زنا، شراب، چوری اور مرتد کی اسلامی سزاوں سے متعلق

مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

466- جو زانی کے ساتھ نرمی کا دعویٰ رکھتے ہوئے اس کو سنگسار کرنے میں شریک نہیں ہوتا؟
یہ کوئی ضروری نہیں کہ ہر کوئی موجود رجم کرنے میں شرکت کرے لیکن جو زانی پر شفقت یا ہمدردی کرتے ہوئے شرکت نہیں کرتا وہ گناہ گار ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ» [النور: 2]
”جو زنا کرنے والی عورت ہے اور جو زنا کرنے والا مرد ہے، سو دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور تمہیں ان کے متعلق اللہ کے دین میں کوئی نرمی نہ پکڑے، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور لازم ہے کہ ان کی سزا کے وقت مومنوں کی ایک جماعت موجود ہو۔“
467- عورتوں کے درمیان ہم جنس پرستی (Lesbianism) کا حاکم
عورتوں کے درمیان ہم جنس پرستی حرام ہے، بلکہ کبیرہ گناہ ہے، کیونکہ یہ عمل اس فرمان خداوندی کے مخالف ہے:
«وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ‎ ﴿٢٩﴾ ‏ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ‎ ﴿٣٠﴾ ‏ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ» [المعارج: 29 تا 31]
”اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ مگر اپنی بیویوں پر، یا جس کے مالک ان کے دائیں ہاتھ ہیں، تو یقیناًً وہ ملامت کیے ہوئے ہیں۔ پھر جو اس کے علاوہ کوئی راستہ ڈھونڈے تو وہی حد سے گزرنے والے ہیں۔“
[اللجنة الدائمة: 5520]
——————

468- جانور کے ساتھ بدفعلی کرنا اور اس کے نتائج
انسان کا کسی جانور کے ساتھ بدفعلی کرنا انتہائی قبیح عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کی حدود میں دراندازی اور فطرت سلیمہ سے خروج ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خواہش پوری کرنا اور لذت اٹھانا صرف بیوی اور لونڈی کے ساتھ حلال رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ‎ ﴿٥﴾ ‏ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ‎ ﴿٦﴾ ‏ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ»
[المومنون: 5 تا 7]
”اور وہی جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ مگر اپنی بیویوں، یا ان (عورتوں) پر جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ بنے ہیں تو بلاشبہ وہ ملامت کیے ہوئے نہیں ہیں۔ پھر جو اس کے سوا تلاش کرے تو وہی لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں۔“
جس نے یہ فعل کیا اس کے لیے اس سے توبہ و استغفار کرنا اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کرنا واجب ہے۔
اگر قاضی کے پاس کسی انسان کا اس فعل بد میں شریک ہونا ثابت ہو جائے تو وہ اس کو ایسی تعزیری سزا دے سکتا ہے جو اس کو اس فعل بد سے روک سکے۔
لیکن جس جانور کے ساتھ یہ فعل ہوا ہے، اسے ہر حالت میں قتل کر دینا چاہیے اور اس کا گو شت کھانا جائز نہیں۔ اگر وہ اس کی اپنی ملکیت میں تھا تو اس کا خون معاف ہوگا اور اگر کسی دوسرے کا تھا تو بد فعلی کرنے والا اس کا تاوان بھرے گا۔ جانور کے ساتھ ایسا اس لیے کیا جائے گا تاکہ یہ جرم بھلا دیا جائے، اس کے ساتھ کسی شخص کو عار نہ دلائی جائے اور اس کا دیکھنا اس واقعے کو یاد کرنے کا سبب نہ بنے، جس طرح اہل علم کی ایک جماعت کا یہ موقف ہے۔
[اللجنة الدائمة: 21279]
——————

469- قذف (تہمت لگانے) کا حکم
مسلمان کا اپنے بھائی پر تہمت لگانا ناجائز اور کبیرہ گناہ ہے، جس سے توبہ کرنا واجب ہے، اور جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی مانگنا بھی ضروری ہے اور اگر وہ معاف نہیں کرتا تو شرعاً اپنے حق کا مطالبہ کر نے کا حق رکھتا ہے۔
[اللجنة الدائمة: 13871]
——————

470- بیوی کا خاوند پر تہمت لگانا
قذف کی حد کا وجوب مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے عام ہے کیونکہ آیت کا عمومی حکم یہی ہے، جو بیوی سے اس وقت تک ساقط نہیں ہو سکتا جب تک وہ اس سے معافی نہ مانگ لے اور نہ خاوند ہی سے ساقط ہوتا ہے (اگر وہ الزام لگا تا ہے تو) جب تک معافی نہ مانگ لے یا پھر لعان ہو جائے۔
[اللجنة الدائمة: 18911]
——————

471- شراب پینے پر مجبور کا حکم
شراب پینے پر مجبور شخص پر کوئی گناہ نہیں۔ اگر وہ اس بات میں سچا ہو کہ اس کو بادہ نوشی پر مجبور کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ» [النحل: 106]
”جو شخص اللہ کے ساتھ کفر کرے اپنے ایمان کے بعد، سوائے اس کے جسے مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔“
اگر ایک مسلمان مجبور کیے جانے پر کلمہ کفر بول دینے کی وجہ سے معذور سمجھا جاتا ہے تو شراب نوش تو بالاولٰی معذور ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اللہ تعالیٰ نے میری امت سے خطا بھول اور جس پر انہیں مجبور کیا جائے، اس سے معاف کر دیا ہے۔“ [سنن ابن ماجه، رقم الحديث 2043]
[اللجنة الدائمة: 17627]
——————

472- نشہ آور اشیا کی حر مت کے دلائل
منشیات خبیث اور نا پاک چیزیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمام بندوں پر نا پاک چیزیں حرام کی ہیں اور پاک چیزوں کے سوا کچھ حلال نہیں کیا، جس طرح سورۃ مائدہ میں ہے:
«يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ» [المائدة: 4]
”تجھ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے؟ کہہ دے تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں۔“
اور سورۃ اعراف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
«وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ» [الأعراف: 157]
اور ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کرنا اور ان پر ناپاک چیزیں حرام کرنا ہے۔
نیز امام ابو داود نے حضرت ام سلمہ سے روایت کی ہے:
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نشہ آور اور مضمحل کر دینے والی چیز سے منع کیا ہے۔“ [ضعيف۔ سنن أبى داود، رقم الحديث 3686]
اور یہ ایک عام بات ہے کہ نشہ آور اشیا مضمحل کر دینے والی ہیں، نیز منشیات کے بہت زیادہ نقصانات اور اضرار ہیں۔
[اللجنة الدائمة: 500]
——————

473- غیر عورت کے ساتھ کپڑوں کے اوپر دخول کیے بغیر مباشرت کرنا
جس نے یہ کام کیا وہ گناہگار ہے اور اس کو توبہ و استغفار کرنا چاہیے، اگر یہ بات حاکم کے سامنے ثابت ہو جائے کہ اس نے اس کے ساتھ جماع نہیں کیا تو وہ اس کو روکنے کے لیے کوئی مناسب تعزیری سزا دے سکتا ہے۔
[اللجنة الدائمة: 6687]
——————

474- ایسی حکومت کی چوری کا حکم جو شریعت نافذ نہیں کرتی
چوری مطلقاً حرام ہے، وہ افراد کی ہو یا حکومتوں کی، چاہے وہ شریعت کے مطابق نہ بھی حکومت کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا [المائدة: 38]
”اور جو چوری کرنے والا اور جو چوری کرنے والی ہے سو دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔“
نیز فرمایا:
«وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ» [البقرة: 188]
”اور اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ۔“
[اللجنة الدائمة: 6800]
——————

475- چور کا ہاتھ کاٹنے کی شرائط
چور کا ہاتھ کاٹنے کے لیے نو شرطیں لگائی جاتی ہیں:
(1)چوری: ایسا مال چورانا جو چھپا کر رکھا گیا تھا۔ اگر وہ اسے اچکتا ہے یا چھینتا ہے تو اس میں ہاتھ کا ٹنا نہیں۔
(2) چور مکلف ہو، بچے یا پاگل پر حد لگانا واجب نہیں ہوتا۔
(3) چوری شدہ مال ہاتھ کاٹنے کے نصاب اور مقررہ حد کو پہنچے۔ نصاب سے کم میں ہاتھ کاٹنا نہیں۔ چوری کا نصاب سونے کے دینار کا چوتھائی حصہ ہے یا کوئی دوسری چیز جس کی قیمت اس کے برابر ہو۔
(4) چوری شدہ ایسی چیز ہو جسے عموماًً مال بنایا جا تا ہے (اور اس سے دولت میں اضافہ ہوتا ہے)۔
(5) چوری شدہ ایسی چیز ہو جس میں کوئی شبہہ نہ ہو۔
(6) محفوظ جگہ سے اسے چراے۔
(7) محفوظ جگہ سے اسے نکالے۔
(8) قاضی کے پاس چوری یا تو دو عادل گواہوں کی گواہی سے ثابت ہو یا چور کے اعتراف سے۔
(9) چوری شدہ مال کا مالک آئے اور دعوی کرے۔
ان شرطوں کو دیکھنا اور چوری پر انہیں منطبق کرنا شرعی عدالت کا کام ہے۔
[اللجنة الدائمة: 17627]
——————

476- ارتداد کا مفہوم
ارتداد کا معنی ہے: دین اسلام سے کفر کی طرف لوٹنا۔ یہ کام قول فعل، شک یا ترک کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔
قول کے ساتھ مرتد ہونے کی مثال اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول کو گالی دینا ہے۔ فعل کے ساتھ مرتد ہونے کی صورت صلیب یا صنم کو سجدہ کرنا، قبور کے لیے ذبح کرنا یا قرآن کریم کی بے حرمتی کرنا۔
شک کے ساتھ مرتد ہونے کی شکل اسلام کے صحیح ہونے میں یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت میں شک کرنا۔ اور ترک کر دینے کے ساتھ مرتد ہونے کی حالت دین اسلام سے اعراض کرنا، نہ اسے سیکھنا، نہ اس پر عمل کرنا اور اس جیسے دیگر معاملات ہیں۔
[اللجنة الدائمة: 21166]
——————

477- مرتد کی سزا
دین اسلام سے پھرنے والے کی سزا قتل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ» [البقرة: 217]
”اور تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے، پھر اس حال میں مرے کہ وہ کافر ہو تو یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہو گئے اور یہی لوگ آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔“
نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس نے اپنا دین بدل دیا اس کو قتل کر دو۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 6524]
اس حدیث کا معنی ہے کہ جو دین اسلام چھوڑ کر کسی دوسرے دین میں منتقل ہو جائے اور اس پر ثابت قدم رہے اور توبہ نہ کرے تو اس کو قتل کر دیا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کسی مسلمان کا خون حلال نہیں جو کلمہ پڑھتا ہے، سوائے ان تین حالتوں میں سے ایک کے قتل کے بدلے قتل، شا دی شدہ زانی اور دین سے نکلنے والا جماعت ترک کر دینے والا۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 6484 صحيح مسلم، برقم 1676]
[اللجنة الدائمة: 21166]
——————

478- مرتد کی شدید سزا کی حکمت
مرتد کی سزا میں میں شدت کئی ایک امور کی بنا پر ہے:
یہ سزا اس شخص کے لیے ایک طرح کی دھمکی اور تحذیر ہے جو اسلام میں نفاق یا کسی غرض کی خاطر داخل ہوتا ہے۔ اس کے لیے اس معاملے میں تحقیق اور سوچ بچار کا باعث بھی ہے، لہٰذا جب وہ اسلام کی طرف منہ کرے تو بصیرت کے ساتھ اور دنیا و آخرت میں اس کے انجام سے باخبر ہو کر آئے، کیونکہ جو اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتا ہے تو وہ اسلام کے تمام احکام کی برضا و رغبت پابندی کرنے پر موافقت کرتا ہے اور یہ کہ اگر وہ مرتد ہوا تو اس کو قتل کی سزا دی جائے گی۔
(2) جو اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتا ہے تو وہ مسلمانوں کی جماعت میں داخل ہو جاتا ہے اور جو مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہو جاتا ہے تو وہ اس کے لیے مکمل ولاء، محبت، مدد اور اس میں فتنے پیدا کرنے والے یا اسے توڑنے والے یا اس کی وحدت پارہ پارہ کرنے والے ہر سبب کو روکنے کا پابند ہو جاتا ہے۔ مرتد ہونا جماعت مسلمین اور اس کے الٰہی نظام کے خلاف خروج اور بغاوت ہے اور اس کے لیے نقصان دہ اثرات پیدا کرنا، لہٰذا قتل لوگوں کو اس جرم سے روکنے کے لیے سب سے بڑی ممانعت اور دھمکی ہے۔
(3) مرتد کے متعلق کمزور ایمان والے مسلمان اور مخالفین اسلام یہ سوچ سکتے ہیں کہ اس نے اسلام کی حقیقت اور تفاصیل سے اچھی طرح واقفیت حاصل کرنے کے بعد اسے ترک کر دیا ہے۔ اگر یہ سچا دین ہوتا تو یہ اس سے نہ پھرتا۔ ایسے لوگ نور اسلام بجھانے اور دلوں میں اس کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے اس کی اسلام کی طرف منسو ب کردہ ہر بات، جھوٹ، شکوک و شبہات اور خرافات قبول کر لیں گے۔ اس طرح دین حق کی، جھوٹے لوگوں کی طرف سے اس کی شہرت خراب کرنے کی کوششوں سے حفاظت، مسلمانوں کے ایمان کو بچانے اور اس میں داخل ہونے والوں کی راہ میں پڑی گندگی کو دور کرنے کی خاطر اس مرتد کو قتل کر دینا واجب ہے۔
(4) ہم مزید کہتے ہیں کہ آج معاصر بشری قوانین میں نظام کو بعض حالات میں اختلال سے بچانے اور معاشرے کو منشیات وغیرہ جیسے بعض مہلک جرائم سے محفوظ رکھنے کے لیے قتل کی سزا موجود ہے۔ جب بشری قوانین کی حفاظت کے لیے یہ موجود ہے تو اللہ کا سچا دین، جو ہر جانب سے باطل سے محفوظ ہے، دنیا و آخرت میں بھلائی، سعادت اور فراخی کا سراپا ہے، زیادہ حق رکھتا ہے کہ جو اس میں دراندازی کرتا ہے، اس کا نور بجھاتا ہے، اس کی تروتازگی مسخ کرتا ہے اور اپنے ارتداد اور گمراہی میں اوندھے منہ گرنے کی توجیہات پیش کرنے کے لیے جھوٹ گھڑتا ہے، اس کو سزا دی
جائے۔
[اللجنة الدائمة: 21166]
——————

479- دین بدلنے کی سزا
سوال: اگر کوئی اسلام سے پھرتا ہے تو اس کی سزا تو قتل ہے لیکن جو اسلام قبول کرتا ہے، اس کی یہ سزا کیوں نہیں؟
جواب: جو دین اسلام قبول کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے لیے اس کی بندگی کو عملی طور پر اپنا کر اور اس کے اس دین کو خلوص کے ساتھ قبول کر کے اس کی اطاعت کا ثبوت دیتا ہے کہ جسے قبول کرنا اور اس پر ایمان لانا جنوں اور انسانوں میں سے ہر مکلف پر واجب ہے، اور یہ خالق کا اپنی مخلوق پر حق ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ» [الذاريات: 56]
”اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔“
نیز فرمایا:
«إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ» [آل عمران: 19]
”بے شک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔“
«وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ» [آل عمران: 85]
”اور جو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں سے ہوگا۔“
اس کا ثواب بیان کرتے ہوئے جو اسلام میں داخل ہوتا ہے، ایمان اس کے دل میں جاگزیں ہو جاتا ہے اور نیک اعمال کی صورت میں اس کا اثر اس کے اعضا پر ظاہر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا ‎ ﴿١٠٧﴾ ‏ خَالِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا» [الكهف: 108,107]
”بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے ان کے لیے فردوس کے باغ مہمانی ہوں گے۔“
نیز فرمایا:
«يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي ۙ فَمَنِ اتَّقَىٰ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ» [الأعراف: 35]
”اے آدم کی اولاد ! اگر کبھی تمہارے پاس واقعی تم میں سے کچھ رسول آئیں، جو تمہارے سامنے میری آیات بیان کریں تو جو شخص ڈر گیا اور اس نے اصلاح کر لی تو ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غم کھائیں گے۔“
پھر فرمایا:
«فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ» [طه: 123]
”پھر اگر کبھی واقعی تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کے پیچھے چلا تو نہ وہ گمراہ ہوگا اور نہ مصیبت میں پڑے گا۔“
نیز فرمایا:
«مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ» [النحل: 97]
”جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقیناًً ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے پاکیزہ زندگی، اور یقیناً ہم انہیں ان کا اجر ضرور بدلے میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کیا کرتے تھے۔“
اس مفہوم کی آیات بہت زیادہ ہیں۔ یہ اس شخص کی جزا ہے جو اسلام قبول کرتا ہے۔ اللہ کے رب ہونے، محمد صلى اللہ علیہ وسلم کے نبی اور رسول ہونے، اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوتا، اس کی جزا: ہدایت، نور، دنیا و آخرت میں پاکیزہ زندگی اور جنت کی نعمتوں کا ملنا، اللہ کی رضا کا حصول اور جہنم سے نجات ہے۔
لیکن جو معاملہ الٹ کر دیتا اور آسمان سے نازل ہونے والے حق سے پھر جاتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کے حکم کی مخالفت کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ دنیا میں قتل کی سزا کا مستحق ہو جاتا ہے اور آخرت میں جہنم کے ہمیشہ کے عذاب کا سزا وار۔ جس طرح اس بات کا فیصلہ خود اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے:
«وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ» [البقرة: 217]
”اور تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے، پھر اس حال میں مرے کہ وہ کافر ہو تو وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہو گئے اور یہی لوگ آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔“
[اللجنة الدائمة: 21166]
——————

480- خودکشی کرنے والے کا حکم
جو مسلمان اپنے آپ کو غلطی کے ساتھ قتل کر لیتا ہے تو وہ معذور ہے اور اس کام کی وجہ سے گناہ گار نہیں لیکن جو مسلمان حالات سے تنگ آکر جان بوجھ کر خودکشی کر لیتا ہے اللہ تعالیٰ کی قضا اور تقدیر پر ناراض نہیں تو یہ کافر نہیں، لیکن کبیرہ گناہ کا ارتکا ب کرنے والا اور اس کو آگ کی دھمکی اور ڈراوا ہے۔ اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، چاہے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کو معاف کر دے یا چاہے تو اس کو عذاب دے دے۔
[اللجنة الدائمة: 5958]
——————

481- بھوک ہڑتال کی وجہ سے مرنے والے کا حکم
”جو بھوک ہڑتال کی وجہ سے مر جائے اس کا یہ حکم ہے کہ وہ خودکشی اور منع کردہ کام کا ارتکاب کرنے والا ہے۔“ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«لَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمً» [النساء: 29]
”اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تم پر ہمیشہ سے بے حد مہربان ہے۔“
اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ جو کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے وہ لازما مر جاتا ہے۔ اس بنیاد پر یہ اپنی جان کا قاتل ہے، لہٰذا کسی انسان کے لیے اتنی مدت تک بھوک ہڑتال کرنا جائز نہیں کہ جس میں وہ مر ہی جائے، لیکن وہ اتنی مدت کے لیے بھول ہڑتال کرتا ہے جس میں مرتا نہیں اور اپنے آپ کو ظلم سے بچانے اور اپنا حق حاصل کرنے کے لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں اور وہ ایسے ملک یا علاقے میں رہتا ہے جس میں اپنا حق لینے کے لیے یا ظلم سے نجات پانے کے لیے یہ طریقہ اپنایا جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن اگر موت کی حد تک پہنچ جائے تو پھر یہ کسی صورت میں بھی جائز نہیں۔
[ابن عثيمين: نورعلي الدرب: 8]
——————

482- جان بوجھ کر کسی بے گناہ آدمی کو قتل کرنا
قتل عمد میں کفارہ نہیں کیونکہ یہ کفارہ ادا کر کے بری ہو جانے سے بہت بڑا معاملہ ہے۔ یہ اس سے بہت بڑھ کر ہے کہ انسان کفارہ دے کر اس سے بُری ہو جائے۔ اس کے متعلق تو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
«وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا» [النساء: 193]
”اور جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے، اس میں ہمیشہ رہنے والا ہے اور اللہ اس پر غصے ہو گیا اور اس نے اس پر لعنت کی اور اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کیا ہے۔“
[ابن عثيمين: نورعلي الدرب: 24]
——————

483- غلطی سے کسی کو قتل کر دینا
قتل خطا کا کفارہ یہ ہے کہ قاتل دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے اور کسی شرعی عذر کے بغیر ان دو ماہ میں افطار نہ کرے (ان میں تعطل نہ آئے)۔ اگر کسی شرعی عذر کے بغیر خواہ ایک دن بھی روزہ چھوڑ دے تو اس پر دو ماہ کا اعادہ کرنا واجب ہوگا۔ کیونکہ ان میں اللہ تعالیٰ نے تسلسل کی شرط لگائی ہے۔ اگر وہ روزے کی طاقت نہیں رکھتا تو اس پر کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ فرمان الہی ہے:
«فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ» [التغابن: 16]
”سو اللہ سے ڈرو جتنی تم طاقت رکھو۔“
«لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا» [البقرة: 286]
”اللہ کسی جان کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی گنجائش کے مطابق۔“
اہل علم کے ہاں یہ ایک طے شدہ قاعدہ ہے کہ ”لا واجب مع العجز“ معذوری یا کسی کام کے کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کی حالت میں کوئی واجب نہیں۔ ہم نے یہ کہا ہے کہ اگر وہ روزہ رکھنے سے عاجز ہو تو پھر اس کے ذمے کچھ بھی نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قتل کے کفارے میں یہ مرتبہ ذکر نہیں کیا بلکہ صرف دو مرتبے ذکر کیے ہیں: ایک غلام آزاد کرنا اور دوسرے دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا، ظہار کے عکس جس میں اللہ تعالیٰ نے تین مرتبے ذکر کیے ہیں: غلام آزاد کرنا، اگر نہ ملے تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا، اگر ان کی استطاعت نہ ہو تو پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 27]
——————

484- دیت ادا کرنے کی کیفیت
علما کہتے ہیں: انسان جب کسی کے خلاف جرم کرتا ہے اور سماعت و بصارت جیسی کوئی منفعت تباہ کر دیتا ہے یا اس جیسی کوئی بھی منفعت تلف کر دیتا ہے تو اس پر اس منفعت کی دیت ادا کرنا واجب ہوتی ہے، مثلاًً اگر اس پر اتنا ظلم کرتا ہے کہ وہ اندھا ہو جاتا ہے تو اس پر بصارت کی مکمل دیت ہے۔ اگر کسی کو اتنا نقصان پہنچا دیتا ہے کہ وہ بہرہ ہو جاتا ہے تو اس پر سماعت کی کامل دیت ہے۔ اگر کسی کو اتنا نقصان پہنچاتا ہے کہ اس جسم شل اور مفلوج ہو جاتا ہے اور وہ حرکت کے قابل نہیں رہتا تو اس پر حرکت کی مکمل دیت ہے، اسی طرح دیگر نقصانات ہیں۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 27]
——————

اس تحریر کو اب تک 21 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply