، ان میں کسی خاص رنگ ، نسل ، طبیعت ، ہیئت ، کیفیت ، عربی و عجمی، اور نام ولقب کی تحدید و تخصیص بے دلیل ہے ، جو اس کی قربانی کے جواز پر اثر انداز نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ ہے ک علماء تفسیر وحدیث نے ان ازواج ثمانیہ کو ان کے انواع و اصناف سمیت مراد لیا ہے ، اور بسا اوقات وضاحت کے لئے بعض انواع کا ذکر بھی کیا ہے ۔ البتہ ان چاروں کے علاوہ کسی پانچویں جنس کے جانور کی قربانی سے منع کیا ہے ، مثلاً ہرن ، وحشی ، گائے اور وحشی گدھا وغیرہ ۔ [اور بهينس اهلي اور گهريلو هے ، وحشي نهيں ۔ جيسا كه اهل علم نے صراحت فرمائي هے ، چنانچه علامه مرداوي رحمه رقمطراز هيں: ”والصحيح من المذهب: أن الجواميس أهلية مطلقا ، ذكره القاضي وغيره ، وجزم به فى المستوعب وغيره“ الأنصف فى معرفته الراجح من الخلاف للمرداوي485/3]
صحیح مسلم یہ ہے کہ بھینس مطلق طور پر گھریلو ہیں ، جیسا کہ قاضی وغیرہ نے ذکر کیا ہے ، اور مستوعب وغیرہ میں اس بات کو جزم و یقین سے کہا ہے ۔

اس سلسلہ میں اہل علم کے چند قابل غورتصریحات ملاحظہ فرمائیں:
1۔ معروف محقق ومفسر علامہ محمد امین شنقسیطی رحمہ الہ آیت کریمہ ﴿ويذكروا اسمه الله فى ايام معلومات على ما رزقنهم من بهيمة الأنعم﴾ [الحج: 28] تفسیر میں فرماتے ہیں:
اعلم أنه لا يجوز فى الأضحية إلا بھيمة الأنعام ، وهى الإبل والبقر والضان والمعز بأنواعها لقولہ تعالى: ﴿ويذكروا اسمه الله فى ايام معلومات على ما رزقنهم من بهيمة الأنعم فکلو منھا واطعموا البائس الفقیر﴾ [الحج: 28] فلا تشرع التضحية بالظباء ولا ببقره الوحش وحمار الوحش [أضواء البيان فى ايضاح القرآن بالقرآن 216/5]
جان لو کہ قربانی میں صرف بہیمۃ الانعام جائز ہے ، اور وہ اونٹ ، گائے ، مینڈھا اور بکری اپنے انواع کے ساتھ ہیں؛ کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے: (اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کانام یاد کریں اور چوپایوں پر جو پالتو ہیں ) لہٰذا ہرن ، جنگلی گائے ، اور جنگلی گدھے کی قربانی مشروع نہیں ہے ۔

2۔ علامہ علی احمد واحدی نیساپوری لکھتے ہیں:
والأنعام جمع النعم ، وهى الإبل والبقر والغنم وأجناسها [التفسير الوسيط للواحدي 148/2]
انعام ، نعم کی جمع ہے ، اور وہ اونٹ ، گائے ، بکری اور ان کی جنسیں ہیں ۔

3۔ امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ اپنی سند سے لیث بن ابی سلیم کی تفسیر نقل فرماتے ہیں:
حدثنا أبى ثنا عبد الرحمن بن صالح العتكي ثنا حميد بن عبد الرحمن الرواسي عن حسن بن صالح عن ليس بن أبى سليم قال الجاموس والبختي من الأزواج الثمانية [تفسير ابن ابي حاتم 1403/5 نمبر 7990]
(لیث بن ابی سلیم لیث بن ابی سلیم ابن زنیم لیثی کوفی ہیں وفات: 143ھ) ، کوفہ کے ایک عالم اور محدث تھے ، صدوق ہیں ، البتہ آخری عمر میں افظہ خراب ہونے کے سبب سخت اختلاط اور حدیث میں اضطراب کا شکار ہو گئے ، تو علماء نے ان سے حدیثیں لینا ترک کر دیا ۔ امام ابن معین وغیرہ نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے ۔

حافظ ابن جحر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الليث ابن أبى سليم اين زنيم . . . صدوق ، اختلط جدا ولم يتميز حديثه فترك [تقريب التهذيب ص: 464 نمبر 5685]
لیث بن ابو سلیم بن زنیم ۔ ۔ ۔ صدوق ہیں ، بہت زیادہ اختلاط کا شکار ہو گئے کہ اپنی حدیث میں فرق نہیں کر پاتے تھے ، لہذا ترک کر دیا گیا تھا ۔
سنن اربعہ کے محدثین نے ان سے روایت کیا ہے ، اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے ان سے تعلقاً اور امام مسلم نے مقروناً اور متابعتہ حدیث لی ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ مضطرب الحدیث ہیں ، لیکن لوگوں نے ان سے حدیث بیان کیا ہے ۔ نیز حافظ ذہبی نے انکے بارے میں الکاشف میں فرمایا ہے:

”فیہ ضعف یسیر من سوء حفظہ“ (حافظہ کی خرابی کے اعتبار سے ان میں معمولی نعمت ہے):
اور دیوان الضعفا ء میں لکھتے ہیں: ”حسن الحدیث ، ومن ضعفہ ، فإنما ضعفہ لاختلاطہ باخرۃ“ ۔
حسن حدیث والے ہیں ، جس نے انہیں ضعیف کہا ہے ، آخری عمر میں اختلاط کی وجہ سے کہا ہے۔
الکنی و الاسماء للامام مسلم کے محقق عبد الرحیم فتشقری فرماتے ہیں:
قلت: ومثل هذا النوع يتقوى بغيره [المغني فى الضعفا 2 / 5126/536 ، وديوان الضفعاء ص: 3503/333 ، و سير أعلام النبلاء 6/179 ، و 6/184 ، ميزان الاعتدال 420/3 ، و لكاشف فى معرفته من له روايته الكتب السته 151/2 للامام الندهبي۔ والكني و الاسماء للامام مسلم 1 / 122 ذكر أسماء التابعين ومن بعد هم ممن صحت روايته عن اشفات عند البخاري ومسلم، للدارقطني 1/ 445 ، ورجال صحيح مسلم 2/ 160 تاريخ اسماء اثقات ص: 196 ، وذكر من اختلف العلماء ونقاد الحديث فيه ص: 94]
(میں کہتا ہوں: اس قسم کے راوی کو دوسرے سے قوت ملتی ہے ) ۔
سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا بھینس اور خراسانی اونٹ آٹھ جوڑوں میں سے ہیں ۔

4۔ امام سیوطی رحمہ اللہ ابن ابی حاتم سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وأخرج ابن أبى حاتم عن ليث بن أبى شيم قال: الجاموس والبختي من الأزواج الثمانية [الدر المنشور فى التفسير بالماثور 371/3]
ابن ابی حاتم نے لیث بن ابی سلیم سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: بھینس اور خراسانی اونٹ آٹھ جوڑوں میں سے ہیں ۔

5۔ امام شوکانی رحمہ اللہ بھی موافقت کرتے ہوئے ابن ابی حاتم سے نقل کرتے ہیں:
وأخرج ابن أبى كان على بن أبى شيم قال: الجاموس والبخ من الأزواج المائية [فتح القدير الشوكاني 195/2]
ابن ابی حاتم نے لیث بن ابی سلیم سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: بھینس اور خراسانی اونٹ آٹھ جوڑوں میں سے ہیں ۔

6۔ علامہ نواب صدیق حسن خان لیث بن ابی سلیم کی تفسیر نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
بہر کیف لیث بن ابی سلیم کے ضعف سے مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ، کیونکہ زیر بحث مسئلہ میں لیث بن ابی سلیم یا اس اثر کی حیثیت متابعت جیسی ہی ہے ۔ کمایخفی ۔
قل ءالذکرین حرم أم لأنثيين أما اشتملت عليه أر حام الأنثيين ”قال ليث بن أبى سليم: الجاموس والبختي من الأزواج الثمانية [فتح البيان فى مقاصد القرآن 260/4]
(آپ کہیے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مادہ کو؟ یا اس کو جس کو دونوں مادہ پیٹ میں لئے ہوئے ہوں؟ ) لیث بن ابی سلیم فرماتے ہیں کہ: بھینس اور خراسانی اونٹ آٹھ جوڑوں میں سے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ مفسرین سلف نے اپنی تفسیروں میں آٹھ ازواج کی جنسوں کے بعض مشہور انواع و اصناف کو باقاعد و مثالوں کی وضاحت سے ساتھ بیان فرمایا ہے ۔

7۔ علامہ ابن عاشور تیونسی رحمہ اللہ تعالى سورۃ الانعام کے متعلقہ آیت ومن الإبل اثنين ومن البقر أثنین [الانعام: 144] ۔ میں ”ومن البقر اثنین“ کی تفسیر میں بڑی و ضاحت سے لکھتے ہیں: ۔
ومن البقر صنف له سينام فهو أشبه بالإبل ويوجد فى بلاد فارس ودخل بلاد العرب وھو الجاموس ، والبقر العربی لا سنام لہ وثورھا یسمی الفریش [التحرير والتنوير 8 -,ا/129 ۔ ]
اور گائے کی ایک قسم ہے جسے کو ہان ہوتی ہے ، لہذا وہ اونٹ سے زیاد و مشابہت رکھتی ہے ، اور وہ فارس کے علاقہ میں پائی جاتی ہے ، عرب کے علاقوں میں داخل ہوئی ہے ، اور وہ
”جاموس“ بھینس ہے ، عربی گائے کو کوہان نہیں ہوتی اور اس کے بیل کو فریش کہا جاتا ہے ۔

8۔ محمد تولی شعراوی لکھتے ہیں:
الأنعام: يراد بها الإبل والبقر ، وألحق بالبقر الجاموس ، ولم يذكر لأنه لم يكن موجودة بالبيئة العربية ، والغنم وتشمل الضأن والماعز ، وفي سورة الأنعام يقول تعالى: ﴿ثمنیہ أزوج من الأضآن اثنين ومن المعز اثنین﴾ [الأنعام: 143] [تفسير الشعراوي 16 / 9992 ۔ ]
انعام سے مراد اونٹ اور گائے ہے ، اور بھینس گائے سے ملححق ہے ، اور اس کا کر اس لئے نہیں کہا گیا ہے کہ وہ عرب کے ماحول میں موجود نہ تھی ، اسی طرح بکری مراد ہے ، وہ مینڈھے اور بال والی بکری دونوں کو شامل ہے ، اور سورۃ الانعام میں اللہ کا ارشاد ہے: (آٹھ نرومادہ یعنی بھیڑ میں دوقسم اور بکری میں دوقسم) ۔

9۔ شیخ محمود محمد حجازی فرماتے ہیں:
الأنعام: هي الإبل ، والبقر ، الشامل للعراب والجواميس ، والضأن الشامل للخراف والمعز [التفسير الواضح 474/1]
انعام: اونٹ ، گائے بشمول عربی و جوامیس (بھینسیں) ، اور مینڈھا بشمول اون اور بال والی بکری ہیں ۔

10۔ محمد سید طنطاوی فرماتے ہیں:
وأفردت البهيمة الإرادة الجنس: وجمع الأنعام ليشمل أنواعها [التفسير الوسيط لطنطاوي 23/4 ]
بهيمه کو جنس کے ارادہ سے واحد رکھا گیا ہے اور انعام کو جمع استعمال کیا گیا ہے ، تاکہ اس کی قسموں کو شامل ہو ۔

11۔ شیخ محمد علی صابونی لکھتے ہیں: [اسماء و صفات اور عقيده و منهج كے ديگر مباحث ميں اس تفسير اور مولف كي ديگر كتابوں پر متعد د ملاحظات هيں جن كا اهل علم نے تعاقب كيا هے ديكهئے: ”تعقيبات و ملاحظات على كي كتاب صفوة التفاسير“ ازشيخ صالح بن فوزان الفوزان: ”تنبيهات هامته على كتاب صفوة التفاسير“ للشيخ محمد على الصابوني ، ”و مخالفت هامته فى مختصر تفسير ابن جرير الطبري“ للشيخ محمد بن جميل ، زينو ، اسي طرح ان سے قبل دكتور سعد ظلام نے مجله ”المنار“ ميں اور شيخ محمد مغراوي نے اپنے ايم اے كے رساله بعنوان ”التفسير و المفسرون“ ميں بهي اسي كتاب اور اس كے مولف كے انحرافات كي نقاب كشائي كي هے ۔ ]
﴿ومن الإبل أثنين ومن البقر أثنين﴾ أى وأنشأ لكم من الإبل اثنين هما الجمل والناقة ومن البقر اثنين هما الجاموس والبقرة“ [صفوة التفاسير 394/1]
یعنی اللہ نے تمہارے لئے اونٹ میں دو یعنی اونٹ اور اونٹنی پیدا فرمایا ، اور گائے میں دو یعنی بھینس اور گائے پیدا فرمایا ۔

12۔ سابقہ تفاسیر کی رو شنی میں علامہ احمد بن عبد الرحمن ساعاتی تمام بهيمة الانعام کے انواع کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(تنبيه) نقل جماعة من العلماء الإجماع على التضحية لا تصح إلا ببهيمة الأنعام: الإبل بجميع أنواعها ، والبقر ومثله الجاموس ، والغنم وهى الضأن والمعز
ولا يجزئ شيء من الحيوان غير ذلك ، . . . والله أعلم
[الفتح الرباني الترتيب مسند الامام احمد بن حنبل الشيباني 76/13-77 ۔ ]
تنبیہ: علماء کی ایک جماعت نے اس بات پر ا جماع نقل کیا ہے کہ قربانی صرف بيهمته الانعام کی صحیح ہو گی ، اونٹ اپنی تمام قسموں کے ساتھ ، اور گائے اور اسی کے مثل بھینس ہے ، اور بکری یعنی مینڈھا اور بال والی بکری ، اور ان کے علاوہ کسی حیوان سے قربانی درست نہ ہو گی ۔ ۔ ۔ ۔ واللہ اعلم

تیسری بات:

سابقہ تصریحات سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اہل علم نے قربانی کے جانوروں کی وضاحت کے ضمن میں آٹھ جوڑوں یا اونٹ ، گائے اور بکری کے علاوہ سے قربانی کے بارے میں ”عدم جواز“ یا ”عدم اجزاء“ یا ”عدم صحت“ وغیرہ کے جو الفاظ نقل فرمائے ہیں ، اس سے مراد ان کے علاوہ دیگر جنسیں ہیں ، مثلاًً و حشی گائے ، وحشی گدھا اور ہرن وغیر ہ ، جیسا کہ انہوں نے دیگر اجناس کی مثالیں پیش کی ہیں اور جواز کے قائلین پر تبصرہ بھی فرمایا ہے ۔ بغرض اختصار ایک دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

1 ۔ علامہ ابن رشد القرطبی الحفید المالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وهم يجمعون على أنه لا تجوز الضحيه بغير خيمة الأنعام إلا ماكي عن الحسن بن صالح أنه قال: بحور الضحية بقة الو ش ع سبعة ، والتي عن واجد [بدايته المجتهد ونهايته المقتصد 193/2 ۔ ]
سب کا اس بات پر ا جماع ہے کہ بهيمته الانعام کے علا و ہ سے قربانی جائز نہیں ہے ، سوائے جو حسن بن صالح سے بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے فرمایا: دو وحشی گائے کی قربانی سات لوگوں کی طرف سے اور ہرن کی قربانی ایک کی طرف سے جائز ہے ۔

2 ۔ امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وأجمع العلماء على أنه لا تجزی الضحية بغير الإبل والبقر والغنم إلا ما حكاه بن المنذر عن الحسن بن صالح أنه قال تجوز التضحية ببقرۃ الوحش عن سبعة و بالظنی عن واحد و به قال داود فى بقرة الوحش والله أعلم [شرح النووي على مسلم 117/13 ، المجموع شرح المہذب 394/8 ، والمغني 8/623 ۔ صحیح فقہ السنتہ وادلتہ وتوضیح مذاہب الأئمہ 369/2]
علماء کا اس بات پر ا جماع ہے کہ اونٹ ، گائے اور بکرے کے علاوہ کی قربانی کافی نہ ہو گی ، سوائے اس کے جو امام ابن المنذر نے حسن بن صالح کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: وحشی گائے کی قربانی سات لوگوں کی طرف سے اور ہرن کی قربانی ایک کی طرف سے جائز ہے ۔ اور یہ بات داود ظاہری نے وحشی گائے کے بارے میں کہی ہے ، واللہ اعلم ۔
ان دونوں اقتباسات سے یہ بات روز رو شن کی طرح عیاں ہے کہ اہل علم نے ابل ، بقر اور غنم سے ان کے انواع و اصناف اور نسلوں کا استثنانہیں کیا ہے ، بلکہ ان کے علاوہ دیگر اجناس کا استثناء کیا ہے ، جیسا کہ بقرۃ الوحش اور ہرن ان کی مثال سے نمایاں ہے ۔
اسی طرح اس بات کی حتمیت کی نہایت روشن دلیل امام نووی رحمہ اللہ کی وہ دوٹوک تصریح ہے جو انہوں نے ابل ، بقر او غنم کی اپنی کتاب ”مجموع شرح المھذب“ میں فرمائی ہے ، بایں طور کہ ان کی انواع ، بلکہ انواع کی انواع کا بھی ذکر فرمایا ہے ، اور پھر ”بہیمتہ الانعام“ کے علاوہ مثلاًً بقر الوحش ، گدھوں اور ہرنوں وغیرہ کی قربانی کو ناجائز قرار دیا ہے ، اور بتلایا ہے کہ اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ۔ ملاحظ فرمائیں:
أما الأحكام فشرط المجزي فى الأضحية أن يكون من انعام وهى الإيا ك والبقر والغنم سواء فى ذلك جميع أنواع الإبل من البخاتي والعراب وجميع أنواع البقر من الجواميس والعراب والدربانية وجميع أنواع الغنم من الضأن والمعز وأنواعهما ولا يجزئ غير الانعام من بقر الوحش وحمیرہ والضبا وغیرھا بلا خلاف [المجموع شرح المهذ ب 393/8]
ربا مسئلہ احکام کا ، تو قربانی ادا ہونے کی شرط یہ ہے کہ جانور ”بہیمتہ الانعام“ میں سے ہو یعنی: اونٹ ، گائے اور بکرا ، اور اس میں بخاتی اور عراب وغیرہ اونٹ کی تمام قسمیں برابر ہیں ، اور بھینس ، دربانیہ اور عراب گائے کی تمام قسمیں برابر ہیں ، اسی طرح مینڈھا اور بکرا وغیرہ بکرے کی تمام قسمیں اور ان کی قسمیں برابر ہیں ، اور انعام کے علاوہ جیسے وحشی گائے اور وحشی گدھے اور ہرن وغیرہ کی قربانی ، بلا اختلاف کافی نہ ہوگی ۔ والحمد اللہ علی ذلک ۔

چوتھی بات:

یہ ہے کہ مذکور توضیح و تصریح کی رو شنی میں وہ بات بھی الجھن کا باعث نہیں رہ جاتی جواہل علم نے متعد تعبیرات میں رسول گرامی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہما کے حوالہ سے ذکر فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے ابل ، بقر او غنم کے علاوہ سے قربانی ثابت نہیں ہے مثلاًً:

1۔ علامہ ابو الحسن مرغینانی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والأضحية من الإبل والبقر والغنم لأنها“ عرفت شرعاًً ، ولم تنقل التضحية بغيرها من النبى صلی اللہ علیہ وسلم ولا من الصحابة رضي الله عنهم [الهدايته فى شرح بدايته المبتدي 359/4 الفقه الاسلامي وادلته حيلي 2719/4]
اور قربانی اونٹ ، گائے اور بکرے کی ہو گی ، کیونکہ شرعاًً یہی جانور معروف ہیں ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہ سے ان کے علاوہ کی قربانی کرنا منقول نہیں ہے ۔

2۔ علامہ عبدالکریم ابوالقاسم ارافعی فرماتے ہیں:
والأنعام: هي الإبل والبقر والغنم ، ولم يؤثر عن النبى ، ولا عن أصحابه رضي الله عنهم التضحية بغيرها [العزيز شرح الوجيز المعروف بالشرح الكبير 12 / 62 ، صحيح فقه السته وادلسته وتوضيع مذاهب الائمه 369/2]
انعام: اونٹ ، گائے اور بکرے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہ سے ان کے علاوہ سے قربانی کرنا منقول نہیں ہے ۔

3 ۔ حافظ امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولم يعرف عنه ، ولا عن الصحابة هدي ، ولا أضحية ، ولا عقيقة من غيرها [زاد المعادفي هدي خير العباد 2 /285 ۔ ]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے ان کے علاوہ سے ھدی ، قربانی یا عقیقہ معروف نہیں ہے ۔
کہ اس سے مراد مقصود بھی اجناس ہیں کہ ان کے علاوہ دیگر اجناس بقر الو ش ، گد ہے اور ہرن وغیرہ کی قربانی ، ثابت منقول اور معلوم نہیں ہے ، نہ کہ مذکورہ اجناس کے انواع و اصناف کی نفی ، ہاں اتنا ضرور ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم نے عملاً ان جناس کی انہی انواع کی قربانی فرمائی ہے جو حجاز میں اس وقت موجود و معروف تھیں تمام انواع کا وجود اور عملاً قربانی کا ثبوت ضروری نہیں ۔

چنانچہ ﴿ثمنيته ازواج﴾ کی تفسیر میں محمد متولی شعراوی لکھتے ہیں:
الأنعام: يراد بها الإبل والبقر ، وألحق بالبقر الجاموس ، ولم يذكر لأنه لم يکن موجودة بالبيئة العربية ، والغنم وتشمل الضأن والماعز ، وفي سورة الأنعام يقول تعالى: ﴿ثمينة أزوج من الضان أثنين ومن المعز اثنین﴾ [تشير الشعراوي 16 /9992 ۔ ]
انعام سے مراد اونٹ اور گائے ہے ، اور بھینس گائے سے ملحق ہے ، اور اس کا ذکر اس لئے نہیں کیا گیا ہے کہ وہ عرب کے ماحول میں موجود نہ تھی ۔ اسی طرح بکری مراد ہے ، وہ مینڈھے اور بال والی بکری دونوں کو شامل ہے ، اور سورۃ الانعام میں اللہ کا ارشاد ہے: (آٹھ نر و مادہ یعنی بھیڑ میں دو قسم اور بکری میں دوقسم) ۔ واللہ اعلم
دوسری فصل:

گائے اور بھینس کی حقیقت:

أولا گائے:
چونکہ بھینس گائے ہی کی نوع ہے اس لئے پہلے یہ جاننا مناسب ہے کہ گائے کی حقیقت و ماہیت کیا ہے ، تاکہ بھینس کی حقیقت و ماہیت اور دونوں میں یکسانیت سمجھنے میں آسانی ہو ۔
گائے: اردو ، ہندی اور فارسی زبان میں:

گائے: اردو اور ہندی زبان کا لفظ ہے ، جو دنیا میں پائے جانے والے مشہور ماندہ چوپائے پر بولا جاتا ہے ۔ [جامع فيروز اللغات ص1080] ، اور اس کے نر کو بیل کہتے ہیں۔ [جامع فيروز اللغات ، ص 257] اسی طرح سنسکرت میں اسے گئویا کہا جاتا ہے ۔ [جامع فيروز اللغات ، ص 1135 ۔]
جبکہ فارسی زبان میں نر و ماند ہ دونوں کو ”گاؤ“ کہا جاتا ہے ۔ [جامع فيروز اللغات ، ص1080]

گائے عربی زبان میں:
گائے کو عربی زبان میں ”بقر“ کہتے ہیں ، اس کے معنی ومفہوم کا خلاص حسب ذیل ہے:

1 ۔ ”بقر“ اسم جنس ہے ، مذکر و مونث دونوں پر بولا جاتا ہے ، اس میں سے ایک کے لئے ”بقرۃ“ : ”استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس کی جمع ”بقرات“ آتی ہے ، پھر مذکر کے لئے ”ثور“ کا لفظ استعمال کیا جانے لگا ۔ چنانچہ علماء لغت عرب لکھتے ہیں:
(البقر) اسم جنس ، و (البقرة) تقع على الذكر والأنثى ، والھاء للإفراد ، والجمع البقرات [المغرب فى ترتيب المعرب ص: 305 تحرير الفاظ التنبيه ص: 102 المطلع على الفاظ المقنع ص: 159 ، المصباح المنير فى غريب اشرح الكبير 57/1 الصاح تاج اللغته وصحاح العربية 2/ 594 ، وعمدة الحفاظ فى تفسير آشرف الالفاظ لاحمد يوسف الحلبي 216/1]
2۔ یہ گھریلو اور وحشی دونوں قسموں کے لئے بولا جاتا ہے ۔ [جمهرة اللغته1/ 322 المحكم والمحيط الاعظم 395/6]
3۔ بقرہ کے نر کو ”ثور“ (بیل) کہا جاتا ہے ۔ [كتاب العين 8/ 232 ، و جمہرة اللغته 424/1 ، و وعمده الحفاظ ۔ ۔ ۔ لاحمد بن يوسف الحلجي 216/1]
4۔ اس کے پچے کو ”عجل“ کہتے ہیں ۔ [الجراثيم 273/2 ، وتہذيب اللغته 113/4]
5۔ اس کے گو شت میں ٹھنڈک اور خشکی ہوتی ہے ۔ [شمس العلوم ود واء كلام العرب من العلوم 589/1]
6 ۔ گائے بڑا طاقتور اور ”کثیر المنفعت“ جانور ہے ۔

علامہ محمد بن موسی کمال الدین دمیری فرماتے ہیں:
والبقر حيوان شديد القوة كثير المنفعة ، خلقه الله ذلولا [حياة الحيوان الكبري 214/1]
گائے ایک بڑا طاقتور اور بہت نفع بخش جانور ہے ، اللہ نے اسے تابع اور ماتحت بنایا ہے ۔

اور علامہ ابوالفتح ابشیہی فرماتے ہیں:
بقر: هو حيوان شديد القوة خلقه الله تعالى المنفعة الإنسان [المستطرف فى كل فن مستطرف ص: 353 ۔ ]
گائے ایک بڑا طاقتور جانور ہے ، اسے اللہ نے انسان کی منفعت کے لئے پیداکیا ہے ۔
7 ۔ اس کی کئی میں ہیں ، ان میں سے ایک قسم بھینس ہے ، جو سب سے بھاری بھرکم اور زیادہ دودھ دینے والی ہے ۔

علامہ کمال الدین دمیری فرماتے ہیں:
وهي أجناس: فمنها الجواميس وهى أكثرها ألبانا وأعظمها أجساما [حياة الحيوان الكبري 214/1]
اس کی کئی اجناس ہیں ، انہی میں سے بھینسیں ہیں ، جو سب سے زیادہ دودھ دینے والی اور سب سے بڑے جسم والی ہیں ۔

اور علامہ ابشیہی فرماتے ہیں:
وهو أنواع: الجواميس وهى أكثر ألبانا وكل حيوان إناثه أرق أصواتا من ذكوره إلا البقر [المستطرف فى كل فن مستطرف ص: 353 ۔ ]
گائے کی کئی انواع ہیں ، بھینسیں ، جو سب سے زیادہ دودھ والی ہیں ، اور ہر جانور کے
ماندوں کی آواز نروں سے باریک ہوتی ہے سوائے گائے کے ۔
8۔ اس کے رنگ کی ہوتے ہیں ۔ [گائے كي رنگت كي تفصيلات كے لئے ملاحظه فرمائيں: المخصص 2/ 266]

”بقر“ وجہ تسمیہ:

علماء لغت ، فقہ اور حدیث و تفسیر نے تصریح فرمائی ہے ”بقر“ کے معنی کھودنے ، پھاڑنے ، کھولنے اور کشادہ کرنے کے ہیں اور ”بقر“ اسی سے مشتق ہے ، اور ”بقر“ کو ”بقر“ اسی لئے کہا گیا ہے کہ وہ زمین کو ”بقر“ کرتا یعنی ہل چلا کر پھاڑتا ہے ، چنانچہ معروف لغوی علامہ ابن منظور افریقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أصل البقر: الشق والفتح والتوسیعتہ ، بقرت الشيء بقراً: فتحتہ ووسعتہ [لسان العرب 74/4 ۔ ]
بقر کے اصلی معنی پھاڑ نے ، کھولنے اور کشادہ کرنے کے ہیں ، بقرت الشيء بقراً یعنی میں نے کسی چیز کو کھولا اور کشادہ کیا ۔

او محمد ملا خسر ورحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(البقر) . . . وسمیت بقراً ؛ لأنها تبقر الأرض بحوافرها أى تشقها والبقر هو الشق [درراحكام شرح غرر الاحكام 176/1]
”البقر: “ ۔ ۔ ۔ کو ”بقر“ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ زمین کو اپنے کھروں سے بقر کرتی ہے یعنی
پھاڑتی ہے ۔ ”بقر“ کے معنی پھاڑنے کے ہیں ۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والبقر يقع على الذكر والأنثي سمیت بقرة لأنها تبقر الأرض أی تشقھا بالحرائة والبقر الشق [المجموع شرح المہذ ب 4/ 539 ، وشرح النووي على مسلم 137/6]
”بقر: “ مذکر و مونث دونوں پر بولا جاتا ہے ، اس کو بقرۃ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ہل چلا کے زمین کو پھاڑتی ہے ، بقر کے معنی پھاڑنے کے ہیں [الوضيع الشرح الجامع الصحيح 414/10 ، عمدة القاري شرح صحيح البخاري 6/ 172 و مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 6/ 140 ، وفيض القدير 1/ 422 و ذخير العقبي فى شرح المجتبي 16/ 154 ، و 108/22 ، والكواكب الدراري فى شرح صحيح البخاري7/6 ، كوثر المعاني الدراري فى كشف خبايا صحيح البخاري 351/12 ۔ ]
اور اسی طرح کئی علماء نے اس بات کی بھی صراحت فرمائی ہے کہ حضرت محمد بن علی بن حسین کو بھی ”باقر“ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے علم کو کھول دیا تھا ، اور اس کی گہرائی میں اتر گئے تھے ۔

چنانچہ علامہ محمد احمد ہروی فرماتے ہیں:
وكان يقال لمحمد بن على بن الحسين: (الباقر) لأنہ بقر العلم وعرف أصله واستنبط فرعه ، وأصل البقر الشق والفتح [تهذيب اللغته 1189 ۔ ]
حضرت محمد بن علی بن حسین کو بھی ”باقر“ اسی لئے کہا جاتا تھا کہ انہوں نے علم کو کھول دیا تھا ، اور اس کے اصل کو جان کر اس سے فرع مستنبط کر لیا تھا ، اور ”بقر“ کا اصلی معنی پھاڑنا اور کھولنا ہے ۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ومنها قيل لمحمد بن على بن الحسين بن على بن أبى طالب رضي الله عنهم الباقر لأنه بقر العلم فدخل فيه مدخلا بليغا [تحرير الفاظ التنبيه ص: 102]
”بقر“ ہی کے لفظ سے محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو ”با قر“ کہا جاتا ہے ، کیونکہ انہوں نے علم کو پھاڑ دیا تھا اور اس کی گہرائی میں اتر گئے تھے ۔ [غريب الحديث لابن الجوزي 81/1 ، ومعجم ديوان الأدب 348/1 ، و الصاح تاج اللغة وصحاح العربية 2/ 595 ، ولسان العرب 74/4]

گائے کی جامع تعریف:

متعدد اہل علم نے ”بقرۃ“ کی اصطلاحی تعریف فرمائی ہے ۔ بطور مثال جدید عربی زبان کونسل کی تعریف ملاحظہ فرمائیں:
بقرة: . . . وهو جنس حيوانات من ذوات الظلف ، من فصيلة البقريات ، ويشمل البقر والجاموس ، ويطلق على الذكر والأنثى ، منه الميستأنس الذى
يتخد للبن واللحم ويستخدم للحرث ، ومنه الوحشي ، أنثي الثور {إن الله يأمركم أن تذبحو بقراة
[معجم اللغته العربيته المعاصرة 230/1]
گائے: بقریات (زمین پھاڑنے والے جانوروں ) کے گریڈ سے کھر والے حیوانات کی جنس کانام ہے ، جو گائے اور بھینسں دونوں کو شامل ہے ، اور مذکر و مونث دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ اس میں وہ مانوس قسم بھی ہے جسے دودھ اور گو شت کے لئے رکھا جاتا ہے ، اور کھیتی کے لئے استعمال کیا جا تا ہے ، اور ایک قسم وحشی بھی ہے ، یہ بیل کی ماند ہ ہے ۔ اللہ کا ارشاد ہے: (اللہ تعالیٰ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے ) ۔

ثانیاً: بھینس
بھینس اردو ، ہندی اور فارسی زبان میں:

بھینس /بھینسا: اردو ، ہندی زبان میں مستعمل لفظ ہے ، جو برصغیر اور دیگر ممالک میں پائے جانے والے مشہور چوپائے پر بولا جاتا ہے ، اور وہ عموماً سیاہ رنگ کا ہوتا ہے ، اس کے مادہ کو بھینس اور نر کو بھینسا کہا جاتا ہے ۔ [جامع فيروز اللغات ، ص 243 ۔ ]
اسی طرح اردو اور ہندی زبان میں بھینس کے بچے کو ”کٹا“ کہتے ہیں ۔ [جامع فيروز الغات ، ص: 992 ۔]
اور فارسی زبان میں بھینس کو ”گاؤ میش“ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ [جامع فيروز اللغات ، ص 1080]
واضح رہے کہ ”گاؤمیش“ دو الفاظ کا مرکب ہے ”گاؤ“ اور ”میش“ ۔
اور گاؤ فارسی زبان کا مؤنث لفظ ہے جس کے معنی ہندی زبان میں مستعمل لفظ گائے اور بیل کے ہیں ۔ [جامع فيروز الملغات ، ص 1080 ۔ تاج العروس 382/23 ، وتكملته المعاجم العربيته 16/9]
جبکہ سنسکرت زبان میں گائے کا ”گئو“ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ [جامع فيروز اللغات ص 1135]
او ”میش“ فارسی لفظ ہے جس کے معنی بھیڑ ، بھیڑی گوسفند یا گوسپند ، مینڈھا ، دنبہ کے ہیں ۔ [جامع فيروز اللغات ، ص1330 ، و 1114 ۔]
مذکور مختلف زبانوں کی تفصیلات سے معلوم ہوا کہ مرکب لفظ ”گاؤمیش“ میں گائے اور بھیڑ کا مرکب معنی شامل ہے ، مزید وضاحت عربی لغات کی روشنی میں آگے آ رہی ہے ۔

بھینس عربی زبان میں:

چونکہ ”گاؤمیش“ ، بھینس (یعنی بھیڑ ، بھیڑی جیسی سیاہ نسل گائے) عجم فارس وغیرہ میں پائی جاتی تھی ، عرب میں یہ نسل متعارف نہ تھی اس لئے اہل عرب اس سے واقف اور مانوس نہ تھے ۔ [چنانچه شيخ متولي شعراوي لكهتے هيں: بهينس گائے سے ملحق هے ، اور اس كا ذكر اس لئے نهيں كيا گيا هے كه عرب كے ماحول ميں موجود نه تهي ۔ تفسير اشعراوي 16 /9992]
بلکہ ایک عرصہ بعد یہ نسل عرب میں پہنچی اور لوگ اس سے متعارف و مانوس ہوئے ۔ اس لئے عرب کے لوگوں نے اس بھیڑ شکل یا بھیڑ حلیہ گائے [اجراثيم ، لابن قتيبه دينوري 253/2] کو جب دیکھا تو آسے ”جاموس“ کا نام دیا ، اسی طرح بسا اوقات ”کاؤمیش“ اور ”کاوماش“ وغیرہ ناموں سے بھی اسے موسوم کیا ۔ [تہذیب اللغتہ 317/10 ، والمحصص ، 224/4 ، وکتاب الحیوان ، 100/1 ، و244/5 ، و 144/7 ، التنبيه والاشرف 307/1]
البتہ ”جاموس“ کا بکثرت استعمال ہوا ۔

جاموس کی وجہ تسمیہ:
مستند عربی قوامیس اور ڈکشنریوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس فارسی النسل گاؤمیش (بھینس) کو اہل عرب کے ”جاموس“ نام دینے کی دو بنیادوں میں سے کوئی ایک بنیاد ہے: 1۔ تعریب یا 2۔ اشتقاق
تعریب:

تعریب کا معنی یہ ہے کہ چونکہ یہ لفظ اصلاً عربی زبان کا نہیں ہے بلکہ دخیل ہے ، اس لئے اہل عرب نے اس کے فارسی نام کو عربی حروف اور الفاظ کے معروف اور ان کی مدد سے اپنی عربی زبان میں کہہ لیا اور اس کانام بنا لیا ، چنانچہ ”گ“ کو ”جیم“ اور ”شین“ کو ”سین“ سے بدل کر قابل نطق تسہیل کرتے ہوئے ”فاعول“ کے وزن پر ”جاموس“ بنا دیا [البصائر و الذخائر128/6] ، جس کی جمع فوائیل کے وزن پر ”جوامیس“ آتی ہے ، اس سلسلہ میں اہل لغت کے اقوال اور ان کی تصریحات ملاحظہ فرمائیں:

علامہ لیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”الجاموس: دخيل ، ویجمع جواميس ، تسميه الفرس: كاوميش [تهذيب اللغة 317/10]
”الجاموس“ دخیل ہے ، اس کی جمع جوامیس آتی ہے ، اسے فارسی ”گاؤمیش“ کہتے ہیں ۔

علامہ صاحب العین حلیل فراہیدی فرماتے ہیں:
الجاموس دخيل تسمية العجم كاؤميش [العين 6 / 60 ، المتحصص 4 / 224 ۔ وشمس العلوم و دواء كلام العرب من العلوم 2 /1164 ۔]
جاموس دخیل ہے ، عجمی لوگ اسے گاؤمیش کہتے ہیں ۔

علامہ ابو نصر جوہری فارابی فرماتے ہیں:
الجاموس: واحد الجواميس ، فارسي معرب [الصحاح تاج اللغته وصحاح العربية 915/3]
جاموس جوامیس کی واحد ، فارسی معرب ہے ۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الجواميس معروقة واحدها جاموس فارسي معرب [تحرير الفاظ التنبيه ، ص: 106]
جوامیس (بھینس) معروف ہیں ، اس کا واحد جاموس آتا ہے ، جو کہ فارسی لفظ ہے اسے بعربی بنایا گیا ہے ۔

علامہ محمد بن محمد زبیدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الجاموس: . . . معروف ، معرب كاوميش ، وهى فارسية ، ج الجواميس ، وقد تكلمت به العرب [تاج العروس 513/15 ۔ ]
جاموس: معروف ہے ، جو گاومیش کامعرب ہے ، اور وہ فارسی لفظ ہے ، اس کی جمع جوامیس آتی ہے ، اہل عرب نے بھی اس لفظ کو اپنے کلام میں استعمال کیا ہے ۔

علامہ حسن بن محمد عدوی قرشی حنفی فرماتے ہیں:
”الجاموس: واحد من الجوامیس ، فارسی معرب ، وھو بالفارسیۃ کاؤمیش ، وقد تکلمت بہ العرب“ [العاب الزاخر 78/1]
جاموس: جوامیس کی واحد ہے ، فارسی معرب ہے ، اسے فارسی میں ”گاؤمیش“ کہتے ہیں ، عربوں نے اپنے کلام میں استعمال کیا ہے ۔

علامہ محمد بن ابوبکر رازی فرماتے ہیں:
(الجاموس) واحد (الجواميس) فارسي معرب [مختار الصحاح ص: 60]
جاموس جوامیس کی واحد ، فارسی معرب ہے ۔

علامہ فیروز آبا؎دی فرماتے ہیں:
الجاموس: معرب كاؤميش ، ج: الجواميس ، وهى جاموسة [القاموس المحيط ص: 536]
جاموس (بھینس): ”گاؤمیش“ کا معرب ہے ، اس کی جمع جوامیس آتی ہے ، مونث کو جاموسہ کہتے ہیں ۔

علامہ ابو ہلال عسکری فرماتے ہیں:
والجاموس فارسي معرب ، وقد تكلمت به العرب [التلخيص فى معرفة أسماء الأشياء ص: 370]
جاموس ، فارسی معرب ہے ، عربوں نے اپنی گفتگو میں استعمال کیا ہے ۔

اشتقاق:
اشتقاق کا معنی یہ ہے کہ جا موس کا لفظ عربی ہے اور کسی عربی زبان کے اصول و مادہ سے نکالا گیا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ ”جاموس“ (ج ، م، س) جمس سے مشتق ہے ، اور عربی زبان میں جمس کا لفظ کسی چیز کے جمود اور ٹھوس پن پر دلالت کرتا ہے ، چنانچہ جب اہل عرب اس چوپائے سے متعارف ہوئے تو اس کی ہئیت ، جسامت ، مظبوطی اور کیفیت کو دیکھ کر اسے ”جاموس“ کا نام دے دیا ۔ اس سلسلہ میں اہل لغت وغیرہ کی تصریحات ملاحظہ فرمائیں:

علامہ احمد بن محمد فیومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جمس الودك جموسا ، من باب قعد جمد ، والجاموس نوع من البقر ، كأنه مشتق من ذلك لانه ليس فيه لين البقر فى استعماله فى الحرث والزرع والدياسة [المصباح المنير فى غريب الشرح الكبير 108/1]
”جمس الودک جموسا“ کا معنی ہے گوشت کی چکنائی جم گئی ، ”قعد“ کے باب سے ”جمد“ کے معنی میں ہے ، اور ”الجاموس“ گائے کی ایک قسم ہے ، گویا یہ لفظ اسی سے مشتق ہے ، کیونکہ ہل چلانے ، کاشت کرنے اور دانے کچلنے غیرہ استعمال میں اس میں گائے والی نرمی نہیں ہوتی ۔

امام اسحاق بن منصور الکوسج فرماتے ہیں:
الجاموس نوع من البقر ، كأنه مشتق من ذلك ، لأنه ليس فيه لين البقر فى استعماله فى الحرث والزرع والدياسية [مسائل الإمام احمد و اسحاق بن راهويه 4027/8]
”جاموس“ گائے کی ایک قسم ہے ، گویا وہ ”جمس“ ہی سے مشتق ہے ، کیونکہ ہل چلانے ،
کاشت کرنے اور دانے کچلنے غیرہ استعمال میں اس میں گائے والی نرمی نہیں ہوتی ۔
مذکورہ بالاتفصیل سے واضح ہوا کہ جاموس (بھینس) خواد ”گاؤ میش“ کا معرب ہو یا پھر ”ج ، م ، س“ سے مشتق ہو ، دونوں صورتوں میں وہ گائے سے خارج نہیں ہے ، بلکہ وہ بھی شکل گائے ہے ، جیسا کے ”گاؤ“ اور ”میش“ کی وضاحت سے بھی معلوم ہوتا ہے ۔

اور بعینہ اسی بات کی صراحت معروف معتزلی عالم ابوعثمان جاحظ بصری (وفات: 255ھ) نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ”الحیوان“ میں کئی جگہوں پر فرمائی ہے ، چنانچہ لکھتے ہیں:
والجواميس ھى ضأن البقر ، يقال للجاموس الفارسية: كاوماش [كتاب الحيوان ۔ 244/5 ۔ ]
جوامیس (بھینسیں) بھیڑ گائیں ہیں ، جاموس کو فارسی زبان میں ”گاؤمیش“ کہا جاتا ہے ۔

”بھیڑ گائے“ کہنے سے کسی کے ذہن میں شبہہ نہ پیدا ہو کہ بھینس بھیڑ اور گائے کی نسل ہے ، بلکہ یہ بات محض ظاہری مشابہت اور یکسانیت کی بنا پر ہے ، اس لئے مزید وضاحت کرتے ہوئے اور اس شبہہ کا ازالہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فالجاموس بالفارسية كاوماش ، وتأويله ضأني بقري ، لأنهم وجدوا فيه مشابھة الكبش وكثيرا من مشابھة الثور ، وليس أن الكباش ضربت فى البقر فجاءت بالجواميس [كتاب الحيوان ۔ 100/1]
”جاموس“ (بھینس) فارسی میں گاؤمیش کہلاتا ہے ، جس کا معنی بھیڑ اور گائے جیسا ہے ، کیونکہ انہیں اس میں مینڈھے اور بہت کچھ بیل کی مشابہت نظر آئی ، یہ معنی نہیں ہے کہ
مینڈھے اور گائے کے اختلاط سے ”جوامیس“ (بھینسیں) پیدا ہوئیں ۔

مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ويقولون: ”اشتر مرك“ للنعامة ، على التشبيه بالبعير والطائر ، يريدون تشابه الخلق ، لا على الولادة . ويقولون للجاموس: ”كاوماش“ على أن الجاموس يشبه الكبش والثور ، لا على الولادة ، لأن كاو بقرة ، وماش اسم للضأن . . . قالوا: كاوماش على شبه الجواميس بالضأن ، لأن البقر والضأن لا يقع بينهما تلاقح [كتاب الحيوان 144/7]
”نعامتہ“ کو اشتر مرغ (یا شتر مرغ ) اونٹ اور پرندہ سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتے ہیں ، اس سے ظاہری تخلیق میں مشابہت مراد لیتے ہیں ، نہ کہ ولادت کی بنیاد پر ۔ اور جاموس ” (بھینس) کو ”گاؤمیش“ محض اس لئے کہتے تھے کہ بھینس مینڈھے اور بیل کے مشابہ ہوتی ہے ، نہ کہ پیدائش کی بنا پر ، کیونکہ ”گاؤ“ گائے کو اور ”ماش“ مینڈھے کو کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ چنانچہ بھینسوں کی مینڈھوں سے محض ظاہری شباہت کی بنا پر انہیں ”گاؤمیش“ کہتے تھے ، کیونکہ گائے اور مینڈھے میں جفتی واقع نہیں ہوتی ۔

علامہ ابن قتیبہ دینوری فرماتے ہیں:
”وقد قالوا: أشتر مرك على التشبيه بالبعير والطائر ، لا على الولادة ، كما قالوا: جاموس كاوميش أى بقر وضأن وليس بين البقر والضأن سفاد [الجراثيم ، 247/2 ، و 253/2]
عربوں نے اشتر مرغ (یا شتر مرغ ) اونٹ اور پرندہ سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے ، نہ کہ ولادت کی بنیاد پر ۔ اسی طرح گاؤمیش کو ”جاموس“ (گائے اور مینڈھے ) کی ظاہری شباہت کی بنا پر کہا ہے ، کیونکہ گائے اور مینڈھے میں جفتی نہیں ہوتی ۔
خلاصہ کلام اینکہ بھینس اور مینڈھا سے محض ض ظاہری مشابہت ہے ۔

”جاموس“ (بھینس) کی جامع تعریف:
(1) معجم اللغۃ العربیۃ المعاصرہ کی تعریف:

”جاموس: حيوان أهلي من جنس البقر من مزدوجات الأصابع المجترة ، ضخم الجثة ، قرونه محنية إلى الخلف وإلى الداخل ، يرى للحرث ودر اللبن [معجم اللغة العربية المعاصرة 392/1]
بھینس: دوہری انگلیوں (کھر) والے جگالی کرنے والے جانوروں میں سے ، گائے کی جنس کا ایک گھریلو جانور ہے ، جس کا جسم بھاری بھرکم ہوتا ہے، سینگین پیچھے اور اندر کی طرف ٹیڑھی گھومی ہوئی ہوتی ہیں ، اسے کھیتی کرنے اور دودھ دوہنے کے لئے پالا جاتا ہے ۔
(2) علامہ سعید خوری شرتونی لبنانی کی تعریف

الجاموس ضرب من كبار البقر يحب الماء والتمرغ فى الأوحال معرب كاؤميش بالفارسية ، ومعناًًه بقر الماء ، ج جواميس [اقرب الموارد فى فصح العربية والشوارد ، ازسعيدخوري شرتوني لبناني 137/1 ۔ ]
بھینس: بڑی گایوں کی ایک قسم ہے ، جو پانی اور کیچڑ میں لوٹنا پسند کرتی ہے، فارسی لفظ ”گاؤمیش“ کامعرب ہے ، اور اس کا معنی پانی کی گائے ہے ، جمع جوامیس آتی ہے ۔
(3) علامہ محمد علیش مالکی فرماتے ہیں:

جاموس: بقر سود ضخام بطي الحركة يديم المكث فى الماء إن تيسر لہ [منسح الجليل شرح مختصر خليل لمحمد احد عليش 12/2]
بھینس: بھاری بھرکم ، سیاہ ، سست رفتار گائے ہے ، اگر اسے میسر ہو تو تادیر پانی میں ٹھری رہے ۔

(4) علامہ احمد بن احمد زروق رحمہ اللہ بھینس کی جامع تعریف ”گائے“ سے کرتے ہوئے الرسالة لابن أبى زيد القير واني کی شرح میں لکھتے ہیں: ؤ
(والجواميس) بقر سود ضخام صغيرة الأعين طويلة الخراطيم مرفوعة الرءوس إلى قدام بطيئة الحركة قوية جدا لا تكاد تفارق الماء بل ترقد فيه غالب أوقاتها يقال إنما إذا فارقت الماء يوما فأكثر ھزلت رأيناها بمصر وأعمالها [شرح زروق على متن الرسالة 512/1 ، مواہب الجليل فى شرح مختصر خليل لمحمد بن محمد الحطاب الزعيني المالكي 263/2 ، وشرح مختصر خلیل للحزشی 152/2، واسہل المدارک شرح ارشاد السالك فی مذہب امامہ الائمہ مالك ، لابي بکر الکشناوي 388/1]
جوامیس: جاموس کی جمع ہے ، یہ بھاری بھرکم [يهي وجه هے كه موٹاپے اور جسامت كے لئے جاموس بهينس ضرب المثل هے ، چنانچه امام عبد الرحمن بن مهدي رحمه الله نے حفص بن عمر المقري ابوعمر الضرير كو ان كي جسامت كے سبب ”جاموس“ بهينس كا لقب ديا هے ۔ نزهته الألباب فى الألقاب ، از حافظ ابن حجر رحمه الله 160/1 /545 ۔ ] کالی گائیں ہیں ، جن کی آنکھیں چھوٹی اور منہ لمبا ہوتا ہے ، پھر آگے کی طرف اٹھا ہوا ہوتا ہے ، یہ سست رفتار لیکن بہت مضبوط اور طاقتور ہوتی ہیں [بهينس كوالله نے بڑا طاقتور بنايا هے ، بهت كچه تفصيلات اور مثالوں كے لئے ملاحظه فرمائيں: حياة الحيوان الكبري 1 214 و 1/ 264 ، ونہاية الأرب فى فنون الأدب 1/ 368 ، و 10/ 124 ، و 10 / 314 ، المستطرف فى كل فن مستطرف ص: 353] ، پانی سے کم ہی جدا ہوتی ہیں ، بلکہ زیادہ تر پانی ہی میں سوتی ہیں ، اور کہا جا تا ہے کہ اگر یہ ایک دن یا اس سے زیادہ پانی سے علحدہ ہوتی ہیں تو دبلی ہو جاتی ہیں ، ہم نے انہیں مصر اور اعمال مصر میں دیکھا ہے ۔

خلاصہ کلام:

ساری باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ گائے اور بھینس کی تعریف کرتے ہوئے اہل علم نے گائے کی تعریف میں بھینس کو شامل کیا ہے ، اور بھینس کی تعریف میں بصراحت کہا ہے کہ وہ گائے کی جنس سے ہے ، اور ان تصریحات میں ان کا کوئی معارض و مخالف بھی نہیں ہے ۔ لہٰذا اس سے دونوں کی یکسانیت اور اتحاد میں کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہ جاتا ۔
اطمینان کے لئے مزید چند تصرحیات ملاحظہ فرمائیں:
بقر اسم جنس ہے ، جو عربی گایوں او بھینسوں دونوں کو شامل ہے ۔

علامہ ابن قاسم فرماتے ہیں: ۔
والبقر اسم جنس يشمل العراب والجواميس والذكور والإناث [الاحكام شرح أصول الاحكام لابن قاسم 136/2]
بقر (گائے) اسم جنس ہے ، جو عربی گایوں ، بھینسوں اور اور مذکر ومؤنث سب کو شامل ہے ۔

شیخ عبد الطیف عاشور فرماتے ہیں:
البقر: جنس من فصيلة البقريات ، يشمل الثور والجاموس ، ويطلق على الذكر والأنثي [موسوعته الطير والحيوان فى الحديث النبوي ص: 106]
بقر: بقریات کے گریڈ کی جنس ہے ، بیل اور بھینس دونوں شامل ہے اور مذکر و مونث دونوں پر بولا جاتا ہے ۔

بھینس اور گائے کا حکم اور خاصتیں یکساں ہیں ۔
الجاموس: واحد الجواميس . . . حكمه وخواصه: كالبقر [حياة الحيوان الكبري 1/ 264]
جاموس (بھینس) جوامیس کی واحد ہے ۔ ۔ ۔ اس کا حکم اورخاصیتیں گائے جیسی ہیں ۔
گائے اور بھینس دونوں کے بچھڑوں کو ”عجل“ ہی کہا جاتا ہے ۔

علامہ رشید رضا مصری فرماتے ہیں:
والعجل وله البقرة سواء كان من العراب أو الجواميس [تفسير المنار 173/9 وتفسير المراغی 67/9 ، تفسير حدائق الروح والریحان فى روابی علوم القرآن 155/10]
عجل: (بچھڑا) گائے کے بچے کو کہتے ہیں خواہ عربی ہوں یا بھینسیں ۔

تیسری فصل:

بھینس کی حلت اور قربانی کا حکم

بھینس کی عمومی حلت کے سلسلہ میں تو اختلاف نہیں پایا جاتا [فناویٰ اصحاب الحديث ، از فضیلتہ الشيخ ابو محمد عبدالستار الحماد ، ص 462 ، وفتاویٰ علمائے حدیث ، 73/13 ، وفتاویٰ ثنائيہ 1/ 809] ، البتہ اس کی قربانی کے سلسلہ میں اہل علم کے حسب ذیل تین اقوال ہیں:
عدم جواز: بھینس کی قربانی جائز نہیں ۔ کیونکہ قربانی کے لئے جانور کا ”بہیمتہ الانعام“ میں سے ہونا شرط ہے ، اور وہ ”ثمانیۃ ازواج“ یعنی اونٹ ، بیل ، بکرا ، مینڈھا اور ان کے ماندہ ، آٹھ ہیں ، اور بھینسں ان میں سے نہیں ہے ، لہٰذا بھینس قربانی کا جانور نہیں ، اس لئے اس کی قربانی جائز و درست نہیں ۔ [عدم جواز كے قائلين ميں چند علماء كے نام يہ هيں: مجتهد العصرحافظ عبدالله رو پڑی رحمہ اللہ ، اہلحدیث 426/2 ۔ وشيخ الحديث مفتي فيض الرحمن فيض رحمه الله ، فتاوائے فيض ، ص 47 ، 158 ، 162 ، ورسالہ آئینہ تحقیق ۔ ومولانا عبد الستارالحماد ، ہفت روزه اہل حديث ، شمارہ 15، 48 – 21 دسمبر 2007ء- وفتاویٰ اصحاب الحديث ، 3 / 404 ۔ وباقي عمران ايوب لاہوری فقہ الحديث 475/2 ، مسئله 764 ۔ ومحمد رفیق طاہر]

احتیاط: احتیاط یہ ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے ۔ کیونکہ قربانی کے لئے جانور کا ”بہیمۃ الانعام“ میں سے ہونا شرط ہے ، اور بھینسں ان میں سے نہیں ہے ، جبکہ بعض اہل لغت نے بھینس کو گائے کی نوع قرار دیا ہے ، اور بعض اہل علم نے اس پر ا جماع کی نقل فرمایا ہے ،
لیکن چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےصحابہ کرام رضی اللہ عنہما نے عملاً اس کی قربانی نہیں کی ہے ، اس لئے احتیاطا بھینس کی قربانی نہ کی جائے۔ [يہ صاحب مرعاة المفاتيح شيخ الحديث عبيدالله رحماني مبار كپوري اور حافظ زبير على زئي رحمهما الله كي رائے هے۔
نوٹ: واضح رہے كہ شيخ الحديث رحمه الله نے مرعاة المفاتيخ ميں احتياط كے ساتھ جواز كي بات لكهي هے ، جبكہ اپنے مجموع فتاوي ميں گاؤ ميش كي قرباني كے ليے مطلق جواز كا فتوي ديا هے ۔ فتاويٰ شيخ الحديث عبيد الله رحماني مبار كپوري رحمه الله جمع وترتيب: فواز عبد العزيز عبيد الله مبار كپوري ۔ 400/2 -402 ، دار الابلاغ لاهور]

جواز: بھینس کی قربانی جائز ہے ، کیونکہ وہ گائے ہی کی ایک نوع ہے جو فارس وغیرہ عجمی علاقوں میں پائی جاتی تھی ، لہٰذا وہ
بہيمته الانعام میں داخل ہے ، البتہ عہد رسالت میں یہ نسل عرب بالخصوص حجاز میں موجود و متعارف نہ تھی ، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے اس نوع کی قربانی کا ثبوت نہیں ملتا ، جبکہ بعد میں عرب گائے کی اس نوع نسل سے متعارف ہوئے اور علماج لغت عرب ، مفسرین محدثین و شارحین حدیث اور فقہاء امت بالخصوص ائمہ اربعہ اور ان کے مسالک کے علماء نے اسے متفقہ طور پر گائے کی نوع قرار دیا ، اور بعینہ گائے کے حکم کے مطابق اس کی قربانی کی ، اس میں ز کاۃ فرض رکھا اور تاریخ کے ہر دور میں اسے بڑی تعداد میں پالا ، بھینس کے گائے کی نو ع ہونے اور دونوں کے حکم کی یکسانیت پرعلماء امت کا ا جماع منقول ہے ، لہٰذا بھینس کی قربانی جائز ہے ۔ [يہ جمہور علماء امت سلف تا خلف ، تابعين تبع تابعين ، ائمہ اربعہ ، مفسرين ، محدثين ، فقہاء ، وغير ہم ، بطور مثال: امام نووی ، اسي طرح معاصرين ميں علامہ ابن عثیمين ، استاذ و محترم علامہ عبد المحسن بن حمد العباد ، شيخ عبد العزيز بن محمد السلمان ، اور علماء اہل حدیث برصغير ميں علامہ ثناء اللہ امرتسري ، محقق العصر علامہ عبد القادر عارف حصاري ساہيوال ، علامہ شیخ الحدیث عبید اللہ رحمانی مبار کپوری ، میاں نذیر حسین محدث دہلوي ، علامه نواب صديق حسن خان بهوپالي ، محدث كبير عبدالجليل سامر و دي ، علامه حافظ محمد گوندلوی مولانا امین اللہ پشاوري ، حافظ نعیم الحق ملتانی اور حافظ صلاح الدین یوسف حفظہم اللہ ورحمہم كا موقف هے۔ ]

راجح: تینوں اقوال میں راجح قول یہ ہے بھینس کی قربانی جائز ہے ، جبکہ نتیجہ کے اعتبار سے احتیاط کے قول کا مدعا بھی جواز ہے ، ورنہ اگر عدم جواز پر اطمینان اور شرح صدر ہو تو عدم جواز کی تصریح سے کوئی چیز مانع نہیں ہے ۔
سابقہ فصلوں کی تفصیلات سے یہ بات رو شن ہے کہ بھینس فارسی النسل یا عجمی النوع ، گائے ہی کی ایک قسم ہے تو بد یہی طور پر بھینس کا ”بہیمۃ الانعام“ میں ہونا ثابت ہو گیا ، اور قرآن کریم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عملًا گائے کی قربانی ثابت ہے ، جیسا کہ مائی عائشہ ی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
ضحی رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نسائه بالبقر [صحيح البخاري ، كتاب الحيض ، باب كيف كا بدء الحيض ۔ ۔ ۔ 66/1 ، حديث 294 ، و 5548 ، و 5559، صحيح مسلم ، كتاب الحج ، باب بيان و جوہ الاحرام ۔ ۔ ۔ ، حديث 1211]
رسول اللہ نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی ۔
تو بھینس کی حلت کے ساتھ اس کی قربانی کے جواز میں کوئی شک باقی نہیں رہ گیا ، کیونکہ شریعت اسلامیہ نے ”بہیمۃ الانعام“ کے اجناس کے نام لئے ہیں: [علامه ابن منظور رحمه الله كے جنس كی مثال ديتے ہوئے فرماتے ہيں: فالناس جنس والإبل جنس والبقر جنس والشاء جنس السان العرب 43/6 (لوگ جنس ہيں ، اونٹ جنس ہے ، گائے جنس ہے اور بکریاں جنس ہیں)]
1۔ ”ابل“ (اونٹ نر و مادہ خواہ عرب و عجم کے کسی بھی نسل سے ہوں) ۔
2 ۔ ”البقر“ (گائے نر و مادہ ، خواہ عرب و عجم کے کسی بھی نسل سے ہوں) ۔
3 ۔ ”الضان“ (مینڈھا نر و مادہ ، خواہ عرب و عجم کے کسی بھی نسل سے ہوں) ۔
4 ۔ ”المعز“ (بکرا نر و مادہ ، خواہ عرب و عجم کے کسی بھی نسل سے ہوں) ۔
اب اگر ایک مسلمان ان میں سے کسی بھی چو پائے کی قربانی کرے خواہ وہ کسی بھی نسل ونوع اور علاقہ و خطے کا ہو ، تو اس کی قربانی کی مشروعیت اور جواز کا حکم متاثر نہ ہو گا ۔ اس بات کی ایک نہایت واضح دلیل موسی علیہ السلام کی قوم کا واقعہ ہے ۔ ارشاد باری ہے:
﴿وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٓ ٖ اِنَّ اللّـٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً ۖ قَالُوٓا اَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا ۖ قَالَ اَعُوْذُ بِاللّـٰهِ اَنْ اَكُـوْنَ مِنَ الْجَاهِلِيْنَ ● قَالُوْا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا هِىَ ۚ قَالَ اِنَّهٝ يَقُوْلُ اِنَّـهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَّّلَا بِكْـرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذٰلِكَ ۖ فَافْعَلُوْا مَا تُؤْمَرُوْنَ ● قَالُوْا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَّنَا مَا لَوْنُهَا ۚ قَالَ اِنَّهٝ يَقُوْلُ اِنَّـهَا بَقَرَةٌ صَفْرَآءُ فَاقِـعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِيْنَ ● قَالُوْا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَّنَا مَا هِىَ اِنَّ الْبَقَرَ تَشَابَهَ عَلَيْنَا وَاِنَّـآ اِنْ شَآءَ اللّـٰهُ لَمُهْتَدُوْنَ ● قَالَ اِنَّهٝ يَقُوْلُ اِنَّـهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُوْلٌ تُثِيْـرُ الْاَرْضَ وَلَا تَسْقِى الْحَرْثَ ۚ مُسَلَّمَةٌ لَّا شِيَةَ فِيْـهَا ۚ قَالُوا الْاٰنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ ۚ فَذَبَحُوْهَا وَمَا كَادُوْا يَفْعَلُوْنَ ● وَاِذْ قَتَلْتُـمْ نَفْسًا فَادَّارَاْتُـمْ فِيْـهَا ۖ وَاللّـٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُـمْ تَكْـتُمُوْنَ ● فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا ۚ كَذٰلِكَ يُحْىِ اللّـٰهُ الْمَوْتٰى وَيُرِيْكُمْ اٰيَاتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ●﴾ [سورة البقره: 67 – 73]
اور موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے تو انہوں نے کہا: ہم سے مذاق کیوں کرتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ میں ایسا جاہل ہونے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ پکڑتا ہوں ۔ انہوں نے کہا اے موسیٰ ! دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے اس کی ماہیت بیان کر دے ، آپ نے فرمایاسنو ! وہ گائے تو بالکل بڑھیا ہو ، نہ بچہ ، بلکہ درمیانی عمر کی نوجوان ہو ، اب جو تمہیں حکم دیا گیا ہے بجا لاؤ ۔ وہ پھر کہنے لگے کہ دعاکیجیے کہ اللہ تعالیٰ بیان کرے کہ اس کا رنگ کیا ہے؟ فرمایا وہ کہتا ہے کہ وہ گائے زرد رنگ کی ہے ، چمکیلا اور دیکھنے والوں کو بھلا لگنے والا اس کا رنگ ہے ۔ وہ کہنے لگے کہ اپنے رب سے اور دعاکیجئے کہ ہمیں اس کی مزید ماہیت بتلائے ، اس قسم کی گائے تو بہت ہیں پتہ نہیں چلتا ، اگر اللہ نے چاہا تو ہم ہدایت والے ہو جائیں گے ۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ وہ گائے کام کرنے والی زمین میں ہل جوتنے والی اور کھیتوں کو پانی پلانے والی نہیں ، وہ تندرست اور بے داغ ہے ۔ انہوں نے کہا ، اب آپ نے حق واضح کر دیا گو وہ حکم برداری کے قریب نہ تھے ، لیکن اسے مانا اور وہ گائے ذبح کر دی ۔ جب تم نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا ، پھر اس میں اختلاف کرنے لگے اور تمہاری پو شیدگی کو اللہ تعالیٰ اہر کرنے والا تھا ۔ ہم نے کہا کہ اس گائے کا ایک ٹکڑا مقتول کے جسم پر لگا دو ، (وہ جی اٹھے گا ) اسی طرح اللہ مردوں کو زندہ کر کے تمہیں تمہاری عقل مندی کے لئے اپنی نشانیاں دکھاتا ہے ۔
یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قوم موسیٰ کو ایک قتل کے قضیے میں قاتل کی شناخت کے لئے ایک ”بقرۃ“ (گائے) ذبح کرنے اور پھر اس کے کسی حصہ سے مقتول کو مارنے کا حکم دیا کہ اس سے مقتول زندہ ہو جائے گا اور اپنے قاتل کی شناخت کر دے گا ۔
قوم بنی اسرائیل نے اس گائے کی رنگ و نسل ، ہئیت و کیفیت اور عمر وغیرہ کے بارے میں نبی موسیٰ علیہ السلام کے واسطے سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے بے جاسوالات کرنا شروع کر دیا ، جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے سختیوں میں گرفتار ہو گئے ۔ حالانکہ اگر انہوں نے کوئی بھی گائے جس پر گائے کا اطلاق ہوتا ہو ، خواہ وہ کسی بھی نوع و جنس اور نسل و رنگ کی ہو ذبح کر لیتے تو تعمیل حکم ہو جاتا ، کیونکہ اللہ سبحان و تعالیٰ نے محض ”بقرۃ“ یعنی گائے کی جنس کانام لیا تھا ، نوع و نسل کی کوئی تعیین نہ تھی ۔ چنانچہ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ اس سلسلہ میں رقمطراز ہیں:
أنهم كانوا فى مسالتهم رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم موسى ذلك مخطین ، وأنهم لو كانوا استعرضوا أدنى بقرة من البقر إذ أمروا بذبحھا بقوله: ﴿اِنَّ اللّـٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً﴾ [البقرة: 67] فذبحوها کانوا للواجب عليهم من أمر الله فى زلک مؤدين وللحق مطيعين ، إذ لم يكن القوم حصروا على نوع من البقر دون نوع ، وسن دون سن . . . وأن اللازم كان لهم فى الحالة الأولى استعمال ظاهر الأمر وذبح أى بھیمۃ شاءوا مما وقع عليها اسم بقره [تفسير الطبري 101/2 ثمار القلوب فى المضاف والمنسوب ص: 374 ، والحيوان 292/4]
بنی اسرائیل اللہ کے رسول موسی علیہ السلام سے بے جا سوالات کرنے میں خطا کار تھے ، کیونکہ اگر وہ کوئی ادنی سی گائے بھی ڈھونڈ کر ذبح کر لیتے ، جیسا کہ انہیں فرمان باری: {اِنَّ اللّـٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً} (بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو ) میں اسی بات کا حکم دیا گیا تھا ، تو وہ اپنے اوپر واجب کردہ حکم الہی کے ادا کرنے والے اور حق کے فرمانبردار ٹھہرتے ، کیونکہ قوم کے لوگوں کو گائے کی کسی خاص نوع یا عمر کا پابند نہیں کیا گیا تھا ۔ ۔ ۔ اور پہلی ہی حالت میں ان پر لازم ہی تھا کہ وہ ظاہری حکم پر عمل کرتے ہوئے حسب خواہش کوئ
بھی چو پایہ ذبح کر دیتے ، جس پر ”گائے“ کے نام کا اطلاق ہوتا ہو ۔

یہی وجہ ہے کہ گائے کی کسی بھی نوع نسل کے بچے کو ”عجل“ (بچھڑا) کہتے ہیں خواہ وہ عربی النوع والنسل ہوں یا غیر عربی ، لوگوں میں متعارف عام گائیں ہوں یا جوامیس (بھینسیں) جیسا کہ علمائے تفسیر نے قرآن میں وار دلفظ عجل کی تفسیر میں لکھا ہے ۔ [تفسیر المنار 173/9 ، وتفسیر المراغی 67/9 ، وتفسیر حدائق الروح والریحان فى روابی علوم القرآن 155/10]
بھیمۃ الانعام: اونٹ ، گائے اور بکری کی انواع اور نسلیں:
واقع حال اور اہل عمل کی توضیحات سے معلوم ہوتا ہے کہ ملکی اور علاقائی اعتبار سے اونٹ ، گائے اور بکری کی متعدد انواع اور نسلیں ہیں اور ان کی اپنی شکلیں ، ہیئتیں ، طبیعتیں اور خصوصیات و کیفیات ہیں ، اور بھینس بھی جنس ”بقر“ (گائے) کی ایک نہایت عمدہ قسم ہے ، جس کی اپنی خاص صورت و ہیئت ، مزاج و طبیعت اور خصوصیات ہیں ۔ ذیل میں ”بہیمۃ الانعام“ اونٹ ، گائے اور بکری کی مختلف انواع ملاحظہ فرمائیں:

اولا: اونٹ کی قسمیں:

علامہ بطال بن احمد رکبی فرماتے ہیں:
والبخاتي من الإبل: معروف أيضا ، وهو معرب ، و بعضهم يقول: عربي الواحد: بختي والأنثي: بختية ، وجمعه: بخاتي (غير مصروف) وأما العراب من الإبل ، فان الجوهري قال: هي خلاف البخاتي ، كالعراب من الخيل خلاف
البراذين . وقال فى الشامل: العراب: جرد ملس حسان الألوان كريمة
[النظم المستعذب فى تفسير غريب آلفاظ المهذب 1/ 146 ، كتاب الام از امام شافعي 2/ 20 ، و الموسوعة الفقهيته الكويتيته 259/23]
اونٹ کی کئی قسمیں ہیں:

1 ۔ ”بخاتی“ : یہ معروف ہیں ، یہ لفظ معرب ہے ، البتہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ عربی ہے ، اس کی واحد ”بختی“ مونث ”بختیۃ“ او جمع ”بخاتی“ (غیر منصرف ) آتی ہے ۔
اور معروف لغوی علامہ خلیل فراہیدی لکھتے ہیں:
البخت والبختی ، أعجمیان دخیلانی: الإبل الخراسانیۃ تنتج من إبل عربیۃ و فالج ۔ [كتاب العين ۔ 241/4]
بخت او بختی عجمی دخیل الفاظ ہیں ، یہ خراسانی اونٹوں کو کہا جاتا ہے جو عربی اونٹنیوں اور ”فالج“ نامی سندھی اونٹوں سے پیدا ہوتے تھے ۔

2 ۔ ”عراب“ : عراب کے بارے میں علامہ جوہری فرماتے ہیں کہ یہ بخاتی کے برخلاف ہیں ، جیسے عراب گھوڑے ”براذین“ (ایک مضبوط ، ٹھوس اور بھاری بھرکم قسم کا گھوڑا جسے حمل و نقل کے لئے استعمال کیا جاتا تھا) کے خلاف ہوتے ہیں ، اور الشامل میں فرماتے ہیں کہ: عراب بغیر بالوں والے ، چکنے ، خوبصورت رنگ والے اور بڑے پیارے ہوتے ہیں ۔

اسی طرح علامہ ابومنصورا ز ہری لکھتے ہے:
والمهاري من الإبل منسوية إلى مهرة بن حيدان وهم قوم من أهل اليمن و بلادهم الشحر بين عمان وعدن وابين ، وإبلهم المهرية وفيهانجائب تسبق
الخيل والأرحبية من إبل اليمن ايضا وكذلك المجيدية . وأما العقيلية فهي نجدية صلاب كرام و نجائبها نفيسة ثمينة تبلغ الواحدة ثمانين دينارا إلى مائة دينار ، والوانها الصهب والأدم والعيس ، والقرملية إبل الترك ، والفوالج فحول سندية ترسل فى الابل العراب فتنتح البخت الواحد بختي والانثى بختية
[الزاہر فى غريب الفاظ الشافعی ص: 101 ۔ بحر المذہب للرویانی 44/3]

مھاری: یہ مہرہ بن حیدان کی طرف منسو ب ہیں ، یہ یمن کی ایک قوم ہے ، ان کا علاقہ عمان اور عدن کے درمیان ”شحر“ نامی مقام ہے ، ان کے اونٹ ”مھریتہ“ کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ اور ان میں کچھ ”نجائب“ (یعنی ٹھوس ، چھریرے ، ہلکے ، تیز رفتار اور عمدہ ) ہوتے ہیں جوگھوڑوں سے تیز دوڑتے ہیں ۔

ارجبیہ یہ بھی اونٹوں کی ایک قسم ہے جو یمن میں پائی جاتی ہے ۔

مجیدیہ نامی ایک قسم کا اونٹ اور بھی پایا جاتا ہے ۔
مجید یہ کے بارے میں دو باتیں کہی گئی ہیں:
ایک یہ کہ یہ اونٹ بھی یمن میں پائے جاتے ہیں ۔ دوسرا یہ کہ یہ مجید نامی فحل (نر) یامجید نام کے کسی آدمی کی طرف منسو ب ہے ۔ [تاج العروس 9/ 152 ، والمصباح المنير فى غريب الشرح الكبير 2 /564]

عقیلیہ نجدی اونٹوں کی ایک قسم ہے ، جو بڑے ٹھوس اور عمدہ ہوتے ہیں ، اور ان میں جونجائب یعنی عمدہ اور چھریرے ہوتے ہیں وہ بڑے نفیس مانے جاتے ہیں، ان میں ایک کی قیمت اسی سے سو دینار کے درمیان ہوتی ہے ، اور ان کے رنگ سرخ سیاہی مائل ، چتکبرے اور سفید سرخی مائل ہوتے ہیں ۔

”قرملیہ“ ترکی اونٹوں کو کہا جاتا ہے ۔
8 ۔ فوالج سندھی نر اونٹوں کو کہا جاتا ہے جنہیں عربی اونٹوں میں بھیجا جاتا ہے جس سے بختی اونٹ پیدا ہوتے ہیں ، جس کے واحد کو ”بختی“ اور ماندہ کو ”بختیہ“ کہا جاتا ہے ۔

علامہ محمد بن عبد الحق یفرنی فرماتے ہیں:
و ”الإبل العراب“ : هي العربية . و ”البخت“ : إبل بجهة خراسان ، يزعمون أنها تولدت بين الإبل العراب و ”الفوالج“ ، و ”الفوالج“ : إبل لكل واحد منها سنامان ، واحدها: فالج ، وواحد البخت: بختي [الاقتصاب فى غریب الموطہ و اعرابہ علی الابواب 1 /295]
”عراب“ عربی اونٹ ہیں ، اور ”بخت“ خراسان کے علاقہ کا اونٹ ہے ، جس کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ عربی اور فوالج اونٹوں سے پیدا ہوتے ہیں ، اور ”فوالج“ (سندھی) اونٹ ہیں ، ان میں سے ہر ایک کو دو بانیں ہوتی ہیں ، اس کا واحد فالج اور بخت کا واحد بختی آتا ہے ۔

اسی طرح علامہ احمد بن محمد معروف بہ ابن الرفعہ فرماتے ہیں:
البخاتي بتشديد الياء وتخفيفها والعراب: نوعان للإبل كما أن المهرية ، والأرحبية ، والمحيدية ، والعقيلية ، والقرملية أنواع لها [كفايتہ النبیہ فى شرح التنبیہ 326/5 ، بحر المذہب للروياني 44/3]
بخاتی – یاء پرتشدید اور بغیر تشدید کے ۔ اور عراب اونٹ کی دو قسمیں ہیں ، اسی طرح مہریہ ، ارحبیہ ، مجیدیہ ، عقیلیہ اورقرملیہ بھی اونٹ کی قسمیں ہیں ۔
اسی طرح علاقائی طور پر اونٹوں کی مختلف قسمیں ہیں: جیسے عربی ، خراسانی ، سندھی ، ترکی ، یمنی ، نجدی وغیرہ اور ان کے نام بھی الگ الگ ہیں ۔

ثانیا: گائے کی قسمیں:


علامہ عبدالرحمن بن محمد بن قاسم العاصمی النجدی الحنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جواميس: واحدها جاموس فارسي معرب ، قال الأزهري: أنواع البقر منها الجواميس وهى أنبل البقر وأكثرها ألبانا وأعظمها أجساما قال ومنها العراب وهى جرد ملس حسان الألوان كريمة ومنها الدربان بدال مهملة مفتوحة ثم راء سا كنة ثم بلموحدہ ثم ألف ثم نون وهى التى تنقل عليها الأحمال وقال ابن فارس: الدربانية ترق أظلافها وجلودها ولها أسنمة [حاشیتہ الروض المربع ۔ 187/3 ، تحرير الفاظ التنبیہ ، ص: 106 ۔ بحر المذہب للروياني 3/ 44 ۔ ومقاییس الغتہ 274/2 والقاموس المحیط ص: 83 ، والمعجم الوسيط 277/1]
جوامیس: کی واحد جاموس فارسی معرب ہے ، علامہ از ہری کہتے ہیں: گائے کی کئی قسمیں ہیں:
1۔ ”الجوامیس“ (بھینسیں): یہ نہایت عمدہ گائیں ہوتی ہیں ، بہت زیادہ دودھ دینے والی اور سب سے بھاری جسم والی ہوتی ہیں ۔
2۔ ”العراب“ : یہ نہایت صاف ستھری بغیر بالوں والی خوب رنگ اور بڑی پیاری ہوتی ہیں ۔
3۔ ”الدر بان“ : یہ انتہائی مضبوط ہوتی ہیں ، جس پر بوجھ لاد اور منتقل کیا جاتا ہے ۔

علامہ ابن فارس فرماتے ہیں:
”دربانیتہ“ کا کھر اور کھال پتلی ہوتی ہے ، اور انہیں کوہان
ہوتی ہے ۔ معلوم ہوا کہ بھینس گائے کی قسم ہی نہیں ، بلکہ سب سے عمدہ قسم ہے ) ۔
علامہ احمد ابن الرفعہ نے بھی یہ قسمیں ذکر کی ہیں اور اسی بات کی وضاحت فرمائی ہے ۔ [كفايته النبيه فى شرح التنبيه 5 / 326]

علامہ محمد بن عبدالحق یفرنی فرماتے ہیں:
وأما ”الجواميس“ فإنها نوع من البقر فى ناحية مصر تعوم فى النيل ، وتخرج إلى البر ، ولكل بقرة منها قرن واحد ، والواحد منها: جاموس [الاقتصاب فى غريب الموطا و إعرابه على الابواب 1 /295]
رہا ”جوامیس“ (بھینسیں) تو وہ گائے کی ایک قسم ہیں ، جو مصر کے علاقوں میں پائی جاتی ہیں ، نیل میں تیری گھومتی رہتی ہیں ، اور باہر خشکی میں بھی نکلتی ہیں ، اور ان میں سے ہر گائے کو ایک سینگ (کوہان ) ہوتی ہے اور اس کا واحد جاموس کہلاتا ہے ۔

اسی طرح معجم الغنی الزاھر کے مولف ڈاکٹر عبداغنی ابو العزم لکھتے ہیں:
جاموسة ج: جواميس: . . . من كبار البقر ، وهو أنواع: داجن ووحشی ، يوجد بإفريقيا واسيا [معجم الغني الزهر ، ڈاكٹر عبدالغني ابوالعزم ، ناشر مؤسسة الغني للنشر ، ماده نمبر 9119]
جاموسہ جس کی جمع جوامیس آتی ہے ۔ ۔ ۔ یہ بڑی گایوں میں سے ہیں ، اور اس کی کئی قسمیں ہیں: گھریلو اور وحشی ، یہ افریقہ اور ایشیا میں پائی جاتی ہیں ۔

اسی طرح علامہ ابن عاشور فرماتے ہیں:
ومن البقر صنف له سنام فهو أشبه بالإبل ويوجد فى بلاد فارس ودخل بلاد العرب وهو الجاوس ، والبقر العربي لا سنام له وثورھا یسمی
الفريش
[التحریر والتنوير 8-1/ 129 ، مباہج الفکر و مناہج العبر للو طواط ص: 59]
اور گائے کی ایک قسم ہے جسے کوہان ہوتی ہے ، لہٰذا وہ اونٹ سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے ، اور وہ فارس کے علاقہ میں پائی جاتی ہے ، عرب کے علاقوں میں داخل ہوئی ہے ، اور وہ ”جاموس“ بھینس ہے ، عربی گائے کو کوہان نہیں ہوتی اور اس کے بیل کو فریش کہا جاتا ہے ۔
اس طرح علاقائی طور پر گایوں کی بھی مختلف انواع ہیں ، مثلاًً ایشیائی ، افریقی ، مصری ، ہندوستانی ، فارسی وغیرہ ، اور ان کے نام بھی مختلف ہیں ۔

ثالثا: بکری کی قسمیں:


اونٹ اور گائے کی طرح بکری کی بھی متعدد انواع ہیں ، چنانچہ علامہ احمد بن محمد ابن الرفعہ فرماتے ہیں:
‘والضأن والمعز: نوعان للغنم ، وكذا العربية والملكية والبلدية أنواعها [كفايتہ النبيه فى شرح التنبيه 326/5]
”غنم“ یعنی بکری کی دو قسمیں ہیں:
1۔ مینڈھا (اون والا)
2۔ بکرا (بال و ال)
3۔ عربیہ
4۔ ملکیہ
5۔ بلدیہ
6۔ مکیہ
7۔ لازیہ ۔ بھی بکری کی انواع ہیں جو طبرستان کے علاقوں میں پائی جاتی ہیں ۔
جیسا کہ شافعی العصر امام ابو المحاسن عبد الرحمن بن اسماعیل رویانی فرماتے ہیں:
ولو كانت له أنواع مختلفة من الإبل والبقر والغنم بعضها أجود من بعض كالأغنام العربية والمكية واللأزية والبلدية فى ناحية طبرستان . . [بحر المذهب للروياني 44/3]
اور اگر آدمی کے پاس اونٹ ، گائے اور بکری کی مختلت انواع اور قسمیں ہوں ، جن میں سے بعض بعض سے عمدہ ہوں ، جیسے عربی ، مکی ، لازی اور بلدی بکریاں جو طبرستان کے علاقوں میں پائی جاتی ہیں ۔
اسی طرح علاقائی طور پر بکری کی بھی متعدد انواع ہیں ، عربی ایشیائی اور طبرستانی وغیرہ اور ان کے نام بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔
الحاصل یہ کہ بہیمۃ الانعام کی مختلف انواع ، نسلیں اور شکلیں دنیا کے مختلف ممالک اور شہروں ، علاقوں میں پائی جاتی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ رنگ و نسل اور علاقائی انواع کے اختلاف کی بنا پر بشرطیکہ انعام کی جنسیں متحد ہوں ، قربانی کی مشروعیت اور جواز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ، اسی طرح بہیمۃ الأنعام کی مختلف انواع اور ان کی ذیلی علاقائی انواع میں زکاۃ کی مشروعیت وفرضیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اجناس کا ذکر فرمایا ہے ۔

اونٹ ، گائے اور بکری کی بلا تفریق تمام انواع میں زکاۃ کا وجو ب اور قربانی کا جواز و اجزاء :
اولاً : زکاۃ :
شافعی العصر امام ابوالمحاسن عبد الرحمن بن اسماعیل رویانی کسی اشکال کے بغیر اونٹ ، گائے اور بکری کی تمام انواع میں زکاۃ کی فرضیت کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :
ولو كانت له أنواع مختلفة من الإبل والبقر والغنم بعضها أجود من بعض كالأغنام العربية والمكية واللازية والبلدية فى ناحية طبرستان والإبل المهرية والأرحبية والمجيدية وهى المنسو بة إلى بلدان اليمن – وقيل النجدية بدل المجيدية – والعقيلية ، ويقال نجابتها تعيسة بحيث يبلغ عن الواحد ثلاثين دينارًا
إلى مائة دينار والقر ملية وهى إبل الترك وقيل المهرية منسو بة إلى قوم يقال هم مهرة والبقر الجواميس والعراب والدربانية فالجاموس أكثرها ألباناً وأعظمها أجسامًا ، والدربانية هي التى تنقل الأحمال عليها ، والعرابية جرد ملس حسان الألوان كرام؛ فيضم بعضها إلى بعض بلا إشكال
[بحر المذهب للروياني 3/ 44 نيز ديكهئے : المقدمات المبدات 1 / 328 ]
اور اگر آدمی کے پاس اونٹ ، گائے اور بکری کی مختلف انواع اور قسمیں ہوں جن میں سے بعض بعض سے عمدہ ہوں ، جیسے عربی مکی ، لازی اور بلدی بکریاں جو طبرستان کے علاقوں میں پائی جاتی ہیں ، اور مہریہ ، ارحبیہ ، مجید یہ اونٹ ہوں ، جو میں کے شہروں کی طرف منسو ب ہیں
اور مجید یہ کے بجائے نجدیہ بھی کہا گیا ہے ۔ اور عقیلیہ ، اور ان میں سے عمدہ اور چھریرے اونٹوں کو تعیسہ کہا جاتا ہے ، اس طور پر کہ ایک کی قیمت تیس سے سو دینار تک پہنچ جاتی ہے ، اور قرملیہ ہوں ، جو ترکی کے اونٹ ہیں ، اور کہا گیا ہے کہ مہر یہ مھرہ نامی ایک قوم کی طرف منسو ب ہیں ۔ اور گائیں بھینسیں ، عراب اور دربانیہ ہوں ، چنانچہ ”بھینس“ ان میں زیادہ دودھ دینے والی اور سب سے بھاری جسم والی ہوتی ہیں ، اور ”دربانیہ“ وہ ہے جس پر بوجھ ڈھویا جاتا ہے ، اور ”عراب “ نہایت صاف ستھری بغیر بالوں والی خوب رنگ اور بڑی پیاری ہوتی ہیں ، تو کسی اشکال کے بغیر (زکاہ میں ) ان میں سے بعض کو بعض کے ساتھ ملایا جائے گا ۔

ثانیاً : قربانی :
امام نووی رحمہ اللہ نے اونٹ کی تمام انواع اسی طرح گائے کی تمام انواع ۔ جس میں جومیس کی نوع بھی ہے ۔ نیز بکری کی تمام انواع اور ان کے انواع کو بہیمۃ الانعام قرار دیا ہے ۔ اور ان تمام انواع کی قربانی کے جواز و اجزاء کی وضاحت کرتے ہوئے بڑی صراحت سے فرماتے ہیں :
أما الأحكام فشرط المجزي فى الأضحية أن يكون من الأنعام وهى الإبل واليمر والعنم سواء فى ذلك جميع أنواع الإبل من البحاتي والعراب وجميع أنواع البقر من الخواميس والعراب والدربانية وجميع أنواع الغنم من الضأن والمعر وأنواعهما ولا يجزئ غير الأنعام من بقر الوحش وحميره والصبا وغيرها بلا خلاف [المجموع شرح المهذب 393/8 ]
رہا مسئلہ احکام کا تو قربانی ادا ہونے کی شرط یہ ہے کہ جانور بہیمتہ الانعام میں سے ہو یعنی : اونٹ ، گائے اور بکرا ، اور اس میں بخاتی اور عراب وغیرہ اونٹ کی تمام قسمیں برابر ہیں ، اور بھینس ، دربانیہ اور عراب وغیرہ گائے کی تمام قسمیں برابر ہیں ، اسی طرح مینڈھا اور بکر ا وغیرہ بکرے کی تمام قسمیں اور ان کی قسمیں برابر ہیں ، اور انعام کے علاوہ جیسے وحشی گائے اور وحشی گدھے اور ہرن وغیرہ کی قربانی بلا اختلاف کافی نہ ہوگی ۔
آئندہ فصلوں میں بھینس کے گائے ہی کی ایک نوع ہونے کے سلسلہ میں علماء لغت ، ائمہ وعلماء مذاہب اربعہ اور دیگر علماء ، فقہ حدیث اور تفسیر رحمہم اللہ کی تو ضیحات و تصریحات اور فتاوی جات ملاحظہ فرمائیں ۔

چوتھی فصل :

علمائے لغت عرب کی شہادت :

علمائے لغت عرب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ”جاموس“ ( گاؤمیش بھینس ) گائے ہی کی جنس سے ہے اور اس کی ایک صنف ، نوع اور قسم ہے ، جیسا کہ ان کی کتابوں میں جابجا اس کی صراحت موجود ہے ، چنانچہ ”جاموس“ کی تشریح میں بھینس کو گائے کی نوع قرار دیا ہے اور ”بقر“ کی تشریح میں بھینس کو اس کی نوع بتلایا ہے ، ملاحظہ فرمائیں :
اولاً : الجاموس ( بھینس) :
(1) علامہ احمد محمد فیومی فرماتے ہیں :
الجاموس نوع من البقر [ المصباح المنير فى غريب الشرح الكبير 1/ 108 ]
جاموس ( بھینس ) گائے کی ایک قسم ہے ۔

(2) علامہ زبیدی فرماتے ہیں :
الجاموس : نوع من البقر معروف معرب كاؤميش ، وهى فارسية ، ج الجواميس ، وقد تكلمت به العرب [تاج العروس 513/15 ]
جاموس ( بھینس) گائے ہی کی ایک قسم ہے ، جو معروف ہے ، فارسی لفظ گاؤمیش کا معرب ہے ، اس کی جمع جوا میں آتی ہے ۔ عربوں نے بھی اس لفظ کو اپنے کلام میں استعمال کیا ہے ۔

(3) علامہ ابن سیدہ مرسی فرماتے ہیں :
الجاموس نوع من البقر ، دخيل ، وَهُوَ بالعجمية : کواميش [ المحكم والمحيد الاعظم 7/ 283 ]
جاموس ( بھینس) گائے ہی کی ایک قسم ہے ، یہ لفظ دوسری زبان سے آیا ہے ، اور جوامیس کو عربی میں گاؤمیش کہتے ہیں ۔

(4) علامہ ناصر خوارزمی مطرزی فرماتے ہیں :
والجاموس نوع من البقر [ المغرب فى ترتيب المعرب ميں : 89]
جاموس ( بھینس) گائے ہی کی ایک قسم ہے ۔

(5) علامہ کمال الدین دمیری فرماتے ہیں :
والجاموس وهو ضرب من البقر [حياة الحيوان الكبرى 275/2 ]
اور جاموس ( بھینس ) گائے ہی کی ایک قسم ہے ۔

(6) معروف امام لغت علامہ ابن منظور افریقی فرماتے ہیں :
الجاموس : نوع من البقر ، دخيل ، وجمعه جواميس ، فارسي معرب ، وهو بالعجمية كواميش [ لسان العرب 43/6 ]
جاموس ( بھینس) گائے کی ایک قسم ہے ، یہ لفظ باہر سے عربی زبان میں داخل ہوا ہے ، اس کی جمع جومیس آتی ہے ۔ فارسی لفظ ہے جسے عربی بنایا ہے ، جاموس کو بھی زبان میں گاؤمیش کہتے ہیں ۔

(7) مجمع اللغۃ العربیۃ قاہرہ کے مولفین لکھتے ہیں :
(الجاموس) حَيَوَان أَهلي من جنس البقر والفصيلة البقرية ورتبة مزدوجات الأصابع المجترة يربى للحرث ودر اللبن (ج) جواميس [المعجم الوسيد ، 1 /134 ]
جاموس (بھینس ) ایک گھریلو پالتو جانور ہے ، جو گائے کی جنس ، بقری گریڈ اور دو ہری انگلیوں ( کھروں ) والے جگالی کرنے والے حیوانات کے رتبہ سے ہے ۔ اسے کھیتی اور دودھ دو ہنے کے لئے پالا جاتا ہے ، اس کی جمع جو امیس ہے ۔

(8) علامہ محمد بطال رکبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
الجواميس : نوع من البقر : معروف ، وهو معرب يعيش فى الماء [النظم المستعذب فى تفسير غريب ألفاظ المهذب 146/1 ]
جوامیس (بھینسیں) گائے ہی کی ایک قسم میں ، جو معروف ہے ، یہ معرب لفظ ہے ، اور بھینس زیادہ تر پانی میں رہتی ہے ۔
(9) ڈاکٹر عبد الغنی ابوالعزم لکھتے ہیں :
جاموسة ج : حواميس : حيوان من فصيلة البقريات الثدييات المحترة ، المزدوجات الأصابع من كبار البقر ، وهوأنواع : داجن ووحشي ، يوجد بإفريقيا
واسيا
[ معجم الغني الزاہر ، ڈاكٹر عبد الغني ابوالعزم ، ناشر مؤسسة اغنى للنشر ، ديكهئے : ماده نمبر 9119 ]
جاموسہ ، جمع جوامیس: ( بھینس) بڑی گایوں میں سے ، بقریات کے گریڈ کا ایک حیوان ہے جو تھنوں والے ، جگالی کرنے والے دوہرے کھروں والے ہوتے ہیں ، اور اس کی کئی گھریلو اور وحشی ، افریقہ اور ایشا میں پایا جاتا ہے ۔

ثانیاً : ”البقر“ (گائے ) :
(1) علامہ کمال الدین دمیری فرماتے ہیں :
والبقر وهى أجناس فمنها الجواميس [ حياةاالحيوان الكبري 214/1 ]
گائے کی کئی جنسیں ہیں ۔ ان میں بھینسیں بھی ہیں ۔

(2) علامہ محمد احمد ہروی فرماتے ہیں :
واجناس البقر منها الجواميس واحدها جاموس [ الزاہرفى غريب الفاظ الشافعي ص : 101]
گالوں کی جنسوں میں سے جوامیس (بھینسیں) بھی ہیں جس کی واحد جاموس آتی ہے ۔

(3) مجمع اللغۃ العربیہ قاہرہ کے مولفین لکھتے ہیں :
البقر : تر : جنس من فصيلة البقريات يشمل الثور والجاموس ويطلق على الذكر والانثي ومنه المستأنس الذى يتخذ للين والحرث ومنه الوحشي [المعجم الوسيط 1 / 65 ]
بقر : بقریات ( گائی) گریڈ کی ایک جنس ہے جو بیل اور بھینس سب کو شامل ہے ، اور مذکر ومونث سب پر بولا جاتا ہے ، اور اس میں وہ مانوس قسم بھی ہے جسے دودھ اور کھیتی کے لئے رکھا جاتا ہے اور ایک قسم وحشی ہے ۔

(4) کونسل برائے جدید عربی زبان نے لکھا ہے :
البقر ، وهو جنس حيوانات من ذوات الظلف من فصيلة البقريات ويشمل البقر والجاموس [1 معجم اللغة العربية المعاصرة ، 1 / 230 نمبر 694]
بقر (گائے ) : گائی گریڈ میں سے گھر والے جانوروں کی ایک جنس ہے ، اور یہ گائے ، اور بھینس کو شامل ہے ۔

(5) شیخ عبد اللطیف عاشور فرماتے ہیں :
البقر : جنس من فصيلة ، البقريات يشمل الثور والجاموس ، ويطلق على الذكر والأنثى [ 2 موسوعة الطير والحيوان فى الحديث النبوي ص : 106 ]
بقر : بقریات کے گریڈ کی جنس سے ہے ، بیل اور بھینس دونوں شامل ہے اور مذکر و مونث دونوں پر بولا جاتا ہے ۔

(6) علامہ ابو الفتح الشیہی فرماتے ہیں :
بقر : هو حيوان شديد القوة خلقه الله تعالى لمنفعة الإنسان ، وهو أنواع : الجواميس وهى أكثر ألبانا [3 المستطرف فى كل فن مستطرف ص : 353 ۔ ]
گائے ایک بڑا طاقتور جانور ہے ، اسے اللہ نے انسان کی منفعت کے لئے پیداکیا ہے ، اس کی کئی قسمیں ہیں ، ان میں بھنیسیں ہیں ، جو سب سے زیادہ دودھ دینے والی ہیں ۔

پانچویں فصل :
علما فقہ ، حدیث اور تفسیر کی شہادت
(1) علامہ مازری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الجاموس : ضرب من البقر [ العلم بفوائد مسلم 1/ 326 نيز ديكهئے : اعمل العلم بفوائد مسلم از علامہ قاضي عياض كسي 1 / 488 ]
بھینس گائے ہی کی ایک قسم ہے ۔

(2) علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الجواميس نوع من البقر ، والبخاتي نوع من الإبل ، والضأن والمعز جنس واحد [ الكافي فى فقه الامام احمد ، 1 / 390]
بھینسیں گائے کی ایک کی قسم میں بخاتی اونٹ کی ایک قسم میں ، اور مینڈھا بکرا (دونوں) ایک جنس ہیں ۔

(3) علامہ مجد ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الجواميس نوع من البقر [ الحرفى الفقه على مذهب الامام احمد بن حنبل 215/1 ]
بھینسیں گائے ایک قسم ہیں ۔

(4) علامہ محمد بن عبداللہ الزرکشی فرماتے ہیں :
قال : والجواميس كغيرها من البقر [شرح الزركشي على مختصر الخرقي 2/ 394 ]
فرمایا : بھینسیں اپنے علاوہ گایوں ہی کی طرح ہے ۔

(5) نیز علامہ منصور بہوتی رحمہ اللہ ”الروض المربع“ میں فرماتے ہیں :
لحم البقر والجواميس جنس [الروض المربع شرح زاد المستتقتع هيں : 342 ]
گائے اور بھینس کا گو شت ایک جنس ہے ۔

(6) علامہ ابن عاشور رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ومن البقر صنف له سنام فهو أشبه بالإبل ويوجد فى بلاد فارس ودخل بلاد العرب وهو الجاموس ، والبمر العربي لاسنام له وثورها يسمى الفريش [التحرير والتنوير8-/129 ]
اور گائے کی ایک قسم ہے جسے کو ہان ہوتی ہے ، لہذا وہ اونٹ سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے ، اور وہ فارس کے علاقہ میں پائی جاتی ہے عرب کے علاقوں میں داخل ہوئی ہے ، اور وہ ”جاموس“ بھینس ہے ، عربی گائے کو کو بان نہیں ہوتی اور اس کے بیل کو فریش کہا جاتا ہے ۔

(7) علامہ عبد الباقی زرقانی فرماتے ہیں :
والجواميس جمع جاموس ، نوع من البقر [ شرح الزرقاني على الموطا 171/2 ]
جوامیس : جاموس کی جمع ہے ، گائے کی ایک قسم ہے ۔

(8) علامہ بدرالدین عینی فرماتے ہیں :
جواميس والبقر سواء لأنهانوع منه ، فتتناولهما النصوص الواردة باسم البقر [منحب اسلوك فى شرح تحفة الملوك ص : 227 ]
بھینسیں اور گائیں یکساں ہیں ، کیونکہ وہ اس کی ایک قسم ہے ۔ لہٰذا گائے کے نام سے وارد نصوص دونوں کو شامل ہیں ۔

(9) علامہ برہان الدین محمود بن احمد بخاری فرماتے ہیں :
لأن البقر اسم جنس والجاموس اسم نوع [المحيط البرهاني فى الفقه النعماني نقلاعن الحاوي 284/4 ۔ ]
کیونکہ گائے جنس کا نام ہے اور بھینس نوع کا نام ہے ۔

(10) امام ابن مہدی سفیان ثوری اور امام مالک فرماتے ہیں :
إن الجواميس من البقر [المدوية 1/ 355 ]
بھینسیں گائے میں سے ہیں ۔

(11) علامہ محمد بن محمد یا برقی فرماتے ہیں :
ويدخل فى البقر الجاموس لأنه من جنسه [العناية شرح الهداية 517/9 ]
اور گائے میں بھینس بھی داخل ہے ، کیونکہ وہ اس کی جنس سے ہے ۔

(12) علامہ فخر الدین ذیلعی حنفی فرماتے ہیں :
( والجاموس كالبقر) لأنه بقر حقيقة إذ هو نوع منه فيتناوهما النصوص الواردة باسم البقر . . . وقوله : والخاموس كالبقر ليس بجيد؛ لأنه يوهم أنه ليس ببقر [ تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وماشية الشلبی 1/ 263 ۔ ]
بھینس گائے کی طرح ہے ، کیونکہ وہ حقیقی گائے ہے ۔ اس لئے کہ وہ اس کی نوع ہے لہٰذا گائے کے نام سے وارد نصوص دونوں کو شامل ہیں ۔ ۔ ۔ اور مولف کا گائے کی طرح ”کہنا اچھا نہیں ہے ، کیونکہ اس تعبیر سے وہم ہوتا ہے کہ بھینس گائے نہیں ہے ! !

(13) علامہ بدرالدین عینی شرح ہدایہ میں فرماتے ہیں :
والجواميس والبقر سواء؛ لأن اسم البقر يتناولهما إذ هو نوع منه [ البناية شرح الهداية 3 / 329, 324/3 ]
بھینسیں اور گائیں دونوں یکساں ہیں؛ کیونکہ گائے کا نام دونوں کو شامل ہے ، اس لئے کہ وہ اس کی نوع ہے ۔

(14) علامہ زین الدین المعروف بابن نجیم المصری فرماتے ہیں :
الجوَامِيسُ مِنْ الْبَقَرِ؛ لأنَّهَانَوع منه [البحرالرائق شرح كنز الدقائق و منبه الخالق وتكملة الطوري 232/2 ]
بھینسیں گائے میں سے ہیں ، کیونکہ وہ گاتے ہی کی قسم ہیں ۔

(15) علامہ عبد الغنی بن طالب مشقی میدانی فرماتے ہیں :
( والجواميس والبقر سواء) لاتحاد الجنسية؛ إذ هو نوع منه [ اللباب فى شرح الكتاب 142/1]
اور بھینسیں اور گائیں برابر ہیں ، کیونکہ جنس ایک ہے ، کہ وہ اسی کی قسم ہے ۔

(16) علامہ محمد بن عبداللہ خرشی مالکی فرماتے ہیں :
(تنبية) : من البقر الجاموس [شرح مختصر خليل للخرشي 16/3 ]
تتبیہ : گائے ہی میں بھینس بھی ہے ۔

(17) علامہ محمد احمد دسوقی فرماتے ہیں :
ومن البقر الجاموس [ الشرح الكبير للشیخ الدر دير و حاشية الدسوقي 2/ 107 ]
گائے ہی میں بھینس بھی ہے ۔

(18) علامہ احمد محمد خلوتی صاوی مالکی فرماتے ہیں :
الجاموس صنف من البقر [بلغة السالك لا قرب المسالك 1/ 598 ]
بھینس گائے کی ایک قسم ہے ۔

(19) علامہ عبد الباقی زرقانی شرح مختصر خلیل میں فرماتے ہیں :
روي انه صلى الله عليه وسلم تحر عن أزواجه البقر ، وروي ذبح عن أزواجه البقر ، روي آنهره ومن البقر الجاموس [ شرح الزرقاني على مختصر خليل و ماشية البناني 25/3]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی اور ایک روایت میں ہے کہ ذبح کیا ) اور گائے ہی میں بھینس بھی ہے ۔

(20) امام ابو ذکریا نووی فرماتے ہیں :
والصواب ما قدمناه أن البقر جنس ونوعاه الجواميس والعراب [ المجموع شرح المهذب 426/5 ]
صحیح بات وہ ہے جو ہم پہلے کہہ چکے ہیں : کہ گائے جنس ہے اور اس کی دوقسمیں بھینسیں اور عراب ہیں ۔

(21) علامہ محمد بن احمد بطال رکبی یمینی فرماتے ہیں :
الجواميس : نوع من البقر : معروف [النظم المستعذب فى تفسير غريب ألفاظ المهذب 1 / 146]
بھینسیں گائے کی ایک قسم میں معروف ہے ۔

(22) علامہ سلیمان بن محمد تکبیرمی مصری فرماتے ہیں :
والبقر اسم جنس . . . وهى أجناس منها الجواميس [ تخته الحبيب على شرح الخطيب 310/4 ]
بقر : اسم جنس ہے ، اس کی کئی جنسیں ہیں ، انہی میں بھینسیں بھی ہیں ۔

(23) امام اسحاق بن منصور کو سج فرماتے ہیں :
البقر جنس ، والجواميس نوع من أنواعه [مسائل الامام احمد و اسحاق بن راہويه 3 / 1057 ]
بقر : گائے جنس ہے اور بھینس اس کی قسموں میں سے ایک قسم ہے ۔

(24) علامہ ابن قدامہ مقدسی المعنی میں فرماتے ہیں :
ولأن الجواميس من أنواع البقر ، كما أن البحاني من أنواع الإبل [ المغني الابن قدامة 2/ 444 ]
اس لئے کہ بھینسیں گائے کی قسموں میں سے ہیں جیسے بختی اونٹ کی قسموں میں سے ۔

(25) علامہ عبد الرحمن جزیری فرماتے ہیں :
والمراد بالبقر ما يشمل الجاموس [الفقه على المذاهب الأربعة 541/1 ]
بقر (گائے ) سے مراد وہ ہے جو بھینس کو شامل ہے ۔

(26) علامہ ابن حزم فرماتے ہیں :
مسألة : الجواميس صنف من البقر [ المهلي بالآثار 89/4 ]
مسئلہ بھینسیں گائے کی ایک قسم ہیں ۔

(27) فقہ انسائیکلو پیڈیا کویت میں ہے :
الجواميس جمع جاموس وهو نوع من البقر [الموسوية الفقهيته الكويتية 81/5 ، حاثيه 3 ]
جوامیس : جاموس کی جمع ہے ، اور وہ گائے کی ایک قسم ہے ۔

(28) شیخ سید سابق فرماتے ہیں :
و بهيمة الأنعام هي : الابل والبقر ومنه الجاموس والغنم [ فقہ الستہ 272/3 ]
بہیمۃ الانعام : اونٹ ، گائے اور اسی میں سے بھینس ہے ، اور بکری ہے ۔

(29) الفقہ المیسر کے مولفین لکھتے ہیں :
والبقر يشمل الجاموس أيضا ، فهو نوع من البقر [ الفقه الميسر فى ضوء الكتاب والسبيه 1 / 134 ]
اور گائے بھینس کو بھی شامل ہے ، کیونکہ وہ گائے کی ایک قسم ہے ۔

(30) شیخ ابومالک کمال بن السید سالم فرماتے ہیں :
إن الجاموس صنف من البقر بالإجماع [صحيح فقه السنته و أدلته و توضيح مذاهب الأئمة 2/ 35 ]
بھینس بالا جماع گائے کی ایک قسم ہے ۔
یہ بطور مثال علماء امت کی چند تصریحات ہیں ، ورنہ اس قسم کی تصریحات و توضیحات بے شمار ہیں ۔

چھٹی فصل :

بھینس کی قربانی کے جواز پر اہل علم کے اقوال :

بھینس کے گائے کی جنس سے اور اس کی نوع ہونے کے ساتھ ساتھ علماء وفقاء امت کی ایک بڑی جماعت نے بھینس کی قربانی کے جواز کی صراحت فرمائی ہے ، بطور مثال چندا قوال حسب ذیل ہیں :
(1) علامہ مرغینانی فرماتے ہیں :
ويدخل فى البقر الخاموس لأنه من جنسه [ الهدايه فى شرح بداية المبتدي 359/4 نيز ديكهئے : العنايه شرح الهداية 517/9 ]
گائے میں بھینس بھی داخل ہے ، کیونکہ وہ اس کی جنس سے ہے ۔

(2) علامہ احمد بن محمد حلبی فرماتے ہیں :
الجاموس يجوز فى الصحايا والهدايا استحسانا ثم الإبل أفضل من البقر ثم الغنم أفضل من المعز [ لسان الحكام ص : 386 ۔ ]
قربانی اور ہدایا میں بھینس استحسا ناجائز ہے ، پھر اونٹ گائے سے افضل ہے ، پھر مینڈ ھا بکری سے افضل ہے ۔

(3) علامہ ابن النجیم حنفی فرماتے ہیں :
(والجاموس) معرب كواميش (كالبقر) فى الزكاة والأضحية والربا لأن اسم البقر يتناولها [النهر الفائق شرح كنز الدقائق 424/1 ]
گاؤمیش کا معرب جاموس ( بھینس ) زکاۃ قربانی اور سود میں گائے کی طرح ہے ، کیونکہ گائے کا نام اسے شامل ہے ۔

(4) علامہ کمال الدین ابن الہمام فرماتے ہیں :
والتني منها ومن المعز سنة ، ومن البقر ابن سنتين ، ومن الإبل ابن خمس سنين ، ويدخل فى البقر الجاموس لأنه من جنسه [فتح القدر الكمال ابن الہمام 517/9 ]
اس کا اور بکرے کاثنی ایک سال کا ہوتا ہے ، اور گائے کا دو سال کا ، اور اونٹ کا پانچ سال کا ، اور گائے میں بھینس بھی داخل ہے ، کیونکہ وہ اس کی جنس سے ہے ۔

(5) علامہ ابو بکر زبیدی یمنی فرماتے ہیں :
والجواميس والبقر سواء يعني فى الزكاة والأضحية واعتبار الربا [ الجوهرة النيرة على مختصر القدوري 1/ 118 ]
بھینسیں اور گائیں یکساں ہیں یعنی زکاۃ قربانی اور سود کے اعتبار میں ۔

(6) حافظ الاندلس علامہ ابن البر قرطبی فرماتے ہیں :
جمله مذهب مالك فى هذا الباب أن الأزواج الثمانية وهى الإبل والبقر والضان والمعر وكذلك الجواميس [التمهيد لمافي الموطامن المعاني والأسانيہ 4 / 329]
اس باب میں امام مالک کے مذہب کا خلاصہ یہ ہے کہ آٹھ جوڑ سے اونٹ ، گائے ، مینڈھا اور بکرا ہے ، اور اسی طرح بھینسیں ۔

(7) علامہ ابو الولید سلیمان بن خلف باجی اندلسی فرماتے ہیں :
أن أنواع الإبل كلها تخرى فى الهدايا البحت ، والنحب والعراب وسائر أنواع الإبل وكذلك سائر أنواع البقر من الجواميس والبقر وكذلك سائر أنواع الغنم من الضأن والماعر وإنما تختلف فى الأسنان والله أعلم [المنتقي شرح الموطا 2 / 310 ]
اونٹ کی ساری قسمیں بدایا (قربانی) میں کفایت کریں گی بختی نجائب ، عراب اور دیگر قسمیں ، اسی طرح گائے کی ساری تمہیں بھینسیں اور عام گائیں ، اسی طرح بکرے کی ساری قسمیں ؛ میندھا اور بال والی بکری ، یہ صرف عمروں میں مختلف ہیں ، واللہ اعلم

(8) علامہ محمد عربی قروی لکھتے ہیں :
س : من أى الأصناف تخرج الأضحية
ج : تخرج الأضحية من الغنم ضأن أو معز؛ ومن البقر ومن الإبل ويشمل البقر الجواميس وتشمل الإبل البحت [الخلاصة الختمية على مذهب السادة المالكية ص : 262 ]
سوال : مویشیوں کی کن قسموں سے قربانی کی جائے گی ۔
جواب : قربانی بکرے کی کی جائے گی ، خواہ مینڈھا ہو یا بال والا بکرا : اسی طرح گائے اور اونٹ سے کی جائے گی ، اور گائے بھینس کو شامل ہے ، اور اونٹ بختی کو ۔

(9) امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے لیث بن ابی سلیم سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا :
الجاموس والبختي من الأزواج الثمانية [ تفسير ابن ابي حاتم تحقيق اسعد حمد طيب 5 / 1403 ، رقم : 7990 ۔ نيز ديكهئے عتاب كا ص 44 ۔ ]
جاموس ( بھینس ) اور بختی (خراسانی اونٹ ) نرومادہ آٹھ قسموں میں سے ہیں ۔

(10) محمد احمد ہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الجواميس فى الأضاحي كالبقر [ الارشاد الي سبيل الرشادس : 372 ]
بھینسیں قربانی میں گائے کی طرح ہیں ۔

(11) امام احمد اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہما اللہ نے بھی بھینس کی قربانی اور سات کی طرف سے کفایت پر موافقت فرمائی ہے :
امام اسحاق بن منصور الکو سج فرماتے ہیں :
الجواميس تجزئ عن سبعة ؟ قال : لا أعرف خلاف هذا [ مسائل الامام أحمد وإسحاق بن راهويه 8 / 4027 ، نيز ديكهئے : 4045/8 ، نيز على رضى الله عنه كا قول ملاحظه فرمائيں : الفردوس بماثور الخطاب ، ازديلحي 124/2 اثر 2650 ]
سوال : کیا بھینسوں کی قربانی میں سات لوگ شریک ہو سکتے ہیں ؟ جواب : ( امام احمد نے فرمایا) میں اس کے خلاف نہیں جانتا ۔
اسی طرح فرماتے ہیں :
قال سفيان . . . والجواميس تجزئ عن سبعة ؟ قال أحمد كما قال قال إسحاق : كما قال [ مسائل الامام احمد و اسحاق بن راهويه 8 / 4045 مسئله نمبر : 2882 نيز ديكهئے : مسانمبر 2865 ]
سفیان ثوری کہتے ہیں : بھینسیں سات لوگوں کی طرف سے کافی ہیں ؟ ( کیا صحیح ہے ؟ ) امام احمد نے کہا جو انہوں نے کہا: وہی ہے ۔ اور امام اسحاق نے کہا جیسے انہوں نے کہا: ویسے ہی ہے ۔

(12) علامہ موسی تجاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الجواميس فيهما كالبقر [ الاقاع فى فته الامام أحمد بن حنبل 1/ 402 ]
بدی اور قربانی دونوں میں بھینسوں کا حکم گائے جیسا ہی ہے ۔

(13) اور اس کی شرح میں علامہ بہوتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والجواميس فيهما) أى : فى الهدي والأضحية (كالبقر) فى الإجزاءوالسن ، وإجزاء الواحدة عن سبعة؛ لأنهانوع منها [كشاف القناع من من الاقتاع 533/2 ]
یعنی ھدی اور قربانی دونوں میں کافی ہونے ، عمر اور ایک میں سات لوگوں کی شرکت وغیرہ کے اعتبار سے بھینسیں گائے جیسی ہیں ، کیونکہ وہ گایوں ہی کی ایک قسم ہیں ۔

(13) شیخ عبد العزیز السلمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الجواميس فى الهدي والأضحية كالبقرة فى الإجزاء والسن وإجزاء الواحدة عن سبعة لأنها نوع منها [ الأسئالية والأجو بة العظمية 9/3 ]
ھدی اور قربانی دونوں میں کافی ہونے ، عمر اور ایک میں سات لوگوں کی شرکت وغیرہ کے اعتبار سے بھی نہیں گائے ہی جیسی ہیں ، کیونکہ وہ گایوں ہی کی ایک قسم ہیں ۔

(15) علامہ احمد بن عبد الرحمن الساعاتی فرماتے ہیں :
نقل جماعة من العلماء الإجماع على التضحية لا تصح إلا ببهيمة الأنعام ، الإبل بجمیع أنواعہا والبقر ومثلہ الجاموس [ الفتح الرباني الترتيب مسند الامام أحمد بن مقبل الشيباني 76/13 حاشيه ۔ ]
علماء کی ایک جماعت نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ قربانی صرف بسمہ الانعام کی صحیح ہوگی ، اونٹ اپنی تمام قسموں کے ساتھ ، اور گائے اور اسی کے مثل بھینس ہے ۔

(16) استاذ دکتوروہبہ مصطفی زحیلی فرماتے ہیں :
نوع الحيوان المضحى به : اتفق العلماء على أن الأضحية لا تصح إلا من نعم إبل و بقر (ومنها الجاموس) وغنم (ومنها المعز) بسائر أنواعها [ الفقه الاسلامي واولته للزحيلي 2719/4 ]
قربانی کے جانور کی نوعیت علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قربانی صرف انعام ہی کی صحیح ہوگی : یعنی اونٹ اور گائے ، اور بھینس بھی اسی میں سے ہے ، اور بکرے کی ہال والی بکری اور اس کی ساری قسمیں بھی اسی میں ہے ۔

ساتویں فصل :

بھینس کی زکاۃ :

احکام و مسائل فقہ وفتاوی اور عہد تابعین اور بعد کے ادوار کی تاریخ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعینہ گایوں کی طرح بھینسوں کی زکاۃ بھی فرض رہی ہے اور ادا اور وصول کی جاتی رہی ہے ، گائے اور بھینس کا حکم یکساں رہا ہے ، دونوں میں کسی مسئلہ میں کوئی تفریق نہیں کی گئی ہے آئیے اس بارے میں سلف کے بعض آثار اور اہل علم کے چند اقوال ملاحظہ کریں :
(1) حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الجواميس بمنزلة البقر [ مصنف ابن ابي شيبه ترقيم عوامة – 7/ 65 ، باب فى الجواميس تعد فى الصدقة ؟ 137 اثر 10848 والأموال للقاسم بن سلام 2/ 36 نمبر 993 محق كتاب ابوانس سيد بن رجب فرماتے هيں : ”يه معلق هے ، امام ابوعبيده نے اپنے اور اشعث كے درميان كا واسطه نهيں ذكر كيا هے ، اور مجهے نهيں معلوم كه موصول كسي نے روايت كيا هے ۔ ]
بھینسیں گائے کے درجہ میں ہیں ۔

(2) عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے لکھ بھیجا :
أن تؤخذ صدقة الجواميس كما تؤخذ صدقة البقر [ الأموال القاسم بن سلام 2/ 36 نمبر 992 محقق كتاب ابوانس سيد بن رجب فرماتے هيں : سند ضعيف هے ، اس كي سند ميں عبدالله بن صالح نامي راوي ضعيف هے ، نيز ديكهئے : اموال ، از ابن زنجويه نبات : صدفة الجواميس ”2/ 851 نمبر 1493 نيز امام قاسم بن سلام رحمه الله ك اپنا قول بهي ملاحظه فرمائيں : الأموال القاسم بن سلام 2 / 36 ]
جیسے گایوں کی زکاۃ لی جاتی ہے بھینسوں کی بھی زکاۃ لی جائے ۔

(3) یونس بن یز ید الا علی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وتحسب الجواميس مع البقر [مصنف عبدالرزاق الصنعاني 24/4 اثر 6851 ]
بھینسوں کو گایوں کے ساتھ شمار کیا جائے گا ۔

(4) امام دارا لہجر و مالک بن انس رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الجواميس والبمر سواء ، والبحاني من الإبل وعرابها سواء [ الأموال القاسم بن سلام ، 2 / 36 نمبر 994 ، والأموال لابن زنجويه 2 / 1495/851]
بھینسیں اور گائیں یکساں ہیں اور بخشتی اور عراب اونٹ یکساں ہیں ۔

نیز الموطا میں فرماتے ہیں :
وكذلك البقر والجواميس ، تجمع فى الصدقة على ربه ، وقال : إنما هي بقر كلها [ موطا امام مالك تحقيق الاعظمي 2 / 366 نمبر 895 ، نيز ديكهئے : شرح الزرقاني على الموطاح / 189 ]
اسی طرح گایوں اور بھینسوں کو ان کے مالک سے زکاۃ کے لئے اکٹھاکیا جائے گا ، اور فرماتے ہیں کہ : در حقیقت یہ تمام گائے ہی ہیں ۔

(5) امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ونصدق الجواميس مع البقر والدربانية [ الأم للشافعي 20/2 ]
اور ہم بھینسوں کی زکاۃ گائے اور دربانیہ کے ساتھ ہی نکالتے ہیں ۔

(6) علامہ ابن حزم رحمہ اللہ اپنی مایہ ناز کتاب المحلی میں فرماتے ہیں :
مسألة : الجواميس صنف من البقر يضم بعضها إلى بعض [محلي بالآثار 89/4 نمبر 673 ]
مسئلہ بھینسیں گائے ہی کی ایک صنف ہیں ، زکاۃ کے لئے دونوں کو ملایا جائے گا ۔

(7) نیز بھینسوں میں زکاۃ کی فرضیت کا سبب ”قیاس“ قرار دینے والوں کی تردید فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :
وهذا شعب فاسد لأن الجواميس نوع من أنواع البقر ، وقد جاء النص بإيجاب الزكاة فى البقر ، والزكاة فى الجواميس لأنها بقر؛ واسم البقر يقع عليها ولولا ذلك ما وجدت فيها زكاة [ الاحكام فى اصول الأحكام لابن حزم 132/7 ]
یہ بہت بری بات ہے ؛ کیونکہ بھینسیں گائے کی قسموں میں سے ایک قسم ہیں ، اور گائے میں زکاۃ کے وجوب پرنص موجود ہے ، اور بھینسوں میں زکاۃ اس لئے ہے کہ وہ گائیں ہیں ؛ اور اُن پر گائے کا نام طے ہے ، اگر ایسانہ ہوتا تو بھینسوں میں زکاۃ نہ ہوتی ۔

(8) علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مسألة : قال : والجواميس كغيرها من البقر لا خلاف فى هذا نعلمه . . . لأن الجواميس من أنواع البقر ، كما أن البحاني من أنواع الإبل [المغني لابن قدامة 2 / 444 مسئله 1711 ]
مسئلہ :” بھینسیں دیگر گایوں ہی کی طرح ہیں “ ہمارے علم کے مطابق اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ۔ ۔ ۔ اور اس لئے بھی کہ بھینسیں گائے ہی کی قسم ہیں ، جیسے بناتی اونٹ کی قسم ہے ۔

(9) علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ ”الکافی “میں فرماتے ہیں :
الجواميس نوع من البقر ، والبخاتي نوع من الإبل ، والضأن والمعز جنس واحد [الكافي فى فقه الامام أحمد 1 / 390 ]
بھینسیں گائے کی ایک قسم میں ، اور بخاتی اونٹ کی ایک قسم ہیں ، اور مینڈھا اور بکرا ایک جنس ہیں ۔

(10) علامہ محمد الامین شنقیطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وأحق بالبقر الجواميس ، والإبل تشمل العراب والبحاني [ أضواء البيان فى إيضاح القرآن بالقرآن 271/8]
بھینسوں کو گائے سے ملحق کر دیا گیا ہے ، اور اونٹ عربی اور خراسانی دونوں قسم کے اونٹوں کو شامل ہے ۔

(11) سعودی عرب کے معروف فقیہ اور مفتی علامہ وفہامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وأما البقر أيضا فتشمل البقر المعتادة ، والجواميس [ الشرح الممتع على زادالمستقطع ، 49/6 ]
رہا مسئلہ گائے گا : تو وہ عام گایوں اور بھینسوں دونوں کو شامل ہے ۔

(12) بھینسوں میں زکاۃ کے سلسلہ میں علامہ البانی رحمہ اللہ کا فتوی :
علامہ رحمہ اللہ کے شاگر د شیخ حسین بن عودۃ العوایشہ فرماتے ہیں :
وسئل شيخنا رحمه الله : هل فى الجاموس زكاة ؟ فأجاب : نعم فى الجاموس زكاة لأنه نوع من أنواع البقر [ الموسوعتہ الفقہیہ الميسرة فى فقه الكتاب والسنة المطهرة 3/ 76 ]
ہمارے شیخ علامہ البانی رحمہ اللہ [ ہمارے شيخ سے مراد علامه الباني رحمه الله ہيں ، جيسا كه مولف نے مقدمه ميں وضاحت كي هے ، ديكهئے : الموسوعه التمرية الميسر اپني فتحه الكتاب والسنة المطهرة 6/1 ] سے سوال کیا گیا : کیا بھینس میں زکاۃ ہے ؟ تو آپ نے جواب دیا : جی ہاں بھینس میں زکاۃ ہے کیونکہ وہ گانے کی قسموں میں سے ایک قسم ہے ۔

(13) شیخ ابومالک کمال بن السید سالم فرماتے ہیں :
وهذا العدد يجمع فيه الجاموس إلى البقر ، لأن الجاموس صنف من البقر بالإجماع فينضم إليه [ صحيح فقه السته و أدلته و توضيح مذاهب الأئمته 2 / 35 ]
اور گائے کی اس تعداد میں بھینس کو گائے کے ساتھ اکٹھاکیا جائے گا ، کیونکہ بھینس بالا جماع گائے کی قسم ہے لہٰذا اسے گائے میں ملایا جائے گا ۔
الغرض بهينس ميں زكاة كے وجو ب كے سلسله ميں علماء كي تصريحات شمار سے باہر هيں .
[ مزيد ديكهئے مخته السلوك فى شرح تخصة الملوك ص : 227 ، والهداية فى شرح بداية المبتدي 359/4 ، ویتمين الحقائق شرح كنز الدقائق 1/ 263 ، والبناية شرح الهداية 3 / 324 ، و3/ 329 ، و درر الحكام شرح غرر الاحكام 1 / 176 ، ومجمع الأنهر فى شرح ملتقى الأبحر 1/ 199 ، والباب فى شرح الكتاب 1 / 142 ، والمدوبيه 1 / 355 ، والجامع لمسائل المدويه 4/ 210 وحاشية العدوي على كفاية الطالب الرباني 1/ 503 ، والحاوي الكبير 16 / 108 والمقدمات المبہدات 1 /328 ، والمعوي على مذهب عالم المدينه ص : 392 ، و شرح ابن ناجي التنوخي على متن الرسالة 1 / 324 ، وفقه العبادات على المذهب المالكي ص : 273 ، والخلاصة الفقهيتہ على مذهب السادة المالكية ص : 184 ۔ وخلاصة الجواهر الزكية فى فقه المالكية ص : 39 ، و بحر المذهب للروياني 11/ 128 ، والهداية على مذهب الامام احمد ميں : 126 ، و ، والتفسير الحديث 478/9 ، مختصر الفرقي هيں : 42 ، وموسوعة الفقه الاسلامي 40/3]

آٹھویں فصل :

بھینس اور گائے کے حکم کی یکسانیت پر اجماع :

بہت سے علماء نے بھینس کے گائے کی قسم ہونے پر اجماع نقل فرمایا ہے ، ملاحظہ فرمائیں :
(1) امام ابن المنذر فرماتے ہیں :
أجمعوا على أن حكم الجواميس حكم البقر [ الاجماع لابن المندرجس : 45 نمبر 91 ]
اہل علم کا اجماع ہے کہ بھینسوں کا حکم گائے کا حکم ہے ۔

(2) نیز فرماتے ہیں :
أجمع كل من يحفظ عنه من أهل العلم على هذا ، ولأن الجواميس من أنواع البقر ، كما أن البحاني من أنواع الإبل [ المغني لابن قدامة 2 / 444 ]
اس بات پر ان تمام اہل علم کا اجماع ہے جن سے علم حاصل کیا جاتا ہے ، اور اس لئے بھی کہ بھینس گائے کی قسموں میں سے ہے ، جیسے بخاتی اونٹ کی قسموں میں سے ہے ۔

(3) علامہ علی بن محمد ابن القطان الفاسی فرماتے ہیں :
وأجمعوا أن الجواميس بمنزلة البقر ، وأن اسم البقر واقع عليها [ الاقناع فى مسائل الاجتماع 1147/205/1 ]
اور اس بات پر اجماع ہے کہ بھینسیں گایوں کے درجہ میں ہیں ، اور گائے کا نام اس پر واقع ہے ۔

(4) نیز امام ابن المنذر” الاشراف علی مذاہب العلماء “میں لکھتے ہیں :
وأجمع كل من تحفظ عنه من أهل العلم على أن الجواميس بمنزلة البقر ، كذلك قال الحسن البصري ، والزهري ومالك ، والثوري وإسحاق والشافعي أصحاب الرأي ، وكذلك نقول [ الاشراف على مذاهب العلماء لابن المنذر 929/12/3]
تمام اہل علمہ کا اجماع ہے کہ بھینسیں گائے کے درجہ میں میں ، یہی بات حسن بصری ، زہری ، مالک ثوری ، اسحاق ، شافعی اور اصحاب الرأی نے کہی ہے اور یہی ہم بھی کہتے ہیں ۔

(5) علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والجواميس كغيرها من البقر لا خلاف فى هذانعلمه [المغني لابن قدامة 444/2 ]
بھینسیں دیگر گایوں ہی کی طرح میں ، ہم اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں جانتے ۔

(6) علامہ یحیی بن ہبیر شیبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
واتفقوا على أن الجاموس والبقر فى ذلك سواء [اختلاف الأئمة العلماء 1 / 196 ]
اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس میں بھینس اور گائے دونوں یکساں ہیں ۔
(7) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الجواميس منزلة البقر حتى ابن المنذر فيه الإجماع [مجموع فتاوي ابن تيميه 37/25 ]
بھینسیں گایوں ہی کے درجہ میں ہیں ، امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے اس پر اجماع نقل فرمایا ہے ۔

(8) دکتوروہبہ مصطفی زحیلی فرماتے ہیں :
ولا خلاف فى أن الجواميس والبقر سواء لاتحاد الجنسية ، إذ هو نوع منه [اخته الاسلامي و آواته الزحيلي 1926/3 ]
اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ بھینسیں اور گائیں جنس ایک ہونے کے سبب یکساں ہیں ، کیونکہ بھینس گائے کی ایک نوع ہے ۔

(9) شیخ محمد بن عبد العزیز السدیس لکھتے ہیں :
وأجمعوا على أن حكم الجواميس حكم البقر ، [اجابة السوال فى زكاة الأموال ص : 301 ]
اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ بھینسوں کا حکم گائے کا حکم ہے ۔
(10) فقہ انسائیکلو پیڈیا کویت میں ہے :
الشرط الأول : وهو متفق عليه بين المذاهب : أن تكون من الأنعام وهى الإبل عرابا كانت أو تخاتي ، والبقرة الأهلية ومنها الجواميس [الموسوعة الفقهية الكويتية 5 / 81]
پہلی شرط : اور یہ تمام مذاہب میں متفق علیہ ہے : کہ قربانی کا جانور انعام میں سے ہونا چاہئے یعنی اونٹ خواہ عربی ہو یا بھائی اور گھریلو گائیں اور اسی میں بھینس بھی ہے ۔

نویں فصل :

اسلامی تاریخ میں بھینس کا ذکر :

اس میں کوئی شک نہیں کہ عہد رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھینس کا ذکر نہیں ملتاکیونکہ اس وقت تک بھینس وہاں متعارف ہی نہ ہوئی تھی ، البتہ دوسرے ممالک اور علاقوں میں بھینس کی نسل پائی جاتی تھی ، جیسے افریقہ ، ایشیاء اور مصر وغیرہ چنانچہ ڈاکٹر عبدالغنی ابوالعزم فرماتے ہیں : جاموس ج : جواميس : . . . من كبار البقر ، وهوأنواع : داحن ووحشي ، يوجد بإفريقيا واسيا [معجم الغني الزاهر ڈاكٹر عبد الغني ابوالعزم ، ناشر مؤسة الغنى للنشر ، ديكهئے : ماده نمبر 9119 ]
جاموس ، جاموسہ : جس کی جمع جوامیس آتی ہے ۔ ۔ ۔ یہ بڑی گایوں میں سے ہیں ، اور اس کی کئی قسمیں ہیں : گھر یلو اور وحشی یہ افریقہ اور ایشا میں پائی جاتی ہیں ۔

