سبحان اللہ کے فضائل و مقامات

تحریر : تفضیل احمد ضیغم

سبحان اللہ کا معنی و مفہوم :

سبحان مضاف ہے اور لفظ اللہ مضاف الیہ ہے سبحان مصدر ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور اس کا فعل محذوف ہے یعنی اسبح پر اہل علم کے ہاں فعل محذوف کے ساتھ اس کی عبارت یوں بنے گی اسبح سبحان الله ( میں اللہ کا پاک ہونا بیان کرتا ہوں) سبحان اللہ ایک جامع کلمہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا خلاصہ سمٹ آتا ہے سبحان اللہ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ پاک ہے یعنی اللہ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے ۔ وہ کھانے پینے کی حاجات سے پاک ہے اولاد اور بیوی بچوں سے پاک ہے ہر قسم کی بیماری ، ڈر اور خوف سے پاک ہے نہ اسے نیند آتی ہے نہ اونگھ ، وہ ہر قسم کی محتاجگی سے پاک ہے ساری مخلوقات اس کی محتاج ہیں اور وہ اکیلا بادشاہ ہے اس میں کوئی عیب اور کمی نہیں دوسرے لفظوں میں ہر وہ عیب جسے عیب کہا جا سکتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہیں اتنی جامعیت کی وجہ سے یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کی تقریباًً آدھی صفات کا خلاصہ ہے ۔

سبحان اللہ کا وزن :

سبحان اللہ کا کلمہ اللہ تعالیٰ کو پسندیدہ ہے اور میزان عمل میں بھی بہت وزن رکھتا ہے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
كلمتان حبيبتان إلى الرحمن خفيفتان على اللسان ثقيلتان فى الميزان سبحان الله و بحمده ، سبحان الله العظيم
”دو کلمے ایسے ہیں جواللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں اور (قیامت کے دن) اعمال کے ترازو میں بوجھل اور باوزن ہوں گے ، (وہ کلمات مبارکہ یہ ہیں) سبحان الله و بحمده ، سبحان الله العظيم .
[ صحيح بخاري ، كتاب التوحيد ، باب قول الله تعالى وضع الموازين القسط ، رقم : 7563]

زمین و آسمان کے مابین کی جگہ :

سبحان اللہ اور الحمدللہ دو ایسے کلمات ہیں جو کہنے والے کے لیے زمین و آسمان کے مابین کی جگہ ثواب سے بھر دیتے ہیں ۔ سیدنا ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
الظهور شطر الإيمان ، والحمد لله تملأ الميزان وسبحان الله والحمد لله تملان أو تملأ ما بين السماوات والأرض والصلاة نور . والصدقة برهان ، والصبر ضياء ، والقرآن حجة لك أو عليك كل الناس يعدو فبائع نفسه فمعتقها أو مو بقها ۔
طہارت آدھے ایمان کے برابر ہے ۔ اور ”الحمد لله“ بھر دے گا ترازو کو (یعنی اس قدر اس کا ثواب ہے کہ اعمال تولنے کا ترازو اس کے اجر سے بھر جائے گا) اور سبحان اللہ اور الحمد للہ دونوں بھر دیں گے آسمانوں اور زمین کے درمیان کی جگہ کو اور نماز نور ہے اور صدقہ دلیل ہے اور صبر روشنی ہے اور قرآن تیرے حق میں دلیل ہے یا تیرے خلاف دلیل ہے ہر ایک آدمی ( بھلا ہو یا برا صبح کو اٹھتا ہے خود کو آزاد کرتا ہے (نیک کام کر کے اللہ کے عذاب سے) یا (برے کام کر کے) اپنے آپ کو تباہ کرتا ہے ۔
[ صحيح مسلم – كتاب الطهارة ، باب فضل الوضوء ، رقم : 223]
سبحان اللہ کے وزن کا اندازہ صحیح مسلم کی اس روایت سے بھی لگایا جا سکتا ہے جو سیدہ جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔
أن النبى صلى الله عليه وسلم خرج من عندها بكرة حين صلى الصبح ، وهى فى مسجديها ، ثم رجع بعد أن أضحى ، وهى جالسة ، فقال : ما زلت على الحال التى فارقتك عليها؟ قالت : نعم ، قال النبى صلى الله عليه وسلم : ”لقد قلت بعدك أربع كلمات ثلاث مرات لو وزنت بما قلت منذ اليوم لوزنعهن : سبحان الله و بحمده ، عدد خلقه ورضانفسه وزنة عرشه ومداد كلماته
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح سویرے ان کے پاس سے نکلے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھی وہ اپنی نماز کی جگہ پر تھیں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کے وقت لوٹے ، دیکھا تو وہ وہیں بیٹھی ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم اسی حال میں ہو؟ جب سے میں نے تمہیں چھوڑا ۔ ”سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا نے کہا جی ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے تمہارے بعد چار کلمے تین بار کہے اگر وہ تولے جائیں ان کلموں کے ساتھ جو تو نے اب تک کہے ہیں البتہ وہی بھاری پڑیں گے وہ کلمے یہ ہیں سبحان الله و بحمده عدد خلقه ورضانفسه وزنة عرشه ومداد كلماته ”یعنی میں اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں اس کی حمد کے ساتھ اس کی مخلوقات کے شمار کے برابر اور اس کی رضا مندی اور خوشی کے برابر اور اس کے عرش کے وزن کے برابر اور اس کے کلمات کی سیاہی کے برابر ۔
[ صحيح مسلم كتاب الذكر والدعاء ، باب التسبيخ اول النهار وهند النوم ، رقم : 2726]

سبحان اللہ کے گناہوں پر اثرات :

سبحان اللہ کا کلمہ گناہوں کو ختم کرنے میں اکسیر کا درجہ رکھتا ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
من قال : سبحان الله و بحمده فى يوم مائة مرة حظت خطاياه . وإن كانت مثل زبد البحر
”جس نے سبحان الله و بحمده دن میں سو مرتبہ کہا: ، اس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ، خواہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں ۔
[صحيح بخاري ، كتاب الدعوات ، باب فضل التسبيح ، رقم : 6405]

جنت میں شجرکاری :

سبحان اللہ کہنا جنت میں شجرکاری کرنا ہے ۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر به وهو يغرس غرسا . فقال : ”يا أبا هريرة, ما الذى تغرس ”قلت : غراسالي قال : ألا أدلك على غراس خير لك من هذا ؟ ”. قال : بلى يا رسول الله, قال : ”قل : سبحان الله والحمد لله, ولا إله إلا الله, والله أكبر يغرس لك بكل واحدة فجرة فى الجنة .
”وہ ایک دن درخت لگا رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرے اور فرمایا : ”ابوہریرو ! تم کیا لگا رہے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں درخت لگا رہا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کیا میں تمہیں اس سے بہتر درخت نہ بتاؤں ؟ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں؟ آپ ضرور بتلائیے اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سبحان الله والحمد لله, ولا إله إلا الله والله أكبر کہا کرو ، تو ہر ایک کلمہ کے بدلے تمہارے لیے جنت میں ایک درخت لگا دیا جائے گا ۔“
[صحيح سنن ابن ماجه الالباني كتاب الادب ، باب فضل اتسبيح ، رقم : 3807 ]

افضل ترین کلام :

سبحان اللہ پر مشتمل کلمات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے افضل ترین کلام قرار دیا ہے ۔ سیدناسمرة بن جندب صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
أربع أفضل الكلام لا يضرك بأيهن بدأت : سبحان الله ، والحمد لله, ولا إله إلا الله والله أكبر
”چار کلمے تمام کلمات سے بہتر ہیں اور جس سے بھی تم شروع کرو تمہیں کوئی نقصان نہیں ، وہ یہ ہیں سبحان الله الحمد لله, لا إله إلا الله الله أكبر اللہ کی ذات پاک ہے ، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ، اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، اور اللہ بہت بڑا ہے ۔“
[ صحيح سنن ابن ماجد للالباني ، كتاب الادب ، باب فضل اتسبيح ، رقم : 3811]

دعا کی قبولیت میں کردار :

سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من تعار من الليل, فقال حين يستيقظ : لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، له الملك وله الحمد ، وهو على كل شيء قدير . سبحان الله والحمد لله, ولا إله إلا الله, والله أكبر, ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم ثم دعا رب اغفر لي, غفر له ، قال الوليد : أو قال : دعا استجيب له, فإن قام فتوضأ ثم صلى قبلت صلاته .
”جو رات میں بیدار ہو اور آنکھ کھلتے ہی یہ دعا پڑھے : لا إله إلا الله وحده لا شريك له, له الملك, وله الحمد, وهو على كل شيء قدير, سبحان الله, والحمد لله, ولا إله إلا الله, والله أكبر ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم “ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اس کے لیے بادشاہت ہے ، اور اسی کے لیے حمد وثنا ہے ، وہی ہر چیز پر قادر ہے ، اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں ، تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں ، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اللہ ہی سب سے بڑا ہے ، طاقت وقوت اللہ بلند و برتر کی توفیق ہی سے ہے پھر یہ دعا پڑھے : رب اغفرلي اے رب مجھے بخش دے ، تو وہ بخش دیا جائے گا ، ولید کہتے ہیں : یا یوں کہا: اگر وہ دعا کرے تو اس کی دعا قبول ہوگی ، اور اگر اٹھ کر وضو کرے ، پھر نماز پڑھے تو اس کی نماز قبول ہوگی ۔
[صحيح سنن ابن ماجه للالباني ، كتاب الدعاء ، باب مايدعو به اذا انبه من الليل ، رقم : 3878 ]

ہزار نیکیاں :

سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال : ”أيعجر أحدكم أن يكسب كل يوم ألف حسنة ”. فسأله سائل من جلسانه كيف يكسب أحدنا ألف حسنة ، قال : ”يسبح مائة تسبيحة فيكتب له ألف حسنة أو يحط عنه ألف خطيئة۔
”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کیا تم میں سے کوئی عاجز ہے ہزار نیکیاں ہر روز کرنے سے ۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھنے والوں میں سے کسی پوچھنے والے نے پوچھا: ہم سے کوئی ہزار نیکیاں کیسے کر سکتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سو بار ”سبحان اللہ“ کہے تو ہزار نیکیاں اس کے لیے لکھی جائیں گی اور ہزار گناہ اس کے مٹا دئیے جائیں گے ۔
[صحيح مسلم كتاب الذكر والدعاء ، باب فضل الجليل والتسبيح والدعاء ، رقم : 6852 ]

صبح و شام کے اذکار میں اہم مقام :

سبحان اللہ کے کلمہ کو صبح و شام کے اذکار میں ایک اہم مقام حاصل ہے اور اس کلمہ کا ورد کرنے والا قیامت کے دن ثواب کے اعتبار سے ممتاز ہو گا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
من قال حين يصبح وحين يمسى سبحان الله و بحمده مائة مرة لم يأت أحد يوم القيامة بأفضل ما جاء به إلا أحد قال مثل ما قال أوزاد عليه
”جو شخص صبح اور شام کو سبحان الله و بحمده سو بار کہے قیامت کے دن اس سے بہتر کوئی عمل لے کر نہ آئے گا مگر جو اتنا ہی یا اس سے زیادہ کہے
[صحيح مسلم كتاب العلم ، باب فضل الجليل واتسبيح والدعاء ، رقم : 2692 ]

انسانوں اور فرشتوں کے لیے منتخب کلمہ :

سبحان اللہ کے کلمہ کو یہ مقام حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کلمہ کو انسانوں اور فرشتوں کے لیے بطور خاص منتخب فرمایا ہے ۔ سید نا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم : سئل أى الكلام أفضل قال : ”ما اصطفى الله لملائكته أو لعباده سبحان الله و بحمده ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: گیا کون سا کلام افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جس کواللہ تعالیٰ نے چنا اپنے فرشتوں کے لیے یا بندوں کے لیے یعنی سبحان الله و بحمده ۔“
[صحيح مسلم كتاب الذكر والدعاء والتو بة والاستغفار ، باب فضل سبحان الله و بحمد و رقم : 2731 ]

اللہ کو پسندیدہ کلمہ :

سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ألا أخبرك بأحت الكلام إلى الله ، قلت : يارسول الله أخبرني باحت الكلام إلى الله فقال : ”إن أحب الكلام إلى الله سبحان الله و بحمدة۔
میں تمہیں نہ بتلاؤں وہ کلام جو بہت پسند ہے اللہ کو؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بتلائیے وہ کلام جواللہ کو بہت پسند ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بہت پسند اللہ تعالیٰ کو یہ کلام ہے سبحان الله و بحمده
[صحيح مسلم ۔ كتاب الذكر والدعاء باب فضل سبحان الله و بحمد و رقم : 2731]

تلاوت قرآن کے قائم مقام :

سید نا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
جاء رجل إلى النبى صلى الله عليه وسلم ، فقال : ”إنى لا أستطيع أن اخذ من القرآن شيئا فعلمني ما يجزئني منه؟ قال : قل : سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله ، والله أكبر ، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم
ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : میں قرآن میں سے کچھ نہیں پڑھ سکتا ، اس لیے آپ مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیکھئیے جو اس کے بدلے مجھے کفایت کرے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر ، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم ”کہا کرو ۔ “
[حسن سنن ابي داؤد والالباني ، الجواب تفريح استفتاح الصلاة ، باب ما جزئي الامي والا عجمعي من القرآة ، رقم : 832]
اگر کوئی آدمی قرآن پاک کی قرآت نہیں جانتا تو مذکورہ حدیث کے پیش نظر اگر وہ سبحان اللہ اور ذکر کردہ دیگر کلمات پڑھ لے تو قرآت کی جگہ اسے کفایت کر جائیں گے ۔

رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم معمولات :

