برصغیر میں رائج چند بڑی بدعات پر ایک نظر

تحریر: محمد منیر قمر حفظ اللہ

محمدﷺ رسول الله کا مطلب

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ :
”حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔“
گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے اقرار اور شہادت نے مسلمانوں پر واجب کر دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی اطاعت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کردہ امور سے مکمل اجتناب و احتراز کیا جائے ۔ چنانچہ اسی سلسلہ میں ہی ارشاد الہی ہے:
﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ﴾ [سورة الحشر: 7 ]
”تمہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو حکم دیں اسے اپنا لو اور جس کام سے روکیں اس سے باز آجاؤ ۔“
امور دینیہ میں اپنی مرضی اور من مانی کی بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق عمل کیا جائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابناک اسوہ حسنہ کی روشنی میں اپنی زندگی گزاری جائے اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے احکام و اوامر کی مخالفت کر کے عذاب الہی کو آواز نہ دی جائے ۔ جیسا کہ فرمان الہی ہے :
فلْیَحْذَرِ الَّذِینَ یُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِہِ أَنْ تُصِیبَہُمْ فِتنۃ أو یُصِیبَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ﴾ [سورة النور : 63 ]
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہئے کہ کسی فتنے کا شکار نہ ہو جائیں یا دردناک عذاب میں مبتلا نہ ہو جائیں ۔“
زندگی بھر پیش آنے والے ہر معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے فرمان کو حکم اور منصف تسلیم کیا جائے ۔ جیسا کہ حکم ربانی ہے:
﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ﴾ [سورة النساء : 65 ]
”تیرے رب کی قسم ہے کہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اختلافات میں آپ کو منصف نہ مان لیں ۔“
اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے بعد اگر کسی کی علی الاطلاق اطاعت فرض ہے تو وہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے ۔ کیونکہ حکم الہی ہے:
اطيعوا الله وأطيعوا الرسول [النساء : 59 – المائدة : 92 – النور : 54 – محمد : 33 – التغابن : 12 سورة آل عمران : 132 ، 32 – الانفال : 1 ، 20 ، 46 – المجادلة : 13 ]
”اللہ کی اطاعت کرو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو ۔“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی ہر حالت میں خوشی ہو کہ غم ، خوشحالی ہو کہ تنگ دستی ، راضی ہوں کہ غصہ میں ، معاملہ نجی و ذاتی ہو یا عوامی ، ہر حالت میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتار و کردار عین اطاعت الہی کا نمونہ ہیں ۔ اور اس پر قرآن شاہد ہے :
﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ‎3‏ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ﴾ [ سورة النجم : 3 ، 4 ]
”اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش سے نہیں بولتے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام وحی الہی ہوتا ہے ۔“
زندگی کے ہر لمحہ و ہر موڑ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہمارے لئے مشعل راہ اور بہترین نمونہ ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید گواہ ہے:
﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ [سورة الاحزاب : 21 ]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات آپ کے لئے بہترین نمونہ ہے ۔“
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل کا نام ہی ”سنت“ ہے اور جو مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق زندگی گزار رہا ہو وہی اصلی ”اہل سنت“ ہے اور وہی اللہ کا مطیع و فرمان بردار ، کیونکہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
من أطاعني فقد أطاع الله [ صحيح بخاري ، كتاب الاعتصام : 20 و مختصر صحيح مسلم : 1223 ]
”جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔“
جو مسلمان اپنی من مانی کرے ، عبادات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو مد نظر نہ رکھے اور بعض ایسے کاموں کو دین اور ثواب سمجھ کر بجا لائے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کئے ہوں ، نہ کرنے کا حکم دیا ہو وہ کام ”بدعت“ باعث عتاب اور موجب عقاب و عذاب ہیں ۔

بدعت کا لغوی معنی:

نئی چیز یا نیا کام جو پہلے پہل ہو ، اس سے قبل اس کا وجود نہ ہو ، لغت میں اسے ”بدعت“ کا نام دیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ارشاد الہی ہے:
﴿بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ [سورة البقرة : 117 ، الانعام : 101 ]
”اللہ آسمانوں اور زمیں کو پہلے پہل پیدا کرنے والا ہے ۔“
اللہ کی صفت ”بدیع “اسی لئے ہے کہ ان ارض و سماء سے پہلے کوئی ایسی چیز موجود نہ تھی جس کو دیکھ کر ان کا نمونہ اتارا گیا ہو ۔ ایسے ہی اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر فرمایا:
﴿قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ﴾ [سورة الاحقاف : 9 ]
”کہہ دیجئے کہ میں کوئی نیا اور پہلا رسول نہیں ہوں ۔“
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی ایک متکلم فیہ روایت کے مطابق کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء ورسل گزرے ہیں ۔ اس سلسلہ انبیاء ورسل کی آخری منزل و چوٹی ختم الرسل و خاتم النبیین آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ (اور یہی ایک نئی چیز تھی ، اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ”بدع“ ہونے کی نفی فرمائی ہے ۔

اصطلاحی و شرعی معنی :

ہر وہ کام جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مسعود کے بعد دین میں داخل کیا گیا ہومگر حقیقتاً اس کا دین سے کوئی تعلق نہ ہو ، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو ، نہ ہی اس کے کرنے کا حکم دیا ہو ، اس ”خانہ ساز شریعت“ کو بدعت کہا جاتا ہے ۔
یہاں یہ چیز اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ شرعاً بدعت وہ کام ہے جو:
(1) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نیا ایجاد کیا گیا ہو ۔
(2) اور وہ کام دین میں داخل سمجھا جاتا ہو ۔
اور وہ کام جو نیا ضرور ہے مگر دین کا جزء شمار نہیں کیا جاتا ، اسے بدعت نہیں کہیں گے ۔ اس کے جزو دین نہ ہونے کی وجہ سے مختلف قسم کی تمام ایجادات بدعت سے خارج ہو گئیں جو اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ تھیں ۔ بلکہ بعد میں دریافت و ایجاد ہوئیں مگر انہیں کار ثواب ، باعث تقرب الی اللہ اور دین تو قرار نہیں دیا جاتا ۔

دربار رسالت مآب صلى اللہ علیہ وسلم سے تنبیہ:
پیغمبر اسلام علام فرما گئے ہیں:
من يعش منكم بعدى فسيرى اختلافا كثيرا فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين تمسكوا بها . وعضوا عليها بالنواجذ وإياكم و محدثات الأمور فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة [ ابوداؤد ، كتاب السنة : 5 ترمذي ، كتاب العلم : 16 ۔ مسند احمد 127 – 126 /4،345/2 ]
”میرے بعد جو زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا ۔ تب آپ پر میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کا طریقہ لازم ہے ۔ انہیں مضبوطی سے پکڑے رکھو اور نئے نئے امور سے بچو ، بے شک ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔“
اسی موضوع کی معمولی فرق والی احادیث ہیں ۔ ایک دوسری حدیث میں شارع علیہ السلام نے ان ”شریعت سازوں“ کی چیرہ دستیوں اور کارستانیوں کے نتیجے میں رواج پذیر ہونے والی بدعات و خرافات کے متعلق جس قدر تکرار سے متنبہ کیا ، اور بدعت کی جس شدومد سے برائی بیان کی ہے ، شاید دوسری کسی برائی کا اتنا ذکر نہ کیا ہوگا ۔ کیونکہ خطبہ مسنونہ میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
كل بدعة ضلالة وكل ضلالة فى النار [ مسلم ، كتاب الجمعة : 43 ، ابو داؤد ، كتاب السنة : 5 ۔ مسند احمد 127 – 126 /4،31/3 وغيره ]
”ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا انجام نار جہنم ہے ۔“
آج بھی علماء کرام وعظ و ارشاد کا آغاز عموماًً اسی خطبہ مسنونہ سے ہی کرتے ہیں ۔ اور اس بیماری بدعت کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں ۔ مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ابلیس لعین نے ثواب دارین کا چکمہ دے کر کچھ لوگوں کو بدعات کی ترویج و اشاعت پر لگا رکھا ہے ۔ اور حالات ہمارے سامنے ہیں کہ ان خرافات کا جال امبر بیل کے تاروں کی طرح پھیلتا ہی جا رہا ہے ۔ ہر وہ کام جس کی زمانہ رسالت میں بھی ضرورت پیش آئی ، جس کے کرنے سے کوئی امر مانع بھی نہ تھا ۔ اس کے باوجود اس زمانہ مسعود میں نہیں کیا گیا اسے آج کیا جا رہا ہے ۔ اور کرنے والوں کو اس پر فخر بھی ہے ۔ حالانکہ ان امور کا دین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ۔ اگر یہ کام واقعی ثواب دارین کا ذریعہ ہوتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اپنی امت کو مطلع کر جاتے ۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تو شان ہی قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے:
﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ﴾ [ سورة التو بة : 128 ]
”تمہارے پاس ایک پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں جن کو تمہاری مضرت کی بات نہایت گراں گزرتی ہے ۔ جو تمہاری منفعت کے بڑے خواہشمند رہتے ہیں ۔ ایمانداروں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں ۔“

ذکر کچھ بدعات کا :

اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں تو غیر اسلامی رسوم و بدعات اور ضعیف الاعتقادی کے مظاہر کا ایک طوفان بپا ملے گا ۔ ان سب کا حصر واحاطہ کرنا تو اس مختصر رسالہ میں ممکن نہیں کیونکہ یہ مسلمان کی زندگی میں اس طرح رچ بس گئی ہیں کہ تاحین حیات ہی نہیں بلکہ مرنے کے بعد بھی ان کا رشتہ برقرار رہتا ہے ۔ لہٰذا برسبیل مثال اختصار کے ساتھ کچھ بدعات ، ان کی شرعی حیثیت اور ان کے بارے میں تمام مکاتب فکر خصوصاًً ”اہل سنت والجماعت“ کے غیر متعصب ، معتدل ، منصف مزاج اور حقیقت پسند اکابر علماء کی آراء پیش خدمت ہیں ۔

مخصوص انداز ذکر :

آج کل بعض جاہل صوفیاء نے ذکر الہی کا ایک نرالا انداز اختیار کر رکھا ہے ۔ اپنے ہمنواؤں کو ساتھ لے کر دائرہ کی شکل میں بیٹھ جاتے ہیں ۔ بعض تو اوپر کپڑا اوڑھ لیتے ہیں ۔ اور کنکریوں یا کھجور کی گٹھلیوں کی تعداد کے اندازے سے اپنے قائد کے کہنے پر ذکر کرتے ہیں ۔ وہ کہے تکبیر تو اللہ اکبر اللہ اکبر کہتے ہوئے گٹھلی پہ گٹھلی پھینکتے چلے جاتے ہیں ۔ جب وہ کہے تہلیل تو ”لا الہ الا اللہ“ کا ذکر شروع کر دیتے ہیں ۔ اس کے تسبیح کہنے پر سبحان اللہ اور تحمید کہنے پر الحمد للہ کہنا شروع کر دیتے ہیں ۔
اس تسبیح ، تحمید یا تہلیل میں سے فی نفسہ کوئی چیز بھی غلط نہیں مگر ان کے لئے جو مخصوص انداز اختیار کیا جاتا ہے ، وہ شریعت مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔ شریعت مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف اپنے ایجاد کردہ طریقے سے کرنے سے یہ ذکر و عبادت بھی بدعات میں شامل ہو گیا اور بجائے ثواب کے عابد کے لئے موجب عقاب بن گیا ۔
کیونکہ اسی سے ملتا جلتا ایک واقعہ عہد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی پیش آیا تھا ۔ جو حدیث کی کتاب ”سنن دارمی“ میں بڑی تفصیل سے مذکور ہے ۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کے ذکر کا جو اند از نقل فرمایا ہے ۔ وہ بالکل اسی طرح ہے جس کا ذکر گزشتہ سطور میں گزرا ہے ۔
جب حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو اس انداز کی خبر ہوئی تو بڑے غصے میں آکر ان لوگوں کو ڈانٹا اور فرمایا:
ويحكم يا أمة : ما أسرع هلكتم هؤلاء صحابة نبيكم متوافرون وهذه ثيابه لم تبل وانيته لم تكسر [دارمي ، ص 13 ]
”اے امت ! تم پر انتہائی افسوس ہے تم اتنی جلدی ہلاکت میں پڑ گئے ، ابھی تو آپ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم وافر تعداد میں زندہ موجود ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے بوسیدہ نہیں ہوئے اور ابھی تک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برتن نہیں ٹوٹے ۔“
انہوں نے کہا :
والله يا ابا عبدا لرحمن ! ما أردنا إلا الخير [حديث مذكوره ]
”اے ابو عبد الرحمن ! اللہ کی قسم ہمارے پیش نظر بھلائی کے سوا کچھ نہیں ۔“
تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
كم من مريد الخير لن تصيبه ، إن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم حدثنا أن قوما يقرءون القرآن لا يجاوز عن تراقيهم وايم الله ما أدرى لعل اكثرهم منكم [سابقه حواله دارمي ]
”کتنے لوگ ہیں جو بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں مگر وہ اسے نہیں پاسکیں گے ۔ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک قوم قرآن پڑھے گی ۔ مگر ان کی قرآت و تلاوت ان کے کانوں کی لوؤں سے اوپر نہیں جائے گی ۔ (قبول نہیں ہوگی) اور اللہ کی قسم ! میں نہیں جانتا مگر لگتا ہے کہ وہ لوگ اکثر تم میں سے ہوں گے ۔“
یہ کہہ کر لوٹ گئے ۔ ایک صحابی حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
رأينا عامة أولئك الخلق يطاعنون يوم النهروان مع الخوارج
”ہم نے ان میں سے اکثر لوگوں کو دیکھا کہ جنگ نہروان میں وہ ہمارے خلاف خارجیوں کی طرف سے لڑے تھے ۔“
بظاہر وہ نیک کام تھا ، ذکر الہی تھا مگر اپنی من مانی اور اپنی رائے سے طریقہ ذکر اختیار کیا تو انجام کار خوارج میں سے ہو گئے ۔
گویا ذکر اذکار کی ہر محفل جو غیر شرعی انداز سے منعقد ہو ، وہ باعث ثواب نہیں بلکہ و بال جان ہے ۔ ذرا آپ موجودہ دور کی محافل ذکر عبادت پر نظر ڈالیں اور ان کے کار ثواب یا باعث عذاب ہونے کا فیصلہ بھی خود ہی فرمالیں ۔

ظہر احتیاطی :

ہمارے کچھ دوست نماز جمعہ کے بعد ظہر کے چار فرض بھی پڑھتے ہیں ، جو کہ بدعت ہے ۔ انہیں یہ باور کرایا گیا ہے کہ جمعہ کی شرائط میں شک ہے ۔ جن کی بناء پر جمعہ کے ادا ہونے یا نہ ہونے کے متعلق یقین نہیں ہو سکتا ، لہٰذا اظہر بھی پڑھ لینی چاہئے ، تاکہ جمعہ نہ ہو تو ظہر ہو جائے ۔
اس عملی انحطاط کے زمانہ میں یہ بدعت بڑی ہی عجیب ہے کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک نماز فرض کریں ۔ مگر ہم دونوں کی پابندی کریں ۔ بھئی سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اگر جمعہ کے لئے شہر ، سلطان اور قاضی شرط ہیں تو جمعہ ہو گیا ۔ پھر ساتھ ہی ظہر کاکیا مطلب ہے؟ اور اور اگر ان شرائط کاسرے سے ثبوت ہی کوئی نہیں ، نہ اللہ کے احکام سے ، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے ، تو جمعہ صحیح ہے ۔ اور اگر یہ شرائط اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور کسی جگہ پوری نہیں ہو رہی ہیں ، تو پھر وہاں جمعہ پڑھنے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟
یہ خیال کرنا کہ اگر جمعہ ادا نہ ہو تو ظہر ہو جائے گی ، اس کی آپ کے پاس کیا ضمانت ہے کہ آپ نے جو ظہر ادا کی ہے وہ مقبول ہے یا نا مقبول ؟
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ نماز بھی منہ پر ماری جائے جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے ۔ یا وہ نماز پڑھنے والے کے خلاف بد دعا کرے ، کیونکہ حدیث شریف میں یہ بھی مذکور ہے کہ اگر نماز سکون ، اطمینان اور تسلی سے نماز کے تمام ارکان پوری طرح نہ بجا لائے تو نماز اس کے لئے کہتی ہے:
ضيعك الله كما ضيعتني [حديث ]
”یعنی اللہ تجھے ایسے ہی ضائع کرے جس طرح تو نے مجھے کیا ہے ۔“
الغرض اس ”ظہر احتیاطی“ کی بنیاد مخصوص ایک واہمہ پر ہے ۔ اور شریعت سے ثابت نہیں ، لہٰذا بدعت ہے اور باعث عتاب و عذاب ہے ۔

صلوۃ الرغائب 

یہ نماز ہمارے شریعت ساز صوفیاء نے پتہ نہیں کس وحی پر اعتماد کرتے ہوئے ایجاد کر رکھی ہے ۔ اور بڑے اہتمام کے ساتھ رجب کے مہینہ میں آنے والے پہلے جمعہ اور جمعرات کی درمیانی رات کو پڑھی جاتی ہے ، اور ماہ رجب سے متعلقہ سات آٹھ احادیث بنا رکھی ہیں جن کی رو سے اس نماز کے خود ساختہ فضائل و برکات کے اس طرح انبار لگائے جاتے ہیں کہ نور علم سے بے بہرہ لوگ حصول ثواب ، شوق عبادت اور شب زندہ داری کے لئے کشاں کشاں چلے آتے ہیں ۔ حالانکہ اس شب یعنی رجب کی پہلی جمعرات میں ایسی کوئی مخصوص عبادت یا نماز اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم اور اسلاف سے ثابت نہیں ۔ بلکہ یہ عہد رسالت سے پانچ سو سال بعد کی ایجاد ہے ۔
حاشیۃ الاشباہ للحموی میں اس نماز کے متعلق لکھا ہے:
قد حدثت بعد اربع مائة وثمانين من الهجرة قد صنف العلماء كتبا فى انكارها و ذمها و تسفيه فاعلها ولا يغتر بكثرة الفاعلين لها فى كثير من الأمصار [ در المختار ، جلد 1 ، ص 544 ]
”یہ 480ھ کے بعد مروج ہوئی ، علماء کرام نے اس کے انکار ، مذمت اور اس کے ادا کرنے والوں کے احمق پن پر کئی کتابیں لکھی ہیں ۔ بہت سے شہروں میں یہ نماز ادا کرنے والوں کی کثرت کو دیکھ کر دھوکہ نہ کھایا جائے ۔“ ”بدعات رجب و شعبان“ کے نام سے ہمارے آٹھ ریڈیو پروگرام جو سعودی ریڈیو مکہ مکرمہ سے 1432ھ ، 2002ء میں نشر ہوئے تھے ۔ وہ کتابی شکل میں شائع ہونے کے لئے تیار ہیں ۔ اس کتاب میں اس بدعت کا تفصیلی رو موجود ہے ۔

میلاد مروجہ :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عید میلاد ہر سال بڑے جوش و خروش سے منائی جاتی ہے ۔ محافل ذکر بپا کی جاتی ہیں ۔ سبیلیں لگائی جاتی ہیں ۔ اور جلوس نکالے جاتے ہیں ، قوالیوں کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ اس پر ایک میلہ کا گمان ہوتا ہے ۔ یہ سب کچھ جس ذات کی عقیدت و احترام کے لئے ہوتا ہے ۔ وہ بلاشبہ خیر الوری اور امام الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔
مگر کیا ایسا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کیا؟ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے کیا ؟ یا انہوں نے اس کے متعلق کوئی حکم دیا؟ جبکہ وہ صحیح معنوں میں محبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ عاشقان رسول صلى اللہ علیہ وسلم کی بجائے محبان رسول صلى اللہ علیہ وسلم کا لفظ ہم نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے ۔ کیونکہ لفظ عشق قرآن کریم اور کسی صحیح حدیث میں وارد نہیں ہوا ۔
آئمہ اربعہ نے حکم دیا؟ یا سلف صالحین نے اس پر عمل کیا ؟ کوئی ثبوت نہیں ۔ کیا وہ سب لوگ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہ رکھتے تھے؟ انہیں ثواب کی طلب نہ تھی؟ وہ سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والہ و شیدا تھے ۔ مگر اس ”عید نمبر 3“ کو مسنون و ماثور اور اس انداز محبت کو ثواب نہ سمجھتے تھے ، عہد ماضی سے لے کر آج تک تمام علماء اس کی تردید کرتے چلے آئے ہیں ۔
ایک حنفی عالم حافظ ابو بکر نے لکھا ہے:
إن عمل المولود لم ينقل عن السلف ولا خير فيما لم يعمل السلف [ فتاوي حافظ بغدادي ]
”یہ مولود کے امور سلف صالحین سے منقول نہیں اور جو عمل اسلاف سے ثابت نہ ہو اس میں کوئی بھلائی اور ثواب نہیں ہوتا ۔“
فقہ حنفی کی ہی ایک اور کتاب میں میلاد مروجہ کے بارے میں لکھا ہے :
لا ينعقد لأنه محدث وكل محدثة ضلالة وكل ضلالة في النار [تحفة القصاة ]
”عید میلاد کا انعقاد نہ کیا جائے ، کیونکہ یہ محدث و بدعت ہے ، جبکہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا انجام نار جہنم ہے ۔“
ایسے ہی ذخیرۃ السالکین میں مرقوم ہے :
(چیزے کہ نام آن مولود (مولد) می نامند بدعت است)
”جن امور کو مولود (مولد ) کانام دیا جاتا ہے ، وہ بدعت ہیں ۔“
اسی طرح رسالہ تاج الدین فاکہانی میں وہ لکھتے ہیں:
”یہ بدعت ہے جسے باطل پرستوں اور پر خوروں نے شہوت نفس کے لئے ایجاد کر رکھا ہے ۔“
اسی طرح ہی تحفہ اثنا عشریہ میں بھی اس کی تردید کی گئی اور لکھا ہے :
”کسی پیغمبر کی پیدائش کے دن عید منانا جائز نہیں ۔“
جبکہ حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ سے کسی نے استفسار کیا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوتے اور مولود کے اجتماع اور مجلس کو دیکھتے تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پسند فرماتے یا نا پسند کرتے؟ سائل کے جواب میں انہوں نے کہا:
(یقین فقیرایں است کہ ہرگزاین معنی راتجویز نمی فرمودند ، بلکہ انکارمی نمودند) (مکتوبات مجدد الف ثانی ، مکتو ب نمبر : 273)
”فقیر کو اس بات کا یقین ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان امور کو جائز قرار نہ دیتے بلکہ ان کا انکار فرماتے ۔“
ایسے ہی فقہ حنفی کی بعض دیگر کتب مثلاًً سـیــر شـــامـــی ، تحفۃ العشاق ، شرح فقہ اکبر (ملا علی قاری حنفی) اور فتاوی بزاریہ وغیرہ میں مروجہ میلا د کو بدعت اور ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔ ”صحیح تاریخ ولادت مصطفی صلى اللہ علیہ وسلم اور مروجہ میلاد یوم وفات پر“ کے موضوع پر ریڈیو مکہ مکرمہ سے نشر شدہ ہماری چار تقاریر کا مجموعہ شائع ہو چکا ہے ۔

گیارہویں شریف :

ہر عربی مہینے ، چاند کی گیارہ تاریخ کو پیر عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کے نام کی گیارہویں دی جاتی ہے ۔ اگر یہ ان کے نام کی ہو تو شرک ہے ۔ کیونکہ عبادت کی تین قسمیں ہیں ۔
(1) مالی (2) قولى (2) بدنی
اور ان تینوں پر صرف اللہ کا حق ہے ۔ اور گیارہوں والے پیر صاحب کے نام دے کر گویا ہم نے انہیں مالی عبادت میں اللہ کا شریک بنایا ۔
اور اگر اس سے مراد ایصال ثواب ہے تو گیارہویں کا طریقہ بدعت ہے ۔
کیونکہ عبادات دو طرح کی ہیں:
مؤقت : جن کا وقت مقرر ہے ، مثلاً: نماز ، روزہ ، حج وغیرہ
غیر مؤقت : جن کا کوئی وقت مقرر نہیں مثلاً تسبیح ، تکبیر ، غریب آدمی کا تعاون اور دوسرے مصارف پر فی سبیل اللہ خرچ کرنا وغیرہ ۔
اگر کسی موقت عبادت کو غیر موقت کردیں تو یہ شریعت میں ”دخل اندازی“ ہے اور وہ عبادت نا مقبول ہوگی ۔ اسی طرح غیر مؤقت کو مؤقت کر دیں تو وہ بھی ”بے جا دخل در شریعت“ ہے جو عبادت کو بدعت بنا دیتا ہے ۔
ویسے بھی یہ عام فہم سی بات ہے کہ اگر پیر صاحب کے لئے ایصال ثواب ہی مقصود ہو تو پھر کبھی پہلی تاریخ کو ، سات تاریخ کو ، پندرہ تاریخ کو ، یا انتیس تاریخ کا ایصال ثواب کیوں نہیں کرتے ؟ دوسرے تیسرے مہینے میں ایک مرتبہ یا ایک ماہ میں دو چار مرتبہ کیوں خرچ نہیں کیا جاتا ؟ صرف ماکولات و مشروبات سے ہی کیوں ثواب پہنچایا جاتا ہے ؟ نقد پیسوں اور غرباء و مستحقین میں کپڑا وغیرہ تقسیم کر کے انفاق فی سبیل اللہ کی داد کیوں نہیں لیتے؟ صرف کھانے سے ہی کیوں اور صرف گیارہویں تاریخ ہی کو کیوں؟
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دستور تھا کہ جب کچھ میسر آتا ، اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتے اور دل میں ایصال ثواب کی نیت کر لیتے ۔ یہ تاریخ کی حدود و قیودنہ تھیں جنہوں نے اچھے بھلے لاگت والے اور خرچ خواہ عمل کو بدعت بنا دیا ہے ۔
قرآن و حدیث یا صحابہ و آئمہ سے گیارہویں شریف کا ثبوت کیا ملے گا ؟
کیونکہ یہ توکل کے فقیہان بے توفیق کی اختراع اور شریعت غراء پر ”عنایت“ ہے ۔
گلہ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہل حر م سے ہے
کسی بت کدے میں بیان کروں تو کہے صنم بھی ہرے ہرے
——————

مرگ پر بدعات :

ہم دیکھتے ہیں کہ جب کسی کا کوئی عزیز فوت ہو جائے تو رسومات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔
آئیے ! ذرا جائزہ لیں کہ ان رسومات کا بھلا قرآن وسنت سے بھی کوئی تعلق و واسطہ ہے یا ”مولا ناؤں“ کے صرف ایک خاص طبقہ نے مطلب برآری کے لئے ہمیں”بدھو“ بنا رکھا ہے ۔ اور ہمارے وقت اور دولت کو بٹورنے کے مختلف ہتھکنڈوں کو دین و شریعت کا نام دے لیا ہوا ہے ۔

(1) بے محل دعاء :

نماز جنازہ کا سلام پھیرنے کے بعد وہیں کھڑے کھڑے دعاء کرنے اور تدفین سے فارغ ہو کر دعاء کرنے اور پھر واپسی پر قبر سے چالیس قدم دور آکر دعاء کرنے کا عام رواج ہے ۔ حدیث پاک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل یوں مرقوم ہے :
عن عثمان رضی اللہ عنہ قال كان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم إذا فرغ من دفن الميت وقف عليه وقال استغفروا لا خيكم واسئلوا لہ التثبيت فإنه الآن يسئل [ ابو داؤد ]
”حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تدفین سے فارغ ہوئے تو قبر کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا : اپنے بھائی کے لئے مغفرت اور ثابت قدمی کی دعاء کرو ، اسب اس سے پوچھ کچھ ہو گی ۔“
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نمازہ جنازہ کے بعد تدفین سے فارغ ہو کر دعاء کرنا تھا سلام پھیر کر دعاء کرنا اور تدفین کے بعد چالیس قدم واپس آکر دعاء کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں یہ طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف اور بدعت ہے ۔

(2) بے جا آذان :

جب میت کو دفن کر لیتے ہیں تو وہاں سے تھوڑا ہٹ کر آذان دی جاتی ہے جس کا شریعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں کہیں سراغ نہیں ملتا اگر کوئی اس کا ثبوت پوچھ لے تو جواب ملتا ہے کہ جب بچہ اس جہان رنگ و بو میں آتا ہے تو اس کے کان میں آذان کہی جاتی ہے تاکہ اس کی سماعت کا آغاز توحید و رسالت کے پاکیزہ کلمات سے ہو ۔ یاد رہے کہ اس اذان کا پتہ دینے والی احادیث بھی صحیح نہیں ہیں ۔
اسی طرح اس کے خاتمہ بالخیر کے لئے تدفین کے وقت آذان کہی جاتی ہے ۔
ان سے پوچھیں کہ یہ خاتمہ بالخیر قرآن کی کسی آیت سے ثابت ہوتا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث میں اس کا ذکر ہے؟ یا خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس پر عمل کیا ؟ کہیں سے بھی اس کا پتہ نہیں ملتا ۔
شارح بخاری علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں :
”یہ سنت نہیں یہ بدعت ہے اور ایجاد بندہ ہے ۔“
اور لکھتے ہیں :
من ظن أنه سنة قياسا على ندبها للمولود الحاقا بخاتمة الأمر بابتدآئه فلم يصب
”جس نے اس کے سنت ہونے کو بچے کے کان میں آذان دینے پر قیاس کیا کہ اس کا انجام بھی ابتداء کی طرح خیر پر ہو ، وہ غلطی پر ہے ۔“
آج کل اللہ خیر کرے یہودی نے ایک اور مکارانہ وعیارانہ چال چلی ہے بچے کے کان میں آذان کہہ کر اسلامی روح پھونکنے کی بجائے اسے اس جہاں میں قدم رکھتے ہی نغمہ و موسیقی سنائی جاتی ہے اور اسے میڈیکل کا ایک مسئلہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔ یہ چیز ماڈرن طرز کے میٹرنٹی ہومز (زچہ بچہ سنٹرز) میں روز افزوں رواج پذیر ہو رہی ہے ۔ یہودی چاہتا ہے کہ جنم لیتے ہی ”شاہین بچے“ کو ایسی چاٹ لگاؤ جو اس کی زندگی میں رچ بس جائے اس کی قوت ایمانی زائل ہو جائے اور وہ ہمارا دست و بازو بن جائے ۔

(3) فاتحہ خوانی کی مجالس :

مرحوم کے ورثاء کے ہاں کچھ روز صبح و شام فاتحہ پڑھنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے ۔ گھر والوں کو ایک تو مرنے والے کا صدمہ ہوتا ہے ۔ اور دوسرا اس ”لتاڑ“ میں آکر بہت سے اخراجات بھی اٹھانے پڑتے ہیں ۔ ان کے تمام کاروبار یکسر معطل ہو کر رہ جاتے ہیں کیونکہ ان آنے والے فاتحہ خواں حضرات کے لئے آخر کچھ تو گھر والوں کو کرنا ہی ہوگا ۔ بڑی حویلیوں اور بیٹھکوں میں صفیں وغیرہ بچھا دی جاتی ہی ۔ سگریٹ اور حقے تمباکو کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ہر نو وارد آتے ہی دعا کرو ثواب بخشو فاتحہ پڑھو یا ایسا ہی کوئی دوسرا لفظ کہے گا ۔ اور اہل مجلس منہ سے حقے کی نے ہٹا کر اسی حالت میں ثواب بخش دیں گے ، حالانکہ وہ مدت سے بیٹھے تمباکونو شی کر رہے ہیں ۔ انہیں وضوء یا کلی کی کوئی ضرورت ہی نہیں پڑتی ۔
فاتحہ خوانی اور تعزیت کی اس مجلس میں گفتگو کے لئے جو موضوع اکثر زیر بحث ہوتا ہے وہ یہی کہ دیہاتی ماحول ہے تو بیلوں ، بھینسوں ، گھوڑوں اور چوروں کے قصے افسانے اور اگر ماحول شہری ہے تو پھر تقریباً ہر حکایت کا مرکزی خیال اور لب لباب تلاش معاش ۔ یہ سلسلہ طویل مدت تک منقطع ہی نہیں ہونے پاتا ۔ فاتحہ درود کا چکر چلتا رہتا ہے ۔ جبکہ اندرون خانہ خواتین سر جوڑ کر روتی اور نوحہ و بین کرتی رہتی ہیں جو کہ ایک حدیث کی رو سے باعث لعنت فعل ہے ۔ [ ابو داؤد ]

(4) قرآن خوانی کے حلقے :

ادھر قرآن خوانی کے حلقے بندھے ہیں ۔ بہت سے لوگ جمع ہو کر تلاوت کر رہے ہیں ۔ ختم کے وقت جو شخص جتنا پڑھ چکا ، اسے وہ میاں جی کی ملک کرنا پڑتا ہے اور پھر میان جمی میت کی طرف ارسال فرماتے ہیں ۔ اور شائد بس چلے تو نامہ اعمال میں لکھ آنے سے بھی نہ چوکیں ۔ باہر قبر پر خیمہ نصب ہے ۔ ایک حافظ قرآن تلاوت پر مقرر ہے ۔ وہ بے چارہ پیٹ کی خاطر دن رات قبر پر لگے خیمے میں ہی رہے گا اور تلاوت کر کے صاحب قبر کو چالیس دن تک ایصال ثواب کرتا رہے گا ۔ الغرض جس کے پاس جتنا مال کا زور ہوگا اس کے مرحوم کو اتنا ہی ایصال ثواب زیادہ ہوگا ۔

(5) اجتماعات قل ، دسواں اور چہلم وغیرہ :

اسی دوران قل نتیجہ ساتہ ، دسواں اور چالیسواں بڑے بڑے اجتماعات کی شکل میں ہوتے ہیں ۔ اگر کوئی عمر رسیدہ بزرگ فوت ہوا ہو تو چہلم پر اس کی ”روٹی“ کی جاتی ہے جو شادی بیاہ سے کسی طرح کم نہیں ہوتی ۔ ان سب رسوم کو وفاداری بشرط استواری نبھانے والے سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑا تیر مارا ہے ۔ جو لوگ راہ حق اور شریعت پر عمل کرتے ہوئے فاتحہ و درود کی صف ماتم طویل نہیں کرتے ۔ ان کے متعلق گلفشانی کرتے ہیں ۔ ”مر گیا مردود نہ فاتحہ نہ درود“ اور قل ساتہ دسواں و چہلم نہ کرنے پر اشارہ ہوتا ہے ”نہ قل نہ ساتہ مردہ گیا گواتا“ اس طرح ان کے مرحوم کے لئے گالیاں اور خرافات کی جاتی ہیں ۔ جبکہ ان کاجرم پاس حق واتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کچھ نہیں ہے بقول شاعر
مکش بہ ستم و الہان سنت را
نکردہ اند بجز پاس حق گناہ دگر
مسلمان کے پاس قرآن و سنت ایک میزان و معیار اور کسوٹی ہیں جن پر وہ پرکھ سکتا ہے کہ کونسی چیز صحیح و جائز اور کوئی غیر صحیح و ناجائز ہے ۔
جب ہم ان رسومات کو (3،4،5) کو پرکھتے ہیں تو یہ قران و سنت کے معیار پر پوری نہیں اترتیں ۔ کیونکہ شریعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں صرف تین دن تک سوگ منانے کی اجازت ہے اور وہ عورت جس کا خاوند فوت ہو جائے اسے پورے ایام عدت (چار ماہ دس دن) تک زیب و زینت سے منع کیا گیا ہے ۔ مذکورۃ الصدر رسومات کتاب وسنت کے منافی ، شریعت سازی کانتیجہ ، نری بدعت اور مکروہ و ناجائز ہیں ۔

غلط فہمی :

بعض لوگ ان بدعات کو ثابت کرنے کے لئے بڑی شدو مد سے ایک روایت کا حوالہ دیتے ہیں اور اس کا حسب منشاء صرف ایک جزء بیان کرتے ہیں جو یہ ہے ۔
ما راه المسلمون حسنا فهو عند الله حسن
”جسے مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک اچھا ہی ہوتا ہے ۔“
اس روایت سے مولود شریف ، ختم شریف اور چہلم وغیرہ کو جائز قرار دیتے ہیں ۔

اولاً : یہ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نہیں بلکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے اور امام سخاوی نے مکمل روایت اس طرح نقل کی ہے :
عن ابن مسعود قال إن الله نظر فى قلوب العباد فاختار محمدا فبعثه برسالته ثم نظر فى قلوب العباد فاختار له أصحابا فجعلهم أنصار دينه ووزرآء نبيه فما راه المسلمون حسنا فهو عند الله حسن وما راه المسلمون قبيحا فهو قبيح [المقاصد الحسنه ]
”حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی رسالت کے لیے منتخب فرمایا ۔ پھر لوگوں کے دلوں پر نظر پھیری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے صحابہ منتخب کر کے انہیں دین کے معاون و انصار اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وزیر بنادئیے ، پس جس کام کو مسلمان اچھا تصور کریں وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جس کو برا سمجھیں وہ برا ہوتا ہے ۔“
اس اثر پر پہلی نظر ڈالتے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ روایت حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف اور انکا اپنا قول ہے اور کتاب السنۃ للامام البزار الطیاسی معجم الطبرانی ، الحلیہ ابو نعیم اور بیقھی وغیرہ تمام کتابوں ، میں موجود ہے ۔

ثانیا : اس روایت میں مذکور مسلمانوں سے مراد ہمارے حلوہ خور ملا نہیں بلکہ سیاق روایت بتا رہا ہے کہ ان کے سے قدسی نفوس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مراد ہیں ۔ جن کے متعلق خود حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
كانوا فضل هذه الامة وابرها قلوبا واعمقها علما وأقلها تكلفا إختارهم الله لصحبة نبيه ولاقامة دينه
”وہ اس امت کے افضل ترین ، دل کے نیک ترین علم میں عمیق ترین اور سب سے تھوڑی کرید اور تکلف کرنے والے تھے ۔ اللہ نے انہیں صحبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اقامت دین کے لئے منتخب فرمایا ۔“

ثالثاً : جس روایت سے مغالطہ دیا جاتا ہے اس میں المسلمون کا ”الف ، لام“ استغراق کے لئے ہے ۔ اور استغراق کا اطلاق اجماع امت پر ہوتا ۔ نہ کہ صرف حلوہ خوروں کے ایک طبقہ کے لوگوں پر ۔ اور اگر اس ”ال“ کو جنس کے لئے مان لیا جائے تو بھی اس قول سے بدعات کو ثابت کرنا درست نہ ہوا کیونکہ کچھ لوگ اچھا سمجھتے ہیں تو بہت سے اسے غلط مانتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت جریر بن عبد اللہ الجبلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
كنا نعد الإجتماع إلى أهل الميت وصنعة الطعام بعد دفنه من النياحة [ابن ماجه ، مسند احمد ]
”تدفین کے بعد ورثاء کے ہاں اجتماع کرنے اور کھانا تیار کرنے کو ہم نوحہ و بین شمار کرتے تھے ۔“
جبکہ نوحہ کرنے والوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے ۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے :
لعن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم النائحة والمستمعة
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ کرنے اور سننے والی دونوں عورتوں پر لعنت کی ہے ۔“

علمائے احناف کے اقوال :

اول الذکر حدیث جو کہ مسند احمد اور سنن ابن ماجہ میں ہے اس کے حاشیہ پر ۔
علامہ سندھی حنفی لکھتے ہیں:
”یہ حدیث بمنزلہ اجماع صحابہ رضی اللہ عنہ ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریری حدیث ہے اور ہر دو طرح سے دلیل و حجت ہے ۔“
آگے جا کر لکھتے ہیں:
”اہل میت کے ہاں اس طرح کھانا تیار کرنا خلاف سنت ہے ۔“
علامہ ابن ہمام جو حنفیہ کے سرتاج مانے جاتے ہیں ۔ وہ ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں حدیث کے یہ الفاظ نقل کرتے ہیں جن میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
قد جاءهم امر ليشغلهم
”انہیں ایک مصیبت (موت) نے مشغول کر دیا ہے ۔“
حدیث کے ان الفاظ کے حاشیہ پر وہ لکھتے ہیں:
يكره اتخاذ الضيافة من أهل الميت لأنه شرع فى السرور لا فى الشرور وهى بدعة مستقبحة [ حاشيه فتح القدير ]
”اہل میت سے ضیافت لینا مکروہ ہے ، کیونکہ یہ ایام سرور میں مشروع ہے نہ کہ ایام شرور و مصائب میں یہ بدترین بدعت ہے ۔“
کتب فقہ حنفیہ سے :
اب یہاں بعض دیگر کتب حنفیہ سے بھی علماء کی آراء ملاحظہ فرمائیں چنانچہ تلخیص السنن میں ہے:
(1) الإجتماع فى يوم الثالث خصوصا ليس فيه فريضة ولا فيه وجوب ولا فيه استحباب ولا فيه منفعة ولا فيه مصلحة فى الدين بل فيه طعن وملمة وملامة على السلف حيث لم ينتهبوا له بل على النبى صلی اللہ علیہ وسلم حيث ترك حقوق الميت بل على الله سبحانه وتعالى حيث لم يكمل الشريعة وقد قال فى تحميل الشريعة المحمدية ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ﴾ الخ [ تلخيص السنن ]
”تیسرے دن خاص طور پر اجتماع (قل) فرض ہے نہ واجب سنت ہے نہ منتخب ۔ اس میں کوئی منفعت ہے نہ دینی مصلحت ، بلکہ یہ طعن مذمت اور ملامت ہے ، سلف صالحین پر کہ وہ اس کام سے نا واقف رہے ، بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق میت ترک کر دئیے اور خود اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر بھی کہ اس نے شریعت کو مکمل نہ کیا جبکہ یہ آیت : ﴿اليوم﴾ میں شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکمیل کا اعلان کر چکا ہے ۔“
گویا تعزیت کے نام پر یہ اجتماعات اللہ تعالیٰ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلاف امت پر الزام عائد کرنے کے مترادف ہیں ۔

(2) فتاوی بزاریہ میں یوم اول نتیجے اور ساتے کو مکروہ قرار دینے کے بعد میت کے لئے قرآن خوانی اور ختم شریف کے متعلق لکھا ہے:
يكره اتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والفقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الأخلاص
”قرآن خوانی کی دعوت کرنا ، ختم شریف کے لئے سورۃ انعام پڑھنے کے لئے اور سورۃ اخلاص کی تلاوت کی خاطر صلحا وفقراء کو جمع کرنا مکر وہ ہے ۔“

(3) برصغیر کو سب سے پہلے قرآن و سنت کے علوم سے روشناس کرانے والے خاندان ولی اللہ کے سربراہ و سرخیل حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
(از بدعت شنعیہ ما مردم اسراف در ما تمہا چہلم و ششماہی وفاتحہ و سالینہ وایں ہمہ رادر عرب اول وجود نہ بود) [ وصيت نامه]
”چہلم و ششمارہی و فاتحہ اور سالانہ عرس وغیرہ رسومات ماتم میں فضول خرچیاں ہمارے لوگوں کی بدترین بدعات میں سے ہیں ، قرون اولی میں ان امور کا وجود تک نہ تھا ۔“

(4) شرح الممنہاج میں بھی قل دسویں اور چہلم وغیرہ کو ممنوع اور بدعت قرار دیا گیا ہے اور صاحب تفسیر حقانی الشیخ عبد الحق دہلوی کے استاد علی المتقی قرآن خوانی کے متعلق لکھتے ہیں:
الإجتماع للقرأة بالقرآن على الميت بالتخصيص على المقبرة أو المسجد أو البيت بدعة منمومة لأنه لم ينقل من الصحابة شيئا [رد البدعات ]
”بالخصوص میت پر قرآن خوانی کے لئے قبر مسجد یا گھر پر اجتماع کرنا مذموم بدعت ہے کیونکہ اس کے بارے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کچھ منقول نہیں ۔“

(5) علامہ مجد الدین فروز آبادی صاحب القاموس المحیط میں لکھتے ہیں :
عادت نبود کہ برائے میت جمع شوند ، قرآن خوانند و ختمات کنند نہ برگورو نہ غیر آں مکان ، و ایں بدعت است و مکر وہ) [سفر السعادت]
”اسلاف میں میت کے لئے قبر پر یا کسی بھی دوسری جگہ جمع ہو کر قرآن پڑھنے اور ختم کہنے کا کوئی رواج نہ تھا ۔ یہ بدعت اور مکروہ ہے ۔“
ایسے ہی ”اہل سنت والجماعت“ کی دیگر کتابوں مثلاًً صغیری ، کبیری ، عینی ، شرح ھدایہ ، مصطفى ، خلاصہ رد المختار رد البدعات علامہ آفندی اور جامع الروایات وغیرہ میں بھی ان رسومات کو بدعت و مکروہ قرار دیا گیا ہے ۔
——————

مقابر پر بدعت :

جس طرح مرگ پر بہت کی بدعات ہمارا معمول ہیں ، اسی طرح مقابر پر بھی انواع و اقسام کا شرک اور لا تعداد بدعات زیر عمل ہیں ۔ مثلاًً قبروں پر کتبے لگانا ، تاریخیں لکھنا ، قبروں کو چونے ، گارے ، اینٹ ، مٹی اور سیمنٹ سے پختہ کرنا ، قبروں پر مسجدیں ، قبے اور گنبد تعمیر کرنا ، غلاف چڑھانا ، چراغاں کرنا ، منتیں ماننا ، چڑھاوے پکانا ، دور دراز سے قصد کر کے مزاروں پر حاضری دینا صاحب قبر کو وسیلہ بنانا ، قبروں پر اعتکاف کرنا ، ان کا طواف کرنا سجدے کرنا ، میلے اور ان سے مشکل کشائی کی اپیلیں کرنا وغیرہ ۔
تو آئیے ان امور کا بھی قرآن و سنت ، اسلاف امت اور علماء کی تعلیمات سے موازنہ کریں اور دیکھیں کہ ان کی کوئی شرعی حیثیت بھی ہے یا یہ صرف سلطانی و پیری و ملانی کے شاخسانے ہیں ۔ کیونکہ بقول حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ :
لقد أفسد الدين ملوك واحبار سوء ورهبان
”اصل دین کو بے علم بادشاہوں کی پشت پناہی پیروں کی ہوس گدی نشینی اور ملاؤں کی حرص و ہویٰ نے بگاڑ کر رکھ دیا ہے ۔“
”قبروں پر میلے لگانے اور عرس کرنے کے متعلق تو گزشتہ صفحات کی وضاحت پر ہی اکتفاء کرتے ہیں کہ ”عاقل را اشارہ کافی است“ اور دور دراز سے مزراروں پر آکر صاحب مزار کو بظاہر ”وسیلہ“ ٹھہراتے ہوئے ان سے مشکل کشائی اور رفع حاجات کی درخواست کرنا اور دوسری اقسام شرک کے بارے میں شیخ محمد بن سلیمان التمیمی نے ”کشف الشبھات“ کے متن میں مدلل بیان کر دیا ہے ۔
قبروں پر مجاور بن کر بیٹھنے ، اعتکاف کرنے ان کا طواف کرنے ان پر سجدے کرنے اور وہاں نمازیں پڑھنے کے متعلق حضرت ابو مرثد غنوی کی روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تجلسوا على القبور ولا تصلوا إليها
”قبروں پر نہ بیٹھو اور نہ ہی ان کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرو ۔“
قبروں پر مسجد میں بنانے اور ان پر چراغاں کرنے کے متعلق بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ یہ ہے:
لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم زائرات القبور والمتخذين عليها المساجد والسرج [ ابو داؤد ، ترمذي ، نسائي ]
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں اور قبروں پر مسجدیں بنانے اور چراغاں کرنے والوں پر لعنت کی ہے ۔“
قبروں پر کپڑے اور پھولوں کی چادریں اور غلاف چڑھانے کے بارے میں ارشاد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔
إن الله لم يأمرنا أن نكسوا الحجارة والطين [صحيح مسلم ]
”اللہ نے ہمیں پتھر اور مٹی کو لباس پہنانے کا حکم نہیں دیا ۔“
معروف حنفی عالم قاضی ثناء اللہ پانی پتی طواف قبور ، سالانا عرس اور دیگر بدعات کے متعلق لکھتے ہیں :
لا يجوز ما يفعل الجهال بقبور الاولياء والشهداء من السجود والطواف حولها واتخاذ السرج والمساجد عليها ومن الإجتماع بعد الحول كالاعياد ويسمونه عرسا [تفيسر مظهري ]
”اولیا اور شہداء کی قبروں پر جاہل لوگ جو سجدے طواف اور چراغاں کرتے ہیں ، ان پر مسجدیں بناتے ، سالانہ میلے لگواتے اور ان کو عرس کا نام دیتے ہیں یہ سب امور جائز نہیں ہیں ۔“
——————

قبروں کو پختہ کرنا اور مجاور بن کر بیٹھنا :

یہ بدعت اور نمود و نمائش ہے ۔ اور دنیا داری و وصغداری بھی ۔ مالی فرق مراتب کے لحاظ سے کچھ لوگ تو صرف قبریں پختہ کر دینے کی سکت رکھتے ہیں ، وہ اسی پر اکتفاء کر لیتے ہیں اور جن کو اللہ نے دولت کا خزانہ عطا کر رکھا ہے ان کا علماء سوء اور پیری فقیری کی لائین سے مس ہونے کا نتیجہ اس شکل میں نکلتا ہے کہ جب ان کا کوئی عزیز دار فناء سے دار بقا کی طرف منتقل ہو جائے تو ان کو دولت کے اظہار کا بے جا مصرف مل جاتا ہے ۔ وہ خطیر رقمیں لگا کر قبر پر دیدہ زیب عمارت تعمیر کرتے ہیں پھر اسے رنگا رنگ سنگ مرمر بوقلموں موزائیگ قیمتی ٹائل ، پینٹس اور فانوس وقندیل سے ڈیکوریٹ کیا جاتا ہے ۔ گویا کھاتے پیتے گھرانوں کے مردے بھی پر شکوہ اور دلکش جگہوں پر رہتے ہیں جیسی کروڑ ہا زندوں کو بھی نصیب نہیں ہوتیں ۔
کاش یہ لوگ ساتھ ہی بسنے والے غرباء فقراء اور مساکین کی طرف نظر کریں کہ وہ کیسی تنگدستی سے زندگی بسر کر رہے ہیں ، گرمی و سردی کے موسم میں کھلے آسمان کے نیچے جھلس اور ٹھٹھررے ہیں یا بوسیدہ جھونپڑیوں میں سر چھپائے ہوئے ہیں ، اگر بن پڑے دولت اتنی ہی بے قابو ہو جائے تو ان کے مسائل پر غور و فکر کریں ۔ جو فرض و ثواب مذہب و سماج اور معاشرت و اخلاق سب کچھ ہے ، چہ جائیکہ ان لوگوں پر خرچ کریں جن کا اس جہان فانی سے رشتہ منقطع ہو چکا ہے اور وہ ان لمبے چوڑے اخراجات سے بننے والے مزاروں اور گنبدوں سے مستغنی ہو گئے ہیں ۔ پھر اس کی کوئی تھوڑی بہت ہی اسلامی اور شرعی گنجائش ہو تو بھی سوچا جاسکتا ہے کہ چلو امتثال امر پر ثواب ہوگا ۔ اور دنیا میں ”ناک“ بھی سلامت رہے گی ۔ مگر ایسا بھی نہیں کیونکہ شرعاً یہ فعل مکر وہ ہے ممنوع ہے بلکہ حرام ہے ۔

بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ :

خیر خواہ امت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے جسے حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
نهى رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أن يجصص القبر وان يكتب عليه وأن يبنى عليه [صحيح مسلم ، كتاب الجنائز : 98،97 – ابو داؤد ، كتاب الجنائز : ٧٣ ترمذي ، كتاب الجنائز : 57 – نسائي القبلة : ١١- مسند احمد 135/4 ]
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو چونا گچ کرنے ، ان پر کتبے لگانے اور عمارت بنانے سے منع فرمایا ہے ۔“
ایک دوسری حدیث میں ہے :
نهى رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أن يجصص القبر وأن يكتب عليه وان يبنى عليه وأن يقعد عليه [صحيح مسلم ، كتاب الجنائز : 94 – مسند احمد 299/6 ]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو چونا گچ کرنے ، ان پر عمارت تعمیر کرنے اور ان کا مجاور بن کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے ۔“

خلیفہ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عمل :

ہادی اعظم رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے برادر عمزاد اور داماد ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ان قبوں اور عمارتوں کے متعلق اپنا عمل حدیث پاک میں موجود ہے ان کا یہ عمل ایک ہستی سے ماخوذ ہے جو ہمارے لئے اسوہ حسنہ قد وہ اعلیٰ اور بہترین نمونہ ہیں ۔ اس حدیث میں ہے :
عن أبى هياج الأسدي قال قال على الا أبعثك على ما بعثني رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم الا تدع تمثالا إلا طمسته ولا قبرا مشرفا إلا سويته [صحيح مسلم بحواله مشكوة 145 ]
”ابو ھیاج اسیدی کہتے ہیں کہ مجھے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا میں تجھے ایسی مہم پر نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا کہ آپ کوئی تصویر (مورتی) دیکھیں تو اسے مٹادیں اور کوئی بلند و بالا قبر نظر آئے اسے گرا کر برابر کر دیں ۔“
ایک اور حدیث میں قبر تصویر اور بت تینوں کے ذکر کے بعد فرمایا :
فمن عاد فصنع شياء من ذالك فقد كفر بما أنزل على محمد
جس نے دوبارہ ان کاموں میں سے کوئی بھی کیا اس نے شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کفر کیا ۔“

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی وصیت :
حضرت ابو ہریرہ وہ صحابی ہیں جنہیں یہ شرف حاصل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلنے والی سب سے زیادہ احادیث انہوں نے روایت کی ہیں ۔ اپنی وفات سے پہلے انہوں نے یہ وصیت فرمائی تھی:
لا تضربوا على فسطاطا [بحواله عيني شرح بخاري ]
”میری قبر پر خیمہ نصب نہ کرنا ۔“
قبہ گنبد یا عمارت بڑی بات ہے ۔ وہ خیمہ تک سے روک گئے تھے کیونکہ وہ شریعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی واقف تھے اور ان امور کے متعلق تعلیمات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بخوبی جاننے والے تھے ۔

آئمہ اربعہ کا فتوی :

آج دنیا بھر کے مسلمانوں میں عموماًً مسلک مروج و معمول یہ ہیں ، ان میں سے بھی مذکورہ بدعات کا زور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقلدین میں ہے ۔ جبکہ خود امام صاحب فرماتے ہیں:
عن أبى حنيفة أنه قال لا یجصص القبر ولا يعطين ولا يرفع عليه بناء [بحواله فتاوي قاضي خان ]
”امام ابو حنیفہ سے منقول ہے کہ قبر کو چونا گچ نہ کیا جائے ، نہ اسے لیپا جائے اور نہ ہی اس پر عمارت بنائی جائے ۔“
دوسری جگہ ان سے منقول ہے :
يكره أن يبنى عليه بناء من بيت أو قبة أو نحو ذالك
”قبر پر عمارت گنبد یا دوسری چیز کوئی بنانا مکر وہ ہے ۔“
امام صاحب کے شاگر در شید امام محمد نے اپنے استاد گرامی کا ارشاد یوں نقل کیا ہے :
”قبروں سے نکلی ہوئی مٹی کے ساتھ مزید ملا کر ڈالنا ٹھیک نہیں اور قبر کو گچ کرنا ، لیپنا ، اس کے پاس کوئی مسجد یا کوئی دوسرا نشان (کتبہ وغیرہ) بنانا ، اس پر لکھنا یا قبر کو پختہ کرنا یہ سب مکروہ ہے ۔“
[كتاب الآثار امام محمد ، ص 49 ]
اسی طرح شرح الیاس جامع الرموز اور مستخلص میں بھی امام صاحب سے قبر پر تھے ، کمرے یا دیگر کسی بھی شکل کی عمارت مکروہ ہونا ثابت ہے ۔ فتاوی قاضی خان میں لکھا ہے :
”امام ابو حنیفہ سے مروی ہے کہ قبر کو لیپا پوجا اور چونا نہ کیا جائے اور نہ ہی اس پر کوئی عمارت بنائی جائے ۔“
امام نووی صحیح مسلم کی شرح میں امام شافعی سے نقل کرتے ہیں :
قال الشافعي فى الأم رأيت الأئمة بمكة يأمرون بهدم ما يبنى على القبر ويويد الهدم قوله صلی اللہ علیہ وسلم ولا قبرا مشرفا إلا سويته [ شرح مسلم للنووي ، ج 2 ص 345 ]
”امام شافعی نے اپنی کتاب ”الام“ میں کہا ہے کہ میں نے مکہ مکرمہ میں کئی آئمہ کو دیکھا ہے جو قبر پر بنی ہوئی عمارت کو گرانے کا حکم دیتے تھے اور گرانے کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یہ جملہ بھی کرتا ہے (آپ جو بلند بالا قبر دیکھیں اسے گرا کر برابر کر دیں) ۔“
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا نظریہ بیان کرتے ہوئے دوسرے آئمہ کے فر مودات کو صاحب شرح منیہ نے یوں لکھا ہے:
يكره تجصيص القبر و تطييبه وبه قال الائمة الثلاثة لما قال جابر نهى رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أن يجصص القبر [كبيری شرح منيه ص 553 ]
”قبر کو چونا گچ کرنا اور لیپنا مکروہ ہے اور دوسرے تینوں اماموں (امام مالک شافعی اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ ) نے بھی اس حدیث جابر رضی اللہ عنہ کی رو سے یہی کہا ہے جس میں ہے : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو چونا گچ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ “

پیر عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کا ارشاد :

معروف پیر عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ جن کے نام کی گیارہویں یہی دوست بڑے جوش و جذبہ عقیدت و احترام اور استواری واہتمام سے دیتے ہیں وہ اپنی شہرہ آفاق کتاب ”غنیۃ الطالبین“ میں فرماتے ہیں :
ويرفع القبر من الأرض قدر شبر و يسن تسنیهم القبر دون تسطيحه وإن جصص كره [غنية الطالبين ]
”قبر کو زمین سے صرف ایک بالشت بلند کیا جائے اور اوپر سے کو ہان کی مانند گول ہو نہ کہ چیٹی و سطح ۔ اور اگر اسے چونا گچ کیا گیا ہو تو یہ مکروہ ہے ۔“

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا نظریہ :

شاہ صاحب کتاب الابرار سے حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
”مصنف کتاب الابرار در فصل بیان عدم جواز نماز قبور و نفی استمد ادو استعانت از اہل قبور و منع چراغان و روشنی شموع برائے قبور آور دہمی نو یسند۔“
کتاب الابرار کے مصنف قبروں کے پاس نماز پڑھنے قبر والوں سے امداد مانگنے کے جائز نہ ہونے قبروں پر چراغاں کرنے اور شمعیں جلانے کی ممانعت کے بیان والی فصل میں لکھتے ہیں :
والواجب هدم ذالك كله ومحو اثره كما أن عمر بلغه أن الناس يتناوبون الشجرة التى بويع تحتها بالنبي عليه الصلوة والسلام ارسل إليها فقطعها وفى رواية : فاستأصلها [بلاغ المبين ، ص 8 – 9 ]
”ان تمام غیر شرعی تجاویزات کو مٹانا اور ان کا نام و نشان تک ختم کر دینا واجب ہے : جس طرح عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو جب ملی خبر ملی کہ لوگ اس درخت کی طرف بڑی عقیدت سے جار ہے ہیں جس کے نیچے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی گئی تھی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آدمی بھیجا جس نے اسے کاٹ دیا ۔“
اور ایک روایت میں ہے کہ :
”اسے جڑ سے اکھاڑ دیا ۔“
اس واقعہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی باریک بینی اور دور اندیشی کی شعاعیں پھوٹ پھوٹ کر دل مومن کو منور کرتیں ہیں ۔ وہ اس نتیجہ پر کتنی جلدی پہنچ گئے تھے کہ اگر یہ درخت قائم رہا تو یہ شرک کا گڑھ اور مرجع خلائق بن جائے گا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے بارے میں یوں ہی تو نہیں فرمایا تھا :
لو كان بعدى نبيا لكان عمر [بخاري ، كتاب الادب : 109 – ترمذى كتابا المناقب : 17 – مسند احمد ، 353،153/4 ]
”اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہوتے ۔“

اس تحریر کو اب تک 82 بار پڑھا جا چکا ہے۔