علامہ محمد بن عبد الحق یفرنی لکھتے ہیں :
وأما ”الجواميس“ فإنها نوع من البقر فى ناحية مصر تعوم فى النيل ، وتخرج إلى البر ، ولكل بقرة منها قرن ، واحد ، والواحد منها : جاموس [الاقتصاب فى غريب الموطاء إعراب على الأبواب 1/ 295 ]
رہیں بھینسیں : تو وہ گائے کی ایک قسم ہیں ، جو مصر کے علاقوں میں پائی جاتی ہیں ، نیل میں تیرتی گھومتی رہتی ہیں ، اور باہر خشکی میں بھی نکلتی ہیں ، اور ان میں سے ہر گائے کو ایک سینگ (کو بان ) ہوتی ہے اور اس کا واحد جاموس کہلاتا ہے ۔
لیکن کتب تاریخ وسیر کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد صحابہ کے بعد کے ادوار میں بھینس کا وجود کسی نہ کسی طرح رہا ہے ، ہمارے اسلاف اس سے متعارف ہوئے اور گائے بیل کی طرح ہزاروں کی تعداد میں اسے پالا [ چنانچه عمر رضا كحاله مشقي رحمه الله نے معجم قبائل العرب ميں لكها هے كه ملك شام كے علاقه بلقاء كے قبائل ميں سے ايك قبيله كانام ”الجاموس هے ، اس قبيله كے جدا على كا اصلي نام احمد هے ، انهوں نے جولان سے بلقاء هجرت كي ، چونكه و ”بقر الجوا ميں بهينسوں كے بهت بڑے ريوڑ كے مالك تهے ، اس لئے ان كانام هي جاموس پڑ گيا اور ان كي ذريت كو جواميس كے نام سے ياد كيا گيا ، ان كے مكانات طبر بور كے علاقه ميں آج بهي موجود هيں ۔ ديكهئے معجم قبائل العرب القديمه والحديث 1 / 220 ] ، قربانی کی اور دیگر بہت سے کاموں میں استعمال کیا مثلاً ، اس کا دودھہ پیا ، اس سے تثخج وغیرہ امراض کا علاج کیا تحفے دئے ، اس کی طاقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے در دندوں کو بھگانے کے لئے راستوں اور جنگلات میں بڑی تعداد میں چھوڑ اوغیر ہ ذیل میں اسلامی تاریخ کے چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں :
(1) علی رضی اللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا :
الجاموس تجزي عن سبعة فى الأضحية [ الفردوس بماثور الخطاب للد ليلي 2/ 124 نمبر 2650 ، اس روايت كو صاحب المرعاة شيخ الحديث رحمه الله نے بهي دوران كلام نقل فرمايا هے ، مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 81/5 ۔ معروف داعي و مصنف شيخ محمد منير قمر حفظه الله اس حديث پر تعليق لكهتے هيں : يه حديث على بن ابي طالب رضى الله عنه سے مروي هے اور اسے شير و يه بن شهر دار يليمي نے” الفردوس“ 2272 ميں ذكر كيا هے ۔ دليمي نے اس كتاب ميں احاديث كو بلا اسناد ذكر كيا تها ، بعد ميں ان كے بيٹے شهر دار بن شيرويه نے مسند الفردوس ميں اس كي بيشتر احاديث كو بالاسناد روايت كيا اور اس ميں كچه احاديث كا اضافه بهي كيا مگر اس كا تقريباً حصه مفقود هے اس لئے اس حديث كي سند كے بارے ميں كچه نهيں كها جا سكتا مگر اس كے ضعيف هونے كے ليے يهي كافي هے كه اس كو ذكر كرنے ميں دليمي منفرد ميں واضح رهے كه ”الفردوس“ كي سب روايات ضعيف اور غير معتبر نهيں هيں بلكه اس ميں صحيح احاديث بهي هيں“ ۔ ديكهئے : سوئے حرم بس 404 ۔ ]
بھینس کی قربانی سات لوگوں کی طرف سے کافی ہو گی ۔

(2) پچھلے صفحات میں تابعین تبع تابعین اور ان کے بعد کے ائمہ جسن بصری خلیفہ عمر بن عبد العزیز ، ابوعبید قاسم بن سلام ، اسی طرح امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل اور سفیان بن سعید ثوری رحمہ اللہ کا تذکر ہ آچکا ہے کہ انہوں نے بھینسوں میں گائے کے نصاب کے مطابق زکاۃ واجب قرار دیا ہے ۔

(3) ابونعمان انطاکی فرماتے ہیں کہ انطاکیہ اور مصیصمہ کا درمیانی راستہ شیر و غیرہ درندوں کی آماجگا ، تھا ۔ لوگوں کا وہاں سے گزرنا محال تھا ، چنانچہ ولید بن عبد الملک نے خلیفہ معتصم باللہ سے اس کی شکایت کی تو انہوں نے چار ہزار بھینس اور بھینسے اس طرف بھیجے جس سے اللہ نے یہ مسئلہ حل کر دیا اور وہاں سے درندے ختم ہو گئے ۔
نیز سندھ میں حجاج بن یوسف کے گورنر محمد بن قاسم رحمہ اللہ نے سندھ سے کئی ہزار بھینسیں بھیجیں ، جن میں سے چار ہزار بھی ہیں حجاج بن یوسف نے ولید کی خدمت میں بھیجا اور بقیہ بھینسوں کو کسکر کے جنگلات میں چھوڑ دیا ۔ نیز یزید بن عبد الملک نے بھی چار ہزار بھنیسیں مصیصہ کے لئے بھیجیں ، چنانچہ مجموعی طور پر مصیصہ میں آٹھ ہزار بھینسیں روانہ کی گئیں ۔ [ فتوح البلدان ص : 168 ، و بغية الطلب فى تاريخ ملب 1/ 159 والخراج وصناعة الكتابة ، از قدامه بن جعفر بغدا دي ص : 309 ]

(4) اموی خلافت کے زوال و انحطاط کے اسباب کے ضمن میں ایک سبب بیان کرتے ہوئے علی محمد محمد صلابی لکھتے ہیں :
اس دور میں حیوانات اور مویشیوں کی پیداوار بہت کم ہوگئی تھی ، بالخصوص کاشت کے جانور ،
جس کے سبب والی عراق کو حالات سے نمٹنے کے لئے مجبور اً یہ حکم صادر کرنا پڑا کہ گائیں ذبح نہ کی جائیں ، ساتھ ہی والی عراق نے اقلیم سندھ سے بڑی تعداد میں بھی نہیں منگوایا تاکہ کاشت کے جانوروں کی قلت پر قابوپایا جا سکے ۔
اسی طرح خلیفہ عبد الملک بن مروان کے دور میں کچھ ایسی کارروائیاں بھی کی گئیں جن سے علاقہ میں کاشتکاری کی مشکلات میں آسانی پیدا ہو سکے مثلاًً حجاج بن یوسف نے ملک سندھ سے کاشتکاروں کی ایک تعداد کو ان کے گھر بار اور بھینوں سمیت اپنے ملک منتقل کر لیا اور انہیں ایک خبر اور ویران سرزمین میں بسا دیا ، جسے انہوں نے آباد کر دیا ۔ [ ديكهئے : الدولة الأموية عوامل الازدبارو تداعيات الانبياء 1 / 689 ]
(5) عبداللہ بن ابوبکر ہ رحمہ اللہ [عبيد الله بن ابي بكر و كي پيدائش سنه 14ھ ميں اور وفات سنه 97ھ ميں هوئي ، ديكهئے : سير اعلام النبلاط الرسالة 4/ 138 نمبر 44 ۔ اور واضح رهے بعض روايتوں ميں يه واقعه عبيد الله كے بهائي عبدالرحمن بن ابوبكر ه كے حواله سے منقول هے ، جس ميں صراحت هے كه امام محمد بن سيرين رحمه الله نے ان كي خدمت ميں آكر عرض كيا كه ميرے قبيله كے ايك شخص كو فلاں بيماري لگ گئي هے ۔ عبد الرحمن كي پيدائش سنه 14 ھ ميں اور وفات سنه 99ھ ميں هوئي ۔ ديكهئے : سير أعلام النبلا طبع الرسالة 4 / 411 نمبر 161 ، جبكه محمد بن سيرين رحمه الله كي پيدائش سنه 20 ه ميں اور وفات سنه 110ه ميں هوئي ، ديكهئے : سير أعلام الشبلاط الرسالة 4 / 606 نمبر 246 ]
نہایت سنی اور فیاض شخص تھے ، اپنے گھر کے چاروں سمت دائیں بائیں اور آگے پیچھے چالیس چالیس پڑوسیوں پر پورے سال بہت خرچ کرتے تھے ، اور عید کی مناسبتوں پر تحفے تحائف ، کپڑے اور قربانی کے جانور دیتے ، غریبوں کی شادیاں کراتے مہریں تک ادا کرتے ، اور سال بھر کے علاوہ ہر عید کے موقع پر سوغلام آزاد کرتے تھے ۔

ابومحروم کے واسطے سے اصمعی بیان کرتے ہیں کہ عتیک کے ایک خوبر و شخص کو تثنج کی بیماری لگ گئی تو ان کی قوم کے کچھ لوگ عبید اللہ بن ابوبکر و رحمہ اللہ کے پاس آئے اور ان سے کہا: ہمارے ایک ساتھی کو تثنج کی بیماری ہوگئی ہے ، اور کسی حکیم نے اس کے لئے انہیں کچھ دن مسلسل بھینس کا دودھ پینے کا علاج تجویز کیا ہے ، اور میں معلوم ہوا کہ آپ کے پاس بھینسیں ہیں ، تو انہوں نے اپنے وکیل لطف سے پوچھا کہ اپنے پاس کتنی بھینسیں ہیں ؟ کہا: تین سو انہوں نے کہا: یہ ساری بھینسیں انہیں دید و ! انہوں نے عرض کیا : ہم اتنی بھی نہیں کیا کریں گے ہمیں تو بس ایک بھینس بطور عاریہ چاہئے جسے ہم علاج کے بعد واپس لوٹا دیں گے ، انہوں نے کہا: ہم بھینسیں ادھار نہیں دیتے ، بلکہ یہ ساری بھینسیں تمہارے مریض کے لئے ہدیہ ہیں ۔ [ تاريخ ومشق لابن عساكر 13/36 , و 38/ 138 ومختصر تاريخ دمشق 62/15 ، و 8/16 ، وسير أعلام النبلاء لعد بي بطبع الرسالة 4 / 138 ، و319 ، و 411 ، و تاريخ الاسلام تحقيق تدمرى 410/6 ، وأنساب الأشرات للبلاذري 1/ 499 ]

(6) ملک شام میں بھینسوں کی آمد :
مشہور مورخ حسین بن علی مسعودی ملک شام میں بھینسوں کی آمد کے بارے میں دو تاریخیں بتائی ہیں :
1۔ سب سے پہلے یزید بن عبد الملک کے دور خلافت (101-105 ھ ) میں بھینسیں ملک شام اور شام کے ساحلوں پر آئیں اور یہ بھنیسیں دراصل اہل مہلب کی تھیں جو بصر ، بطائح اور رطفوف وغیرہ میں رہا کرتی تھیں لیکن جب یزید نے ابن مہلب کو قتل کر دیا تو بہت ساری بھینسوں کو اپنے علاقوں میں منتقل کر لیا ۔
(2) دوسری رائے یہ ہے کہ بھینسیں سب سے پہلے معتصم کے دور خلافت (218 – 227 ) میں ملک شام میں آئیں ، جب معتصم نے زط پر قابض ہو کر انہیں وہاں سے جلا وطن کر دیا اور خراسان اور عین زربہ کے راستے سے نائین اور جلولاء وغیرہ میں بہا دیا ، اس وقت سے بھینسیں ملک شام میں داخل ہوئیں ، اس سے پہلے وہاں بھینسیں معروف نہ تھیں ۔ [ التنبيه والاشراف از حسين مسعودي 307/1 نيز ديكهئے : كناشه النوادر ص : 66 ]

(7) ملک یمن میں بھینسوں کی قدیم آمد :
استاذحسن عبد اللہ قرشی اپنے مقالے میں لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے اسلام سے پہلے عرب ممالک پر یمامہ وغیرہ کے علاقوں میں شاداب زمین اور کشادہ چراگاہوں کا انعام فرمایا تھا ، چنانچہ جرمنی سیاح شونیفرت نے ملاحظہ کیا ہے کہ گندم ، جو ، بھینس ، بکریاں مینڈھے اور ان کے علاوہ دیگر مویشی یمن اور قدیم عرب علاقوں میں اپنی حالت میں اس وقت پائے گئے ، جب مصر اور عراق میں مانوس نہ تھے ۔ [مجلة مجمع اللغة العربية بالقاهرة ، شماره 96 ، مقاله : ”التاثير المتبادل بين الثقافة العربية والأجنبية ، از استاذ حسن عبد الله القرشی ]

(8) بشر یا بشیر طبری یا طبرانی کے پاس تقریباً چار سو بھینس تھیں ، رومیوں نے ان کی چارسون بھینسوں پر شبخون مارا اور ہانک لے گئے ، ان کے غلاموں نے انہیں اس کی اطلاع دی ، اور کہا بھینسیں چلی گئیں تو انہوں نے کہا جاؤ تم سب بھی اللہ کی رضا کے لئے آزاد ہو ، ان غلاموں کی قیمت ایک ہزار دینار تھی ! یہ سن کر ان کے بیٹے نے کہا: ابا ! آپ نے تو ہمیں فقیر اور قلاش بنا دیا ! انہوں نے کہا: بیٹے چپ رہو ، اللہ نے مجھے آزمایا تو میں نے چاہا کہ اللہ کی راہ میں مزید قربانی دوں اور اس کا شکر بجا لاؤں ۔ [ شعب الايمان 12/ 407 نمبر 9649 حلية الأولياء 10/ 130 ، دالوافي بالوفيات 10/ 99 ۔ والرضا عن الله بقضائه لابن أبى الدنيا ص : 19/55 ، وصفته الصفوة 2/ 762/388 ، وربيع الأبرار ونصوص الأخيار 3/ 65/103 ، والتذكرة الحمدونية 4/ 796/323 ، وحياة السلف بين القول والعمل ص : 281 ، وأصول الوصول الي الله تعالىٰ ص : 188 ]

(9) سنہ 270 ھ میں احمد بن طولون رحمہ اللہ کی وفات ہوئی ، ہوا یہ کہ وہ مصر و شام سے طرطوس تشریف لے گئے ، اور جب واپسی میں انطاکیہ پہنچے تو انہیں بھینس کا دودھ پیش کیا گیا ، انہوں نے زیادہ مقدار میں دودھ پی لیا ، جس سے ان کا پیٹ پھول گیا اور سخت بد ہضمی ہوگئی ، جس سے ان کی موت واقع ہوگئی ۔ آپ کی امارت تقریباً چھبیس سال رہی اور وفات کے بعد آپ کے صاجبزادے خمارویہ نے منصب امارت سنبھالا ۔ [ المختصر فى آخبار البشر 2/ 53 نيز ديكهئے : تاريخ ابن الوردي 231/1]

(10) استاذ لبیب سید اسلامی نظام میں در آمد و برآمد کے عنوان سے اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں :
اسلامی نظام میں مویشیوں کی درآمد و برآمد کا سلسلہ قدیم ہے ، چنانچہ مصر قربانی کرنے کے لئے بہت سارے مویشی برقہ سے درآمد کرتا تھا ، جیسا کہ یہ سلسلہ آج بھی ہے ۔ اور عراق گھوڑے عرب ممالک بالخصوص سر زمین حسا سے درآمد کرتا تھا ، اسی طرح چوتھی صدی ہجری میں بھینس ہندوستان سے درآمد کرتا تھا ۔ [ مجلة الرسالة شماره 757 ص 76 / تاريخ : 05 – 01 – 1948 مقاله : ”الاستيراد والتصديرفى النظم الاسلامية“ ، از استاذ لبيب السعيد ]

(11) عمر بن احمد ابن العدیم رحمہ اللہ نے حلب میں سعد الدولة حمدانی کے دور حکومت (356 تا 381ھ) کے بارے میں لکھا ہے : اگر کوئی رومی اسلامی حکومت میں داخل ہو جاتا تھا تو اسے اپنی ضرورت سے منع نہیں کیا جاسکتا تھا ، اور اگر اسلامی ملک سے کوئی بھینس ملک روم میں چلی جاتی تھی تو اسے ضبط کر لیا جاتا تھا ۔ [ زہدة الحلب فى تاريخ حلب ص : 97]

(12) عمر بن احمد ابن العدیم رحمہ اللہ ہی نے پانچویں صدی ہجری میں لکھا ہے کہ طلب میں ایک اتنی بڑی وبار پھیلی کہ سنہ 457ھ کے صرف ماہ رجب میں چار ہزار لوگوں کی موت ہوگئی ، جب کہ دیگر مہینوں کے اموات اس کے علاوہ ہیں ۔
اور اسی سال ترکیوں کا ایک بہت بڑا جتھا نکلا ، ان میں سے کچھ تو دلوک میں رک گئے اور اور ایک ہزار کے قریب لوگ آگے بڑھے ، اور انہوں نے شہر انطاکیہ کو پورے طور پر لوٹ لیا ، اور تقریباًً چالیس ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ بھینسیں لے کر چلے گئے ، یہاں تک کہ بھینس ایک دینار میں بک رہی تھی ، اور زیادہ سے زیادہ دو تین دینار میں ۔ اور گائیں ، بکریاں ، گدھے اور لونڈیاں اتنی زیادہ تھیں کہ شمار نہ ہو سکی ، لوٹڈی دو دینار میں فروخت ہو رہی تھی اور بچے تو گھوڑے کی نعل کی بندھن کے عوض بک رہے تھے ۔ [ زہدة الحلب فى تاريخ حلب ص : 170 ]

(13) شاہ افضل کی وفات سنہ 515ھ میں ہوئی ، انہوں نے اپنے موت کے بعد بڑی دولت چھوڑی ، جس میں کروڑوں دینار و درہم کئی ہزار ریشمی جوڑے ، اور پانچ سو صندوق بھر ذاتی کپڑے تھے ، غلام ، گھوڑے ، خچر اور خوشبو وغیرہ اتنی تھی کہ اس کا علم اللہ ہی کو ہے ، اور بھینسیں ، گائیں اور بکریاں اتنی زیادہ مقدار میں تھیں کہ بتانے میں شرم آئے ، ان جانوروں سے دودھہ کی آمدنی صرف افضل کی وفات کے سال تیس ہزار دینا تھی ۔ [ تاريخ الاسلام تحقيق تدمري ۔ 385/35 – 387 نمبر 92 ، ووفيات الاعيان 2 / 451 ]

(14) علامہ زین الدین ابن شاہین حنفی ظاہری سنہ 890ھ کے حوادث میں لکھتے ہیں :
ذی القعدہ سنہ 890ھ میں گائے بھینس اور اونٹوں کی بہت بڑی تعداد موت کے گھاٹ اترگئی ایسا محسوس ہوا کہ گویا ان میں کوئی وباء داخل ہوگئی ہے ، بالخصوص بھینسیں ۔ [ نيل الأمل فى ذيل الدول 7/ 431 ]

(15) علامہ عبد الرحمن جبرقی رحمہ اللہ نے (سنہ 1188ھ ) میں ایک نیک خاتون کی سیرت کے ضمن میں لکھا ہے کہ وہ رمضان کی ہر شب دو پیالہ ثرید فقہاء ، ایتام اور فقراء ومساکین کو بھیجا کرتی ہیں اور عید الاضحی میں انہیں تین بھینسیں دیتی تھیں ۔ [تاريخ عجائب الآثار فى التراجم والأخبار 1 / 612 ]
اور سنہ 1225ھ میں لکھا ہے کہ حاکم وقت عید الاضحی کے دن مسجد کے مدرس اور طلبہ کے لئے بھینسیں اور مینڈھے خریدتا تھا ، اور انہیں ذبح کر کے فقراء اور ملازمین میں تقسیم کرتا تھا ۔ [ تاريخ عجائب الآثار فى التراجم والأخبار 4 / 265 ]
خلاصہ کلام اینکہ اسلام اور اسلامی مالک کی تاریخ کے کم و بیش ہر دور میں بھینسوں کا ذکر اور اس کے پالنے پوسنے اور اس سے مختلف انداز سے استفادہ کرنے کا ذکر ملتا ہے ۔ واللہ اعلم
——————

دسویں فصل :

بهينس كي قرباني سے متعلق علماء كے فتاوے :

سابقہ دلائل ، استدلالات اور تمام ترتفصیلات کی روشنی میں اہل علم نے بھینس کی قربانی کو جائز قرار دیا ہے ، اور جواز کے فتاوے صادر کئے ہیں ، اہل علم کے چند فتاوے ملاحظہ فرمائیں :
اولاً : علماء عرب کے فتاوے :
(1) امام احمد و اسحاق بن راہویہ رحمها اللہ کا فتوی :
امام اسحاق بن منصور الکوسج نے امام احمد سے سوال کیا :
الجواميس تجزئ عن سبعة؟ قال : لا أعرف خلاف هذا [ مسائل الامام أحمد و اسحاق بن راهويه 8 /4027 نيز ديكهئے : 8 / 4045 ]
سوال : کیا بھینسوں کی قربانی میں سات لوگ شریک ہو سکتے ہیں؟
جواب : ( امام احمد نے فرمایا ) میں اس کے خلاف نہیں مانتا ۔
اسی طرح سوال کرتے ہیں :
قال سفيان . . . والجواميس تجزى عن سبعة؟ قال أحمد كما قال قال إسحاق : كما قال [مسائل الامام أحمد و اسحاق بن راهويه 8 / 4045 مسئلہ نمبر : 2882 نيز ديكهئے : مسئلہ نمبر : 2865 ]
سفیان ثوری کہتے ہیں : بھینسیں سات لوگوں کی طرف سے کافی ہیں؟ ( کیا یہ صحیح ہے ؟) امام احمد نے کہا جو انہوں نے کہا وہی ہے ۔ اور امام اسحاق نے کہا جیسے انہوں نے کہا ویسے ہی ہے ۔

(2) امام ابو زکریا نووی رحمہ اللہ کا فتوی :
امام نووی رحمہ اللہ بھینس کی قربانی کے بارے میں فرماتے ہیں :
شرط المجزي فى الأضحية أن يكون من الأنعام وهى الإبل والبقر والغنم سواء فى ذلك جميع أنواع الإبل من البحاني والعراب وجميع أنواع البقر من الجواميس والعراب والدربانية . . . [المجموع شرح المهذب 393/8 ]
قربانی ادا ہونے کی شرط یہ ہے کہ جانور بہیمۃ الانعام میں سے ہو یعنی : اونٹ ، گائے اور بکرا ، اور اس میں بخاتی اور عراب وغیرہ اونٹ کی تمام قسمیں برابر ہیں ، اور بھینس ، دربانیہ اور عراب وغیرہ گائے کی تمام قسمیں برابر ہیں ۔

(3) علامہ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کا فتوی :
س : سئل فضيلة الشيخ رحمه الله : يختلف الجاموس عن البقر فى كثير من الصفات كاختلاف الماعز عن الضأن ، وقد فصل الضأن ، وقد فصل الله فى سورة الأنعام بين الضأن والماعز ، ولم يفصل بين الجاموس والبقر ، فهل يدخل فى ضمن الأزواج الثمانية فيجوز الأضحية بها أم لا يجوز؟ فأجاب بقوله : الجاموس نوع من البقر ، والله عز وجل ذكر فى القرآن المعروف عند العرب الذين يحرمون ما يريدون ويبيحون ما يريدون ، والجاموس ليس معروفا عند العرب [ مجموع فتاوي در سائل العثيمين 34/25]
سوال : فضیلتہ الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا ۔ بھینس بہت سے اوصاف میں گائے سے مختلف ہے ، جیسے بکرا مینڈھے سے مختلف ہوتا ہے ، جبکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام میں مینڈھے اور بکرے کو تو الگ الگ بیان کیا ہے لیکن بھینس اور گائے کو الگ نہیں کیا ہے تو کیا بھینس نر و مادہ آٹھ قسموں کے ضمن میں داخل ہوئی اور اس کی قربانی بھی جائز ہو گی یا نہیں؟
جواب : آپ نے فرمایا : بھینس گائے ہی کی ایک قسم ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں صرف ان مویشیوں کو بیان کیا ہے جو عربوں کے یہاں معروف تھے جنہیں وہ اپنی چاہت کے مطابق حرام ٹھہراتے تھے اور اپنی خواہش کے مطابق مباح اور جائز کر لیتے تھے ، اور بھینس اہل عرب کے یہاں معروف تھی ۔

(4) شیخ عبد العزیز محمد السلمان رحمہ اللہ کا فتوی :
س : تكلم بوضوح عن أحكام ما يلي : . . . الجواميس فى الهدي والأضحية ، اذكر ما تستحضره من دليل أو تعليل
ج : والجواميس فى الهدي والأضحية كالبقرة فى الإجزاء والسن وإجزاء الواحدة عن سبعة؛ لأنها نوع منها ، والله أعلم [الأسئلة والأجوبة الفقہیۃ 8/3-9 ]
سوال : حسب ذیل احکام کے سلسلہ میں وضاحت سے بتلائیں : ۔ ۔ ۔ ھدی اور قربانی میں بھینس کا کیا حکم ہے ؟ جو دلیل یا تعلیل مستحضر ہو وہ بھی ذکر کریں ۔
جواب : ہدی اور قربانی میں بھینس کا حکم کفایت کرنے ، عمر اور ایک میں سات کے شریک ہونے وغیرہ میں گائے کی طرح ہے ؛ کیونکہ وہ گائے ہی کی ایک قسم ہے ، واللہ اعلم ۔

(5) محدث العصر علامہ عبد الحسن العباد حفظہ اللہ کا فتوی :
س : ما حكم الأضحية بالجاموس؟
ج : الجاموس من البقر [شرح سنن الترمذي ]
سوال : بھینس کی قربانی کا کیا حکم ہے ؟
جواب : بھینس بھی گائے ہی میں سے ہے ۔
نیز فرماتے ہیں :
والأضاحى خاصة ببهيمة الأنعام : الإبل والبقر والغنم والجاموس يعد من فصيلة البقر [شرح سنن أبى داود اللعباد درس نمبر : 329 ، در شرح حديث نمبر : 2793 باب ما يستحب من الضحايا ]
قربانی بہیمۃ الانعام : یعنی اونٹ ، گائے اور بکری کے ساتھ خاص ہے ، اور بھینس گائے کی قسم شمار ہوتی ہے ۔

(6) فضیلۃ الشیخ مصطفی العدوی کا فتوی :
س : من أى شيء تكون الأضحية ؟
ج : الشيخ مصطفى العدوي : تكون الأضحية من الأنعام الثمانية ، والأنعام الثمانية هي التى ذكرت فى قول الله تعالى ﴿وأنزل لكم من الأنعام ثمانية أزواج﴾ [الزمر : 6] وفي اية أخري يقول سبحانه جل فى علاه ﴿ثمانية أزواج من الضأن اثنين ومن المعز اثنين ومن الإبل اثنين ومن البقر اثنين﴾ [الأنعام : 144 143] ، فالأضحية لا تكون إلا فى الأنعام الثمانية وهذا رأي الجمهور وهما : الجمل ، الناقة ، الثور ، البقرة ، الجدي العنزة الكبش والنعجة ، والجاموس يلحق بالبقر ، فما الجاموس إلا بقر أسود ، فهذه الأقسام التى تجوز منها الأضاحي
سوال : قربانی کس چیز کی ہوگی ؟
جواب : شیخ مصطفی عدوی
قربانی آٹھ ازواج کی ہوگی ، اور ان کا تذکر ہ فرمان باری : ( اور تمہارے لئے چوپایوں میں سے ( آٹھ نر و مادہ ) اتارے ) اور ( آٹھ نر و مادہ یعنی بھیڑ میں دو قسم اور بکری میں دو قسم) اور (اور اونٹ میں دو قسم اور گائے میں دو قسم) میں کر دیا گیا ہے ۔ لہٰذا قربانی صرف آٹھ جوڑوں کی ہو سکتی ہے ، اور یہی جمہور کی رائے ہے ، اور وہ ہیں : اونٹ اونٹنی بیل گائے ، بکرا بکری ، مینڈھا مینڈھی ، اور بھینس گائے سے ملحق ہے ، کیونکہ بھینس کالی گائے ہی ہے ، لہٰذا ان قسموں سے قربانی جائز ہے ۔

(7) مدرس مسجد نبوی علامہ محمد الشنقیطی کا فتوی :
قال : . . . والإبل بنوعيها : العراب ، والبختية ، والبقر بنوعيه : البقر ، والجواميس والغنم بنوعيه : الضأن ، والمعز ، فجعل الله فى الإبل زوجين ونوعين . . والبقر يفضل على الجاموس ؛ لأن النبى ضحى عن نسائه بالبقر ، وعلى هذا فإن البقر أفضل من التضحية بالجاموس ؛ والجاموس يدخل فى هذا بنوعيه
علامہ محمد مختار الشنقیطی قربانی کے احکام بتاتے ہوئے فرماتے ہیں :
اونٹ کی دونوں قسمیں جائز ہیں : عراب اور بختی ، اور گائے کی دونوں قسمیں جائز ہیں ، گائیں اور بھینسیں ، اور بکرے کی دونوں قسمیں جائز ہیں ، مینڈھا اور بکری ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اونٹ میں دو جوڑے اور دو قسمیں بنائی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اور گائے بھینس سے افضل ہے ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی تھی ۔ لہذا بھینس سے گائے کی قربانی افضل ہے ۔ اور بھینس اپنی دونوں قسموں ( نرو ماندہ) سے اس میں داخل ہے ۔

(8) شیخ حامد بن عبد الله العلی کا فتوی :
س : فضيلة الشيخ إشرح لنا أحكام الأضحية؟
ج : الحمد لله والصلاة والسلام على نبينا محمد وعلى اله وصحبه و بعد : الأضحية سنة مؤكدة . . . . وأفضلها الإبل وتجزىء عن سبعة ، ولا يقل عمرها عن خمس سنين . . ثم البقر أو الجاموس وتجزىء عن سبعة ولا يقل عمرها عن سنتين . ثم الغنم ولا تجزىء إلا عن واحد
سوال : فضیلۃ الشیخ ہمارے لئے قربانی کے احکام کی وضاحت فرما دیں؟
جواب : الحمد لله والصلاة والسلام على نبينا محمد وعلى آله وصحبه و بعد : قربانی سنت موکدہ ہے ۔ سب سے افضل قربانی اونٹ کی ہے ایک اونٹ سات لوگوں کی طرف سے کافی ہوتا ہے ، اس کی عمر پانچ سال سے کم نہیں ہونی چاہئے ، پھر ترتیب کے اعتبار سے گائے یا بھینس ہے ، یہ بھی سات لوگوں کی طرف سے کافی ہے ، اس کی عمر دو سال سے کم نہیں ہونا چاہئے ، اور پھر بکری ہے ، جو صرف ایک کی طرف سے کافی ہوتی ہے ۔

(9) فضیلۃ الشیخ الدکتور احمد الحجی الکردی کا فتوی :
شيخنا الفاضل د . أحمد الكردي
السلام عليكم ورحمة الله و بركاته
هل تجوز الأضحية بولد الجاموس الذى تجاوز عمره سنة ووزنه مائتين كيلو جرام على أن يكون عدد من يشترك فى الأضحية اثنان فقط؟
إجابة المفتي أ . د . أحمد الحجي الكردي :
بسم الله الرحمن الرحيم ، الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا محمد خاتم الأنبياء والمرسلين ، وعلى اله وأصحابه أجمعين ، والتابعين ومن تبع
هداهم بإحسان إلى يوم الدين ، و بعد : فالجاموس فى الأحكام الشرعية كالبقر ، ويشترط للتضحية بالبقر أن يكون قد أتم السنتين واسأل الله لكم التوفيق ، والله تعالى أعلم

فضيلة الشيخ الدكتور احمد الحجي الكردی :
السلام عليكم ورحمة الله و بركاته
کیا بھینس کے بچے (کٹے) کی قربانی جائز ہے جس کی عمر ایک سال اور وزن دو سو کلو گرام سے زیادہ ہے اس طور پر کہ قربانی میں صرف دو لوگ شریک ہوں گے ؟
جواب :
بسم الله الرحمن الرحیم
الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا محمد خاتم الأنبياء والمرسلين ، وعلى اله وأصحابه أجمعين ، والتابعين ومن تبع هداهم بإحسان إلى يوم الدين ، و بعد :
بھینس شرعی احکام میں گائے کی طرح ہے ، اور گائے کی قربانی کے لئے شرط ہے کہ اس کے دو سال مکمل ہو چکے ہوں ۔ اور میں آپ کے لئے توفیق کا خواستگار ہوں ۔

(10) فقہ انسائیکلو پیڈیا کویت کا فتوی :
قربانی کے جانور کے بارے میں فقہ انسائیکلو پیڈیا کویت میں ہے :
الشرط الأول : وهو متفق عليه بين المذاهب : أن تكون من الأنعام ، وهى الإبل عرابا كانت أو بخاتي ، والبقرة الأهلية ومنها الحواميس [ الموسوعة الفقہیۃ الكويتية 81/5 ]
پہلی شرط : اور یہ تمام مذاہب میں متفق علیہ ہے : کہ قربانی کا جانور انعام میں سے ہونا چاہئے یعنی اونٹ خواہ عربی ہو یا بخاتی اور گھریلو گائیں اور اسی میں بھینس بھی ہے ۔

(11) شیخ محمد بن صالح المنجد کا فتوی :
س : حكم التضحية بمقطوعة الذيل أو الإلية ، وما الحكم : إذا لم يجد أضحية سليمة ؟
ج : قال الشيخ ابن عثيمين : فالضأن إذا قطعت إليته لا يجزئ ، والمعز إذا قطع ذنبه يجزئ ”انتهى ، الشرح الممتع“ [435/7 ]
وقد سبق نقل فتوى اللجنة الدائمة فى عدم جواز التضحية بمقطوع الإلية .
ثانيا : الواجب عليك الاجتهاد فى البحث عن أضحية غير مقطوعة الإلية ، ولا يجزؤك التضحية بشاة مقطوعة الإلية ما دام بالإمكان الحصول على شاة سليمة من كل العيو ب .
فإن لم تتمكن من الحصول على شاة سليمة ، فالمشروع هنا الانتقال إلى نوع اخر من بهيمة الأنعام التى تجزئ فى الأضاحي ، فتتركوا هذه الشياه المعيبة ، وتضحون بالماعز ، إن وجدتموه سليما من العيو ب أو تضحون بالبقر ومثله الجاموس ، أو الإبل فيشترك كل سبعة منكم فى بقرة أو ناقة
[ موقع اسلام سوال وجواب از شيخ محمد صالح المنجد]
سوال : دم یا پٹھا کٹے ہوئے جانور کی قربانی کا حکم ، اور اگر صحیح سلامت قربانی میسر نہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں :
جس دنبے کی چکی کاٹ دی جائے تو اس کی قربانی نہیں ہوگی لیکن جس بھیڑ بکری کی دم کاٹ دی جائے تو اس کی قربانی ہو جائے گی ۔ ”الشرح الممتع“ [435/7 ]
اور سوال نمبر : (37039) میں دائمی فتوی کمیٹی کا فتوی گزر چکا ہے جس میں پٹھا کٹے ہوئے جانور کی قربانی درست نہ ہونے کا ذکر ہے ۔
دوم : آپ کے لیے ایسی قربانی تلاش کرنا واجب ہے جس کی چکی کٹی ہوئی نہ ہو ، چنانچہ جب تک ایسے جانور کا حصول ممکن ہے جو ہر قسم کے عیوب سے پاک ہو اس وقت تک عیب والا جانور قربان کرنا قربانی کے لیے کافی نہیں ہوگا ۔
اور اگر آپ کو کوئی صحیح سالم بکری بھی میسر نہ آئے تو آپ قربانی کے لائق دیگر قسم کے جانوروں کی قربانی کریں ، اس لئے عیب زدہ بھیڑ کو چھوڑ کر صحیح سالم بکریوں کی قربانی کریں ، یا گائے کی قربانی کریں ، اور اس کے حکم میں بھینس بھی ہے ، یا اونٹ کی قربانی کرلیں ، چنانچہ ایک گائے یا اونٹ میں قربانی کے لیے سات افراد جمع ہو سکتے ہیں ۔ واللہ اعلم

علماء حدیث برصغیر کے فتاوے:

(1) رئیس المناظرین علامہ ثناء اللہ امر تسری رحمہ اللہ کا فتوی:
سوال: بھینس کی حلت کی قرآن وحدیث سے کیا دلیل ہے؟ اور اس کی قربانی بھی ہو سکتی ہے یا نہیں؟ قربانی جائز ہو تو استدلال کیا ہے ، حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اجازت فرمائی یا عمل صحابہ ہے؟ (محمود علی خریدار اہل حدیث )
جواب: جہاں حرام چیزوں کی فہرست دی ہے وہاں یہ الفاظ مرقوم ہیں:
﴿قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا﴾ [الانعام: 145]
(آپ کہہ دیجئے کہ جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو) ان چیزوں کے سوا جس چیز کی حرمت ثابت نہ ہو وہ حلال ہے ۔ بھینس ان میں نہیں ، اس کے علاوہ عرب کے لوگ ”بھینس“ کو ”بقر“ (گائے) میں شامل سمجھتے ہیں ۔
تشریح: حجاز میں بھینس کا وجود ہی نہ تھا پس اس کی قربانی نہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے نہ تعامل صحابہ ہے ۔ ہاں اگر اس کو جنس ”بقر“ سے مانا جائے جیسا کہ حنفیہ کا قیاس ہے (کمافی الھداية) یا عموم بہیمتہ الانعام پر نظر ڈالی جائے تو حکم جواز قربانی کے لئے یہ علت کافی ہے ۔ (ملخص) واللہ اعلم [فتاوي ثنائيه 810/1-809]

(2) شیخ الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کا فتوی:
سوال: احکام قربانی کے کیا کیا ہیں تفصیلا بیان فرما دیں؟
جواب: اس سوال کے تفصیلی جواب کے ضمن میں قربانی کے جانور کی عمر پر گفتگو کرتے ہوئے حضرت میاں صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اور سن بکری کا ایک سال یعنی ایک سال پورا اور دوسرا شروع ، اور گائے اور بھینس کا دو سال یعنی دو سال پورے اور تیسرا شروع ، اور اونٹ کا پانچ سال اور چھٹا شروع ہونا چاہئے ، اور بھیڑ ایک سال سے کم کی بھی جائز ہے ، بشرط اس کے کہ خوب موٹی اور تازی ہو ، کہ سال بھر کی معلوم ہوتی ہو ۔ اور پھر آگے ”مسنۃ“ کی تشریح کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں: اور ”مسنۃ“ ہر جانور میں سے ”ثنی“ کو کہتے ہیں ، اور ثنی کہتے ہیں بکری میں سے جو ایک سال کا ہو ، اور دوسرا شروع ، اور گائے بھینس میں سے جو دو سال کی ہو ، تیسر ا شروع ، اور اونٹ کا جو پانچ سال کا ہو ، اور چھٹا شروع ہو ۔ [بالتفصيل ، فتاوي نذيريه شيخ الكل حضرت مولانا سيد محمد نذير حسين محدث دهلوي 3 / 255-258 ، ناشر اهل حديث اكاومي كشميري بازار لا هور تطبع دوم 1971ء]

(3) شیخ الحدیث عبید اللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ کا فتوی:
الف: شیخ الحدیث عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ احتیاطا اونٹ ، گائے اور بکری کی قربانی پر اکتفا کرنے کی ترغیب کے ساتھ بھینس کی قربانی کے جواز اور کرنے والوں پر عدم ملامت کی صراحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
والأحوط عندي أن يقتصر الرجل فى الأضحية على ما ثبت بالسنة الصحيحة عملا وقولا وتقريرا ، ولا يلتفت إلى ما لم ينقل عن النبى صلی اللہ علیہ وسلم ولا الصحابة والتابعين رضي الله عنهم ، ومن اطمأن قلبه بما ذكره القائلون باستنان التضحية بالجاموس ذهب مذهبهم ولا لوم عليه فى ذلك ، هذا ما عندي والله أعلم [مرعاة المفاتيح شرح مشکاۃا المصابیح 82/5]
میرے نزدیک زیادہ قابل احتیاط بات یہ ہے کہ آدمی قربانی میں انہی جانوروں پر اکتفا کرے جو قولی عملی اور تقریری طور پر صحیح سنت سے ثابت ہیں ، ان چیزوں کی طرف متوجہ نہ ہو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے یہ صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم سے ، البتہ جس کا دل بھینس کی قربانی کے جواز کے قائلین کے ذکر کردہ دلائل سے مطمئن ہو ، وہ ان کا موقف اپنالے ، اور اس بارے میں اس پر کوئی ملامت نہیں ، یہی میری رائے ہے ، واللہ اعلم ۔

شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا بصراحت جواز کا فتوی:
سوال: عید الاضحی کے موقعہ پر ایک گاؤ میش (یعنی بھینس ) جس کے دونوں سینگ کا اوپر کا حصہ یعنی: جواو پر کا حصہ باریک ہوتا ہے کاٹا ہوا تھا یعنی: موٹاحصہ باقی رہ گیا جو دور سے دیکھنے والے کو یہ نظر آتا تھا کہ اس بھینس کے دونوں سینگ کٹے ہوئے ہیں ، کاٹی ہوئی جگہ کی چوٹیوں پر دو تین انگل اگر رکھے جاویں تو چوٹیوں کی اتنی فراخی یعنی عرض ہے ۔ عید قرباں کے روز خطیب نے خطبہ پڑھا اور کہا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس جانور کے سینگ ٹوٹے ہوئے ہوں اس کی قربانی سے منع فرمایا ہے اس لئے یہ گاؤ میش قربانی کے لائق نہیں ہے ۔ جنھوں نے گاؤ میش خریدی تھی انہوں نے کہا کہ یہ کٹے ہوئے ہیں ٹوٹے ہوئے نہیں ہیں ۔ گاؤ میش کا اصل مالک جس سے گاؤ میش خریدی تھی ان خریداروں کو کہنے لگا کہ یہ گاؤ میش تم مجھے واپس دے دو اور رقم لے لو اور کوئی قربانی کا جانور خرید لو ۔
(1) اس پر ایک مولوی صاحب نے جو کہ سند یافتہ ہیں فرمایا کہ یہ ضرورت کے لئے سینگ کاٹے گئے ہیں یہ قربانی کے لئے جائز ہے ۔
(2) جو ریوڑ والے اپنی پہچان کے لئے تھوڑا سا کان نشانی کرنے کے لئے کہ اس جانور کی پہچان ہو سکے کہ یہ میرے ریوڑ کا ہے کاٹ لیتے ہیں وہ بھی جائز ہے ، بنابریں گاؤ میش کو انہوں نے قربانی کر ڈالی ہے ۔ ملتمس ہوں کہ گاؤ میش قربانی کے لئے جائز تھی یا نہیں؟ جن لوگوں نے قربانی کر ڈالی ہے ان کو کوئی سزا ہے یا نہیں؟
(3) اگر نشانی کے لئے تھوڑا سا کان چیرا جائے یا کاٹا جائے تو وہ جانور قربانی کے لئے جائز ہے یا نہیں؟
جواب: امام ابو حنیفہ ، امام احمد ، امام شافعی ، امام مالک کے نزدیک اس گاؤ میش کی قربانی جائز تھی ، اس لئے اس کی قربانی درست ہوگئی کیونکہ اس کی سینگ آدھی سے زیادہ موجود تھی ، ان لوگوں کے نزدیک آدھی سے زیادہ کٹی یا ٹوٹی ہو (تو قربانی نہیں ہوگی) اور صورت مسؤلہ میں آدھی سے کم کٹی تھی اور آدھی سے زیادہ موجود تھی ۔ نیز امام مالک کے نزدیک اس وقت ناجائز ہے جب ٹوٹے سینگ سے خون جاری ہو ، ورنہ سینگ ٹوٹے جانور کی قربانی ان کے نزدیک مطلقا جائز ہے ۔
پس صورت مسئلہ میں اگر اس بھینس کی اندرونی سینگ بالکل صحیح سالم پوری کی پوری موجود تھی اور صرف خول کا کچھ حصہ کاٹ دیا گیا تھا تو قربانی جائز ہوگی ۔
کتبه عبید الله المباركفوري الرحماني المدرس بمدرستہ دار الحدیث الرحمانیہ بدہلی ۔ [فتاوی شيخ الحديث مباركپوري رحمه الله علامه عبيد الله رحماني مباركپوري كے علمي وفقہي فتاوي و تحريروں كا مجموعه جمع و ترتيب: فواز عبد العزيز عبيد الله مباركپوري 2 / 400-402 ، دار الابلاغ لاهور]

