نمازِ جنازہ کے بعد دعا کی شرعی حیثیت

تحریر : غلام مصطفے ٰ ظہیر امن پوری

نماز جنازہ کے فوراً بعد ہاتھ اٹھا کر میت کے لیے اجتماعی دعا کرنا، قبیح بدعت ہے، قرآن و حد یث میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، خلفائے راشدین، صحابہ کرام تابعین عظام، ائمہ دین اور سلف صالحین سے یہ ثابت نہیں۔
اس کے باوجود ”قبوری فرقہ“ س کو جائز قرار دیتا ہے، جنازہ کے متصل بعد اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا اگر جائز ہوتا تو صحابہ کرام جو سب سے بڑھ کر قرآن و حدیث کے معانی، مفاہیم و مطالب اور تقاضوں کو سمجھنے والے اور ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والے تھے، وہ ضرور اس کا اہتمام کرتے۔
چاروں اماموں سے بھی اس کا جواز یا استحباب منقول نہیں۔
◈ امامِ بریلویت جناب احمد یار خان نعیمی صاحب لکھتے ہیں۔
”ہم مسائل شرعیہ میں امام صاحب (ا بوحنفیہ) کا قول و فعل اپنے لیے دلیل سمجھتے ہیں اور دلائل شرعیہ پر نظر نہیں کرتے۔ [ جاء الحق 15/1]
◈ نیز ایک مسئلہ کے بارے میں لکھتے ہیں :
”حنفیوں کے دلائل یہ روایتیں نہیں، ان کی دلیل صرف قولِ امام ہے۔ [ جاء الحق 104، 9/6]
↰ اب مبتدعین پر لازم ہے کہ وہ اپنے امام ابوحنفیہ سے باسند ”صحیح“ اس کا استحباب ثابت کریں، ورنہ ماننا پڑے گا کہ اس فرقہ کا امام ابوحنفیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور أجلي الآ علام بأن الفتوٰي مطلقا على قول قول الامام کے نام سے رسالے لکھنے والوں کو ”کشف الغطاء“ وغیرہ کے حوالے پیش کرتے وقت شرم کرنی چاہیئے !

↰ واضع رہے کہ بعض حنفی امامو ں نے بھی جنازہ کے متصل بعد دعا کرنے سے منع کیا ہے اور اس کو مکروہ قرار دیا ہے :
➊ ابنِ نجیم حنفی، جنہیں حنفی ابوحنفیہ ثانی کے نام سے یاد کرتے ہیں، وہ لکھتے ہیں :
ولا يدعو بعد التسليم
”نمازِ جنازہ کا سلام پھیرنے کے بعد دعا نہ کرے۔“ [البحر الرائق لاين نحيم الحنفي : 183/7]

➋ طاہر بن احمد الحنفی البخاری (م542ھ) لکھتے ہیں :
لايقوم بالد عاء فى قرائة القرآن لأ جل الميت بعد صلاة الجنازة وقبلها لا يقوم بالدعاء بعد صلاة الجنازة
”نمازِ جنازہ سے پہلے اور بعد میت کے لیے قرآن مجید پڑھنے کے لیے مت ٹھہرے اور نمازِ جنازہ کے (متصل) بعد دعا کی غرض سے بھی مت ٹھہرے۔“ [ خلاصة الفتوي : 225/1]

➌ ابنِ ہمام حنفی کے شاگرد ابراہیم بن عبد الرحٰمن لکرکی (835-922ھ) لکھتے ہیں :
والدّعاء بعد صلاة الجنازة مروه كما يفعله العوّ ا م فى قرأء ة الفاتحة بعد الصّلاة عليه قبل أن تر فع
”نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد میت کو اٹھانے سے پہلے سورۂ فاتحہ کو دعا کی غرض سے پڑھنا، جیسا کہ عوام کرتے ہیں، مکروہ ہے۔“ [ فتاوي فيض كركي : 88]

➍ محمد خراسانی حنفی (م 926ھ) لکھتے ہیں :
ولا يقوم داعيا له
”نمازِ جنازہ کے (متصل) بعد میت کے حق میں دعا کے لیے کھڑا نہ ہو۔“ [ جامع الرموز : 125/1]

اعتراض : ان عبارات سے پتہ چلتا ہے کہ نماز جنازہ کے فوراً بعد کھڑے ہو کر نہیں، بلکہ بیٹھ کر دعا کرے، مطلق دعا کی نفی بالکل نہیں۔

جواب :
یہ مفہوم کئی وجوہ سے باطل ہے :
➊ حنفی مذہب کی کسی معتبر کتاب میں یہ مفہوم مذکور نہیں، لہٰذا مردود باطل ہے۔
➋ یہاں ”قیام“ کا معنٰی کھڑے ہونا نہیں، بلکہ ٹھہرانا مراد ہے، جیسا کہ ارشاد، باری تعالیٰ ہے : وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ [9-التوبة:84] یعنی : ”آپ منافقین میں سے کسی کی قبر پر مت ٹھہریں۔“ یہ مطلب نہیں کہ منافقین کی قبروں پر کھڑے نہیں ہو سکتے، بیٹھ کر دعا کر سکتے ہیں، بلکہ یہاں قیام سے مراد ٹھہرانا ہے کہ آپ ان کی قبروں پر دعا کے لیے نہیں ٹھہر سکتے۔

آئیے نمازِ جنازہ کے متصل بعد دعا کے مزعومہ دلائل کا جائزہ لیتے ہیں :
دلیل نمبر

ارشاد باری تعالیٰ ہے :
أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ
”میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں، جب بھی وہ مجھ سے دعا کرے۔“

تبصرہ :
① بعض الناس کا عمومی دلائل سے اس کا ثبوت پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔
② نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام جو قرآن کے مفاہیم و مطالب سب سے بڑھ کر جاننے والے تھے، ان سے جنازہ کے متصل بعد اجتماعی دعا کرنا ثابت نہیں، اگر اس آیت کے عموم سے یہ مسئلہ نکلتا تو وہ ضرور دعا کرتے، لہٰذا یہ کہنا کہ اس آیت کے عموم سے نماز، جنازہ کے فوراً بعد دعا کی ترغیب دی گئی، واضح جھوٹ ہے۔
③ خود تقلید پرست جنازہ سے پہلے اجتماعی ہیئت کے ساتھ دعا کرنے کے قائل نہیں، لہٰذا ان کا اس آیت کے عموم پر عمل نہیں۔
④ اس آیت سے استدلال کسی حنفی امام سے ثابت کریں۔

