کیا قرآن کی تعلیم پر اجرت لی جا سکتی ہے؟

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

قرآن کی تعلیم پر معاوضہ لینا
سوال : کیا قرآن مجید کی تعلیم، خطبہ جمعہ اور امامت وغیرہ پر اجرت لینا جائز ہے ؟
جواب : قرآن مجید کی تعلیم، خطبہ جمعہ، امامت وغیرہ پر اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس کی ممانعت کے بارے میں قرآن و سنت کے اندر کوئی صریح نص موجود نہیں ہے جب کہ اس کے جواز کے دلائل موجود ہیں۔
ان میں سے ایک دلیل عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔ فرماتے ہیں :
”صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کا ایک بستی سے گزر ہوا، بستی والوں نے طلب کرنے پر بھی ان کی مہمان نوازی نہ کی۔ اچانک ان کے سردار کو کسی زہریلی چیز نے کاٹ لیا۔ ان کے افراد صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اور پوچھا: ”تم میں کوئی دم کرنے والاہے ؟“ صحابہ میں سے ایک نے اجرت لے کر دم کرنے کی ہامی بھر لی۔ تو انہوں نے بکریوں کے ایک ریوڑ کا وعدہ کر لیا۔ صحابی رسول نے سورہ فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کیا اور متاثرہ جگہ اپنا لعاب لگایا تو وہ آدمی بالکل تندرست ہو گیا۔ وہ صحابی بکریوں لے کو واپس آئے تو دوسرے ساتھیوں نے کہا: ”تو نے کتاب اللہ پر اجرت لی ہے۔“ گویا انہوں نے اس چیز کو ناپسند کیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: ”اے اللہ کے رسول ! اس نے اللہ کی کتاب پر اجرت لی ہے۔“
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
« قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ‏‏‏‏ إن أحق ما أخذتم عليه أجرا كتاب الله » [بخاري، كتاب الطب : باب الشرط فى الرقية 5737]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جن چیزوں پر تم اجرت لے سکتے ہو ان میں سے زیادہ اس کی مستحق اللہ کی کتاب ہی ہے۔
صحیح بخاری کی اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ قرآن پر اجرت لی جا سکتی ہے۔ اس میں قرآن کی تعلیم، امامت اور خطبہ جمعہ بھی داخل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ عام ہیں اور ان میں وہ شامل ہیں۔ اگر اجرت درست نہ ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ کہتے کہ میراحصہ بھی نکالو جیسا کہ صحیح بخاری ہی کی ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ موجود ہیں۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمیشہ حلال اور پاکیزہ چیز ہی استعمال کرتے تھے۔
دوسری دلیل نکاح میں خاوند پر بیوی کے لیے حق مہر دینا ضروری ہے جب کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا نکاح قرآن مجید کو حق مہر ٹھرا کر، کر دیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اذْہَبْ فَقَدْ أَنْکَحْتُکَہَا بِمَا مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ [بخاری، کتاب النکا ح : بَابُ التَّزْوِیجِ عَلَى الْقُرْآنِ 5149]
”جا، میں نے اس قرآن کے بدلے جو تیرے پاس ہے تیرا اس کے ساتھ نکاح کر دیا۔“
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قرآن مجید کی تعلیم کی اجرت دلوائی ہے۔ اگر اجرت درست نہ ہوتی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کبھی قرآن کی تعلیم کو حق مہر مقرر نہ کرتے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اس حدیث کے تحت لکھا ہے :
”اس سے قرآن کی تعلیم پر اجرت لینا جائز ہوا۔“
لہٰذا ثابت ہوا کہ قرآن کی تعلیم پر اجرت لی جا سکتی ہے۔ (واللہ اعلم)

اس تحریر کو اب تک 13 بار پڑھا جا چکا ہے۔