(4) محقق العصر مولانا عبد القادر حصاری ساہیوال کا فتویٰ:
سوال: بھینس یا بھینسا جو مشہور جانور ہے کیا اس کی قربانی شریعت سے ثابت ہے؟ کتاب و سنت کی رو شنی میں اس کی وضاحت فرمائیے ، آپ کی تحقیق مسائل سے میری تسلی ہو جاتی ہے ۔
جواب: الحمد لله رب العالمين ، أما بعد: فأقول و بالله التوفيق واضح ہو کہ بھینس بھینسا جو مشہور حیوان ہے اور پنجاب وغیرہ ملک عجم میں عام پایا جاتا ہے ۔ عہد نبوی و صحابہ میں ملک عرب خصوصاًً حجاز میں پایا نہیں گیا ۔ کتاب وسنت میں خصوصی طور پر اس کا کہیں ذکر نہیں ملتا ۔ یہ ملک عجم کی پیداوار ہے اس لیے اس کا نام معرب جاموس ہے حیوۃ الحیوان ج اص 232 میں ہے علامہ دمیری فرماتے ہیں: الجاموس واحد الجواميس ، فارسي معرب ”یعنی جاموس جوامیس صیغہ جمع کا واحد ہے“ یہ لفظ فارسی سے معرب ہے جیسے بھیڑ ، دنبہ ، بکری کی جنس سے ہیں اس طرح جاموس بقر یعنی بھینس گائے کی جنس سے ہے چنانچہ حیوۃ الحیوان کے صفحہ محولہ میں لکھا حكمه وخواصه كالبقر یعنی بھینس کا حکم مثل گائے کے ہے یعنی اس کی جنس سے ہے ۔ ھدایہ فقہ کی مشہور درسی کتاب کی جلد 2 ص 229 میں لکھا ہے: ويدخل فى البقر الجاموس لأنه من جنسه ”یعنی قربانی کے بارہ میں ، بھینس گائے کا حکم رکھتی ہے“ کیونکہ یہ اس کی جنس سے ہے ۔ امام ابو بکر ابن ابی شیبہ نے کتاب الزکوۃ میں زکوۃ کے احکام بیان فرماتے ہوئے کہا کہ ایک اثر باسنادہ یوں درج کیا ہے ۔ ابو بكر قال حدثنا معاذ بن معاذ ، عن أشعث ، عن الحسن ، أنه كان يقول: الجواميس بمنزلة البقر ”یعنی امام حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ بھینس گائے کے درجہ میں ہے“ یعنی جیسے تیس گایوں پر زکوۃ ہے ویسے ہی تیس بھینسوں پر ہے امام حسن بصری رحمہ اللہ نے بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے علم قرآن وحدیث کا حاصل کیا ہے انہوں نے بھینس کو گائے کی جنس سے ٹھہرا کر اس پر وہی حکم لگایا ہے ، امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی کتاب موطا (مع شرح مصفیٰ) کے (ص 213) میں حیوانوں کی زکوۃ کا حکم بیان فرماتے ہوئے ایک مقام پر یہ لکھا ہے: قال مالك فى العراب والبخت والبقر والجواميس نحو الخ ”یعنی امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جیسے گوسفند اور بکری سے زکوۃ لینے کی تفصیل بیان ہوئی ہے ایسے ہی عربی اونٹوں اور بختی اونٹوں اور گائیوں اور بھینسوں سے زکوۃ لینی چاہئے“ امام مالک تبع تابعین رحمہ اللہ سے ہیں جو جاموس کو گائے ساتھ شمار کرتے ہیں ۔ پس تابعین اور تبع تابعین کے عہد میں جاموس گائے کی جنس میں شمار ہوا کنوز الحقائق میں ایک روایت یوں درج ہے ۔ الجاموس تجزي عن سبعة فى الأضحية یعنی بھینس قربانی میں سات کی طرف سے شمار ہے ۔ اس حدیث کی اسناد کا کچھ علم نہیں ۔ کنوز الحقائق میں فردوس دیلمی کا حوالہ ہے اور معلوم ہے کہ فردوس کی روایات عموماًً کمزور ہوتی ہیں ، کنز العمال کے مقدمہ میں بحوالہ حافظ سیوطی جن چار کتابوں کی روایتوں کو علی العموم کمزور کہا ہے ان میں اس کا بھی شمار ہے ۔ والديلمي فى مسند الفردوس فهو ضعيف فيستغني بالعزو إليها أو إلى بعضها عن بيان ضعفه (جلد اول ص 3) لیکن جاموس کو گائے کے ساتھ شمار کرنے میں اکابر محدثین کا مسلک ہے ۔ چنانچہ مرعاۃ المفاتیح جلد 303/2 میں ہے:
لما رأى الفقهاء مالكا والحسن وعمر بن عبد العزيز وأبا يوسف و ابن مهدي ونحوهم أنهم جعلوا الجاموس فى الزكاة كالبقر فهم من ذلك أن الجاموس ضرب من البقر ، فعبر عن ذلك بأنه نوع منه
یعنی فقہاء محدثین امام مالک امام حسن بصری ، امام عمر بن عبد العزیز ، قاضی ابو یوسف امام ابن مہدی و غیرہ جاموس کو گائے کی ایک قسم شمار کرتے ہیں ، اس لئے زکوۃ بھینس کی گائے کے حساب سے بیان کرتے ہیں ۔ نیز یہ لکھا ہے: أعلم أنه لا يجزئ فى الأضحية غیر بهيمة الأنعام لقوله تعالى: ﴿ليذكروا اسم الله على ما رزقهم من بهيمة الأنعام﴾ وهى الإبل والبقر والغنم ، والغنم صنفان: المعز والضأن یعنی یہ بات جان لینی چاہئے کہ بہیمۃ الانعام کے بغیر کوئی جانور قربانی میں کفایت نہیں کرسکتا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان قرآن میں یہ ہے کہ: اللہ تعالیٰ کا نام قربانی کے مویشیوں پر یاد کریں ، جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دئیے ہیں اور وہ اونٹ ، گائے اور غنم ہیں ۔ غنم کی دو قسمیں ہیں: ایک بکری دوسری بھیڑ ۔ ان جانوروں کے بغیر کسی جانور کی قربانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے منقول نہیں ہے ، پھر لکھتے ہیں: فمذهب الحنفية وغيرهم جواز التضحية به ”یعنی مذہب حنفى وغيره میں بھینس کی قربانی جائز لکھتے ہیں ۔“ پھر یہ لکھا ہے: قالوا: لأن الجاموس نوع من البقر ، ويؤيد ذلك أن الجاموس فى الزكاة كالبقرة ، فيكون فى الأضحية أيضا مثلها ”یعنی الفقہاء حنیفہ وغیرہ یہ لکھتے ہیں کہ بھینس گائے کی ایک قسم ہے اور ان کی تائید یہ بات کرتی ہے کہ بھینس زکوۃ کے بارہ میں مثل گائے کے ہے تو قربانی میں بھی اس کی مثل ہے ۔“ میں کہتا ہوں کہ اس بات پر سب کا اجماع ہے کہ بھینس حلال ہے ، اس کی دلیل سورۃ مائدہ کی آیت ہے: ﴿أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الأَنْعَامِ﴾ ”تمہارے لئے چار پائے مویشی حلال کئے گئے ہیں“ تفسیر خازن وغیرہ میں سب چار پائے حیوانوں کو جو مویشی ہیں ۔ گھوڑے کی طرح سم دار نہیں اور نہ شکار کرنے والے درندے ہیں ۔ سب کو بھیمۃ الانعام میں شمار کیا ہے ، حتی کہ ہرن اور نیل گائے جنگلی گدھا گور خر وغیرہ کو بھی بہیمتہ الانعام میں شمار کیا ہے ، تو بھینس بھی بہیمتہ الانعام میں داخل ہے ، اس لئے یہ حلال ہے ، اور بہیمتہ الانعام کی قربانی نص قرآن سے ثابت ہے چنانچہ سورہ حج میں یہ آیت ہے: ﴿وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ﴾ ”یعنی ہم نے ہر امت کے لیے طریقہ قربانی کرنے کا مقرر کیا ہے تاکہ اللہ کا نام ذبح کے وقت ان مویشیوں پر ذکر کریں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دئیے ہیں اور انہوں نے پال رکھے ہیں ۔ موضح القرآن میں بہیمۃ الانعام پر لکھا ہے ۔ “
”انعام وہ جانور ہیں جن کو لوگ پالتے ہیں کھانے کو ، جیسے گائے ، بکری ، بھیڑ ، جنگل کے ہرن اور نیل گائے وغیرہ اس میں داخل ہیں کہ جینس ایک ہے ۔“
بنابریں بھینس بھی بہتہ الانعام میں داخل ہے چنانچہ فتاوی ثنائیہ جلد 1 ص 540 میں سوال و جواب یوں درج ہیں:
سوال: بھینس کی حلت کی قرآن وحدیث سے کیا دلیل ہے اور اس کی قربانی بھی ہو سکتی ہے یا نہیں؟ قربانی جائز ہو تو استدلال کیا ہے ، حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اجازت فرمائی ہے ، یا عمل صحابہ رضی اللہ عنہم ہے ۔
جواب: جہاں حرام چیزوں کی فہرست دی ہے وہاں یہ الفاظ مرقوم ہیں: ﴿قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا﴾ [الانعام: 145]
ان چیزوں کے سوا جس چیز کی حرمت ثابت نہ ہو وہ حلال ہے بھینس ان میں نہیں (وہ حلال ہے ) اس کے علاوہ عرب کے لوگ بھینس کو بقرہ (گائے ) میں داخل سمجھتے ہیں (تشریح حجاز میں بھینس کا وجود ہی تھا پس اس کی قربانی نہ سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوتی ہے نہ تعامل صحابہ سے ہاں اگر اس کو جنس بقر سے مانا جائے جیسا کہ حنفیہ کا قیاس ہے (کمافی الھدایہ) ، یا عموم بہیمۃ الانعام پر نظر ڈالی جائے تو حکم جواز ، قربانی کے لیے یہ علت کافی ہے ۔
میں (عبد القادر حصاری ) کہتا ہوں کہ بھینس کو بہیتہ الانعام میں شمار کرنا قیاس نہیں ہے قرآنی نص بہیمتہ الانعام کا لفظ عام ہے جس کیلیے کئی افراد ہیں ، گائے ، بکری وغیرہ ۔ تو بھینس بھی بہیمۃ الانعام کا ایک فرد ہے ، بہیمۃ الانعام کی قربانی منصوص ہے تو بھینس کی قربانی بھی نص قرآنی سے ثابت ہوگئی ۔ باقی رہی یہ بات کہ سنت رسول سنت صحابہ نہیں ہے تو جواز کو مانع نہیں ہے ، دیکھئے: ریل ، جہاز ، سائیکل موٹرکار وغیرہ کا وجود عہد نبوی میں نہ تھا ، ان کی سواری نہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے نہ سنت صحابہ رضی اللہ عنہم کی ہے ؛ تاہم یہ سب چیزیں عموم (عموم سے مراد یہ آیت ہے: ﴿وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾ اس عہد کی تمام سواریوں کا ذکر کے فرمایا پیدا کرے گا وہ سواریاں جو تم نہیں جانتے ۔ الراقم علیمحمد سعیدی ) کے تحت آجاتی ہیں ۔ اور علماء اسلام ریل ، موٹر سائیکل وغیرہ پر سوار ہوں گے یا اونٹ گھوڑے گدھے وغیرہ پر سوار ہوں گے ۔ نیز نماز کی اذان عہد نبوی میں بلند مکان پر پڑھی جاتی تھی اور عہد سلف میں بلند مینار پر پڑھی جاتی تھی اور اس وقت لاؤڈ اسپیکر نہ تھا لیکن اب مسجدوں کے اندر لاؤ اسپیکر نصب ہیں اور اذان مسجد کے اندر کہی جاتی ہے ۔ پہلا مسنون طریقہ ہے اور دوسرے مروجہ کو جائز کہا جائے گا ۔ خلاصہ بحث یہ ہے کہ بکری گائے کی قربانی مسنون ہے تاہم بھینس بھینسا کی قربانی بھی جائز اور مشروع ہے ، اور ناجائز لکھنے والے کا مسلک درست نہیں فقط ۔
عبد القادر عارف المحصاری [اخبار الاعتصام لاہور جلد 26 شماره 15 مورخه 8 / نومبر 1974ء نيز ديكهئے: فتاوي حصاريه ومقالات علميه ، تصنيف محقق العصر حضرت مولانا عبد القادر حصاري رحمه الله 442/5-446 ، ناشر مكتبه اصحاب الحديث لاهور ۔ وفتاوي علماء حديث ترتيب ابو الحسنات على محمد سعيدي مہتمم جامعه سعيديه خانيوال 71/13-74 ، ناشر مكتبه سعيديه خانيوال]

نوٹ: واضح رہے کہ علامہ حصاری رحمہ اللہ پہلے بھینس کی قربانی کے عدم جواز کے قائل تھے ، اور اس سلسلہ میں انہوں نے عدم جواز کا فتوی بھی دیا تھا ۔ [تنظيم اهل حديث ، جلد 16 ، شماره 42 ، 17 اپريل 1964ء نيز ديكهئے: فرآوي حصاريه و مقالات علميه ، 441-436/5]
الحمد للہ پھر اس کی قربانی کے جواز کے قائل ہوئے دلائل کے واضح ہونے پر حق کی طرف رجوع کیا اور اس کے جواز کا فتوی دیا ، اور ”بھینسے (کٹے ) کی قربانی پر دو متعارض فتوے اور ان کا تحقیق محل“ کے عنوان سے عدم جواز اور جواز کے دو متعارض فتووں میں تصفیہ کے سلسلہ میں دلائل کی روشنی میں حق واضح ہونے پر متعدد اہل علم کے رجوع الی الحق کی مثالیں پیش کر کے اپنے رجوع کا اعلان کیا اور واضح کیا کہ پہلا فتوی (عدم جواز ) مرفوع و منسوخ ہے اور دوسرا فتوی (جواز ) قابل اخذ وعمل ہے ، چنانچہ اس کے بعد فرماتے ہیں:
واضح ہو کہ اس تعارض کے دو جواب ہیں ۔ ایک اصولی ، دوسرا تحقیقی ۔ اصولی جواب یہ ہے کہ بخاری شریف (جلد 1 ص 96 ) میں ہے کہ امام حمیدی استاد امام بخاری رحمہ اللہ اور تلمیذ امام شافعی رحمہم اللہ نے فرمایا ہے کہ دو احادیث میں تعارض واقع ہو تو قاعدہ یہ ہے: انما يوخذ بالآخر ”کہ دوسرے حکم کو لیا جائے گا ۔“ اور پہلا مرفوع الحکم ہوگا ۔ پس اس قاعدہ کی رو سے کمترین حصاری کا دوسرا فتوی مندرجہ اخبار الاعتمام قابل اخذ ہے ۔ پہلا فتوی عدم جواز مرفوع ہے ۔ ہاں سنت تو ان جانوروں کی ہے ، دنبہ ، بکری ، گائے ، اونٹ لیکن بھینس وغیرہ جانوروں کی قربانی جائز ہے ۔ جیسے اونٹ گھوڑا ، گدھا ، خچر کی سواری سنت ہے اور سائیکل موٹر سواری ، ریل ، ہوائی جہاز وغیرہ کی سواری جائز ہے ۔ اسی طرح کسی بلند مکان اور منار وغیرہ پر اذان کہنی سنت اور مسجدوں کے اندر لاؤڈ سپیکر پر اذان کہنا مباح ہے ۔ اسی طرح ہاتھ کی انگلیوں سے کھانا کھانا اور ان کو چاٹنا سنت ہے اور چمچوں سے کھانا مباح ہے ۔ اسی طرح سنت اور جواز کا مقابلہ بہت سے کاموں اور چیزوں میں ہے ۔
دوسرا تفصیلی جواب یہ ہے کہ بھینس کی قربانی سنت تو نہیں ہے کیونکہ خاص صریح ذکر اس کا کسی نص شرعی میں نہیں پایا گیا ، البتہ جائز اور درست ہے ۔ عموم ادلہ سے علماء نے استخراج اس کا کیا ہے ۔ (آگے علامہ ثناء اللہ امر تسری رحمہ للہ کا فتوی ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں )
میں کہتا ہوں کہ اشیاء کی پہچان میں محاورہ اہل عرب کا معتبر ہے کہ شریعت الہی ان کی زبان پر نازل ہوئی ہے ۔ علماء اہل پنجاب و عجم کا نہیں کہ یہ اہل زبان نہیں ہیں ۔
حیاۃ الحیوان علامہ دمیری کی مشہور کتاب ہے جو حیوانات کے بیان اور پہچان میں نہایت معتبر اور قابل اعتماد ہے ، اس کی جلد 1 / ص 132 میں یہ لکھا ہے کہ حرف جیم میں جاموس کا بیان ہے ۔ حكمه وخواصه كالبقر یعنی اس کے خواص اور اس کا حکم شرعی مثل گائے کے ہے ، اس سے ظاہر ہوا کہ اہل عرب بھینس کو گائے کی جنس سے شمار کرتے ہیں ، اس لیے اگر تیس بھینس ہوں گی تو مثل گائے کے ان پر زکوۃ فرض ہے ۔
اور حیاۃ الحیوان کے ص 160 میں یہ لکھا ہے: قال الرافعي: قياس تكميل النصاب بإدخال الجاموس فى البقر فى الزكوة دخولها منها یعنی امام رافعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ زکوۃ میں گائے کے نصاب کو پورا کرنے کے لیے بھینسوں کو گائے کے ساتھ شامل کیا جائے گا ۔ قیاس یہی چاہتا ہے کیونکہ بھینس گائے کی جنس میں داخل ہے یعنی اگر بیس گائے کسی کے پاس ہوں اور دس بھینسیں ہوں تو ان پر زکوۃ فرض ہوئی ۔
موطا امام مالک مع شرح زرقانی (116/2) میں لکھا ہے: وقال مالك و كذلك البقر والجواميس يجمع فى الصدقة وقال: إنما هي بقر یعنی امام الائمہ مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس طرح بکریوں کا نصاب بھیڑوں کو ملا کر پورا کیا جاتا ہے ، اسی طرح گایوں کے ساتھ بھینسوں کو شامل کر کے گایوں کا نصاب پورا کیا جائے گا کیونکہ یہ سب گائیں ہیں ۔
علامہ زرقانی اس کی شرح میں لکھتے ہیں: جواميس جمع جاموس نوع من البقر یعنی: ”لفظ جوامیس جو امام مالک کے قول میں مذکور ہے ، جاموس کی جمع ہے اور جاموس یعنی بھینس یہ گائے کی قسم سے ہے ۔“
میں کہتا ہوں: کہ جیسے دنبہ اور بھیڑ بکری کی قسم سے ہیں ، اسی طرح بھینس گائے کی قسم سے ہے ۔ جیسے زکوۃ اور قربانی میں بکری اور بھیڑ کا حکم یکساں ہے ، اسی طرح بھینس اور گائے کا حکم یکساں ہے ۔ حالانکہ بظاہر دنبہ بھیڑ کو دیکھا جائے تو ان کی صورت ، سیرت اور خواص بکری سے الگ الگ ہیں ۔ تاہم شارع نے دنبہ بھیڑ کو بکری کے حکم میں یکساں قرار دیا ہے ، جس سے انکار کرنا مکابرہ ہے ۔
فتاوی ستاریہ جو مرکزی علماء غرباء اہلحدیث کا مشہور فتاوی ہے ، اس کی جلد 3 ص 2 میں ایک سوال وجواب میں لکھا ہے کہ کیا بھینس کی قربانی جائز ہے؟
جواب: جائز ہے کیونکہ بھینس اور گائے کا ایک حکم ہے ۔
الفتح الربانی شرح مسند احمد جلد 13 / ص76 میں لکھا ہے: نقل جماعة من العلماء الإجماع على التضحية لا تصح إلا ببهيمة الأنعام: الإبل بجميع أنواعها ، والبقر ومثله الجاموس
”اس بات پر ایک جماعت علماء نے اجماع نقل کیا ہے کہ چار پایوں کے بغیر کسی جانور کی قربانی صحیح نہیں ہے ، جیسے اونٹ اور اس کی سب قسمیں اور گائے اور مثل اس کی بھینس ہے ۔“
نیز الفتح الربانی جلد 8 / ص 23 میں زکوۃ سائمہ کا ذکر کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ جانوروں کی عمریں قربانی کے بارے میں لکھی ہیں: وفي البقر والجاموس ماله سنتان ”یعنی گائے اور بھینس میں ثنی وہ ہے جو دو سال کا ہو ۔“
نیز امام مالک کا قول یہ نقل کیا ہے: الثنى من البقر والجاموس ما دخل السنة الرابعة ”یعنی ثنی گائے اور بھینس کا وہ ہے جو چوتھے سال میں داخل ہو چکا ہو ۔“
اس تصریح سے یہ ظاہر ہوا کہ عہد نبوی اور عہد صحابہ میں ملک عرب میں خصوصاً حجاز میں بھیس نایاب تھی ، اس لیے اس کا ذکر نہ ہوا ۔ جب اس کا وجود تابعین اور تبع تابعین کے زمانہ میں پایا گیا تو اس کا ذکر اور حکم بھی ائمہ دین اور فقہاء اسلام نے بیان کر دیا ۔
چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ کی کتاب الزکوۃ میں ص 64 پر یہ عنوان قائم کیا گیا ہے: فى الجواميس تعدفى الصدقة ”یعنی بھینس بھی زکوۃ میں شمار کی جائے گی ۔“
پھر اس کے ثبوت میں امام حسن بصری تابعی سے یہ نقل کیا ہے: انه كان يقول: الجواميس بمنزلة البقر ”یعنی امام بصری فرمایا کرتے تھے کہ بھینس کا وہی حکم ہے جو گائے کا ہے ۔“ ان پر بھی زکوۃ واجب ہے ۔
میں کہتا ہوں کہ جب بھینس بمنزلہ گائے ہوئے تو قربانی بھی بمنزلہ گائے ہوئی کہ اس میں اشتراک سات شخصوں کا جائز ہوگا ۔ فقہ حنفیہ کی کتاب ہدایہ مشہور اور درسی کتاب ہے جو حنفیہ کی درس گاہوں بلکہ اہل حدیث کے مدارس میں بھی پڑھائی جاتی ہے اور نصاب تعلیم میں داخل ہے اور فتاوی نذیریہ تو ہدایہ کے مسائل سے بھر پور ہے ۔ اس کی جلد 2 ص 449 میں یہ لکھا ہے: ويدخل فى البقر الجاموس لأنه من جنسه (کتاب الاضحیہ) ”یعنی قربانی کے بارے میں بھینس گائے میں داخل ہے ، کیونکہ اس کی جنس سے ہے ۔“
اور جلد ص 190 میں ہے: والجواميس والبقر سواء لأن اسم البقر يتناولهما إذ هو نوع منه ”بھينس اور گائے احکام شرعیہ میں برابر ہیں اور بقر کا نام دونوں کو شامل ہے ، کیونکہ بھینس گائے کی ایک قسم ہے ۔“
پھر لکھتے ہیں: إلا أن أوهام الناس لا تسبق إليه فى ديارنا لقلته ”ليكن عوام کا بھینس کی طرف رجحان نہیں ہوتا ، کیونکہ ہمارے ملک عرب میں اس کی قلت ہے ۔“
امام مالک نے جو موطا میں بھینسوں پر زکوۃ فرض لکھی ہے ، اس پر (مسوی حاثیہ موطا ) میں لکھا ہے: وهو قول الفقهاء ”کہ فقہاء کا بھی یہی قول ہے“ ایک بھینس گائے کی قسم سے ہے اور اس پر زکوۃ فرض ہے ۔
مخفی نہ رہے کہ موطا امام مالک حدیث کی سب سے پہلی کتاب ہے ، جس میں بھینس کو گائے کی جنس شمار کیا گیا ہے اور امام الائمہ امام مالک تبع تابعی ہیں جن کے اسماء الرجال میں بڑے مناقب لکھے ہیں ۔ استاذ الائمہ تھے ، امام شافعی رحمہ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ جیسے اکابر امام ان کے شاگرد تھے ۔ وہ بھینس کو گائے کی جنس قرار دیتے ہیں ، جن کے مناقب کتب اسماء الرجال میں بہت لکھے ہیں ۔ جب وہ پیدا ہوئے تو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے ان کے تعلق میں شیرینی لگائی اور حضرت ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ان کو دودھ پلایا ہے ۔ (اکمال ) ایسے عظیم الشان تابعی کا قول بھی اس سلسلہ میں حجت ہے ۔ وہ بھینس کو گائے کی قسم میں شمار کرتے ہیں اور دیگر علماء اہل عرب ان کے موید ہیں ۔
پس علماء اہل پنجاب کا قول ان کے مقابلہ میں کوئی وقعت نہیں رکھتا ۔

حافظ عبد اللہ محدث روپڑی اور علامہ عبید اللہ محدث مبارکپوری رحمہما اللہ پر اظہار تعجب:
لکھتے ہیں: مجھے ملک پنجاب کے دو فاضلوں اور محدثوں پر تعجب ہوا کہ بھینس کے بارے میں فقہاء کے مقابلہ میں بہت الجھے ہیں ۔ ایک تو مولانا حافظ عبد اللہ مرحوم روپڑی اور دوسرے حضرت مولانا عبید اللہ صاحب محدث مبارکپوری ۔ دونوں بزرگوں نے مسئلہ زکوۃ میں تو گایوں کے ساتھ بھینس کو شامل کر لیا اور مسئلہ قربانی میں بھینس کو گائے سے الگ کر دیا ۔
بندہ راقم الحروف اپنے علم اور تحقیق پر تو ان دو بزرگ علاموں کے علم اور تحقیق کو ترجیح دے سکتا ہے لیکن فقہاء سابقین کے مقابلہ میں نہیں دے سکتا کہ وہ علم وعمل وفقاہت میں ان سے فائق تھے اور وہ اہل عرب تھے اور یہ ہر دو محققین عجمی ہیں ۔
مولانا عبید اللہ صاحب محدث مبارکپوری نے مشکوۃ کی شرح مرعاة المفاتیح میں حنفیہ کا مذہب مدلل بیان فرما کر پھر تنقید اور جرح شروع کر دی ۔ فرماتے ہیں: والأمر ليس عندي واضح ”حنفیہ کا مسلک اور استدلال واضح نہیں ہے ۔“
پھر تبصرہ یوں کرتے ہیں: حنفیہ کو یہ اعتراف ہے کہ لوگوں کے عرف عام میں بھینس گائے سے غیر جنس ہے کہ بظاہر دونوں کی شکل وصورت حلیہ میں اختلاف عظیم ہے ۔
میں کہتا ہوں کہ یہ الزام حنفیہ پر غلط ہے ۔ اوپر کے بیان میں ہدایہ کے حوالہ سے یہ گزر چکا ہے کہ بھینس اور گائے کی ایک ہی جنس ہے اور وہ حکم میں برابر ہے ۔ باقی رہا مولانا کا یہ فرمان کہ گائے اور بھینس کے حلیہ اور شکل میں تفاوت ہے ، سو یہ شبہ اہل حدیث کو بھی ہو سکتا ہے کہ بکری ، بکرا اور بھیڑ ، دنبہ ، چھترا سب کو کھڑا کر کے انصاف کرلیں کہ ان کے حلیہ اور شکل میں زمین آسمان کا فرق ہے اور شرعاًً بھی فرق ہے کہ قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ: الإجماع على أنه يجزي الجذعة من الضأن وأنه لا يجزى جزع من المعز ”اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ قربانی میں بھیڑ کا جذبہ کفایت کر جائے گا اور بکری کا جذبہ کفایت نہ کرے گا ۔“
جب ان کی شکل اور حلیہ اور حکم شرعی میں تفاوت ہے تو پھر زکوۃ اور قربانی میں ان کو برابر اور ایک جنس کیوں قرار دیا گیا ہے ۔ ما هو جوابكم عن هذا الكلام فهو جواب عن الحنفية
پھر گائے اور بھینس کے غیر جنس ہونے پر یہ ثبوت دیا ہے کہ اگر کوئی یہ قسم کھالے کہ واللہ باللہ تاللہ میں گائے کا گوشت نہیں کھاؤں گا اور پھر وہ بھینس کا گوشت کھالے تو حانث نہ ہوگا ۔ [فتاوي حصاريه ومقالات علميه ، 446/5-457]

(5) محدث دوراں حافظ گوندلوی کا فتوی:
سوال: فتوی دیں کہ آیا بھینس بھینسا بھی گائے بیل کی طرح قربان ہو سکتے ہیں یا نہیں؟ لوگ شک میں ہیں کہ بھینس کی قربانی جائز نہیں ہے ، اور ہم لوگ کہتے ہیں کہ بھینس کی قربانی جائز ہے ۔
جواب: بھینس بھی ”بقر“ میں شامل ہے ، اس کی قربانی جائز ہے ۔ [ہفت روزه الاعتصام ج 20 شماره 10، 9 ميں 29، 27 /ستمبر 1968ء نيز ديكهئے بهينس كي قرباني كا تحقيقي جائزہ حافظ نعيم الحق ملتاني ص: 203]

(6) محدث کبیر علامہ عبد الجلیل سامرودی کا فتوی:
مذاکرہ علمیہ بھینس کی قربانی
کہاں میں بھینس کی قربانی کو ”خنزیر کی قربانی“ سے تشبیہ دینے والے مولانا صاحب؟ اور کدھر ہے مجہول مصنوعی نام بنام ”اکبر عباسی“ پچاس روپئے انعام کا چیلنج کرنے والا؟ اب ثمانية أزواج سے گزارش ہے کہ ﴿هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ، فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا ، وَ لَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا ، تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا﴾
اخبار اہل حدیث مجریہ یکم و دو اکتو بر 1952ء میں بضمن مذا کرہ علمیہ نمبر 1 میں مولانا ابو العلاء نظر احمد صاحب سہوانی کا مضمون نظر سے گذرا ، اس میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ: ہاں اگر اس (جاموس) کو جنس بقر سے مانا جائے جیسا کہ حنفیہ کا قیاس ہے ۔ تو حکم جواز قربانی کے لئے یہ علت کافی ہے ۔ مجھے کہنے دیجئے کہ حنفیہ کا نام ایک اکیلا پڑ گیا ہے ، موطا امام مالک جسے ایک جم غفیر نے اصح الکتب تسلیم کیا ہوا ہے ، مطبوعہ مجتبائی ص 111 میں ہے انما هي بقر یعنی بھینس اور گائے یہ سب حقیقت میں ایک ہی جنس میں مدونہ 355/1 میں ہے: قال ابن مهدي وقال سفيان ومالك: إن الجواميس من البقر ابن مہدی ، سفیان اور ، امام مالک کہتے ہیں کہ بھینس گائے سے ہی ہے ، اور مدونہ 355/1 ہی میں ہے: قال ابن وهب وقال الليث ومالك: سنة الجواميس فى السعاية وسنة البقر سواء
اور ابن ابی شیبہ 220/3 میں ہے: الجواميس تعد فى الصدقة ، و عن الحسن أنه كان يقول: الجواميس بمنزلة البقر علامہ ابو عبید قاسم بن سلام اپنی کتاب الاموال کے ص 476 میں تحریر فرماتے ہیں: فإذا خالطت البقر جواميس فسنتها واحدة ، وفي ذلك آثار: عن ابن شهاب أن عمر بن عبد العزيز ، كتب أن تؤخذ صدقة الجواميس كما تؤخذ صدقة البقر وكذلك يروى عن أشعث عن الحسن ، وعن مالك بن أنس قال: الجواميس والبقر سواء حضرت عمر بن عبد العزیز خلیفہ راشد ، امام لیث ، امام مالک ، امام سفیان ، ابن مہدی اور دیگر ائمہ بھی جاموس کو گائے ہی سے شمار کرتے ہیں ۔ ”جاموس“ معرب ہے گاؤ میش سے ، گویا اس کا نام ہی ظاہر کر رہا ہے کہ یہ ایک گائے ہی کی قسم ہے ، اس بارے میں حنفیہ ہی کی انگشت نمائی کرنا انصاف سے بعید ہے ، یا کوتاہ نظری اس کا باعث ہو ۔
بھینس ذوات ظلف ”کھر“ سے ہے جیسے گائے ذوات تخلف سے ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ حجاز میں بھینس کا وجود نہ تھا لیکن مصر میں یہ ضرور پائی جاتی تھی ، اور اس کی موجودگی کا علم حجاز والوں کو بھی قرن اول سے قریب تر زمانہ میں ہو گیا تھا ، کیا اس کی حلت کے لئے کوئی نص شارع علیہ السلام سے منقول ہے؟ کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ جب اس کا گوشت کھانے اور دودھ پینے کی تخصیص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں تو اس کے گوشت اور دودھ کا استعمال خلاف شرع ہے ، نیز صحابہ کے عہد میں بھی اس کے دودھ اور گوشت کا وجود بطور اکل و شرب معلومہ نہیں ہوتا ، اس لئے ان دونوں چیزوں کے کھانے پینے سے دست برداری اختیار کر لینا چاہئے ، حالانکہ یہ خیال غلط اور تعامل الناس کے خلاف ہے ۔
تعجب کا مقام ہے کہ یوں تو بھینس کے گوشت اور دودھ کا کھانا پینا درست سمجھا جائے اور اس کی قربانی کو ناجائز قرار دیا جائے ! اگر یہ جنس بقر نہیں ہے بلکہ غیر ہے تو اس کی حلت کے لئے مستقل دلیل پیش کی جائے ، یا پھر اس کا جنس بقر سے ہونا تسلیم کیا جائے ، اور جس طرح ”ثمانیۃ ازواج“ سے قربانی کرنا جائز ہے اسی طرح بھینس کو بھی اس میں شامل کیا جائے ۔ بہیمہ اور انعام کی تعریف کر کے یا حنفیہ کی طرف منسوب کر کے جواز ثابت کرنا کمزور پہلو ہے ، کھانے پینے کے لئے بھینس کو جنس بقر قرار دینا اور قربانی کے لئے جدا کرنا ترجیح بلا مرجع ہے صحیح یہ ہے کہ بھینس نہ صرف حنفیہ کے نزدیک بلکہ بالاتفاقی ہر دو معاملوں میں بھینس گائے کی جنس سے ہے ۔ واللہ اعلم ۔ مولانا ابو عبد الکبیر عبد الجلیل السامرودی [مجله نور توحيد لكهنو 10 نومبر 1952 ص: 15]

(7) فتاوی ستاریہ کا فتوی:
مرکزی علماء غرباء اہل حدیث کے مجموع فتاوی ”فتاوی ستاریہ“ میں ہے:
السلام عليكم ورحمة الله و بركاته
کیا جینس کی قربانی جائز ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله و بركاته
الحمد لله ، والصلاة و السلام على رسول الله ، أما بعد !
جائز ہے ، کیونکہ بھینس اور گائے کا ایک ہی حکم ہے ۔ [فتاوي ستاريه جلد 3 ص 2 بحواله فتاوي علمائے حديث 47/13 نيز ديكهئے: فتاوي حصاريه و مقالات علميه تصنيف محقق العصر حضرت مولانا عبد القادر حصاري رحمه الله 5 / 455]

(8) علامہ نواب محمد صدیق حسن خان کا فتوی:
علامہ نواب محمد صدیق حسن خان قنوجی بھوپالی بخاری رحمہ اللہ اپنے فتاوی میں ”قربانی کے جانور کی عمر“ کے تحت بطور دلیل جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم: لا تذبحوا إلا مسنة ، إلا أن يعسر عليكم ، فتذبحواجذعة من الضأن [صحيح مسلم 3/ 1555 حديث 1963]
دو دانت والے کے سوا ذبح نہ کرو مگر کہ تم پر تنگی ہو تو بھیڑ کا جذہ (ایک سال کا) ذبح کرو ۔
پیش کرنے کے بعد ”مسنہ“ کی تشریح میں فرماتے ہیں:
مسنہ: ہر جانور میں سے ”ثنی“ کو کہتے ہیں اور ثنی ، بکری میں سے جو ایک سال مکمل کرنے کے بعد دوسرے میں ہو ، اور گائے بھینس میں سے جو دو سال مکمل ہونے کے بعد تیسرے میں ہو ، اور اونٹ جو پانچ سال مکمل کرنے کے بعد چھٹے میں ہو ۔ [فتاوي نواب محمد صديق حسن خان رحمه الله التوجي البخاري ص 104 ترتيب محمد اشرف جاويد ، ناشر مكتبه النسيم ، مؤناتھ بهنجن ، يوپي]
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ رحمہ اللہ بھی بھینس کی قربانی کے جواز کے قائل تھے ، ورنہ گائے کے ساتھ بھینس کا ذکر نہ کرتے ۔

(9) محمد رفیق اثری کا فتوی:
استاذ العلماء شیخ محمد رفیق اثری (شیخ الحدیث دار الحدیث محمد یہ ضلع ملتان ) کتاب بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ مولفہ حافظ نعیم الحق ملتانی (سابق مدرس جامعہ محمد یہ اہل حدیث بہاولپور ) پر اپنے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
”یہ مسئلہ کہ قربانی میں بھینس ذبح کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ سلف صالحین میں متنازعہ مسائل میں شمار نہیں ہوا ۔ چند سال سے یہ مسئلہ اہل حدیث عوام میں قابل بحث بنا ہوا ہے ۔ جبکہ ایسے مسئلے میں شدت پیدا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ فروعی مسائل میں تحقیق حق کے لئے شخصیات سے ہٹ کرنفس دلائل کو دیکھنا ، پرکھنا اور صحیح نتیجہ اخذ کرنا ہی سلفین کا شیوہ ہے ۔ “ [بهينس كي قرباني كا تحقيقي جائزه ص 35 ، دوسرا ايڈيشن]

(10) فضیلۃ الشیخ امین اللہ پشاور ی کا فتوی:
علامہ شیخ امان اللہ پشاور ی اپنے شہرہ آفاق ”فتاوی الدین الخالص“ میں لکھتے ہیں:
إفحام الجاسوس فى أدلة حل الجاموس
[س: مراراً عن الجاموس هل يجوز أن يضحى به وما دليل حله؟]
[ج: الحمد لله رب العالمين ، والصلاة والسلام على رسوله محمد واله وصحبه أجمعين ، أما بعد: فههنا ثلاثة أمور: الأول منشأ السؤال الثاني: أدلة حل الجاموس ، الثالث: الأضحية به]
سوال: کیا بھینس کی قربانی جائز ہے؟ اور اس کے حلال ہونے کی کیا دلیل ہے؟
جواب: الحمد لله رب العالمين ، والصلاة والسلام على رسوله محمد واله وصحبه اجمعين ، أما بعد:
یہاں تین باتیں ہیں:
(1) یہ سوال پیدا کہاں سے ہوا
(2) بھینس کے حلال ہونے کے دلائل
(3) بھینس کی قربانی
(پھر بھینس کی قربانی کے جواز کے دلائل پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں)
بھینس کی قربانی کی حلت کے دلائل بکثرت ہیں:
(1) کتاب و سنت جنہیں اللہ تعالیٰ نے واضح عربی زبان میں نازل فرمایا ہے ، چنانچہ جو لفظ بھی کسی چیز پر دلالت کرتا ہے اس کا حکم اس لفظ کے تحت شامل ہوتا ہے ، یہ کہنا درست نہیں کہ یہ صریح نہیں ہے ۔ مثلاً لفظ ”غنم“ یعنی بکری ، اس کے تحت جو بھی جانور شامل ہوگا ، اس کا حکم
بکری کا ہوگا ، اسی طرح قرآن میں ”بقر“ یعنی گائے کا لفظ آیا ہے ، اب زبان عرب میں جس کو بھی بقر کہا جائے گا اس کا حکم گائے ہی کا ہوگا ، تمام باتوں میں ؛ اس کی حلت میں ، قربانی کرنے میں ، اس کا گو شت کھانے ، دودھ پینے اور زکاۃ کے وجو ب وغیرہ ہیں ۔
چنانچہ جس طرح بقر کا لفظ کالی ، سفید اور زرد گایوں اور گائے کی تمام انواع پر بولا جاتا ہے اسی طرح جاموس یعنی بھینس پر بھی بولا جاتا ہے ۔ لہٰذا تمام باتوں میں اس کا حکم بھی گائیوں کا ہوگا ، اور جو یہ دعوی کرے کہ بھینس یا کالی گائیں بقر کے لفظ میں نہیں آتیں ، وہ دلیل پیش کرے ۔ (پھر اہل لغت کے متعدد اقوال سے بھینس کو گائے کی نوع ثابت کیا ہے )
(2) مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ گایوں کی طرح بھینس میں بھی زکاة واجب ہے ، اور گائے کی طرح بھینس کو کھانا اور اس کی قربانی کرناجائز ہے ۔ (پھر بھینس کے گائے کی جنس ہونے پر متعد د علماء سے اجماع نقل فرمایا ہے ، اور ساتھ ہی مذاہب اربعہ کے علماء کے اقوال پیش کیا ہے )
(3) اس سلسلہ میں علی رضی اللہ عنہ عکرمہ بن خالد ، ابن سیرین وغیرہ کے آثار پیش کیا ہے ۔
(4) نیز ان لوگوں کی تردید فرمائی ہے ، جنہوں نے کہا ہے کہ بعض اکے دکے اہل لغت نے بھینس کو گائے کی جنس قرار دیا ہے ۔ اسی طرح ان کی بھی تردید کی ہے جنہوں نے بہیمتہ الانعام کو اونٹ ، گائے ، بکری اور مینڈھے کے ناموں میں محصور کر دیا ہے ۔ [فتاوي الدين الخاص عربي ، از فضيلة الشيخ امين الله پشاور ي 390/6-398]

(11) مفتی اعظم پاکستان علامہ محمد عبید الله عفیف کا فتوی:
سوال: بھینس کی قربانی کاکیا حکم ہے؟
جواب: قرآن مجید کے ظاہر سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اونٹ ، بکری ، دنبہ اور گائے کی قربانی دینی چاہئے ، جیسے کہ ارشاد ہے:
﴿لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ﴾ [الحج: 34]
اور بظاہر بھینس گائے سے الگ دوسری قسم کا جانور معلوم ہوتا ہے ۔ مگر لغت میں بھینس کو گائے کی قسم قرار دیا گیا ہے ، چنانچہ منجد میں ہے:
الجاموس جمعه جواميس صنف من كبار البقر ، يكون داجنا منذ أصناف وحشيته (ص 100)
کہ پالتو بھینس بڑی گائے کی ایک قسم ہے ، اسی وجہ سے شوافع اور حنفیہ کے نزدیک بھینس کی قربانی جائز ہے ۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وجميع أنواع البقر من الجواميس والعراب والدربانية (شرح المهذب 308/8)
کہ قربانی کے جانوروں میں گائے کی تمام اقسام جائز ہیں ، خواہ گائے عربی ہو یا فارسی یعنی بھینس ۔
اور ہدایہ حنفیہ میں بھی اس کا جواز موجود ہے ۔ بہر حال بھینس چونکہ حلال چوپایہ ہے ، اور ”من بہیمۃ الانعام“ کے عموم میں داخل نہیں مگر اہل لغت کے مطابق یہ گائے کی ایک بڑی قسم ہے ، اس لئے اس کی قربانی کا جواز معلوم ہوتا ہے ۔ تاہم یہ نہ تو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے نہ سنت صحابہ ۔ [فتاوي محمديه منهج سلف صالحين كے مطابق مفتي اعظم پاكستان حضرة العلام مفتي محمد عبد الله ان عفيف ، ترتيب ابوالحسن مبشر احمد رباني ، 592/1 ، ناشر مكتبه قدوسيه لاهور]