دلیل نمبر

رب تعالیٰ ارشاد فرما تا ہے :
فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ ٭ وَإِلَى رَبِّكَ فَارْغَبْ [104-الهمزة:7]
”تو جب تم نماز سے فارغ ہو تو دعا میں محنت کرو اور اپنے رب ہی کی طرف رغبت کرو۔“
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے ارشادات :
اس کی تفسیر میں سیدنا عبد اللہ، بن عباس رضی اللہ عنہما اور قتا دہ، ضحاک، مقاتل اور کلبی وغیرہم سے مروی ہے :
اذا فرغت من الصلاة المكتوبة أو مطلق الص لاة فانصب الي ربك فى الد عاء وار غب اليه فى المسئلة
”جب تم نمازِ فرض یا کسی بھی قسم کی نماز سے فارغ ہو تو اپنے رب سے دعا کرنے میں لگ جاؤ‍ او اس کی بارگاہ میں سوال کرنے میں رغبت کرو۔“ [ تفسير مظهري : 94/10، طبع انڈيا]

تبصرہ :
① اس آیت کریمہ سے کسی ثقہ امام نے نمازِ جنازہ کے متصل بعد اجتماعی ہیئت سے دعا کا جواز ثابت نہیں کیا ہے، لہٰذا یہ استدلال باطل ہے۔
② سید نا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے یہ تفسیر ثابت نہیں، کیونکہ پہلی روایت میں علی بن ابع طلحہ راوی ہے، جس کا سید نا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے سماع ثابت نہیں، دوسری روایت میں ”سلسلہ الضعفاء“ ہے، یعنی سعد بن محمد بن الحسین عطیہ بن سعد العوفی اور اس کا چچا الحسن بن عطیہ العفی اور الحسن بن عطیہ العوفی اور عطیہ العوفی، سارے کے سارے راوی ”ضعیف“ ہیں۔
ضحاک کی روایت حُدِّثتُ (مجھے بیا ن کیا گیا ہے)، یعنی جہالت کے وجہ سے ”ضیعف“ ہے۔ لہٰذا یہ دونوں روایتیں ”ضعیف“ ہوئیں۔
③ مقاتل خود ”ضعیف“ ہے۔
④ کلبی خود کذاب اور متروک ہے۔
قال الطبريٰ : حدثنا ابن عبد الأ عليٰ، قال : ثنا ثور عن معمر عن قتادة فى قوله : فاذا فرغت من صلاتك فانصب فى الد عاء۔
امام قتادہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جب تو اپنی نماز سے فارغ ہو تو دعا میں رغبت کر۔ [تفسير طبري : 152/3، وسندۂ صحيح]
اس صحیح تفسیر میں نمازِ جنازہ کا کوئی ذکر نہیں ہے، دوسری بات یہ ہے کہ اس میں اجتماعی ہیئت کے ساتھ دعا کا کوئی ذکر نہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جب نماز سے فارغ ہوں تو دعا میں کوشش کریں، یعنی اذکار منسونہ پڑھیں یا اس آیت کریمہ کا معنیٰ یہ ہے کہ آپ جب دنیاوی امور سے فارغ ہو جائیں تو عبادت میں خوب محنت کریں۔

تنبیہ :

اس آیت کی تفسیر میں خواجہ یعقوب چرخی (م 875ھ) لکھتے ہیں :
”تو جب تم نماز سے فارغ ہو جاؤ تو دعا میں محنت کرو، نماز کے بعد نیاز پیش کر کے حق تعالیٰ کی ملاقات ڈھونڈو اور دنیا و آخرت حق تعالیٰ سے طلب کرو، جب بندہ نماز پڑھ کر دعا نہ کرے تو (حق تعالیٰ) اس کی نماز اس کے منہ پر مارتے ہیں۔“ [ تفسير يعقوب چحرخي : ص 157، طبع قديم هند]

جواب :
① یعقوب چرخی کا قول بے دلیل ہونے کی وجہ سے باطل و مردود ہے۔
② یہی بات باسند ِ صحیح امام ابوحنفیہ وغیرہ سے ثابت کی جائے۔
③ اہل سنت و الجماعت میں سے کوئی بھی اس نظریہ کا حامل نہیں رہا ہے۔
④ اس میں نمازِ جنازہ اور مخصوص ہیئت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
⑤ جمہور حنفی فقہاء کے نزدیک نمازہ جنازہ کے بعد دعا کرنا صحیح نہیں، لہٰذا یہ قول مردود ہے۔

دلیل نمبر

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا صليتم على الميت، فاخلصوا له الدعاء
”جب تم میت پر جنازہ پڑھو تو اس کے لیے خلوص کے ساتھ دعا کرو۔“
[ سنن ابي داود 3199، سنن ابن ماجه : 1497، السنن الكبري للبيهقي : 40/4، وسندۂ حسن]