سیدنا ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كنت أبيت عند حجرة النبى صلى الله عليه وسلم فكنت أسمعه إذا قام من الليل, يقول : ”سبحان الله رب العالمين الهوى ”ثم يقول : ”سبحان الله و حمده الهوى”۔
میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کمرے کے پاس رات گزارتا تھا ، تو میں آپ کو سنتا جب آپ رات کو اٹھتے ، تو دیر تک سبحان الله رب العالمين”کہتے پھر سبحان الله و بحمده دیر تک کہتے ۔
[صحيح سنن نسائي لالباني ، كتاب قيام اليل و تطوع النهار ، باب ذكر باستفتح به القيام ، رقم : 1218]
حضرت شریق الہوزنی رحمہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور ان سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو نیند سے بیدار ہوتے تو پہلا عمل کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا :
لقد سألتني عن شيء ماسألني عنه أحد قبلك, كان إذا هب من الليل كبر عشرا وحمد عشرا ، وقال : سبحان الله وبحمده عشرا ، وقال : سبحان الملك القلوس عشرا واستغفر عشرا . وهلل عشرا ، ثم قال : اللهم إني أعوذ بك من ضيق الدنيا . وضيق يوم القيامة عشرا ، ثم يفتتح الصلاة
”تم نے مجھ سے ایسی بات پوچھی ، جو تم سے پہلے کسی نے نہیں پوچھی ہے ، آپ جب رات کو نیند سے جاگتے تو دس بار الله اكبر کہتے ، دس بار الحمد للهکہتے ، دس بار سبحان الله وبحمده کہتے ، دس بار سبحان الملك القدوس کہتے ، اور دس بار استغفر الله کہتے ، اور دس بار لا إله إلا الله کہتے ، پھر دس بارُ اللهم إني أعوذ بك من ضيق الدنيا ، وضيق يوم القيامةاے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں دنیا کی تنگی سے اور قیامت کے دن کی تنگی سے کہتے ، پھر نماز شروع کرتے ۔
[حسن صحيح ۔ سنن ابي داود للالباني ، ابواب النوم ، باب ما يقول از اصبح ، رقم : 5085]
معلوم ہوا کہ سبحان اللہ کا کلمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دن اور رات کے معمولات میں شامل تھا ۔ دن کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہ کثرت سے پڑھتے اور رات کو جیسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھلتی سبحان اللہ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے در و زباں ہوتا ۔

علی و فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وصیت :

سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أن فاطمة عليهما السلام أتت النبى صلى الله عليه وسلم تشكو إليه ما تلقى فى يدها من الرحى وبلغها أنه جاءه رقيق فلم تصادفه ، فذكرت ذلك لعائشة ، فلما جاء أخبرته عائشة . قال : فجاءنا وقد أخذنا مضاجعنا ، فذهبنا نقوم ، فقال : على مكانكما ، فجاء فقعد بيني وبينها حتى وجلت برد قدميه على بطني ، فقال : ألا أدلكما على خير مماسألها إذا أخذتما مضاجعكما أو أويما إلى فراشكما فسبحا ثلاثا وثلاثين . واحمدا ثلاثا وثلاثين ، وكبرا أربعا وثلاثين ، فهو خير لكما من خادم.
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ بتانے کے لیے حاضر ہوئیں کہ چکی پیسنے کی وجہ سے ان کے ہاتھوں میں کتنی تکلیف ہے ۔ انہیں معلوم ہوا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ غلام آئے ہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ملاقات نہ ہوسکی ۔ اس لیے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کا ذکر کیا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا آپ سے اس کا تذکرہ کیا ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لائے (رات کے وقت) ہم اس وقت اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے ہم نے اٹھنا چاہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم دونوں جس طرح تھے اسی طرح رہو ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے اور فاطمہ کے درمیان بیٹھ گئے ۔ میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے پیٹ پر محسوس کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں نے جو چیز مجھ سے مانگی ہے ، کیا میں تمہیں اس سے بہتر ایک بات نہ بتا دوں؟ جب تم (رات کے وقت) اپنے بستر پر لیٹ جاؤ تو 33 مرتبہ سبحان اللہ ، 33 مرتبہ الحمد للہ اور 34 مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو یہ تمہارے لیے لونڈی غلام سے بہتر ہے ۔
[صحيح بخاري ، كتاب المعلقات ، باب عمل المرأة فى بيت زوجها ، رقم : 5361]
سبحان اللہ کا کلمہ اگر اللہ اکبر اور الحمد للہ کے ساتھ ملا کر مذکورہ تعداد میں رات کو سونے سے پہلے پڑھ لیا جائے تواللہ تعالیٰ نیند میں ایسی برکت ڈال دیتے ہیں کہ دن بھر کی تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے اور وہ خدام و ملازمین سے بے نیاز ہو جاتا ہے ۔
وہ تم سے آگے نہ بڑھ سکیں گے :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ہے :
جاء الفقراء إلى النبى صلى الله عليه وسلم ، فقالوا : ذهب أهل الدثور من الأموال بالدرجات العلا والنعيم المقيم . يصلون كمانصلي ويصومون كمانصوم ، ولهم فضل من أموال يحجون بها ويعتمرون ويجاهدون ويتصدقون ، قال : ”ألا أحددكم بأمر إن أخذتم به أدركتم من سبقكم ولم يدرككم أحد بعد كم وكنتم خير من أنتم بين ظهرانيه ، إلا من عمل مثله تسبحون وتحمدون وتكبرون خلف كل صلاة ثلاثا وثلاثين ، فاختلفنا بيننا فقال : بعضنا نسبح ثلاثا وثلاثين وأحمد ثلاثا وثلاثين ونكبر أربعا وثلاثين ، فرجعت إليه . فقال : تقول سبحان الله والحمد لله والله أكبر حتى يكون منهن كلهن ثلائا وثلاثين ۔
نادار لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ امیر و رئیس لوگ بلند درجات اور ہمیشہ رہنے والی جنت حاصل کر چکے حالانکہ جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں وہ بھی پڑھتے ہیں اور جیسے ہم روزے رکھتے ہیں وہ بھی رکھتے ہیں لیکن مال و دولت کی وجہ سے انہیں ہم پر فوقیت حاصل ہے کہ اس کی وجہ سے وہ حج کرتے ہیں ۔ عمرہ کرتے ہیں ۔ جہاد کرتے ہیں اور صدقے دیتے ہیں اور ہم محتاجی کی وجہ سے ان کاموں کو نہیں کر پاتے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں ایک ایسا عمل بتاتا ہوں کہ اگر تم اس کی پابندی کرو گے تو جو لوگ تم سے آگے بڑھ چکے ہیں انہیں تم پالوگے اور تمہارے مرتبہ تک پھر کوئی نہیں پہنچ سکتا اور تم سب سے اچھے ہو جاؤ گے ہاں ان کے علاوہ جو یہی عمل شروع کر دیں ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس مرتبہ تسبیح سبحان الله تحمید الحمد الله تکیبر الله أكبر کہا کرو ۔ پھر ہم میں اختلاف ہو گیا کسی نے کہا کہ ہم تسبیح سبحان اللهتینتیس مرتبہ ، تحمید الحمد لله تینتیس مرتبہ اور تکبیر الله أكبرچونتیس مرتبہ کہیں گے ۔ میں نے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوبارہ معلوم کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”سبحان الله الحمد الله اور الله أكبر یہاں تک کہ ہر ایک ان میں سے تینتیس مرتبہ ہو جائے ۔“
[ صحيح بخاري ، كتاب الاذان ، باب الذكر بعد الصلاة ، رقم : 843]
سبحان اللہ کا کلمہ اگر الحمد للہ اور اللہ اکبر کے ساتھ ملا کر نمازوں کے بعد مذکورہ تعداد میں پڑھا جائے اور بندہ اسے اپنا معمول بنا لے تواللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے والوں کا مقام بنا مال خرچ کئے پالیتا ہے ۔

سمندر کی جھاگ کے برابر بھی گناہ ہوں تو :

سیدنا ابوہری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
من سبح الله فى دبر كل صلاة ثلاثا وثلاثين ، وحمد الله ثلاثا وثلاثين ، وكبر الله ثلاثا وثلاثين ، فتلك تسعة وتسعون ، وقال تمام المائة : لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، له الملك وله الحمده وهو على كل شيء قدير ، غفرت خطاياه وإن كانت مثل زبد البحر
جو ہر نماز کے بعد سبحان اللہ 33 بار اور الحمد للہ 33 بار اور اللہ اکبر 33 بار کہے تو یہ نانوے کلمے ہوں گے اور سو کا عدد پور ا کرنے کے لیے یوں کرے کہ ایک بار لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير پڑھے یعنی ( کوئی معبود عبادت کے لائق نہیں مگر اللہ اکیلا ہے وہ ، اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اسی کی ہے سلطنت اور اسی کے لیے سب تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے) تو اس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں اگر چہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں ۔
[صحيح مسلم كتاب المساجد و مواضع الصلاة باب استحباب الذكر بعد الصلاة ، رقم : 597]
سبحان اللہ الحمدللہ اور اللہ اکبر کا کس قدر بلند مقام ہے کہ ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ گناہوں کی تاریکیوں کو کافور کر دیتا ہے ۔
عصیاں سے کبھی ہم نے کنارہ نہ کیا
مگر تو نے دل آزردہ کبھی ہمارا نہ کیا
ہم نے تو کی جہنم میں جانے کی تدبیر بہت
مر تو نے کبھی دل آزردہ ہمارا نہ کیا

سبحان اللہ کہنے کے مقامات

ذیل میں ان مقامات کا ذکر کیا جا رہا ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبحان اللہ کہنے کا حکم ارشاد فرمایا ، یا خود سبحان اللہ کہا: اسی طرح ان مقامات کا بھی ذکر ہوگا جہاں صحابہ کرام نبی کریم نے سبحان اللہ کہا: ۔

نماز میں کسی امر پر مطلع کرنے کے لیے :

سید نا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی کہ قباء کے قبیلہ بنو عمرو بن عوف میں کوئی جھگڑا ہو گیا ہے ۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کئی اصحاب کو ساتھ لے کر ان میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے ۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں صلح وصفائی کے لیے ٹھہر گئے ۔ ادھر نماز کا وقت ہو گیا تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں آئے اور نماز کا وقت ہو گیا ہے تو کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں اگر تم چاہتے ہو تو پڑھا دوں گا ۔ چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھ گئے اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے اور صفوں سے گزرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی صف میں آکھڑے ہوئے ، لوگوں نے ہاتھ پر ہاتھ مارنے شروع کر دئیے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں کسی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے ۔ لیکن جب لوگوں نے بہت تالیاں بجائیں تو انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کے لیے کہا: ۔ اس پر حضرت ابوبک رضی اللہ عنہ نے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور پھر الٹے پاؤں پیچھے کی طرف چلے آئے اور صف میں کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی ۔
نماز سے فارغ ہو کر آپ ملے تم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا :
يا أيها الناس ما لكم حين تابكم شيء فى الصلاة أخذتم بالتصفيح إنما التصفيح للنساء من تابه شيء فى صلاته فليقل سبحان الله . ثم التفت إلى أبى بكر رضى الله عنه فقال : يا أبا بكر ما منعك أن تصلي للناس حين أثرت إليك, قال أبو بكر : ما كان ينبغي لا بن أبى فحافة أن يصلي بين يدى رسول الله صلى الله عليه وسلم”۔
لوگو ! کیا بات ہے کہ جب نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تم تالیاں بجانے لگتے ہو ۔ یہ عمل تو عورتوں کے لیے ہے ۔ تمہیں اگر نماز میں کوئی امر پیش آئے تو سبحان الله کہا کرو ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ابوبکر ! میرے کہنے کے باوجود تم نے نماز کیوں نہیں پڑھائی؟ حضرت ابوبک رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : ابوقحافہ کے بیٹے کو زیب نہیں دیتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں نماز پڑھائے ۔
[ صحيح بخاري ، ابواب العمل فى الصلاة ، باب رفع الايدي فى الصلاة لامر منزل به ، رقم : 1318]
معلوم ہوا کہ مرد حضرات دوران نماز امام کو کسی امر پر مطلع کرنے کے لیے سبحان اللہ کہیں گے ۔ اس کی ایک مثال سنن ابی داؤد میں موجود ہے ۔ سیدنا زیاد بن علاقہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
صلى بنا المغيرة بن شعبة فنهض فى الركعتين ، قلنا : سبحان الله قال : سبحان الله ومضى فلها أتم صلاته وسلم ”سجد سجدتي السهو ”فلما انصرف قال : رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنع كما صنعت۔
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز پڑھائی ، وہ دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہوگئے ، ہم نے سبحان الله کہا: ، انہوں نے بھی سبحان الله کہا: اور نماز پڑھتے رہے ، اور جب انہوں نے اپنی نماز پوری کر لی اور سلام پھیر دیا تو سہو کے دو سجدے کئے ، پھر جب نماز سے فارغ ہو کر پلٹے تو کہا: میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے ۔
[ صحيح سنن ابي داؤد طالباني ، تفريح ابواب الركوع والسجود ، باب من نسي آن يشيد و هو جالس ، رقم : 1037]
پس امام کی بھول پر اسے سبحان اللہ بول کر اطلاع دی جائے گی ۔

کسی بھاری کلمہ کے جواب میں :

سیدنا حنظلہ میں رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں :
لقيني أبوبكر ، فقال : كيف أنت يا حنظلة قال : قلت : نافق حنظلة ، قال : سبحان الله ما تقول . قال : قلت : نكون عند رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكرنا بالنار والجنة حتى كأنا رأى عين فإذا خرجنا من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم عافسنا الأزواج والأولاد والضيعات ، فنسينا كثيرا ، قال أبوبكر : فوالله إنا لنلقى مثل هذا ، فانطلقت أنا وأبوبكر حتى دخلنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم . قلت : نافق حنظلة يا رسول الله ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ”وما ذاك ”. قلت : يا رسول الله نكون عندك تذكرنا بالنار والجنة حتى كأنا رأى عين فإذا خرجنا من عندك عافسنا الأزواج والأولاد والضيعات نسينا كثيرا . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ”والذي نفسي بيده إن لو تدومون على ما تكونون عندي . وفي الذكر لصافحتكم الملائكة على فرشكم وفي طرقكم ، ولكن يا حنظلة ساعة وساعة ثلاث مرات۔
”سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملے اور پوچھا: اے حنظلہ ! آپ کیسے ہیں؟ میں نے کہا: حنظلہ تو منافق ہو گیا ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: سبحان اللہ ! آپ کیا کہتے ہے ؟ میں نے کہا جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دوزخ اور جنت کی یاد دلاتے ہیں گویا وہ دونوں ہماری آنکھ کے سامنے ہیں ، پھر جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے واپس آجاتے ہیں بیوی بچوں اور کارو بار میں مصروف ہو جاتے ہیں تو بہت کچھ بھول جاتے ہیں ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم ہمارا بھی یہی حال ہے ، پھر میں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں چلے یہاں تک کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے ، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! حنظلہ منافق ہو گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آپ کا کیا مطلب ہے ؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں تو آپ ہمیں دوزخ اور جنت کی یاد دلاتے ہیں گویا دونوں ہماری آنکھ کے سامنے ہیں ، پھر جب ہم آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں بیوی بچوں اور دیگر کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں تو کئی باتیں بھول جاتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تمہاری مسلسل یہی کیفیت رہے جس طرح میرے پاس رہتے ہو اور یاد الہی میں رہو تو فرشتے تم سے مصافحہ کریں تمہارے بستروں پر اور تمہاری راہوں میں ۔ لیکن اے حنظلہ کبھی کوئی کیفیت ہوتی ہے اور کبھی کوئی کیفیت ۔ تین مرتبہ آپ صلی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ۔“
[صحيح مسلم ، كتاب التوبة ، باب فضل دوام الذكر و الفكر فى امور الاخرة ، رقم : 2750]
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ سے یہ کلمہ سنا کہ حنظلہ منافق ہو گیا تو انہیں حیرت ہوئی اس لئے کہ یہ بہت بھاری کلمہ تھا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اکثر نفاق سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے منہ سے فور نکلا سبحان الله ماتقول ؟ ( سبحان اللہ (حنظلہ) تم کیا کہہ رہے ہو؟) دین و عقیدہ سے متصادم کوئی کلمه سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ فوری سبحان اللہ کہتے ۔ مطلب یہ ہوتا کہ اللہ پاک ہے اور وہ تجھے اس برے عمل سے بچائے ۔ ایسی ہی ایک مثال ترمذی کی حدیث میں موجود ہے ۔ سیدنا ابوواقد لیشی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما خرج إلى خيبر ، مر بشجرة للمشركين . يقال لها : ذات أنواط يعلقون عليها أسلحتهم فقالوا : يا رسول الله اجعل لنا ذات أنواط كما لهم ذات أنواط ، فقال النبى صلى الله عليه وسلم : ”سبحان الله هذا كما قال قوم موسى: اجعل لنا إلها كما لهم آلهة والذي نفسي بيده لتركبن سنة من كان قبلكم
”جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین کے لیے نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کے ایک درخت کے پاس سے ہوا جسے ذات انواط کہا جاتا تھا ، اس درخت پر مشرکین اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے ۔ صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر فرما دیجئے جیسا کہ مشرکین کا ایک ذات انواط ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”سبحان اللہ ! یہ تو وہی بات ہے جو موسیٰ علیہ سلام کی قوم نے کہی تھی کہ ہمارے لیے بھی معبود بنا دیجئے جیسا ان مشرکوں کے لیے ہے ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم گزشتہ امتوں کی پوری پوری پیروی کرو گے ۔
[صحيح سنن ترمذي للالباني ابواب العتن ، باب ما جاء لتركین سنن من كان قبلكم ، رقم : 2170]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی میں جانے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا مشرکین کو دیکھ کر اُن ہی کی طرح کسی درخت کو اپنے لئے متبرک ٹھہرانے کی خواہش کا اظہار کرنا مشرکین سے مشابہت کے ساتھ ساتھ مشرکانہ طرز عمل بھی تھا پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوری کہا: سبحان اللہ یہ تو ویسی ہی بات ہے جیسی موسی علیہ اسلام کی قوم نے کہی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سبحان اللہ کہنے کا مطلب یہی تھا کہ اللہ پاک ہے اور وہ تمہیں اس مشرکانہ طرز عمل سے بچائے ۔

لا یعنی سوال کے جواب میں :

کسی لایعنی سوال کا جواب بھی سبحان اللہ سے دیا جا سکتا ہے حضرت حمید رحمہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ علیہ مکہ تشریف لائے تو فقہاء مکہ نے مجھ سے کہا: تم ان سے درخواست کرو کہ وہ ہمارے لئے ایک دینی نشست کے لیے وقت نکالیں اور وعظ فرمائیں ۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ علیہ راضی ہو گئے لوگ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے خطاب شروع کیا ۔ میں نے ان سے بڑا خطیب نہیں دیکھا ، ایک شخص نے ان سے سوال کیا ۔ اے ابوسعید ! شیطان کو کس نے پیدا کیا؟ تو انہوں نے جواب میں کہا: سبحان الله هل من خالق غير الله : خلق الله الشيطان وخلق الخير وخلق الشر
”سبحان اللہ ! کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے ؟ اللہ نے شیطان کو پیداکیا اور اس نے خیر کو پیدا کیا ، اور شر کو پیدا کیا ۔
[ صحيح لغيره ۔ سنن ابي داؤد للالباني ، كتاب السنته ، باب لزوم السنته ، رقم : 4618]
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ علیہ کے سبحان اللہ کہنے کا مطلب تھا اللہ پاک ہے اور وہ مجھے ایسے فاسد خیالات اور سوالات سے بچائے ۔

کسی چیز کی کثرت دیکھ کر :

ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں :
استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة فزعا ، يقول : سبحان الله ماذا أنزل الله من الخزائن وماذا أنزل من الفتن . من يوقظ صواحب الحجرات ، يريد أزواجه لكي يصلين ، رب كاسية فى الدنيا عارية فى الآخرة
ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرائے ہوئے بیدار ہوئے اور فرمایا سبحان اللہ اللہ تعالیٰ نے کتنے ہی خزانے نازل فرمائے ہیں اور کتنے فتنے اتارے ہیں ان حجرہ والیوں کو کوئی بیدار کرے آپ کی مراد ازواج مطہرات تھیں تاکہ یہ نماز پڑھیں ۔ بہت سی عورتیں دنیا میں کپڑے پہنے والیاں آخرت میں ننگی ہوں گی ۔
[صحيح بخاري ۔ كتاب الفتن ، باب لاياتي زمان الا الذى بعده شرمنه ، رقم : 7069]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نازل ہونے والے خزانوں کی کثرت کو دیکھ کر سبحان اللہ کہا: اور ازواج مطہرات کے لیے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اگر جاگ رہی ہوتیں تو تہجد کی ادائیگی اور گریہ زاری و دعا سے ان خزانوں کو سمیٹ لیتیں اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تہجد کی ادائیگی اللہ کے خزانوں تک رسائی میں معاون ہے اور فتنوں سے بچاؤ کا ذریعہ ہے ۔

تعجب کے موقع پر :

کسی تعجب والے امر پر سبحان اللہ کا کلمہ بولا جا سکتا ہے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز ہمیں صبح کی نماز پڑھائی اور لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا :
بينا رجل يسوق بقرة إذ ركبها فضربها ، فقالت : إنا لم تخلق لهذا إنما خلقنا للحرث ، فقال : الناس سبحان الله بقرة تكلم . فقال : فإني أومن بهذا أنا وأبو بكر وعمر وما هما ثم وبينما رجل فى غنمه إذ عدا الذئب فذهب منها بشاة فطلب حتى كأنه استنقذھا منه فقال له : الذئب هذا استنقذتها منى فمن لها يوم السبع يوم لا راعي لها غيرى فقال : الناس سبحان الله ذنب يتكلم قال : فإني أومن بهذا أنا وأبو بكر وعمر من وما هما ثم
ایک شخص (بنی اسرائیل کا) اپنی گائے ہانکے لیے جا رہا تھا کہ وہ اس پر سوار ہو گیا اور پھر اسے مارا ۔ اس گائے نے ( بقدرت الہی) کہا کہ ہم جانور سواری کے لیے نہیں پیدا کئے گئے ۔ ہماری پیدائش تو کھیتی کے لیے ہوئی ہے ۔ لوگوں نے کہا: سبحان اللہ ! گائے بات کرتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہ بھی ۔ حالانکہ وہ دونوں وہاں موجود بھی نہیں تھے ۔ اسی طرح ایک شخص اپنی بکریاں چرا رہا تھا کہ ایک بھیٹریا آیا اور ریوڑ میں سے ایک بکری اٹھا کر لے جانے لگا ۔ ریوڑ والا دوڑا اور اس نے بکری کو بھیڑیے سے چھڑا لیا ۔ اس پر بھیٹر یا ( بقدرت الہی) بولا، آج تم نے مجھ سے اسے چھڑا لیا لیکن درندوں والے دن میں (قرب قیامت) اسے کون بچائے گا جس دن میرے سوا اور کوئی اس کا چرواہانہ ہوگا ؟ لوگوں نے کہا: ، سبحان اللہ ! بھیٹر یا با تیں کرتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”میں اس بات پر ایمان لایا اور ابوبکر و عمر بھی حالانکہ وہ دونوں اس وقت وہاں موجود نہ تھے ۔“
[ صحيح بخاري كتاب احاديث الانبياء ، باب حديث الغار ، رقم : 3471]
مسلم میں لوگوں کے سبحان اللہ کہنے کی وجہ ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے :
فقال الناس : سبحان الله تعجبا وفزعا أبقرة تكلم ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : فإلى أو من به وأبو بكر وعمر
” لوگوں نے تعجب اور گھبراہٹ میں سبحان اللہ کہا: ، اور کہا: گائے بات کرتی ہے ؟ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں اس بات پر ایمان لایا اور ابوبکر اور عمر بھی ایمان لائے ۔“
[صحيح مسلم كتاب فضائل الصحابتہ رضی اللہ عنہم ، باب من فضائل ابی بكر الصديق رضی اللہ عنہ ، رقم : 2388]
معلوم ہوا کہ تعجب کے موقع پر بھی سبحان اللہ کا کلمہ بولا جا سکتا ہے اور گھبراہٹ کے موقع پر بھی ۔

لاعلمی پر مطلع کرنے کیلئے :

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
لقینى رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا جنب ، فأخذ بيدى فمشيت معه حتى قعد، فانسللت فأتيت الرحل فاغتسلت ثم جئت وهو قاعد ، فقال : أين كنت يا أبا هرا فقلت له فقال : سبحان الله يا أباهر إن المؤمن لا ينجس
میری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی ۔ اس وقت میں جنبی تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلنے لگا ۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جگہ بیٹھ گئے اور میں آہستہ سے اپنے گھر آیا اور غسل کر کے حاضر خدمت ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی بیٹھے ہوئے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا اے ابوہریرہ ! کہاں چلے گئے تھے ؟ میں نے واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ ! مومن تو نجس نہیں ہوتا ۔“
[صحيح بخاري كتاب الغسل ، باب الجنب يخرج ولمیش فى السوق ، رقم : 285 ]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوہرہ رضی اللہ عنہ کو ان کی لاعلمی پر مطلع کرتے ہوئے فرمایا ”سبحان اللہ مومن نجس نہیں ہوتا یعنی مومن عقیدہ پاک رہتا ہے ۔

غلط طرز عمل پر حیرانی کا اظہار :

سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قبیلہ ثقیف کے لوگوں نے لوٹ مار کی جس کے نتیجہ عضباء نامی اونٹنی ان کے قبضہ میں چلی گئی اور کچھ افراد بھی انہوں نے قیدی بنالئے ۔ قیدیوں میں ایک انصاری عورت بھی تھی ۔ ایک رات وہ عورت موقع پا کر بھاگ نکلی اور اونٹوں کے پاس آئی وہ جس اونٹ کے پاس جاتی وہ آواز کرتا وہ اس کو چھوڑ دیتی یہاں تک کہ وہ عضباء کے پاس آئی اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر اس نے اسے ڈانٹا تو وہ سبک رفتاری سے چل پڑی ۔ اتنے میں کافروں کو خیر ہو گئی وہ اس کے پیچھے چل پڑے لیکن عضباء نے اپنی رفتار سے ان کو تھکا دیا ۔ دوران سفر عورت نے یہ نذر مان لی کہ اگر عضباء اسے بیچالے جائے تو وہ اس کی قربانی کر دے گی ۔ چنانچہ جب وہ عورت مدینہ میں آئی اور لوگوں نے اسے دیکھا تو کہا: یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹی عضباء ہے ۔ وہ عورت بولی: میں نے نذر مانی ہے کہ اگر عضباء پر اللہ تعالیٰ مجھے نجات دیدے تو میں اس کو نحر کر دوں گی ۔ یہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب سے فرمایا :
سبحان الله بئسما جزتها نذرت لله إن نجاها الله عليها لتنحرنها لا وفاء لنذر فى معصية ، ولا فيما لا يملك العبد
”سبحان اللہ ! کیا برا بدلہ دیا اس عورت نے عضبا کو (یعنی عضبا نے تو اس کی جان بچائی اور وہ عضبا کی جان لینا چاہتی ہے) اس نے نذر مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ عضبا کی پیٹھ پر اس کو نجات دے تو وہ عضبا ہی کی قربانی کرے گی ۔ جو نذر گناہ کے لیے کی جائے وہ پوری نہ کی جائے اور نہ وہ نذر جس کا انسان مالک نہیں“
[صحيح مسلم ، كتاب السند ، رباب لاد فاء لندرفى معصية الله ولا فيما لا یملك العبد ، رقم : 1641]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون کے غلط طرز عمل پر حیرانی کے اظہار میں ”سبحان اللہ“ کا کلمہ بولا کہ جس اونٹنی کی وجہ سے وہ دشمن کے نرغہ سے نکلی ، اسے تھپکی دینے کی بجائے اس نے اس کی جان لینے کا فیصلہ کر لیا اس پر مستزاد یہ کہ وہ اونٹنی بھی اس کی ملکیت نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ کس قدر برا بدلہ ہے کہ اونٹنی کا تو اس پر احسان ہے اور وہ بدلہ میں محسن کو قتل کرنا چاہتی ہے ۔

ترحم کیلئے :