(12) نامور محقق علامہ حافظ صلاح الدین یوسف کا فتوی:
حافظ صلاح الدین یوسف لکھتے ہیں:
مذکورہ (آٹھ ) جانوروں میں بھینس کا ذکر نہیں ہے ، کیونکہ عرب بالخصوص حجاز (مکہ ومدینہ ) میں بھینس کا وجود نہیں ، اس لئے بھینس کے بارے میں بالخصوص قرآن و حدیث میں کوئی صراحت نہیں ہے ، ۔ غیر عرب علاقوں میں بھینس پائی جاتی ہے ، تاہم بعض علمائے لغت نے اسے گائے ہی کی ایک قسم قرار دیا ہے ۔
جیسا کہ (حیاۃ الحیوان ، 1 / 182 لسان العرب 43/6 المغرب في ترتيب المعرب اور المصباح المنیر 1 / 134) وغیرہ میں ہے ۔ اسی طرح محدثین نے بھینس کو حکم زکاة میں گائے کے حکم میں رکھا ہے ، یعنی گائے میں زکاۃ کا جو حساب ہوگا اسی حساب سے بھینسوں میں سے زکاۃ ادا کی جائے گی ۔
احناف نے (غالبا) اسی مشابہت حکم زکاۃ کی بنا پر اسے حکم قربانی میں بھی گائے کے حکم پر محمول کیا ہے ۔ چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ میں ہے:
ويدخل فى البقر الجاموس لأنه من جنسه [هدايه ، كتاب الاضحية ، 433/2]
قربانی میں بھینس گائے کا حکم رکھتی ہے ، کیونکہ یہ اس کی جنس سے ہے ۔
علماء اہل حدیث اس بارے میں مختلف الرائے ہیں ، شیخ الاسلام مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمہ اللہ بھینس کی قربانی کے قائل ہیں ۔ [ملاحظه هو: فتاويٰ ثنائيه ، 1 / 520]
مولانا عبد القادر عارف حصاری رحمہ اللہ جماعت اہل حدیث کے ایک محقق عالم تھے ، ان کا بھی ایک فتوی کئی سال قبل (الاعتصام ، 8 نومبر 1974ء میں شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے بھینس کی قربانی کے جواز میں دلائل مہیا فرمائے تھے ۔
لیکن دوسری طرف بعض علماء اہل حدیث بر بنائے امتیادا بھینس کی قربانی کے جواز کے قائل نہیں ، جیسا کہ مولانا حافظ عبداللہ صاحب محدث روپڑی رحمہ اللہ نے لکھا ہے ، چنانچہ وہ اس سوال کے جواب میں کہ کہا: بھینسے (کٹے ) کی قربانی جائز ہے یا نہیں؟ لکھتے ہیں:
”قرآن مجید پارہ 8 رکوع 4 میں بہیمتہ الانعام کی چار قسمیں بیان کی گئی ہیں ۔ دنبہ ، بکری ، اونٹ گائے بھینس ان چار میں نہیں ۔ اور قربانی کے متعلق حکم ہے کہ بہیمۃ الانعام سے ہو ۔ اس بنا پر بھینس کی قربانی جائز نہیں ۔ ہاں زکاۃ کے مسئلہ میں بھینس کا حکم گائے والا ہے ۔ یاد رہے کہ بعض مسائل احتیاط کے لحاظ سے دو جہتوں والے ہوتے ہیں اور عمل احتیاط پر کرنا پڑتا ہے ۔ ۔ ۔ ایسا ہی بھینس کا معاملہ ہے اس میں بھی دونوں جہتوں پر عمل ہوگا ۔ زکاۃ ادا کرنے میں احتیاط ہے قربانی نہ کرنے میں احتیاط ہے ۔ اس بنا پر بھینسے کی قربانی جائز نہیں ، اور بعض نے جو یہ لکھا ہے کہ: الجاموس نوع من البقر یعنی بھینس گائے کی قسم ہے ۔
یہ بھی اسی زکاۃ کے لحاظ سے صحیح ہو سکتا ہے ورنہ ظاہر ہے کہ بھینس دوسری جنس ہے ۔ [فتاوي اهل حديث 466/2 467]
اس تفصیل سے واضع ہے کہ علماء اہل حدیث میں دورائیں پائی جاتی ہیں ، اس لئے اس مسئلہ میں تشدد اختیار کرنا صحیح نہیں ہے ، اگر کوئی شخص بر بنائے احتیاط بھینس کی قربانی کے جواز کا قائل نہ ہو تو اسے یہ رائے رکھنے اور اس پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے لیکن اگر کوئی شخص دیگر علماء کی رائے کے مطابق بھینس کی قربانی کرتا ہے تو قابل ملامت وہ بھی نہیں ۔ جواز کی گنجائش بہر حال موجود ہے ، کیونکہ بہت سے علماء لغت نے اسے گائے ہی کی جنس سے قرار دیا ہے ۔ مولانا عبید اللہ رحمانی رحمہ اللہ صاحب مرعاة المفاتیح نے بھی یہی بات لکھی ہے ۔ (مرعاة 2 / 354 طبع اول ) [فضائل عشره ذوالحجه اور احكام ومسائل عيد الاضحي ، از شيخ حافظ صلاح الدين يوسف حفظه الله ص: 41-44]

(13) معروف محقق حافظ زبير على زئي رحمه الله كا فتوي:
عصر حاضر کے معروف محقق حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اونٹ ، گائے ، بھیڑ اور بکری کی قربانی کتاب وسنت سے ثابت ہے اور یہ بات بالکل صحیح ہے کہ بھینس گائے کی ایک قسم ہے ، اس پر ائمہ اسلام کا اجماع ہے ۔
امام ابن المنذر فرماتے ہیں: وأجمعوا على أن حكم الجواميس حكم البقر اور اس بات پر اجماع ہے کہ بھینسوں کا وہی حکم ہے جو گائیوں کا ہے ۔ [الاجماع كتاب الزكاة ، ص 43]
ابن قدامہ لکھتے ہیں: لا خلاف فى هذا نعلمه اس مسئلے میں ہمارے علم کے مطابق کوئی اختلاف نہیں ۔ [المغني ج 2 ص 240 مسئله: 1711]
زکوۃ کے سلسلے میں اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ بھینس گائے کی جنس میں سے ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بھینس گائے کی ہی ایک قسم ہے ۔ تاہم چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صراحتا بھینس کی قربانی کا کوئی ثبوت نہیں لہٰذا بہتر یہی ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے بلکہ صرف گائے ، اونٹ ، بھیڑ اور بکری کی ہی قربانی کی جائے اور اسی میں احتیاط ہے ۔ واللہ اعلم ۔ [فتاوي علميه المعروف به توضيح الاحكام ، 2 / 181 نيز ديكهئے: قرباني كے مسائل ، محدث هند و پاک حافظ زبير على زئي ص: 27]

(14) حافظ ابویحیی نور پوری نائب مدیر ”السنتہ“ جہلم کا فتوی:
حافظ نور پوری صاحب اپنی مفید مختصر تحریر بھینس کی قربانی میں دلائل ، اقوال اور حوالوں کے بعد فرماتے ہیں:
الحاصل: بھینس گائے کی ایک نسل ہے ، اس کی قربانی بالکل جائز ہے ۔ اس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہہ نہیں ۔ واللہ اعلم بالصواب وعلمه أبرم و أحكم۔ [بهينس كي قرباني از فضيلة الشيخ حافظ ابويحيي نور پوري ، نائب مدير ماهنامه ”الستة“ جهلم]

(15) حافظ نعیم الحق عبد الحق ملتانی کا فتوی:
ملاحظہ فرمائیں ، اس موضوع پر لکھی گئی سب سے مفصل کتاب بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزه از حافظ نعیم الحق ملتانی [بهينس كي قرباني كا تحقيقي جائزه ، از حافظ نعيم الحق ملتاني ، دوسرا ايڈيشن ، ملنے كا پته: اسلامك سنٹر ، ملتان]

نوٹ: حافظ نعیم الحق ملتانی صاحب نے اس موضوع پر اپنی نہایت مفصل کتاب بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائز میں بھینس کی قربانی کے جواز پر مزید چند اہل علم کے فتاوے نقل کئے ہیں ، جو انہیں بذریعہ خط موصول ہوئے تھے ، یہاں باختصاران فتاؤں کا ذکر کیا جاتا ہے:

(16) مولانا ابو عمر عبد العزیز نورستانی کا فتوی:
موصوف مسئلہ کی بابت مختلف دلائل ، اقوال تعلیلات اور گائے اور بھینس کے حکم کی یکسانیت پر اجماع وغیر ہ کا ذکر کرنے بعد خلاصہ لکھتے ہیں:
”مذکورہ بالا و جوہات کی بنا پر میری ناقص رائے میں ان علماء کا موقف درست اور صحیح ہے جو جواز کے قائل ہیں ۔“ واللہ اعلم کتبہ: ابو عمر عبد العزیز نورستانی [بهينس كي قرباني كا تحقيقي جائزہ ص: 228-235]

(17) جماعت غرباء اہلحدیث کراچی پاکستان کے مفتی مولانا عبد القہار اور نائب مفتی مولانا محمد ادریس سلفی صاحبان کا فتوی:
الجواب بعون الوهاب:
صورت مسؤلہ میں واضح ہو کہ شرعا بھینس چوپایہ جانوروں میں سے ہے ، اور اس کی قربانی کرنا درست ہے ، کیونکہ گائے کی جنس سے ہے ۔ گائے کی قربانی جائز ہے اس لئے بھینس کی قربانی جائز و درست ہے ۔ اس دلیل کو اگر نہ مانا جائے تو گائے کے ہم جنس بھینس کے دودھ اور اس کے گو شت کے حلال ہونے کی بھی دلیل مشکوک ہو جائے گی ۔“
الجواب صحیح عبد القبار عفی عنہ ۔ [بهينس كي قرباني كا تحقيقي جائزہ ص: 237-239]

(18) حافظ احمد اللہ فیصل آبا دی کافتوی:
السلام عليكم ورحمتہ اللہ !
کے بعد عرض ہے کہ میری کئی سالوں کی تحقیق ہے کہ بھینسے کی قربانی جائز ہے لہٰذا میں آپ کے ساتھ پھینسے کی قربانی کرنے میں متفق ہوں ، اور اس بات پر بھی متفق ہوں کہ سورۃ الححج میں جواللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ﴾ [الحج: 34]
یہ لفظ عام ہے اور ہر پالتو جانور کو شامل ہے نص قرآن سے کسی حیوان کو خارج کرنا صحیح نہیں ، رسول الله س نے ان کا ”جاموس“ (بھینس) کی قربانی نہ کرنا اس کے مختلف وجوہ ہو سکتے ہیں مثلاً جاموس کی حجاز میں قلت کی وجہ سے قربانی نہ کی ہو یا اور کوئی وجہ ہو ۔ لہٰذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے عدم جواز کی دلیل صحیح نہیں ۔ بعض علماء کا یہ کہنا کہ ”جاموس“ بقر کی جنس سے نہیں ہے کیونکہ ان دونوں کی صورت میں بڑا فرق ہے ، یہ بات صحیح نہیں ۔ کیونکہ دنبہ اور مینڈھا ان کی صورتوں میں بھی فرق ہے ، کیونکہ دنبے کی چکی ہوتی ہے اور مینڈھے کی چکی نہیں ہوتی ، یہ واضح فرق ہے ، اور بالا تفاق اہل لغت کے یہاں اس کو ”ضان“ کہا جاتا ہے ۔ واللہ اعلم [بهينس كي قرباني كا تحقيقي جائزہ ص: 240]

گیارہویں فصل:

بھینس کی قربانی متعلق بعض اشکالات اور شبہات کا ازالہ:

بھینس کی قربانی کے مطلق عدم جواز کے قائلین کے یہاں بعض اشکالات و شبہات ہیں جس کی بنا پر انہیں بھینس کی قربانی کے جواز پر اطمینان نہیں ہے ، ان شبہات و اشکالات میں کچھ علمی ہیں اور کچھ عوامی ، ذیل میں ان میں سے چند اہم اشکالات و شبہات کا ازالہ کیا جار ہا ہے، تاکہ مسئلہ کی بابت کسی قسم کی الجھن باقی رہ جائے و باللہ التوفیق ۔
اولاً علمی اشکالات:

پہلا اشکال: (عدم وجود نص):

بھینس کی قربانی جائز نہیں کیونکہ بھینس کے سلسلہ میں کتاب وسنت میں کوئی نص موجود نہیں ، اور متنازع ومختلف فیہ امر کو اللہ عز وجل اور اس کے رسول کی صلى الله عليه وسلم کی طرف لوٹانے کا حکم دیا گیا ہے ، اور لوٹانے پر بھینس کا نہیں کوئی ذکر نہیں ملتا ! !
ازاله:
(1) کتاب و سنت کی طرف لوٹانے پر اس میں باللا ”الجاموس“ یعنی بھینس کا ذکر نہیں ملتا ، لیکن ”البقر“ کی جنس کا ذکر بصراحت موجود ہے ، اور امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ بھینس گائے کی غیر عربی نسل و نوع ہے لہٰذا الفظ نہیں بلکہ باعتبار جنس اس کا ذکر موجود ہے اور اسی لئے دونوں کا حکم قربانی و زکاۃ میں یکساں ہے ، جیسا کہ سابقہ فصلوں میں اس کی تفصیلات ذکر کی جا چکی ہیں ۔
(2) کتاب و سنت کی فہم کے لئے زبان کتاب وسنت (عربی ) اور اس میں وارد الفاظ و کلمات کا صحیح معنی او مدلول جانناحد درجہ ضروری ہے ، اور قرآن و سنت میں وارد لفظ ”البقر“ کا معنیٰ و مدلول ماہرین لغت عرب اور علماء تفسیر ، حدیث وفقہ نے بخوبی واضح کیا ہے کہ ”الابل البقر المعز الضان“ یہ اجناس میں، ان کی جو بھی انواع و اصناف دنیا میں پائی جاتی ہیں سب اس میں شامل ہیں ، اور جاموس (بھینس) بھی جنس ”البقر“ کی ایک غیر عربی نسل و نوع ہے لہٰذا اس میں بھی زکاۃ فرض اور اس کی قربانی جائز ہے ، جیسا کہ تفصیلات گزر چکی ہیں ۔
(3) کتاب و سنت کی فہم کے لئے سلف امت کی فہم ناگزیر ہے ، جیسا کہ مخفی نہیں ، اور امت کے سلف کا فہم یہ ہے کہ بھینس گائے ہی کی ایک نوع ونسل ہے ، اور دونوں کا حکم اجتماعی طور پر یکساں ہے ۔ صحیح ہے کہ گائے کی یہ نوع عہد رسالت اور عہد صحابہ میں متعارف تھی لیکن اس کے بعد جب سے متعارف ہوئی اور سلف امت کی نگاہوں کے سامنے آئی ، انہوں نے اسے گائے ہی کی ایک نوع سمجھا ، اور زکاۃ قربانی میں اس کا حکم گائے کا رکھا ۔
(4) کتاب و سنت کے نصوص میں باللفظ تمام اشیاء کا ذکر ہو نا ضروری نہیں نہ ہی اثبات و نفی اور حلال و حرام کا حکم کسی چیز کے منصوص ہونے ہی پر موقوف ہے ۔ ظاہر ہے کہ قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تمام تر اشیاء اور ان کے انواع و اقسام کا نام ذکر نہیں کیا گیا ہے ، بلکہ شریعت اسلامیہ جامع ، کامل ، شامل اور ثابت شریعت ہے ، اس میں کلیات ، مبا دی اور اصول میں خواہ ان کا حکم حلت کا ہو یا حرمت کا ۔ اسی طرح بہیمۃ الانعام میں شامل لفظ ”البقر“ میں گائے کی جو بھی نسلیں اور قسمیں دنیا میں پائی جاتی ہیں سب شامل ہیں ۔

دوسر اشکال: (لغت عرب سے استدلال):

کتاب وسنت میں بھینس کا ذکر نہیں ہے ، اس کے بارے میں کوئی نص نہیں ہے صرف لغت عرب سے استدلال کر کے اس کی قربانی کو جائز کہنا درست نہیں ، لغت عرب شرعی مسئلہ میں دلیل نہیں بن سکتی ! !
ازاله:
(1) محض عربی زبان سے استدلال کر کے بھینس کی قربانی کو جائز نہیں قرار دیا گیا ہے ، بلکہ لغت عرب سے لفظ ”البقرہ“ اور ”الجاموس“ کے معنی و مدلول کی تعین کی گئی ہے ، اور ظاہر ہے کہ کسی بھی زبان کے الفاظ کے معنی و مدلول کو اس زبان کے ماہرین ہی جانتے ہیں لہذ ا لغت عرب سے معلوم ہوا کہ جاموس بقر کی جنس سے ایک نوع ہے ، اور یہ کسی شاذ و نادر کا قول نہیں ہے بلکہ اس پر تمام علماء لغت کا اجماع ہے کسی نے بھی اس کے خلاف نہیں لکھا ہے ۔
(2) لغت عرب سے جاموس کے معنی و مدلول کے بعد علماء شریعت مفسرین ، محدثین ، فقہاء ، شارحیں حدیث اور علماء فتاوی کی توضیحات دیکھی گئیں تو معلوم ہوا کہ علماء شریعت نے بھی ، بھینس کو گائے ہی کی جنس مانا ہے ، بلکہ دونوں کے حکم کی یکسانیت پر اجماع امت ہے یعنی لغت عرب اور مدلول شرع میں کوئی تعارض نہیں ہے لہٰذا اس میں گائے کے مثل زکاة فرض اور قربانی کو جائز قرار دیا ہے ۔
(3) شریعت اسلامیہ قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم عربی زبان میں ہیں ، لہٰذا شریعت میں عربی زبان کی اہم مسلم ہے ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مراد و مقصود کا فہم زبان عرب کی معرفت پر موقوف ہے ، اس کے بغیر شریعت کے الفاظ کے معانی و مدلولات کو نہیں سمجھا جاسکتا ، اور کتاب وسنت کے معانی بالعموم کلام عرب کے معانی کے موافق ہیں مثال کے طور پر ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فإن التهجد: ما كان بعد نوم . قاله علقمة ، والأسود وإبراهيم النخعي ، وغير واحد وهو المعروف وغير فى لغة العرب . وكذلك ثبتت الأحاديث عن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم: أنه كان يتهجد بعد نومه ، عن ابن عباس ، وعائشة ، وغير واحد من الصحابة رضي الله عنهم
کیونکہ تہجد ہونے کے بعد اٹھنے کو کہتے ہیں ، جیسا کہ علقمہ ، اسود ، ابراہیم مخفی اور دیگر مفسرین نے کہا ہے ، اور لغت عرب میں یہی معروف ہے ۔ اسی طرح ابن عباس ، عائشہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے واسطے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بھی ثابت ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سونے کے بعد اٹھتے تھے ۔ [تفسير ابن كثير 5/ 103 نيز ديكهئے: معالم اصول الفقه عند أهل السنة والجماعة محمد بن حسين جيزاني ص 378 ، جمعه احياء التراث الاسلامي]
چنانچہ اہل علم سے مخفی نہیں کہ علماء اسلام سلف تا خلف اپنی کتابوں میں الفاظ شریعت کی لغوی تشریح کرتے رہے ہیں (اس کی مثالوں سے تفسیر ، شروح احادیث اور فقہ و فتاوی کی کتابیں بھری پڑی ہیں ، شمار سے خارج ہیں )
تاکہ لفظ کا اصل وضع اور معنی و مدلول معلوم ہو سکے ، اور اگر ایسا نہ ہوتا تو جو چاہتا کسی بھی لفظ کا کوئی بھی معنی نکال لیتا ، جیسا کہ اہل بدعت کا شیوہ اور وطیرہ رہا ہے ، اہل علم کی چند تصریحات ملاحظہ فرمائیں:
امامہ شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وإنما بدأت بما وصفت ، من أن القران نزل بلسان العرب دون غيره: لأنه لا يعلم من إيضاح جمل علم الكتاب أحد جهل سعة لسان العرب ، وكثرة وجوهه ، وجماع معانيه وتفرقها . ومن علمه انتفت عنه الشبه التى دخلت على من جهل لسانها [الرسالۃ لشافعي 50/1]
اور میں نے یہ بات اس لئے شروع کی ہے کہ قرآن کریم عرب کی زبان میں اترا ہے کسی اور کی نہیں ؛ کیونکہ کوئی بھی شخص جو زبان عرب کی وسعت ، اس کے پہلووں کی کثرت اور اس کے معانی کے اتحاد و افتراق سے نا واقف ہوگا ، کتاب اللہ کی عبارتوں کی وضاحت سے لا علم ہوگا ۔
اسی طرح امام ابن کثیر رحمہ اللہ کی تفسیر کے بارے میں فرماتے ہیں:
فإن اختلفوا فلا يكون بعضهم حجة على بعض ، ولا على من بعدهم ، ويرجع فى ذلك إلى لغة القرآن أو السنة أو عموم لغة العرب ، أو أقوال الصحابة فى ذلك [تفسير ابن كثيرت سلامة 10/1]
اگر تفسیر میں تابعین مختلف ہوں تو کوئی کسی کے خلاف حجت نہیں ہوگا ، نہ ہی اپنے بعد والوں پر ، اور اس سلسلہ میں قرآن یا سنت کی زبان کی طرف یا عموم زبان عرب کی طرف یا اس بارے میں اقوال صحابہ کی طرف رجوع کیا جائے گا ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والمعرفة لمعاني كتاب الله إنما تؤخذ من هذين الطريقين من أهل التفسير المولوق بهم من السلف ومن اللغة التى نزل القران بما وهى العرب [مجموع الفتاوي 587/6]
کتاب اللہ کے معانی کی معرفت دراصل ان دو طریقوں سے لی جاتی ہے: سلف کے قابل اعتماد علماء تفسیر سے اور اس زبان سے جس میں قرآن کریم اترا ہے ، یعنی زبان عرب سے ۔
نیز فرماتے ہیں:
فمعرفة العربية التى خوطبنا بھا مما يعين على أن نفقه مراد الله ورسوله بكلامه ، وكذلك معرفة دلالة الألفاظ على المعاني ، فإن عامة ضلال أهل البدع كان بهذا السبب ، فإنهم صاروا يحملون كلام الله ورسوله على ما يدعون أنه دال عليه ولا يكون الأمر كذلك [مجموع الفتاوي 116/7]
چنانچہ عربی زبان کی معرفت جس کے ذریعہ میں مخاطب کیا گیا ہے ، ان چیزوں میں سے ہے جس سے ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام سے ان کا مراد و مقصود سمجھنے اور اسی طرح معانی پر الفاظ کی دلالت کی معرفت میں مدد ملتی ہے ؛ کیونکہ بدعتیوں کی عام طور پر گمراہی کا سبب یہی تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو اس چیز پر محمول کرتے تھے جو ان کا دعوی ہوتا تھا کہ وہ اسی چیز پر دلالت کرتا ہے ، جبکہ معاملہ ویسا نہیں ہوتا تھا ۔
اور یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے زبان عرب کے ذریعہ اہل بدعت و انحراف کی بہت سی گمراہیوں کا پردا فاش کیا ہے ، اس بارے میں چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
(1)کلام الہی کے آواز ہونے پر قرآن (لفظ نداء ) سے استدلال ، اور لغت عرب سے اس کا معنی و مدلول واضح کر کے مخالفین کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
هذه الصفة: دل عليها القرآن فإن الله أخبر بمناداته لعباده فى غير آية كقوله تعالى: ﴿وناديناه من جانب الطور الأمن﴾ و ”النداء“ فى لغة العرب هو صوت رفيع ، لا يطلق النداء على ما ليس بصوت لا حقيقة ولا تجارا [مجموع الفتاوي 531/6-530]
اس صفت ”کلام“ پر قرآن کریم دلالت کرتا ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کئی آیتوں میں اپنے بندوں کو پکارنے کی خبر دی ہے ، جیسا کہ ارشاد ہے:
(اور ہم نے انہیں طور کے دائیں جانب سے پکارا ) اور ”نداء“ عربی زبان میں بلند آواز کو کہتے ہیں حقیقی یا مجازی کسی بھی طرح جس میں آواز نہ ہو اسے ”نداء“ نہیں کہا جاتا ۔

(2) عقل کی حقیقت و ماہیت کے سلسلہ میں لغت عرب کے ذریعہ فلاسفہ کی گمرہی بے نقاب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ويراد بالعقل الغريزة التى جعلها الله تعالى فى الإنسان يعقل بھا . وأما أولئك ف العقل عندهم جوهر قائم بنفسه كالعاقل وليس هذا مطابقا للغة الرسل والقران [مجموع الفتاوي 231/11]
عقل سے مراد وہ طبعی و فطری صلاحیت ہے جسے اللہ نے انسان میں رکھا ہے جس سے وہ سمجھتا ہے لیکن فلاسفہ کے یہاں عقل ایک قائم بالذات جو ہر ہے جیسے عقلمند ، اور یہ بات رسولوں اور قرآن کریم کی زبان (عربی) کے مطابق نہیں ہے ! !

(3)زبان عربی کے ذریعہ صوفیوں اور وحدۃ الوجودیوں کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وأما قوله (وهو معكم) فلفظ (مع) لا تقتضي فى لغة العرب أن يكون أحد الشيقين مختلطا بالآخر كقوله تعالى ﴿اتقوا الله وكونوا مع الصادقين﴾ [مجموع الفتاوي 249/11]
رہا فرمان باری ”اور وہ تمہارے ساتھ ہے“ سے استدلال ، تو لفظ مع عربی زبان میں اس بات کا متقاضی نہیں ہے کہ دو چیزوں میں سے ایک دوسرے سے خلط ملط اور ملی ہوئی ہو ، جیسا کہ ارشاد ہے: (اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ )

(4) اسی طرح امامت علی رضی اللہ عنہ کی بابت رافضی ابن المطہر (یہ منہاج الکرامۃ فی معرفۃ الامامۃ ”کا مصنف حسین بن یوسف ابن المطہر جمال الذین الاسدی الحلی رافضی معتزلی ہے ۔ جس کی اور عمومی طور پر تمام روافض کی تردید میں شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے نو جلدوں پر مشتمل اپنی مایہ ناز بے مثال موسوعی كتاب ”منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية“ لکھی شیخ الاسلام رحمہ اللہ اس بد باطن کو ابن المنجس کہتے تھے ، اسی طرح اس کی کتاب ”منہاج الکرامۃ“ کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ منہاج الندامتہ کہے جانے کی مستحق ہے ۔ [منهاج السنه النبوية 21/1 ، والوافي بالوفيات 13/7 ، و54/13] ) کی قرآنی دلیلوں میں سے تیسویں دلیل ﴿مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ ‎١٩‏ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيَانِ ‎٢٠‏ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎٢١‏ يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ﴾ [الرحمن: 19۔ 22]
بحرین سے مراد: فاطمہ وعلی ، برزخ سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، اور لو لو اور مرجان سے مراد: حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو مراد لینے کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
أن تسمية هذين بحرين ، وهذا لؤلوا ، وهذا مرجانا ، وجعل النكاح مرجا أمر لا تحتمله لغة العرب بوجه ، لا حقيقة ولا مجازا ، بل كما أنه كذب على الله وعلى القرآن ، فهو كذب على اللغة [منهاج السنة النبوية 247/7]
ان دونوں (علی و فاطمہ ) کو سمندر ، اور حسن کو موتی اور حسین کو مرجان کا نام دینا اور نکاح کو مرج قرار دینا ، ایسی بات ہے کہ زبان عرب کسی بھی طرح اس کی متحمل نہیں ، حقیقی طور پر نہ ہی مجازی طور پر ، بلکہ یہ بات جس طرح اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ ہے اسی طرح زبان عرب پر بھی جھوٹ ہے ۔
اس لئے اعتراض بجا اور برمحل تو اس وقت ہوتا جب کسی بات کو زبان عرب کی موافقت کے بغیر ثابت کیا جاتا ، مثلاً یہ کہا جاتا کہ ”جاموس“ کو ”بقر“ کے حکم میں مانا درست نہیں ہے ، کیونکہ زبان عرب سے اس کی موافقت و تائید نہیں ہوتی ہے ! جبکہ یہاں مسئلہ اس کے برعکس ہے ، فلینڈ پر ۔
خلاصہ کلام اینکه زبان عرب سے استدلال نصوص شریعت کے فہم کی بنیاد اور اساس ہے جو ایک امر مطلوب ہے نہ کہ باعث عیب ۔ واللہ اعلم

تیسرا اشکال: (گائے اور بھینس میں مغایرت قسم نہ ٹوٹنے کا مسئلہ ):

ایک فقہی فرعی مسئلہ فقہاء حنفیہ نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے ، وہ یہ ہے کہ:
من حلف أن لا يأكل لحم البقر فأكل لحم الجاموس لا يكون حانثا ، وإن حلف بالطلاق لم تطلق زوجته بأكل لحم الجاموس [مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابیح 81/5 والبحر الرائق شرح كنز الدقائق 2/ 232 ، وآءينه تحقيق از مفتي فيض ص 35 ، وفتاوائے فيض ص 161]
جو یہ قسم کھائے کہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا ، پھر بھینس کا گوشت کھا لے تو اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی ، اسی طرح اگر گائے کا گوشت کھانے پر بیوی کی طلاق موقوف کر دے تو بھینس کا گوشت کھانے سے بیوی کو طلاق نہیں ہوگی ۔
ازاله:
(1) پہلی بات یہ ہے کہ یہ مسلہ متفق علیہ نہیں ہے ، بلکہ فقہاء کی ایک جماعت نے اس کے بر خلاف قسم کی مذکورہ صورتوں میں حانث ہونے یعنی قسم ٹوٹ جانے کی صراحت فرمائی ہے ، بطور مثال ملاحظہ فرمائیں:
الف: علامہ ابن النجیم حنفی فرماتے ہیں:
ولو حلف لا يأكل لحم بقرة فأكل لحم الجاموس يحنث لا فى عكسه لأنه نوع لا يتناول الأعم [النهر الفائق شرح كنز الدقائق 3/ 79]
اگر کوئی قسم کھائے کہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا ، اور بھینس کا گوشت کھا لے تو حانث ہو جائے گا لیکن اس کے برعکس میں نہیں ، کیونکہ بھینس نوع ہے اعم کو شامل نہیں ہوگا ۔

ب: علامه داماد افندی حنفی مزید وضاحت سے فرماتے ہیں:
وفي الخانية: لو حلف أن لا يأكل لحم البقر فأكل لحم الجاموس أو بالعكس حيث ، قال بعضهم: لا يكون حانثا ، وقال بعضهم: إن حلف أن لا يأكل لحم
البقر فأكل لحم الجاموس حنث ، وبالعكس لا يحنث ، وهذا أصح
[مجمع الأنہرفی فى شرح ملتقى الأبحر 1 / 559]
خانیہ میں ہے کہ: اگر قسم کھائے کہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا ، اور بھینس کا گوشت کھا لے ، یا اس کے برعکس (یعنی بھینس نہ کھانے کی قسم کھا کر گائے کا گوشت کھا لے ) تو دونوں صورتوں میں حانث ہو جائے گا ، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ حانث نہیں ہوگا ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ: اگر قسم کھائے کہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا ، اور بھینس کا گوشت کھالے تو حانث ہو جائے گا لیکن اس کے برعکس میں حانث نہیں ہوگا ، اور صحیح ترین بات یہی ہے ۔

ج: امام ابو محمد بغوی شافعی فرماتے ہیں:
ولو حلف لا يأكل لحم البقر ، فأكل لحم الجاموس يحنث [التہذيب فى فقه الامام الشافعي 127/8]
اگر قسم کھائے کہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا ، اور بھینس کا گوشت کھالے تو حانث ہو جائے گا ۔

د: امام احمد ابن الرفعہ فرماتے ہیں:
لو حلف لا يأكل لحم البقر ، فأكل لحم الجاموس ، حنث [كفايۃ التنبیہ فى شرح التنبيه 461/14]
اگر قسم کھائے کہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا ، اور بھینس کا گوشت کھالے تو حانث ہو جائے گا ۔

ھ: علامہ عبد الرحمن جزیری فرماتے ہیں:
وإذا حلف لا يأكل لحم بقر فإنه يحنث إذا أكله أو أكل لحم الجاموس [الفقه على المذاهب الأربعة 97/2]
اگر گائے کا گوشت نہ کھانے کی قسم کھائے تو گائے یا بھینس کا گوشت کھانے سے حانث ہو جائے گا ۔

(2) دوسری بات یہ ہے کہ جن علماء وفقہاء نے عدم حنث یعنی قسم نہ ٹوٹنے کی بات کہی ہے انہوں نے گائے اور بھینس میں مغایرت نہیں بلکہ مجانست ثابت کرتے ہوئے محض قسم کے باب میں عرف وعادت کے اعتبار سے کہی ہے ، چنانچہ بطور مثال اہل علم کی صراحت ملاحظہ فرمائیں:
الف: علامہ مرغینانی فرماتے ہیں:
والجواميس والبقر سواء ، لأن اسم البقر يتناولهما ، إذ هو نوع منه إلا أن أوهام الناس لا تسبق إليه فى ديارنا لقلته ، فلذلك لا يحنث به فى يمينه: لا يأكل لحم بقر ، والله أعلم [الہداية فى شرح بداية المبتدي 98/1]
بھینسیں اور گائیں برابر ہیں ، کیونکہ گائے کا نام دونوں کو شامل ہے ، اس لئے کہ بھینس اس کی نوع ہے ، البتہ ہمارے علاقہ میں بھینس کی قلت کے سبب لوگوں کے ذہن اس طرف نہیں جاتے ، اور اسی لئے گائے کا گوشت نہ کھانے کی قسم کھانے والا بھینس کا گوشت کھانے سے حانث نہیں ہوگا ، واللہ اعلم ۔

ب: علامہ ابن نجیم مصری حنفی فرماتے ہیں:
ولو حلف لا يأكل لحم بقرة لم يحنث بأكل لحم الجاموس لأنه ، وإن كان بقرا حتى يعد فى نصاب البقر ، ولكن خرج من اليمين يتعارف الناس [البحر الرائق شرح كنز الدقائق مع مخته الخالق وتكملة الطوري 348/4]
اگر قسم کھائے کہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا تو بھینس کا گوشت کھانے سے حانث نہیں ہوگا؟
کیونکہ گرچہ بھینس گائے ہے حتی کہ اسے گائے کے نصاب میں شمار کیا جاتا ہے لیکن لوگوں کے تعارف کے سبب وہ قسم سے خارج ہے ۔

ج: اسی طرح گائے اور بھینس کے حکم کی یکسانیت کے خلاف قسم کے باب میں حانث ہونے کا اعتراض رفع کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ولا يرد عليه ما إذا حلف لا يأكل لحم البقر فأكله فإنه لا يحنث كما فى الهداية لأن أوهام الناس لا تسبق إليه فى ديارنا لقلته ولهذا لو حلف لا يشتري بقرا فاشترى جاموسا يحنث بخلاف البقر الوحشي [البحر الرائق شرح كنز الدقائق 2/ 232 نيز ديكهئے: در احكام شرح غرر الأحكام 1 / 176]
اور اس پر یہ اعتراض وارد نہیں ہوتا کہ اگر کوئی قسم کھائے کہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا ، اور بھینس کھالے تو حانث نہیں ہوگا ، جیسا کہ ہدایہ میں ہے ، کیونکہ ہمارے ملک میں اس کی قلت کے سبب لوگوں کے خیالات اس طرف نہیں جاتے ۔ آگے لکھتے ہیں: اسی لئے اگر کوئی قسم کھائے کہ گائے نہیں خریدے گا اور بھینس خرید لے تو حانث ہو جائے گا ، بر خلاف وحشی گائے کے ۔

د: علامہ بدر الدین عینی حنفی لکھتے ہیں:
والجواميس والبقر سواء لأنها نوع منه ، فتتناولهما النصوص الواردة باسم البقر ، بخلاف ما إذا حلف لا يأكل لحم البقر ، حيث لا يحنث بأكل الجاموس ، لأن مبنى الأيمان على العرف وفي العادة أوهام الناس لا يسبق إليه [منحته السلوك فى شرح تحفة الملوك ص: 227 ، وتبيين الحقائق شرح كنز الدقائق 263/1 ، والبناية شرح الهداية 329/3]
بھینسیں اور گائیں برابر ہیں ، کیونکہ بھینس اس کی نوع ہے ، لہٰذا گائے کے نام سے وارد نصوص دونوں کو شامل ہیں ، برخلاف اس مسئلہ کے کہ اگر کوئی گائے کا گوشت نہ کھانے کی قسم کھالے تو بھینس کا گوشت کھانے سے حانث نہیں ہوتا ، کیونکہ قسمیں عرف پر مبنی ہوتی ہیں ، اور عام طور پر لوگوں کے ذہن بھینس کی طرف نہیں جاتے ۔

ھ: علامہ عبد الغنی ومشقی فرماتے ہیں:
والجواميس والبقر سواء لاتحاد الجنسية إذ هو نوع منه ، وإنما لم يحنث بأكل الجاموس إذا حلف لا يأكل لحم البقر لعدم العرف [اللباب فى شرح الكتاب 142/1]
جنس کی یکسانیت کی وجہ سے بھینسیں اور گائیں برابر ہیں ، کیونکہ بھینس اس کی ایک قسم ہے ، البتہ گائے کا گوشت نہ کھانے کی قسم کھا کر بھینس کے گوشت کھانے سے حانث اس لئے نہیں ہوا کہ عرف نہیں ہے ۔

(3) قسم کا باب دیگر ابواب مثلاًً عبادات وغیرہ کے ابواب سے مختلف ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے اہل علم نے گائے اور بھینس کے حکم کی یکسانیت کے باوجود قسم کے باب میں اس مسئلہ کی علیحدہ خصوصی وضاحت فرمائی ہے کہ:
لأن مبنى الأيمان على العرف [منحته السلوك فى شرح تحفة الملوک ص: 227 ، والاختيار لتعليل المختار 67/4 وتبیين الحقائق شرح كنز الدقائق و ماشية الشلبی 263/1 ، والبناية شرح الہداية 3 / 329 ، و شرح السير الكبير ص: 814]
کیونکہ قسموں کی بنیاد (دارومدار ) عرف پر ہے ۔
چنانچہ علامہ ابو بکر زبیدی یمینی بڑی صراحت سے فرماتے ہیں:
(والجواميس والبقر سواء يعني فى الزكاة والأضحية واعتبار الربا أما فى الأيمان إذا حلف لا يأكل لحم البقر لم يحنث بالجاموس لعدم العرف وقلته فى بلادنا فلم يتناوله اليمين حتى لو كثر فى موضع ينبغي أن يحنث [الجوهرة النيرة على مختصر القدوري 118/1]
بھینسیں اور گائیں برابر ہیں ۔ یعنی زکاۃ قربانی اور سود کے اعتبار میں ، رہا مسئلہ قسموں کا کہ اگر: قسم کھائے کہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا ، تو بھینس کا گوشت کھانے سے حانث نہیں ہوگا ، تو یہ عرف نہ ہونے اور ہمارے ملک میں بھینس کی قلت کی وجہ سے ہے ، اس لئے قسم بھینسوں کو شامل نہ ہوا ، ہاں اگر کسی جگہ کثرت سے پائی جائیں تو حانث ہونا ہی مناسب ہے ۔

(4) اصول و ضوابط کی روشنی میں صرف صحیح کا شریعت میں اعتبار ہے ، چنانچہ استاذ دکتور محمد مصطفی الزحیلی ، عرف کی حجیت و حیثیت کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:
يتفق الأئمة عمليا على اعتبار العرف الصحيح حجة ودليلا شرعيا . . . العرف الصحيح يعتبر دليلا شرعيا وحجة للأحكام عند فقد النص والإجماع ، وقد يقدم على القياس وإن الأحكام المبنية على العرف تتغير بتغير الأعراف [الوجيز فى أصول الفقه الاسلامي 1/ 266-269]
ائمہ عملی طور پر صحیح عرف کو حجت اور شرعی دلیل ماننے پر متفق ہیں ۔ نص اور اجماع کے فقدان کی صورت میں صحیح عرف احکام کے لئے شرعی دلیل اور حجت مانا جاتا ہے ، اور بسا اوقات اسے قیاس پر مقدم کیا جاتا ہے ۔ اور عرف پر مبنی احکام اعراف کے تبدیل ہونے سے تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ واللہ اعلم

چوتھا اشکال: (اجماع سے استدلال):

محض اجماع کی بنیاد پر بھینس کو گائے کے جنس کی نوع قرار دینا درست نہیں ! اور بھینس کی قربانی پر اجماع کا دعوی محل نظر بلکہ قطعی غلط ہے تحقیقی بات یہ ہے کہ اس کی قربانی ناجائز ہے ! !
ازاله:
(1)محض اجماع کی بنیاد پر نہ تو بھینس کو گائے کی نوع قرار دیا گیا ہے ، نہ ہی قربانی ثابت کی گئی ہے ، بلکہ در حقیقت بھینس کے گائے کی نوع ہونے پر علما لغت ، علماء فقہ علماء حدیث اور علماء ، فتاوی کی واضح تصریحات موجود ہیں ، جیسا کہ گزر چکا ہے ، اور انہی بنیادوں پر گائے اور بھینس کے حکم کی یکسانیت پر علماء کا اجماع قرار پایا ہے ، اور تاریخ کے ادوار میں یکساں طور پر دونوں میں زکاۃ کا وجوب اور قربانی کا جواز رہا ہے ۔

(2)بھینس کی قربانی پر نہیں ، بلکہ بھینس اور گائے دونوں کے شرعی حکم کی یکسانیت پر انہی معتبر علماء کا اجماع ثابت ہے شریعت کے دیگر مسائل میں جن کے اجتماعات پر امت کا اعتماد و اعتبار رہا ہے ، جیسا کہ گذر چکا ہے ، اور زکاۃ و قربانی کے حکم میں تفریق کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔

(3)اجماع کوئی غیر مستند یا نا قابل اعتبار اور معمولی امر نہیں ہے ، بلکہ اجماع امت حق اور حجت شرعیہ ہے ، شریعت کے متفق علیہ مصادر میں سے ایک مصدر ہے ، اس کی اتباع کرنا اور اسے اپنانا واجب ہے ، اور اس کی حجیت عقل و منطق سے نہیں بلکہ خود دلائل شرعیہ سے ثابت ہے ، جیسا کہ اہل تحقیق نے تصریح فرمائی ہے ۔ [بطور مثال ديكهئے: معالم اصول الفقه عند اهل السنه والجماعه ، از محمد بن حسين جيزاني ، ص 182-184 ، نيز ديكهئے: الوجيز فى اصول الفقه الاسلامي از دكتور محمد مصطفي الزحيلي 1 / 227-236]

چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اجماع کی جیت کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: جو ان علماء محققین میں سے ہے جنہوں نے گائے اور بھینس کا حکم یکساں بتلایا ہے اور اس سلسلہ میں امام ابن المنذر رحمہ اللہ کا اجماع بھی نقل فرمایا ہے ۔ [مجموع الفتاوي 37/25]
وأما إجماع الأمة فهو فى نفسه حق لا تجتمع الأمة على ضلالة [مجموع الفتاوی 176/19 ، و267/19 و 270/19]
رہا امت کا اجماع تو وہ بذات خود حق ہے ، امت گمراہی پر اکٹھا نہیں ہو سکتی ۔
نیز فرماتے ہیں:
معنى الإجماع: أن تجتمع علماء المسلمين على حكم من الأحكام ، وإذا ثبت إجماع الأمة على حكم من الأحكام لم يكن لأحد أن يخرج عن إجماعهم فإن الأمة لا تجتمع على ضلالة [مجموع الفتاوي 10/20]
اجماع کا معنی یہ ہے کہ مسلمانوں کے علماء احکام میں سے کسی حکم پر اکٹھا اور متفق ہو جائیں ۔ اور جب احکام میں سے کسی حکم پر امت کا اجماع ثابت ہو جائے تو کسی کے لئے ان کے اجماع سے نکلنے کا اختیار نہیں کیونکہ امت گمراہی پر اتفاق نہیں کرسکتی ۔
اسی طرح اجماع کی حجیت بیان کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں:
فعصم الله أمته أن تجتمع على ضلالة ، وجعل فيها من تقوم به الحجة إلى یوم القيامة ، ولهذا كان إجماعهم حجة كما كان الكتاب والسنة حجة [مجموع الفتاوي 368/3]
اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو ضلالت و گمرہی پر اکٹھا ہونے سے محفوظ رکھا ہے ، اور امت میں ایسے لوگوں کو رکھا ہے جن سے قیامت تک حجت قائم ہوتی رہے گی ، اور اسی لئے اُن کا اجماع اسی طرح حجت ہے جس طرح کتاب وسنت حجت ہیں ۔ اسی طرح غیر منازع اجماع کی مخالفت کی سنگینی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وهذه الآية أى ﴿ومن يشاقق الرسول . . .﴾ تدل على أن إجماع المؤمنين حجة من جهة أن مخالفتهم مستلزمة لمخالفة الرسول وأن كل ما أجمعوا عليه فلا بد أن يكون فيه نص عن الرسول ، فكل مسألة يقطع فيها بالإجماع وبالتقاء المنازع من المؤمنين فإنها مما بين الله فيه الهدى ، ومخالف مثل هذا الإجماع يكفر كما يكفر خالف النص البين [مجموع الفتاوي 38/7]
یہ آیت کریم (ومن یشاقق الرسول ۔ ۔ ۔ ) اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مومنوں کا اجماع اس حیثیت سے حجت ہے کہ ان کی مخالفت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کو مستلزم ہے ، اور یہ کہ ہر مسئلہ جس میں ان کا اجماع ہے ، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نص ہونا ناگزیر ہے ، لہٰذا ہر مسئلہ جس میں قطعی طور پر اجماع ہو اور مومنوں میں سے کوئی منازع نہ ہو ، وہ ان مسائل میں سے ہے جن میں اللہ نے ہدایت ظاہر فرمادی ہے ، اور اس جیسے اجماع کا مخالف ویسے ہی کافر ہو جائے گا جیسے واضح اور بین نص کا مخالف کافر ہو جائے گا !
اس لئے بھینس کے گائے کی نوع ہونے اور دونوں کے حکم کی یکسانیت پر امت کے علماء لغت عرب اور علماء شریعت مفسرین محدثین اور فقہاء و مجتہدین کا اجماع نا قابل تردید ہے اس کا رد و انکار ممکن نہیں ۔