تبصرہ :
اس حدیث کو امام ابنِ حبان رحمہ اللہ ( 3077-3076) نے ”صحیح“ کہا ہے،
اس کا راوی محمد بن اسحاق صاحب المغازی جمہور کے نزدیک ”حسن الحدیث“ ہے، صحیح ابنِ حبان میں اس نے سماع کی تصریح کی ہے۔
↰ اس حدیث سے نمازِ جنازہ کے اندر میت کے لیے اخلاص کے ساتھ دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، محدثین کرام نے اس سے یہی مسئلہ اخذ کیا ہے۔
◈ امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نےاس پر یوں تبویب کی ہے :
باب ما جاء فى الد عاء فى الصلاة على الجنازة
”نماز جنا زہ کے اندر دعا کرنے کا بیان۔“
◈ امام ابنِ حبان رحمہ اللہ کی تبویب ان الفاظ سے ہے :
ذكر الأ مر لمن صلى على ميت أن يخلص له الد عاء
”جو آدمی میت پر نمازہ (جنازہ) پڑھتا ہے، اس کو میت کے لیے اخلاص کے ساتھ دعا کرنے کے حکم کا بیان۔“
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ یوں باب قائم فرماتے ہیں :
باب فى الد عاء فى الصلاة الجنازة
”نمازِ جنازہ کے اندر دعا کرنے کا بیان۔“
↰ مبتدعین اس حدیث کو نمازِ جنازہ کے متصل بعد اجتماعی دعا کے لیے بطورِ دلیل پیش کرتے ہیں، یہ ہمارے اس دور کے اہل بد عت کی کارستانی ہے، بلکہ زبردست سینہ زوری ہے کہ حدیث کی معنوی تحریف کر کے ایک بدعت ایجاد کر لی ہے، محدثین کرام اور اپنے حنفی فقہاء کے فہم اور اقوال کو نظر انداز کر دیا ہے۔
◈ چنانچہ احمد یار خان نعیمی بریلوی صا حب لکھتے ہیں :
”ف سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے فوراً بعد دعا کی جاوے، بلا تاخیر۔ جو لوگ اس کے معنیٰ کرتے ہیں کہ نماز میں اس کے لیے دعا مانگو، وہ ”ف“ کے معنیٰ سے غفلت کرتے ہیں، صلّیتم شرط ہے اور فأخلصوا اس کی جزاء، شرط اور جزاء میں تغایر چاہیے، نہ یہ کہ اس میں داخل ہو، پھر صليتم ماضی ہے اور فأخلصوا امر ہے، اس سے معلوم ہوا کہ دعا کا حکم نماز پڑھ چکنے کے بعد ہے، جیسے فاذا طعمتم فانتشروا میں کھا کر جانے کا حکم ہے، نہ کہ کھانے کے درمیان۔۔۔۔ اور فا سے تاکید ہی معلوم ہوئی۔ [ جاء الحق : 274]
دیکھا آپ نے کہ ”مفتی ”صاحب کس جرأت سے محد ثین کرام اور اپنے حنفی فقہاء وائمہ کو ”غفلت“ کا الزام دے رہے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک اعتبار سے یہاں تغایر موجود ہے، وہ ہے کلیت اور جزئیت کا تغایر، نماز کلیت کے اعتبار سے افعال و اقوال کے مجموعہ کا نام ہے، جبکہ دعا ایک جزاء ہے، جسے قول کہا جاتا ہے، شرط اور جزاء کے درمیان اتنی سی مغایرت کافی ہے، ورنہ نمازِ جنازہ کو دعاؤں سے خالی کرنا پڑ ےگا، کیونکہ من کل الوجوہ مغایرت اس وقت ہو گی، جب نمازِ جنازہ کے اندر کوئی بھی دعا نہ ہو۔ اگر شرط اور جزاء میں من وجہ مغایرت کافی ہو تو یہاں بھی مغایرت موجود ہے۔
ویسے بھی جب ماضی پر ”اذا“ داخل ہو جائے تو معنیٰ مستقبل کا پیدا ہو جاتا ہے، لہٰذا صحیح معنیٰ اور ترجمہ یہ ہوا کہ ”جب تم نمازِ جنازہ پڑھو تو اس میت کے لیے دعا میں اخلاص پیدا کرو۔
جیسا کہ محد ثین کرام کے فہم سے پتا چلتا ہے۔ اگر ہر جگہ ”فا“ کا معنی تغاخر کا لیں تو
فإذا قرأت القرآن فاستعذ بالله من الشيطن الرجيم
کا معنی یہ ہو گا کہ قرآن پاک پڑھ لینے کے بعد أعوز باللہ۔۔۔ پڑھنا چاہیے، یہاں بھی قرأت ماضی اور فاستعذ امر ہے۔
قرآن مجید میں ایک آیت سے بطریق اشارۃ العص ثابت ہوتا ہے کہ نمازِ جنازہ کے متصل بعد دعا کرنا جائز نہیں، جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَ لَا تُصَلِّ عَلٰیٓ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمۡ عَلٰی قَبۡرِہٖ [التوبۃ : 84]
”آپ کبھی بھی ان (منافقین) پر نمازِ جنازہ نہ پڑ ھیں، نہ ہی ان کی قبر پر (دعاکے لیے) ٹھہریں۔ ”
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کا جنازہ پڑ ھتے تھے تو منافقین کا جنازہ پڑھنے سے روک دیا گیا، اسی طرح اگر آپ نماز جنازہ کے متصل بعد مسلمان میت کے لیے اجتماعی دعا کرتے ہوتے تو منافقین کے حق میں اس ے بھی روک دیا جاتا، ثابت ہوا کہ نمازِ جنازہ کے متصل بعد اجتماعی دعا سنت نبوی سے ثابت نہیں ہے۔

دلیل نمبر

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
ان النبى صلى الله عليه وسلم صلى على المنفوس، ثم قال : اللهم أعزه من عذاب القبر
”بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نوزائیدہ کی نمازِ جنازہ پڑھی، پھر دعا فرمائی کہ اے اللہ! اس کو عذاب (فتنہ) قبر سے پنا ہ دے۔“ [كنز العمال : 716/15، طبع حديد حلب]

جواب :
① اس کا ترجمہ غلط کیا گیا ہے صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ”بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نوزائیدہ پر نمازِ جنازہ پڑھی اور دعا فرمائی کہ اے اللہ ! اس کو عذابِ (فتنہ) قبر سے پناہ دے۔“
اس روایت میں ثمّ ، واؤ کے معنیٰ میں ہے، یعنی نمازِ جنازہ پڑھی اور اس میں یہ دعا پڑ ھی، جیسا کہ محد ثین کرام کے فہم سے پتا چلتا ہے، آج تک کسی ثقہ محدث نے اس کو جنازہ کے متصل بعد دعا کے ثبوت میں پیش نہیں کیا ہے۔
② اس میں اجتماعی ہیئت کے ساتھ اور ہاتھ اٹھا کر دعا کا کوئی ذکر نہیں۔
③ یہاں حرف ثمّ کا معنیٰ فا، یعنی تعقیب مع الوصل والا کرنا صحیح نہیں، کیونکہ ثمّ تعقیب مع تراخی کے لیے آتا ہے، اس جگہ بغیر کسی قرینۂ صارفہ کے اس کو تعقیب مع الو صل کی طرف پھیرنا صحیح نہیں ہے، حنفی فقہا کی صراحت سے بھی یہی پتا چلتا ہے۔

دلیل نمبر

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
ان النبی صلى الله عليه وسلم قرأ علي الجنازة بفاحة الكتاب
”بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ کے موقع پر فاتحہ پڑھی۔“ [ مشكوة المصابيح مع أشعة اللعات : 686/1]

تبصرہ :
یہ حدیث ”حسن“ درجہ کی ہے، اس کا ایک شاہد ام شریک کی روایت سے سنن ابنِ ماجہ [ 1496] میں موجود ہے، اس کو امام بطرانی نے اپنی کتاب المعجم الکبیر [ 91/25، ح : 252] میں حماد بن بشير الجهضعمي عن أبى عبد الله الشامي (مرزوق) عن شهر بن حوشب کے طریق سے روایت کیا ہے، اس کے مزید شواہد کے لیے مجمع الزوائد [ 32/3] دیکھیں۔
یہ روایت نماز، جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے کی زبردست دلیل ہے، اس کا ترجمہ امام بریلویت احمد یار خان نعیمی بریلوی نے ان الفاظ میں کیا ہے : ”روایت ہے حضرت ابنِ عباس سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازے پر سورہ فاتحہ پڑھی۔“ [مشكوة شريف ترجمه از احمد يار خان بر يلوي، تبه اسلاميه اردو بازار لاهور : 321/1، ”جاء الحق ”: 275/1]
لہٰذا اس کا ترجمہ یہ کرنا کہ ”جنازہ کے موقع پر فاتحہ پڑھی“ یقیناً معنوی تحریف ہے۔
الصلاة على الميّتّ سے مراد نمازِ جنازہ ہوتا ہے، جیساکہ حدیث میں ہے؛ صلّوا على صاحبكم یعنی : ”تم اپنے ساتھی پر نمازِ جنازہ پڑھو۔“ [ صحيح بخاري : 2397، صحيح مسلم : 1619]
✿ قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
ولا تصلّ على أحد منهم مات أبدا [ التوبة : 84]
”آپ کبھی بھی ان (منافقین) پر نمازِ جنازہ نہ پڑھیں۔“
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ”جنازہ کے موقع پر نہ پڑ ھیں۔“ !!!!
یہ تر جمہ محدثین کے فہم کے خلاف ہے، کسی ثقہ امام نے اس سے یہ مطلب اخذ نہیں کیا ہے۔
امام ابن ماجہ رحمہ اللہ [ 1495] نے اس پر باب ماجاء فى القراء ة على الجنازة قائم کیا ہے، اسی طرح امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اس پر باب ماجاء فى القراءة على الجنازة قائم کیا ہے، یعنی نمازِ جنازہ مین قرات کرنے کے بارے میں بیان۔
دوسری صحیح احادیث سے نصاً ثابت ہے کہ نمازِ جنازہ کے اندر سورۂ فاتحہ پڑھی جائے، لہٰذا بعض الناس کا احتمال صحیح اور صریح احادیث اور محدثین کرام کے فہم کے خلاف ہونے کی وجہ سے باطل و مردود ہے۔

دلیل نمبر

عبد اللہ بن ابی بکر تابعی کہتے ہیں :
لما التقي الناس بمئو نة جلس رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر وكشف له ما بينه وبين الشام، فهو ينظر الي معر كتهم، فقال عليه السلام : أخذ الرأية زيد بن حرثة، فمضي حتي استشهد، وصلي عليه ودعا اله وقال : استخفر واله وقد دخل الجن ة، وهو يسعيٰ، ثم أخذ الرأية جعفر بن ابي طالب، فمضيٰ حتٰي استشهد، فصلي عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ودعا له وقال : استغفر واله، وقد دخل الجن ة، فهو يطير فيها بجنا حيه حيث شاء
”جب لوگوں کو کوئی مصیبت پہنچتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھتے اور آپ کے لیے شام تک کا علاقہ واضح کر دیا جاتا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( مسلمانوں) کے معرکے دیکھتے، آپ نے فرمایا، زید بن حارثہ نے پرچم اٹھایا ہے اور چلتے رہے حتی کہ شہید کر دیئے گئے، آپ نے ان پر نمازِ (جنازہ) پڑھی اور ان کے لیے دعا کی اور فرمایا، ان کے لیے دعا کرو، وہ جنت میں دوڑتے ہوئے داخل ہو گئے پھر جعفر بن ابی طالب نے پرچم پکڑا اور چلتے رہے حتی کہ وہ شہید کر دئیے گئے، ان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ (جنازہ) پڑھی اور ان کے لیے دعا کی اور فرمایا، ان کے لیے دعا کرو، وہ جنت میں داخل ہو گئے، وہ جنت میں اپنے دونوں پروں کے ساتھ جہاں چاہتے اڑتے پھر رہے تھے۔“ [كتاب المغاري لسحمد بن عمر الواقدي : 211/2، نصب الرية : 284/2]

تبصرہ :
یہ موضوع (من گھڑت) روایت ہے،
اس کا راوی محمد بن عمر الواقدی جمہور کے نزدیک ”ضعیف، متر وک اور کذاب“ ہے۔
◈ابن ملقن رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وقد ضعفه الجمهور ”اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ [البدر المنيرلا بن الملقن : 234/5]
◈حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اسے ”متروک“ کہا ہے۔ [ تقريب التهذيب : 6175]
◈ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كتب الواقدي كذب واقدی کی کتابیں جھوٹ کا پلندا ہیں۔“ [ الجرح والتعديل لا بن ابي حاتم : 21/8، وسندۂ صحيح]
◈ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لأنه عندي ممن يضع الحديث
”میرے نزدیک یہ جھوٹی احادیث گھڑنے والا ہے۔“ [ الجرح والتعديل : 21/8]
◈ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اسے ”کذاب“ قرار دیا ہے۔ [ الكامل لا بن عدي : 241/6، وسندۂ حسن]
◈ امام بخاری، امام ابوزرعہ، امام نسائی اور امام عقیلی رحمہ اللہ نے اسے ”متروک الحدیث“ کہا ہے، امام یحیٰ بن بن اور جمہور نے ”ضعیف“ کہا ہے۔
◈ امام ابنِ عدی رحمہ اللہ فرما تے ہیں :
يروي أحاديث غير محفوظة والبلاء منه، ومتون أخبار الواقدي غير محفوظة، وهو بين الضعف
”یہ غیر احادیث بیان کرتا ہے اور یہ مصیبت اسی کی طرف سے ہے، واقدی کی احادیث کے متون غیر محفوط ہیں، وہ واضح ضعیف راوی ہے۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال لابن عدي : 243/6]
➋ اس کا راوی عبدالجبار بن عمارہ القاری ”مجہول“ ہے،
اسے امام ابو حاتم الرزای [الجرح والتعديل لابن ابي هاتم : 33/6] اور حافظ ذہبی [ميزان الاعتدال : 534/2] نے ”مجہول“ قرار دیا ہے، صرف امام ابن حبان نے اسے ”اثقات“ میں ذکر کیا ہے، جو کہ ناکافی ہے۔
➌ یہ روایت مرسل تابعی ہے، لہٰذا ارسال کی وجہ سے بھی ”ضعیف“ ہے۔
اس طرح کی روایت سے سنت کا ثبوت محال ہے۔

دلیل نمبر

ابراہیم ہجری کہتے ہیں :
رأيت ابن أبى أبي أوفيٰ، وكان من أصحاب الژجرة، ماتت ابنته الي ان قال : ثم كبر عليها أربعا، ثم قام بعد ذلك قدر مابين التكبير تين يدعو وقال : رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصنع هكذا
”میں نے ابن ابی اوفیٰ کو دیکھا جو کہ بیعت رضوان والے صحابی ہیں، ان کی دختر کا انتقال ہوا۔۔۔ آپ نے ان پر چار تکبیریں کہیں، پھر اس کے بعد دو تکبیروں کے فاصلہ کے بقدر کھڑے ہو کر دعا کی اور فرما یا، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔“ [ جاء الحق : : 275، مقاس حنفيت : 526، بحواله كنز العمال : 2844]

تبصرہ :
اس روایت کی سند ”ضعیف“ ہے،
➊ اس میں ابراہیم بن مسلم ہجری راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ ہے، اس پر امام ابوحاتم ارازی، اما نسائی، امام بخاری، امام ترمذی، امام ابن عدی، امام یحییٰ بن معین، امام احمد بن حنبل، امام جوز جانی، امام ابنِ سعد اور ابنِ جنید رحمهم اللہ کی سخت جروح ہیں۔ [ ديكهيں تهذيب التهذيب لابن حجر : 144-143/1]
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف“ کہا ہے۔ [ تلخيص السندر ك للذهبي : 555/1]
➋ اس میں نماز جنازہ کے اندر چوتھی تکبیر کے بعد دعا کا ثبوت ملتا ہے، نہ کہ سلام کے بعد انفرادی یا اجتماعی دعا کا، ایک روایت میں صراحت بھی ہے کہ : وكبر على جنازة أربعا، ثم قام ساعة يد عو، ثم قال : أتر وني كنت أكبر خمسا، قالوا : لا . . . ”آپ نے ایک جنازہ پر چار تکبیر یں کہہ دیں، پھر کچھ دیر کے لیے دعا کرتے ہوئے کھڑے ہو گئے، پھر فرمایا، کیا تم نے خیال کیا تھا کہ میں پانچویں تکبیر کہوں گا، لوگوں نے کہا نہیں۔“ [السنن الكبري للبيهقي : 35/4، وسندۂ حسن ان صح سماع الحسن بن الصباح من أبى يعفور]
نیز امام بیہقی نے اس روایت پر یوں تبویب کی ہے :
باب ماروي فى الاسخفار للميت والدعاء له مابين التكبيره الرابعة والسلام
”اس روایت کا بیان جس میں چوتھی تکبیر اور سلام کے درمیان میں میت کے لیے دعا کرنے کا ذکر ہے۔“ [السنن الكبري للبيهقي : 43/4]
↰ ایک محدث اپنی روایت کو اہل بد عت سے بہتر سمجھتا ہے، لہٰذا یہ روایت ہندو ستانی بدعت کو بالکل سہارا نہیں دے سکتی۔

دلیل نمبر

ابوبکر بن مسعد الکاسانی (م 587ھ) ایک حدیث بیان کرتے ہیں :
أن النبى صلى الله عليه وسلم صلى على جنازة، فلما فرغ جاء عمر ومعه قوم، فأر ادأن يصلي ثانيا، فقال له النبى صلى الله عليه وسلم صلى : الصلاة على الجنازة لا تعاد، ولكن ادع للميت واستغفرله
”بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک میت کی نماز جنازہ پڑھی، جب پڑھ چکے تو حضرت عمر آ پہنچے اور ان کے ہمراہ ایک گروہ بھی تھا تو انہوں نے ارادہ کیا کہ دوبارہ جنازہ پڑھیں، تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ نماز جنازہ دوبارہ نہیں پڑھی جاتی، ہاں! اب میت کے لیے دعا و استغفار کر لو۔“
[ بدالئع الصنائع فى ترتيب الشرالع : 777/2، طبع حذيد مصري]

تبصرہ :
➊ یہ روایت بے سند، موضوع (من گھڑت)، باطل، جھوٹی، جعلی، خود ساختہ، بناوٹی، بے بنیاد اور بے اصل ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر افتر اور جھوٹ ہے۔
ذعُ کے الفاظ سے پتا چلتا ہے کہ آپ دعا کریں، یہ نہیں کہ ہماری دعا میں شامل ہو جائیں۔

دلیل نمبر

سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تلاوت قرآن سے محبت رکھنے والا مومن جب انتقال کرتا ہے تو
فتصلي الملائكة على روحه فى الأ رواح، ثم تستغفر له . . . .
تو فرشتے عالم ارواح میں اس کی روح کی نماز جنازہ پڑھتے ہیں، پھر اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔“ [شرح الصدور : ص، معلبوعه مصر]

تبصرہ :
یہ روایت سخت ترین ”ضعیف“ ہے، جیسا کہ حافظ سیوطی رحمہ اللہ اس کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
هذا حديث غريب فى اسناده جهالة وانقطاع
”یہ حدیث غریب ہے، اس کی سند میں مجہول راوی اور انقطاع ہے۔“ [ شرح الصدور : 53]
حافظ سیوطی کی کتاب سے یہ روایت تو نقل کی گئی، لیکن اس پر انہوں نے حکم لگایا تھا، واضح خیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے ذکر نہیں کیا گیا۔
➋ اس روایت کے بارے میں امام بزار خود فرما تے ہیں :
خالد بن معد ان لم يسمع من معاذ۔ ”خالد بن معدان نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں کیا۔“ [ كشف الاستار : 812]
حافظ منذری رحمہ اللہ اس وجہ ضعف کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
في اسناد ه من لا يعرف حاله، وفي متنه غرابة كثير ة، بل نكارة ظاهرة
”اس کی سند میں ایسا راوی بھی ہے جس کے حالات معلوم نہیں ہو سکے اور اس کے متن میں بہت غرابت ہے، بلکہ ظاہری نکارت ہے۔“
[ الترغيب والترهيب : 245/1]
➌ اس میں نمازِ جنازہ کے متصل بعد دعا کا ذکر نہیں، یہاں تو اس بات کا ذکر ہے کہ جب وہ (مؤحد) انتقال کرتا ہے تو فوراً فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں، فرشتوں کی صلاۃ سے مراد دعا ہے، مؤمنین کے حق میں فرشتوں کی دعا سے مراد ان کے لیے مغفرت مانگنا ہوتا ہے نہ کہ نمازِ جنازہ پڑھنا، جب صلاۃ سے مراد یہاں نماز ہے ہی نہیں تو دعا بعد الصلاة (نماز کے بعد کی دعا) کہاں سے آ گئی ؟
اليٰ يوم البعث کے الفاظ کو خیانت کرتے ہوئے ذکر نہیں کیا جاتا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ قیامت تک اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ ہم فرشتوں کے افعال و قوال کے مکلّف نہیں ہیں، ہمارے لیے شرعی نصوص حجت ہیں، نہ ہی فرشتے اس شریعت کے مکلّف ہیں۔