ازراه ترحم اور شفقت بھی سبحان اللہ کا کلمہ بولا جا سکتا ہے ۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم عاد رجلا من المسلمين قد خفت فصار مثل الفرخ فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم : ”هل كنت تدعو بشيء أو تسأله إياه : ”قال : نعم . كنت أقول اللهم ما كنت معاقبي به فى الآخرة فعجله لي فى الدنيا ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ”سبحان الله لا تطيقه أولا تستطيعه ، أفلا قلت : اللهم آتنا فى الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار ”. قال : فدعا الله له فشفاه
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کی عیادت کی جو بیماری سے چوزے کی طرح ہو گیا (یعنی بہت ضعیف اور ناتواں ہو گیا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”تو کچھ دعا کیا کرتا تھا یا اللہ تعالیٰ سے کچھ سوال کیا کرتا تھا ؟ ”وہ بولا: ہاں میں یہ کہا کرتا تھا : یا اللہ ! جو تو مجھے آخرت میں عذاب دینے والا ہے وہ دنیا میں ہی دے دے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”سبحان اللہ ! تجھے اتنی طاقت کہاں ہے کہ دنیا میں) اللہ کا عذاب اٹھا سکے تو نے یہ کیوں نہیں کہا: ” اللهم آتنا فى الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة ، وقنا عذاب النار ”اے اللہ ! مجھے دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور مجھے بچا لے جہنم کے عذاب سے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا کی اللہ تعالیٰ نے اسے شفا عطا کردی ۔
[صحيح مسلم كتاب العلم ، باب كراہتہ الدعاء تعجيل العقوبة فى الدنياء رقم : 2688]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کی کمزور حالت اور اس کے سادگی میں کہے جانے والے کلمات کے پیش نظر ازراہ شفقت یہ فرمایا : سبحان اللہ تم آخرت کی سزا کو دنیا میں جھیلنے کی طاقت نہیں رکھتے ہو ۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بندے کو دنیا اور آخرت کی بھلائی و کامیابی کی دعا مانگنی چاہئے ۔ سزا اور مصیبت جھیلنے کی دعانہ مانگے ۔ یہی درس ربنا اتنا فى الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة میں دیا گیا ہے ۔
اور یہ بھی پتا چلا کہ ازراہ شفقت سبحان اللہ کہنا درست ہے ۔ اس ضمن میں چند اور روایات ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يعني فى غزوة ذات الرقاع فأصاب رجل امرأة رجل من المشركين فحلف أن لا أنتهى حتى أهريق دما فى أصحاب محمد فخرج يتبع أثر النبى صلى الله عليه وسلم ، فنزل النبى صلى الله عليه وسلم منزلا . فقال : من رجل يكلونا فانتدب رجل من المهاجرين ورجل من الأنصار ، فقال : كونا بفم الشعب ، قال : فلما خرج الرجلان إلى فم الشعب اضطجع المهاجرى وقام الأنصاري يصل وأتى الرجل فلما رأى شخصه عرف أنه ربيقة للقوم . فرماه بسهم فوضعه فيه فنزعه حتى رماه بثلاثة أسهم ثم ركع وسجده ثم انتبة صاحبه فلما عرف أنهم قد نذروا به هرب ولما رأى المهاجرى ما بالأنصاري من الدم ، قال : سبحان الله ألا أنبهتنى أول ما رمى قال : كنت فى سورة أقرؤها فلم أحب أن أقطعها
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ ذات الرقاع میں نکلے ، تو ایک مسلمان نے کسی مشرک کی عورت کو قتل کر دیا ، اس مشرک نے قسم اٹھائی کہ جب تک میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کا خون نہ بہا دوں رک نہیں سکتا ،چنانچہ وہ (اسی تلاش ) میں نکلا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم ڈھونڈتے ہوئے آپ کے پیچھے پیچھے چلا ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک منزل میں اترے ، اور فرمایا : ”ہماری حفاظت کون کرے گا ؟ ”، تو ایک مہاجر اور ایک انصاری اس مہم کے لیے مستعد ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : ”تم دونوں گھاٹی کے سرے پر رہو ، جب دونوں گھاٹی کے سرے کی طرف چلے (اور وہاں پہنچے تو انہوں نے طے کیا کہ باری باری پہرہ دیں گے) پس مہاجر (صحابی) لیٹ گئے ، اور انصاری کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے (اور ساتھ ساتھ پہرہ بھی دیتے رہے ، دوران نماز اچانک) ، وہ مشرک آیا ، جب اس نے (دور سے) اس انصاری کے جسم کو دیکھا تو پہچان لیا کہ یہی قوم کا محافظ و نگہبان ہے ، اس کافر نے تیر چلایا ، جو انہیں لگا ، تو انہوں نے اسے نکالا ( اور نماز میں مشغول رہے ، یہاں تک کہ اس نے انہیں تین تیر مارے ، پھر انہوں نے رکوع اور سجدہ کیا ، پھر اپنے مہاجر ساتھی کو جگایا ، جب اسے معلوم ہوا کہ یہ لوگ ہو شیار اور چوکنا ہو گئے ہیں ، تو بھاگ گیا ، جب مہاجر نے انصاری کا خون دیکھا تو کہا: سبحان اللہ ! آپ نے پہلے ہی تیر میں مجھے کیوں نہیں بیدار کیا؟ تو انصاری نے کہا: میں (نماز میں قرآن کی ایک سورۃ پڑھ رہا تھا ، مجھے یہ اچھا نہیں لگا کہ میں اسے بند کروں ۔ ”
[حسن سنن ابي داؤ دالالباني كتاب الطهارة باب الوضوء من الدم ، رقم : 198]
انصاری کے جسم سے بہتا خون اور اس کی حالت زار کو دیکھ کر مہاجر نے ازراہ شفقت و ترحم کہا: سبحان اللہ تم مجھے اطلاع تو دے دیتے ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
لبينا بالحج حتى إذا كنا بسرف حضت فدخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا أبكي فقال : ”ما يبكيك يا عائشة ”فقلت : حضت ليتني لم أكن حججت ، فقال : ”سبحان الله ! إنما ذلك شى كتبه الله على بنات آدم ”. فقال : ”انسكي المناسك كلها غير أن لا تطوفي بالبيت
”ہم نے حج کا تلبیہ پڑھا یہاں تک کہ جب ہم مقام سرف میں پہنچے تو مجھے حیض آگیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میں رورہی تھی ، آپ نے پوچھا: ”عائشہ ! تم کیوں رو رہی ہو؟ ”، میں نے کہا: مجھے حیض آگیا کاش میں نے (امسال) حج کا ارادہ نہ کیا ہوتا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سبحان الله ! یہ تو بس ایسی چیز ہے جواللہ نے آدم کی بیٹیوں کے واسطے لکھ دی ہے ، پھر فرمایا : ”تم حج کے تمام مناسک ادا کرو البتہ تم بیت اللہ کا طواف نہ کرو
[ صحيح سنن ابي داد و للالباني ، كتاب الحج ، باب فى افراد الححج ، رقم : 1782 ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازراہ ترحم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کیلئے یہ کلمات استعمال فرمائے ”سبحان اللہ“ یہ چیز تو بنات آدم پر لکھ دی گئی ہے ۔ یعنی پریشان مت ہو ۔ یہ ایک ایسا امر ہے جس میں تم اکیلی نہیں بلکہ سب بنات آدم مبتلا ہیں ۔

غیر متوقع طرز عمل پر :

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
أن أخت الربيع أم حارثة جرحت إنسانا فاختصموا إلى النبى صلى الله عليه وسلم ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : القصاص القصاص ، فقالت أم الربيع : يا رسول الله أيقتض من فلانة والله لا يقتص منها ، فقال النبى صلى الله عليه وسلم : سبحان الله يا أم الربيع القصاص كتاب الله قالت : لا والله لا يقتض منها أبدا ، قال : فما زالت حتى قبلوا الدية . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن من عباد الله من لو أقسم على الله لأبره
میدہ ام حارثہ رضی اللہ عنہ ربیع کی بہن نے (جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی پھوپھی تھیں) ایک آدمی کو زخمی کر دیا ۔ (اس کا دانت توڑ ڈالا) پھر وہ جھگڑا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”قصاص لیا جائے گا ۔ قصاص لیا جائے گا ۔ ”ام ربیع نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا فلاں سے قصاص لیا جائے گا؟ (یعنی ام حارثہ سے) اللہ کی قسم ! اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا ۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”سبحان اللہ ! اے ام ربیع ! اللہ کی کتاب قصاص کا حکم دیتی ہے ۔ ام ربیع نے کہا: نہیں اللہ کی قسم ! اس سے کبھی قصاص نہیں لیا جائے گا ۔ پھر اُم ربیع یہی کہتی رہی ۔ یہاں تک کہ جس کا دانت ٹوٹا تھا ، اس کے کہنے ، والے دیت لینے پر راضی ہو گئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام نے فرمایا : ”بعض بندے اللہ تعالیٰ کے ایسے ہیں کہ اگر اس کے بھروسے پر قسم اٹھا لیں تواللہ ان کو پور ا کر دیتا ہے ۔
[ صحيح مسلم ، كتاب القسامة ، باب اثبات القصاص فى الاسنان در ماني معتاہا ، رقم : 1675]
کتاب اللہ نے قصاص کا حکم دیا ہے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھگڑے کی نوعیت کو دیکھ کر اور اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد قصاص کا حکم دے دیا تو ام الربیع کا اس پر ردعمل انتہائی غیر متوقع تھا ۔ اس لئے کہ عدالتی حکم جاری ہو جانے کے بعد اس پر قسم اٹھا کے یوں کہنا کہ یہ حکم نافذ نہیں ہو گا ایک متعجب طرز عمل ہے ۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سبحان الله ام الربیع کتاب اللہ نے تو قصاص کا حکم دیا ہے ۔

مشن کی تکمیل پر :

سورہ نصر میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے مشن کی تکمیل کی خوشخبری دے دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو باری تعالیٰ کی طرف سے یہ ارشاد ہوا کہ اب آپ کثرت سے اللہ کی صحیح و تحمید کریں ۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكثر أن يقول قبل أن يموت : ”سبحانك وبحمدك أستغفرك وأتو ب إليك ، قالت : قلت : يا رسول الله ، ما هذه الكلمات التى أراك أحدثتها . تقولها ، قال : جعلت لي علامة فى أمتي إذا رأيتها قلتها إذا جاء نصر الله والفتح سورة النصر إلى آخر السورة
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات سے پہلے اکثر فرماتے تھے : سبحانك وبحمدك أستغفرك وأتوب إليك ”میں نے عرض کیا : یا رسول الله ! یہ کیا کلمے ہیں جن کو آپ زیادہ تر دہراتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اللہ نے میرے لیے ایک نشانی مقرر کی تھی میری امت میں ، جب میں اس کو دیکھتا ہوں تو یہ کلمات کہتا ہوں : إذا جاء نصر الله والفتح آخر سورة تک ۔
[ صحيح مسلم كتاب الصلاة ، باب ما يقال فى الركوع والسحر و ، رقم : 484]
کسی بھی دینی اور دنیوی مقصد کی تکمیل پر سبحان اللہ کہنے کا حکم باری تعالیٰ نے دیا ہے کہ بندہ کام کے مکمل ہونے پر اللہ کی تسبیح وتحمید کرے اور اس کے سامنے اپنے سر کو جھکائے اس کا شکریہ ادا کرے ۔

اپنی لاعلمی پر :

صحیح مسلم میں مذکور ہے :
جاء أبو موسى إلى عمر بن الخطاب فقال : السلام عليكم هذا عبد الله بن قيس فلم يأذن له ، فقال : السلام عليكم ، هذا أبو موسى السلام عليكم هذا الأشعري ثم انصرف فقال : ردوا على ركوا على فجاء ، فقال يا أبا موسى : ما ردك كنا فى شغل قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ، يقول : الاستعذان ثلاث ، فإن أذن لك وإلا فارجع ”. قال : لتأتیتي على هذا ببينة وإلا فعلت وفعلت ، فذهب أبو موسى ، قال عمر : إن وجد بينة تجدوه عند المنبر عشية ، وإن لم يجد بينة ، فلم تجدوه فلما أن جاء بالعشي وجدوه ، قال يا أبا موسى : ما تقول أقد وجدت ، قال : نعم أبى بن كعب ، قال : عدل ، قال يا أبا الطفيل : ما يقول هذا قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ذلك يا ابن الخطاب فلا تكونن عذابا على أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال : سبحان الله إنماسمعت شيئا فأحببت أن أتثبت ۔
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو کہا: السلام علیکم ، عبداللہ بن قیس ہے ، انہوں نے ان کو اندر آنے کی اجازت نہ دی ۔ انہوں نے پھر کہا: السلام علیکم ابوموسی ہے ، السلام علیکم اشعری ہے ۔ (پہلے نام بیان کیا پھر کنیت بیان کی پھر نسبت تاکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو کوئی شبہ نہ رہے) آخر واپس چلے گئے ۔ تب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم کیوں لوٹ گئے ؟ ہم کام میں مشغول تھے ۔ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ”اجازت مانگنا تین بار ہے پھر اگر اجازت مل جائے تو بہتر نہیں تو لوٹ جاؤ ”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس حدیث پر گواہ لاؤ نہیں تو میں ایسا کروں گا اور ضرور کروں گا (یعنی سزادوں گا) سیدنا ابوموسیٰ یہ سن کر چلے گئے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر حضرت ابو موسیٰ کو گواہ ملے گا تو شام کو منبر کے پاس تمہیں ملیں گے ۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ شام کو منبر کے پاس آئے تو ابو موسیٰ موجود تھے ، سید نا عمر یا رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابوموسیٰ ! تم کیا کہتے ہو؟ تمہیں گواہ ملا؟ انہوں نے کہا: ہاں ابی بن کعب موجود ہیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: بیشک وہ معتبر ہیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابوالطفیل (یہ کنیت ہے ابی بن کعب کی) ابو موسیٰ کیا کہتے ہیں؟ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے تھے ۔ اے خطاب کے بیٹے ! تم سخت مت بنو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب پر (یعنی ان کو تکلیف مت دو) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: سبحان اللہ ! میں نے تو ایک حدیث سنی تو اچھا سمجھا اس کی تحقیق کرلوں اور میری غرض یہ ہرگز نہ تھی کہ معاذ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو تکلیف دوں نہ یہ مطلب تھا کہ سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ جھوٹے ہیں ۔ ”
[ صحيح مسلم ، كتاب الادب ، باب الاستتدان ، رقم : 2152]
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حدیث کے معاملے میں بہت سخت تھے ۔ اگر وہ کوئی ایسی حدیث سنتے جو انہوں نے پہلے نہ سنی ہوتی تو اس کی تصدیق کیلئے وہ اس پر دلیل طلب کرتے تھے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے اور انہوں نے اپنی لاعلمی پر ”سبحان اللہ “ کہا: صبح بخاری ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے اپنی لاعلمی پر افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بازاروں کے کام کاج نے ایسی احادیث سے غافل رکھا چنانچہ بخاری کی روایت میں مذکور ہے :
فقال عمر : أخفي هذا على من أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ألهاني الصفق بالأسواق يعني الخروج إلى تجارة
”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حکم مجھے سے پو شیدہ رہ گیا ۔ افسوس کہ مجھے بازاروں کی خرید و فروخت نے مشغول رکھا ۔ ان کی مراد تجارت تھی ۔
[صحيح بخاري ، كتاب البيوع ، باب الخروج فى التجارة ، رقم : 2026]
قرآن حکیم میں ہے کہ فرشتوں نے بھی اپنی لاعلمی کے اظہار میں یہ کلمہ کہا: تھا :
سبحنك لا علم لنا إلا ما علمتنا إنك أنت العليم الحكيم
اے اللہ ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے ، پورے علم و حکمت والا تو تو ہی ہے ۔“ [ البقره : 32]

عاجزی و انکساری کے اظہار کیلئے :