(4) بھینس اور گائے کے اتحاد جنس اور حکم کی یکسانیت پر نقل کردہ علماء امت کے اجماع کے سلسلہ میں امام اہل السنتہ امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کے قول:
من ادعى الإجماع فهو كاذب (جو اجماع کا دعوی کرے وہ جھوٹا ہے ) [مسائل الامام احمد بروايت عبدالله بن احمد بن حنبل ص: 439 فقره: 1587]
سے بھی کوئی تشویش نہیں ہونی چاہئے ، کیونکہ امام موصوف رحمہ اللہ خود اجتماع کی حجیت اور اس کے ایک مصدر شریعت ہونے کے قائل تھے ، اور متعدد مسائل میں انہوں نے اجماع نقل بھی کیا ہے ، لہٰذا اس قول کا مقصود اجماع کی عدم حجیت ، یا استبعاد وجود نہیں ہے ، بلکہ اہل علم کی توضیحات کی روشنی میں اس قول کے حسب ذیل کئی محمل ہیں:
(1) یہ بات امام احمد رحمہ اللہ نے تورعاً و احتیاطاً کہی ہے ، یعنی اجماع کے سلسلہ میں محتاط ہونا چاہئے کیونکہ ہو سکتا ہے کوئی اختلاف ہو جس سے مدعی کو واقفیت نہ ہو ۔
(2) یہ بات ان لوگوں کے حق میں کہی ہے جنہیں مسائل میں سلف کے اختلافات کا صحیح اور وسیع علم نہ ہو ، لہٰذا اجماع نقل کرنے میں احتیاط و تثبت درکار ہے ، جیسا کہ اگلے جملے سے معلوم ہوتا ہے ، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لعل الناس اختلفوا ما يدريه ، ولم ينته إليه؟ فليقل: لا نعلم الناس اختلفوا
شاید لوگوں نے اختلاف کیا ہو ، اسے علم نہ ہو ، اسے وہاں تک رسائی نہ ہو سکی ہو؟ لہٰذا یہ کہنا چاہئے: کہ ہمیں معلوم نہیں کہ اس میں لوگوں کا اختلاف ہے ۔ [إعلام الموقعين عن رب العالمين 24/1 ، و 175/2 ومختصر الصواعق المرسلۃ على الجہمية والمعطلية ص: 611 نيز ديكهئے: مجموع الفتاوي 271/19 ، و 136/33 ، وامنح الثافيات بشرح مفردات الامام أحمد 24/1]
(3) امام احمد اور دیگر علماء حدیث رحمہم اللہ کا سابقہ بشر ، ابن حلیہ اور ان جیسے دیگر اہل کلام اور عقلانیوں سے تھا جو احادیث کے خلاف لوگوں کے اجماع بیان کر کے احادیث کو رد کیا کرتے تھے لہٰذا انہوں نے واضح کیا کہ یہ دعوی جھوٹا ہے ، اور اس قسم کی باتوں سے سنتیں رد نہیں کی جاسکتیں ۔ اس کا مقصد اجماع کے وجود کا استبعاد نہیں ہے ، واللہ اعلم ۔ [مختصر الصواعق المرسلية على الجہمية والمعطلة ص: 612 ، والفتاوي الكبري لابن تيمية 6/ 286 ، نيز ديكهئے: معالم اصول الفقه عند اهل السنة والجماعۃ ، ازمحمد حسین جيزاني ص 169-170]

پانچواں اشکال: (بھینس کی عجمیت اور لغت عرب کا تعارض ):

بھینس کے لئے ”الجاموس“ کا لفظ عربی نہیں ہے اور بھینس عرب کا جانور بھی نہیں ہے لہٰذا اس کی حقیقت و ماہیت کے لئے لغت عرب سے استدلال درست نہیں ، عربوں کو عجمی جانور (بھینس) کے بارے میں کیا معلوم ہو سکتا ہے؟
ازاله:
(1) بلاشبه لفظ ”الجاموس“ عربی لفظ نہیں بلکہ فارسی معرب ہے ، اور قرآن کو سنت میں کہیں وارد نہیں ہوا ہے لیکن اس کے علاوہ دیگر متعدد الفاظ جو اصلا غیر عربی ہیں لیکن قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں ۔ چنانچہ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے سلف سے نقل کیا ہے کہ قرآن کریم میں متعدد زبانوں کے غیر عربی الاصل الفاظ بھی ہیں ، اور یہی بات واقع کے مطابق بھی ہے ، چنانچہ فرماتے ہیں:
عن أبى ميسرة ، قال: فى القرآن من كل لسان [تفسير الطبري 14/1]
ابو میسرہ کہتے ہیں: کہ قرآن میں ہر زبان کے الفاظ ہیں ۔
ان الفاظ کے معانی و مفاہیم کے لئے لغت عرب ہی استدلال کیا جاتا ہے ، تو لفظ ”الجاموس“ ہی سے آخر کیا بیر ہے کہ اس کی ماہیت کے لئے لغت عرب سے احتجاج درست نہیں ہے؟
اختصار کے پیش نظر صرف ایک مثال پر اکتفا کرتا ہوں:
معرب فارسی لفظ ”الجاموس“ کی طرح قرآن کریم میں وارد لفظ ”سجیل“ بھی فارسی زبان کا لفظ ہے اور ”گاؤ میش“ کی طرح دو فارسی الفاظ کا ایک معرب لفظ ہے ، جیسا کہ مفسرین نے علماء لغت عرب سے نقل کیا ہے ، چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سجيل وهى بالفارسية حجارة من طين ، قاله ابن عباس وغيره . وقال بعضهم: أى من سنك وهو الحجر ، وكل وهو الطين [تفسير ابن كثير 340/4 ، وتفسیر الطبري 14/1 نيز ديكهئے: جامع فيروز اللغات ص: 1100 ۔ 813]
”سجیل“ فارسی لفظ ہے جس کے معنی گارے کے پتھر کے ہیں ، یہ بات ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے کہی ہے ، اور بعض نے کہا ہے کہ یہ فارسی لفظ ”سنگ وکل“ یعنی ”سنگ وگل“ (پتھر اور گیلی مٹی ، گارا) سے معرب ہے ۔

اور ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
أنهما كلمتان بالفارسية ، جعلتهما العرب كلمة واحدة ، وإنما هو سنج وحل يعني بالسنج: الحجر ، والحل الطين [تفسير ابن كثير تحقيق سامي سلامتة 487/8]
یہ دونوں فارسی الفاظ ہیں جنہیں عربوں نے ایک لفظ بنا دیا ہے ، دراصل یہ ”سنگ اور گل“ ہے ، سنگ کے معنی پتھر اور گل کے معنی گارا اور گیلی مٹی ہے ۔
اور ”سجیل“ کے بارے میں یہ ساری باتیں تمام علماء لغت کے یہاں موجود ہیں ، جہاں سے علماء مفسرین نے اخذ فرمایا ہے ، چنانچہ ابن منظور دمشقی لکھتے ہیں:
معرب دخيل ، وهو سنك وكل أى حجارة وطين . . . وقال أهل اللغة: هذا فارسي والعرب لا تعرف هذا . . . ومن كلام الفرس ما لا يحصى مما قد أعربته العرب نحو جاموس وديباج [لسان العرب 327/11 نيز ديكهئے تهذيب اللغه 10 / 309 والمنتخب من كلام العرب ص: 600 ، ومجمل اللغۃ بن فارس ص: 487 ، والحكم والمحيط الأعظم 274/7 والكلمات ص: 520 ص: 959 ، وتاج العروس 29/ 179 ، والابائنۃ اللغة العربية 1 / 102]
”سجیل“ غیر عربی لفظ ہے ، جسے عربی زبان میں ڈھالا گیا ، اور وہ ہے سنگ اور گل ، یعنی پتھر اور گارا ۔ ۔ ۔ اور اہل لغت نے کہا ہے کہ یہ فارسی لفظ ہے ، عرب اسے نہیں جانتے ہیں ۔ اور فارسیوں کے بے شمار الفاظ ہیں جنہیں عربوں نے عربی زبان میں ڈھالا ہے ، جیسے ”جاموس“ بھینس اور ”دیباج“ (ریشم)۔
اسی طرح ”مقالید“ بھی فارسی لفظ ہے جس کے معنی کنجی کے ہیں ۔ [تفسير ابن كثير 112/7]
نیز ”المرجان“ بھی فارسی لفظ ہے ، جس کے معنی سرخ منکے کے ہیں ۔ [تفسير ابن كثير 493/7]
اسی طرح قرآن کریم میں دیگر زبانوں کے متعدد معرب الفاظ مستعمل ہیں ، مثلا مشكاة ، الیم ، الطور ، أباريق ، استبرق ، القسطاس ، الغساق وغیره ۔ [في التعريب والمعرب معروف بحاشيه ابن بري ص: 20 نيز ديكهئے: دراسات فى فقه الغته ص: 316: اور عجمي زبانوں كے الفاظ كي تعريب اور اس كي مزيد مثالوں كي وضاحت كے لئے ملاحظه فرمائيں: ال، خصص 221/4 -224]

(2) رہا مسئلہ یہ کہ عربوں کو عجمی جانور (بھینس) کے بارے میں کیا معلوم ہوگا؟ تو واضح رہے کہ عرب یا عربی ہونا الگ بات ہے اور ماہر لغت عرب ہونا الگ بات ہے ، چنانچہ علم لغت عرب کی مہارت اور اصول لغت میں گیرائی ایک غیر عربی یعنی عجمی کو بھی ہوسکتی ہے ، ضروری نہیں کہ لغت عرب کا ماہر عربی الاصل والنسل ہی ہو ، اور الحمد اللہ علماء لغت کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جو اصل ونسل کے اعتبار سے عجمی ہونے کے باوصف زبان عرب میں ماہر فن ہی نہیں بلکہ امامت کا درجہ رکھتی ہے ، لہٰذا ایک طرف وہ عجمی ہونے کے سبب ”گاؤ میش“ (بھینس) کی اصلیت و ماہیت سے بھی اچھی طرح واقف ہیں اور دوسری طرف لغت عرب میں امامت کے سب ”گاؤ میش“ کی تعریب ”الجاموس“ اور اس کے جنس ”بقر“ (گائے ) کی نوع اور نسل ہونے سے بھی آگاہ ہیں ، بطور مثال بعض ائمہ لغت عرب کے اسماء گرامی ملاحظہ فرمائیں ، جو عجمی الاصل والنسل ہیں ، اور عرب و عجم سے خوب واقف ہیں:
(1) ادیب لغوی علامہ ابو منصور محمد بن احمد بن الازہر بن طلحہ بن نوح بن الا زہر بن نوح بن حاتم الازہری الہروی الشافعی رحمہ اللہ [282-370 هـ مطابق 895-980] ان کی ولادت خراسان کے علاقہ ہرات میں ہوئی ، آغاز میں فقہ کی طرف توجہ تھی ، پھر عربی زبان و ادب کے علم کا شوق غالب ہوا ، چنانچہ اس کے حصول میں کئی سفر کئے ، قبائل اور ان کے احوال کے سلسلہ میں وسیع علم حاصل کیا ، بیع الآخر میں ہرات ہی میں ان کی وفات ہوئی ۔
ان کی مشہور تصانیف میں تہذیب اللغۃ ہے جو دس زیادہ جلدوں پر محیط ہے ، اسی طرح التقريب فى التفسير ، الزاہر فى غرائب الالفاظ ، علل القراءات ، وكتاب فى اخبار يزيد بن معاویہ وغیرہ بکتابیں ہیں ۔ [معجم المولقين از عمر رضا كحاله 230/8]

(2) نحو ، لغت ، اشعار ، عرب کے حادثات و وقائع اور ان سے متعلقہ امور کے عالم ، علامہ ابو الحسن علی بن اسماعیل اندلسی ، مرسی معروف ہه ابن سیده (نابینا) رحمہ الله [398 – 458 مطابق 1007-1066]
آپ کی ولادت (اسپین کے شہر ) مرسیہ میں ہوئی ، اور چھبیس ربیع الاآخر کو دانیہ میں وفات پائے ۔
آپ کی مشہور تصانیف میں ”المحکم والمحیط الاعظم في الغة العرب“ جو حروف معجم کی ترتیب سے بارہ جلدوں پر محیط ہے ، اسی طرح الانیق فی شرح الحماسة ، الوافی فی علم القوافی ، شرح الطلاق المنطق ، وكتاب العالم فی اللغۃ ، وغیرہ ہیں ۔ [معجم المؤافين 7/ 36]

(3) معروف لغوی اور دیگر علوم کے ماہر علامہ ابو الطاہر مجد الدین محمد بن یعقوب بن محمد بن ابراهیم فیروز آبادی شیرازی شافعی رحمہ اللہ [729 – 817 ھ 1329 -1414]
آپ کی ولادت (ایران کے شہر) کازرون میں ہوئی اور وہیں پرورش پائے ، پھر شیراز (ایران کے صوبہ فارس کا ایک شہر) منتقل ہوئے اور وہاں اپنے والد اور شیراز کے دیگر علماء سے عربی زبان و ادب کا علم حاصل کیا ، اور پھر عراق جاکر وہاں کے علماء سے علم حاصل کیا ، پھر قاہرہ تشریف لے گئے اور وہاں کے علماء سے علم حاصل کیا ، اسی طرح روم ، ہندوستان و غیر بھی تشریف لے گئے ، پھر زبید گئے اور وہاں بیس سال گزار دیا ، اور بیس شوال کی شب میں وہیں آپ کی وفات ہوئی ۔
آپ کی مشہور تصانیف میں القاموس المحیط والقابوس الوسیط اور البلاغتہ فی ترجمۃ ائتہ النحاة واللغۃ وغیرہ ہیں ۔ [معجم المؤلفين 118/12]

(4) معروب ادیب ، لغوی ، خوشخط علامہ ابو نصر اسماعیل بن حمد جو ہری فارابی رحمہ اللہ [وفات 393ھ مطابق 1003]
یه اصلا ملک ترک کے علاقہ فاراب (موجودہ کزاخستان کا ایک شہر) کے ہیں ، پھر عراق کا سفر کیا اور وہاں ابو علی فارسی اور ابو سعید سیرافی سے عربی پڑھا ، پھر حجاز کا سفر کیا ، وہاں ربیعہ اور مضر وغیرہ کے علاقوں کی سیر کی ، اور حصول علم میں سخت جانفشانی کا ثبوت دیا ، اور خراسان واپس لوٹ آئے ، پھر وہاں سے نیسابور چلے گئے ، اور عمر کے آخری مرحلہ تک وہیں تدریس ، تصنیف اور کتابت وغیرہ میں مشغول رہے ، یہاں تک کہ وہیں وفات پائے ۔
آپ کی مشہور تصانیف میں: ستاج اللغۃ وصحاح العربية ، کتاب المقدمة فی النحو ، اور کتاب فی العروض ، وغیرہ ہیں ۔ [معجم المؤلفین 2/ 267]
الحاصل اینکہ یہ لغت عرب کے ماہرین میں جو غیر عرب ہیں ، اور ان علاقوں کے ہیں جہاں بھینس پائی جاتی تھیں ، لہٰذا انہیں جاموس اور بقر میں یکسانیت اور اتحاد جنس کا بخوبی علم ہے اور ان کی تصریحات بلاشبہ معتبر ہیں بالخصوص جب کہ اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ۔ واللہ اعلم

چھٹا اشکال: (تعارض بین اللغة والشرع ):

علماء لغت نے بھینس کو گائے کی جنس کی ایک نوع کہا ہے لیکن شریعت میں بھینس کا ذکر نہیں ہے ، لہٰذا لغت اور شریعت میں تعارض ہے ، اور ایسی صورت میں شریعت کو مقدم کیا جائے گا اور لغت کے مدلول کو رد کر دیا جائے گا ! !
ازاله:

(1) شریعت میں بھینس کے لفظ کا ذکر نہیں ہے ، البتہ البقر یعنی گائے کا ذکر موجود ہے اور اس میں کسی بھی نوع ونسل ، رنگ و شکل اور نام ولقب کی تحدید نہیں ہے ، بلکہ بقر عام ہے ، اب باعتبار لغت و شرع جس پر بھی بقر کا اطلاق ہو وہ اس حکم میں داخل ہے ۔

(2) ”لغت و شرع کے مابین اختلاف و تعارض اور ترجیح وتقدیم“ کا مذکور د قائد مسلم ہے ، اس سے ادنی اختلاف نہیں لیکن زیر بحث مسئلہ میں صورت حال بالکل بر عکس ہے ، یعنی لغت و شرع میں اختلاف و تعارض نہیں ، بلکہ بالکلیہ مطابقت اور یکسانیت ہے ، اور الحمدللہ بھینس کے گائے کی نوع ہونے کے سلسلہ میں جو تصریحات بلا اختلاف علماء لغت نے کی ہیں ، بعینہ وہی تصریحات علماء شرع مفسرین محدثمین ، فقہاء امت اور ائمہ اجتہاد و فتاوی نے کی ہیں ، اور سلف امت کی تاریخ کے ادوار میں بھینس اور گائے کا حکم شرعی مسائل زکاة و قربانی میں یکساں رہا ہے ۔ اگر واقعی کہیں لغت و شرع کا تعارض ہوتا تو امناء شریعت سے کہیں نہ کہیں ضرور نقل کیا جاتا اور کتابوں میں مندرج و مسبحوت ہوتا ۔ واللہ اعلم

ساتواں اشکال: (بقر کا اطلاق و تقیید ):

بھینس کی قربانی جائز نہیں ، کیونکہ بھینس مطلق گائے نہیں ہے ، بلکہ اسے عربی میں ”ضان البقر“ اور فارسی میں گاؤ میش کہتے ہیں ، جس کی تعریب ”جاموس“ سے کی گئی ہے جبکہ قربانی کے لئے بلا قید مطلق گائے ہونا ضروری ہے ! !
ازاله:

(1) شرعی احکام میں الفاظ و مبانی سے زیادہ مدلولات و معانی کا اعتبار ہے ، گائے کی نوع بھینس کا انکشاف ہونے کے بعد اسے دیکھ کر عربوں نے ظاہری شباہت کے اعتبار سے جو نام دیا وہ مطلق ہے یا مقید ، شریعت کو اس سے بحث نہیں ہے ، یہ تو تسمیہ و تلقیب سے تعلق رکھتا ہے ،
اصل مطلو ب تو مسمٰی بہ ، اس کی حقیقت اور حکم ہے ، بحث اس امر سے ہے کہ اس جانور پر علماء شریعت نے جو حکم منطبق کیا وہ کیا ہے؟ اور تصریحات گزر چکی ہیں کہ علماء امت نے مطلق اور مقید دونوں ناموں کی گایوں کا حکم یکساں رکھا ہے ۔

(2) نام کے اطلاق و تقیید کا یہ نکتہ سلف امت کے سامنے بھی تھاکیونکہ انہوں نے اس مقید نام کی خود صراحت کی ہے اور ساتھ ہی گائے اور بھینس کا حکم یکساں قرار دیا ہے ، کما تقدم لٰہذا نام کے مطلق و مقید ہونے کا اعتبار نہیں ، اس سے حکم متاثر نہیں ہوتا ۔

(3) جس طرح گائے کی نوع بھینس کو عربوں نے ”ضان البقر“ کا مقید نام دیا ہے ، اسی طرح اونٹ وغیرہ دیگر انواع کو بھی انہوں نے ”ضان“ سے مقید نام دیا ہے ، مثلاًً بختی اونٹ کو ”ضان الابل“ کہتا کرتے تھے ، جیسا اہل علم نے صراحت کی ہے ، حیوانات کی حقیقت و ماہیت اور ان کے انواع و اقسام اور نسلوں کے ماہر علامہ جاحظ بصری فرماتے ہیں:
والجواميس عندهم ضأن البقر ، والبخت عندهم ضأن الابل، والبراذين عندهم ضأن الخيل [الحيوان 100/1 و 244/5]
بھینسیں ان کے یہاں گائے مینڈھا بختی ان کے یہاں اونٹ مینڈھا اور ٹٹوان کے یہاں گھوڑ امینڈھائیں ۔
اسی طرح علامہ عبد اللہ بن قتیبہ دینوری عیون الاخبار میں لکھتے ہیں:
ويقال: الجواميس ضأن البقر ، والبحث ضأن الإبل ، والبراذين ضأن الخيل … [عيون الأخبار 2/ 87]
بھیسوں کو گائے مینڈھا بختی (خراسانی) اونٹوں کو اونٹ مینڈھا اور ٹٹوؤں کو گھوڑا مینڈھا کہا جاتا ہے ۔ ۔ ۔
بعینہ یہی بات ”العقد الفرید“ میں علامہ محمد احمد المعروف بابن عبدربہ نے بھی کہی ہے ۔ [العقد الفريد 263/7]
علامہ ابو الفضل احمد بن محمد میدانی نیسا بوری فرماتے ہیں:
والأفراس عند العرب معز الخيل ، والبراذين ضأنها ، كما أن البُحْتَ ضأن الإبل والجواميس ضأن البقر [مجمع الأمثال 2/ 48]
عربوں کے یہاں فرس ”گھوڑا بکری“ اور ٹٹو ”گھوڑا مینڈھا“ ہیں ، جس طرح بختی اونٹ
”اونٹ مینڈھا“ اور بھینسیں ”گائے مینڈھا“ ہیں ۔

علامہ شہاب الدین احمد بن عبد الوہاب النویری فرماتے ہیں:
والبحتى كالبغل ، ويقال: البحث ضأن الإبل ، وهى متولدة عن فساد منى العراب [نهاية الارب فى فنون الأدب 10/ 109 نيز ديكهئے: الاحكام فى اصول الاحكام لابن حر م 7/ 133]
بختی اونٹ خچر کی طرح ہوتے ہیں ، اور بختی اونٹوں کو اونٹ مینڈھا کہا جاتا ہے ، جو عربی النسل اونٹ کی فاسد منی سے پیدا ہوتے ہیں ۔
ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ بختی اونٹ بھی نام کے اعتبار سے مطلق اہل (اونٹ) نہیں ہیں ، بلکہ مقید اونٹ ہیں جنہیں عرب ”ضان الابل“ کہتے ہیں ۔ اور بختی کی زکاۃ اور قربانی میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں تو بھینس بھی ضان البقر ہے ، اس میں بھی زکاۃ اور قربانی میں کسی طرح کا کوئی اشکال نہیں ہونا چاہئے ! !
جس طرح ناموں کی تقیید اونٹ کی انواع میں زکاۃ اور قربانی کے حکم کو متاثر نہیں کرتی اسی
طرح بھینس کا مقید نام بھی زکاۃ قربانی کی مشروعیت پر اثر انداز نہ ہو گا ۔ واللہ اعلم

آٹھواں اشکال: (نبی صلى الله عليه وسلم اور صحابہ سے بھینس کی قربانی کا عدم ثبوت ):

بھینس کی قربانی جائز نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھینس کی قربانی نہیں کی ہے ۔
ازاله:

(1) کیا بھینس کی قربانی کے جواز کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے عملاً انجام دینا ضروری ہے ، خواہ اس کے اسباب میسر ہوں یانہ ہوں؟ کیا شریعت کے نصوص اور ان کے بارے میں شرعی اصولوں کی رو شنی میں سلف امت کا فہم اور عمل کافی نہیں؟ اگر کافی ہے تو اشکال زائل ہو جاتا ہے ، اور اگر کافی نہیں ، تو کیا بھینس کا گو شت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے کھانا ثابت ہے؟ یا اس کی زکاۃ لینا ثابت ہے؟ کیا قربانی کے جانوروں کی دنیا میں پائی جانے والی تمام قسموں اور نسلوں کی قربانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے ثابت ہے؟ یا اونٹ ، گائے اور بکریوں کی تمام انواع کی زکاۃ لینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے ثابت ہے؟ یا ان کا گو شت کھانا ثابت ہے؟ ظاہر ہے کہ ان سوالات کے جوابات نفی میں ہیں ۔
اور یہی وجہ ہے کہ ہم بھینس کی قربانی کو جائز کہتے ہیں ، مسنون نہیں کہتے ، اور دونوں باتوں میں نمایاں فرق ہے ، جیسا کہ پو شیدہ نہیں ۔
(2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے بھینس کی قربانی نہ کرنے یا زکاۃ لینے یا اس کا گو شت نہ کھانے کے عدم ثبوت کا سبب یہ نہیں ہے کہ وہ ان کے یہاں موجود اور فراہم تھی لیکن ناجائز ہونے کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے اس کی قربانی نہیں کی ، بلکہ معاملہ یہ تھا کہ وہ نسل ہی ان کے یہاں موجود و متعارف تھی ، اور جب موجود ہوئی تو ہمارے سلف جو موجود تھے انہوں نے اسے گائے ہی سمجھا کسی کا اختلاف بھی منقول نہیں جس کا اس بات سے اتفاق نہ ہو بلکہ اجماعی طور پر گائے اور بھینس دونوں سے یکساں واجب ذکاۃ لی گئی اور قربانی کی گئی ۔
یہی وجہ ہے کہ جب علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے بھینس کی قربانی کے بارے میں پوچھا: گیا تو انہوں نے فرمایا:
”بھینس گائے ہی کی ایک قسم ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں صرف ان چیزوں کو بیان کیا ہے جو عربوں کے یہاں معروف تھیں ، ۔ ۔ ۔ اور بھینس اہل عرب کے یہاں معروف نہ تھی ۔ “ [مجموع فتاوي در سائل ابن يمين 34/25] واللہ اعلم ۔

نواں اشکال: (بھینس کی قربانی عبادات میں اضافہ ہے ):



قربانی عبادت ہے ، اس کے جانور متعین میں اس میں بھینس کانام نہیں ہے لہٰذا بھینس کا اضافہ کرنا عبادت میں اضافہ کرتا ہے ، اور یہ جائز نہیں ، اس کی مثال ویسی ہی ہے جیسے کوئی نماز کی متعینہ رکعات میں اضافہ کر دے وغیر ہ ، جس کی گنجائش نہیں ۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
باب القربات يقتصر فيه على النصوص ، ولا يتصرف فيه بأنواع الأقبسة والآزاء [تفسير ابن كثير 465/7]
قربتوں (عبادات) کے باب میں نصوص پر اکتفاکیا جائے گا مختلف قیاسات اور آراء کے ذریعہ اس میں تصرف نہیں کیا جائے گا ۔
نیز اس بات کو حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ سے علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی نقل فرمایا ہے ۔ [موسوعه الاکباني فى العقيده 42/9 نيز ديكهئے: احكام الجنائز ص: 173-174]
ازاله:

(1) قربانی بلاشبہہ عبادت ہے اور اس کے جانور طے شدہ ہیں جو آٹھ ازواج میں ، اونٹ ، گائے ، بکرا ، اور مینڈھا (مذکر و مونث) اور بھینس بھی گائے ہے جو عرب کے علاوہ دوسرے علاقوں میں پائی جاتی تھی ، اور گائے منصوص ہے ، اسی طرح بختی اور دیگر قسمیں بھی اونٹ میں داخل ہیں ، نیز بکریوں کی دیگر نسلیں بھی بکری میں شامل ہیں ۔ یہ قربانی کے جانور میں اضافہ نہیں ، بلکہ دنیا میں پائی جانے والی انہی جانوروں کی نسلیں ہیں ، انہیں اضافہ کہنا زیادتی اور بے جا شدت ہے ، کیونکہ اس کا معنی یہ ہے کہ صرف حجاز مقدس مکہ و مدینہ ہی کی نسلوں کی قربانی جائز ہے ، دیگر علاقوں کی نہیں شریعت اسلامیہ میں اس تحدید اور پابندی کی کوئی دلیل نہیں ! !
قربانی کے جانوروں میں اضافہ اس وقت ہوتا اور کہا جاتا جب مذکورہ چاراجناس کے علاوہ کسی پانچویں جنس کے جانور کو قربانی میں شامل کیا جاتا ! !

(2) قربانی کے سلسلہ میں بہیمتہ الانعام کی تفسیر میں مفسرین ، شارحین حدیث ، اور فقہاء و مجتہدین نے آٹھ ازواج کی وضاحت فرمائی ہے اور اس کے سواد دیگر جانوروں کی قربانی کے عدم جواز و اجزاء کی تصریح فرمائی ہے اور دیگر جانوروں کی مثال میں انہوں نے وحشی گائے ، گدھے اور ہرن وغیر ہ کانام بتلایا ہے ، ہمارے محدود علم کے مطابق کسی نے بھی مثال میں بھینس کو پیش نہیں کیا ہے ، اسی طرح گائے کی دیگر قسموں اور اونٹ کے دیگر انواع بخاتی وغیرہ کو پیش نہیں کیا ہے ، کہ یہ ثمانیہ ازواج پر اضافہ ہیں اور قربانی عبادت ہے ، اس میں اضافہ کرناجائز نہیں ، لہٰذا بھینس اور بخاتی وغیرہ کی قربانی نا جائز ہے ! !
یہ اس بات کی دوٹوک دلیل ہے کہ ان چاروں کے علاوہ کسی پانچویں جنس کا اضافہ قربانی جیسی عبادت میں رائے پرستی اور من مانی اضافہ ہو گا ، ر میں ان کی قسمیں اور نسلیں تو وہ بدیہی طور پر ان میں داخل ہیں ، الا یہ کہ استثناء کی کوئی مستند دلیل ہو ۔ واللہ اعلم

(3) جنس و نوع کا حکم یکساں ہے ، بھینس کو گائے کی جنس سے مانا عبادت میں من مانی اضافہ نہیں ، چنانچہ علامہ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ جنہوں نے حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کا قول باب القربات يقتصر الخ نقل فرمایا ہے ، انہوں نے خود بھینسوں میں زکاۃ کا فتوی دیا ہے ، چنانچہ علامہ رحمہ اللہ کے شاگرد شیخ حسین بن عودۃ العوایشہ نقل فرماتے ہیں:
وسئل شيخنا – رحمه الله -: هل فى الجاموس زكاة؟ فأجاب: نعم فى الجاموس زكاة لأنه نوع من أنواع البقر [الموسوعة الفقہية المیسرۃ فى الكتاب والسنة المطهرة بمبين وايه 76/3]
ہمارے شیخ – علامہ البانی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا: کیا بھینس میں زکا ت ہے؟ تو آپ نے جواب دیا: جی ہاں بھینس میں زکاۃ ہے ، کیونکہ وہ گائے کی قسموں میں سے ایک قسم ہے ۔
مولف کتاب شاگرد رشید شیخ حسین عوایشہ نے مقدمہ میں وضاحت کیا ہے کہ ”شیخنا“ (ہمارے شیخ) سے مراد علامہ البانی رحمہ اللہ ہیں لکھتے ہیں:
وقد رجعت لشيخنا الألباني – شفاه الله تعالى وعافاه – فى كثير من المسائل ، فاستفدت منه ، وأنسْتُ برأيه ، فجزاه الله عني وعن المسلمين خيراً [الموسوعة الفقہية الميسرة فى فقه الكتاب والسنة المطهرة 6/1]
میں نے شیخ البانی – اللہ انہیں شفا اور عافیت دے ۔ سے بکثرت مسائل میں رجوع کیا ، آپ سے استفادہ کیا اور آپ کی رائے سے خوش ہوا اللہ تعالیٰ آپ کو میری اور مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے ۔

دسواں اشکال: (بعض اہل علم کے احتیاطی فتاوے ):

بھینس کی قربانی جائز نہیں ، یہی وجہ ہے کہ علماء اہل حدیث نے اس سلسلہ میں احتیاط کا فتوی دیا ہے ۔
ازاله:

(1) جمہور علماء امت نے بھینس کو گائے کی نوع قرار دیا ہے ، بلکہ دونوں کے اتحاد حکم پر امت کا اجماع منقول ہے ، اور گائے کی طرح بھینس میں بھی زکاۃ واجب اور قربانی جائز ہے ، احتیاط کی بات ہمارے علم کے مطابق سب سے پہلے شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ الرحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ نے ”مرعاۃ المفاتیح“ میں کہی ہے ، اور پھر اسی بنیاد محقق کبیر حافظ زبیر علیزئی اور دیگر لوگوں نے احتیاط کے فتوے صادر کئے ہیں ۔
لیکن واضح رہے کہ شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے ”احتیاط“ کا معنی عدم جواز نہیں ، بلکہ جواز ہے ،
جیسا کہ آپ نے آگے قربانی کرنے والوں پر عدم ملامت کی صراحت فرمائی ہے ۔ نیز جواز کی وضاحت اور تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ علامہ رحمہ اللہ نے دوسری جگہ گاؤ میش بھینس کی قربانی کے مطلق جواز کا فتوی دیا ہے ۔ [جيسا كه دسويں فصل ميں ذكر كيا جا چكا هے ، ديكهئے: فتاوي شيخ الحديث مباركپوري رحمه الله ، جمع و ترتيب: فواز عبد العزيز عبيد الله مباركپوري ، 2 / 400-402 ، دار الا بلاغ لاهور نيز ديكهئے: فتويٰ حافظ صلاح الدين يوسف ص: 161]
(2) احتیاط کا فتویٰ قدرے محل نظر ہے ، کیونکہ نقطہ بحث یہی ہے کہ بھینس گائے کی جنس سے ہے یا نہیں؟ اب اگر ہے تو جائز ہے ، ورنہ ناجائز ، درمیان میں احتیاط کا کوئی محل نہیں ہے ۔

چنانچہ حافظ ابویحییٰ نور پوری لکھتے ہیں:
پھر یہ احتیاط والی اس لئے بھی عجیب سی ہے کہ اگر بھینس گائے نہیں تو اس کی قربانی سرے جائز ہی نہیں ، اور اگر یہ گائے ہے تو اس کی قربانی بالکل جائز ہے ، اس میں کوئی درمیانی راستہ تو ہے ہی نہیں ۔ [بهينس كي قرباني ، از فضيلة الشيخ حافظ ابويحيي نور پوري ، نائب مدير ماهنامه السنته جهلم ص: 7]

(3) احتیاط کہنا بذات خود عدم جواز سے عدم اطمینان کا غماز ہے ، ورنہ اطمینان ہو تو عدم جواز کی صراحت سے کوئی چیز مانع نہیں ہے ۔ واللہ اعلم

ثانیاً: عوامی شبہات:

پہلا شبہہ: (قربانی کے جانور آٹھ ازواج میں دس نہیں ):
بھینس کی قربانی جائز نہیں ، کیوں قربانی کے مشروع جانور آٹھ ازواج میں ، اگر بھینس کو شامل کیا جائے گا تو یہ تعداد دس ہو جائے گی ، لٰہذا بھینس کو قربانی کا جانور شمار کرنا کتاب اللہ پر زیادتی کرتا ہے جو سراسر باطل اور غلط ہے ۔
ازاله:

(1) ان آٹھ ازواج سے ان کی جنسیں مراد ہیں ، جیسا کہ ائمہ لغت ، مفسرین قرآن ، شارحیں حدیث اور فقہ و اجتہاد اور فتاوی کے علماء کی تصریحات کی رو شنی میں یہ بات گزر چکی ہے ، لہٰذا ان اجناس کی قسمیں اور نسلیں اس میں شامل ہیں ، ان سے تعداد میں اضافہ نہیں ہو گا بلکہ وہ انہی آٹھ ازواج میں شامل ہوں گی جیسا کہ اونٹ کی بختی اور عراب وغیرہ قسموں اور اسی طرح گائے کی عراب جوامیس اور دربانیہ وغیر قسموں اور نسلوں میں سلف امت کا طریقہ رہا ہے ، کہ بلاتفریق تمام انواع اور نسلوں میں زکاۃ اور قربانی کرتے رہے ہیں ، کسی نے اسے اضافہ نہیں سمجھا ۔
(2) ہاں اگر ان چار جنس کے جانوروں (مونث سمیت آٹھ ازواج) کے علاوہ کوئی پانچویں جنس کی قربانی کی جائے گی تو تعداد آٹھ کے بجائے دس ہو جائے گی ، جو ناجائز ہو گی ، مثلاً ہرن ، جنگلی گائے ، اور گدھے وغیرو ، جیسا کہ علماء مفسرین ومحمدثین نے مثالوں سے واضح کیا ہے ۔

دوسر اشبہه: (جفتی کا مسئلہ ):

بھینس کی قربانی جائز نہیں ، اور بھینس گائے کی جنس سے بھی نہیں ، کیونکہ گائے بیل کی جفتی سے بھینس پیدا نہیں ہوتی ! !
ازاله:

(1) بار بایہ بات ذکر کی جاچکی ہے کہ بھینس گائے کی ایک قسم اور ایک عجمی نسل ہے جو فارس اور افریقہ وغیرہ میں پائی جاتی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا ظاہری حلیہ بھی عام گایوں سے مختلف ہے ، تو ظاہر ہے کہ جس نوع کے نر و ماندہ میں جفتی کرائی جائے گی اسی نوع کا بچہ پیدا ہوگا ، اسی لئے عام گائے بیل کی جفتی سے عام گائے بیل پیدا ہوں گے ، اور بھینس بھینسے کی جفتی سے کٹے پیدا ہوں گے ، نہ اس جفتی سے کٹے پیدا ہوں گے ، نہ ہی اس جنتی سے عام گائے کا بچہ پیدا ہوگا ۔ ہاں اگر دونوں کی مختلط جفتی کرائی جائے تو بختی اونٹوں کی طرح ایک تیسری نسل مخلوط پیدا ہوگی ۔ اس کی واضح مثال نوع انسان ہے کہ انسان ہونے میں ساری دنیا کے انسان مشترک ہیں ، لیکن علاقائی اور نسلی طور پر قد و قامت حلیہ اور رنگت وغیر مختلف ہے ، اب ظاہر ہے کہ عربی النسل یاسفید فام مرد و عورت سے افریقی حلیہ و ہیکل ، شکل وصورت ، قد و قامت اور رنگت کے سیاہ فام بچے پیدا نہیں ہوں گے ، بلکہ عربی شکل و حلیہ ہی کے پیدا ہوں گے ، اسی طرح اس کے بر عکس۔ [الايه كه نزع عرق كا كوئي معامله هو ، جيسا كه حديث آگے آ رهي هے] لیکن اس اختلاف کے باوصف سب نوع انسانی کا حصہ ہیں ، کسی کو انسانی نوع سے خارج نہیں کیا جا سکتا ! !
(2) جفتی کے اس مسئلہ سے شرعی حکم پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، جب تک کہ جانور آٹھ ازواج سے خارج نہ ہو ، اس کی عمدہ وضاحت کے لئے امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ قول بغور ملاحظہ فرمائیں: ولو نزا كبش ماعزة ، أو تيس ضائنة فتتحت كان فى نتاجها الصدقة لأنها عتم كلها وهكذا لو نزا جاموس بقرة ، أو ثور حاموسة ، أو يخني عربية ، أو عربي بختية كانت الصدقات فى نتاجها كلها؛ لأنها بقر كلها ، ألا ترى أنا نصدق البحت مع العراب وأصناف الإبل كلها ، وهى مختلفة الخلق ونصدق الجواميس مع البقر والدربانية . مع العراب وأصناف البقر كلها وهى مختلفة ، والصان ينتج المعز وأصناف المعز ، والضأن كلها؛ لأن كلها غنم وبقر وإبل [الأم الشافعي 20/2]
اگر مینڈھا بکری کو جفتی کرے ، یا بکرا مینڈھی کو ، اور بچے پیدا ہوں تو اس میں زکاۃ ہو گی ، کیونکہ یہ سب بکرے ہیں ، اسی طرح اگر بھینسا گائے کو جفتی کرے یا بیل بھینس کو یا بختی عربیہ کو ، یا عربی بختیہ کو ، تو ان تمام کی پیداوار میں زکاۃ ہو گی ؛ کیونکہ یہ سب گائیں میں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہم عربی اونٹوں اور اونٹ کی تمام انواع کے ساتھ بختی اونٹوں کی بھی زکاۃ ادا کرتے ہیں ، حالانکہ وہ ساخت اور حلیہ و ہیکل میں مختلف ہوتے ہیں ، اور عربی ، در بانیہ اور گائے کی دیگر تمام قسموں کے ساتھ بھینسوں کی بھی زکاۃ دیتے ہیں ، حالانکہ وہ مختلف ہوتے ہیں ، اور مینڈھا جس سے بکری اور بکریوں کی بہت سی قسمیں پیدا ہوتی ہیں ، سارے مینڈھوں کی زکاۃ نکالتے ہیں ، کیونکہ یہ سب کے سب بکریاں ، گائیں اور اونٹ ہی ہیں ۔
اس لئے جفتی کے پہلو سے مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ واللہ اعلم

تیسراشبہہ: (بھینس کی قربانی اور مقلدین کی مشابہت ):

بھینس کی قربانی جائز نہیں ، مقلدین احناف کے یہاں بھینس کی قربانی جائز ہے ، اسے جائز قرار دینے سے ان مقلدین کی موافقت لازم آتی ہے ۔
ازاله:

(1) بھینس کی قربانی کا مسئلہ صرف مقلدین احناف کانہیں بلکہ مسالک اربعہ کے علماء وائمہ سمیت سلفاً وخلفاً تمام ائمہ مجتهدین ، وعلما فقه و فتاوی اور جمہور امت کا ہے ، جنہوں نے متفقہ طور پر بھینس کو گانے کی جنس سے مانا ہے ، اور ہر دور میں گائے کے نصاب اور شرائط کے مطابق اس کی زکاۃ لی جاتی رہی ہے ، اور قربانی ہوتی رہی ہے ، اور یہی بات دلائل ، اقوال اور تعلیمات کی رو شنی راجح اور درست ہے ، اس مسئلہ میں اختلاف محض کم و بیش ایک دوصدی پیشتر سے رونما ہوا ہے ۔
(2) رہا مسئلہ احناف یا دیگر مقلدین کی موافقت یا مشابہت کا ، تو ظاہر ہے کہ یہ منہج اہل حدیث کے سراسر خلاف ہے ، ہمارا منہج یہ ہے کہ ہم دلیل کے ساتھ رہیں ، اور حق کے سوا کسی کے لئے تعصب نہ کریں ، اور الحمداللہ سلفیت و اہل حدیثیت محض حنفیت یا مقلدین مخالفت کانام نہیں ہے ۔ چنانچہ محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
ندور مع الدليل حيث دار ولانتعصب للرجال ، ولاننحاز لأحد إلا للحق كمانراه ونعتقده [التوسل أنواعه وأحكامه ص: 43 ، وموسوعة الألباني فى العقيد: 3/ 606]
ہم دلیل کے ساتھ چلتے ہیں ، وہ جہاں بھی جائے ، ہم لوگوں کے لئے تعصب نہیں کرتے ، نہ ہی کسی کے لئے ادھر ادھر مائل ہوتے ہیں ، سوائے حق کے ، جیسا ہم اسے دیکھتے یا اس کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔
اسی طرح سماحتہ الشیخ علامہ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أما مسائل الخلاف فمنهجي فيها هو ترجيح ما يقتضي الدليل ترجيحه والفتوى بذلك سواء وافق ذلك مذهب الحنابلة أم خالفه لأن الحق أحق بالاتباع [مجموع فتاوي ابن باز 166/4]
اختلافی مسائل میں میرا منہج یہ ہے کہ بتقاضائے دلیل جو بات ترجیح کی مستحق ہو ، اسے ترجیح دوں ، اور اسی کا فتویٰ دوں ؛ خواہ وہ حنابلہ کے مسلک کے موافق ہو یا مخالف ؛ کیونکہ حق اپنی پیروی کا زیادہ سزاوار ہے ۔ واللہ اعلم