دلیل نمبر

عمیر بن سعد بیان کرتے ہیں :
صليت مع على علي يزيد بن المكفف، فكبر عليه أربعا، ثم مشيي حتي أتاه، فقال : اللهم عبدكه وابن عبدكه نزل بك اليوم، فاغفر له ذنبه ووسع عليه مد خله،، ثم مشيي حتي أتاه وقال : اللهم عبدك وابن عبد ك نزل بك اليوم، فاغفر له ذنبه ووسع عليه مد خه، فانا لا نعلم منه الا خير ا وأنت أعلم نه
”میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ یزید بن مکفف کی نمازِ جنازہ پڑ ھی، تو علی رضی اللہ عنہ نے اس پر چار تکبیریں (نمازِ جنازہ) پڑھیں، پھر چل کر قبر کے قریب ہوئے پھر یہ دعا کی کہ اے اللہ ! یہ تیرا بندہ اور تیرے بندے کا بیٹا ہے جو آج تیرے یہاں حاضر ہوا تو اس کے گناہ بخش دے اور اس کی قبر اس پر فراخ فرما دے، پھر آپ چلے اور اس کے مزید قریب ہو کر یہ دعا کرنے لگے کہ اے اللہ ! آج تیری بارگاہ میں تیرا بندہ اور تیرے بندے کا بیٹا حاضر ہوا، پس تو اس کو اس کے گناہ معاف فرما دے اور اس پر اس کی قبر فراخ کر دے، کیونکہ ہم اس کے بارے میں سوائے بھلائی کے کچھ نہیں جانتے اور تو خود اس کے متعلق بہتر جانتا ہے۔“ [ مصنف ابن ابي شية : 331/3، معبو عه بمبئي هند]

تبصرہ :
➊ اس روایت کا نمازِ جنازہ کے متصل بعد دعا سے کوئی تعلق نہیں، اس کا تعلق تو دفن کے بعد قبر پر دعا کرنے کے ساتھ ہے، جیسا کہ محدثین کی تبویب سے پتا چلتا ہے، امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے اس روایت کو في الدعاء للميت بعد ما يد فن ويسوي عليه کے تحت ذکر کیا ہے، یعنی انہوں نے اس حدیث کو میت کو دفن کرنے کے اور مٹی برابر کرنے کے بعد دعا کے بیان میں پیش کیا ہے۔
اسی طرح امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یہ تبویب کی ہے :
في الدعاء للميت حين يفرغ منه
”دفن کرنے سے فارغ ہو کر میت کے لیے دعا کرنے کا بیان۔“ [ مصنف عبد الزراق : 509/3]
دیکھیں کہ اہل سنت کے دو بڑے امام اس روایت کو دفن کے بعد دعا کرنے کے ثبوت میں پیش کر رہے ہیں محدثین کا فہم مقدم ہے، وہ اپنی روایات کو دوسروں سے بہتر جانتے تھے۔
➋ چلنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نماز جنازہ پڑھ کر قبر پر آئے اور قبر پر دفن کے بعد دعا کی، بلکہ سنن کبریٰ بیہقی [56/4] کی روایت میں صراحت موجود ہے کہ : وقد أدخل ميتا فى قبره، فقال : اللهم . . . ”آپ میت کو قبر میں داخل کر چکے تھے تو دعا کی، اے اللہ!۔۔۔۔۔“
➌ اس روایت میں اجتماعی ہیئت کا بھی ذکر نہیں ہے۔

دلیل نمبر

عن أبى هريرة رضى الله عنه اننه صلى على المنفوس، ثم قال : اللهم أعذه من عذاب القبر
”سیدنا ابوہر یرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے ایک نومولود پر نماز جنازہ پڑھی، پھر یہ دعا کی، اے اللہ ! اس کو فتنہ قبر سے اپنی پناہ میں رکھنا۔“ [السنن الكبر ي للبيقي : 9/4]

تبصرہ :
➊ اس کا ترجمہ غلط کیا گیا ہے، صحیح ترجمہ یہ ہے :
روایت ہے حضرت سید بن مسیّب سے کہ فرماتے ہیں، میں نے حضرت ابوہریرہ کی اقتداء میں اس بچے پر نماز پڑھی، جس نے کبھی کوئی خطا نہ کی تھی، لیکن میں نے آپ کو فرماتے سنا کہ الہٰی ! اس عذاب قبر سے بچا لے۔ [ مشكوة شريف ترجمه ازا حمد يار خان نعيمي بريلوي : 364/1]
➋ امام اہل سنت امام مالک رحمہ اللہ نے اس روایت کو باب مايقول المصلي على الجنازة ”جنازہ پڑھنے والا نمازِ جنازہ میں جو پڑھے گا، اس کا بیان“ کے تحت لائے ہیں [ الموطا : 228/1]
➌ مزید جوابات حدیث نمبر 1 کے تحت ملاحطہ فرمائیں۔
➍ اس میں نمازِ جنازہ کے متصل بعد فاتحہ اور چار قل کا کوئی ثبوت نہیں، نہ ہی اجتماعی ہیئت کا کوئی ذکر ہے۔

دلیل نمبر

کاسانی نقل کرتے ہیں :
ان ابن عباس وابن عمر رضي الله تعالىٰ عنهم فاتتهما سلاة على الجنازة، فلما حضرا زادا على الا ستغفار له۔ واللفط للكاساني
سیدنا ابن عباس اور ابن عمر ایک نماز جنازہ سے رہ گئے تو جب حاضر ہوئے تو اس کے لیے دعائے مغفرت کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔“
[ المبسوط : 67/2، طبع بيروت، بدائع الصنائع : 777/2]

تبصرہ :
یہ رویات بے سند، موضوع (من گھڑت)، باطل، جھوٹی، جعلی، خود ساختہ، بناوٹی، بے بنیاد اور بے اصل ہے، جھوٹی اور بے سند روایات وہی پیش کر سکتا ہے جو بدعتوں کا شیدائی اور سنتوں کا دشمن ہو مقلدین کے ”فقہاء“ کی کتابیں اس طرح کی واہی تباہی سے بھری پڑی ہیں، ان کے دین میں سند نام کی کوئی چیز نہیں، اسی لیے محدثین کرام ان کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ فافهم وتدبر !