حضرت قیس بن عباد رحمہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں : میں مدینہ میں تھا کچھ لوگوں میں جن میں بعض صحابہ رضی اللہ عنہم بھی تھے ایک شخص آیا اس کے چہرے پر اللہ کے خوف کا اثر تھا ۔ بعض لوگ کہنے لگے : یہ جنتی ہے ۔ اس نے دو رکعتیں پڑھیں ، پھر چل پڑا ۔ میں بھی اس کے پیچھے چل پڑا ، وہ اپنے مکان میں داخل ہو گیا ، میں بھی اس کے ساتھ اندر گیا اور اس سے باتیں کیں ، جب ذرا مانوسیت ہوئی تو میں نے اس سے کہا: تم جب مسجد میں آئے تھے تو ایک شخص نے کہا: تھا تم جنتی ہو ، اس نے کہا:
سبحان الله ما ينبغي لأحد أن يقول ما لا يعلم ، وسأحدثك لم ذاك رأيت رؤيا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم . فقصصتها عليه ، رأيتني فى روضة ذكر سعتها ، وعشبها ، وخضرتها ، ووسط الروضة عمود من حديد أسفله فى الأرض وأعلاه فى السماء فى أعلاه عروة فقيل لي : ارقه فقلت له : لا أستطيع ، فجاءني منصف قال ابن عون : والمنصف الخادم فقال : بثيابي من خلفي وصف أنه رفعه من خلفه بيده فرقيت حتى کنت فى أعلى العمود فأخذت بالعروة ، فقيل لي : استمسك فلقد استيقظت وإنها لفي يدى ، فقصصتها على النبى صلى الله عليه وسلم ، فقال : تلك الروضة الإسلام . وذلك العمود عمود الإسلام . وتلك العروة عروة الوثقى . وأنت على الإسلام حتى تموت قال : والرجل عبد الله بن سلام
”سبحان اللہ ! کسی کو ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جو وہ نہیں جانتا اور میں آپ سے بیان کرتا ہوں لوگ کیوں ایسا کہتے ہیں ، میں نے ایک خواب دیکھا تھا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ۔ وہ خواب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ۔ میں نے دیکھا کہ میں ایک باغ میں ہوں اس باغ کے وسط میں ایک لوہے کا ستون ہے وہ نیچے تو زمین کے اندر ہے اور اوپر آسمان تک ہے اس کی بلندی پر ایک حلقہ ہے ، مجھ سے کہا گیا : اس پر چڑھو ۔ میں نے کہا: میں نہیں چڑھ سکتا ، پھر ایک خدمت گار آیا اس نے میرے کپڑے پیچھے سے اٹھائے اور بیان کیا کہ اس نے اپنے ہاتھ سے مجھے پیچھے سے اٹھایا : میں چڑھ گیا ، یہاں تک کہ اس ستون کی بلندی پر پہنچ گیا اور حلقہ کو میں نے تھام لیا ۔ مجھ سے کہا گیا اس کو تھامے رہو ، پھر میں جاگا اور وہ حلقہ اس وقت تک میرے ہاتھ میں ہی تھا ۔ یہ خواب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”وہ باغ اسلام ہے اور یہ ستون اسلام کا ستون ہے اور وہ حلقہ دین کا مضبوط حلقہ ہے اور تو مرتے دم تک اسلام پر قائم رہے گا“ ۔ قیس نے کہا: وہ شخص سید نا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تھے ۔
[صحيح مسلم ، كتاب فضائل الصحابة رضی اللہ عنہم باب من فضائل عبدالله بن سلام رضی اللہ عنہ ، رقم : 2484]
سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اپنے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے جنت کی بشات سن چکے تھے ۔ لیکن جب انہوں نے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ آدمی اہل جنت سے ہے ۔ تو انکساری میں سبحان اللہ کہا: ۔

شرمساری اور افسوس کے اظہار کے لیے :

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : ”کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حلوہ ( یعنی میٹھی چیز) اور شہد پسند کرتے تھے اور عصر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنی ازواج سے (ان میں سے کسی کے حجرہ میں جانے کے لیے) اجازت لیتے تھے اور ان کے پاس جاتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر گئے اور ان کے یہاں اس سے زیادہ دیر تک ٹھہرے رہے جتنی دیر تک ٹھہرنے کا آپ کا معمول تھا ۔ میں نے اس کے متعلق نبی کریم سی نام سے پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی قوم کی ایک خاتون نے شہد کی ایک بوتل انہیں ہدیہ کی تھی اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا شربت پلایا تھا ۔ میں نے اس پر (دل میں) کہا کہ اب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک حیلہ کروں گی ۔ چنانچہ میں نے اس کا ذکر سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا سے کیا اور کہا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے یہاں آئیں تو آپ کے قریب بھی آئیں گے اس وقت تم آپ سے کہنا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! شاید آپ نے مغافیر کھایا ہے ؟ اس پر آپ جواب دیں گے کہ نہیں ۔ تم کہنا کہ پھر یہ بو کس چیز کی ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بہت ناگوار تھی کہ آپ کے جسم کے کسی حصہ سےبو آئے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جواب یہ دیں گے کہ حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا تھا ۔ اس پر کہنا کہ شہد کی مکھیوں نے مغافیر کا رس چوسا ہوگا اور میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی بات کہوں گی اور صفیہ تم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی کہنا ۔ چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمسیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کے یہاں تشریف لے گئے تو ان کا بیان ہے میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے مغافیر کھایا ہے ؟ نبی کریم علیہ و سلم نے فرمایا کہ نہیں ۔ میں نے کہا: پھر بو کیسی ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا ہے میں نے کہا اس شہد کی مکھیوں نے غرفط کا رس چوسا ہوگا اور اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے بھی یہی کہا: ۔ اس کے بعد جب سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ شہد میں پھر آپ کو پلاؤں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی ضرورت نہیں ۔ ”اس پر سیدہ سودہ رضی اللہ عنہ نے کہا:
سبحان الله لقد حرمناه قالت : قلت لها : اسكتي
” سبحان اللہ یہ ہم نے کیا کیا گویا شہد آپ پر حرام کر دیا ، میں نے کہا چپ رہو ۔ “
[صحيح بخاري ، كتاب الحيل ، باب ما يكره من احتيال المرأة مع الزوج والضرائه ، رقم : 2972]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد بہت مرغوب تھا لیکن ازواج مطہرات نے ایک حیلہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے روک دیا چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر کو خود پر حرام کر لیا تو سیدہ سودہ رضی اللہ عنہ نے بے اختیاری میں ندامت و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : ”سبحان اللہ ! ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر شہد کو حرام کر دیا ہے ۔

شجاعت و بہادری دیکھ کر:

حضرت اسلم ابوعمران التجبی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
ہم روم شہر میں تھے ، رومیوں کی ایک بڑی جماعت ہم پر حملہ آور ہونے کے لیے نکلی تو مسلمان ان سے بھی زیادہ تعداد میں ان کے مقابلے میں نکلے ، سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ اہل مصر کے گورنر تھے اور سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ فوج کے سپہ سالار تھے ۔ ایک مسلمان رومی صف پر حملہ آور ہوا ، اور اتنا زبردست حملہ کیا کہ ان کے اندر گھس گیا ۔ لوگ چیخ پڑے ، کہنے لگے :
سبحان الله يلقي بيديه إلى التهلكة ، فقام أبو أيوب الأنصاري فقال : يا أيها الناس إنكم تتأولون هذه الآية هذا التأويل وإنما أنزلت هذه الآية فينا معشر الأنصار لما أعز الله الإسلام وكثر ناصروه فقال : بعضنا لبعض سرا دون رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن أموالنا قد ضاعت وإن الله قد أعز الإسلام وكثر ناصروه فلو أقمنا فى أموالنا فأصلحنا ما ضاع منها فأنزل الله على نبيه صلى الله عليه وسلم يرد علينا ما قلنا : وأنفقوا فى سبيل الله ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة فكانت التهلكة الإقامة على الأموال وإصلاحها وتركنا العزوفتا زال أبو أيوب شاحصا فى سبيل الله حتى دفن بأرض الروم
”سبحان اللہ ! اس نے تو خود ہی اپنے آپ کو ہلاکت میں جھونک دیا ہے ۔ (یہ سن کر) حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: لوگو ! تم اس آیت کی یہ تاویل کرتے ہو ، یہ آیت تو ہم انصار کے بارے میں اتری ہے ، جب اللہ نے اسلام کو طاقت بخشی اور اس کے مددگار بڑھ گئے تو ہم میں سے بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپا کر رازداری سے آپس میں کہا کہ ہمارے مال برباد ہو گئے ہیں (یعنی ہماری کھیتیاں تباہ ہو گئی ہیں) اللہ نے اسلام کو قوت و طاقت بخش دی ۔ اس کے و مددگار بڑھ گئے ، اب اگر ہم اپنے کاروبار اور کھیتی باڑی کی طرف متوجہ ہو جاتے تو جو نقصان ہو گیا ہے اس کمی کو پورا کر لیتے ، چنانچہ ہم میں سے جن لوگوں نے یہ بات کہی تھی ان کے رد میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پریہ آیت نازل فرمائی ۔ اللہ نے فرمایا : وأنفقوا فى سبيل الله ولا تلقوا بأيديكم إلى الأتهلكة”اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو (البقرہ : 195) ، تو ہلاکت یہ تھی کہ مالی حالت کو سدھارنے کی جدوجہد میں لگا جائے ، اور جہاد کو چھوڑ دیا جائے (یہی وجہ تھی کہ) ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ ، اللہ کی راہ میں جہاد کی ایک علامت و ہدف کی حیثیت اختیار کر گئے تھے یہاں تک کہ سر زمین روم میں مدفون ہوئے ۔
[صحيح ۔ سنن الترمذي للالباني ، ابواب تفسير القرآن ، باب من سورة البقره : رقم : 2972]
لوگوں نے رومی صف پر حملہ آور جو ان کی دلیری اور شجاعت و پامردی کو دیکھا تو بے اختیار ان کی زبان سے سبحان اللہ کا کلمہ بلند ہوا ۔

دفاع کے طور پر :

سیدنا سماک بن حرب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
دخلت على عكرمة فى يوم قد أشكل من رمضان هو أم من شعبان ، وهو يأكل خبرا وبقلا ولبنا ، فقال لي : هلم ، فقلت : إني صائم, قال : وحلف بالله لتفطرن ، قلت : سبحان الله مرتين فلما رأيته يحلف لا يستثني تقدمت قلت : هات الآن ما عندك, قال : سمعت ابن عباس يقول : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ”صوموا لرؤيته ، وأفطر وا لرؤيته ، فإن حال بينكم وبينه سحابة أو ظلمة ، فأكملوا العدة عدة شعبان ، ولا تستقبلوا الشهر استقبالا ، ولا تصلوا رمضان بيوم من شعبان
”میں عکرمہ کے پاس ایک ایسے دن میں آیا جس کے بارے میں شک تھا کہ یہ ر مضان کا دن ہے یا شعبان کا ۔ وہ روٹی اور سبزی کھا رہے تھے ، انہوں نے مجھ سے کہا: آؤ کھاؤ ، تو میں نے کہا: میں روزے سے ہوں ، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم ! تم ضرور روزہ چھوڑو گے ، میں نے دو مرتبہ سبحان اللہ کہا: ، اور جب میں نے دیکھا کہ وہ قسم پر قسم اٹھائے جا رہے ہیں اور ان شاء اللہ نہیں کہہ رہے تو میں آگے بڑھا ، اور میں نے کہا: اب لائیے جو آپ کے پاس ہے ، انہوں نے کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : روزہ رکھو ( چاند) دیکھ کر ، اور افطار کرو (چاند) دیکھ کر ، اور اگر تمہارے اور چاند کے مابین کوئی بدلی یا سیاہی حائل ہو جائے تو شعبان کی تیس کی گنتی پوری کر لو ، اور ایک دن پہلے روزہ رکھ کر مہینے کا استقبال مت کرو ، اور نہ ر مضان کو شعبان کے کسی دن سے ملاؤ “
[صحيح سنن نسائي الالباني ، كتاب الصيام ، باب صيام يوم الشك ، رقم : 2189]
حضرت سماک بن حرب کو جب عکرمہ رحمہ اللہ نے قسم اٹھا کے روزہ ختم کرنے اور کھانا کھا لینے کا کہا: تو حضرت سماک بن حرب رحمہ اللہ علیہ کو فوری کوئی جواب نہ بن آیا چنانچہ انہوں نے دفاع کے طور پر دو مرتبہ سبحان اللہ کہا۔
سمجھانے کی غرض سے :
سید نا عبد الرحمن بن مطعم رحمہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں :
باع شريك لي دراهم فى السوق نسيئة ، فقلت : سبحان الله أيصلح هذا ، فقال : سبحان الله والله لقد بعتها فى السوق فما عابه أحد ، فسألت البراء بن عازب ، فقال : قدم النبى صلى الله عليه وسلم ونحن نتبايع هذا البيع ، فقال : ”ما كان يدا بيد فليس به بأس, وما كان نسيئة فلا يصلح
”میرے ایک حصہ دار نے بازار میں چند درہم ادھار فروخت کیے ، میں نے اس سے کہا: سبحان اللہ ! کیا یہ جائز ہے ؟ انہوں نے کہا: سبحان اللہ اللہ کی قسم ! میں نے بازار میں اسے بیچا تو کسی نے بھی قابل اعتراض نہیں سمجھا ۔ میں نے براہ بن عازب رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق پوچھا: تو انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب (ہجرت کر کے) تشریف لائے تو اس طرح خرید و فروخت کیا کرتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خرید و فروخت کی اس صورت میں اگر معاملہ دست بدست (نقد) ہو تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن اگر ادھار پر معاملہ کیا تو پھر یہ صورت جائز نہیں ۔ “
[ صحيح بخاري ، كتاب مناقب الانصاره باب كيف اخي النبى صلی اللہ علیہ وسلم بين اصحاب ، رقم 3939]
سیدنا عبدالرحمن بن مطعم رحمہ اللہ علیہ نے اپنے شریک کو سمجھانے کی غرض سے کہا: سبحان اللہ ! ذراسوچو غور کرو کیا یہ درست ہے ؟ پس سمجھانے کی غرض سے اور اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے سبحان اللہ کا کلمہ بولا جاسکتا ہے ۔

جواب دینے کے نے کیلئے :

عرب لوگ کسی بات کا جواب دینے کیلئے اپنی بات کے آغاز میں ”سبحان اللہ “ کا کلمہ استعمال کیا کرتے تھے ۔ چند احادیث ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا اسود رحمہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں :
”ہم سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے حلقہ درس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور انہوں نے ہمارے پاس کھڑے ہو کر سلام کیا ۔ پھر کہا: نفاق میں وہ جماعت مبتلا ہو گئی جو تم سے بہتر تھی“ ۔
اس پر اسود بولے :
سبحان الله ، إن الله يقول : إن المنافقين فى الدرك الأسفل من النار فتبسم عبدالله وجلس حذيفه فى ناحية المسجده فقام عبد الله فتفرق أصحابه فرماني بالحصا فأتيته فقال حذيفة : ”عجبت من ضحكه ، وقد عرف ما قلت لقد أنزل النفاق على قوم كانوا خيرا منكم ، ثم تابوا فتاب الله عليهم
”سبحان اللہ اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں إن المنافقين فى الدرك الأسفل من النار ”که “ منافق دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے ۔ سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مسکرانے لگے اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ مسجد کے کونے میں جا کر بیٹھ گئے ۔ اس کے بعد سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اٹھ گئے اور آپ کے شاگرد بھی ادھر اُدھر چلے گئے ۔ پھر حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مجھے پر کنکری پھینکی (یعنی مجھے بلایا) میں حاضر ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی جنسی پر حیرت ہوئی حالانکہ جو کچھ میں نے کہا: تھا اسے وہ خوب سمجھتے تھے ۔ یقیناً نفاق میں ایک جماعت کو مبتلا کیا گیا تھا جو تم سے بہتر تھی ، پھر انہوں نے توبہ کر لی اور اللہ نے بھی ان کی تو بہ قبول کر لی ۔
[صحيح بخاري كتاب التفسير ، باب ان المنافقين فى الدرك الأسفل من النار ، رقم : 3602]
جناب اسود رحمہ اللہ علیہ نے جواب دیتے ہوئے اپنی گفتگو کا آغاز ”سبحان اللہ“ سے کیا ہے ۔
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
الميت يعذب ببكاء الحى إذا قالوا : واعضداه ، والكاسياه وانا صراه واجبلاه ، ونحو هذا يتعتع ، ويقال : أنت كذلك أنت كذلك ”قال أسيد : فقلت : سبحان الله ۖ إن الله يقول : ولا تزر وازرة وزر أخرى قال : ويحك ، أحدثك أن أبا موسى حدثني عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فترى أن أبا موسى كذب على النبى صلى الله عليه وسلم أو ترى أني كذبت على أبى موسى ۔
مردے کو زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے ، جب لوگ کہتے ہیں : ”واعضداه ، واكاسيده واناصراه واجبلاه“ ہائے میرے بازو ، ہائے میرے کپڑے پہنانے والے ، ہائے میری مدد کرنے والے ، ہائے پہاڑ جیسے قوی و طاقتور اور اس طرح کے دوسرے کلمات ، تو اسے ڈانٹ کر کہا جاتا ہے : کیا تو ایسا ہی تھا ؟ کیا تو ایسا ہی تھا ؟ ”اسید کہتے ہیں کہ میں نے کہا: سبحان اللہ، اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتے ہیں : ولا تزر وازرة وزر أخرى“ ”کوئی کسی کا بوجھ نہ اٹھائے گا“ تو انہوں نے کہا: تمہارے اوپر افسوس ہے ، میں تم سے بیان کرتا ہوں کہ ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان فرمائی ، تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ابوموسی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھا ہے ؟ یا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں نے ابوموسی رضی اللہ عنہ پر جھوٹ باندھا ہے ؟
[حسن سنن ابن ماجه للالباني ، كتاب الجنائز ، باب ماجاءني الميت يعذب بمايح عليه ، رقم : 1594]
حدیث میں مذکور ہے کہ حضرت اسید رضی اللہ عنہ نے جواب دینے کے لیے آغاز میں ”سبحان اللہ “کہا ہے ۔ قیامت والے دن جب سیدنا عیسی علیہ سلام اللہ تعالیٰ کے ایک سوال کا جواب دینے کے لیے گفتگو کا آغاز کریں گے تو ابتداء اسی پاکیزگی والے کلمہ سے کریں گے ۔ قرآن حکیم میں مذکور ہے :
وإذ قال الله يا عيسى ابن مريم أأنت قلت للناس اتخذوني وأمى إلهين من دون الله قال سبحانك ما يكون لي أن أقول ما ليس لي يحق إن كنت قلته فقد علمته تعلم ما فى نفسي ولا أعلم ما فى نفسك إنك أنت علام الغيوب
اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اے عیسی بن مریم ! کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کواللہ کے علاوہ معبود قرار دے لو ؟ عیسی علیہ اسلام عرض کریں گے کہ تو پاک ہے میرے یہ لائق نہیں کہ میں ایسی بات کہوں جس کے کہنے کا مجھے کوئی حق نہیں ، اگر میں نے کہا: ہو گا تو تجھے اس کا علم ہوگا ، تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا تمام غیبوں کا جانے والا تو ہی ہے ۔ [المائده : 112]

عاجزی و درماندگی کے اظہار میں :

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
ولما جاء موسى لميقاتنا وكلمه ربه قال رب أرني انظر إليك قال لن تزينى ولكن انظر إلى الجبل فإن استقر مكانه فسوف ترینى ، فلما تجلى ربه للجبل جعله دكا وخر موسى صعقا فلما آفاق قال سخنك تبت إليك وأنا أول المؤمنين
اور جب موسیٰ علیہ اسلام ہمارے مقررہ وقت پر آئے اور ان کے رب نے ان سے باتیں کیں تو انہوں نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار مجھے اپنا دیدار کرا دیجئے کہ میں ایک نظر تمہیں دیکھ لوں ارشاد ہوا کہ تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے لیکن تم اس پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو وہ اگر اپنی جگہ پر برقرار رہا تو تم بھی مجھے دیکھ سکو گے ۔ پس جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو تجلی نے اس کو ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ (علیہ اسلام) بے ہوش ہو کر گر پڑے پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کیا ، بیشک آپ کی ذات پاک ہے میں آپ کی جناب میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلے آپ پر ایمان لانے والا ہوں ۔
[الاعراف : 143]
” سیدنا موسی علیہ السلام جب باری تعالیٰ کی ایک تجلی کو برداشت نہ کر پائے اور بے ہوش ہو گئے تو ہوش میں آتے ہی اپنی در ماندگی کا اظہار ان الفاظ میں کیا : اے اللہ تو پاک ہے میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں ۔ “

خود سے کسی بات کی نفی کے لیے :

ام المؤمنین سیدہ صفیہ رضی اللہ بیان کرتی ہیں :
أنها جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم تزوره فى اعتكافه فى المسجد فى العشر الأواخر من رمضان فتحدثت عنده ساعة ، ثم قامت تنقلب ، فقام النبى صلى الله عليه وسلم معها يقلبها ، حتى إذا بلغت باب المسجد عند باب أم سلمة مر رجلان من الأنصار . فسلما على رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال لهما النبى صلى الله عليه وسلم : على رسلكما إنما هي صفية بنت حتي ، فقالا : سبحان الله يا رسول الله وكبر عليهما ، فقال النبى صلى الله عليه وسلم : إن الشيطان يبلغ من الإنسان مبلغ الله ، وإني خشيت أن يقذف فى قلوبكما شيئا ”.
رمضان کے آخری عشرہ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں بیٹھے ہوئے تھے ، تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے مسجد میں آئیں تھوڑی دیر تک باتیں کیں پھر واپس جانے کے لیے کھڑی ہوئیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی انہیں چھوڑنے کے لیے کھڑے ہوئے ۔ جب وہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے دروازے سے قریب والے مسجد کے دروازے پر پہنچیں ، تو دو انصاری آدمی ادھر سے گزرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذرا ٹھہرو ! یہ (میری بیوی) صفیہ بنت حیی ( رضی اللہ عنہا ) ہیں ۔ ان دونوں نے عرض کیا ، سبحان اللہ ! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ان پر آپ کا جملہ بڑا شاق گزرا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان خون کی طرح انسان کے بدن میں دوڑتا رہتا ہے ۔ مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں وہ کوئی بدگمانی نہ ڈال دے ۔
[صحيح بخاري ، كتاب الاعتكاف ، باب مل يخرج المکعکف لحوائجہ الى باب المسجد ، رقم : 2035]
انصاری نوجوانوں نے ”سبحان اللہ“ کا کلمہ خود سے اس خیال کی نفی میں کہا کہ وہ آپ سلام کے بارے میں ایسا خیال سوچ بھی نہیں سکتے ۔

انکار کرنے سے پہلے :

صلح حدیبیہ کا جب معاہدہ لکھا جا رہا تھا تو اس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر مکہ سے کوئی آدمی مسلمان ہو کے مدینہ چلا جائے تو اسے واپس کیا جائے گا ۔ یہ شرط مسلمانوں کو ناگوار گزری چنانچہ بہت سارے مسلمانوں نے اس شرط کا انکار کرتے ہوئے کہا:
سبحان الله كيف يرد إلى المشركين وقد جاء مسلماء

” سبحان اللہ ! (ایک شخص کو مشرکوں کے حوالے کس طرح کیا جا سکتا ہے جو مسلمان ہو کر آیا ہو؟ “
[ صحيح بخاري ، كتاب الشروط ، باب الشروط فى الجهاد والمصالحة مع اهل الحرب ، رقم : 2731]
لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جنگ و جدال سے بچانے کے لیے صلح کی خاطر یہ شرط منظور کر لی تو سب مسلمانوں نے تسلیم و رضاء میں اپنے سر کو جھکا دیا ۔ اور حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے سبحان اللہ کا کلمہ اس شرط کا انکار کرتے ہوئے بولا: تھا ۔

واقعہ افک اور سبحان اللہ :

واقعہ افک میں مختلف مقامات پر سبحان اللہ کا کلمہ بولا گیا ہے ۔
مکمل حدیث پڑھ کے اس کی نوعیت کا تعین کیا جا سکتا ہے ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی زبانی یہ واقعہ ملاحظہ فرمائیں ۔ چنانچہ وہ فرماتی ہیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ کرتے تو ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کے درمیان قرعہ ڈالا کرتے تھے اور جس کا نام آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے ساتھ سفر میں لے جاتے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک غزوہ کے موقع پر جب آپ نے قرعہ ڈالا تو میرانام نکلا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں روانہ ہوئی ۔ یہ واقعہ پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے ۔ چنانچہ مجھے ہودج سمیت اٹھا کر سوار کر دیا جاتا اور اس کے ساتھ اتارا جاتا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس غزوہ سے فارغ ہو گئے تو واپس ہوئے ۔ واپسی میں جب ہم مدینہ کے قریب تھے (اور ایک مقام پر پڑاؤ کیا ہوا تھا) جہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ کا رات کے وقت اعلان کیا ۔ اس اعلان کے بعد میں کھڑی ہوئی اور تھوڑی دور چل کر لشکر کی حدود سے آگے نکل گئی ۔ پھر قضائے حاجت سے فارغ ہو کر میں اپنی سواری کے پاس پہنچی ۔ وہاں پہنچ کر جو میں نے اپنا سینہ ٹٹولا تو ظفار کے نگینوں کا بنا ہوا میرا ہار غائب تھا ۔ اب میں پھر واپس ہوئی اور اپنا ہار تلاش کرنے لگی ۔ اس تلاش میں دیر ہوگئی ۔ انہوں نے بیان کیا کہ جو لوگ مجھے سوار کیا کرتے تھے وہ آئے اور میرے ہورج کو اٹھا کر انہوں نے میرے اونٹ پر رکھ دیا ۔ جس پر میں سوار ہوا کرتی تھی ۔ انہوں نے سمجھا کہ میں ہورج کے اندر ہی موجود ہوں ۔ ان دنوں عورتیں بہت ہلکی پھلکی ہوتی تھیں ۔ ان کے جسم میں زیادہ گوشت نہیں ہوتا تھا کیونکہ بہت معمولی خوراک انہیں ملتی تھی ۔ اس لیے اٹھانے والوں نے جب اٹھایا تو ہودج کے ہلکے پن میں انہیں کوئی فرق معلوم نہیں ہوا ۔ یوں بھی اس وقت میں ایک کم عمر لڑکی تھی ۔ غرض اونٹ کو اٹھا کر وہ بھی روانہ ہو گئے ۔ جب لشکر گزر گیا تو مجھے بھی اپنا ہار مل گیا ۔ میں ڈیرے پر آئی تو وہاں کوئی بھی نہ تھا ۔ نہ پکارنے والانہ جواب دینے والا ۔ پس میں وہاں آگئی جہاں میرا اصل ڈیرہ مجھے یقین تھا کہ جلدہی میرے نہ ہونے کا انہیں علم ہو جائے گا اور مجھے لینے کے لیے وہ واپس لوٹ آئیں گے ۔ اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی ۔ سیدنا صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ لشکر کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے ۔ (تاکہ لشکر کی کوئی چیز گم ہو گئی ہو تو وہ اٹھا لیں) انہوں نے ایک سوئے ہوئے انسان کا سایہ دیکھا اور جب (قریب آکر) مجھے دیکھا تو پہچان گئے پردہ کے احکام سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکے تھے ۔ مجھے جب وہ پہچان گئے تو اناللہ پڑھنا شروع کیا اور ان کی آواز سے میں جاگ اٹھی اور فور ا اپنی چادر سے میں نے اپنا چہرہ چھپا لیا ۔ اللہ کی قسم ! میں نے ان سے ایک لفظ بھی نہیں کہا: اور نہ سوائے انا للہ کے میں نے ان کی زبان سے کوئی لفظ سنا ۔ وہ سواری سے اتر گئے اور اسے انہوں نے بٹھا کر اس کی اگلی ٹانگ کو موڑ دیا تاکہ بغیر کی مدد کے ام المؤمنین اس پر سوار ہو سکیں) میں اٹھی اور اس پر سوار ہو گئی ۔ اب وہ سواری کو آگے سے پکڑے ہوئے لے کر چل پڑے ۔ جب ہم لشکر کے قریب پہنچے تو ٹھیک دوپہر کا وقت تھا ۔ لشکر پڑاؤ کئے ہوئے تھا ۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر جسے ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہوا ۔ اصل میں تہت کا بیڑا عبداللہ بن ابی ابن سلول (منافق) نے اٹھا رکھا تھا ۔ وہ اس تہمت کا چرچا کرتا اور اس کی مجلسوں میں اس کا تذکر ہ ہوا کرتا ۔ وہ اس کی تصدیق کرتا خوب غور اور توجہ سے سنتا اور پھیلانے کے لیے خوب کوشش کرتا ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر ہم مدینہ پہنچ گئے اور وہاں پہنچتے ہی میں بیمار ہوگئی تو ایک مہینے تک بیمار ہی رہی ۔ اس عرصہ میں لوگوں میں تہمت لگانے والوں کی افواہوں کا بڑا چر چا رہا لیکن مجھے کچھ پتا نہ تھا البتہ اپنے مرض کے دوران ایک چیز سے مجھے بڑا شبہ ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ محبت دعنایت محسوس نہیں کرتی تھی جس کو پہلے جب بھی بیمار ہوتی میں دیکھ چکی تھی ۔ آپ میرے پاس تشریف لاتے سلام کرتے اور دریافت فرماتے کیسی طبیعت ہے ؟ صرف اتنا پوچھ کر واپس تشریف لے جاتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل سے مجھے شبہ ہوتا تھا ۔ لیکن وہ شر ( جو پھیل چکا تھا) اس کا مجھے کوئی احساس نہیں تھا ۔ مرض سے جب افاقہ ہوا تو میں ام مسطح کے ساتھ مناصع کی طرف گئی ۔ مناصع (مدینہ کی آبا دی سے باہر) ہمارے رفع حاجت کی جگہ تھی ۔ ہم یہاں صرف رات کے وقت جاتے تھے ۔ یہ اس سے پہلے کی بات ہے ۔ جب بیت الخلاء ہمارے گھروں کے قریب بن گئے تھے ۔ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ ابھی ہم عرب قدیم کے طریقے پر عمل کرتے اور میدان میں رفع حاجت کے لیے جایا کرتے تھے اور ہمیں اس سے تکلیف ہوتی تھی کہ بیت الخلاء ہمارے گھروں کے قریب بنائے جائیں ۔ انہوں نے بیان کیا کہ الغرض میں اور ام مسطح (رفع حاجت کے لیے) گئیں ۔ پھر میں اور ام مسطح حاجت سے فارغ ہو کر اپنے گھر کی طرف واپس آ رہی تھی کہ ام مسطح اپنی چادر میں الجھ گئیں اور ان کی زبان سے نکلا کہ مسطح ذلیل ہو ۔ میں نے کہا: آپ نے بری بات زبان سے نکالی ایک ایسے شخص کو آپ برا کہہ رہی ہیں جو بدر کی لڑائی میں شریک ہو چکا ہے ۔ انہوں نے اس پر کہا کیوں مسطح کی باتیں تم نے نہیں سنیں ؟ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا: انہوں نے کیا کہا ہے ؟ تو انہوں نے تہمت لگانے والوں کی باتیں سنائیں ۔ ان باتوں کو سن کر میرا مرض اور بڑھ گیا ۔ جب میں اپنے گھر واپس آئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور سلام کے بعد دریافت فرمایا کہ کیسی طبیعت ہے ؟ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ کیا آپ مجھے اپنے والدین کے گھر جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں گے ؟ میرا ارادہ یہ تھا کہ ان سے اس خبر کی تصدیق کروں گی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی ۔ میں نے اپنی والدہ سے (گھر جا کر) پوچھا کہ آخر لوگوں میں کس طرح کی افواہیں ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ بیٹی ! فکر نہ کرو ، اللہ کی قسم ! ایسا شاید ہی کہیں ہوا ہو کہ ایک خوبصورت عورت کسی ایسے شوہر کے ساتھ ہو جو اس سے محبت بھی رکھتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور پھر اس پر تہمتیں نہ لگائی گئی ہوں ۔ اس کی عیب جوئی نہ کی گئی ہو ۔ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ میں نے اس پر کہا:
سبحان الله أولقد تحدث الناس بهذا؟
سبحان اللہ (میری سوکنوں سے اس کا کیا تعلق) اس کا تو عام لوگوں میں چرچا ہے ۔
پھر جو میں نے رونا شروع کیا تو رات بھر روتی رہی اسی طرح صبح ہو گئی اور میرے آنسو کسی طرح نہ تھمتے تھے اور نہ نیند ہی آتی تھی ۔ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اپنی بیوی سے علیحدگی کے متعلق مشورہ کرنے کے لیے بلایا کیونکہ اس سلسلے میں اب تک آپ پر وحی نازل نہیں ہوئی تھی ۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے مطابق مشورہ دیا جو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی کی پاکیزگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان سے محبت کے متعلق جانتے تھے ۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ آپ کی بیوی میں مجھے خیر و بھلائی کے سوا اور کچھ معلوم نہیں ہے لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی تنگی نہیں رکھی ہے اور عورتیں بھی ان کے علاوہ بہت ہیں ۔ آپ ان کی باندی ( بریرہ نبی رضی اللہ عنہا ) سے بھی دریافت فرمائیں وہ حقیقت حال بیان کر دے گی ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ بیوی کو بلایا اور ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تم نے کوئی ایسی بات دیکھی ہے جس سے تمہیں (عائشہ پر) شبہ ہوا ہو ؟ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ۔ میں نے ان کے اندر کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی جو بری ہو ۔ اتنی بات ضرور ہے کہ وہ ایک نو عمر لڑکی ہے ، آٹا گوندھ کر سو جاتی ہے اور بکری آکر اسے کھا جاتی ہے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ بیان کو خطاب کیا اور منبر پر کھڑے ہو کر عبداللہ بن ابی (منافق) کا معاملہ ان کے سامنے رکھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اسے گروہ مسلمین ! اس شخص کے بارے میں میری کون مدد کرے گا جس کی اذیتیں اب میری بیوی کے معاملے تک پہنچ گئی ہیں ۔ اللہ کی قسم کہ میں نے اپنی بیوی میں خیر کے سوا اور کوئی چیز نہیں دیکھی اس پر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کی مدد کروں گا ۔ اگر وہ شخص قبیلہ اوس کا ہوا تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا اور اگر وہ ہمارے قبیلہ کا ہوا آپ کا اس کے متعلق بھی جو حکم ہو گا ہم بجا لائیں گے ۔ اس پر قبیلہ خزرج کے ایک صحابی کھڑے ہوئے ۔ حسان کی والدہ ان کی چچا زاد بہن تھیں یعنی سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ وہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے اور اس سے پہلے بڑے صالح اور مخلصین میں سے تھے لیکن آج قبیلہ کی حمیت ان پر غالب آگئی ۔ انہوں نے حضرت سعدی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے کہا: اللہ کی قسم ! تم جھوٹے ہو تم اسے قتل نہیں کر سکتے ، اور نہ تمہارے اندر اتنی طاقت ہے ۔ اگر وہ تمہارے قبیلہ کا ہوتا تو تم اس کے قتل کا نام نہ لیتے ۔ اس کے بعد حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ جو حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہیں چچیرے بھائی تھے کھڑے ہوئے اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے کہا: اللہ کی قسم ! تم جھوٹے ہو ہم اسے ضرور قتل کریں گے ۔ اب اس میں شبہ نہیں رہا کہ تم بھی منافق ہو تم منافقوں کی طرف سے مدافعت کرتے ہو ۔ اتنے میں اوس وخزرج کے دونوں قبیلے بھڑک اٹھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپس ہی میں لڑ پڑیں گے ۔ اس وقت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر ہی تشریف فرما تھے ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا : پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کو خاموش کرانے لگے ۔ سب حضرات چپ ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خامو ش ہوگئے ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں اس روز سارا دن روتی رہی ۔ نہ ملے میرے آنسو تھمتے تھے اور نہ آنکھ لگتی تھی ۔ صبح کے وقت میرے والدین میرے پاس آئے ۔ دو راتیں اور ایک دن میرا روتے ہوئے گزر گیا تھا ۔ اس پورے عرصہ میں نہ میرے آنسو رکے اور نہ نیند آئی ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ روتے روتے میرا کلیجہ پھٹ جائے گا ۔ ابھی میرے والدین میرے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے اور میں روئے جارہی تھی کہ قبیلہ انصار کی ایک خاتون نے اندر آنے کی اجازت چاہی ۔ میں نے اسے اجازت دے دی اور وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگی ۔ ہم ابھی اسی حالت میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ۔ آپ نے سلام کیا اور بیٹھ گئے اور جب سے مجھ پر تہمت لگائی گئی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس نہیں بیٹھے تھے ۔ ایک مہینہ گزر گیا تھا اور میرے بارے میں آپ کو وحی کے ذریعہ کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اما بعد“ اے عائشہ ! مجھے تمہارے بارے میں اس اس طرح کی خبریں ملی ہیں ، اگر تم واقعی اس معاملہ میں پاک وصاف ہو تواللہ تمہاری پاکی خود بیان کر دے گا لیکن اگر تم نے کسی گناہ کا قصد کیا تھا تواللہ کی مغفرت چاہو اور اس کے حضور توبہ کرو کیونکہ بندہ جب اپنے گناہوں کا اعتراف کرلیتا ہے اور پھر اللہ کی بارگاہ میں تو بہ کرتا ہے تواللہ تعالیٰ اس کی تو بہ قبول کر لیتا ہے ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا کلام پور ا کر چکے تو میرے آنسو اس طرح خشک ہو گئے کہ ایک قطرہ بھی محسوس نہیں ہوتا تھا ۔ میں نے پہلے اپنے والد سے کہا کہ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکو جواب دیں ۔ انہوں نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں کچھ نہیں جانتا ۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مجھے کیا کہنا چاہیے ۔ پھر میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے اس کا جواب دیں۔ والدہ نے بھی یہی کہا: ۔ اللہ کی قسم ! مجھے کچھ نہیں معلوم کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مجھے کیا کہنا چاہیے ۔ پھر میں نے خود ہی عرض کیا ۔ حالانکہ میں کم عمر لڑکی تھی اور قرآن مجید بھی اس نے زیادہ نہیں پڑھا تھا کہ اللہ کی قسم ! مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ لوگوں نے اس طرح کی افواہوں پر کان دھرا اور وہ بات آپ لوگوں کے دلوں میں اتر گئی اور آپ لوگوں نے اس کی تصدیق کی ۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ میں اس تہمت سے بری ہوں تو آپ لوگ میری تصدیق نہیں کریں گے اور اگر اس گناہ کا اقرار کر لوں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں اس سے بری ہوں تو آپ لوگ اس کی تصدیق کرنے لگ جائیں گے ۔ پس اللہ کی قسم ! میری اور آپ لوگوں کی مثال یوسف علیہ اسلام کے والد جیسی ہے ۔ جب انہوں نے کہا: تھا فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون پس صبر جمیل بہتر ہے اور اللہ ہی کی مدد درکار ہے اس بارے میں جو کچھ تم کہہ رہے ہو پھر میں نے اپنا رخ دوسری طرف کر لیا اور اپنے بستر پر لیٹ گئی ۔ اللہ خوب جانتا تھا کہ میں اس معاملہ میں قطعاً صاف تھی لیکن اللہ کی قسم ! مجھے اس کا گمان بھی نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعہ قرآن مجید میں میرے معاملے کی صفائی اتارے گاکیونکہ میں خود کو اس سے بہت کمتر سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے معاملہ میں خود کوئی کلام فرمائے ، مجھے تو صرف اتنی امید تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی خواب دیکھیں گے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مجھے اس الزام سے بری کردے گا لیکن اللہ کی قسم ! ابھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس سے اٹھے بھی نہیں تھے اور نہ گھر کا کوئی اور آدمی وہاں سے اٹھا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونا شروع ہوئی اور آپ پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو وحی کی شدت میں طاری ہوتی تھی ۔ موتیوں کی طرح پینے کے قطرے آپ کے چہرے سے کرنے لگے ۔ حالانکہ سردی کا موسم تھا ۔ یہ اس وحی کی وجہ سے تھا جو آپ پر نازل ہو رہی تھی ۔ پھر آپ کی وہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ قسم فرمارہے تھے ۔ سب سے پہلا کلمہ جو آپ کی زبان مبارک سے نکلا وہ یہ تھا ۔ اے عائشہ ! اللہ نے تمہاری پاکی بیان کر دی ہے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر میری والدہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑی ہو جاؤ ۔ میں نے کہا: ، نہیں اللہ کی قسم ! میں آپ کے سامنے نہیں کھڑی ہوں گی ۔ میں اللہ عزوجل کے سوا اور کسی کی حمد و ثنا نہیں کروں گی (کہ اسی نے میری برات نازل کی ہے اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں آیات نازل فرما ئیں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کیا کہ میرے معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش سے بھی مشورہ کیا تھا ۔ آپ نے ؟ ان سے پوچھا کہ سیدہ عائشہ کے متعلق کیا معلومات ہیں یا ان میں تم نے کیا چیز دیکھی انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنی آنکھوں اور کانوں کو محفوظ رکھتی ہوں ، اللہ کی قسم ! میں ان کے بارے میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں جانتی ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ سیدہ زینب ہی تمام ازواج مطہرات میں میرے مقابل کی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے تقوی اور پاکبازی کی وجہ سے انہیں محفوظ رکھا ۔ البتہ ان کی بہن حمنہ نے غلط راستہ اختیار کیا اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہوئی ۔ اللہ کی قسم ! جس صحابی کے ساتھ یہ تہمت لگائی گئی تھی وہ اس تہمت کو سن کر کہتے :
سبحان الله فوالذي نفسي بيده ما كشفت من كنف أنثى قط ، قالت : ثم قتل بعد ذلك فى سبيل الله
” سبحان اللہ“ اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میں نے آج تک کسی عورت کا پردہ نہیں کھولا ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر اس واقعہ کے بعد وہ اللہ کے راستے میں شہید ہو گئے تھے ۔
[ صحيح بخاري ، كتاب المغازي ، باب حديث الا ملك ، رقم : 4141]
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنی والدہ کو جواب دیتے ہوئے سبحان اللہ کا کلمہ بولا:
معلوم ہوا کہ جواب دینے کے لیے یہ کلمہ گفتگو کے آغاز میں بولا جا سکتا ہے ۔
حدیث کے آخر میں سیدنا صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ کا کلام ہے کہ انہوں نے اپنا ترکیہ اور صفائی دیتے ہوئے سبحان اللہ کا کلمہ بولا: پس تزکیه و گواہی کے موقع پر سجان اللہ کا کلمہ بولا جا سکتا ہے ۔ سورہ نور میں اللہ تعالیٰ نے اسی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کلمہ سبحان کو استعمال کرتے ہوئے فرمایا :
ولولا إذ سمعتموه قلتم ما يكون لنا أن نتكلم بهذا سبحنك هذا يهتان عظيم
”تم نے ایسی بات کو سنتے ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات منہ سے نکالنی بھی لائق نہیں ۔ اے اللہ ! تو پاک ہے ، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے اور تہمت ہے “۔ [النور : 12]

عذاب والی کیفیت کو دیکھ کر :

عذاب والی کیفیت کو دیکھ کر بھی سبحان اللہ کا کلمہ بولا جا سکتا ہے ۔ اور یہاں اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ پاک ہے وہ ظلم و زیادتی جیسے عیوب سے پاک ہے جو آدمی بھی کسی عذاب و سزاسے دو چار ہوتا ہے وہ اس کے گناہوں اور جرائم کا نتیجہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کسی فرد و بشر پر نہ ظلم کرتے ہیں نہ زیادتی یہاں یہ بات واضح رہے کہ سبحان اللہ کہنے میں انسانی کیفیت بھی تبدیل ہوتی ہے ۔ جنت اور اس کی نعمتوں کے بارے میں سن کر اور اللہ تعالیٰ کے احسانات و انعامات کو دیکھ کر بندہ خو شی و مسرت والی کیفیت میں سبحان اللہ کہتا ہے اور اس کے دل میں شکر گزاری کے جذبات ہوتے ہیں جبکہ عذاب والی کیفیت کو دیکھ کر لرزتے دل سے سبحان اللہ کہتا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کے ظلم اور زیادتی سے پاک ہونے کا اقرار کرتا ہے ۔ عذاب والی کیفیت کو دیکھ کر سبحان اللہ کہنے کی دلیل صحیح بخاری کی یہ روایت ہے ۔
سیدنا سمرہ بن جندب علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جو باتیں صحابہ سے اکثر کیا کرتے تھے ان میں یہ بھی تھی کہ تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے ۔ پھر جو چاہتا اپنا خواب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صبح کو فرمایا کہ رات میرے پاس دو آنے والے آئے اور انہوں نے مجھے اٹھایا اور مجھ سے کہا کہ ہمارے ساتھ چلو میں ان کے ساتھ چل دیا ۔ پھر ہم ایک لیٹے ہوئے شخص کے پاس آئے جس کے پاس ایک دوسرا شخص پتھر لیے کھڑا تھا وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو اس کاسر پھٹ جاتا اور پھر لڑھک کر دور چلا جاتا ، وہ شخص پتھر کے پیچھے جاتا اور اسے اٹھا لاتا اور اس لیٹے ہوئے شخص تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کا سر ٹھیک ہو جاتا جیسا کہ پہلے تھا ۔ کھڑا شخص پھر اسی طرح اسے پتھر مارتا تھا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے ان سے پوچھا:
سبحان الله ما هذان؟
” سبحان اللہ یہ دونوں کون ہیں؟ “
انہوں نے کہا کہ آگے بڑھو ، آگے بڑھو ۔ چنانچہ پھر ہم آگے بڑھے اور ایک ہی ایسے شخص کے پاس پہنچے جو پیٹھ کے بل لیٹا ہوا تھا اور ایک دوسرا شخص اس کے پاس لوہے کا آنکڑا لیے کھڑا تھا اور وہ اس کے چہرے کی ایک طرف آتا اور اس کے ایک جبڑے کو گدی تک چیرتا اور اس کی ناک کو گدی تک چیرتا اور اس کی آنکھ کو گدی تک چیرتا ۔ پھر وہ دوسری جانب جاتا ادھر بھی اسی طرح چیرتا جس طرح اس نے پہلی جانب کیا تھا ۔ وہ ابھی دوسری جانب سے فارغ بھی نہ ہوتا تھا کہ پہلی جانب اپنی صحیح حالت میں لوٹ آتی ۔ پھر دوبارہ دہ اسی طرح کرتا جس طرح اس نے پہلی مرتبہ کیا تھا ۔ میں نے کہا:
سبحان الله ما هذان؟
”سبحان اللہ ! یہ دونوں کون ہے ؟“
انہوں نے کہا کہ آگے چلو ، چنانچہ ہم آگے چلے پھر ہم ایک تنور جیسی چیز پر آئے ۔ اس میں شوروغل کی آواز میں تھیں ۔ ہم نے اس میں جھانکا تو اس کے اندر کچھ ننگے مرد اور عورتیں تھیں اور ان کے نیچے سے آگ کی لپٹ آتی تھی جب آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیتی تو وہ چلانے لگتے ۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے ان سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: چلو آگے چلو ۔ فرمایا کہ ہم آگے بڑھے اور ایک نہر پر آئے ۔ وہ خون کی طرح سرخ تھی اور اس نہر میں ایک شخص تیر رہا تھا اور نہر کے کنارے ایک دوسرا شخص تھا جس نے اپنے پاس بہت سے پتھر جمع کر رکھے تھے اور یہ تیرنے والا تیرتا ہواجب اس شخص کے پاس پہنچتا جس نے پتھر جمع کر رکھے تھے تو یہ اپنا منہ کھول دیتا اور کنارے پر موجود شخص اس کے منہ میں پتھر ڈال دیتا وہ پھر تیرنے لگتا اور پھر اس کے پاس لوٹ کر آتا اور جب بھی اس کے پاس آتا تو اپنا منہ پھیلا دیتا اور وہ اس کے منہ میں پتھر ڈال دیتا ۔ فرمایا کہ میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ چلو آگے چلو ۔ پھر ہم آگے بڑھے اور ایک نہایت بدصورت آدمی کے پاس پہنچے جتنے بدصورت تم نے دیکھے ہوں گے ان میں سب سے زیادہ بدصورت ۔ اس کے پاس آگ جل رہی تھی اور وہ اسے جلا رہا تھا اور اس کے چاروں طرف دوڑتا تھا ( نبی کریم سال ہے تم نے) فرمایا کہ میں نے ان سے کہا کہ یہ کیا ہے ؟ انہوں نے مجھ سے کہا: چلو آگے چلو ۔ ہم آگے بڑھے اور ایک ایسے باغ میں پہنچے جو سر سبز تھا اور اس میں موسم بہار کے سب پھول تھے ۔ اس باغ کے درمیان میں ایک بہت لمبا شخص تھا ، اتنا لمبا تھا کہ میرے لیے اس کا سردیکھنا دشوار تھا کہ وہ آسمان سے باتیں کرتا تھا اور اس شخص کے چاروں طرف بہت سے بچے تھے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا میں نے پوچھا: یہ کون ہے اور یہ بچے کون ہیں؟ انہوں نے مجھ سے کہا کہ چلو آگے چلو فرمایا کہ پھر ہم آگے بڑھے اور ایک عظیم الشان باغ تک پہنچے ، میں نے اتنا بڑا اور خوبصورت باغ کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ ان دونوں نے کہا کہ اس پر چڑھئے ہم اس پر چڑھے تو ایک ایسا شہر دکھائی دیا جو اس طرح بنا تھا کہ اس کی ایک اینٹ سونے کی تھی اور ایک اینٹ چاندی کی ۔ ہم شہر کے دروازے پر آئے تو اسے ہمارے لیے کھولا گیا اور ہم اس میں داخل ہوئے ۔ ہم نے اس میں ایسے لوگوں سے ملاقات کی جن کے جسم کا ہو نصف حصہ تو نہایت خوبصورت تھا اور دوسرانصف نہایت بد صورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب دونوں نے ان لوگوں سے کہا کہ جاؤ اور اس نہر میں کود جاؤ ۔ ایک نہر سامنے بہہ رہی تھی اس کا پانی انتہائی سفید تھا وہ لوگ گئے اور اس میں کود گئے اور پھر ہمارے پاس لوٹ کر آئے تو ان کا پہلا عیب جا چکا تھا اور اب وہ نہایت خوبصورت ہو گئے تھے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب ان دونوں نے کہا: یہ جنت عدن ہے اور یہ آپ کی منزل ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا کہ میری نظر اوپر کی طرف اٹھی تو سفید بادل کی طرح ایک محل اوپر نظر آیا فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے کہا: یہ آپ کی منزل ہے ۔ میں نے ان سے کہا: اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے ۔ مجھے اس میں داخل ہونے دو ۔ انہوں نے کہا: اس وقت تو آپ نہیں جا سکتے لیکن ہاں آپ اس میں ضرور جائیں گے ۔ میں نے ان سے کہا کہ آج رات میں نے عجیب و غریب چیزیں دیکھی ہیں ۔ یہ چیزیں کیا تھیں جو میں نے دیکھی ہیں ۔ انہوں نے مجھ سے کہا: ہم آپ کو بتا دیتے ہیں ۔ پہلا شخص جس کے پاس آپ گئے تھے اور جس کا سر پتھر سے کچلا جا رہا تھا یہ وہ شخص تھا جس نے قرآن سیکھا تھا اور پھر اسے چھوڑ دیا اور فرض نماز کو چھوڑ کر سو جاتا اور وہ شخص جس کے پاس آپ گئے جس کا جبڑاگدی تک اور ناک گدی تک اور آنکھ گدی تیک چیری جارہی تھی ۔ یہ وہ شخص تھا جو صبح اپنے گھر سے نکلتا اور جھوٹی خبر تراشتا ، جو دنیا میں پھیل جاتی اور وہ ننگے مرد اور عورتیں جو تنور میں آپ نے دیکھے وہ زنا کار مرد اور عورتیں تھیں ۔ وہ شخص جس کے پاس آپ اس حال میں گئے کہ وہ نہر میں تیر رہا تھا اور اس کے منہ میں پتھر ڈالا جاتا تھا وہ سود کھانے والا تھا اور وہ شخص جو بدصورت تھا اور جہنم کی آگ بھڑکا رہا تھا اور اس کے چاروں طرف چل پھر رہا تھا وہ جہنم کا داروغہ مالک نامی تھا اور وہ ایسا شخص جو باغ میں نظر آیا وہ ابراہیم علیہ السلام ہیں اور جو بچے ان کے چاروں طرف ہیں تو وہ بچے ہیں جو ( بچپن ہی میں) فطرت پر فوت ہو گئے ہیں ۔ اس پر بعض مسلمانوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! کیا مشرکین کے بچے بھی ان میں داخل ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں مشرکین کے بچے بھی (ان میں داخل ہیں) اب رہے وہ لوگ جن کا آدھا جسم خوبصورت اور آدھا بدصورت تھا تو یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اچھے عمل کے ساتھ برے عمل بھی کئے اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کو بخش دیا ۔
[ صحيح بخاري ، كتاب التعبير ، باب تعبير الرويا بعد صلاة الصبح ، رقم : 7047 ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں دو جگہ عذاب میں مبتلا افراد کو دیکھ کر سبحان اللہ کہا: ۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ عذاب والی کیفیات کو دیکھ کر یا ایسے واقعات سن کر سبحان اللہ کا کلمہ بولا جاسکتا ہے ۔ لیکن یہ کلمہ ایسے مقامات پر لرزتے دل سے اور اللہ کی ہیبت و عظمت کے اظہار کے طور پر بولا جائے جبکہ عذاب والی آیات پر معانی کا علم نہ ہونے کی وجہ سے خو شی و مسرت کی کیفیت میں سبحان اللہ کہتا اور اس مسرت و طمانیت کے اظہار میں جھومنا درست معلوم نہیں ہوتا ۔ (واللہ اعلم)

اونچائی سے اُترتے ہوئے :

سیڑھیاں یا کسی بھی بلند جگہ سے نیچے اترتے ہوئے سبحان اللہ کہا جائے ۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
”كنا إذا صعدنا كبرنا ، وإذ انزلنا سحنا ”.
” جب ہم (کسی بلندی پر) چڑھتے ، تواللہ اکبر کہتے اور جب (کسی نشیب میں )اترتے تو” سبحان اللہ“ کہتے تھے ۔ “
[ صحيح بخاري ، كتاب الجهاد والسير ، باب تسبیح اذاہبط واد يا ، رقم 2993]

خلاصه کلام :

مذکورہ چند مقامات اس بات کی دلیل ہیں کہ کلمہ سبحان اللہ کلام عرب میں کثرت سے استعمال ہوتا رہا ہے اور دوران گفتگو موقع ومحل کی مناسبت سے عرب لوگ اسے بکثررت سے استعمال کرتے رہے ہیں ۔ پس موقع ومحل کی مناسبت سے یہ کلمہ کہیں بھی بولا جاسکتا ہے ۔ لیکن یہ خیال رہے کہ اس کی کلام کے ساتھ مناسبت ہو اور کہیں بھی اس کلمہ کا ذرہ بھر وقار مجروح نہ ہو اور جس کیفیت میں یہ کلمہ اداکیا جائے اس کیفیت کے اثرات بھی متکلم پر غالب ہونے چاہئیں ۔ مثال کے طور پر جنت اور جنت کے احوال سن کر یا اللہ تعالیٰ کے انعامات و احسانات دیکھ کر سبحان اللہ کہا جائے تو بندے کے دل میں شکر گزاری کے جذبات ہونے چاہئیں اور اگر قیامت اور اس کے احوال یا عذاب والی آیات سن کر سبحان اللہ کہے تو اس میں اللہ کی ہیبت و جلال سے ڈرتے ہوئے لرزتے دل سے سبحان اللہ کہے اگر عاجزی و انکساری کے لیے سبحان اللہ کہتا ہے تو اس پر یہ کلمہ کہتے ہوئے انکساری و در ماندگی کی کیفیت طاری ہو ۔ علی ہذا القیاس جس بھی رنگ میں سبحان اللہ کہے وہ رنگ اور کیفیت بندے پر طاری ہونی چاہئے ۔
نیز کلمہ سبحان اللہ سے محبت ہونی چاہئے ۔ اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کلمہ سے محبت تھی اس لئے یہ کلمہ ان کے اذکار میں بھی شامل تھا اور روز مرہ کی گفتگو میں بھی درد زبان تھا وہ افراد جن کی گفتگو میں گالیاں شامل ہیں اور گالی ان کا تکیہ کلام ہے ۔ انہیں چاہئے کہ اپنی گفتگو سے اس غلاظت کو نکالیں اور اپنی گفتگو میں سبحان اللہ کی مشک بھری خوشبو کو شامل کریں اور جب ہماری گفتگو میں سبحان اللہ کا رنگ اور نور بکھر جائے گا تب دلوں کی رنجشیں اور کدورتیں ختم ہو جائیں گی ۔ گالیوں سے نفرتیں بڑھتی ہیں اور احساسات مجروح ہوتے ہیں ۔ جبکہ سبحان اللہ سے نیکیاں بڑھتی ہیں اور دل قریب ہوتے ہیں ۔ اس لئے کہ سبحان اللہ میں اللہ کا رنگ ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
صبغة الله ومن أحسن من الله صبغة ونحن له عبدون الله
اللہ کا رنگ اختیار کرو اور اللہ تعالیٰ سے اچھا رنگ کس کا ہو گا ۔ ہم تو اس کی عبادت کرتے ہیں ۔ [ البقره : 138]

اس تحریر کو اب تک 4 بار پڑھا جا چکا ہے۔