چوتھا شبہہ: (بھینس اور گائے کی شکل وصورت اور مزاج میں فرق):
بھینس کی قربانی جائز نہیں ، اور وہ گائے کی جنس سے نہیں ہو سکتی ، کیونکہ دونوں میں ظاہری و معنوی طور پر کئی فروق ہیں ، مثلاً اس کا رنگ شکل و صورت ، مزاج و طبیعت وغیرہ ، کہ گائے پانی سے بھاگتی ہے ، جبکہ بھینس پانی اور کیچڑ میں رہنا پسند کرتی ہے ۔
ازاله:

(1) جب لغوی و شرعی طور پر بھینس کا گائے کی جنس سے ہونا ، اور شرعی مسائل میں پوری امت کے اجماع سے دونوں کے حکم کی یکسانیت متحقق ہے ، تو ان ظاہری و معنوی فروقی سے اس کے حکم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ، کیونکہ اصل مسئلہ اجناس بہیمۃ الانعام میں سے
ہونے نہ ہونے کا ہے ۔

(2) سلف امت کے تمام علوم وفنون کے علماء جنہوں نے دونوں کے اتحاد جنس اور شرعی حکم میں یکسانیت کا فیصلہ کیا ہے ، وہ دونوں کے ظاہری طبعی فروق سے بخوبی واقف ہیں ، اور اس کے باوجود انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے ، جیسا کہ ان کی کتابیں اور تحریر میں دلالت کناں ہیں ، اور اس فیصلہ میں کسی کا اختلاف و اعتراض منقول نہیں ہے ۔ لہٰذا ان تمام پہلوؤں کے واضح ہونے کے بعد ظاہری فروق کا مسئلہ باعث تشویش نہیں رہ جاتا ۔

(3) اتحاد جنس متحقق ہو جانے کے بعد ظاہری فروق قربانی سے مانع نہیں ، ورنہ بکری کی جنس کے تحت بھیڑ ، دنبہ وغیرہ بھی ہیں اور ان کی شکلوں میں نمایاں فرق ہے ، اسی طرح خود گایوں اور بیلوں کے بکثرت رنگ اور شکلیں ہیں جو حصر سے باہر ہیں ، [ملخص 2/ 266 ۔ وتاج العروس 58/13 ، ولسان العرب 4/ 575] چنانچہ علامہ ابن حزم
رحمہ اللہ اس شبہہ کا ازالہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وقد قال بعض الناس البحت ضأن الإبل والجواميس ضأن البقر ، وقد رأينا الحمر المريسية وحمر الفجالين وحمر الأعراب المصامدة نوعا واحدا و بينها
من الاختلاف أكثر مما بين الجواميس وسائر البقر وكذلك جميع الأنواع
[الاحكام فى أصول الأحكام لابن حزم 7 / 132]
بعض لوگوں نے کہا ہے کہ بختی ”اونٹ مینڈھا“ ہیں اور بھینسیں ”گائے مینڈھا“ ہیں ، حالانکہ ہم نے مریسی گدھوں ، فجالیوں کے گدھوں اور مصمدی (بربری ) قبائل کے دیہاتیوں کے گدھوں کو ایک ہی نوع شمار کیا ہے ، جبکہ ان کے درمیان جو اختلاف ہے وہ بھینسوں اور بقیہ گایوں کے مابین اختلاف اور اسی طرح تمام قسموں سے کہیں زیادہ ہے ۔
نیز محدث العصر علامہ عبد القادر حصاروی شیخ الحدیث مبارکپوری رحمہما اللہ کی تحریر پر تبصرہ
کرتے ہوئے رکھتے ہیں:
”۔ ۔ ۔ رہا مولانا کا یہ فرمان کہ جائے اور بھینس کے حلیہ اور شکل میں تفاوت ہے ہو یہ شبہ اہل حدیث کو بھی ہو سکتا ہے کہ بکری ، بکرا اور بھیڑ ، دنبہ ، چھتر اسب کو کھڑا کر کے انصاف کر لیں کہ ان کے حلیہ اور شکل میں زمین آسمان کا فرق ہے اور شرعاًً بھی فرق ہے کہ قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ: الإجماع على أنه يجزئ الجذع من الضأن وأنه لا يجزئ جزع من المعز یعنی اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ قربانی میں بھیڑ کا جذعہ کفایت کر جائے گا اور بکری کا جذعہ کفایت نہ کرے گا ۔“
جب ان کی شکل اور حلیہ اور حکم شرعی میں تفاوت ہے تو پھر زکوۃ اور قربانی میں ان کو برابر
اور ایک جنس کیوں قرار دیا گیا ہے ۔ [فاوي حصار يه ومقالات علميه ، از محقق العصر عبد القادر حصاروق 457/5] واللہ اعلم

(4) اگر بالفرض گائے بیل کی جفتی سے بھینس کی شکل و ہیکل اور رنگت کا بچہ پیدا ہو جائے تو کیا اس کی قربانی بھی محض اس لئے جائز نہیں ہوگی کہ اس کی شکل و صورت گائے بیل بیسی نہیں ہے بلکہ کٹے (بھینس کے بچے) کی ہے؟ ؟
ظاہر ہے کہ جواب نفی میں ہو گا ، کیونکہ ظاہری فرق سے حکم نہیں بدلے گا ، اس لئے کہ وہ گائے
بیل ہی کا بچہ ہے ، اگر چہ شکل وصورت مختلف ہے ۔ اس بات کو بلا تبصرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسب
ذیل ایک حدیث سے سمجھیں:
عن أبى هريرة ، قال: جاء رجل من بني فزارة إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال: إن امرأتي ولدت غلاما أسود ، فقال النبى صلى الله عليه وسلم: ”هل لك من إبل؟ قال: نعم ، قال: ”فما ألوانها؟ قال: حمر ، قال: ”هل فيها من أورق؟ قال: إن فيها لورقا ، قال: فأنى أتاها ذلك؟ قال: عسى أن يكون نزعه عرق ، قال: وهذا عسى أن يكون نزعه عرق [صحيح البخاري ، كتاب الطلاق ، باب إذا مرض بهي الولد 7 / 53 ، مديث 5305 ، صحيح مسلم كتاب اطلاق ، باب انقضاء عدة المتوفى عنهباز و جهاد غير با بوضع اعمل 2/ 1137 حديث 1500 الفاظ مسلم كے ہيں]
حضرت ابوہریر ورضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ بنو فزارہ کا ایک شخص نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کہنے لگا: میری بیوی نے سیاہ فام بچہ جنا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ “ اس نے کہا: ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”ان کے رنگ کیا ہیں؟“ کہا: سرخ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا اس میں کوئی اونٹ مٹیالا سیاہ بھی ہے؟ “ اس نے جواب دیا: اس میں بہت سے سیاہ ہیں ، آپ نے پوچھا: ”سرخ اونٹوں میں یہ سیاہ کہاں سے آگئے؟ “ ، اس نے کہا: شاید کسی رگ نے کھینچ لیا ہو گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہو سکتا ہے اس بچے کو بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو ۔“ ! !

پانچواں شبہہ: (بھینس کو گائے پر قیاس کیا گیا ہے ):

بھینس کی قربانی کے جواز کی بنیاد گائے پر قیاس ہے ، جو احناف کی دلیل ہے ، جبکہ بھینس
کو گائے پر قیاس کرنا درست نہیں ۔
ازاله:

(1) بھینس کو گائے پر قیاس نہیں کیا گیا ہے علماء احناف نے بھی قیاس نہیں کیا ہے ، بلکہ بھینس متفقہ طور پر جنس گائے کی ایک نوع ہے ، جیسا کہ تفصیلات گزر چکی ہیں اور علماء احناف نے بھی بھینس کو گائے کی جنس سے کہا ہے ، جیسا کہ کتابوں میں جابجا اس کی صراحت
موجود ہے ۔

(2) دراصل گائے اور بھینس کے سلسلہ میں اہل علم کی کتابوں میں متعد د الفاظ اور تعبیرات استعال کی گئی ہیں مثال کے طور پر:
(1) نوع من البقر (2)جنس من البقر (3) صنف من البقر (4) ضرب من البقر (5) ومن البقر الجاموس (6) ومنه الجاموس (7) کالبقر (8) الحق بالبقر
(9) بمنزلة البقر (10) قیاسا على البقر ، يا بالقياس على البقر وغیرہ
لیکن سب سے زیادہ جو تعبیر استعمال کی گئی ہے وہ نوع ، اور اس کے ہم معنی الفاظ جنس ، صنف ، ضرب ، وغیرہ ہیں ، اس کے برخلاف الحاق ، بمنزلہ اور قیاس کا لفظ نادر ہی استعمال کیا گیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل تعبیر کے مطابق بھینس گائے کی نوع ہے ، البتہ تساہل یا تعبیر کا اختلاف ان سے ہوا ہے جنہوں نے ”قیاس“ کا لفظ استعمال کیا ہے ، اور یہی بات قابل اعتماد ہے ۔ چنانچہ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ بھینس میں زکاۃ کی فرضیت کا سبب ”قیاس“ قرار دینے والوں کی تردید فرماتے ہوئے اور گائے کی نوع ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وهذا شغب فاسد؛ لأن الجواميس نوع من أنواع البقر ، وقد جاء النص بإيجاب الزكاة فى البقر ، والزكاة فى الجواميس لأنها بقر؛ واسم البقر يقع عليها ولولا ذلك ما وجدت فيها زكاة [الاحكام فى اصول الاحكام لابن حوم 7 / 132]
یہ بہت بری بات ہے ؛ کیونکہ بھینسیں گائے کی قسموں میں سے ایک قسم ہیں ، اور گائے میں زکاۃ کے وجو ب پر نص موجود ہے ، اور بھینسوں میں زکاۃ اس لئے ہے کہ وہ گائیں ہیں ؛ اور ان پر گائے کا نام واقع ہے ، اگر ایسانہ ہوتا تو بھینسوں میں زکاۃ نہ ہوتی ۔
اسی طرح محدث العصر عبد القادر حصاری فرماتے ہیں:
بھینس کو بہیمۃ الانعام میں شمار کرنا قیاس نہیں ہے ، قرآنی نص بہیمۃ الانعام کا لفظ عام ہے جس کے لئے بھی افراد ہیں ِ گائے بکری وغیرہ تو بھینسں بھی بہیمتہ الانعام کا ایک فرد ہے ، بہیمتہ الانعام کی قربانی منصوص ہے تو بھینس کی قربانی بھی نص قرآنی سے ثابت ہو گئی ۔ [فتا دي حصاريه و مقالات علميه ، تصنيف محقق العصر حضرت مولانا عبد القادر حصاري رحمه الله 446/5 ، ناشر مكتبه اصحاب الحديث لا ہوں] واللہ اعلم ۔

بارہویں فصل:

عدم جواز کے بعض استدلالات کا سرسری جائزہ:

یوں تو اشکالات اور شبہات کے ازالہ کے ضمن میں عدم جواز سے متعلق بہت کچھ باتیں آگئی ہیں ، لیکن اہمیت کے پیش نظر یہاں مزید چند باتیں عرض خدمت ہیں:
(1) قرآن مجید میں بہیمۃ الانعام کی چار قسمیں بیان کی گئی ہیں ، دنبہ ، بحری اونٹ ، گائے ۔ بھینس ان چار میں نہیں ، اور قربانی کے متعلق حکم ہے بہیمۃ الانعام سے ہو ۔ اس بنا پر بھینس کی قربانی جائز نہیں ، ہاں زکاۃ کے مسئلہ میں بھینس کا حکم گائے والا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ یاد رہے بعض مسائل احتیاط کے لحاظ سے دو جہتوں والے ہوتے ہیں اور عمل احتیاط پر کرنا پڑتا ہے ۔
ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا کے والد زمعہ کی لونڈی سے زمانہ جاہلیت میں عتبہ بن ابی وقاص نے زناکیا ۔ لڑکا پیدا ہواجو اپنی والدہ کے پاس پرورش پاتارہا ۔ زانی مرگیا ، اور اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص کو وصیت کر گیا کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرا ہے اس کو اپنے قبضہ میں کر لینا ۔ فتح مکہ کے موقع پر سعد بن ابی وقاص نے اس لڑکے کو پکڑ لیا اور کہا یہ میرا بھتیجا ہے ۔ زمعہ کے بیٹے نے کہا یہ میرے باپ کا بیٹا ہے ۔ لہٰذا میرا بھائی ہے ، اس کو میں لوں گا ۔
مقدمہ دربار نبوی میں پیش ہوا تو نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
الولد للفراش وللعاهر الحجر “ (مشکوۃ باب اللعان فصل اول)
یعنی اولاد بیوی والے کی ہے اور زانی کے لئے پتھر ہے ۔ یعنی وہ ناکام ہے اور اس کا حکم
سنگسار کیا جانا ہے ۔
بچہ سودہ کے بھائی کے حوالہ کر دیا جو حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا بھی بھائی بن گیا ۔ لیکن سودہ رضی اللہ عنہا کو حکم فرمایا اس سے پردہ کرے ، کیونکہ اس کی شکل وصورت زانی سے ملتی جلتی تھی جس سے شبہ ہوتا تھا کہ یہ زانی کے نطفہ سے ہے اس مسئلہ میں شکل وصورت کے لحاظ سے تو پردہ کا حکم ہوا اور جس کے گھر میں پیدا ہوا ، اس کے لحاظ سے اس کا بیٹا بنا دیا ۔ گو یا احتیاط کی جانب کو ملحوظ رکھا ۔ ایسا ہی بھینس کا معاملہ ہے اس میں بھی دونوں جہتوں میں احتیاط پر عمل ہو گا ۔ زکاۃ ادا کرنے میں احتیاط ہے اور قربانی نہ کرنے میں احتیاط ہے ، اس بنا پر بھینسے کی قربانی جائز نہیں اور بعض نے جو یہ لکھا ہے کہ ”الجاموس نوع من البقر“ یعنی بھینس گائے کی قسم ہے یہ بھی اسی
زکوۃ کے لحاظ سے صحیح ہو سکتا ہے ، ورنہ ظاہر ہے کہ بھینس دوسری جنس ہے ۔ [فتاويٰ اهلحديث مجتهد العصر حافظ عبدالله محدث روپڑي رحمه الله 426/2 ۔ ]
عبداللہ امرتسری رو پڑی (4 / ذی الحجہ 1383ھ 17 اپریل 1964ء )
جائزه:

(1) بھینس میں زکاۃ کے وجو ب اور اس کی قربانی کے جواز کا پور ا مسئلہ صرف اسی نکتہ پر موقوف ہے کہ آیا وہ گائے کی جنس سے ہے یانہیں؟ اور زکاۃ اور قربانی دونوں ہی مسائل عبادت کے ہیں ، اب اگر جنس سے ہے تو اس کا حکم گائے جیسا ہے ، خواہ مسئلہ زکاۃ کا ہو یا قربانی کا ، اور اگر بھینس گائے کی جنس سے نہیں ہے ، تو اس کا حکم گائے جیسا نہیں ہے ، خواہ مسئلہ زکاۃ کا ہو یا قربانی کا ۔ اس لئے زکاۃ اور قربانی میں تفریح یعنی زکاۃ میں بھینس کو گائے کی جنس سے ماننا اور قربانی میں نفی کرنا ، محتاج دلیل اور نا قابل تسلیم ہے ، تا آنکہ دلیل آ جائے ۔ [فتاوي حصار يه 5 / 456-457 فتوي محدث كبير علامه عبد الجليل سامرودي ص 152]

(2)بھینس گائے کی جنس سے اس کی نوع ہے ، جیسا کہ علماء لغت اور فقہ وفتاوی کا اجماع نقل کیا جا چکا ہے لہٰذا اسے گائے کی جنس سے خارج کرنا مستند دلیل کا متقاضی ہے ۔ [فتاوي الدين الخالص ، از ابو محمد امين الله پشاور ي 394/6]

(3) بھینس اگر گائے کی قسم نہیں بلکہ دوسری جنس ہے ، تو زکاۃ کے لحاظ سے اس کا گائے کی بنس سے ہونا کیونکر صحیح ہے؟ بالفاظ دیگر ”نوع من البقر“ کی صحت کو عبادات ہی کے دو ابواب زکاۃ اور قربانی میں سے صرف زکاۃ کے باب میں محدود کرنا مستقل دلیل کا متقاضی ہے ، کیونکہ بھینس کے گائے کی نوع ہونے کے ساتھ ساتھ دونوں کے حکم کی یکسانیت پر اجماع ثابت ہو چکا ہے ۔

(4) اس دو جہتی احتیاط کے پہلو میں قربانی کے عدم جواز میں بظاہر یہ اندیشہ ملحوظ ہے کہ اگر بھینس بہیمۃ الانعام میں سے نہ ہوئی تو قربانی ہی نہ ہوگی ، اور زکاۃ کے وجوب میں یہ نظریہ ملحوظ ہے کہ اگر بھینس بہیمۃ الانعام میں سے بھی ہوئی تو اللہ کی راہ میں بطور مال صرف ہوگی اور اس پر بھی اجر مرتب ہوگا ۔
لیکن گائے اور بھینس کے متحد الجنس و الحکم ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں یہ پہلو بھی اوجھل نہ ہونے پائے کہ مذکورہ احتیاط میں قربانی کا مسئلہ علی الراجح زیادہ سے زیادہ سنت موکدہ ہے ، جبکہ زکاۃ بلا اختلاف فرض ہے ، لہٰذا قربانی کے عدم جواز واجزاء سے کہیں زیادہ اس بات کی فکر مندی کی ضرورت ہے کہ انسان کہیں ایک غیر واجب کو بلا دلیل واجب قرار دینے کا مرتکب نہ ہو کہ یہ شارع کا حق ہے ۔ واللہ اعلم

(5) زمعہ کی لونڈی سے زنا والے واقعہ میں جس احتیاط کا پہلو ذکر کیا گیا ہے ، وہ بظاہر زیر بحث موضوع کی نوعیت سے مطابقت نہیں رکھتا ، کیونکہ گائے اور بھینس کا ہم جنس ہونا اور دونوں کا حکم یکساں ہونا علماء امت یہاں نہایت واضح اور یقینی ہے ، جبکہ زمعہ کی لونڈی کے واقعہ کی نوعیت مختلف ہے ، اسی طرح یہاں معاملہ سراپا عبادت کا ہے اور وہاں دیگر ۔

(6) بالفرض اگر اسے دو جہتی احتیاط کی مثال کے طور پر تسلیم بھی کیا جائے ، تو زمعہ کی لونڈی کے فیصلہ میں بھائی ثابت قرار دینے کے باوجود مائی سودہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پردہ کرنے کا حکم دیا تھا ، اس کا زانی کے بھائی سعد کی مشابہت کی بنا پر احتیاطی ہونا حتمی اور یقینی
نہیں بلکہ محتمل ہے ، کیونکہ سمنن نسائی کی صحیح روایت میں واقعہ اس طرح مروی ہے:
عن عبد الله بن الزبير ، قال: كانت لزمعة جارية يطؤها هو ، وكان يظن باخر يقع عليها ، فجاءت بولد شبه الذى كان يظن به ، فمات زمعة وهى حبلى ، فذكرت ذلك سودة لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الولد للفراش ، واحتجبي منه يا سودة فليس لك بأخ [سنن النسائي کتاب الطلاق ، باب الحاق الولد بالفراش إذا لم ينفه صاحب الفراش 6 / 180 ، حديث 3485 ۔ نيز ديكهئے: السنن الكبرى اللنسائي 5/ 288 حديث 5649 ۔ حافظ ابن حجر رحمه الله نے اسے حسن قرار ديا ہے ، فتح الباري لابن حجر 12 / 37 اور علامه الباني رحمه الله نے اسے صحيح سنن النسائي 3484 ميں صحيح قرار ديا ہے ۔ نيز ديكهئے: جامع الأصول 732/10 وجمع الفوائد من جامع الأصول ومجمع الزوائد 172/2 حديث 4451]
عبد الله بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ زمعہ کی ایک لونڈی تھی جس سے وہ خود مباشرت کرتے تھے ، اور کسی دوسرے کے بارے میں بھی گمان تھا کہ وہ اس سے صحبت کرتا ہے ، جب بچہ پیدا ہوا تو اسی شخص کے مشابہ تھا جس کے بارے میں گمان کیا جار ہا تھا ، اور لونڈی ابھی حالت حمل میں ہی تھی کہ زمعہ کی وفات ہو گئی ، بالآخر مسئلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یار کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچہ تو بستر والے کا ہے ، اور سود وہ تم اس سے پردہ کرو ، کیونکہ یہ تمہارا بھائی نہیں ہے ۔“
چنانچہ اس روایت میں صراحت ہے کہ بچہ سودہ کا بھائی نہیں ہے ، اور ایسی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سودہ کو پردہ کا حکم دینا بطور احتیاط نہیں بلکہ بطور وجو ب ہوگا ۔
اس بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وعلى هذا فيتعين تأويله وإذا ثبتت هذه الزيادة تعين تأويل نفي الأخوة عن سودة [فتح الباري لابن حجر 37/12]
اور اس بنیاد پر اس کی توجیہ کرنا طے ہے ، اور جب یہ اضافہ ثابت ہو گیا تو سودہ سے بھائی ہونے کی نفلی یقینی ہو گئی ۔
اس کے علاوہ محدثین نے اور بھی توجیہات کی ہیں ۔ خلاصہ کلام اینکہ مسئلہ میں احتمالات ہیں احتیاط کی بات حتمی نہیں ۔ واللہ اعلم

(7) بعض نے جو یہ لکھا ہے کہ ”الجاموس نوع من البقر“ یعنی بھینس گائے کی قسم ہے یہ بھی اسی زکوة کے لحاظ سے صحیح ہو سکتا ہے ۔ یہ تعبیر اس بات کی غماز ہے کہ بھینس کو نوع من البقر کہنے والا کوئی شاذ و نادر یا اکاد کا لوگ ہیں ! جبکہ معاملہ ایسا نہیں بلکہ اس پر تمام علماء لغت کا اجماع ہے ، اسی طرح مسالک اربعہ کے علماء وفقہاء اور دیگر علماء امت نے بھی اسی بات کی صراحت کی ہے کہ بھینس گائے کی نوع ہے ۔ واللہ اعلم

بھینس نہ بقر میں داخل ہے دضان میں بلکہ اطلاقا و عرفا ہر طرح سے مطلق بقر اور مطلق ضان سے متضاد ہے ، ماہر اصول فقہ صاحب نور الانوار ملاجیون رحمہ اللہ اپنی مایہ ناز کتاب تفسیر احمدی (ص 402,401) میں لکھتے ہیں:
لا ینبغى أن أن يتوهم أنه (الجاموس) داخل فى البقر ، لأنه حينئذ لا يظهر وجه إدخال الجاموس فى البقر وذكر المعز على حدة من الضأن على أن البقر مغاير للجاموس إطلاقا كما أن الضأن مغاير للمعز كذلك . وإنما لم يذكر لفظ الغنم مع أنه كان عاما لهما وكان أخصر فى البيان زيادة رد على الكفار المعتقدين حرمتهما ، وأما أصناف الإبل من البخت والعراب فإنما هي داخلة تحت الإبل المطلقة لأنها من أصنافها فلا احتياج إلى ذكرها على حدة فتأمل [التفسيرات الاحمديه ص: 276 277 طبع مكتبة الشركة 1904ء]
فاضل مفسر اپنی اس تفسیر سے ان تمام لوگوں کے وہم کا ازالہ کر رہے ہیں جو بھینس کو گائے کی نوع کہہ کر گائے میں داخل کر رہے ہیں اور یہ وہم بھی دور کر رہے ہیں کہ بخت اور عراب کو اونٹ میں داخل کرتے ہیں تو کیوں بھینس کو گائے میں داخل نہیں مانتے ہیں ۔ اس تفسیر میں فاضل اصولی ملاجیون رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قربانی اور ہدی کے لئے صرف آٹھ بہیمۃ الانعام کو شمار کیا ہے ، دو اونٹ ، دو گائے ، دو بھیڑ ، دو بکری (کیونکہ ) انعام کی انواع صرف یہی چار ہیں ۔ پھر اس کے بعد لوگوں کے وہم کی وجہ سے اگر بھینس کو گائے کی نوع کہہ کر قربانی کا جانور شمار کریں تو کل نر اور ماندہ دس جانور ہوں گے ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے کل آٹھ ہی جانور شمار کرایا ہے ، معلوم ہوا کہ یہ وہم بالکل غلط اور باطل ہے ، اور اس وہم کے بطلان کی دوسری وجہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے غنم کی دو نوع (بھیڑ ، بکری ) کو علحدہ بیان فرما کر دونوں کو قربانی کا جانور شمار کرایا ہے ، اگر بھینس بھی گائے کی نوع ہوتی تو اس کی بھی علاحدہ صراحت کر کے قربانی کے جانور کو دس جوڑا شمار کرایا جاتا ، اور اللہ تعالیٰ نے اس کو شمار نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ اس کو قربانی کا جانور شمار کرنا کتاب اللہ پر زیادتی کرنا ہے ، جو سراسر باطل اور غلط ہے ۔ [آئينه تحقیق ص: 2423]

جائزه:
(1) ملاجیون رحمہ اللہ (1130ھ مطابق 1718ء) کی یہ تفسیر سلف کی تغییر کے خلاف ہے ، کیونکہ ان کی اس تفسیر سے پیشتر ماثور تفاسیریں یہ تفسیر کسی نے نہیں کی ہے ، اس لئے یہ قابل اعتبار نہیں ہوسکتی ۔

(2)اس کے برخلاف مفسرین سلف میں سے امام ابن ابی حاتم نے لیث بن ابی سلیم سے نقل کیا ہے کہ بھینس ازواج ثمانیہ میں سے ہے ۔ [تفسير ابن ابي حاتم 1403/5 نمبر 7990]
اور اس بات کو ابن ابی حاتم سے امام سیوطی نے بھی نقل کیا ہے ۔ [الدر المنثور فى التفسير بالمأثور 371/3]
اسی طرح علامہ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ نے بھی اپنی تفسیر میں نقل فرمایا ہے ۔ [فتح البيان فى مقاصد القرآن 260/4]

(3) ملاجیون کی تفسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ بھینس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نزول قرآن کے وقت حجاز میں موجود ومتعارف تھی ، جبکہ بات ایسی نہیں ہے ۔

(4) ملاجیون نے جو کچھ لکھا ہے اس بارے میں سلف سے کوئی مستند ذکر نہیں کیا ہے ۔

(5) سابقہ صفحات میں ائمہ تفسیر کے حوالہ سے یہ بات نقل کی جاچکی ہے کہ آیات کا سیاق مذکورہ جانوروں میں قربانی کے احکام بتانے کا نہیں ہے ، بلکہ مشرکین کی بد عقیدگی کی تردید کرنے کا ہے لہٰذا مذکورہ جانوروں کا تعلق ان کے باطل عقیدہ سے ہے ، اور چونکہ بھینس موجود ہی نہ تھی اس لئے اس کا نام لینے نہ لینے کا کوئی محل ہی نہیں ہے ۔

(6) اس تفسیر سے سلف امت تابعین ، تبع تابعین ، ائمہ اربعہ اور عمومی طور پر دیگر اعیان اسلام کی تعلیط لازم آتی ہے ، جبکہ بات دلیل و برہان سے عاری ہے ۔

(7) علماء لغت عرب علما ، تفسیر ، اور علماء حدیث وفقہ کی روشنی میں بھینس اور گائے میں مغایرت نہیں بلکہ جنس کا اتحاد ہے اور بھینس گائے کی ایک نوع ہے ، جیسا کہ تصریحات بالتفصیل گزر چکی ہیں ۔

(8) مینڈھا بھی بکری کی نوع ہے اور اس میں داخل ہے ۔

(9) جس طرح بخاتی اور عراب اونٹ کے اصناف ہیں ، اسی طرح بھینس بھی گائے کی نوع ہے ، دونوں کی دلیل علماء ، لغت ، تفسیر ، حدیث اور فقہ کی تصریحات اور امت کا اجماع ہے ۔ کتاب و سنت کے نصوص میں جاموس سمیت بخاتی اور عراب وغیر کسی کا ذکر نہیں ہے ، اس لئے بھینس اور بختی وغیرہ میں تفریق بے دلیل ہے ۔

(10)تفسیرات احمدیہ میں ملاجیون امیٹھوی حنفی کے اساسی مراجع: تفسیر بیضاوی (انوار التنزيل وأسرار التاديل) تفسیر نسفى (مدارک التنزيل وحقائق التاویل) تفسیر ابو السعود (ارشاد العقل السليم إلى مزايا الكتاب الكريم ) ، تغییر زمخشری (الکشاف عن حقائق غوامض التنزيل ) تفسیر غوری تفسیر کاشفی اور تفسیر زاہد وغیرہ ہیں ۔ جیسا کہ انہوں نے مقدمہ میں اس کی وضاحت کی ہے ۔ [التفسيرات الاحمديه ص 5,4]
انکے علاوہ معتبر و متداول ماثور تفاسیر سلف مثلاًً تفسیر طبری (جامع البیان عن تاویل آی القرآن ) تفسیر ابن ابی حاتم (تفسیر القرآن العظیم ) تفسیر ابن کثیر رحمہ اللہ (تفسیر القرآن العظیم) ، تفسیر بغوی (معالم التنذیل فی تفسیر القرآن ) اور آیات احکام کی جامع کتاب تفسیر قرطبی (الجامع لأحكام القرآن ) وغیرہ سے استفادہ نہیں کیا گیا ہے؟ ؟ ! !

(11)ملاجیون کون ہیں؟ ان کے عقائد و نظریات کیا تھے؟
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں التفسیرات الاحمدیہ کے مولف ملاجیون رحمہ اللہ کی سیرت اور عقیدہ و منہج پر مختصر روشنی ڈالی جائے ، جس سے ان کی تفسیر کا منہج سمجھنے میں مدد ملے گی:
یہ فقیہ ، اصولی مفسر علامہ احمد بن ابو سعید بن عبد الله بن عبد الرزاق ابن خاصة خدا حنفی صالحی امیٹھوی رحمہ اللہ ہیں ، شیخ جیون ، یا ملاجیون سے مشہور تھے ، ان کی پیدائش 25 شعبان 1047 هـ مطابق 1637 کو امیٹھی میں ہوئی ۔ انہوں نے امیٹھی کے علاوہ ، اجمیر دہلی وغیرہ میں تدریسی خدمات انجام دی کئی سال تک سلطان عالمگیر بن شاہ جہاں کے معسکر میں دکن میں بھی رہے ، اسی طرح ایک طویل عرصہ لاہور میں قیام کیا کئی بار حجاز مقدس مکہ مکرمہ و مدینہ کا سفر کیا اور حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی ، آپ کا حافظہ غضب کا تھا ۔

آپ کی مشہور تصنیفات میں: التغيرات الاحمدیة في بيان الآيات الشرعية ، نور الأنوار في شرح المنار ، أشراق الأبصار فی تخریج احادیث نور الأنوار ، مناقب الأولياء في أخبار المشايخ اور آداب احمدی وغیرہ ہیں ۔
آپ کی وفات 9 / ذی القعدہ 1637 ھ مطابق 1718ء کو دہلی میں ہوئی ، اور میر محمد شفیع دہلوی کے پہلو میں دفنایا گیا ، پھر پچاس دنوں کے بعد آپ کے جسم کو امیٹھی منتقل کر کے آپ کے مدرسہ میں دفن کیا گیا ۔ [نزہۃ الخواطر و بہجۃ المسامع والنواظر 6 / 691 ، والأعلام للزرکلی 1/ 108 ، ومعجم المؤلفين 233/1 و معجم المفسرين من صدر الاسلام حتى العصر الحاضر 1 / 39 ، والموسوعة الميسرة فى تراجم أئمته التفسير والاقراء والنحو واللغة ص 205 نمبر 334]

عقیدہ و منہج: احمد ملاجیون کی کتابوں میں ان کی تحریروں اور ان کی سیرت سے پتہ چلتا ہے کہ وہ عقیدہ و منہج کے اعتبار سے متعصب حنفی ، صوفی جہمی ، ماتریدی ، قبوری ، چشتی ، خرافی تھے ۔
چنانچہ نزہۃ الخواطر کے محمود صفحات پر ان کی سیرت میں ان کی کتاب مناقب الأولیاء کے حوالہ سے لکھا ہے:
وقرأت فاتحة الفراغ لما بلغت اثنتين وعشرين سنة ، ثم تصديت للدرس والإفادة ، وأخذت الطريقة الجشتية عن الشيخ الأستاذ محمد صادق الستركهي ، ولما بلغت الأربعين رحلت إلى دهلي ، وأجمير ، واعتراني العشق فى هذا الزمان فأنشأت فى تلك الحالة مزدوجة على نهج المثنوي المعنوي يحمل خمسة وعشرين ألفا من الأبيات ، وأنشأت ديوان شعر كديوان الحافظ فيه خمسة الاف بيت ، ولما سافرت إلى الحجاز أنشأت قصيدة على نهج البردة فيها مائتان وعشرون بيتا بالعربية ، ولما وصلت إلى بندر سورت شرحت تلك القصيدة واعتراني العشق مرة ثانية فأنشأت تسعا وعشرين قصيدة بالعربية [نزہۃ الخواطر و بہجۃ المسامع والنواظر 691/6]
جب میں بائیس سال کا ہوا تو فراغت کا فاتحہ پڑھا ، پھر درس و تدریس کا آغاز کیا اور شیخ محمد صادق سترکھی سے چشتی سلسلہ لیا ، اور چالیس سال کا ہوا تو دہلی اور اجمیر کا سفر کیا ، اور اس زمانے میں مجھ پر عشق چھایا تو عشق کی حالت میں میں نے مثنوی کے نہج پر پچیس ہزار اشعار پر مشتمل ایک مجموعہ لکھا ، اور پانچ ہزار اشعار کا ایک دوسرا دیوان بھی لکھا ، اور جب حجاز گیا تو بردہ (بوصیری) کے نہج پر عربی میں 220 / اشعار کا ایک قصیدہ ، لکھا ، اور بندر سورت پہنچ کر اس قصیدہ کی شرح کیا ، پھر دوسری مرتبہ مجھ پر عشق سوار ہوا تو 29 قصیدے عربی میں لکھا ! ! ! ! !
اسی طرح ان کی سیرت میں ہے:
وصلت إليه الخرقة من الشيخ ليس بن عبد الرزاق القادري صحبة السيد قادري بن ضياء الله البلكرامي [نزہۃ الخواطر و بہجۃ المسامع والنواظر 691/6]
سید قادری بن ضیاء اللہ بلگرامی کی صحبت میں شیخ لیس بن عبد الرزاق قادری کا خرقہ (پھٹے ہوئے کپڑے کا ٹکڑا ، چیتھڑا جسے صوفی پیر اپنے مرید کو ایک طویل مدت کے بعد دیتا ہے ) ان کے پاس پہنچا ۔
اسی طرح اپنی تفسیر کے مقدمہ میں لکھا ہے:
طفقت اتفحص تلك الايات واتجسسها فى القعدة والقيامات ، فلم أجد عليها ظفرا ولم أقف منها أثرا ، فأمرت بلسان الالهام ، لا كوهم من الأوهام ، أن استنبطها بعون الله تعالى وتوفيقه ، واستخرجها بهداية طريقه [التفسيرات الاحمديه ص: 4]
میں ان آیات کو تلاش کرتار ہا اور قعدہ و قیام میں اس کی جستجو میں رہا لیکن کوئی کامیابی ملی ، نہ اس کا کوئی سراغ لگ سکا ، چنانچہ الہام کی زبان سے مجھے حکم دیا گیا ، جو کوئی وہم و گمان نہ تھا ، کہ میں اللہ کی مدد اور توفیق اور اس کی رہنمائی سے ان کا استنباط و استخراج کروں ! !
انہی بنیادوں پر اور دیگر تحریروں کی روشنی میں علامہ شمس الدین افغانی رحمہ اللہ ”جہود علماء الحنفیة فی ابطال عقائد القبوریہ“ میں لکھتے ہیں:
وقال الملاجيون الهندي الحنفي الجهمي الصوفي الخرافي (1130):
ومن ههنا علم أن البقرة المنذورة للأولياء كما هو الرسم فى زماننا ، حلال طيب ، لأنه لم يذكر اسم غير الله عليها وقت الذبح ، وإن كانوا ينذرونها له ﴿ [أي لغير الله] . . . .
[التفسيرات الاحمديه ص 36] [جہود علماء الحنفية فى إبطال مقائد القبورية 3/ 1546 نيز ديكهئے: 1560/3]
ملاجیون ہندی حنفی جہمی صوفی خرافی (1130 ھ) نے کہا:
اس سے معلوم ہوا کہ اولیاء کے لئے نذر مانی گئی گائے جیسا کہ ہمارے دور کی رسم ہے ، حلال اور اچھی چیز ہے ، کیونکہ ذبح کرتے وقت اس پر غیر اللہ کا نام نہیں لیا گیا ہے ، گرچہ کہ وہ لوگ وہ نذر غیر اللہ ہی کے لئے مانتے تھے ۔
اور حاشیہ میں خلاصہ لکھتے ہیں:
قلت: كان مع علمه حنفيا متعصبا ، وجهميا جلدا ماتريديا صلبا صوفيا قبوريا خرافيا قحا [جمہود علماء الحنفية فى ابطال عقائد القبورية 3 / 1546 ، حاشيه 1]
میں کہتا ہوں: ملاجیون اپنے علم کے باوجود متعصب حنفی متشد جہمی سخت ما تریدی ، پکے صوفی ، قبوری اور خرافی تھے ۔

(12) یہ ہے تفسیرات احمدیہ اور نور الانوار وغیرہ کے مصنف احمد ملاجیون حنفی کی حقیقت ۔ تو بھلا جمہور علماء الغت کی تصریح ، جمہور مفسرین سلف کی تعمیر اور فقہاء امت کی فقہ وفہم کے خلاف ملاجیون حنفی صاحب کی بلا دلیل و مستند تفسیر اور قول کیونکہ قابل اعتبار ہو سکتا ہے؟

(13) امت کے مفسرین قرآن اور مختلف فنون کے علماء کی متفقہ تفسیر و تشریح کو نظر انداز کر کے اس کے خلاف صرف ملاجیون کے بے برہان قول سے استدلال محل نظر ہے ۔

(14) یہ پہلو بھی حیرت و استعجاب کی انتہاء کا ہے کہ جامعہ دار الحدیث الاثریہ مئو کے سابق شیخ الجامعہ اور مفتی مولانا فیض الرحمن فیض رحمہ اللہ نے بھینس کی قربانی کے اس مسئلہ میں اپنے رسالہ ”آئینہ تحقیق“ اور ”فقاوائے فیض“ میں معتبر علماء لغت ، سلف کی ماثور تفاسیر ، شروح احادیث اور فقہ و اجتہاد اور فتاوی وغیرہ کے سیکڑوں معتبر مصادر و مراجع کو یکسر نظر انداز کر کے محض ملاجیون جیسے بد عقیدہ اور غیر متشخص کے قول سے استدلال کیوں کیا؟ ؟
اس سلسلہ میں ایک مجتہد کے لئے جو متوقع اعزار ہو سکتے ہیں ان میں: مراجع کی عدم فراہمی اور وقت کی تنگ دامانی وغیرہ ہیں اور نہ یہ بذات خود مولانا موصوف رحمہ اللہ کی ایک اجتہادی خطا ہے ، جس پر وہ وعدہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق بہر حال ایک اجر کے مستحق ہوں گے ۔ واللہ اعلم

بھینس میں زکاۃ کا وجوب قیاسی فتوی اور اجتہادی خطا:
بھینس میں زکاۃ اور نصاب زکاۃ قرآن اور حدیث میں کہیں مذکور نہیں ہے ، بلکہ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے بھینس کو گائے پر قیاس کر کے یہ فتوی دیا ہے ، اور سچ تو یہ ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کا یہ قیاسی فتوی صحیح نہیں ہے ، بلکہ امام مالک کے بعض قیاسی فتاوی کی طرح اس مسئلہ میں بھی ان سے چوک ہو گئی ہے ۔ کیونکہ بھینس ایک الگ چوپایہ ہے ، اس کا کوئی لگاؤ اور تعلق گائے سے نہیں ہے ، اس لئے گائے کی زکاۃ اور نصاب زکاۃ پر قیاس کر کے بھینس میں زکاۃ اور نصاب مقرر کرنا صحیح نہیں ہے ۔ [آئینہ تحقيق ص: 31]
جائزه:
(1) بار ہا یہ بات ذکر کی جاچکی ہے کہ بھینس گائے پر قیاس نہیں ہے ۔ بلکہ گائے کی جنس سے ایک عجمی نسل و نوع ہے ، اور امام مالک رحمہ اللہ نے بھینس میں زکاۃ کا فتوی قیاس کی بنیاد پر نہیں دیا ہے ، بلکہ اس لئے کہ بھینس بھی گائے ہے ، ملاحظہ فرمائیں:
قال مالك: وكذلك البقر والجواميس ، تجمع فى الصدقة على ربهما وقال: إنما هي يقر كلها [موطا امام مالك تحقيق الاعظمي 2/ 366 نمبر 895]
امام مالک فرماتے ہیں: اسی طرح زکاۃ میں گایوں اور بھینسوں کو ان کے مالکان کے یہاں جمع کیا جائے گا اور فرماتے ہیں: یہ سب گائیں ہی ہیں ۔
اس لئے ”بھینس گائے پر قیاس ہے“ کہنا درست نہیں علامہ ابن قیم رحمہ للہ بھینسوں میں زکاۃ کی فرضیت کا سبب ”قیاس“ قرار دینے والوں کی تردید میں فرماتے ہیں:
واحتجوا أيضا بإيجاب الزكاة فى الجواميس وأنه إنما وجب ذلك قياسا على البقر ، . . . وهذا شغب فاسد لأن الجواميس نوع من أنواع البقر ، وقد جاء النص بإيجاب الزكاة فى البقر [الاحكام فى أصول الأحكام لابن حزم ، 7/ 132]
اور بھینسوں میں زکاۃ کی دلیل یہ پیش کیا کہ گائے پر قیاس کی بنا پر ہے یہ بہت بری بات ہے کیونکہ بھینسیں گائے کی قسموں میں سے ایک قسم ہیں ، اور گائے میں زکاۃ کے وجوب پر نص موجود ہے ۔

(2) بھینسوں میں زکاة کا مسئلہ صرف امام مالک رحمہ اللہ کا نہیں ہے ، بلکہ ان سے پہلے امام حسن بصری خلیفہ عمر بن عبد العزیز اور ان کے بعد شافعی ، احمد بن حنبل سمیت تمام علماء امت کا ہے ۔ جیسا کہ سابقہ صفحات میں ان کی تصریحات گزر چکی ہیں ، بلکہ گائے اور بھینس کے حکم کی
یکسانیت پر امت کا اجماع ہے ۔

(3) اسے امام مالک رحمہ اللہ کی اجتہادی خطا اور چوک کہنا درست نہیں ، کیونکہ یہ صرف امام مالک کی رائے اور ان کا فتوی نہیں ہے بلکہ علماء کا اجماعی مسئلہ ہے جیسا کہ متقین سے منقول ہے ۔ اور امت کے اجماع کو اللہ کی عصمت و حفاظت حاصل ہے ۔
لہٰذا اسے امام مالک رحمہ اللہ کا قیاسی فتویٰ اور ان کی اجتہادی چوک قرار دینا دراصل خود علامہ فیض الرحمن فیض رحمہ اللہ کی اجتہادی خطا اور چوک ہے ، اور اس پر بھی وہ من عند اللہ ایک اجر کے مستحق ہوں گے ، ان شاء اللہ واللہ اعلم
هذا ما عندی واللہ اعلم ، وصلی اللہ وسلم على نبينا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین
ابو عبد الله عنایت اللہ حفیظ اللہ سنابلی مدنی

اس تحریر کو اب تک 96 بار پڑھا جا چکا ہے۔