دلیل نمبر

سیدنا ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا، کون سی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے ؟ فرمایا :
جوف الليل الآ خر ودهر الصلوات المكتوابات
”رات کے آخری نصف اور فرضی نمازوں کے بعد والی۔“ [سنن الترمذي : 3499، عمل اليوم واليلة للنسائي : 108]

تبصرہ :
اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ”ضیعف“ ہے،
عبد الرحمن بن سابہ راوی نے سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں کیا،
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن سابط نے سیدنا ابو امامہ سے سماع نہیں کیا۔“ [ تاريخ يحيي بن معين : 366]
حافظ ابن القطان الفاسی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
واعلم أن مايرويه عبد الرحمن بن سابط عن أبى أما مة ليس بمتصل، وانما هو منقطع، لم يسمع منه
”یاد رہے کہ جو روایات عبدالرحمٰن بن سابط سیدنا ابوامامہ سے بیان کرتے ہیں، وہ تمام متصل نہیں ہیں، وہ تو منقظع ہیں، کیونکہ عبدالرحمٰن بن سابط نے سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا۔“ [انصف الراية للزيلعي : 235/2، بيان الو هم والايها، : 385/2]

دلیل نمبر

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مامن عبد بسط كفيه فى دبر كل صلاة، ثم يقول : اللهم الهي واله ابراهيم واسحاق ويعقوب اله جبرئيل وميكائيل واسرافيل عليهم السلام ! أسأل أن تستجيب دعوتي، فاني مضطر، وتعصمني فى ديني، فاني مبتلي، وتنا والني برحمتك، فاني مزنب، وتفي عني الفقر فاني متمسكن، الا كان حقا على الله عز وجل ان لا ير د يه خاليتين
”جو آدمی بھی اپنی دونوں ہتھیلیاں پھیلا کر ہر نماز کے بعد کہے، اے اللہ! اے میرے الہ اور ابراہیم، اسحاق، یعقوب، جبریل، میکایئل، اسرافیل علیہ السلام کے الہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو میری دعا کو قبو ل کر لے، میں لاچار ہو، تو مجھے میرے دین میں عصمت دے دے، میں آزمائشوں میں مبتلا کیا گیا ہوں، تو مجھے اپنی رحمت دے دے، میں گناہگار ہوں اور تو مجھ سے فقر کو دور کر دے، میں تنگدست ہوں، اللہ تعالیٰ پر لازم ہے کہ اس کے دونوں ہاتھ خالی نہ لوٹائے۔“ [ عمل اليوم والليلة لابن السني : 129]

تبصرہ :
یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے، کیونکہ :
➊ اس کا راوی عبد العزیز بن عبد الرحمٰن اقرشی البالسی ”متروک“ ہے،
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اضرب على احاديثه، هي كذب، ا و قال: موضوعة
”اس کی احادیث کو پھینک دے، وہ جھوٹ ہیں۔“ [ الجرح والتعديل لابن ابي حاتم : 388/5]
امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بثقة ”یہ ثقہ نہیں۔“ [الضعفاء والمترو كون : ص211]
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وعبد العزيز هذا يروي عن خصيف احاديث بواطيل
”یہ عبدالعزیز خصیف سے جھوٹی روایات بیان کرتا ہے۔“ [ الكامل لابن عدي : 289/5]
➋ عبدالعزیز نے روایت خصیف الجزری سے ذکر کی ہے، جو کہ متکلم فیہ راوی ہے، نیز اس کا سید نا انس رضی اللہ عنہ سے سما ع بھی نہیں ہے۔
➌ اسحاق بن خالد بن یزید البالسی کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ورواياته تدل عممن روي عنه بأنه ضعيف
”اس کی روایات دلالت کرتی ہیں کہ جس سے بھی اس نے روایت لی ہے، بہرحال ضعیف ہے۔“ [الكامل لابن عدي : 344/ 1]
قارئین ! اس روایت سے نمازِ جنازہ کے متصل بعد اجتماعی ہئیت سے دعا کا اثبات کرنا انصاف وعلم کا خون کرنے کے مترادف ہے۔

دلیل نمبر

عن عبدالله بن سلام أنه فاتته الصلاة على جنازة عمر رضي الله تعالىٰ عنه، فلما حضر قال : ان سبقتموني باالصلاة عليه، فلا تسبقوني بالدعا ء اله
سیدنا عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ سے پیچھے رہ گئے تو جب پہنچے تو فرمایا کہ تم لوگوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ تو مجھ سے پہلے پڑھ لی ہے تو ان کے لیے دعا کرنے میں تو مجھ سے پہل نہ کرو۔“ [المبسوط : 67/2، طبع بيروت، بدائع العصنائع7772/2، طبع حديد مصر]

تبصرہ :
➊ یہ روایت بے سند، موضوع (من گھڑت)، باطل، جھوٹی، بے بنیاد اور بے اصل ہے، حدیث کی کسی کتاب میں اس کا وجود نہیں ملتا، سچ ہے کہ جب تک شیطان اور اس کے حواری دنیا میں موجود ہیں، جھوٹی روایات کا سلسلہ جاری رہے گا۔
➋ اس کا مطلب ہے کہ اگر تم نے مجھ ن سے پہلے نمازِ جنازہ پڑ ھ لی ہے تو دفن کے بعد دعا میں مجھے شریک کر لینا۔

دلیل نمبر

عبدالوہاب شعرانی لکھتے ہیں :
ومن ذلك قول ابي حنيفة : ان التعزية سنة قبل الدفن لابعده۔۔۔ لأن شدة الحزن انما تكون قبل الدفن، فيغري ويدعي له
”اور ان مسائل میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کا قول یہ ہے کہ تعزیت کرنا دفن سے پہلے سنت ہے نہ کہ دفن کے بعد۔۔۔۔ اس لیے کہ غم کی شدت دفن سے پہلے ہی ہوتی ہے، لہٰذا (قبل دفن ہی) تعزیت اور میت کے واسطے دعا کی جائی چاہیئے۔ [كتا ب ميزان الشريعة الكبر : 185/1، معلبوعه مصر]

تبصرہ :
عبدالوہاب شعرانی سے لے کر ابوحنیفہ تک صحیح سند ثابت کریں، ورنہ اہل بد عت مانیں کہ وہ امام ابوحنفیہ پر بھی جھوٹ باندھنے سے باز نہیں آتے۔

دلیل نمبر

مفتي ٰ به روايت صاحب كشف الغطاء مانعين کا قول نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ”دفن سے پہلے میت کے لیے فاتحہ اور دعا کرنا درست ہے۔ یہی روایت معمولہ مفتٰي به ہے، ایسا ہی خلاصتہ الفقہ میں ہے۔“ [العطابا النبوية فى الفتاوي الرضويه : 30/4، طبع لائلپور]

تبصرہ :
➊ یہ قول بے دلیل ہونے کی وجہ سے مردود و باطل ہے۔
➋ جمہور حنفی فقہاء کی تصریحات کے خلاف بھی ہے۔
➌ تقلید پرست امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں یا صاحب ”کشف الغطاء“ کے، وضاحت کریں !

دلیل نمبر

فضلی حنفی کی تصریح
عبد العلی برجندی محمد بن الفضل سے نقل کرتے ہیں :
قال محمد بن الفضل : لا بأس به أي بالدعاء بعد صلاة الجنازة
”محمد بن الفضل نے فرمایا کہ نمازِ جنازہ کے بعد دعا کرنے میں کچھ حرج نہیں۔“ [ برحندي شرح مختصر الوقاية : 180/1، طبع نولكشوري]

تبصرہ :
➊ برجندی حنفی نے محمد بن فضل کا یہ قول صاحب ”قنیہ“ زاہدی جو معتزلی ہے، سے نقل کیا ہے، امام بر یلویت احمد یار خان نعیمی گجراتی لکھتے ہیں : ”قنیہ“ غیر معتبر کتاب ہے، اس پر فتویٰ نہیں دیا جاتا، مقدمہ شامی بحث رسم المفتی میں کہ صاحب قنیہ ضعیف روایات بھی لیتا ہے، اس سے فتوی دینا جائز نہیں، اعلٰیحضرت (احمد رضا خان بریلوی) قدس سرہ نے ززل الجوائز میں فرمایا ہے کہ قنیہ والا معتزلی، بد مذہب ہے۔“ [ جاء الحق ”: 281/1]
امام بریلویت احمد رضا خان بریلوی خود لکھتے ہیں : ”اس کی نقل پر اعتماد نہیں۔“ [بذل الجوائز مندرج فتاوي رضويه : 254/9]
➋ تقلید پرست یہ بتائیں کہ وہ محمد بن فضل کے مقلد ہیں یا امام ابوحنیفہ کے، اپنے امام سے باسند صحیح جنازہ کے متصل بعد اجتماعی دعا کا جواز ثابت کریں۔
➌ محمد بن فضل کا قول جمہور حنفی فقہاء کے مقابلے میں بھی مردود ہو جائے گا۔
➍ اس کتاب میں ”قنیہ“ کے حوالے سے لکھا ہے :
عن أبى بكر بن أبى حامد أن الدعا ء بعد سلاة الجنازة مكروه ”ابو بکر بن حامد حنفی سے روایت ہے کہ نمازِ جنازہ کے بعد دعا مکروہ ہوتی ہے۔“ اس قول کی تائید فتاویٰ فیض کرکی میں موجود ہے۔

الحاصل :
نمازِ جنازہ کے متصل بعد دعا کرنے کے ثبوت میں پیش کی گئی دونوں آیات قرآنی اور تیسری، چوتھی اور پانچویں دلیل میں پیش کی گئی احادیث کا اس مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں۔
چھٹی دلیل کے تحت پیش کی گئی حدیث موضوع (من گھڑت) اور باطل و مردود ہے، ساتویں دلیل مذکور حدیث ”ضعیف“ ہونے کے ساتھ ساتھ موضوع سے خارج بھی ہے، کیونکہ اس میں چوتھی تکبیر کے بعد اور سلام سے پہلے دعا کا ذکر ہے۔
آٹھویں اور نویں دلیل کے تحت ذکر کی گئی احادیث بھی من گھڑت اور سکت ”ضعیف“ ہیں، دسویں اور گیارہویں دلیل میں پیش کردہ حدیث کا بھی جنازہ کے متصل بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا سے کوئی تعلق نہیں۔
لہٰذا اللہ کے فضل و کرم سے اس بدعت کے حق میں پیش کیے جانے والے دلائل کا جائزہ لے کر ہم نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ نمازِ جنازہ کے متصل بعد دعا کرنا بدعت
قبیحہ ہے۔

دس سوالات
اس بدعت پر زور دینے والوں سے ان دس سوالات کے جوابات مطلوب ہیں :
➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازِ جنازہ کے فوراً بعد دعا کے جواز میں نصِ صریح پیش کریں !
➋ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازِ جنازہ کے متصل بعد اجتماعی ہئیت کے ساتھ دعا کرنے کے ثبوت پر کم ازکم ایک ”ضعیف“ حدیث ہی پیش کر دیں، جس میں نماز جنازہ کے متصل بعد اجتماعی دعا کی صراحت ہو!
➌ کسی ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز جنازہ کے متصل بعد دعا کرنا باسند صحیح ثابت کریں !
➍ کسی صحابی رسول سے نماز جنازہ کے متصل بعد دعا کرنے کا ثبوت کسی ”ضعیف“ روایت سے ثابت کریں، جس میں نماز، جنازہ کے متصل بعد دعا کی صراحت موجود ہو!
➎ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی موضوع (من گھڑت) حدیث سے نماز جنازہ کے فوراً بعد دعا کا ثبوت پیش کریں !
➏ کسی صحابی سے موضوع (من گھڑت) روایت پیش کریں، جس میں اس بات کا ذکر ہو کہ انہوں نے نماز جنازہ کے فوراً بعد دعا کی تھی!
➐ امام ابوحنیفہ سے باسند صحیح نماز جنازہ کے متصل بعد دعا کا جواز ثابت کریں !
➑ فقہ حنفی کی کسی معتبر ترین کتاب سے اس کا جواز ثابت کریں !
➒ کسی ثقہ امام سے نماز جنازہ کے فوراً بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کرنا باسند صحیح ثابت کریں !
➓ کسی ثقہ امام کا نام بتائیں، جس نے ان مذکورہ دلائل سے نماز جنازہ کے فوراً بعد دعا کرنے کا جواز ثابت کیا ہو یا ایسا باب قائم کیا ہو!

 

اس تحریر کو اب تک 65 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply